View Single Post
  #5  
Old Thursday, August 18, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Taimoor Gondal Taimoor Gondal is offline
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default پنجاب کا دوپڻہ

چند سردياں پہلے کی بات ہے کہ ہمارے باغِ جناح ميں پُرانے جم خانے کے سامنے اندرونِ شہر کی ايک خاتون بنچ کے اوپر بيڻهی تهی اور اپنے چهوڻے بچے کو اپنے گُهڻنے کے اوپر پلا رہی تهی
- اسُ کی تين بچياں کهيلتے ہوئے باغ ميں پهيل گئی تهيں اور ايک دوسری کے ساته لڑتی تهيں اور بار بار چيخيں مارتی ہوئی ماں سے ايک دوسری کی شکايت کرتی تهيں- ذرا دير بعد پهر ماں کو تنگ کرنا شروع کر ديتيں اور پهر چلی جاتيں- آخر ميں پهر لڑتی ہوئی دو بچياں آئيں اور کہا کہ امّاں اس نے ميری فلاں اتنی بڑی چيز لے لی ہے- ايک نے مُڻهی بند کی ہوئی تهی- آخر ماں نے اس کا ہاته پکڑا اور کہا کهول دے مُڻهی- جب اس نے مُڻهی کهولی تو اس ميں سوکها ہوا درخت سے گِرا بهيڑه تها- ايک نے کہا، پہلے ميں نے ديکها تها يہ ميرا ہے- اُن کی ماں نے دوسری سے کہا، اسے دے دو- پهر وه صُلح صفائی کرتے ہوئے بهاگ کر چلی گئيں- جب ميں نے ان کے درميان اتنی زياده لڑائی ديکهی تو ميں نے اسُ خاتون سے کہا کہ آپ تو مشکل ميں پڑی ہوئی ہيں- يہ بچے آپ کو بہت تنگ کرتے ہيں- تو اسُ نے کہا کہ بهائی! مجهے يہ بہت تنگ کرتے ہيں، ليکن ميں انِ سے تنگ ہوتی نہيں- ميں نے کہا وه کيسے؟ کہنے لگيں، يہ جو ميرے بچے ہيں، اپنی نانی کے مرنے کے بعد پيدا ہوئے ہيں- ميں سوچتی ہوں کہ اگر ان کی نانی زنده ہوتی تو يہ بچياں کتنی ہی شيطانياں کرتيں، ضد کرتيں، لڑائياں کرتيں، ليکن پهر بهی اپنی نانی کی پيارياں اور لاڈلياں ہی رہتيں۔ جب ميرے ذہن ميں يہ خيال آتا ہے تو يہ کچه بهی کريں- ميں اپنی نانی کی حوالے سے ان کو معاف کر ديتی ہوناور يہ مزے سے کهيلتی رہتی ہيں، حالانکہ جسمانی اور ذہنی وروحانی طور پر مجهے تنگ کرتی ہيں- جب اسُ نے يہ بات کی تو ميں سوچنے لگا کہ کيا ہمارے سياسی اور سماجی وجود ميں کوئی نانی جيسا تصوّر نہيں آسکتا؟ کيا ہميں ايسا ليڈر نہيں مل سکتا، يا سکا جس کے سہارے ہم اپنی
مشکلات کو اس کے نام
Dedicate کر کے يہ کہيں کہ اگرايسی مشکلات ہوتيں اور اگر قائداعظم زنده ہوتے تو ہم ان کے حوالے کر ديتے کہ جی يہ مشکلات ہيں اور وه ان کو ويسے ہی سميٹ ليتے جيسا کہ وه دوسری مشکلات سميڻا کرتے تهے، بلکہ اکيلے انُہوں نے ہی تمام مشکلات کو سميڻا تها- ليکن شايد يہ ہماری قسمت يا مقدّر ميں نہيں تها، ليکن اس کے باوجود ميں يہ سمجهتا ہوں کہ اگر ايک دهان پان سی، دُبلی پتلی لڑکی اتنی ہمّت کر کے اپے ذاتی مقصد کے لئے اتنا بڑا کنکشن ميرے آپ کے اور سنده کے درميان پيدا کر سکتی ہے، تو ہم جو زياده پڑهے لکهے، دانشمند اور دانشور لوگ ہيں يہ دل اور روح کے اندر مزيد گہرائی پيدا کرنے کے لئے کچه کيوں نہيں کر سکتے؟ کوئی ايسی صبح طلوع ہو يا کوئی ايسی شام آئے، جب ہم ديوار سے ڈهو لگا
کر ايک
Meditation ميں داخل ہوتے ہيں، تو کيا اس مراقبے ميں يہ ساری چيزيں نہيں آتيں، يا يہ کہ ہم اس مراقبے کے اندر کبهی داخل ہی نہيں ہو سکے؟ ايک چهوڻی سی لڑکی اس طرح ايک تہيہ کے اندر اور ايک ارادے کے
اندر داخل ہو گئی تهی اور ہم جو بڑے ہيں ان سے يہ کام نہيں ہو تا
- اس کے باوجود ميں بہت پرُ اميد ہوں کہ يقينا ايسا وقت آجائے گا جس کا کوئی جواز ہمارے پاس نہيں ہو گا، جس کی کوئی منطق نہيں ہو گی- ليکن وه وقت ضرور
آئے گا، کيوں آئے گا، کس لئے آئے گا، کس وجہ سے اورکيسے آئے گا؟ اس کا بهی کوئی جواب ميرے پاس نہيں ہے
- ليکن اتنی بڑی معاشرتی زندگی ميں جان بوجه کر يا بيوقوفی سے ہم جو نام لے چکے ہيں، انہيں کبهی نہ کبهی،
کسی نہ کسی مقام پر پہنچ کر سفل ہونا ضروری ہے
- يہ ميرا ايک ذاتی خيال ہے، جس کے ساته ميں وابستہ رہتا ہوں- مايوسی کی بڑی گهڻائيں ہيں، بڑی بے چينياں ہيں، بڑی پريشانياں ہيں-اکنامکس کا آپ کے يوڻيليڻی بلز کا ہی مسئلہ اتنا ہو گيا ہے کہ انسان اس سے باہرہی نہيں نکلتا- آدمی روتا رہتا ہے، ليکن ہمارے اس لاہور ميں، ہمارے اس مُلک ميں اور ہمارے اس مُلک سے ماورا دوسری اسلامی دنيا ميں کچه نہ کچه تو لوگ ايسے ضرور ہوں گے جو اکنامکس کی تنگی کے باوصف يہ کہتے ہوں گے جو ميں نہيں کہہ سکتا- ميں کسی نہ کسی طرح سے خوش ہو سکتا ہوں، کيونکہ خوشی کا مال ودولت کے ساته کوئی تعلق نہيں- ہمارے بابے کہا کرتے ہيں کہ اگر مال ودولت کے ساته جائيداد کے ساته خوشی کاتعلق ہوتا تو آپ اتنی ساری چيزيں چهوڑ کرکبهی سوتے ناں! ان ساری چيزوں کو آپ اپنی نگاہوں کے سامنے چهوڑ کر سو جاتے ہيں اور سونا اتنی بڑی نعمت ہے جو آپ کو راحت عطا کرتی ہےاور اگر آپ کو کوئی جگائے تو آپ کہتے ہيں کہ مجهے تنگ نہ کرو- اگر اس سے کہيں کہ تيری وه کار، جائيداد اور بينک بيلنس پڑا ہے تو اس سونے والے کو اس کی کوئی پرواه نہيں ہوتی- اس سے طے يہ پايا کہ يہ دولت يہ مال ومتاع يہ سب
کچه آپ کو خوشی عطا نہيں کرتے، خوشی آپ کے اندر کی لہر ہے مچهلی جس کو پکڑ لے وه اس لہر پر ڈولفن کی طرح سوار ہو کر دُور جا سکتی ہے- اگر وه لہر نہ پکڑی جائے تو پهر ہماری بد قسمتی ہے- پهر ہم کچه نہيں کر سکتے- اس لہر کو ديکهنا، جانچنا اور پکڑنا اور اس پر سوار ہونا شہ سواروں کا کام ہے، عام لوگوں کا نہيں- بڑی تکليفيں اور دقتّيں ہيں، ليکن ان کے درميان رہتے ہوئے بهی کئی آدمی گاتے ہوئے گزر جاتے ہيں اور ہم اپنے کانوں سے ان کا گانا سُنتے ہيں اور ہم ان کی تحقيق نہيں کر سکتےکہ ان کے اندر کون سی چُپ لگی ہوئی ہے، کس قسم کی پروگرامنگ ہوئی ہوتی ہے کہ يہ گاتے چلے جا رہے ہيں- لله آپ کو خوش رکهے اور بہت سی آسانياں عطا فرمائے اور خداوند تعالٰی آپ کو آسانياں تقسيم کرنے کا شرف عطا فرمائے

***********************************
__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Taimoor Gondal For This Useful Post:
Arain007 (Friday, August 19, 2011)