لفظ میرے گواہی
میرے مجھے ضبط پہ ناز تھا۔
یہ کیا ہوا کی نم ہے آئینہ دل۔
مجھے گلہ کسی سے نہیں۔
کہ میری فصل میں بہار کہاں۔
میں تو نقطہ ہو ازل سے زیست کا۔
میری مجا ل لفظوں میں کہاں۔۔
میں نہ خانماں برباد ، نہ حسرت بچی کوئی
کہ جلا کہ سب کشتیاں پوچھتے ہو میرا حال ہے کیا۔
مجھے بے وفائی سے غر ض کہاں۔
میرے رگ رگ میں شرار ہے۔
مجھے جستجو تھی آسمانوں کا۔
زمیں کے لئے اب ترس ہے بہت۔
میں تو ازل سے دل جلا رہی ۔
میرے حاؒ ل پر ہنسوں مت۔
کہ دھمال ڈالنا میرا کام تھا۔
جو بھول ہوئی کہ چھوڑ کر ۔۔
تلاش خوشی میں نکل پڑی ۔
نہ تھی میری دسترس میں یہ کہاں۔
میرا شریک تو درد تھا ۔
جو ازل سے دل میں مقیم تھا۔
خطا ہوئی کہ بھول کر اک دیا جلا لیا۔
سزا ملی کہ سب راستے بند ہوۓ۔
نہ غئنچہ دل میں کو آرزو پلے ۔
نہ خواب کو اب آرزو بھرے ۔
مہری کہ جنگ جرچہ بماند ہار ہے
مہرا حو صلہ ابھی جواں ہے ۔
کہ جلا کہ سب کشتیاں میں طارق بن زیاد ہوں
آزاد ہو کہ موسی سے اندلس کو پا لیا۔
میرا نغمہ سالوں پہ محیط ہے ۔
اور جلتا ہوا دل میرا آخری ہتھیار ہے
چلوں تو جلے میرا بدن ،
رکوں تو سانسیں ہی رکیں سی ہیں۔
مجھے جل جل کر ہو چلنا۔۔
یہی میرا پل صراط پے
__________________
"Wa tu izzu man-ta shaa, wa tu zillu man-ta shaa"
|