جدیدیت کی تحریک یا رحجان
(Modernism)
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب کہ ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی ، اس کے محاذی ایک اور تحریک پروان چڑھی ۔ اس کا نام توخیر بہت بعد میں '' جدیدیت '' یعنی (Modernism) پڑا ۔ لیکن ترقی پسندی کی مخالفت میں لاہور کے ''حلقہ ئ ارباب ِ ذوق '' والے اس میں پیش پیش تھے ۔
حلقہ ئ اربابِ ذوق میں ... میرا جی ، ن.م.راشد ، مختار صدیقی ، تصدق حسین خالد ، قیوم نظر وغیرہ شامل تھے ۔ اُن شعراء / ادباء کا یہ نظریہ تھا کہ ... ادب کو کسی نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ انکشافِ ذات اور اپنی داخلی کیفیات کے اظہار کو نمایاں کرنا چاہئے۔
یہ لوگ علامت پسندی اور اشاریت پسندی کے قائل تھے ۔ جب تک ترقی پسندوں کا بول بالا تھا ، یہ تحریک پروان نہیں چڑھی ۔ لیکن 1960ء سے اِس رحجان کا احیاء (Revival) ہوا ۔ شمس الرحمٰن فاروقی (مدیر ، ماہنامہ ''شب خون '' الہ آباد) نے اِس رحجان کو ''جدیدیت '' کا نام دیا ۔
ایک لحاظ سے یہ تحریک یا رحجان ، ترقی پسندوں کے ردّ عمل کا نتیجہ تھا ۔ بہت سے ترقی پسند ادیب و شاعر بھی منحرف ہو کر '' جدیدیت'' سے وابستہ ہو گئے ۔