Thread: Iqtibasat
View Single Post
  #84  
Old Sunday, October 27, 2013
bl chughtai's Avatar
bl chughtai bl chughtai is offline
Senior Member
 
Join Date: Mar 2012
Location: heaven
Posts: 147
Thanks: 190
Thanked 71 Times in 53 Posts
bl chughtai is on a distinguished road
Default کبھی ہم خوبصورت تھے مستنصر حسین تارڑ

انگمار برگمین سویڈن کا ایک ایسا ہدایت کار ہے جس کا شمار دنیا کے عظیم ترین ہدایت کاروں میں ہوتا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً پچپن برس پیشتر اس کی لازوال فلم ’’دے سیونتھ سِیل‘‘ دیکھی تھی اور میں آج تک اس کے اثر سے آزاد نہیں ہوا۔ فرید الدین عطار کی ’’منطق الطیر ‘‘ کے بعد یہ ’’دے سیونتھ سیل‘‘ ہے جس کی جھلکیاں بار بار میری تحریروں میں سے ظاہر ہوتی ہیں لیکن آج مجھے برگمین کی ایک اور فلم ’’شیم‘‘ یعنی ’’شرمندگی‘‘ کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔۔۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ کہیں آبادیوں سے دور ایک کسان گھرانہ ایک پر سکون اور مطمئن زندگی بسر کر رہا ہے۔ کسان دن بھر کھیتوں میں مشقت کرتا ہے اور اس کے بیوی بچے اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ وہ کتابیں پڑھنے کا بھی شوقین ہے۔۔۔ فارغ وقت میں وہ ریڈیو سنتا ہے اور کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے۔۔۔ وہ بے حد حساس طبیعت ہے۔ جانوروں اور پرندوں سے پیار کرتا ہے۔۔۔ اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے، بیوی پر جان دیتا ہے۔البتہ بیوی اس کی حساس طبیعت سے بے حد تنگ ہے کیونکہ وہ خوراک کے لیے بھی کسی جانور کو ہلاک نہیں کر سکتا۔ ایک مرتبہ اس کی بیوی اس کے ہاتھ میں چھروں والی بندوق تھما دیتی ہے کہ تم اگر مرغی کی گردن پر چھری نہیں پھیر سکتے تو اس بندوق سے فائر کر کے دو تین مرغیاں مار ڈالو۔ ہمیں گوشت کی ضرورت ہے اور وہ کسان لبلبی بھی نہیں دبا سکتا۔ مرغیوں کو مار نہیں سکتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ ایک شب دور سے دھماکوں کی آواز آنے لگتی ہے، گولیاں چلنے لگتی ہیں۔ ریڈیو پر خبر آتی ہے کہ جنگ شروع ہو گئی ہے۔ دو تین روز بعد دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں نزدیک آ جاتی ہیں۔ جنگ اُن کی دہلیز تک آنے والی ہے۔ اس کی بیوی کہتی ہے کہ ہمیں یہاں سے منتقل ہو جانا چاہیے لیکن وہ کہتا ہے کہ ہمارا اس جنگ سے کیسا رابطہ۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ کون لوگ ہیں جو تباہی پھیلا رہے ہیں اور کیوں جنگ کر رہے ہیں۔۔۔ میں اپنا گھر چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ قصہ مختصر توپوں کے گولے اُن کے کھیتوں میں گرنے لگتے ہیں پھر فوجی اُن کے گھر پر یلغار کرتے ہیں۔۔۔ اُس کی بیوی کو بے آبرو کرتے ہیں۔۔۔ وہ لاشیں دیکھتا ہے۔ انسانوں کو ایک دوسرے کو ہلاک کرتے دیکھتا ہے۔۔۔ ذبح کرتے دیکھتا ہے۔۔۔ اس
کے سامنے انسانوں کے پرخچے اڑتے ہیں اور پھر اس میں ایک تبدیلی آنے لگتی ہے۔۔۔ وہ ایک مرے ہوئے سپاہی کی بندوق اٹھا کر بے دریغ یہ جانے بغیر کہ وہ کون ہیں، دشمن ہیں بھی کہ نہیں لوگوں کو بے دردی سے ہلاک کرنے لگتا ہے۔ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے، بچوں کو پیٹتا ہے۔۔۔ وہ خون دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ وہ کسان جو ایک مرغی کو بھی ہلاک نہیں کر سکتا تھا جنگ نے اسے بھی ایک وحشی درندے میں بدل دیا ہے۔۔۔ اس کی انسانی خصلت تبدیل ہو گئی ہے۔
کیا آپ کو محسوس ہوا کہ برگمین کی فلم ’’شرمندگی‘‘ کی کہانی ہماری آج کی کہانی ہے۔۔۔ کبھی ہم خوبصورت تھے، پُر امن اور حساس تھے، کسی کو ہلاک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے
’کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی!
بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھ۔۔۔ امی
تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی ساخت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو!‘
(احمد شمیم)
اور پھر یہ دن بیت گئے۔ افغان ’’جہاد‘‘ کے ثمرات میں سے مختلف ثمر ہمارے صحن میں آ کر گرنے لگے اور یہ خود کش ثمر ہوتے ہیں جو ہمیں ہمارے بچوں اور بوڑھوں سمیت ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ ضیاء الحق کے تاریک زمانوں میں زبان و بیاں پر جو پابندیاں عائد تھیں، اُن سے ہم واقف تھے، ہم جانتے تھے کہ خلاف ورزی کی پاداش میں کم از کم کوڑے اور زیادہ سے زیادہ موت منتظر ہو گی اور اس کے باوجود اس سیاہ دور میں دائیں اور بائیں بازو کی تخصیص کے بارے میں شاندار مزاحمتی ادب تخلیق کیا گیا۔ شاعروں کو سہولت تھی اور کہ وہ اشاروں کنایوں میں استعاروں کی مدد سے جبر کی صورت حال کا اظہار کر ڈالتے تھے جب کہ نثر میں آپ کو عیاں ہونا پڑتا ہے۔۔۔ نثر دراصل ایک ایف آئی آر ہوتی ہے جو آپ خود لکھتے ہیں اور گواہ کے طور پر اپنے دستخط ثبت کرتے ہیں۔۔۔ میں تفصیل میں نہیں جاتا لیکن میرے کم از کم ایک افسانے ’’بابا بگلوس‘‘ کی پاداش میں ایک برس تک ٹیلی ویژن کے دروازے مجھ پر بند کر دیے گئے جو ان دنوں میرا واحد ذریعہ روزگار تھا۔۔۔ ایک سرکاری اخبار نے یہاں تک لکھا کہ یہ افسانہ لکھنے کے جرم میں مجھے پھانسی دینی چاہیے۔ بعد میں اس افسانے سے متاثر ہو کر گلزار نے دو نظمیں لکھیں جو اُن کے ایک شعری مجموعے میں شامل ہیں۔۔۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں قلق نہ ہوتا تھا کیونکہ ہم نے اپنے ضمیر کی آواز پر یہ اظہار کیا تھا لیکن ان دنوں صورت حال مختلف ہو چکی ہے۔۔۔ اُن زمانوں میں ریاست کی جانب سے پابندیاں عائد ہوتی تھیں، کوڑے لگائے جاتے تھے اور پھانسیاں دی جاتی تھیں جب کہ معاشرہ ہماری مزاحمتی ادبی کاوشوں کی تحسین کرتا تھا اور ان زمانوں میں ریاست کی جانب سے کوئی پابندی نہیں، میڈیا آزاد ہے، آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، لکھ سکتے ہیں لیکن اب معاشرے نے جبر اور ظلم اختیار کر لیا ہے۔۔۔ معاشرے میں ایسے افراد ہیں جنہوں نے جبر اور تعصب کے پرچم اٹھائے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی ایک مرغی بھی ہلاک نہیں کر سکتے تھے۔ اتنے پر امن تھے لیکن جب سے ’’جنگ‘‘ کا آغاز ہوا ہے اس کی ہولناکیوں اور سفاکیوں نے آہستہ آہستہ انہیں بھی بے حس کر دیا ہے۔۔۔ اور وہ کیا کہتے ہیں کہ ’دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف۔۔۔اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی‘۔۔۔ ایک ہی شمارے میں ملالہ کے بارے میں تنقیدی کالموں کے ردعمل میں عارف نظامی نے ’’ملالہ کو معاف کر دیجیے‘‘ لکھا۔۔۔ شکریہ نظامی صاحب۔۔۔ میری بھی یہی درخواست ہے کہ۔۔۔ ملالہ کو معاف کر دیجیے اگرچہ وہ ملکی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس نے ہزاروں لوگوں کو بموں سے اڑا دیا ہے پھر بھی معاف کر دیجیے۔
ریاستی جبر ہمیشہ ایک مخصوص مدت کے لیے ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کسی سی ون تھرٹی کی صورت میں فضل کر دیتا ہے لیکن معاشرے کے جبر کی کوئی طے شدہ مدت نہیں ہوتی۔۔۔ یہ طویل مدت کے لیے آتا ہے اور پھر جاتے جاتے جاتا ہے، اگر جاتا ہے تو!
......
__________________
read in order to live...........!
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to bl chughtai For This Useful Post:
mudasr (Wednesday, April 30, 2014)