View Single Post
  #18  
Old Monday, April 16, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default dabistan lakhnau

دبستان لکھنو


لکھنویت سے مراد شعرو ادب میں وہ رنگ ہے جو لکھنو کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا۔ اور اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو شاعری اور دہلوی شاعری سے مختلف ہے۔ جب لکھنو مرجع اہل دانش و حکمت بنا تو اس سے پہلے علم وادب کے دو بڑے مرکز شہرت حاصل کر چکے تھے۔ اور وہ دکن اور دہلی تھے۔ لیکن جب دہلی کا سہاگ لٹا ۔ دہلی میں قتل و غارت گری کا بازار گر م ہوا تو دہلی کے اہل علم فضل نے دہلی کی گلیوں کو چھوڑنا شروع کیا جس کی وجہ سے فیض آباد اور لکھنو میں علم و ادب کی محفلوں نے فروغ پایا۔



پس منظر:۔

سال1707 اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اُن کے جانشین اپنے تخت کے لئے خود لڑنے لگے ۔ ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے مرکز مزید کمزور ہوا۔ اور باقی کسر مرہٹوں ، جاٹوں اور نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے پوری کر دی۔
سال1722ءمیں بادشاہ دہلی نے سعادت علی خان کو اودھ کا صوبیدار مقر ر کیا ۔ مرکز کی کمزوری سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے جلد ہی سعادت علی خان نے خود مختاری حاصل کر لی۔ اور اودھ کی خوشحالی کے لئے بھر پور جدوجہد کی جس کی بنا پر اودھ میں مال و دولت کی فروانی ہوئی ۔
صفدر جنگ اور شجاع الدولہ نے اودھ کی آمدنی میں مزید اضافہ کیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوششیں کیں ۔ آصف الدولہ نے مزید اس کام کو آگے بڑھایا۔ لیکن دوسری طرف دہلی میں حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ امن و سکون ختم ہو گیا۔ تو وہاں کے ادباءو شعراءنے دہلی چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اور بہت سے شاعر لکھنو میں جا کر آبا د ہوئے۔ جن میں میرتقی میر بھی شامل تھے۔
دولت کی فروانی ، امن و امان اور سلطنت کے استحکام کی وجہ سے اودھ کے حکمران عیش و نشاط اور رنگ رلیوں کے دلدادہ ہوگئے ۔ شجاع الدولہ کو عورتوں سے خصوصی رغبت تھی جس کی بناءپر اس نے محل میں بے شمار عورتوں کو داخل کیا۔ حکمرانوں کی پیروی امراءنے بھی کی اور وہ بھی اسی رنگ میں رنگتے گئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بازاری عورتیں ہر گلی کوچے میں پھیل گئیں۔ غازی الدین حیدر اور نصیر اور نصیر الدین حیدر نے آبائو اجداد کی پیروی جاری رکھی اور واجد علی شاہ نے تو اس میدان میں سب کو مات دے دی۔
سلاطین کی عیش پسندی اور پست مذاقی نے طوائف کو معاشرے کا اہم جز بنا دیا۔ طوائفوں کے کوٹھے تہذیب و معاشرت کے نمونے قرار پائے جہاں بچوں کو شائستگی اور آداب محفل سکھانے کے لئے بھیجا جانے لگا۔

شعرو ادب پر اثرات:۔

عیش و نشاط ، امن و امان اور شان و شوکت کے اس ماحول میں فنون نے بہت ترقی کی۔ راگ رنگ اور رقص و سرور کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ دہلی کی بدامنی اور انتشار پر اہل علم و فن اودھ اورخاص کر لکھنو میں اکھٹا ہونا شروع ہوگئے۔ یوں شاعری کا مرکز دہلی کے بجائے لکھنو میں قائم ہوا۔ دربار کی سرپرستی نے شاعری کا ایک عام ماحول پیدا کر دیا۔ جس کی وجہ سے شعر و شاعری کا چرچا اتنا پھیلا کہ جابجا مشاعرے ہونے لگے ۔ امرا ءروساءاور عوام سب مشاعروں کے دیوانے تھے۔ابتداءمیں شعرائے دہلی کے اثر کی وجہ سے زبان کا اثر نمایاں رہا لیکن، آہستہ آہستہ اس میں کمی آنے لگی ۔ مصحفی اور انشاءکے عہد تک تو دہلی کی داخلیت اور جذبات نگاری اور لکھنو کی خارجیت اور رعایت لفظی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ لکھنو کی اپنی خاص زبان اور لب و لہجہ بھی نمایاں ہوتا گیا۔ اور یوں ایک نئے دبستان کی بنیاد پڑی جس نے اردو ادب کی تاریخ میں دبستان لکھنو کے نام سے ایک مستقل باب کی حیثیت اختیار کر لی۔
خصوصیات:۔

اکثر و بیشتر نقادوں نے دبستان لکھنوکی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دلی کے مقابلے میں لکھنو کی شاعر ی میںخارجیت کا عنصر نمایاں ہے۔ واردات قلبی اور جذبات و احساسات کی ترجمانی اور بیان کے بجائے شعرائے لکھنوکا زیادہ زور محبوب کے لوازم ظاہری اور متعلقات خارجی کے بیان پر ہے۔ دوسری بات یہ کہ لکھنوی شاعری کا دوسرا اہم عنصر نسائیت ہے۔ اس کے علاوہ معاملہ بندی، رعائیت لفظی ، صنعت گری اور تکلفات پر زیادہ زور ہے ذیل میں ہم اس کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔


خارجیت اور بیروں بینی:۔

دلی کی شاعری کے مقابلے میں لکھنو کی شاعری فکر اور فلسفے سے بالکل خالی ہے۔ نتیجتاً اس میں گہرائی مفقود ہے۔ اور ظاہرداری پر زور ہے۔ دروں بینی موجود نہیں۔ سوز و گداز کی شدید کمی ہے۔ خارجیت اور بیروں بینی کے مختلف مظاہر البتہ نمایاں ہیں لکھنو کی شاعری میں واردات قلبی کے بجائے سراپا نگاری پر زور ہے۔ ان کی شعری خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے سید وقار عظیم لکھتے ہیں،
” لکھنویت تکلف اور تصنع کا دوسرا نام ہے۔ جہاں شاعر محسوسات اور واردات کی سچی دنیا کو چھوڑ کر خیال کی بنی ہوئی رنگین فکر کی پیدا کی ہوئی پر پیج راہوں پر چل کر خوش ہوتا ہے۔
اس کاسبب یہ بتایا گیا ہے۔ کہ لکھنو کی ساری زندگی میں ظاہر پر اس قدر زور تھا کہ شعراءکو دروں بینی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ ان کی نظروں کے سامنے اتنے مناظر تھے کہ ان کے دیکھنے سے انہیں فرصت ہی نہیں ملی تھی۔
ایسے میں دل کی کھڑی کھول کرمیر کی طرح اپنی ذات کے اندر کون جھانکتا۔ جب انھوں عیش و عشرت اور آرائش و زیبائش کی محفلوں سے فرصت نہیں تھی
مضمون آفرینی:۔

دبستان لکھنو کی شاعری کی دوسری نمایاں خصوصیت مضمون آفرینی ہے۔ مضمون آفرینی کا مطلب یہ ہے کہ شاعر روایتی مضامین میں سے نئے مبالغہ آمیز اور عجیب و غریب پہلو تلا ش کر لیتا ہے۔ ایسے مضامین کی بنیاد جذبے کے بجائے تخیل یا واہمے پر ہوتی ہے۔ شعراءلکھنو نے اس میدا ن میں بھی اپنی مہارت اور کمال دکھانے کا بھر پور مظاہر ہ کیا ہے۔ اس کی چند مثالیں مندرجہ زیل ہیں۔
گلبرگ تر سمجھ کے لگا بیٹھی ایک چونچ
بلبل ہمارے زخم جگر کے کھرنڈ پر

معاملہ بندی:۔

سراپا نگاری اور مضمون آفرینی کے علاوہ دبستان لکھنو کی شاعری کی ایک اور خصوصیت جس کی نشان دہی نقادوں نے کی ہے وہ معاملہ بندی ہے۔ چونکہ دلی کی تباہی کے وقت لکھنو پر امن تھا۔ دولت کی ریل پیل تھی۔ لوگ خوشحال اور فارغ البال تھے۔ بادشاہ وقت امراء، وزراءاور عوام الناس تک سب عیش و عشرت میں مبتلا تھے۔ خصوصاً طوائف کو اس ماحول میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ چنانچہ ماحول کے اثرات شاعری پر بھی پڑے جس کی وجہ سے بقول ڈاکٹر ابوللیث صدیقی جذبات کی پاکیزگی اور بیان کی متانت جو دہلوی شاعری کا امتیازی نشان تھی یہاں عنقا ہوگئی۔ اس کی جگہ ایک نئے فن نے لے لی جس کا نام معاملہ بندی ہے۔ جس میں عاشق اور معشوق کے درمیان پیش آنے والے واقعات پردہ دروں، کو کھول کر بیان کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ایسے اشعار خال خال دہلوی شعراءکے ہاں بھی موجود ہیں اور یہ بات بھی درست ہے کہ اس فن میں جرات پیش پیش تھے جو دلی سے آئے تھے۔ لیکن لکھنو کا ماحول ان کو بہت راس آیا۔ چنانچہ ان کے ساتھ لکھنو کے دیگر شعراءنے جی بھر کر اپنے پست جذبات کو نظم کیا۔ ان کی گل افشانی کے چند نمونے ملاحظہ ہوں،
کچھ اشارہ جوکیا ہم نے ملاقات کے وقت
ٹال کر کہنے لگا دن ہے ابھی رات کے وقت

رعایت لفظی:۔

دبستان لکھنو کی ایک اور خصوصیت رعایت لفظی بتائی جاتی ہے اس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا لکھتے ہیں۔
” لکھنو کا معاشرہ خوش مزاج، مجلس آراءاور فارغ البال لوگوں کا معاشرہ تھا۔ مجلس زندگی کی جان لفظی رعایتیں ہوتی ہیں۔ مجلوں میں مقبول وہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں زبان پر پوری قدرت ہو اور لفظ کا لفظ سے تعلق ، اور لفظ کا معنی سے رشتہ پوری طرح سمجھتے ہوں ۔ لفظی رعایتیں محفل میں تفریح کا ذریعہ ہوتی ہیں، اور طنز کو گوارا بناتی ہیں۔
لکھنو میں لفظی رعایتوں کا از حد شوق تھا۔ خواص و عوام دونوں اس کے بہت شائق تھے ۔ روساءاور امراءتک بندیاں کرنے والوں کو باقاعدہ ملازم رکھا کرتے تھے۔ ان ہی اسباب کی بناءپر لکھنوی شاعری میں رعایت لفظی کی بہتات ہے اور لفظی رعایتیں اکثر مفہو م پر غالب آجاتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات محض لفظی رعایت کو منظوم کرنے کے لئے شعر کہا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر

قبر کے اوپر لگایا نیم کا اس نے درخت
بعد مرنے کے میری توقیر آدھی رہ گئی


طویل غزلیں:۔

لکھنوی شاعری کی ایک اور نمایاں بات طویل غزلیں ہیں۔ اگرچہ اس میں شبہ نہیں کہ ابتداءجرات مصحفی نے کی جو دلی دبستا ن سے تعلق رکھتے تھے۔ جو دلی کی تباہی کے بعد لکھنو جا بسے تھے۔ لیکن لکھنوی شعراءنے اس کو زیادہ پھیلایا اور بڑھایا اور اکثر لکھنوی شعراءکے ہاں طویل غزلیں بلکہ دو غزلہ ، اور سہ غزلہ کے نمونے ملتے ہیں۔اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے۔ کہ لکھنو کے اس دور میں پرگوئی اور بدیہہ گوئی کو فن قرار دے دیا گیا تھا۔ نیز لوگ قافیہ پیمائی کو عیب نہیں سمجھتے تھے۔ اس لئے طویل غزلیںبھی لکھی جانے لگیں چنانچہ ٥٢۔٠٣١ اشعار پر مشتمل غزلیں تو اکثر ملتی ہیں۔ بلکہ بقول ڈاکٹر خواجہ زکریا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ طویل غزلیں بھی لکھی جاتی تھیں۔
قافیہ پیمائی:۔

طویل غزل سے غزل کو فائدے کے بجائے یہ نقصان ہوا کہ بھرتی کے اشعار غزل میں کثرت سے شامل ہونے لگے۔ شعراءنے زور کلام دکھانے کے لئے لمبی ردیفیں اختیار کرنی شروع کر دیں جس سے اردو غزل میں غیر مستعمل قافیوں اور بے میل ردیفوں کا رواج شروع ہوا۔ معمولی قافیوں اور ردیفوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا نے لگا ۔ اس نے قافیہ پیمائی کا رواج شروع ہوا۔ ذیل میں بے میل ردیفوں سے قافیوں کی چند مثالیں درج ہیں۔

انتہائی لاغری سے جب نظرآیا نہ میں
ہنس کر کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیے



بات طویل غزلوں اور ، بے میل ردیفوں اور قافیوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ شعراءلکھنو نے اپنی قادر الکلامی اور استادی کا ثبوت دینے کے لئے سنگلاخ زمینوں میں بھی طبع آزمائی کی۔
پیچ دار تشبیہ اور استعارے کا استعمال:۔

اگرچہ تشبیہ اور استعارے کا استعمال ہر شاعر کرتا ہے لیکن یہ چیز اس وقت اچھی معلوم ہوتی ہے جب حد اعتدال کے اندر ہو۔ شعراءدلی کے ہاں بھی اس کا استعمال ہوا لیکن لکھنو والوں نے اپنی رنگین مزاجی کی بدولت تشبیہوں کا خوب استعمال کیا اور اور ان میں بہت اضافہ کیا۔ محسن کاکوروی ، میرانیس ، نسیم ، دبیر ، نے پرکیف ، عالمانہ اور خوبصورت تشبیہیں برتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی شعراءصرف تشبیہ برائے تشبیہ بھی لے آئے ہیں جس سے کلام بے لطف اور بے مزہ ہو جاتا ہے۔
سبزہ ہے کنارے آب جو پر
یاخضر ہے مستعد وضو پر


محو تکبر فاختہ ہے
قد و قامت سر و دلربا ہے

نسائیت:۔

ڈاکٹر ابوللیث صدیقی نے لکھنوی دبستان کی شاعری کاایک اہم عنصر نسائیت بتایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہر زمامے ہر قصہ اور ہر زبان میں عورت شاعری کا بڑا اہم موضوع رہا ہے۔ لیکن لکھنو کی سوسائٹی میں عورت کو اہم مقام حاصل ہو گیا تھا۔ اس نے ادب پر بھی گہرا اثرا ڈالا۔ اگر یہ عورتیں پاک دامن اور عفت ماب ہوتیں تو سوسائٹی اور ادب دنوں پر ان کا صحت مند اثر پڑتا لیکن یہ عورتیں بازاری تھیں ۔ جو صرف نفس حیوانی کو مسسل کرتی تھیں ۔ جبکہ دوسری طرف عیش و عشرت اور فراغت نے مردوں کو مردانہ خصائل سے محروم کرکے ان کے مردانہ جذبات و خیالات کو کمزور کر دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مردوں کے جذبات خیالات اور زبان پر نسائیت غالب آگئی ۔ چنانچہ ریختہ کے جواب میں ریختی تصنیف ہوئی۔ اس کا سہرا عام طور پر سعادت یا ر خان رنگین کے سر باندھا جاتا ہے۔ رنگین کے بعد انشاءاور دوسرے شعراءنے بھی اسے پروان چڑھایا ۔ ان شعراءکے ہاں ریختی کے جو نمونے ملتے ہیں ان میں عورتوں کے فاحشانہ جذبات کو ان کے خاص محاوروں میں جس طرح ان لوگوں نے نظم کیا ہے وہ لکھنو کی شاعری اور سوسائٹی کے دامن پر نہ مٹنے والا داغ بن کر رہ گیا ہے۔
سوز و گداز:۔

اس ساری بحث سے ہر گز یہ مقصود نہیں کہ لکھنوی شعراءکے ہاں اعلی درجے کی ایسی شاعری موجود نہیں جو ان کے سوز و گداز جذبات اور احساسات اور واردات قلبیہ کی ترجمان ہو ۔ تمام نقادوں نے اس بات کی تائید کی ہے بلکہ عذلیب شادنی جنہوں نے لکھنوی شاعری کے خراب پہلوئوں کو تفصیل کے ساتھ نمایاںکرکے پیش کیا ہے وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شعرائے لکھنوکے ہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو پڑھنے والے کے دل پر گہرااثر چھوڑتے ہیں۔ ایسے نمونے ناسخ اور آتش کے علاوہ امانت اور رند وغیرہ کے ہاں سب سے زیادہ ملتے ہیں۔ یہاں اس بات کے ثبوت میں مختلف شعراءکا کلام سے کچھ مثالیں
رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے نہ کوئی
دل ہی دل میں اسے ہم یاد کیا کرتے ہیں



آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل

مجموعی جائزہ:۔

اردو ادب میں دونوں دبستانوں کی اپنے حوالے سے ایک خاص اہمیت ہے۔ دبستان لکھنو نے موضوعات کے بجائے زبان کے حوالے سے اردو ادب کی بہت خدمت کی اور ناسخ کی اصلاح زبان کی تحریک نے اردو زبان کو قواعد و ضوابط کے حوالے سے بہت زیادہ ترقی دی ۔ جبکہ دبستان ِ لکھنو کا اثر دہلی کے آخری دور کے شعراءغالب ، مومن ، ذوق پر بھی نمایاں ہے۔
Reply With Quote