مولانا مظہرالدین نے آل انڈیا مسلم لیگ کی حمایت و ترجمانی کے لۓ روزنامہ "وحدت" جاری کیا. اس زمانے میں کانگریس نواز مولویوں نے دارالحکومت دہلی کو اپنا مظبوط قلعہ بناکر رکھا تھا. اس قلعے کو روزنامہ "وحدت" کے شزروں نے مسمار کردیا تو نیشنلسٹ علماء کے زیراثر طبقہ مولانا کے خون کا پیاسا ہوگیا.
مولانا کے اخباروں کا آخری دفتر ترکمان دروازے میں تھا. 1937ء میں مولانا صاحب نے اپنے دفتر میں محمّد علی جناح اور نواب زادہ لیاقت علی خان کو پر تکلف استقبالیہ دیا جو دہلی میں اپنی نوعیت کا پہلا استقبالیہ تھا. اس موقع پر مولانا مظہرالدین نے آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر محمّد علی جناح کی خدمت میں سپاس نامہ پیش کیا، جس میں انہیں قائد اعظم، فداۓ ملک و ملّت، رہنماۓ ملّت، اور قائد ملّت جیسے القابات سے نوازا گیا. ان میں سے پہلا لقب "قائد اعظم" انہوں نے اپنے اخبارات میں فورأ ہی استعمال کرنا شروع کردیا اور اپنی ہر تحریر میں "قائد اعظم محمّد علی جناح" لکھنے کی روایت کا آغاذ کیا. یہ لقب تعلیم یافتہ طبقے میں بہت مقبول ہوا.
پھر اگلے سال دسمبر 1938ء میں جب آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس پٹنہ میں ہوا تو میاں فیروزالدین احمد نے اسٹیج پر"قائد اعظم زندہ باد" کا نعرہ لگایا تو یہ لقب عوام میں بھی مقبول ہوگیا.