View Single Post
  #13  
Old Friday, April 06, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

رومانوی تحریک

رومانوی تحریک کو عام طور پر سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کا ردعمل قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سرسید احمد خان کی تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی۔ کیونکہ یہ دور تہذیب الاخلاق کا دور تھا اور تہذیب الاخلاق کی نثر عقلیت ، منطقیت ، استدالیت اور معنویت سے بوجھل تھی۔ مزید برآں تہذیب الاخلاق کا ادب مذہبی ،اخلاقی ، تہذیبی اور تمدنی اقدار سے گراں بار تا۔اس جذبے اور احسا س کے خلاف رومانی نوعیت کا ردعمل شروع ہوا اور جذبے اور تخیل کی وہ رو جسے علی گڑھ تحریک نے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ابھرے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن اس سے قبل کی رومانیت یا رومانوی تحریک کے بارے میں بحث کریں ، ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھ لیں کہ رومانیت سے کیا مراد ہے۔
رومانیت کا مفہوم

رومانیت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ لفظ جتنا دل خوش کن ہے تشریح کے لحاظ سے اتنا سہل نہیں۔ لغات اور فرہنگ ، اصطلاحات کے سائیکلو پیڈیا اور تنقید کی کتابیں اس سلسلے میں سب الگ الگ کہانی سنا رہی ہیں۔ اس لئے رومانیت کے متعلق کوئی معین بات کہنا چاہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ رومانیت کے معنی رومانیت ہیں۔ بہر حال سید عبداللہ رومانیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رومانیت کا ایک ڈھیلا سا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسے اسلوب اظہار یا انداز احساس کا اظہار کرتی ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو۔ رسم و روایت کی تقلید سے آزادی خیالات کو سیلاب کی طرح جدھر ان کا رخ ہو آزادی سے بہنے دیا جائے۔


مختصر یہ کہ رومانی ادیب اپنے جذبے اور وجدان کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہے۔ اسلوب اور خیالات دونوں میں اس کی روش تقلید کے مقابلے میں آزادی اور روایت کی پیروی سے بغاوت اور جدت کا میلان رکھتی ہے۔ رومانی ادیب حال سے زیادہ ماضی یا مستقبل سے دلچسپی رکھتا ہے۔ حقائق واقعی سے زیادہ خوش آئند تخیلات اور خوابوں کی اور عجائبات و طلسمات سے بھری ہوئی فضائوں کی مصوری کرتا ہے۔ دوپہر کی چمک اور ہرچیز کو صاف دکھانے والی روشنی کے مقابلے میں دھندلے افق چاندنی اور اندھیرے کی ملی جلی کیفیت اسے زیادہ خوش آئند معلوم ہوتی ہے۔ڈاکٹر محمد حسن رومانیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”رومانیت“ کا لفظ رومانس سے نکلا ہے۔ اور رومانس زبانوں میں اس کا طلاق اس قسم کی نثری منظوم کہانیوں پر ہوتا ہے جن میں انتہائی آراستہ و پرشکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سنائی جاتی تھیں جو عام طور پر دور وسطی کے جنگجو اور خطر پسند نوجوانوں کی مہات سے متعلق ہوتی تھیں۔ اس طرح اس لفظ کے تین خاص مفہوم ہیں۔
١)
عشق و محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رمانی کہا جانے لگا

٢) زبان کی بناوٹ ، سجاوٹ ، آراستگی اور محاکاتی تفصیل پسندی کو رومانی کہا جانے لگا۔
٣)

عہد وسطی سے وابستہ تمام چیزوں سے لگائو ، قدامت پسندی اور ماضی پرستی کو رومانی کا لقب دیا گیا۔
مغرب میں رومانیت

یورپ میں یہ تحریک کب اُبھری اس سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ تاہم یہ بات وثوق سے کہی جاتی ہے کہ یورپ میں اس تحریک کا دور عروج اٹھارویں صدی کے وسط تک محیط ہے۔ اس تحریک کو سب سے زیادہ مقبولیت فرانس ، انگلستان اور جرمنی میں حاصل ہوئی۔

ادبیات کے سلسلے میں اس لفظ کو سب سے پہلے 1781ءمیں وارٹن اور برڈ نے استعمال کیا۔ اس کے بعد 1820ءمیں گوئٹے اور شلر نے ادبیات کے سلسلے میں رومانیت کا اطلاق کرنا شروع کیا۔ لیکن بطور اصطلاح اسے مادام ڈی سٹائل اور شیگل نے رائج کیا۔ یورپ میں رومانیت کا سب سے بڑا علمبردار روسو کو تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ سب سے پہلے روسونے فردکی آزادی پر زور دیا۔ چنانچہ روسو کی اس بات کو رومانیت کا مطلع کہاجاتا ہے۔



” انسان آزاد پیدا ہوا ہے ، مگر جہاں دیکھو وہ پابہ زنجیر ہے۔“
روسو
کے خیال میں انسان کی ناخوشی کا سب سے بڑا سبب تصنع اور بناوٹ ہے ، اور اس چیز کو وجود میں لانے کا سبب تہذیب و تمدن ہے۔ روسو کے خیالات نے اہل یورپ کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ لیکن روسو کا میدان سیاست اور عمرانیات سے آگے نہیں بڑھا۔ جس کی وجہ سے ادب میں ان جدید رجحانات کی ابتداءبعد کے ادیبوں نے کی اور دھیرے دھیر اصول و ضوابط سے سرتابی کی روایت پیدا کی۔
اردو میں رومانیت

اردو میں رومانیت کی ابتداءاگرچہ انیسویں صدی کے آخری حصے میں ہو چکی تھی تاہم اسے فروغ بےسویں صدی کے پہلی جنگ عظیم کے بعد حاصل ہوا۔ اردو میں اس کاآغاز سرسید تحریک کے ردعمل کے طور پر ہوا۔ سرسید عقلیت ، مادیت اور حقائق نگاری پربہت زیادہ زور دیا اور فرد کی زندگی کی جذباتی اور رومانی پہلوئوں کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ کچھ عرصہ تک یہ سکہ چلتا رہا لیکن بالآخر سرسید کے عقلی اور مقصدی ادب کے خلاف رومانوی ادیبوں نے شدید احتجاج کیا اور اس طرح شعر و ادب کی دنیا میں نئی راہوں کی نشاندہی کی۔اور اُس وقت کے حالات اور مغربی علوم کی آمد نے اس تحریک کو آگے بڑھنے میں مزید مدد دی۔


علی گڑھ تحریک کی عقلیت اور مادیت کے خلاف ردعمل میں سر فہرست محمد حسین آزاد ، میر ناصر علی دہلوی اور عبدالحلیم شرر تھے۔ ان لوگوں نے ان اسالیب کو فروغ دینے کی کوشش کی جن میں ادیب کا تخیل جذبے کی جوئے تیز کے ساتھ چلتا رہے۔ لیکن آزاد کی رومانیت کسی ردعمل کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ان کی افتاد طبع کی نقیب ہے۔ جبکہ اس کے برعکس میر ناصر علی کا رومانی عمل شعوری نظرآتا ہے۔ میر ناصر علی نے سرسید احمد کان کے علمی و ادبی کارناموں پر نہ صرف تنقیدکی ہے بلکہ انہوں نے سرسید کی سنجیدہ نثر کا جامد خول توڑنے کے لئے انشاءپردازی کا شگفتہ اسلوب بھی مروج کرنے کی کوشش کی۔ اور انہوں نے سرسید کے مقابلے میں ”فسانہ ایام“، ”صدائے عام جسے رسالے نکالے۔ عہد سرسید میں شدید جذباتی رویے اور رومانی طرز احساس کی ایک اور مثال عبدالحلیم شرر ہیں۔ شرر نے مسلمانوں کے اجتماعی اضمحلال کے خلاف ردعمل پیش کیا اور اس شاندار ماضی میں آسودگی تلاش کی جس میں مسلمانوں کے جاہ و جلال اور ہیبت و جبروت نے مشرق و مغرب کی طنابیں کھینچ رکھی تھیں۔
رسالہ مخزن

سرعبدالقادر نے بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یعنی 1901 میں لاہور سے ماہنامہ مخزن جاری کیا۔ جسے اردو کی عملی و ادبی رسائل میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس رسالے کی اشاعت سے نہ صرف یہ کہ رومانیت کی تحریک کو تقویت ملی بلکہ بعد میں آنے والی تحریکوں کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ اس رسالے میں اپنے دور کے تمام رومانیت پسندوں نے لکھا اور اس رسالے نے بہت سے ادبیوں کو اردو دان طبقے سے روشناس کرایا۔
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Farrah Zafar (Friday, April 06, 2012), Hamidullah Gul (Friday, April 06, 2012)