View Single Post
  #10  
Old Thursday, June 07, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

غالب کے کلام کا نفسیاتی تجزیہ
محمدصفدر

ماہرین نفسیات کا قصہ مختلف ہے' مگر جب عام آدمی کسی شخص کا نفسیاتی مطالعہ کرتا ہے تو پس منظر میں اپنے حالات اور ماضی کی فلم بھی دماغ کے پردۂ سیمیں پر تیرتی رہتی ہے۔نفسیاتی حوالوں سے پیچیدہ افراد' سادہ لوگوں کا تجزیہ کرتے ہوئے بھی ان میں ایسی پیچیدگیاں تلاش کرتے رہتے ہیں کہ اگر اس شخص کو بتادیا جائے جس کے بارے میں تجزیہ کیا جارہا ہے تو وہ خود دنگ رہ جائے۔ اس لیے کسی بھی طور پر عام آدمی کے نفسیاتی تجزیوں کو اہمیت نہیں دی جانی چاہیے۔ لیکن شاعر' مصور اور تخلیق کار کا معاملہ مختلف ہوتا ہے۔ وہ انہی نفسیاتی پیچیدگیوں کو ملحوظ رکھ کر دوسرے لوگوں کے نفسیاتی مسائل کو فنی شاہ پاروں میں تبدیل کرتا ہے۔یہ نفسیاتی پیچیدگی عام لوگوں کے لیے مرض لیکن تخلیق کار کے لیے لازوال خزانہ ہوتی ہے۔

اُردو د ان طبقہ بجا طور پر غالب کو اُردو غزل کا سب سے بڑا شاعر تسلیم کرتا ہے ۔ غالب نفسیاتی لحاظ سے پیچیدہ تھے مگر یہ نفسیاتی پیچیدگی مرض نہیں تخلیق کا گنجینہ ثابت ہوئی۔ غالب کی غزلیںاس کی اپنی نفسیاتی زندگی کی تصویریں ہیں۔شاید اسی نفسیاتی پیچیدگی ہی نے غالب میں مشکل پسندی کوٹ کوٹ کر بھردی' شعر کا نفس مضمون ہو یا تراکیب و تماثیل' اسلوب ہو یابحروں کا چنائو' غالب مشکل پسندی کو آسانی سے برتنا جانتے تھے۔ علم نفسیات کی روشنی میں غالب کے کلام کا جائزہ یہ باور کرانے کے لیے کافی ہے کہ ان میں نرگسیت کاواضح رجحان تھا۔ اس نرگسیت نے جہاں ان کے شعروں میںتعلی بھردی وہاں عشق کی جہت میں بھی ایک اضافہ ہو گیا۔روایتی غزل کے برعکس غالب کے شعروں میں جلوہ گر عاشق انا پسندہے۔غالبا اُلفتِ ذات اور جبّ تفوق کی چاہ نے غالب میں مشکل پسندی کے خدوخال اُبھارے کہ اس طرح وہ اپنی علمیت' عظمت اور برتری کا خود بھی احساس کرتا اور دنیا کو بھی احساس کراتا۔

ابتدائے شاعری میں ہی مشکل پسندی اور شعور ولا شعور میں پیدا ہوتے پیچیدہ سوالات سے شعروں کی تخلیق اور فارسی الفاظ و تراکیب کا محابا استعمال کی وجہ سے غالب اپنی علمیت اور برتری کا سکہ جمانے کی کوشش میں منہمک نظر آتے ہیں۔ بیدل کے رنگ میں شعر کو مشکل الفاظ و مضامین سے مزین کرنے والے غالب معتقدِ میر بنے تو سادگی اور سہل پسندی کی حدوں کو چھونے لگے۔ ایک وقت میں غالب کہتے تھے کہ ان کا اصل کلام تو فارسی میں ہے' اُردو میں تو میں نے ''فضول کلام'' لکھا ہے' مگر جب اُردو غزل میں ان کے نام کا ڈنکا ہر سو بجنے لگا تو غالب کو فارسی مشکل پسندی سے میر کی سادگی کی طرف مراجعت کرنا پڑی۔ اس مراجعت نے اُردو غزل کو اُردو کا سب سے بڑا شاعر عطا کردیا۔اس دور میں کہ جب ذوق کی محاورہ بندی اور نصیر کی سنگلاخ زمینوں کا چرچا تھا، غالب مشکل گوئی سے سادہ گوئی کی طرف پلٹ آئے۔ یہ امر بذات خود نرگسی انا کا اظہار ہے کہ اُلفتِ ذات کا مبتلا فنکار زمانے کی روش سے ہٹ کر چلنے کا ہی قائل ہوتا ہے۔ مگر رمز کا مارا دل مشکل گوئی ترک کرنے کے باوجود رمزیت کے ماحول کو الوداع نہ کہہ سکا۔ آل احمد سرور کا یہ تجزیہ کیسا حسبِ حال ہے
:
''غالب بیدل کے چکر سے نکلنے کے باوجود بھی بیدل کی رمزیت کو نہ چھوڑ سکے۔ اسی رمزیت نے ان کی شاعری میں عجیب عجیب گل کھلائے۔ یہ معمولی بات نہیں کہ بیدل کے بعد غالب، حزین' ظہوری' عرفی اور نظیری کی طرف متوجہ ہوئے اور میر کی طرف سب سے آخر میں۔ یہ ترتیب ان کی شاعری کے ارتقا میں بڑی اہمیت رکھتی ہے''۔

ادبی تحریکوں اور دبستانوں کی زبان و ادب کے رجحانات طے کرنے میں بڑی اہمیت ہوتی۔ تحریکیں ادبی گروہوں کو جنم دیتی ہیں' ادبی گروہ اپنے تصورات و نظریات سے ہم آہنگ ماضی کے ادیبوںکے مقام کا تعین کرتے ہی۔ اس کوشش میں کبھی کوئی ادیب بری طرح سے نظر انداز کردیا جاتا ہے تو کوئی گمنامی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے شہرت کے آسمان کا روشن ستارہ بن جاتا ہے۔

غالب کی نمایاں خصوصیت میں ایک یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری کو جدید دور کے تنقیدی معیارات پر پرکھا گیا' وہ سر خرورہا' ادبی تحریکوں نے اپنی کسوٹیاں اور ترازو ہوا میں بلند کیے' وہ بھاری رہا' جدید تخلیقی تصورات نے زور پکڑا ،وہ سرخرو رہا۔ غالب کی شہرت کو گہنایا جاسکا نہ اُردو اددب کی تاریخ میں انکی اہمیت کم ہوسکی۔ غالب کا ادبی دشمن بھی انکی عظمت اور فہرست میں اولیت سے انکار نہ کرسکا۔ اپنے عصر سے دورِ حاضر تک غالب کی شمع شہرت کی لو تاباں ہی نہیں شعلے کی مانند لپکتی اور روشنی کے پھیلائو میں وسعت اختیار کرتی جارہی ہے۔ کس مقامی زبان میں غالب کا ترجمہ نہ ہوا' کس بڑی بین الاقوامی زبان میں غالب بصورتِ ترجمہ نہ گھسا اور کس زبان کے نقادوں نے اپنا قلم غالب کی مداح سرائی میں نہ چلایا۔

آگرہ میں 27 دسمبر1797ء میں پیدا ہونے والا اسد اللہ کی 13 سال کی عمر میں شادی کردی گئی۔ نسلی برتری اور خاندانی عظمت کا احساس' جو نرگسی انا کو تسکین دیتا ہوگا' ہمیشہ غالب کو رہا۔عاشقانہ مزاج تو خیر غالب کی فطرت کا ناقابل تبدیل جزو تھا ہی ۔ شادی کے بعد دہلی میں مقیم ہوے تو کرایے کے مکان میںرہنے کے باوجود رئیسانہ ٹھاٹھ سے رہے۔ مستقل آمدنی تھی نہیں، اس لیے قرض کی مے پی کر اکثر گو نہ بے خودی سے لطف اندوز ہوتے رہے ، کے مے سے غرضِ نشاط انہیں کہاں تھی۔
''ستم پیشہ ڈومنی'' سے عشق بھی فرمایا۔ 1847ء میں جوئے کے الزام میں گرفتار بھی ہوئے اور تین ماہ سزا کاٹی۔ حصولِ پنشن کی کوششیں بے ثمر رہیں۔ مغل دربار سے وابستہ اور بہادر شاہ ظفر کے اُستاد رہے مگر ڈوبتا مغل خاندان کہاں ان کی ''عیاشیوں'' کی تکمیل کا سامان کرسکتا تھا۔ انگریزوں سے راہ و رسم بڑھانے کی کوششوں میں ملکۂ وکٹوریہ کا سینکڑوں اشعار پر مشتمل قصیدہ لکھا اور درخواست کی کہ انہیںملکہ کا درباری شاعر متعین کیا جائے' مگر کامیابی نہ ہوئی۔ گھریلو زندگی تو ہمیشہ ہی سلجھنے کا نہ سلجھانے کا معمہ بنی رہی' نہ وہ بیوی سے خوش نہ بیوی ان سے ۔ غالب کے متعلق لطیفوں کو ذہن میں لایئے اندازہ ہوجائے گا۔ الغرض مفلوک الحال' مقروض' خود پسندو حسن پرست' نفسیاتی اُلجھنوں کو بیان کرتا' محرومیوں' پژمردگیوں کے ساتھ زندہ دلی سے زندگی کرتا یہ عظیم فنکار شاہراہ ادب پرانمٹ نشان چھوڑ گیا۔ یہ نشان آنے والے کے لیے راہ نما ہیں تو غالب کے مقام کا تعین بھی کرتے ہیں۔یہ مقام ہی وہ منزل ہے جس تک اردو شاعر پہنچنے کی کوشش تو کر سکتا ہے مگر یہ رتبہ بلند جسے مل گیا' سو مل گیا۔
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
rao saadia (Wednesday, November 21, 2012)