View Single Post
  #6  
Old Friday, August 19, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Taimoor Gondal Taimoor Gondal is offline
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default سلطان سنگهاڑے والا

انسانی زندگی ميں ايک وقت ايسا بهی آتا ہے، جب اسُ کی آرزو يہ ہوتی ہے کہ وه اب بڑے پُرسکون انداز ميں زندگی بسر کرے اور وه ايسے جهميلوں ميں نہ رہے، جس طرح کے جهميلوں ميں اُس نے اپنی گزشتہ زندگی بسر کی ہوئی ہوتی ہے اور يہ آرزو بڑی شدت سے ہوتی ہے۔ ميں نے يہ ديکها ہے کہ جو لوگ لله کے ساته دوستی لگا ليتے ہيں، وه بڑے مزے ميں رہتے ہيں اور وه بڑے چالاک لوگ ہوتے ہيں۔ ہم کو اُنہوں نے بتايا ہوتا ہے کہ ہم ادهر اپنے دوستوں کے ساته دوستی رکهيں اور وه خود بيچ ميں سے نکل کر لله کو دوست بنا ليتے ہيں۔ انُ کے اوپر کوئی تکليف، کوئی بوجه اور کوئی پہاڑ نہيں گرتا۔ سارے حالات ايسے ہی ہوتے ہيں جيسے ميرے اور آپ کے ہيں، ليکن ان لوگوں کو ايک ايسا سہارا ہوتا ہے، ايک ايسی مدد حاصل ہوتی ہے کہ انُہيں کوئی تکليف نہيں پہنچتی۔

ميں نے يہ بہت قريب سے ديکها ہے۔ ہمارے گهر ميں دهوپ سينکتے ہوئے ميں ايک چڑيا کو ديکها کرتا ہوں، جو بڑی دير سے ہمارے گهر ميں رہتی ہے اور غالبا يہ اسُ چڑيا کی يا تو بيڻی ہے، يا نواسی ہے جو بہت ہی دير سے ہمارے مکان کی چهت کے ايک کونے ميں رہتی ہے۔ ہمارا مکان ويسے تو بڑا اچها ہے، اس کی
"آروی" کی چهتيں ہيں، ليکن کوئی نہ کوئی کهدرا ايسا ره ہی جاتا ہے، جو ايسے مکينوں کو بهی جگہ فراہم کر ديتا ہے۔ يہ چڑيا بڑے شوق، بڑے سبهاؤ اور بڑے ہی مانوس انداز ميں گهومتی پهرتی رہتی ہے۔ ہمارے کمرے کے اندر بهی اور فرش پر بهی چلی آتی ہے۔ کل ايک فاختہ آئی جو ڻيليفون کی تار پر بيڻهی تهی اور يہ چڑيا اُڑ کر اُس کے پاس گئی، اُس وقت ميں دهوپ سينک (تاپ) رہا تها۔ اسُ چڑيا نے فاختہ سے پوچها کہ " آپا يہ جو لوگ ہوتے ہيں انسان، جن کے ساته ميں رہتی ہوں، يہ اتنے بے چين کيوں ہوتے ہيں؟يہ بهاگے کيوں پهرتے ہيں؟ دروازے کيوں بند کرتے اور کهولتے ہيں؟ اس کی وجہ کيا ہے؟" فاختہ نے کہا کہ "ميرا خيال ہے کہ جس طرح ہم جانوروں کا ايک لله ہوتا ہے، ان کا کوئی لله نہيں ہے اور ہميں يہ چاہئے کہ ہم مل کر کوئی دعا کريں کہ ان کو بهی ايک لله مل جائے۔ اس طرح انہيں آسانی ہو جائے گی، کيونکہ اگر ان کو لله نه مل سکا، تو مشکل ميں زندگی بسر کريں
"گے۔

اب معلوم نہيں ميری چڑيا نے اسُ کی بات مانی يا نہيں، ليکن وه بڑی دير تک گفت وشنيد کرتی رہيں اور ميں بيڻها اپنے تصور کے زور پر يہ ديکهتا رہا کہ ان کے درميان گفتگو کا شايد کچه ايسا ہی سلسلہ جاری ہے۔ تو ہم کس وجه سے، ہمارا اتنا بڑا قصور بهی نہيں ہے، ہم کمزور لوگ ہيں جو ہماری دوستی لله کے ساته ہو نہيں سکتی۔ جب ميں کوئی ايسی بات محسوس کرتا ہوں يا سُنتا ہوں تو پهر اپنے
"بابوں" کے پاس بهاگتا ہوں_ ميں نے اپنے بابا جی سے کہا کہ جی ! ميں لله کا دوست بننا چاہتا ہوں۔ اس کا کوئی ذريعہ چاہتا ہوں۔ اسُ تک پہنچنا چاہتا ہوں۔ يعنی ميں لله والے لوگوں کی بات نہيں کرتا۔ ايک ايسی دوستی چاہتا ہوں، جيسے ميری آپ کی اپنے اپنے دوستوں کے ساته ہے،تو انُہوں نے کہا "اپنی شکل ديکه اور اپنی حيثيت پہچان، تو کس طرح سے اُس کے پاس جا سکتا ہے، اُس کے دربار تک رسائی حاصل کر سکتا ہے اور اُس کے گهر ميں داخل ہو سکتا ہے، يہ نا ممکن ہے۔" ميں نے کہا، جی! ميں پهر کيا کروں؟ کوئی ايسا طريقہ تو ہونا چاہئے کہ ميں اسُ کے پاس جا سکوں؟ بابا جی نے کہا، اس کا آسان طريقہ يہی ہے کہ خود نہيں جاتے لله کو آواز ديتے ہيں کہ "اے لله! تو آجا ميرے گهر ميں" کيونکہ لله تو کہيں بهی جاسکتا ہے، بندے کا جانا مشکل ہے۔ بابا جی نے کہا کہ جب تم اُس کو بُلاؤ گے تو وه ضرور آئے گا۔ اتنے سال زندگی گزر جانے کے بعد ميں نے سوچا کہ واقعی ميں نے کبهی اسُے بلايا ہی نہيں، کبهی اس بات کی زحمت ہی نہیں کی۔ ميری زندگی ايسے ہی رہی ہے، جيسے بڑی دير کے بعد کالج کے زمانے کا ايک کلاس فيلو مل جائےبازار ميں تو پهر ہم کہتے ہيں کہ بڑا اچها ہوا آپ مل گئے۔ کبهی آنا۔ اب وه کہاں آئے، کيسےآئے اس بےچارے کو تو پتا ہی نہيں۔

ہمارے ايک دوست تهے۔ وه تب ملتے تهے، جب ہم راولپنڈی جاتے تو کہتے کہ جی آنا، کوئی ملنے کا پروگرام بنانا، يہ بہت اچهی بات ہے، ليکن ايڈريس نہيں بتاتے تهے۔ جيسے ہم لله کو اپنا ايڈريس نہيں بتاتے کسی بهی صورت ميں ميں کہ کہيں سچ مچ ہی نہ پہنچ جائے۔ ايک دهڑکا لگا رہتا ہے۔ وه مجهے کہا کرتے تهے کہ بس مہينے کے آخری ويک کی کسی ڈيٹ کو ملاقات کا پروگرام بنا ليں گے
Sunset ، کے قريب، نہ ڈيٹ بتاتے تهے نہ ڻائم بتاتے تهے
Determine نہيں کرتے تهے، تو ايسا ہی لله کے ساته ہمارا تعلق ہے۔ ہم
يہ نہيں چاہتے، بلکہ کسی حد تک ڈر جاتے ہيں کہ خدا نخواستہ اگر ہم نے لله سے دوستی لگا لی اور وه آگيا تو ہميں بڑے کام کرنے پڑيں گے۔ دوپڻہ چننا ہوتا ہے، بوٹ پالش کرنا ہوتے ہيں، مہندی پر جانا ہوتا ہے۔ اسُ وقت لله مياں آگئے اور اُنہوں نے کہا کہ
"کيا ہو رہا ہے؟" تو مشکل ہوگی۔ ہم نے آخر زندگی کے کام بهی نمڻانے ہيں۔ باقی جو بات ميں سوچتا ہوں اور ميں نے اپنے بابا کو يہ جواب ديا کہ ميں سمجهتا ہوں کہ لله کی عبادت کرنا بہت اچهی بات ہے اور ہے بهی اچهی بات۔ اُنہوں نے کہا کہ عبادت کرنا ايک اور چيز ہے، تم نے تومجه سے کہا کہ ميں خداوند کريم کو بِلا واسطہ طور پو ملنا چاہتا ہوں۔ عبادت کرنا تو ايک گرائمر ہے جو آپ کر رہے ہيں اور اگر آپ عبادت کرتے بهی ہيں،تو پهر آپ اپنی عبادت کوCelebrate
کريں، جشن منائيں، جيسے مہندی پر لڑکياں تهال لےکر ناچتی ہيں نا، موم بتياں جلا کر اس طرح سے، ورنہ تو آپ کی عبادت کسی کام کی نہيں ہوگی۔ جب تک عبادت ميں
Celebration ،
نہيں ہوگی، جشن کا سماں نہيں ہوگا جيسے وه بابا کہتا ہے "تيرے عشق نچايا کر کے تهيا تهيا" چاہے سچ مچ نہ ناچيں ليکن اندر سے اس کا وجود اور روح "تهيا تهيا" کر رہی ہے، ليکن جب تک
Celebration
نہيں کرے گا، بات نہيں بنے گی۔ اس طرح سے نہيں کہ نماز کو لپيٹ کر "چار سنتاں، فير چار فرض فير دو سنتاں فير دو نفل،تنِ وتِر" سلام پهيرا، چلو جی رات گزری فکر اُترا۔ نہيں جی! يہ تو عبادت نہيں۔ ہم تو ايسی ہی عبادت کرتے رہے ہيں، اس ليے تال ميل نہيں ہوتا۔ جشن ضرور منانا چاہئے عبادت کا، دل لگی، محبتّ اور عقيدت کے ساته عبادت۔ ہمارے يہاں جہاں ميں رہتا ہوں، وہاں دو بڑی ہاکی اور کرکٹ گراونڈز ہيں، وہاں سنڈے کے سنڈے بہت سويرے، جب ہم سير سے لوٹ رہے ہوتے ہيں، منہ اندهيرے گڈی اُڑانے والے آتے ہيں۔ وه اس کا بڑا اہتمام کئے ہوئے ہوتے ہيں، ان کے بڑے بڑے تهيلے ہوتے ہيں اور بہت کاريں ہوتی ہيں، جن ميں وه اپنے بڑے تهيلے رکه کر پتنگ اڑُانے کے لئے کهلے ميدان ميں آتے ہيں۔ اب وه خالی پتنگ نہيں اُڑاتے، بلکہ اہتمام کے ساته اس کا جشن بهی مناتے ہيں۔ جب تک اس کے ساته جشن نہ ہو، وه پتنگ نہيں اڑتی اور نہ ہی پتنگ اڑُانے والا سماں بندهتا ہے، کهانے پينے کی بے شمار چيزيں باجا بجانے کے "بهومپو" اور بہت کچه لے کر آتے ہيں، وہاں جشن زياده ہوتا ہے، کائٹ فلائنگ کم ہوتا ہے۔ جس طرح ہمارے ہاں عبادت زياده ہوتی ہے،
Celebration
، لله کو ماننا کم ہوتا ہے۔ ميں نے سوچا يہ گڈی ارُانے والے بہت اچهے رہتے ہيں، ہمارے پاس بابا جی کے ہاں ايک گڈی اُڑانے والا آيا کرتا تها موچی دروازے کے اندر علاقے سے، بڑی خوبصورت دهوتی (تہبند) باندهتا تها، جيسے انجمن فلموں ميں باندها کرتی تهی، لمبے لڑ چهوڑ کرباندها کرتی تهی، وه جب آتا تو ہمارے بابا جی اُسے کہتے، گڈی اُڑاؤ ( اس طرح باباجی ہميں
Celebrate
کرنے کا حوصلہ ديتےتهے، جو بات اب سمجه ميں آئی ہے) وه اتنی اونچی پتنگ اڑُاتا تها کہ نظروں سے اوجهل ہو جاتی تهی ميرے جيسا آدمی تو اس لمبی ڈور کو
سنبهال بهی نہيں سکتا۔ ميں نے اسُ سے پوچها کہ بها صديق
! تم يہ گڈی کيوں اُڑاتے ہو؟ کہنے لگا، جی ! يہ گڈی اُڑانا بهی لله کے پاس پہنچنے کا ايک ذريعہ
ہے۔ کہنے لگا، نظر نہيں آتی، ليکن اس کی کهينچ بتاتی رہتی ہے کہ ميں ہوں، لله نظر نہيں آتا ليکن آپ کے دلوں کی دهڑکن يہ بتاتی ہے کہ
"ميں ہوں"۔ يہ نہيں کہ وه آپ کے رُوبرو آ کر موجود ہو۔ جب ميں ريڈيو ميں کام کرتا تها تو ہميں ايک Assignment
ملی تهی۔ وه يہ کہ پتا کريں چهوڻے دکانداروں سے کہ وه کس طرح کی زندگی بسر کرتے ہيں۔ چهوڻے دکانداروں سے مراد چهابڑی فروش۔ يہ کچه دير کی بات ہے، ميں نے بہت سے چهابڑی فروشوں کا انڻرويو کيا۔ اُن سے حال معلوم کئے۔ پيسے
کا ہی سارا اونچ نيچ ہے اور ہم جب بهی تحقيق کرتے ہيں يا تحليل کرتے ہيں يا


Analysis
کرتے ہيں تو
Economics
کی
Base
پر ہی کرتے ہيںکہ کتنے امير ہيں، کتنے غريب ہيں، کياتناسب ہے کہ وه کس Ratio
کے ساته زندگی بسر کر رہے ہيں؟ اُن کے کيا مسائل ہيں؟ دِلّی (دہلی) دروازے کے
باہر اگر آپ لوگوں ميں سے کسی نے دہلی دروازه ديکها ہو، اُس کے باہر اي
آدمی کهڑا تها نوجوان، وه کوئی تيس بتيس برس کا ہو گا۔ وه سنگهاڑے بيچ رہا تها۔ ميں اُس کے پاس گيا۔ ميں نے پوچها، آپ کا نام کيا ہے؟ کہنے لگا، ميرا نام
سلطان ہے
! ميں نے کہا کب تک تم يہ سنگهاڑے بيچتے ہو؟ کہنے لگا، شام تک کهڑا رہتا ہوں۔ ميں نے پوچها اس سے تمہيں کتنے روپے مل جاتے ہيں؟ اسُ نے بتايا، ستر بہتر روپے ہوجاتے ہيں۔ ميں نے اسُ سے پوچها، انہيں کالے کيسے کرتے ہيں؟ ( ميری بيوی پوچهتی رہتی تهی مجه سے،کيونکہ وه ديگچے ميں ڈال کر ابُالتی ہے تو وه ويسے کے ويسے ہی رہتے ہيں) اُس نے کہا کہ جی پنساريوں کی دکان سے ايک چيز ملتی ہے، چمچہ بهر اس ميں ڈال ديں تو کالے ہو جائيں گے اُبل کر اور آپ جا کر کسی پنساری سے پوچه ليں کہ سنگهاڑے کالے کرنے والی چيز دے ديں، وه ديدے گا۔جب اُس نے يہ بات کی تو ميں نے کہا، يہ اندر کے بهيد بتانے والا آدمی ہے اور کوئی چيز پوشيده نہيں رکهتا۔ کهلی نيتّ کا آدمی ہے۔ يقينا يہ ہم سے بہتر انسان ہوگا۔

__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Taimoor Gondal For This Useful Post:
Arain007 (Saturday, August 20, 2011)