اماں کیسی کہ موجٍ خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جاۓ تو شائد بازوۓ قاتل ٹھہر جاۓ
شاعر اپنی بے بسی کا رونا رو رہا ہے کہ ابھی اسے اپنے دکھوں سے پناہ کیسے ملے؟ کہ ابھی تو ظلم کی انتہا نہیں ہوئ ۔ موج خوں کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد یہ احساس دلانا ہے کہ ابھی ظلم و ستم نے اس کی جان نہیں لی ۔ ابھی وہ زندہ ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کا اشارہ اپنے محبوب کی جانب ہے ، جس کا ستم اس وقت تک نہیں تھمے گا جب تک کہ شاعر کا خون نہیں بہتا ۔
بقول مسرور انور
اک ستم اور میری جاں ، ابھی جاں باقی ہے
دل میں اب تک تیری الفت کا نشاں باقی ہے
۔گویا شاعر کا محبوب سنگدلی میں اپنی مثال نہیں رکھتا ۔ جور و جفا اسے بے حد مرغوب ہیں ۔ اور شاعر اپنے محبوب کی فطرت سے بخوبی واقف ہے جب ہی وہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ ابھی وہ ساعت نہیں آئ کہ محبوب اس پر ترس کھاۓ ۔
اگلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ جب اس کے جسم سے خون کا فوارا پھوٹے گا تب ہی اس کے محبوب کا وار کرنے والا بازو دم لے گا اور ظلم کا سلسلہ تھمے گا۔
بقول بسمل عظیم آبادی
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوۓ قاتل میں ہے
اس شعر کو یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ شاعر کا اشارہ حکمرانوں کی جانب ہے ۔ ان کے ظلم و ستم نے عوام کو بے بسی و لا چاری کی اس انتہا تک پہنچا دیا ہے کہ اب وہ فقط اپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں ۔
یہ شعر شاعر کے دل کی آواز لگتا ہے کیونکہ اس میں درد اور بے بسی واضح طور پر جھلکتی نظر آتی ہے ۔
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!
|