View Single Post
  #2  
Old Thursday, August 18, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Taimoor Gondal Taimoor Gondal is offline
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default بابا کی تعريف

بابا وه شخص ہوتا ہے جو دوسرے انسان کو آسانی عطا کرے۔ يہ اس کی تعريف ہے۔ آپ کے ذہن ميں يہ آتا ہو گا کہ بابا ايک بهاری فقير ہے۔ اس نے سبز رنگ کا کرتا پہنا ہوا ہے۔ گلے ميں منکوں کی مالا ہے۔ ہاته ميں اس کے لوگوں کو سزا دينے کا تازيانہ پکڑا ہوا ہے، اور آنکهوں ميں سرخ رنگ کا سرمہ ڈالا ہے۔ بس اتنی سی بات تهی۔ ايک تهری پيس سوٹ پہنے ہوئے اعلٰی درجے کی سرخ رنگ کی ڻائی لگائی ہے۔ بيچ ميں سونے کا پن لگائے ہوئے ايک بہت اعلٰی درجے کا بابا ہوتا ہے۔ اس ميں جنس کی بهی قيد نہيں ہے۔ مرد عورت، بچہ، بوڑها، ادهيڑ نوجوان يہ سب لوگ کبهی نہ کبهی اپنے وقت ميں بابے ہوتے ہيں، اور ہو گزرتے ہيں۔ لمحاتی طور پر ايک دفعہ کچه آسانی عطا کرنے کا کام کيا۔ اور کچه مستقلاً اختيار کر ليتے ہيں اس شيوے کو۔ اور ہم ان
کا بڑا احترام کرتے ہيں۔ ميری زندگی ميں بابے آئے ہيں اور ميں حيران ہوتا تها کہ يہ لوگوں کو آسانی عطا کرنے کا فن کس خوبی سے کس سليقے سے جانتے ہيں۔

ميری يہ حسرت ہی رہی۔ ميں اس عمر کو پہنچ گيا۔ ميں اپنی طرف سے کسی کو نہ آسانی عطا کر سکا، نہ دے سکا اور مجهے ڈر لگتا ہے کہ نہ ہی آئنده کبهی اس کی توقع ہے۔

جب ہم تهرڈايئر ميں تهے تو کرپال سنگه ہمارا ساتهی تها۔ ہم اس کو کرپالاسنگه کہتے تهے۔ بيچاره ايسا ہی آدمی تها جيسے ايک پنجابی فوک گانے والا ہوتا ہے۔ لال رنگ کا لباس پہن کے بہت ڻيڑها ہو کے گايا کرتا ہے۔ ايک روز ہم لاہور کے بازار انارکلی ميں جا رہے تهے تو سڻيشنری کی دکانوں کے آگے ايک فقير تها۔ اس نے کہا بابا لله کے نام پر کچه دے تو ميں نے کوئی توجہ نہيں دی۔ پهر اس نے کرپال سنگه کو مخاطب کر کے کہا کہ اے بابا سائيں کچه دے۔ تو کہنے لگا کہ بهاجی اس وقت کچه ہے نہيں، اور اس کے پاس
واقعی نہيں تها۔ تو فقير نے بجائے اس سے کچه لينے کے بهاگ کر اس کو اپنے بازوؤں ميں لے ليا اور گهٹ کے چبهی
(معانقہ) ڈال لی۔ کہنے لگا، ساری دنيا کے خزانے مجه کو ديئے، سب کچه تو نے لڻا ديا۔ تيرے پاس سب کچه ہے۔ تو نے مجهے بهاجی کہہ ديا۔ ميں ترسا ہوا تها اس لفظ سے۔ مجهے آج کسی نے بها جی نہيں کہا۔ اب اس کے بعد کسی چيز کی ضرورت باقی نہيں رہی۔

ان دنوں ہم سارے ہوسڻل کے لڑکے چوری چهپے سينما ديکهنے جاتے تهے۔ تو لاہور بهاڻی کے باہر ايک تهيڻر تها اس ميں فلميں لگتی تهيں۔ ميں ارواند، غلام مصطفٰی، کرپال يہ سب۔ ہم گئے سينما ديکهنے، رات کو لوڻے تو انار کلی ميں بڑی يخ بستہ سردی تهی، يعنی وه کرسمس کے قريب کے ايام تهے سردی بہت تهی۔ سردی کے اس عالم ميں کہرا بهی چهايا ہوا تها۔ ايک دکان کے تختے پر پهڻا جو ہوتا ہے، ايک دردناک آواز آ رہی تهی ايک بڑهيا کی۔ وه رو رہی تهی اور کراه رہی تهی، اور بار بار يہ کہے جا رہی تهی کہ ارے ميری بہوجهے بهگوان سميڻے تو مر جائے نی، مجهے ڈال گئی، وه بہو اور بيڻا اس کو گهر سے نکال کے ايک دکان کے پهڻے پر چهوڑ گئے تهے۔ وه دکان تهی جگت سنگه کواترا کی جو بعد ميں بہت معروف ہوئے۔ ان کی ايک عزيزه تهی امرتا پرتيم، جو بہت اچهی شاعره بنی۔ وه خير اس کو اس دکان پر پهينک گئے تهے۔ وہاں پر وه ل ڻ یی چيخ و پکار کر رہی تهی۔ ہم سب نے کهڑے ہو کر تقرير شروع کی کہ ديکهو کتنا ظالم سماج ہے، کتنے ظالم لوگ ہيں۔ اس غريب بڑهيا بيچاری کو يہاں سردی ميں ڈال گئے۔ اس کا آخری وقت ہے۔ وہاں اروند نے بڑی تقرير کی کہ جب تک انگريز ہمارے اوپر حکمران رہے گا، اور ملک کو سوراج نہيں ملے گا ايسے غريبوں کی ايسی حالت رہے گی۔ پهر وه کہتے حکومت کو کچه کرنا چاہيے۔ پهر کہتے ہيں۔ اناته آشرم
(کفالت خانے، مقيم خانے) جو ہيں وه کچه نہيں کرتے۔ ہم يہاں کيا کريں۔ تو وه کرپال سنگه وہاں سے غائب ہو گيا۔ ہم
نے کہا، پيچهے ره گيا يا پتا نہيں کہاں ره گيا ہے۔ تو ابهی ہم تقريريں کر رہے تهے۔ اس بڑهيا کے پاس کهڑے ہو کے کہ وه بايئسکل کے اوپر آيا بالکل پسينہ پسينہ سرديوں ميں، فق ہوا، سانس اوپر نيچے ليتا آگيا۔ اس کے ہوسڻل کے کمرے ميں چارپائی کے آگے ايک پرانا کمبل ہوتا تها جو اس کے والد کبهی گهوڑے پر ديا کرتے ہوں گے۔ وه ساہيوال کے بيدی تهے۔ تو وه بچها کے نا اس کے اوپر بيڻه کر پڑهتے وڑهتے تهے۔ بدبودار گهوڑے کو کمبل جسے وه اپنی چارپائی سے کهينچ کر لے آيا بايئسکل پر، اور لا کر اس نے بڑهيا کے اوپر ڈال ديا، اور وه اس کو دعائيں ديتی رہی۔ اس کو نہيں آتا تها وه طريقه کہ کس طرح تقرير کی جاتی ہے۔ فنِ تقرير سے ناواقف تها۔ بابا نور والے کہا کرتے تهے انسان کا کام ہے دوسروں کو آسانی دينا۔

****************************
__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to Taimoor Gondal For This Useful Post:
Ali Randhava (Thursday, August 18, 2011), nain jee (Sunday, August 21, 2011), rao saadia (Friday, November 23, 2012), Saira Nadeem (Thursday, August 18, 2011)