View Single Post
  #4  
Old Saturday, June 09, 2012
Farrah Zafar's Avatar
Farrah Zafar Farrah Zafar is offline
Makhzan-e-Urdu Adab
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: May 2010
Location: امید نگری
Posts: 2,362
Thanks: 2,346
Thanked 4,047 Times in 1,576 Posts
Farrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud ofFarrah Zafar has much to be proud of
Default



درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا

اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے


اس شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر نے غم کی شدت کو بیان کیا ہے ۔ "ہر رگ" کا ذکر اپنے آپ میں ایک
ندرت لئے ہوۓ ہے ۔ اس سے شاعر کی اضطرابی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہو رہا ہے ۔ دکھ کی انتہا ہو تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے جسم کا ایک ایک ریشہ تکلیف کی شدت سے کراہ رہا ہے ۔ ہر ہر عضو بے چینی و بے کلی کا اظہار کر رہا ہے ۔ گویا جسم و جاں میں ایک قیامت سی برپا ہے ۔

بقول مصطفیٰ زیدی

کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے،
غم دل مرے رفیقو! غم رائیگاں نہیں ہے

ایسا لگتا ہے کہ یہ درد ہجر کا درد ہے ، یہ عشق کی وادی میں جھیلے جانے والے مصائب کا درد ہے ، یہ درد لگن ،الفت اور انسیت کا خراج ہے ، یہ درد شاید محبوب نے شاعر کو تحفتاً عطا کیا ہے ۔یہ گمان ہوتا ہے کہ شاعر ضبط کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے ۔ جب ہی وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ وہ ایسی کیفیت سے گزر رہا ہے جیسے اس کی رگوں میں فشارً خون نے تہلکہ مچا رکھا ہے ۔


بقول مجید امجد،

آخر کوئ کنارہ اس سیلٍ بے کراں کا

آخر کوئ مداوا اس دردٍ زندگی کا ؟

دوسرے مصرعے میں شاعر چونکا دیتا ہے ۔پہلے مصرعے کے برعکس وہ کہتا ہے کہ میں سکوں کی اس منزل پہ ہوں کہ اب تو مر جانے کو جی چاہتا ہے ۔ اس مصرعے کو دو رخوں پر پرکھا جا سکتا ہے ۔ پہلے کے مطابق ،شاعر شائد یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس کی حالت کچھ عجیب سی ہو گئ ہے ۔ ایک طرف تو اسے لگتا ہے کہ ضبط کے سب بندھن اب ٹوٹا ہی چاہتے ہیں اور دوسرے طرف یہ کہتا ہے کہ سکون اس طرح طاری ہے کہ موت پر کشش لگ رہی ہے ۔


اگر اس مصرعے کا دوسرا رخ دیکھا جاۓ تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاعر کو محسوس ہو رہا ہے کہ ضبط کی حد پار کرنے کے بعد اک بے حسی کی کیفیت نے اس کے جسم و جاں کا احاطہ کر لیا ہے ۔ جس سکون کی وہ بات کر رہا ہے ، وہ شائد وہ سکون ہے جو موت کے بعد ملتا ہے ۔ جب زندگی کے تکلیف دہ دائرے سے انسان نکل جاتا ہے تو اس کے بعد موت کی آغوش پرسکون ہی لگتی ہے ۔ زندگی کا شور و ہنگامہ ندارد ہوتا ہے تو موت کی خاموشی وجود کا گھیراؤ کر لیتی ہے ۔ غالباً شاعر اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اب اس میں زندگی کی کوئ رمق نہیں باقی ، کوئ ہلچل نہیں اس کے وجود کے قید خانے میں ۔ گویا اسے اپنی تمام کیفیات سے یہ لگ رہا ہے کہ جو سکوت اب چھایا ہوا ہے ، وہ اسی بات کا متمنی ہے کہ اب باضابطہ موت بھئ واقع ہو جانی چاہیے ۔ محض سانس کی امدورفت زندگی کا پتا نہیں دیتی ، سکون کی کیفیت موت کی پیشین گوئ کرتی ہے ۔


بقول میر درد

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!
Reply With Quote