View Single Post
  #12  
Old Friday, April 06, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default taraqi pasand tehreek

ترقی پسند تحریک

(Progressive Literary Movement)


آج سے کوئی سات دہے قبل 1936ء میں لندن میں مقیم کچھ ہندوستانی ادیبوں نے جن میں سجاد ظہیر اور ڈاکٹر ملک راج آنند وغیرہ شامل تھے ، ایک ادبی انجمن کا خاکہ مرتب کیا اور '' انجمن ترقی پسند مصنفین'' کی بنیاد ڈالی ۔ انگریزی میں اس کا نام رکھا گیا :
Progressive Writers Association ۔
اس کی پہلی سالانہ کانفرنس 1936ء میں ہی بمقام لکھنؤ منعقد ہوئی ۔ اُس وقت کے صفِ اوّل کے ادیب منشی پریم چند نے اس کی صدارت کی اور اپنے خطبہ میں وہ یادگار جملہ ادا کیا :
'' ہمیں اپنے حسن کا معیار بدلنا ہوگا ! ''

انجمن کے مقاصد میں ... مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کو ادب میں پیش کرنا ، ہندوستان کی جدوجہد ِ آزادی میں ادیبوں کو اپنے قلم کے ذریعے شریک ہونے کی تلقین ، اور سب سے بڑا بنیادی مقصد سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف بغاوت اور دولت کی مساویانہ تقسیم کی حمایت ... شامل تھے ۔


اِس طرح یہ ادبی تحریک جو ''ترقی پسند ادبی تحریک '' Progressive Literary Movement کے نام سے مشہور ہوئی ، دراصل کمیونسٹوں کی تحریک سے وابستہ تھی ۔ اس تحریک کے تقریباً نوے (90) فیصد ادیب و شاعر کمیونسٹ ہوا کرتے تھے (اور اب بھی انہی کے ہاتھ میں یہ تحریک ہے )۔ کارل مارکس ، جو علوم ِ معاشیات میں ''مارکسزم'' کا بانی تھا ، اِن کا 'امام' تسلیم کیا گیا ۔ اُس وقت کے غیر منقسم شدہ ہندوستان کی تقریباً سبھی زبانوں میں یہ تحریک پھیلی ۔


روس اور چین جیسے کمیونسٹ ملک اِن ادیبوں کے حامی تھے ۔ اُردو میں اسے ''اشتراکی ادیب'' بھی کہا جاتا ہے ۔کیونکہ کمیونزم کا ترجمہ ''اشتراکیت'' کیا گیا ۔



اِس میں شک نہیں کہ اِس تحریک نے عشق و عاشقی کی فرسودہ روایات کو توڑا اور '' ادب برائے زندگی '' کا نعرہ دیا ۔ اپنی تحریروں میں حسن و عشق کے موضوعات کو چھوڑ کر زندگی کے مسائل کو سمویا اور '' غمِ جاناں'' کے مقابلے میں '' غمِ دوراں'' کی بات کی ۔ نثر میں ''افسانہ'' کو اس تحریک نے نیا خون ، نیا آہنگ بخشا ۔ صفِ اوّل کے افسانہ نگار اِسی تحریک کی دین ہیں ۔

تقسیمِ ہند کے بعد یہ تحریک اپنی انتہا پسندی کا شکار ہو گئی ۔ یہ کہا گیا کہ ایک ادیب / شاعر کو کسی 'ازم' یا کسی سیاسی پرچار کا ایجنٹ نہ رہنا چاہئے ۔ سماج کی فرسودہ روایات کے خلاف بغاوت کرتے کرتے یہ تحریک چند بندھی ٹکی روایات کی علمبردار بن کر رہ گئی ۔ ادبی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ۔ پروپگنڈہ بازی اور نعرہ بازی کی گونج اِن قلمکاروں کی تحریروں میں سنائی دینے لگی ۔


چنانچہ 1953ء کی'' بھیونڈی کانفرنس'' میں یہ تحریک سخت تنقیدوں کا نشانہ بنی اور بہت سے ادیب و شاعر اِس تحریک سے علحٰدہ ہو گئے اور یہ کہا کہ : اب اِس تحریک کی ضرورت نہیں ۔ ادیب کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی اساس پر ادب کی تخلیق کرنا چاہئے ، نہ کہ کسی اشتراکی ہدایت ناموں کا اشتہار بن کر ڈھنڈورچی بن جائے ۔
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Farrah Zafar (Friday, April 06, 2012)