View Single Post
  #6  
Old Sunday, April 22, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default falsafa e khudi

علامہ اقبال اور فلسفہ خودی

جاوید عباس رضوی

علامہ اقبال ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ فقط ایک شاعر ہی نہیں، مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔ ایک ایسے مفکر جنہوں نے حیات و کائنات کے مختلف اور متنوع مسائل پر غور و فکر کیا اور برسوں کی سوچ و فکر کے بعد شاعری اور نثر کے ذریعے حکیمانہ اور بصیرت افروز خیالات پیش کئے۔ انھیں اقبال کی ندرت فکر کا شاہکار کہا جاسکتا ہے، علامہ اقبال نے انسان کو خودی کا درس دیا ہے، علامہ اقبال کی خودی، خود پرستی نہیں ہے، خود سوزی نہیں ہے بلکہ خود شناسی ہے یعنی خود کو پہچانا، یعنی خود کی معرفت حاصل کرنا، یعنی انسان کو اﷲ نے اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے کہاں جانا ہے کس لئے آیا ہے، اقبال کی خودی خانقاہی نہیں ہے اقبال کی خودی خود شناسی ہے، معرفت نفس ہے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن


اقبال کے نزدیک خودی کے اثبات، پرورش اور استحکام ہی سے اسے غیر فانی بنایا جاسکتا ہے، خودی اپنی پختگی ہی سے حیات جاوداں حاصل کر سکتی ہے یعنی بے مثل انفرادیت کو اس طرح قائم و بر قرار رکھے کہ موت کا دھچکا بھی اس کا شیرازہ نہ بکھیر سکے، خودی کا جوہر ہے یکتائی، وہ کسی دوسری خودی میں مدغم نہیں ہوسکتی، نہ اس کا ظہور کسی دوسری خودی کے طور پر ہو سکتا ہے، نہ وہ کسی کمتر خودی میں منتقل ہوسکتی ہے اگر خودی کی تربیت نہیں کی گئی تو اس کا مستقبل مخدوش ہے وہ فنا بھی ہوسکتی ہے۔

خودی کی پرورش و تربیت یہ ہے موقوف
کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز


اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ’خودی‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے۔ اور انھوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے اور محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض اہم سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے، انسان کیا ہے؟ انسانی زندگی کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اسکے پس پردہ کیا ہے؟ اس طرح کے اور نہ جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے ہی سرگرداں رہا ہے۔

اقبال کے فلسفہ خودی یا پیغام کی تخلیق کا خاص پس منظر ہے، قیام یورپ کے زمانے میں انھوں نے فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ایران کی مختلف ادبی اور لسانی تحریکوں اور لٹریچر کو غور کی نظر سے دیکھا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اسلامی تہذیب کی ابتری خصوصیت سے جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی تباہی کی ذمہ دار وہ فارسی شاعری بھی ہے جس نے افلاطونی فلسفے کی موشگافیوں میں پھنس کر حیات کے سر چشموں کو خشک کر دیا، اس کے بعد سکون بے عملی کو زندگی کا عین تصور کیا جانے لگا، افراد میں خودی اور خودداری کی بُو نہ رہی اور ذلت و نکبت موجب فجر سمجھی جانے لگی اور روگ آہستہ آہستہ پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کرتا گیا۔ اردو ادب بھی اس سے مستثنٰی نہ تھا۔

”خودی“ کا لفظ اقبال کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو، فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا، خودی اقبال کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی کا، جذبہ خودداری کا، اپنی ذات و صفات کے پاس و احساس کا، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کی ضامن سمجھنے کا مظاہرات فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا، یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے”خودی“زندگی کا آغاز وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد و ملت کی ترقی و پستی خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔

خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ، خودی کا استحکام زندگی کا استحکام، ازل سے ابد تک خودی ہی کی کار فرمائی ہے اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں، اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نت نئے انداز سے کیا ہے۔
خودی کیا ہے راز درون حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات

ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے

زمانے کے دھار میں بہتی ہوئی
ستم اسکی موجوں کی سہتی ہوئی

ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی
خاک آدم میں صورت پزیر

خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے



کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لااِلٰہ اِﷲ کا اصل راز خودی ہے، توحید خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی توحید کی محافظت کرتی ہے۔
خودی کا ستر ِنہاں لااِلٰہ اِﷲ
خودی ہے تیغ فساں لااِلٰہ اِﷲ


کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے، قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی ہی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشاہی کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصرف میں آجاتا ہے۔
خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی
نہیں ہے سنجر وطغرل سے کم شکوہ فقیر
خودی ہو زندہ تو ہے دریائے بیکراں نایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر


بعض جگہ خودی کو فرد اور ملت کی زندگی کا مرکز خاص قرار دیا۔ اس مرکز کا قرب سارے جہاں کا حاصل اور اس سے دوری موت کا پیغام ہے۔
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی
ہر چیز ہے محو خود نمائی ہر ذرہ شہید کبریائی
بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی


خودی کے اوصاف میں اقبال کے بے شمار بیانات، ان کی تصانیف میں بکھرے پڑے ہیں اور بے شمار ایسے اشعار ہیں جن میں خودی کا والہانہ تذکرہ آیا ہے۔ اقبال کا یہ فلسفہ حیات یا پیغام خودی جس پر انہوں نے اتنا زور دیا ہے اور فرد و قوم کی بقا و ترقی کی اساس ٹھہرایا ہے، جذبات کے لمحائی جوش کا نہیں بلکہ انسان کے نفس اور اس کی تہذیبی زندگی پر کامل غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ بعض مقامات پر خودی اور خدا کے وجود کو لازم و ملزوم بتا کر وجود کی تعریف یہ کی ہے کہ جوہر خودی کی نمود کا دوسرا نام وجود ہے۔ اس لئے انسان کو اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے خودی کی نمود سے غافل نہیں رہنا چاہئے، خودی کی بھر پور نمود انسان کو امر بنا دیتی ہے۔

خودی کو زندہ و پائندہ رکھنے اور اسے توانا و طاقتور بنانے کے عوامل کا تذکرہ تھا۔ اس کے بعد خودی کی تربیت کی ارتقائی منزلیں زیر بحث آتی ہیں یہ تین ہیں، اطاعت، ضبط نفس اور نیابت اِلٰہی، اطاعت سے مراد فرائض کی ادائیگی اور شریعت الٰہیہ کی عملی تائید ہے۔ جو شخص ان سے بھاگتا ہے وہ گویا دینِ محمدی ص کے آئین کے خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کی حدود سے باہر قدم رکھتا ہے، ضبط نفس سے مراد، نفسانی خواہشوں اور ذاتی اغراض پر قابو پانا ہے چونکہ انسان کے نفس میں خوف اور محبت کے دو عنصر ایسے ہیں جو اسے راہ راست سے اکثر ہٹا دیتے ہیں اسلئے ضروری ہے کہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے ،نفس کو مغلوب ہونے سے بچایا جائے۔

جب اطاعت و ضبط نفس کی منزلوں سے کسی فرد کی خودی کامیاب گزر جاتی ہے تو وہ اعلیِ منصب پر فائز ہوجاتا ہے جو تخلیق انسانی کا مقصدِ خاص ہے، نیابت اور جس حصول کے لئے انسان روز اول سے سرگرم عمل اور مزاحمتوں سے بر سر پیکار ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
(اقبال)

علامہ اقبال کے فلسفہ حیات یا پیغام کی تخلیق اس طور پر کرسکتے ہیں کہ فرد کی طرح ملت کی بھی خودی ہوتی ہے، چنانچہ فرد کی خودی کی تربیت و استحکام کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ ملت کی خودی کو بھی مرتب و مستحکم بنایا جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ فرد اپنی خودی کو ملت کی خودی میں اس طرح خم کر دے یا اس کا تابع بنا دے کہ ملت کی خودی کو فرد کی خودی پر فضیلت حاصل ہو جائے کہ ذاتی اغراض و مفادات پر ملت کے اغراض و مفادات کو ترجیح دی جائے اور مقدم سمجھا جائے، ایسا کرنے سے فرد کی خودی مجروح نہیں ہوتی، تقویت حاصل کر لیتی ہے، اس میں جماعت کی سی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور جماعت میں مزید پختگی آجاتی ہے۔

در جماعت خود شکن گردو خودی
نارِ گل ،برگ چمن گردو خودی
کثرت ہم مدعا وحدت شود
پختہ چوں وحدت شود ملت شود

انفرادی اور اجتمائی خودی کی تربیت و تنظیم اور استحکام و استقلال کے لئے عہد حاضر کی ساری ملتوں میں ملت اسلامیہ ہی موزوں ترین ہے اور اس وقت دنیا میں جتنے آئین مروج ہیں ان سب میں آئین اسلامی یعنی قرآن مجید ہی ایک ایسا آئین ہے جس کے تحت فرد اور جماعت کی خودی اطاعت اور ضبط نفس کی منزلوں سے کامیاب گزر کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، فرد قوم کی خودی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مسلمان اور ملت اسلامیہ کی خودی کی شرائط اور فتوحات دوسروں کی خودی سے بہت مختلف ہیں اور اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس کا مزاج دوسری قوموں کے مزاج سے مختلف ہے۔

اپنی ملّت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اگر مسلمانوں نے ترکیب رسول ہاشمی اپنائی ہوتی تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی، مسلمانوں نے اپنی خودی کو نہیں پہچانا اس لئے دوسروں کی تقلید کی اور مسلمان اس حالت پر پہنچے کہ آج مسلمان مظلوم ہے، ہمارا قُدس مُبارک امریکی پِٹھو اسرائیل کے ہاتھوں پائمال ہوتا جا رہا ہے اور مسلمان ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں، مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، مسلمان ممالک ویران کئے جارہے ہیں اور ہم ذاتی اغراض میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کسی کو اقتدار کی بھوک، کسی کو گھر کی بھوک، جب تک مسلمانوں کا صفایا ہوجائے گا تب تک ہم سوئے رہیں گے، کب تک ہم مغرب کی غلامی کریں گے اور یہی مغرب والے مسلمان کومسلمان سے لڑاتے ہیں۔

اگر مسلمان خود شناس اور متحد ہوتے تو اہل مغرب کی مجال نہ ہوتی کہ پیغمبر اسلام ص کی شان میں توہین کرتے، اے کاش اقبال کی آرزو پوری ہوتی کہ ملت اسلامیہ میں خودی کا مقام حاصل ہوجائے اور ہم مسلمان آباد، خوشحال اور امن امان میں رہتے اور روحِ اقبال خوش ہو جاتی، اقبال کسی خاص علاقے یا ملت کا شاعر نہیں ہے وہ پورے عالم انسانیت کا شاعر ہے اور اس کا پیغام صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہے۔
ہر درد مند دل کو رونا میرا رولا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Sunday, April 22, 2012), kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), Robina Qadeer (Monday, April 23, 2012), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012)