View Single Post
  #1  
Old Tuesday, August 09, 2016
Man Jaanbazam's Avatar
Man Jaanbazam Man Jaanbazam is offline
Excursionist
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason:
 
Join Date: Jan 2013
Location: Into The Wild
Posts: 1,940
Thanks: 1,140
Thanked 1,478 Times in 754 Posts
Man Jaanbazam has a spectacular aura aboutMan Jaanbazam has a spectacular aura aboutMan Jaanbazam has a spectacular aura about
Default شمالی علاقہ جات: گائیڈ لائن

شمالی علاقہ جات: گائیڈ لائن

تحریر: رعایت اللہ فاروقی
بشکریہ: شفیق شاہ

اگر آپ شمالی علاقہ جات یعنی گلگت بلتستان کی سیر پر روانہ ہونا چاہتے ہیں تو روانگی سے قبل یہ چند باتیں ذہن میں رکھ کر آپ پریشانی سے بچ سکتے ہیں۔
(01) گلگت کے لئے دو راستے جاتے ہیں۔ ایک شاہراہ ریشم اور شاہراہ قراقرم والا ہے۔ یہ ایک ہی شاہراہ ہے لیکن اس کے مانسہرہ سے لے کر تھاکوٹ "دوستی پل" تک کے حصے کا نام شاہراہ ریشم ہے جبکہ دریا پار سے گلگت تک یہ شاہراہ قراقرم کہلاتی ہے۔ یہ اسلام آباد سے اٹھارہ سے انیس گھنٹے کا انتہائی تکلیف دہ سفر ہے اور وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک تو اس راستے کی مسافت زیادہ ہے جبکہ داسو سے لے کر رائی کوٹ تک یہ شاہراہ آپ کے تصور سے بھی زیادہ خستہ حالت میں ہے۔ بعض مقامات پر 50 کلومیٹر کا راستہ ڈیڑھ سے دو گھنٹے میں عبور ہوتا ہے۔ اس راستے سے ہرگز نہ جائیں ورنہ آپ پچھتائینگے۔
(02) دوسرا راستہ مانسہرہ سے بالاکوٹ، ناران اور بابو سر ٹاپ سے ہو کر جاتا ہے۔ یہ شاہراہ آگے جا کر چلاس میں شاہراہ قراقرم سے جڑ جاتی ہے۔ مانسہرہ سے بابو سر ٹاپ تک سڑک زبردست جبکہ بابو سر ٹاپ سے چلاس تک بہت ہی زبردست ہے۔ چلاس سے رائی کوٹ تک پچاس کلومیٹر کی سڑک جگہ جگہ سے خستہ ہے مگر زیادہ خستہ نہیں اور رائی کوٹ برج سے گلگت تک سڑک بہت ہی بہترین حالت میں ہے۔ اگر آپ اسلام آباد سے فجر میں نکل لیں تو ہری پور تا ایبٹ آباد والے ٹریفک جام سے بچ سکتے ہیں۔ اور اگر آپ اس سے بچ گئے تو انشاءاللہ گیارہ گھنٹوں میں آپ گلگت پہنچ سکتے ہیں۔
(03) بابو سر ٹاپ سے چلاس تک کا علاقہ صدیوں سے لوٹ مار کا علاقہ چلا آ رہا ہے مگر یہ لوٹ مار دن میں نہیں بلکہ رات میں ہوتی ہے، دن میں یہ شاہراہ مکمل محفوظ ہے۔ رات کی وارداتوں کے سبب شام 4 بجے کے بعد بابوسر ٹاپ پر قائم چیک پوسٹ کے سیکیورٹی حکام کسی کو بھی آگے جانے نہیں دیتے۔ اگر آپ 4 بجے سے قبل قبل بابوسر ٹاپ پر نہیں پہنچ سکتے تو پھر ناران میں رات گزار کر اگلے دن روانہ ہوں۔
(04) شدید گرمیوں والے موسم میں بھی آپ کو دونوں موسموں کا لباس اپنے ساتھ رکھنا ہوگا۔ کیونکہ ناران ہر موسم میں سخت سرد جبکہ چلاس سے گلگت تک کا علاقہ سخت گرم اور اس سے آگے پھر سخت ٹھنڈ والا علاقہ شروع جاتا ہے۔
(05) اگر گاڑی اپنی ہے تو بہتر یہ ہے کہ سٹپنیاں دو رکھ لیں، ضروری نہیں کہ ٹائر پنکچر ہی ہو لیکن اگر خدا نخواستہ ہو گیا تو پھر سو سو کلومیٹر تک بھی پنکچر والا نہیں ملے گا۔ ٹائر میں ہوا بھرنے والا پمپ بھی ساتھ ضرور لے لیں۔
(06) پہاڑی جھرنوں اور چشموں کا پانی شہرت تو بہت رکھتا ہے لیکن یہ ہر میدانی باشندے کو راس نہیں آتا۔ بعض جگہ اس پانی میں سلفر زیادہ ہوتا ہے جس کے نتیجے میں الرجی ہوجاتی ہے اور یہ الرجی جلد پر ظاہر ہوتی ہے۔ خاص طور پر کراچی والے منرل واٹر پر ہی گزارا کریں کیونکہ ان کے معدے تو عام خالص پانی سے بھی بدک جاتے ہیں :-)
(07) میں نے یہ بات نوٹ کی کہ بلتت فورٹ پر شہری لڑکے اپنے چھچورپنے سے باز نہیں آتے اور وہ قلعے کی تاریخ بتانے والے گائڈز کی گفتگو میں مداخلت کرکے ہنزہ کے گزرے ہوئے راجاؤں اور رانیوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ یہ بہت ہی گھٹیا حرکت ہوتی ہے۔ آپ کو یہ حق ہرگز حاصل نہیں کہ ان کی تاریخ و تہذیب کا مذاق اڑائیں۔ ایسے نوجوان اپنا چھچورپنا ایبٹ آباد سے پیچھے چھوڑ جایا کریں۔
(08) ایک اہم بات یہ کہ بعض لوگ گلگت تک پہنچ کر لوٹ آتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ سیر ہوگئی۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ گلگت کو سیر شروع ہونے سے قبل کا وہ بیس کیمپ ہی سمجھیں جہاں آپ صرف رہائش رکھ سکتے ہیں یا سیر کے لئے درکار ضروری خریداری کر سکتے ہیں۔ خود گلگت شہر کوئی تفریحی مقام نہیں سیر کی جگہیں اس سے آگے آتی ہیں۔
(09) اگر آپ تین چار دن کے ارادے سے گئے ہیں تو گلگت سے آگے سیر کے لئے آپ کے پاس دو آپشنز ہیں۔ یا تو آپ سکردو نکل جائیں جو گلگت کے مشرق میں ہے یا پھر ہنزہ، عطاء آباد جھیل اور خنجراب کی جانب نکل جائیں جو شمال میں ہیں۔ ہم سکردو کے بجائے خنجراب کی جانب گئے اس لئے سکردو کے راستے وغیرہ کے حوالے سے کچھ بتانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں البتہ خنجراب کے حوالے سے پہلی بات یہ ہے کہ گلگت سے خنجراب تک پوری سڑک بہت بہترین حالت میں ہے اس کی ٹینشن نہ لیں۔ رہائش کے لئے گلگت سے ہنزہ زیادہ بہتر ہے کیونکہ ٹھنڈا ہے اور خوبصورت بھی۔
(10) سب سے اہم ترین بات یہ کہ مذہبی نقطہ نظر سے یہ پورا علاقہ بہت حساس ہے۔ یہاں سنی، شیعہ اور آغا خانی رہتے ہیں۔ اگر آپ مذہبی شخص ہیں تو پلیز اپنی زبان کا بہت ہی محتاط استعمال کریں۔ آپ کی غفلت آپ کو کسی مشکل سے بھی دوچار کر سکتی ہے۔ آغا خانی تو پھر بھی شریف لوگ ہیں درگزر کر جاتے ہیں لیکن گلگتی شیعہ اور سنی انگارے جیبوں میں لئے پھرتے ہیں لھذا اپنی سیر و تفریح پر توجہ مرکوز رکھیں مذہبی گفتگو یا تبصروں سے گریز ہی فرمائیں۔
(11) خنجراب پاس سے ساٹھ کلومیٹر قبل "خنجراب نیشنل پارک" کی چیک پوسٹ آئے گی۔ اس چیک پوسٹ پر آپ کو ہدایات دی جائیں گی کہ اب آگے پچاس کلومیٹر پر محیط نیشنل پارک ہے جس میں مار خور اور دیگر انواع و اقسام کے جانور ہیں، ان جانوروں کا خیال رکھیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن تسلی رکھیں اس نیشنل پارک میں ایک گدھے، سات ساہیوالی گائیں اور تین خانیوالی بھینسوں کے سوا کچھ نہیں۔ گدھے کا "خیال" رکھنے کی ضرورت لاہور میں ہوتی ہے جبکہ گائیں، بھینسوں کا خیال ان کے مالکان خود رکھ رہے ہوتے ہیں لھذا سست رفتاری سے سفر کرکے اپنا وقت ضائع نہ کریں۔
(12) واپسی پر ہمیشہ یہ نفسیاتی مسئلہ ہوتا ہے کہ انسان لوٹتا تیز رفتاری سے ہے لھذا واپسی کے سفر میں ڈرائیونگ ڈبل احتیاط چاہتی ہے۔ گھر لوٹتے وقت احتیاط کیجئے ورنہ دریائے سندھ کا لاشیں واپس کرنے کا ٹریک ریکارڈ بہت ہی برا ہے۔

Courtesy: Muhammad Imran Haider
__________________
The world is changed by your example, not by your opinion !
Reply With Quote
The Following 3 Users Say Thank You to Man Jaanbazam For This Useful Post:
azmatullah (Tuesday, July 17, 2018), Perennial Student (Tuesday, July 17, 2018), WaqarMMD (Tuesday, August 09, 2016)