View Single Post
  #8  
Old Thursday, April 26, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

فلسفی شاعر:تصور ِعشق کی جہتیں
ڈاکٹر ریاض توحیدی
عشق کی اصطلاح ایک تشریح طلب موضوع کا اقتضا کرتی ہے جس کے لئے ایک مبسوط مقالے کی ضرورت ہے چونکہ زیر نظر مضمون ایک مخصوص موضوع پر منحصر ہے اس لئے عشق کے تعلق سے چند بنیادی باتوں پر ہی توجہ دی جاسکتی ہے تاکہ عشق کے ضمن میں جن لوگوں کے اذہان ایک مخصوص تصور کے اسیر ہو چکے ہیں، وہ بھی اس اصطلاح کے متفرق پہلوئوں کی طرف ذہنی طور پر مائل ہوسکیں۔
عشق کی ایک سمت، نظریہ وجدانیت (Intuition-ism) سے سروکار رکھتی ہے۔ یہاں یہ باطنی یا ظاہری وجدان کے روپ میں اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ عشق، ایک جذبے، ایک قوت محرکہ، ایک روحانی کیفیت کا نام ہے جو انسانی نفسیات میں سمایا ہوا ہے اور مختلف صورتوں میں نمودار ہوتا رہتا ہے۔ دولت کمانے کا جنون، مذہب سے لگائو، کتب بینی کا شوق، تخلیقی کام کی رغبت، اقتدار کا نشہ، حسن پرستی، وطن یا قوم پرستی، اولاد کی محبت وغیرہ عناصر عشق کے مختلف پہلو ہیں۔ اب کسی انسان کا ذہنی میلان عشق کے کس پہلو کی طرف زیادہ ہے اس کا تجزیہ بھی اسی حیثیت سے کیا جاسکتا ہے۔ دراصل عشق کا تعلق وجدانی سوچ سے ہے۔ ادب میں عشق کے تعلق سے دواصطلاحیں زیادہ معروف ہیں، ایک عشق حقیقی اوردوسری عشق مجازی، عشق مجازی کے زمرے میں عشق کے وہ عناصر آتے ہیں جو انسانی ذات سے ہی مطابقت رکھتے ہیں اور عشق حقیقی سے مراد عموماً وہ عشق ہے جس کا تعلق عابد کا اپنے معبود سے ہوتا ہے یا دوسرے لفظوں میں، جس کا تعلق ہماری آنکھوں سے مستور، ذاتِ خداوندی یا اللہ سے ہو۔

شاعری کے حوالے سے اگر عشق کا جائزہ لیں تو دوسرے شعراء کے برعکس علامہ اقبالؔ کا نظریہ انفرادیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک عشق،اضطراری، چھا جانے والا، محو کر دینے والا جذبہ نہیں، جس کا جادو انسان اور ان کی پوری ہستی کو محصور کر دے بلکہ عشق ان کے نزدیک ایک مستقل اور عظیم الشان حقیقت کا تصور ہے۔ انہوں نے لفظ عشق میں اتنی رفعت اور بلندی پیدا کر دی کہ اس کو قوم کے لئے لائحہ عمل بنا کر پیش کیا۔ پروفیسراسلوب احمد انصاری نے علامہ اقبالؔ کے تصور عشق کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے
:
’’…اقبال کے لئے عشق ارتقاء کی قوتِ نامیہ ہے جو حیاتیاتی سطح پر حسن اور اکملیت کی طرف راجع ہے اور اس پر منتج ہوتی ہے۔یہی حیات کی ابتداء اور یہی اس کا انجام ہے۔ عشق کو ’’صہبائے خام‘‘ اور ’’کاس الکرام‘‘ سے ہم رشتہ کرنا گویا اس امر کا اعادہ کرنا ہے کہ یہ بیک وقت اس کی تکونی قوت بھی ہے اور اس کی تتزیہی شکل بھی ‘‘۔

؎
عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام

علامہ اقبال کے کلام میں بعض نئی اصطلاحیں بھی نظر آتی ہیں اور انہوں نے مروجہ الفاظ کو اپنے ڈکشن کے مطابق نئے معنی بھی عطا کئے۔ لفظ ’’عشق‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ اقبالؔ نے اس لفظ کو نئی معنوی وسعت سے آشنا کیا اور اپنی فکر کو اس میں سمویا۔ڈاکٹر یوسف حسین خان کے الفاظ میں ’’اقبال کا تصور عشق، دوسرے شعراء کے متصوفانہ یارسمی عشق سے بالکل مختلف ہے۔ عشق ان کے یہاں زندگی کا ایک زبردست حرکی عمل ہے جو ایک طرف تسخیر فطرت میں انسان کی مدد کرتا ہے، دوسری طرف اسے کائنات کے ساتھ متحد رکھتا ہے‘‘۔

علامہ اقبال، جملہ کمالات کا منہج اور تمام فیوض و برکات کا سرچشمہ عشق کو ہی قرار دیتے ہیں ۔اس تعلق سے دیکھیں تو ان کے یہاں ’’عشق‘‘ اور ان کے مترادفات اور لوازمات یعنی ’’وجدان، خود آگہی، باطنی شعور، جذبہ، جنون، دل، شوق، آرزو مندی، جستجو، مستی اور سرمستی کا ذکر جس تکرار،تواتر، انہماک اور شدتِ احساس کے ساتھ ملتا ہے کسی اور موضوع کا نہیں ملتا‘‘۔ اقبال کا تصور عشق انسان کے اندر حرکی قوت پیدا کرتا ہے۔ وہ اس عشق سے سخت نفرت کرتے ہیں جو انسان کو خوابیدہ کرے اور اس کے اخلاق کو بگاڑے۔ زیادہ تر شعراء کے کلام میں عشق اور عورت کا ذکر ساتھ ساتھ نظر آتا ہے جس کی وجہ سے سنجیدہ قسم کے لوگ ان شعراء کا کلام پڑھنے یا سننے سے دور ہی رہتے ہیں،لیکن علامہ اقبال نے معنوی وسعت دے کر عشق کے لفظ کو وقار اوراثرعطا کیا۔ ماہر القادری اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبالؔ کے تصور عشق کی مناسبت سے لکھتے ہیں
:
’’اقبال کے عشق میں نہ کوچۂ رقیب ہے نہ دنیوی محبوب کے نقش پا پر سجدے کی ذلتیں ہیں۔ اقبال کا عشق خیبر کشا ہے جہاں پازیب کی نہیں،تلوار کی جھنکار سنائی دیتی ہے…عشق اقبالؔ کے ہیروقیس و فرہاد نہیں،صدیقؓ و فاروقؓ اور علی مرتضی رضی اللہ عنہم ہیں جنہوں نے خوبصورت عورتوں کے رخسار و گیسو کا نہیں آیات الٰہی کا مشاہدہ کیا

اور اللہ تعالیٰ کے عشق میں محو ہوگئے
…‘‘
مردِ خدا کا عمل، عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام

رسول اللہؐ کی ذات اقدس سے محبت رکھنا، ایک مسلمان کے ایمان کا جزو ہے ۔علامہ اقبال نے اپنے فلسفۂ عشق میں جس عقیدت و احترام کے ساتھ رسول اللہؐ کی ذات اقدس سے محبت کا اظہار کیا ہے وہ مثالی حیثیت کا حامل ہے۔ علامہ کے نزدیک عشقِ رسولؐ کی بدولت ہی ایک مسلمان میں صفات رسولؐ کا رنگ پیدا ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم اس مناسبت سے لکھتے ہیں
:
’’اقبال کے نزدیک عشق کی بہترین مثال رسول کریمؐ کی حیاتِ مبارک ہے جس میں خلوت اور جلوت کا توازن پایا جاتا ہے۔ عقل جلوت کی طرف کھینچتی ہے اور عشق خلوت کی جانب،لیکن زندگی کی تکمیل دونوں کے توازن سے ہوتی ہے‘‘۔

وہ دانائے سُبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا


بشکریہ:روزنامہ کشمیر عظمی'

Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012)