View Single Post
  #17  
Old Monday, April 16, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

دبستان دہلی


اورنگزیب کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا معظم تخت نشین ہوا لیکن اس کے بعد معظم کے بیٹے معز الدین نے اپنے بھائی کو شکست دے کر حکومت بنائی۔ معز الدین کے بھتیجے ”فرخ سیر “ نے سید بردران کی مدد سے حکومت حاصل کی لیکن سید بردران نے فرخ سیر کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اس طرح 1707ءسے لے کر 1819ءتک دہلی کی تخت پر کئی بادشاہ تبدیل ہوئے۔ محمد شاہ رنگیلا عیاشی کے دور میں نادرشاہ درانی نے دہلی پر حملہ کردیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ پھر احمد شاہ ابدالی کے حملے نے مزید کسر بھی پوری کر دی ۔ دوسری طرف مرہٹے ، جاٹ اور روہیلے آئے دن دہلی پر حملہ آور ہوتے اور قتل عام کرتے اس دور میں کئی بادشاہ بدلے اور مغل سلطنت محدود ہوتے ہوتے صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی ۔اور آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے معزول کر کے رنگوں بھیج دیا۔ یہ تھی دہلی کی مختصر تاریخ جس میں ہماری اردو شاعری پروان چڑھی ۔ یہ ایک ایسا پرآشوب دور تھا جس میں ہر طرف بدنظمی ، انتشاراور پستی کا دور دورہ تھا۔ ملک میں ہر طرف بے چینی تھی۔

خصوصیات

زبان میں فارسیت:۔

دبستا ن دہلی کے شعراءکے ہاں فارسیت کا بہت غلبہ تھا کیونکہ شعرائے دہلی فارسی کی شعری روایت سے متاثر تھے اور ان پر فارسی شعراءکا گہرا اثر تھا۔ ایران سے جو شعراءآتے تھے ان میں سے اکثر یہاں ہی رہ جاتے تھے۔ چنانچہ ، خسرو ، حسن ، عرفی ،نظیری ، طالب ، صائب اور بیدل وغیرہ مختلف ادوار میں یہاں رہے۔ اس کے علاوہ یہاں فارسی شعراءکی زبا ن تھی ۔ نیز یہاں کے شعرا ءاردو اور فارسی زبانوں میں دسترس رکھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ فارسی اسالیب و موضوعات وغیر ہ دہلی کے دبستان شاعری میں شامل ہو گئے۔ اس طرح بہت سے شعراء نے فارسی شعراءسعدی ، وحافظ کا ترجمہ کیا۔ اور خزانہ اردو کو مالا مال کیا۔ اس طرح دبستان دہلی کی شاعری میں فارسیت کا غلبہ ہے۔


جذبات عشق کا اظہار:۔

ٍ دبستان دہلی کے شعراءکے ہاں جذبات و احساسات کے اظہار پر زیادہ زور ہے۔ دبستان دہلی کے شعراءنے عشق کے جذبے کو اولیت دی ۔ بقول ڈاکٹر نور الحسن شعرائے دہلی کو اس بات کی پروا نہیں تھی کہ ان کا اسلوب بیان اور طرز ادا خوب تر ہو بلکہ ان کی کوشش تھی کہ شاعری میں جذبات و احساس کا اظہار ہو جائے ۔ اس لئے بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا شاعر کو عشق سے عشق ہو گیا ہے۔ دہلی کے کچھ شعراءعشق مجازی سے گزر کر عشق حقیقی سے سرشار ہوئے ۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے لو لگائی اور فیضان عشق کی بدولت ان میں ایسی بصیرت پیدا ہوئی کہ وہ تمام بنی نوع انسان سے محبت کرنے لگے ۔ جبکہ کچھ لوگ عشق مجازی کی منزل پر رک گئے۔ چنانچہ ان کی شاعر ی میں محبت کا سوز اور تڑ پ موجود ہے۔ جبکہ کچھ لوگ نفس پر قابو نہ پا سکے اور وہ ابولہوسی میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ چنانچہ دہلی میں عشق کے یہ تینوں مدارج موجود ہیں۔مثلاً درد جیسے شاعروں نے صوفی شاعری کی اور عشق حقیقی کو اپنی شاعر ی کا موضوع بنایا ۔

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے


جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں

عشق مجازی:۔

عشق کا دوسرا انداز جو دہلی میں بہت مقبول ہوا اس میں عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی کے جذبات بھی شامل ہوگئے ۔ یہ رنگ میرتقی میر نے بہت خوبی سے نبھایا ۔ ان کے جذبہ عشق میں وہ خلوص اور گہرائی تھی جس نے ان کی شاعری کوحیات جاوداں عطا کی۔ عشق کا یہ تیکھا انداز دبستان دہلی سے مخصوص ہے۔ عشق مجازی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔ جن میں دہلی کے تمام شعراءنے بڑی خوبصورتی سے ان جذبات کو شاعری کا روپ دیا ہے۔
پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
حزن و یاس :۔

دبستان دہلی کی شاعری کی ایک اور نمایاں خصوصیت رنج و الم اور حزن و یاس کا بیان ہے۔ دبستان دہلی کی شاعری کا اگر بحیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ دبستان دہلی کی شاعری میں یاس و ناامیدی کے جذبات بکثرت موجود ہیں۔ شاعرخواہ کسی موضوع پر بات کرے رنج و الم کا ذکرضرور آجاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس سارے دور میں کسی کو اطمینان و سکون نصیب نہ تھا۔ زندگی ایک خواب پریشاں بن کر رہ گئی تھی۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم تھا۔ کسی شے کو ثبات نہ تھا۔ ان حالات کا شاعری پر بھی گہرا عکس نظرآتا ہے۔ خارج میں تباہی و بربادی پھیلی ہوئی تھی اور تباہی و بربادی کے تاریک سائے شاعری میں بھی راہ پاتے ہیں۔ چنانچہ فنا کا احساس بہت تیز ہے۔ اس کے ساتھ اجڑے ہوئے شہر ، لٹے ہوئے نگر اور ویران گزر گاہیں جا بجا موجود ہیں۔ خصوصاً میر و سودا کے دور میں زندگی کی ناپائیداری کا احساس بہت شدت سے اظہار کی راہ پاتا ہے۔ چنانچہ حزن و یاس کے چند شعر ملاحظہ ہوں:
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا


اس حزن و یاس کی فضاءکے بارے میں نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ

” ظاہر ہے دہلی کی شاعری یک سر جذبات کی زبان و گفتگو ہے اور جذبات بھی وہی ہیں جن کا تعلق زیادہ تر حرماں و مہجوری و ناکامی سے ہے۔“
تصوف:۔

واردات قلبی کے اظہار کے بعد دبستان دہلی کے شعراءکا دوسرا محبوب ترین موضوع تصوف ہے۔ چونکہ ابتداءمیں اردو شاعری پر فارسی شاعری کی شعری روایت کا بہت زیادہ غلبہ رہا ہے جس کی وجہ سے اردو شعراءنے غیرشعوری طور پر فارسی شاعری کے اسالیب، سانچے ، اور موضوعات قبول کر لئے۔ دوسری طرف اس موضوع کو اس لئے بھی مقبولیت ملی کہ کہ تصوف میں بھی قناعت ، صبر و توکل اور نفی ذات کے نظریات نے زیادہ زور پکڑا کیونکہ اس زمانے کے حالات ہی ایسے تھے جن کی بناءپر لوگ ترک دنیا کی طرف مائل ہو رہتے تھے ۔ اس زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ تصوف برائے شعر گفتن خوب است
ان میں کچھ تو صوفی شعراءتھے لیکن زیادہ تر شعراءنے محض رسمی طور پر تصوف کے مضامین کو نظم کیا۔ چنانچہ ذوق اور غالب کے زمانے تک تقریباً ہر شاعر کے کلام میں تصوف کے مضامین نظرآتے ہیں۔ تصوف کی مقبولیت کا دوسرا سبب یہ تصورات و اقدار تھے جو ہندوستان کی فضاءمیں رچے بسے ہوئے تھے ۔ جن کی بدولت انہوں نے تصوف کو موضوع بنایا۔
مسافر اٹھ تجھے چلنا ہے جانب منزل
بجے ہیں کوچ کا ہر دم نقارہ شاہ حاتم

اسے کو ن دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

رمزیت اور اشاریت:۔

تصوف کی بدولت اردو شاعری میں بڑی وسعت پیدا ہوئی چنانچہ بقول ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی ،
” دہلی میں تصوف کی تعلیم اور درویشی کی روایت نے خیالات میں بلندی اور گہرائی پیدا کی اور اسلوب میں متانت و سنجیدگی کو برقرار رکھا۔ تصوف کے روایات نے شاعری کو ایک اخلاقی لب و لہجہ دیا اور ابتذال سے دور رکھا۔
مسائل تصوف نے اردو غزل کو رمز و کنایہ کی زبان دی، پیر مغاں ، گل ، بلبل ، چمن ، شمع ، پروانہ ، میکدہ ، اسی طرح کی اور بہت سی علامتیں تصوف کے راستے اردو شاعری میں داخل ہوئیں ۔ تصوف نے اردو شاعری کو فکری پہلو بھی دیا اور استغنا کا درس دے کر دربارداری سے الگ رکھا۔ مزاجوں میں خوداری اور بے نیازی پیدا کی ۔ تصوف کی بدولت اردو شاعری میں جو رمزیت اور اشاریت آئی اس سے شعراءنے بہت فائدہ اٹھایا اور چند لفظوں میں معنی کی دنیائیں آباد کیں۔ ذیل کے اشعار دیکھئے کہ پردوں میں کتنے جہاں آباد دکھائی دیتے ہیں۔
ساقی ہے اک تبسم گل ، فرصت بہار
ظالم بھرے ہے جام تو جلدی سے بھر کہیں
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے کو گہر ہونے تک

داخلیت:۔

دبستان دہلی کی شاعری کا ایک اور نمایاں پہلو داخلیت ہے۔ داخلیت سے مراد یہ ہے کہ شاعر باہر کی دنیا سے غرض نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے دل کی واردات کا اظہار کرتا ہے۔ اگر باہر کی دنیا کے متعلق کچھ کہتا ہے تو اُسے بھی شدید داخلیت میں ڈبو کر پیش کرتا ہے۔ یہ داخلیت دہلی کے ہر شاعر کے یہاں ملتی ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیں کہ شعرائے دہلی کے ہاں خارجیت بالکل نہیں ہے۔ خارجیت بھی ہے۔ لیکن داخلیت میں واردات قلبی یعنی عشق و محبت کے مضامین اور ان مصائب کا بیان شعرائے دہلی نے نہایت خوش اسلوبی سے کیاہے۔
پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا

واقعیت و صداقت:۔

دبستان دہلی کی ایک خصوصیت واقعیت و صداقت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان شعراءکے ہاں مبالغہ وغیرہ کم ہے۔ ان شعراءنے مبالغہ سے زیادہ کام نہیں لیا اگرچہ مبالغہ کا استعمال شاعری میں برا نہیں ہے لیکن جس بھی کسی چیز کا استعمال حد سے تجاوز کر جائے تو پھر اُسے مناسب و موزوں نہیں سمجھا جاتا ۔ اسی طرح حد سے زیادہ مبالغہ شاعری کو مضحکہ خیز بنا دیتا ہے۔ شعراءدہلی کے ہاں اعتدال پایا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ صداقت کے اظہار کے لئے پر تکلف زبان کو بھی موزوں سمجھا جاتا ہے۔
ہر گھڑی کان میں و ہ کہتا ہے
کوئی اس بات سے آگاہ نہ ہو
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے

سادگی:۔

شعرائے دہلی کے ہاں زبان میں بھی سادگی ، صفائی اور شستگی پائی جاتی ہے۔ شعرائے دہلی نے جس طرح مضامین میں واقعیت و صداقت کو مدنظر رکھا ہے۔ اسی طرح زبان بھی سادہ اور عام فہم استعمال کی ہے۔ اگرچہ ان شعراءنے صنعتوں کا استعمال کیا ہے لیکن وہ صنعت برائے صنعت کے لئے نہیں ہے۔ اس کے بجائے ان شعراءنے معنوی حسن کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں تشبیہ اور استعارے کا استعمال حد سے آگے نہیں بڑھتا۔
میراُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

اختصار:۔

شعرائے دہلی کے کلام میں جہاں زبان میں سلاست و روانی کا عنصر نمایاں ہے وہاں اختصار بھی ہے۔ اس دور میں دوسری اصناف کے مقابلے میں غزل سب سے زیادہ نمایاں رہی ہے۔ اور غزل کی شاعری اختصار کی متقاضی ہوتی ہے۔ اس میں نظم کی طرح تفصیل نہیں ہوتی بلکہ بات اشاروں کنایوں میں کی جاتی ہے۔ اس لئے ان شعراءکے ہاں اختصار ملتا ہے۔ نیز غزل کا مخصوص ایمائی رنگ بھی موجود ہے۔ یہاں کے شعراءاپنے دلی جذبات و احساسات کو جو ں کا توں بڑی فنکاری سے پردے ہی پردے میں پیش کر دیتے ہیں۔ اسی با ت کا ذکر کرتے ہوئے محمد حسن آزاد لکھتے ہیں کہ : ان بزرگوں کے کلام میں تکلف نہیں جو کچھ سامنے آنکھوں کے دیکھتے ہیں اور اس سے خیالات دل پر گزرتے ہیں وہی زبان سے کہہ دیتے ہیں۔ اس واسطے اشعار صاف اور بے تکلف ہیں۔
ہم نشیں ذکر یار کر کچھ آج
اس حکایت سے جی بہلتا ہے

دل مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا بے

مجموعی جائزہ:۔

دہلویت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی لکھے ہیں کہ” دہلویت کا ایک خاص افتاد ذہنی یا مزاج شعری کا نام نہیں ہے جس کا اظہار مخصوص تمدن و شہری اثرات کی وجہ سے ہوا۔ دہلی کا شاعر غم ِ روزگار کا ستایا ہوا غم عشق کا مارا ہواہے۔ اسی لئے اس کے کلام میں دونوں کی کسک اور کھٹک پائی جاتی ہے۔ سیاسی حالات نے اسے قنوطی بنایا، تصوف نے اس میں روحانیت پیدا کی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی نصب العین اور تصور عطا کیا ۔ اسی نے اس کی آنکھیں اندر کی طرف کھولیں۔

Reply With Quote
The Following User Says Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Monday, April 16, 2012)