View Single Post
  #2  
Old Saturday, April 21, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

علامہ اقبال (رح) اردو شاعری کے لامثال مجّدد

بقلم: فدا حسین بالہامہ سرینگر

انسان کی رقیق القلبی،نزاکتِ احساس اورتخلیقی تجسس کی بدولت فنونِ لطیفہ وجود میں آئے۔ لطیف خیالات ان نوزائید فنہائے دقیق کے واسطے شیرِمادرکی مانند ابتدائی غذاءکے طور استعمال ہوئے۔اہل فن نے الفاظ کا دلکش وباریک اور رنگین لباس پہناکر غنائیت کے جھولے میں جھلایا۔ نیز اپنے تمام جوہر، فن شاعری پر نثار کردیئے۔ غرض ایک شفیق ماں کی طرحپالا پوسا۔ نتیجتاً اسکی محبت میں مبتلاءہوئے۔ فن کو جو چیز بھی اچھی لگی، ا سکی خدمت میں پیش کردی۔وارفتگانِ شعروشاعری، اپنے ہی پروردہ فن کے عشق میں اس قدرمبتلاءہوئے۔ کہ اپنے اس محبوب کی ہر پسند کے سامنے وجدانی شعور خوب وذشت کو بالائےطاق رکھا۔" شراب و شباب" کی دو لفظی معجون فنِ شاعری کی وارفتہ مزاجی کو بھاگئی۔شعراءنے بھی اس معجون کا خوب استعمال کیا۔ کسی بھی روایتی شاعر کا دیوان کھولنے پرقاری محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ میخانے میں داخل ہوگیا۔

اکثرشعراحضرات بھی اس عجیب
احساس کمتری کے شکار ہو گئے کہ روایتی ڈگر کو چھوڑنا دنیائے شعر میں خود کشی کےمترادف ہے۔ اور اس دنیا میںابدی زندگی سے ہمکنار ہونے کے لئے لازم ہے کہ شاعر مے کوآب ِ حیات کا درجہ دے اس کی تعریف میں الفاظ کے دریا بہا دے ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہجوادی کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ"بہترین شعروہی مانا جاتا تھا جوشراب کے مٹکے سے نکالا گیا ہو"۔ حسن پرستی کا رحجان بھی اردو ادب میں باقی تمام اہم موضوعات کے لئے سم قاتل ثابت ہوا دن رات حسن کی تعریف میں مشغول شاعر کو فرصت کہاں،کہ وہ دیگر مضامین کی طرف دھیان دے سکے۔ اکثر شعراءنے غم دوراں پر غمِ جاناںکو ترجیح دی۔ اور شراب کو آب حیات سے اولیٰ جانا۔ پیمانہ شراب، شاعری کاپیمانہ قرارپایا۔ روایت شکن غالب نے بھی پیمانے کی اس بندش کو بارہامحسوس کیاہے۔

ہر چندکہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے، بادہ و ساغر کہے بغیر


ادب کی معروف صنف یعنی غزل حسن اور معشوق پرستی کے لئے وقف ہوئی۔ "حسن زن" کے متعلق جس قدر ہمارےیہاں ادب میں مدح سرائی ملتی ہے اُس کے مقابلے میں" خالقِ زَن " کے حمد کا حصہعشر ِعشیر بھی نہیں۔ اہل ہنر نے اس صنفِ نازک کے ہر منفی و مثبت پہلو کو ابھارا۔ صرف شاعری ہی میں نہیں تقریباً ہر فنِ لطیف میں یہ بات مشترک ہے کہ اہل ہنر کے تخیل کےشیش محل میں عورت کی جلوہ گری تمام موزوعات پر چھائی رہتی ہے۔ بقولِ اقبال


ہندکے شاعرو صورت گر و افسانہ نویس آہ!
بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

اس بات کوتسلیم کرنے میں اہل ِفن پس و پیش کرتے تھے کہ شاعر انسانی فکر کی اصلاح کا فریضہ اثرانگیز طریقے سے انجام دے سکتاہے۔ بقول علامہ اقبال شاعر سماجی جسم میں دیدہ بینا کیحیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی اس سماج میں سے کوئی عضو درد میں مبتلاءہو جائے۔ یعنی مفاسدکاشکار ہوجائے تو شاعرجذبہ و فن کا استعمال کرکے اپنے ہم نفس بشر کو نفسیاتی کمک فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن اب اگر شاعر خود ہی مفاسد اور خرابیوں کے ہتھے چڑھ جائے۔ توپھر عام افراد کا خدا ہی حافظ۔! اہل فن کا بگڑنا گویا پورے سماج کا بگڑنا ہے۔ اسبات کی تصدیق علامہ اقبال کے اس قول سے بھی ہوتی ہے "کہ کسی قوم کی معنوی صحت زیادہتر اس روح کی نوعیت پر منحصر ہے جو اسکے اندر اسکے شعراءاور صاحبانِ فن پیدا کرتےہیں۔

لھٰذا کسی اہل ہنر کا مائل بہ اغلاط ضمیر اور تصور ایک قوم کے لئے ایٹ لااور چنگیز کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے بشرطیکہ اسکی تصویریں یا اسکےنغمے جذب و کشش کی طاقت رکھتے ہوں۔" مندرجہ بالا قول کے حوالے سے بطورِ دلیل اردوادب سے یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ اردو شاعری کی معشوق نوازی کے منفی اثرات سےخودی،عزتِ نفس ،معرفتِ ذات اور تسخیرِ کائنات جیسے حیات بخش انسانی پہلوؤں پر بھیمردنی چھائی ہوئی تھی ۔فرضی محبوب کے سامنے خود کو حقیر گرداناایک شاعر کا شیوئہناگزیر بن گیا تھا اوروہ اس فرضی محبوب کو خد اسے بھی بڑا درجہ دینے میں نہیں کوئیعار محسوس نہیں کرتا تھا۔ اس معشوق پرستی نے ایک فرد کی خودداری کو لتاڑنے میں جوکثر اُٹھا رکھی تھی اسے پورا کرنے کے لیئے تصوف کا "فلسفہ نیستی"کام آیا۔ باالفاظ دیگر شعراءکی معشوق پرستی اور صوفیاءکے فلسفۂ نیستی نے جب فرد کی ہستی اور خودیکے خلاف ایک مشترکہ محاذ کھولا۔ تو انسانی وجود کی عزت و توقیراورسربلندی کی روح موت کی دہلیز پر دہائی دینے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ گاہے بگاہے غالب جیسا معشوق فریب عاشق اپنی خودداری کو چھوڑ کر عدم کو وجود پر فوقیت دیتا ہے۔
ڈبویا مجھ کو ہونےنے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

بڑی مدت سے اردو ادب کی روح چندمخصوص شعری مضامین کے قید میں تڑپ رہی تھی۔ اور ایک نجات دہندہ کی تلاش میں تھی۔ جو اسے ایک وسیع وعریض کائیناتِ فکر و خیال سے آشنااورایک پر وقار نظریہ ¿ حیات کےروبروکردیتا۔چنانچہ اردو شاعری کو وہ مطلوب نجات دہندہ علامہ اقبال کے روپ میں نصیب ہوا جس نے شاعری کے تمام ناقص معیارات پر سوالیہ نشاں لگا دیا۔علامہ اقبال سے قبل بھی" ادب برائے زندگی "کے تصور کی لہر تو اٹھی تھی۔ مگروہ لہر ساحل ِ مراد تک آتےآتے ہی دم توڑ بیٹھی۔ جس شان سے اس فن کے مقصد کی آبیاری علامہ نے کی اُس کی نظیرپوری ادبی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پائے گی۔


علامہ اقبال نے فنِ شاعری کو ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔ اُ نہیں اس بات کاشدید احساس تھا کہفن کار کی قربانی کے بغیر فن کا زندہ رہنامحال ہے گویا فنکار اپنی زندگی کو فن کےلئے وقف کردیتا ہے تب جاکر اسکی جاذبیت اور دلکشی برقرار رہ پاتی ہے۔

رنگ ہو یاخشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

علامہ اقبال جیسے غائتی شاعر کے دل میں یہ بات کیونکر نہ کھٹکتی کہ اہل فن کا یہ خونِ جگرمحض صنفِ نازک کے ہونٹوں کی لالی بن جائے۔ یا مئے آتشیں کی قوتِ خمار کو مزیدتقویت دینے کے کام آجائے اورصرف گلوں کی رنگت کو بڑھانے کے لئے استعمال میں لایا جائےتاکہ بلبل کی رنگین نوائی میں کچھ اور مٹھاس پیداہو۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ یہ وہبی نعمت یعنی فن و ہنر کی صلاحیت جو مخصوص افراد کے حصے میں آتی ہے بامقصدو ہدف ہو۔ اسکا استعمال انسانیت کی روحانی بقاءکی خاطر ہو۔ کیونکہ فن کا تعلق براہِ راست انسانی روح سے ہوتا ہے۔ اور سب سے زیادہ اسی روح کو متاثر کرتا ہے۔ اسے حیات بخش کام لیئے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ نظر کو فن کی مقصدیت سمجھاتے ہوئے کہتےہیں۔
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن


جوشے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا


مقصود ِہنر سوزِحیاتِ ابدی ہے


یہ ایک نفس یا دونفس مثلِ شرارکیا


شاعر کی نواہو کہ مغنی کا نفس ہو


جس سے چمن افسردہ ہووہ بادِ سحر کیا

!
محض ذاتی ذوق ِطبع کی خاطر فن و ہنر میں جولانی طبع دکھانااقبا ل کی نظر میں فعلِ لا حاصل ہے کیونکہ صاحب ِہنرغایت درجے کا تجرد پسند ہی کیوں نہ ہو وہ اپنے گردو پیش سے فرار اختیار نہیں کر سکتا ہے اور اس کے فنی نگارشات کےمنفی و مثبت اثرات اسے مربوط معاشرہ پر لابدی طور مرتب ہوں گے اس لئے شاعر ہو یاکوئی اور فن کار اُسے ہمیشہ اجتماعیت کی فلاح کا خیال ذہن میں ہونا چاہیئے شاعرخوابیدہ ذہنوں کوجھنجھوڑ کر بیدار بھی کرسکتا ہے اور اپنی فنی ساحری سے ہوشیار مغزافراد کو بھی مسحور کرسکتا ہے۔یعنی اسکی منفی طرزِ فکر بہت حد تک انسانی معاشرےمیں منفی خیالات پیدا کرسکتی ہے۔اپنے ہنر میں اعلی پایہ جاذبیت رکھنے والے ہنر مندافراد قومی بیداری کی عظیم ذمہ داری بطریقِ احسن نبھاسکتے ہیں ان کے پاس ایک ایسااثر انگیز آلہ ہوتا ہے جو ان کو عام افرادسے ممتاز بناتا ہے۔ اجتماعی فرض یا قومیذمہ داری سے دامن کش شاعر اپنی شاعری کے اعلیٰ نمونے پیش کرے تو کرے۔ لیکن علامہ اسطرح فن پاروں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ جنمیں پیغام ِبیداری کے بجائے حشیش وافیون کی تاثیر پائی جاتی ہو۔ اسی اصول کی بنیاد پر علامہ نے حافظِ شیرازی پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔ اور اسکی شاعری کو افیون آلود قرار دیا۔


ہوشیار ازحافظِ صہبا گسار


جامش از زہرِ اجل سرمایہ دار


رہن ساقی خرقہپرہیز او


مے علاجِ ہولِ رستاخیز او


علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کو ہمیشہ مقصد کے تابع رکھا۔ انہوں نے ان تمام روایات سےانحراف کیا جن سے قومی ضمیر میں غلامی و تقلیدکی خوپیداہوجاتی ہے۔ وہ اپنی راہ آپطے کرنے کے قائل تھے انہوں نے دامنِ شاعری کوفنی و فکری جوہر پاروں سے مالامال کردیا۔ غالب کے بعداقبال ہی وہ شاعر ہے جس نے غزل کے دامن کو دقیق اور رنگارنگ فلسفی اور مذہبی افکار سے بھر دیا۔انہوں


نے نیا اندازاور سوز و سازکو وجود بخشا کیوںکہ وہ اپنے تئیں دوسروں کی تقلید کو حرام تصور کر تے تھے بلکہ اوروں کو بھی ایک الگ راہ وروش اپنانے کی تلقین کر تے رہے


ہیئت کے اعتبارسے اقبا ل کسی نئی صنف ِ سخن کے موجد تونہیں بنے ،البتہ مو ضوع کے حوالے سے انہوں نے جدت و ندرت سے ضرور کام لیا ۔ گویا ظاہری تبدیلی کے بجائے اسکے جو ہر کو بدل ڈالا اور یوں شاعری کے جسد ِقدیم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اقبال کے یہاں بھی غزل ونظم کا وہی روایتی قا لب ہمیں نظر آتامگر اسمیں جو فکر و خیال کا مواد ڈھلا ہوا ہے وہ یقینا اچھوتا اورغیر روایتی ہے ۔ ذوق وشوق، نیا شوالہ، مسجدِقرطبہ، ساقی نامہ، ابلیس کی مجلس شوری، خضرِراہ، شکوہ، جوابِشکوہ، شمع اور شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، امامت، وغیرہ جیسی نظموں میں حیات وکائنات، موت، ملی زبوں حالی، عصری شعور، جیسے مسائل کو فنی مہارت کے ساتھ سمو دیا۔ اسپر مستزاد یہ کہ نازک پیکر غزل کو بھی کچھ اس انداز سے فکر و فلسفہ کے بھاری بھرکم موضوعات سے مالا مال کر دیا کہ اس کی نازک مزاجی بوجھل نہ ہوئی



میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرےتخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں

وہی غزل جو اب تک محض قلبی واردات کے اظہار کا خوبصورت ذریعہ تھی اقبال کے ذہنِ رسا کی جولان گاہ بن گئی۔اور اس میں الٰہیات، قضاوقدر،نظریہ خودی ،موت و حیات کے تعلق سے مختلف اسرارمنکشف ہوئے


اگرکج رو ہے انجم آسمان تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِجہاں کیوں جہاں تیرا ہے یامیرا


اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یامیرا


اسے صبحِ ازل انکار کی جرا ت ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا! وہ راز داں تیرا ہے یامیرا

نئی تراکیب کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال نے اردو شاعری میں سالہا سال سے
مستعمل ناگزیرتراکیب و اصطلاحا ت کابھی استعمال کیا۔ لیکن انہوں نے ان کی معنویتاثیر ہی بدل دی۔ مثال کے طور پر لفظ "عشق"کو ہی لیجئے۔ اکثر شعراءکے یہاں عشق کی نوعیت مجازی دکھائی دیتی ہے۔ مگر اقبال کے یہاں یہ لفظ حقیقی معنوں میں نہ صرف جمالی بلکہ جلالی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔


مرد خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ


عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام


عشق دمجبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ


عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام


عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا


اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

اقبال نے کسی خیالی معشوق کے فراق میں آنسو نہیں بہائے بلکہ شاعرانہ سوز و گداز کی توسط سے دلِمسلم میں حرارت و حرکت پیدا کرنے کی پیہم سعی کی۔ اورشاعری کو خواب و خیال کی دنیاسے نکال کر جہانِ حقیقی سے روشناس کرانے میںایک اہم رول نبھایا۔ اُن کی شاعرانہ خطابت کا مدعا "عنقا" نہیں، جو دام ِو ہم و گماں میں بھی نہ آسکے،اُنہوں نے اپنےخیال کی بلند پروازی کے دوران ہمیں ایک مانوس وجود یعنی شاہین خوددارسے متعارفکرایا۔ علامہ چاہتے تو فکر و خیال کا ایک ایسا جہاں آباد کرتے جو سراسر حقیقی دنیاسے مختلف ہوتا۔لیکن ان کی ہمدردانہ اور مصلحانہ سوچ نے انہیں حقیقت کی دنیا میں رہرہے انسان سے قطع تعلق کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی۔ یہی وجہ ہے وہ انسان کے بارے میں ہمیشہ متفکر رہے کہ کیسے اُسے کھوئی ہوئی عظمت پھر سے ہاتھ آجائے۔ اور یہ "ٹوٹاہواتارہ ماہِ کامل" بن جائے۔ اقبال عارفوں کے عالم باطن کی معرفت بھی رکھتے تھے۔ اورخارجی اور سیاسی حالت سے بھی باخبر تھے۔ ہمیشہ اسی کوشش میں لگے رہے کہ عالم باطن اور عالم ظاہر کے مابین پیداشدہ خلیج کو کم کیا جائے۔ وہ ایک زاہد کی "ذکروفکرِ صبحگاہی" کی مخموری کیفیت کو ابلیس کی تیار کردہ "شراب طہور"کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔اگر یہ زاہد اپنے عصری حالات سے نابلد ہو۔


مست رکھو ذکروفکر صبحگاہی میں اسے


پختہ ترکردو مزاجِ خانقاہی میں اسے

اقبال ظاہرپرست انسان کی نارسائی پر بھی نالاں ہے کہ اُس نے عالمِ بیرون کو ہی اپنا قبلہ و کعبہ بنا دیا۔ اور درون ِ خانہ ہنگاموں سے بے خبررہا۔ نتیجتاًروز نت نئے ستاروں پر کمند ڈالنے کے باوجود اپنے باطنیعالم اکبر کو دریافت کرنے میں ناکام رہا



ڈھونڈنے والا ستاروں کیگزرگاہوں کا


اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا

مابعد الطبیاتی نظریات کو تسلیم کرنے والا اقبال ہرگز عالم حقیقی کو سنوارنے کے عمل سے دست کش نہیںہوتے۔ اور بحثیت شاعر رات اُسے اُسکی بے قراری کا سبب پوچھتی ہے۔
خاموش ہوگیا ہے تاررباب ہستی


ہے میرے آئینے مین تصویر خواب ہستی


بستی زمین کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے


یوں سوگئی ہے جیسے آباد نہیں ہے


شاعر کا دل لیکن ناآشناسکوں سے


آزاد رہ گیا تو کیونکر میرے فسوں سے


اور شاعر راتوں کوچھپ چھپ رونے کا سبب یوں بیاں کرتا ہے۔


میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتاہوں


چھپ کے انسانوںسے مانند سحر روتا ہوں


مجھ میں فریاد جو پنہاں ہےسناﺅں کس کو


تپش شوقِ نظارہ دکھاﺅں کس کو


ضبطِ پیغامِ محبت سے جو گھبراتاہوں


تیرے تابندہ ستاروں کو سناجاتاہوں

الغرض اقبال کی شاعری اصل میں عالمگیر مشینری ہے جسمیں اسلام کا پیغام ِحرارت و حرکت مضمر ہے۔ یہ درماندہ کارواںکے لئے صدائے جرس ہے۔
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا


http://abna.ir/data.asp?lang=6&Id=279523



Reply With Quote
The Following 7 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Arain007 (Saturday, April 21, 2012), aristotlekhan (Saturday, November 24, 2018), Hamidullah Gul (Saturday, April 21, 2012), kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), Robina Qadeer (Monday, April 23, 2012), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012), silza (Thursday, September 19, 2013)