View Single Post
  #3  
Old Thursday, August 18, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Taimoor Gondal Taimoor Gondal is offline
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default ميں کون ہوں ؟

بہت دير کا وعده تها جو جلد پورا ہونا چاہئے تها ، ليکن تاخير اس لئے ہو گئی کہ شايد مجه پر بهی کچه اثر ميرے پڑوسی ملک کا ہے کہ اس نے کشميريوں کے ساته بڑی دير سے وعده کر رکها تها کہ ہم وہاں رائے شماری کرائيں گے۔ ليکن آج تک وه اسے پورا نہ کر سکے۔ حالانکہ وه وعده يو اين او کے فورم ميں کيا گيا تها، ليکن ميری نيت ان کی طرح خراب نہيں تهی۔ ميں اس دير کے وعدے کے بارے ميں يہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ انسانی وجود کی پرکه، جانچ اور اس کی آنکه ديگر تمام جانداروں سے مختلف بهی ہے اور مشکل بهی۔ جتنے دوسرے جاندار ہيں ان کو بڑی آسانی کے ساته جانچا اور پرکها جا سکتا ہے ليکن انسان واحد مخلوق ہے جس کے بارے ميں کوئی حتمی فيصلہ نہ تو باہر کا کوئی شخص کر سکتا ہے اور نہ خود اس کی اپنی ذات کر سکتی ہے۔ انسانی جسم کو ماپنے، تولنے کے لئے جيسے فوجيوں کی ضرورت ہوتی ہے تو وه آپ کا قد ماپيں گے، وزن کريں گے، جسم کی سختی کو ملاحظہ کريں گے، بينائی ديکهيں گے يعنی باہر کا جو سارا انسان ہے، اس کو جانچيں اور پرکهيں گے اور پهر انہوں نے جو بهی اصول اور ضابطے قائم کئے ہيں، اس کے مطابق چلتے رہيں گے۔ ليکن اس کے ساته ہی اندر کی مشينری کو جانچنے کے لئے بهی انہوں نے پيمانے بنائے ہيں۔
اگر آپ خدانخوستہ کسی عارضے ميں مبتلا ہيں تو اس کو کيسے جانچيں گے؟
ڈاکڻر اپنا اسڻيتهو سکوپ سينے پر رکه کر دل کی دهڑکنيں اور گڑ گڑاہڻيں سنتا
ہے، تهرما ميڻر استعمال کرتا ہے، ايکسرے، الڻرا ساؤنڈ اور سی ڻی سکين، يہ سب چيزيں انسان کے اندر کی بيماريوں کا پتا ديتی ہيں۔ پهر اس کے بعد تيسری چيز انسان کی دماغی اور نفسياتی صورتحال کا جائزه لينا ہوتا ہے۔ نفسيات دان اس کو جانچتے ہيں۔ انہوں نے کچه تصويری خاکے اور معمے بنائے ہوتے ہيں۔ ايک مشين بنا رکهی ہے، جو آدمی کے سچ يا جهوٹ بولنے کی کيفيت بتاتی ہے۔ کچه ايسی مشينيں بهی ہيں، جو شعاعيں ڈال کر پتُلی کے سکڑنے اور پهيلنے سے اندازه لگاتی هيں کہ اس شخص کا اندازِ تکلم اور اندازِ زيست کيسا ہے؟
نفسيات کے ايک معروف ڻيسٹ ميں ايک بڑے سے سفيد کاغذ پر سياہی گرا دی
جاتی ہے اور اس کاغذ کی تہہ لگا ديتے ہيں۔ جب اس کو کهولا جاتا ہے تو اس
پر کوئی تصوير سی چڑيا، طوطا يا تتلی بنی ہوئی ہوتی ہے اور پوچها جا ا ت ہے
کہ آپ کو يہ کيا چيز نظر آتی ہے؟ اور پهر ديکهنے والا اس کو جيسا محسوس
کرتا ہے، بتلاتا ہے، کوئی اسے خوبصورت چڑيا سے تعبير کر کے کہتا ہے
اسے ايک چڑيا نظر آ رہی ہے، جو گاتی ہوئی اڑی جا رہی ہے۔
ايک اور مزاج کا بنده آتا ہے اور کہتا ہے کہ اس ميں ايک بڑهيا هے، جو ڈنڈا
پکڑے بيڻهی ہے اور اس کی شکل ميرے جيسی ہے۔ اس طرح سے ديکهنے
والے کی ذہنی کيفيت کا اندازه لگايا جاتا ہے۔ جانوروں کو بهی اسی معيار پر
پرکها جا سکتا ہے۔ قصائی جس طرح بکرے کو ديکه کر بيمار يا تندرست کا پتا
چلا ليتا ہے۔ بهينس کو ديکه کر بهی اندازه لگايا جاتا ہے کہ يہ اچهی بهينس
ہے يا نہيں۔ گهوڑوں کو بهی چيک کر ليا جاتا ہے۔ جانوروں کا چيک کرنا اس
لئے بهی آسان ہے کہ اگر ہم جانور کے ساته کسی خاص قسم کا برتاؤ کريں
گے، تو وه بهی جواب ميں ويسا ہی برتاؤ کرے گا۔ ليکن انسان کے بارے ميں
يہ فيصلہ نہيں کيا جا سکتا۔ ممکن ہے کہ آپ ايک آدمی کو زور کا تهپڑ ماريں
اور وه پستول نکال کر آپ کو گولی مار دے۔ ممکن ہے کسی کو ايک تهپڑ
ماريں اور وه جهک کر آپ کو سلام کرے يا ہاته بانده کر کهڑا ہو جائے۔ اس
لئے انسان کے حوالے سے کچه طے نہيں کيا جا سکتا۔ اس کو جانچنا ہمارے
صوفيائے کرام اور
بابے جن کا ميں اکثر ذکر کرتا ہوں، ان کے لئے ہميشہ
ايک مسئلہ رہا ہے کہ انسان اندر سے کيا ہے؟ اور جب تک وه اپنے آپ کو نہ
جان سکے، اس وقت تک وه دوسروں کے بارے ميں کيا فيصلہ کر سکتا ہے۔
آپ کے جتنے بهی ايم اين اے اور ايم پی اے ہيں، يہ ہمارے بارے ميں بيڻه کر
فيصلے کرتے ہيں، ليکن وه خود يہ نہيں جانتے کہ وه کون ہيں؟ يہ ايسے
تيراک ہيں جو ہم کو بچانے کی کوشش کرتے ہيں، ليکن ان کو خود تيرنا نہيں
آتا۔ سيکها ہی نہيں انہوں نے۔ جو گہری نظر رکهنے والے لوگ ہيں وه جاننا
چاہتے ہيں۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کبهی اگر آپ نے غور کيا ہو يا نہ کيا
ہو، ليکن آپ کے شعور سے يہ آواز آتی ہی رہتی ہے کہ
ميں کون ہوںاور

"ميں کہاں ہوں“ اور اس سارے معاملے اور کائنات ميں کہاں فٹ ہوں، اس کے
لئے ہمارے بابوں نے غور کرنے اور سوچنے کے بعد اور بڑے لمبے وقت اور
وقفے سے گزرنے کے بعد اپنی طرز کا طريق سوچا ہے، جس کے کئے رخ
ہيں۔ آسان لفظوں ميں وه اس نئے طريق کو
فکريا مراقبےکا نام ديتے
ہيں۔
اب يہ مراقبہ کيوں کيا جاتا ہے، اس کی کيا ضرورت ہے، کس لئے وه بيڻه کر
مراقبہ کرتے ہيں اور اس سے ان کی آخر حاصل کيا ہوتا ہے؟ مراقبے کی
ضرورت اس لئے محسوس ہوتی ہے کہ کوئی ايسی مشين يا آلہ ايجاد نہيں ہوا،
جو کسی بندے کو لگا کر يہ بتايا جا سکے کہ
? What am I? who
am I
، کہ ميں کيا ہوں؟ اس کے لئے انسان کو خود ہی مشين بننا پڑتا ہے
خود ہی سبجيکٹ بننا پڑتا ہے اور خود ہی جانچنے والا۔ اس ميں آپ ہی ڈاکڻر
ہے، آپ ہی مريض ہے۔ يعنی ميں اپنا سراغ رساں خود ہوں اور اس سراغ
رسانی کے طريقے مجهے خود ہی سوچنے پڑتے ہيں کہ مجهے اپنے بارے
ميں کيسے پتا کرنا ہے۔ بہت اچهے لوگ ہوتے ہيں، بڑے ہی پيارے، ليکن ان
سے کچه ايسی باتيں سرزد ہوتی رہی ہيں کہ وه حيران ہوتے ہيں کہ ميں عبادت
گزار بهی ہوں، ميں بهلا، اچها آدمی بهی ہوں، ليکن مجهے يہ معلوم نہيں کہ
ميں ہوں کون؟ اور پتا اسے يوں نہيں چل پاتا، اس کی وجہ يہ ہے کہ خداوند
تعالٰی نے انسان کے اندر اپنی پهونک ماری ہوئی ہے اور وه چلی آ رہی ہے۔
اس کو آپ
Erase نہيں کر سکتے۔ اس کو آپ پرده کهول کر ديکه نہيں
سکتے، آپ ايک لفظ ياد رکهيئے گا
Self يعنی ذاتکا۔ اقبال جسے خودی
کہتا ہے۔ خودی کيا ہے؟ اس لفظ خودی کے لئے کئی الفاظ ہيں، ليکن
ذات

زياده آسان اور معنی خيز ہے۔
حضرت علامہ اقبال نے اس لفظ کو بہت استعمال کيا اور اس پر انہوں جے بہت
غور بهی کيا۔ اب اس ذات کو جاننے کے لئے جس ذات کے ساته بہت سارے
خيالات چمٹ جاتے ہيں، جيسے گڑ کی ڈلی کے اوپر مکهياں آ چمڻتی ہيں يا
پرانے زخموں پر بهنبهناتی ہوئی مکهياں آ کر چمٹ جاتی ہيں۔ خيال آپ کو
کنڻرول کرتا ہے اور وه ذات وه خوبصورت پارس جو آپ کے ميرے اندر ہم سب
کے اندر موجود ہے، وه کستوری جو ہے وه چهپی رہتی ہے۔ اس کو تلاش
کرنے کے لئے اس اس کی ايک جهلک ديکهنے کے لئے لوگ
meditate

مراقبہ
) کرتے ہيں۔ کبهی کبهی کسی خوش قسمت کے پاس ايسا گُر آ جاتا ہے )

کہ وه چند سيکنڈ کے لئے اس خيال کی مکهيوں کی بهنبهناہٹ کو دور کر ديتا
ہے اور اس کو وه نظر آتا ہے۔ ليکن خيال اتنا ظالم ہے کہ وه اس خوبصورت
قابل رشک زريں چيز کو ہماری نگاہوں کے سامنے آنے نہيں ديتا۔
جب آپ دو، تين چار مہينے کے تهے تو اس وقت آپ اپنی ذات کو بہت اچهی
طرح سے جانتے تهے۔ جو معصوميت دے کر لله نے آپ کو پيدا کيا تها، اس کا
اور آپ کی ذات کا رشتہ ايک ہی تها۔ آپ وه تهے، وه آپ تها۔ ايک چيز تها دو
پونے دو سال يا کوئی سی بهی مدت مقرر کر ليں۔ جب خيال آ کر آپ کو پکڑنے
لگا تو وه پهر يہ ہوا کہ آپ گهر ميں بيڻهے تهے۔ ماں کی گود ميں۔ کسی کی بہن
آئی انہوں نے آ کر کہا کہ اوه ہو، نسرين يہ جو تمہارا بيڻا ہے يہ تو بالکل بهائی
جان جيسا ہے۔ اس بيڻا صاحب نے جب يہ بات سن لی تو اس نے سوچا ميں تو
ابا جی ہوں۔ ايک خيال آ گيا نا ذہن ميں، حالانکہ وه ہے نہيں ابا جی۔ پهر ايک
دوسری پهوپهی آ گئيں۔ انہوں نے آ کر کہا کہ اس کی تو آنکهيں بڑی
خوبصورت ہيں، تو اس بچے نے سوچا ميں تو خوبصورت آنکهوں والا ہيرو
ہوں۔ جيسا کہ ميں پہلے بهی عرض کر چکا ہوں کہ انسان نے اپنی ذات کے
آگے سائن بورڈ لڻکانے شروع کر ديئے
: ہيرو، رائڻر، ليڈر، پرائم منسڻر،
خوبصورت اور طاقتور وغيره۔ اس طرح کے کتنے سارے سائن بورڈز لڻکا کر
ہم آپ سارے جتنے بهی ہيں، نے اپنے اپنے سائن بورڈ لگا رکهے ہيں اور جب
ملنے کے لئے آتے ہيں، تو ہم اپنا ايک سائن بورڈ آگے کر ديتے ہيں۔ کہ ميں تو
يہ ہوں اور اصل بنده اندر سے نہيں نکلتا اور اصل کی تلاش ميں ہم مارے
مارے پهر رہے ہيں۔
خدا تعالٰی نے اپنی روح ہمارے اندر پهونک رکهی هے۔ ہم يہ بهی چاہتے ہيں کہ
اس سے فائده اڻهائيں اس کی خوشبو ايک بار ليں، اس کے لئے لوگ تڑپتے
ہيں اور لوگ جان مارتے ہيں۔ وه ذات جو لله کی خوشبو سے معطّر ہے اس کے
اوپر وه خيال جس کا ميں ذکر کر رہا ہوں اس کا بڑا بوجه پڑا ہوا ہے۔ وه خيال
کسی بهی صورت ميں چهوڑتا نہيں ہے۔ اس خيال کو اس کستوری سے ہڻانے
کے لئے مراقبے کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ اس لئے کہ آدمی ذرا
ڻهيک ہو۔ اس کو پتا چلے کہ وه کيا ہے۔ اس سے پهر اسے نماز ميں بهی مزا
آتا ہے۔ عبادت، گفتگو، ملنے ملانے ميں، ايک دوسرے کو سلام کرنے ميں بهی
مزا آتا ہے۔ ايک خاصتعلق پيدا ہوتا ہے، اس کے لئے جس کا بتانے کا ميں
نے وعده کيا تها۔
آسان ترين نسخہ يہ ہے کہ دو اوقات صبح اور شام صبح فجر پڑهنے کے بعد
اور شام کو مغرب کے بعد
(يہ اوقات ہی اس کے لئے زياده اچهے ہيں) آپ بيس
منٹ نکال کر گهر کا ايک ايسا کونہ تلاش کريں، جہاں ديوار ہو، جو عمودی ہو،
وہاں آپ چار زانو ہو کر
چوکڑی مار کر بيڻه جائیں۔ اپنی پشت کو بالکل
ديوار کے ساته لگا ليں، کوئی جهکاؤ
کبُنہ پيدا ہو۔ يہ بہت ضروری ہے،
کيونکہ جو کرنٹ چلنا ہے، نيچے سے اوپر تک وه سيدهے راستے سے چلے۔

__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to Taimoor Gondal For This Useful Post:
Ali Randhava (Thursday, August 18, 2011), Kamran Chaudhary (Thursday, August 18, 2011)