View Single Post
  #2  
Old Thursday, June 07, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

فیض کی شاعری
محمدفیصل مقبول عجز
فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے بانیان میں سے تھے لیکن ترقی پسند شعرا میں جو شدت اور ذہنی انتشار پایا جاتا ہے‘ فیض اس انتہا پسندی سے گریز کرتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کر تے ہیں یہی وجہ ہے کہ دیگر ترقی پسند شعرا میں ان کا مقا م منفرد ہے
:
ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمھیں یاد کرنے لگتے ہیں



ترقی پسند ادب پرواپیگنڈے اور نعرے بازی میں تبدیل ہو گیا لیکن فیض کی نظر انسان پر ہونے والے مظالم اور بہیمانہ استبداد پرہے جس سے وہ دورِ حاضر کے انسان کو نجات دلوانا چاہتے ہیں۔ فیض جس معاشرے کا حصہ ہے اس میں عام انسان کو زندگی کے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں اور ان کے گرد آمریت کا گھیرا تنگ سے تنگ ہو تا جا رہا تھا۔ فیض اپنی نظم ’’رقیب سے‘‘میں عام انسان کے ہم زبان و ہم کلام ہو کر کہتے ہیں
:
عاجزی سیکھی‘ غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرماں کے‘ دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ‘ رُخ زرد کے معنی سیکھے



فیض کی شاعری معاشرے کے پسے ہوئے انسان کی پکار بن کر پھیلی اور ملک سے باہر بھی فیض کے جذبہ حُب الوطنی کو سراہا گیا۔ ترقی پسند تحریک نے رومانوی تحریک کی بے اعتدالیوں اور زنانہ پن کلچر کی تصحیح اورملک میں ہونے والے سیاسی انتشار سے نبرد آزما ہونے کا بیڑا اُٹھایا۔ فیض اسی تحریک سے منسلک تھے لیکن ان کے جذبہ حب الوطنی دیر پا اور تغیر پیدا کرنے والاتھا ۔ ان کے شعری تجربے کی جڑیں رومانوی شاعری میں پیوست ہیں۔ان کی شعری عظمت ان کی سیاسی یا اشتراکی شاعر ی میں نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کلاسیکی شعری روایات و اصطلاحاتی نظام کو پھر سے شعری آہنگ عطا کیا۔

فیض کی شاعری نے شعری اختراع سے کلام لیتے ہوئے روایتی شاعری میں رومانونیت اور اشتراکیت کے عناصر کو یک جا کر دیا ہے۔ فیض نے روایتی شاعری کے مضامین و اسالیب کو ذوق و ترجیحات کی روشنی میں نہ صر ف دوبارہ نظم کیا بلکہ ان میں روایت پسندی ‘ کلاسیکی ‘ روایات و لفظیات کو استعمال کیا اس کی بہترین مثال ان کے ابتدائی مجموعہِ کلام ’’نقشِ فریادی‘‘میں موجود نظم’’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘‘میں نظر آتی ہے۔ یہی وہ نقطہِ انحراف ہے جہاں فیض نے اپنے شعری رجحانات اورملّی افکار کو قوم وملت کے مسائل کی نمائندگی کے لیے مختص کر دیا تھا

:
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے ‘ جسم و جاں بچا کے چلے



ابتدائی کلام میں کئی نظمیں اسی حوالے سے ملتی ہیں جن میں ’’سوچ‘‘۔’’رقیب سے‘‘۔’’چند روز اور میری جان‘‘۔ ’’کتے‘‘۔ ’’سیاسی لیڈر کے نام‘‘۔’’اے دلِ بے تاب ٹھہر‘‘۔’’مرے ہم دم مرے دوست‘‘موضوع کے اعتبار سے عوامی مسائل کی نشان دہی اور ان کے حل کے لیے شاعر کے جذبات کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔حکومتِ وقت کو فیض کے نظریات سے اختلاف ہوا تو فیض نے جیل بھی کاٹی۔وہ ۹ مارچ ۱۹۵۱ء سے ۲۰اپریل ۱۹۵۵ ء تک قید میں رہے ۔ پھر دسمبر ۱۹۵۸ء سے لے کر اپریل ۱۹۵۹ء تک اسیر رہے۔ محترم محمد اسحاق صاحب (سابق میجر)فیض کی شاعری کوچار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں جن کا تفصیلاً ذکر انھوں نے فیض کے کلام ’’زندان نامہ‘‘میں مضمون بہ عنوان ’’رودادِ قفس‘‘میں کیا ہے۔


فیض صاحب کی جیل کی شاعری کے چار رنگ
:
پہلا رنگ: سرگودھا اور لائل پور کی جیلوں میں ا ن کی تین مہینوں کی قیدِ تنہائی کا ہے

:
متاحِ لوح و قلم چِھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے


دوسرا رنگ: حیدر آباد کا ہے جہاں انھیں ہرطرح کا جسمانی آرام جو جیل میں ممکن ہو سکتا تھا ‘ میسر تھا

:
یہی جنوں کا یہی طوق و دار کا موسم
یہی ہے جبر‘ یہی اختیار کا موسم
قفس ہے بس میں تمھارے‘ تمھارے بس میں نہیں
چمن میں آتشِ گل کے نکھار کا موسم
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم



تیسرا رنگ: کراچی کا ہے جہاں فیض صاحب دو ماہ مقیم رہے۔ دراصل یہ رنگ دوسرے اور چوتھے رنگ کی درمیانی کڑی ہے۔کراچی اورمنٹگمری میں لکھی ہوئی غزلوں اور نظموں کے مجموعے کا نام ’’زندان نامہ‘‘رکھا گیا
:
ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن‘ نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا ‘ خطائے نظر سے پہلے‘ عتاب جرمِ سخن سے پہلے
جو چل سکو تو چلو کہ راہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے
مقام ہے اب کوئی نہ منزل‘ فرازِ دار و رسن سے پہلے



چوتھا رنگ: منٹگمری جیل کی شاعری کاہے:
ہم اہل قفس تنہا ہی نہیں‘ ہر روز نسیم صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے‘ اشکوں سے منور جاتی ہے
۔۔۔
ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہو اندھیرے کی فصیلوں سے اُدھر
ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے
خیر ہم تک وہ پہنچیں بھی‘ صدا تو دیں گے
دور کتنی ہے ابھی صبح‘ بتا تو دیں گے



ان ادوارمیں لکھی گئی نظموں میں فیض کے سیاسی نظریات اور شعری آہنگ کاحسین امتزاج موجود ہے جو اہل علم و ادب سے خراجِ تحسین پاتا ہے
:
چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اورکچھ دیر ستم سہہ لیں ‘ تڑپ لیں‘ رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم



فیض اپنے اجداد کی میراث سے انحراف کرتے ہوئے پر امید نظر آتے ہیں:
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر‘ کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
۔۔۔۔۔۔
یہ داغ داغ اُجالا‘ یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا‘ یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رُکے گا سفینۂ غمِ دل



نظم ’’موضوعِ سخن‘‘بھی رومانیت ‘اشتراکی خیالات اور جذبہ حب الوطنی کے جذبات کا بہترین اظہار ہے۔ موجودہ نظام میں انسان پر ہونے والے استبداد اور مظالم کے حوالے سے لکھتے ہیں
:
آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سایے کے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے؟
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گزرے گی اجداد پہ کیا گزری ہے
روایت پسندی کا عنصر بھی نظم میں کچھ یوں بیان ہوا ہے:
یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے
لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کم بخت دلآویز خطوط
آپ بھی کہیے کہیں ایسے بھی افسوں ہوں گے



فیض نے شاعری میں عصری تقاضوں ‘ فکری رجحانات عوام پر بڑھتے ہوئے مظالم ‘بہیمانہ استبداد او رغیر یقینی ملکی حالات و انتشار قلبی کوبڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔ فیض کی شاعری کی معراج یہ ہے کہ انھوں نے اُردو روایتی شاعری سے اپنا تعلق بھی قائم رکھا اور عصری تقاضوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ ان کی شاعری صحیح معنوں میں اپنے اسلاف کی شعری روایات کی امین ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی فیض کی شاعری اپنے مخصوص لب و لہجے کی مانوسیت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔
بشکریہ:اخباراردو
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
rao saadia (Wednesday, November 21, 2012), usama mir (Wednesday, October 04, 2017)