CSS Forums

CSS Forums (http://www.cssforum.com.pk/)
-   Islamiat (http://www.cssforum.com.pk/css-compulsory-subjects/islamiat/)
-   -   Isamiat Paper in Urdu (http://www.cssforum.com.pk/css-compulsory-subjects/islamiat/13565-isamiat-paper-urdu.html)

Raz Sunday, October 28, 2007 11:18 PM

Isamiat Paper in Urdu
 
Well, members it’s an open secret that a person can best impress examiner in Urdu as compared to English medium. But it is highly needed to post here some samples of topics on Islamiat in Urdu language so as to compare and contrast our ability for paper. Seniors are requested to post material in this thread. Problem is that we lack our confidence when it is asked from us whether you will be able to best express your views in Urdu or not? To some seniors who have qualified this paper with flying colors: You can best attract the attention of examiner and gain marks up to 75 if you use fine Urdu medium.

Raz Sunday, October 28, 2007 11:34 PM

Buzrgon ki hidayat paper ko hal karny aur ache marks hasil karny ky liy:

[url]http://www.cssforum.com.pk/css-compulsory-subjects/islamiat/19-all-about-islamiyat-dmg-officer-recommended.html[/url]

Raz Thursday, December 06, 2007 12:12 PM

[center][b]اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر مکتب[/b][/center]
 
[b][center]انسان اور ایمان[/center][/b]
[center][b]اسلام ایک جامع اور ہمہ گیر مکتب[/b][/center]
اسلام کے جو ایسے تصور کائنات (جن کا ذکر پہلے ہو چکا ہے) پر مبنی ہے ایک ایسا مکتب ہے جو ہمہ گیر اور حقیقت پسند ہے۔ دنیاوی اخروی جسمانی و روحانی عقلی و فکری حساسی و جذباتی انفرادی و اجتماعی انسانی ضرورتوں کے تمام پہلوؤں پر اسلام نے توجہ دی ہے۔ اسلامی تعلیمات کو مجموعی طور پر تین شعبوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

[RIGHT]الف) اصول عقائد[/RIGHT]چیزیں جن کے بارے میں ہر آدمی کی ذمہ داری ہے کہ ان کے بارے میں اپنا عقیدہ قائم
کرے اس میدان میں انسان کے کام کی نوعیت تحقیقی و علمی ہوتی ہے۔
ب) اخلاقیات
ایسی صفات اور خصائل کا مجموعہ جن کا حصول ہر مسلمان شخص کے لئے ضروری ہے۔ ہر مسلمان فرد کو چاہئے کہ اپنے آپ کو ان صفات اور خوبیوں سے آراستہ کرے اور ان سے متضاد و متصادم امور سے اپنے آپ کو بچائے اس میدان میں انسان کے کام کی نوعیت خود سازی اور نفس کی نگہداری کرنا ہے۔
ج) احکام
ایسے اوامر کا مجموعہ ہے جو انسان کی خارجی اور حقیقی سرگرمیوں سے مربوط ہوتے ہیں۔ یہ تمام معاشی مساوی دنیوی اخروی انفرادی اور اجتماعی سرگرمیوں پر محیط ہوتے ہیں۔
شیعہ مذہب کے مطابق اسلامی عقائد کے پانچ اصول ہیں: توحید عدل نبوت امامت اور قیامت۔ یہ وہ عقائد ہیں جن کے بارے میں اسلام کے نزدیک صحیح عقیدے کا حصول ہر فرد کی ذمہ داری ہے۔ اسلام ان اصول عقائد کے بارے میں تقلید اور تعبد کو کافی نہیں سمجھتا بلکہ اس بات کو ضروری سمجھتا ہے کہ ہر شخص خود سے آزادی اور اختیار کے ساتھ ان عقائد کی درستگی کو جانے۔ اسلام کی نظر میں عبادت فقط نماز روزہ جیسی بدنی عبادات تک محدود نہیں اور نہ ہی زکوٰة و خمس جیسی مالی عبادات میں اسے مقید کیا جا سکتا ہے۔ بعض اور عبادات بھی ہیں جن میں سے ایک فکری عبادت ہے۔ غور و فکر یا سوچ و بچار جیسی یہ فکری عبادت اگر انسان کو متنبہ اور بیدار کرنے کے لئے ہو تو یہ سالہا سال کی بدنی عبادت سے افضل اور بالاتر ہے۔
قرآن کی نظر میں فکری لغزش کے مقامات
قرآن مجید جو غور و فکر اور فکری بنیاد پر نتیجہ اخذ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ تفکر کو عبادت شمار کرتا ہے اصول عقائد کو منطقی غور و فکر کے بغیر ٹھیک نہیں سمجھتا۔ اسی پس منظر میں قرآن نے ایک بنیادی مطلب کی طرف توجہ دی ہے اور وہ یہ ہے کہ انسان کی فکری لغزشوں کا سرچشمہ کیا ہے اور خطا و گمراہی کی اصل جڑ کہاں ہے؟ اگر انسان یہ چاہے کہ ٹھیک ٹھیک سوچے غلطی نہ کرے منحرف نہ ہو تو اسے کیا کرنا چاہئے؟
قرآن مجید نے بعض امور کو غلطیوں کی علت اور گمراہیوں کے سبب کے طور پر بیان کیا ہے۔ ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
علم و یقین کی بجائے ظن و گمان پر اعتماد
قرآن گویا ہے:
وان تطع اکثر من فی الارض یضلوک عن سبیل اللہ ان یتبعون الا الظن( انعام ۱۱۶)
"بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ اگر تم ان کی بات ماننے لگو تو تمہیں راہ حق سے بھٹکا دیں گے کیوں کہ وہ گمان کی پیروی کرتے ہیں اور صرف اندازے ٹیوے سے کام لیتے ہیں۔"
قرآن کریم نے بہت سی آیات میں ظن و گمان کی پیروی کی شدید مخالفت کی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ
ولاتقف مالیس لک بہ علم(اسراء ۳۶)
"جب تک کسی چیز کے بارے میں تمہیں علم و یقین حاصل نہ ہو جائے اس کے پیچھے نہ چلو۔ "
آج فلسفی نقطہ نظر سے بھی یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اشتباہات اور غلطیوں کے بڑے اسباب میں سے ایک یہی ہے۔ قرآن سے ہزار سال بعد "ڈیکارٹ" نے اپنا پہلا منطقی اصول یہ قرار دیا اور کہا کہ میں کسی چیز کو حقیقت نہیں مانوں گا جب تک وہ چیز میرے لئے یقینی نہ ہو جائے۔ اپنی "تصدیقات" کے معاملے میں جلد بازی ذہنی سابقے اور میلان سے پرہیز کروں گا۔ اس وقت تک کسی چیز کو قبول نہیں کروں گا جب تک وہ چیز میرے لئے ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک نہ ہو جائے۔ (سیر حکمت در اروپا جلد اول)
میلانات اور ہوائے نفس
اگر انسان صحیح فیصلہ کرنا چاہے تو جس بات پر وہ سوچ رہا ہو اس کے بارے میں اسے مکمل طور پر غیر جانبدار رہنا چاہئے۔ حقیقت پسند بننے کی کوشش کرے دلیل و مدارک کے سامنے سرتسلیم خم کرے۔ بالکل ایک جج کی طرح کہ جب وہ کسی فائل کا مطالعہ کرے تو اسے مقدمے کے دونوں فریقوں کے بارے میں غیر جانبداری کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ اگر قاضی یا جج کا ذاتی رجحان کسی ایک کی طرف ہو تو غیر شعوری طور پر اسی فریق کے دلائل اس کے لئے جاذب نظر ہوں گے اور اس کے خلاف آنے والے دلائل یا دوسرے فریق کے حق میں جانے والے دلائل خود بخود اس کی نظروں سے اوجھل ہوتے جائیں گے اور یہ امر قاضی کی خطا کا سبب بنتا ہے۔ اگر انسان اپنے افکار میں کسی مطلب کی نفی یا اثبات پر اپنے آپ کو غیر جانبدار نہ رکھے اور اس کا ذاتی رجحان کسی اور طرف ہو تو خود بخود اس کی توجہ کے بغیر ہی اس کی فکر کی سوئی اس کے ذاتی رجحان یا اس کی نفسانی خواہش کی طرف مڑ جائے گی۔ اسی لئے قرآن نے ظن و گمان کی طرح ہوائے نفس کو بھی لغزش کے اسباب میں شمار کیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ان یتبعون الا الظن و ماتھوی الانفس ( سورہ نجم آیت ۲۳)
"یہ لوگ تو صرف اپنے ظن و گمان اور نفسانی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں۔"
جلد بازی
ہر فیصلے اور اظہار کے لئے کچھ معین اسناد ضروری ہوتی ہیں جب تک کسی مسئلے پر مطلوبہ اسناد حاصل نہ ہوں کسی بھی قسم کا اظہار نظر جلد بازی اور فکری لغزش کا موجب ہو گا۔ قرآن کریم بار بار انسانی علمی سرمائے کے کم ہونے کی جانب اشارہ کرتا ہے مزید بعض بڑے فیصلوں کے لئے اس کے ناکافی ہونے کا ذکر کرتا ہے۔ قطعی و حتمی اظہار کو احتیاط سے دور سمجھتا ہے مثلاً:
ما او تیتم من العلم الا قلیل ( سورہ اسرا آیت ۸۵)
"تمہیں جتنا علم دیا گیا ہے وہ کم ہے اور قضاوت کے لئے کافی نہیں ہے۔ "
امام صادق۱فرماتے ہیں: ۱قرآن میں خدا نے اپنے بندوں کو دو آیتوں کے ذریعے نصیحت کی ہے۔ اول یہ کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں علم پیدا نہ کر لیں تصدیق نہ کریں (تصدیق کرنے میں جلد بازی نہ کریں)۔ دوسرا یہ کہ جب تک کسی چیز کے بارے میں علم حاصل نہ کر لیں اور علم و یقین کے مرحلے تک نہ پہنچ جائیں اس چیز کی نفی نہ کریں اسے رد نہ کریں (انکار کرنے میں جلد بازی)۔ ارشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیں:
الم یوخذ علیھم میثاق الکتاب ان لا یقولو اعلی اللّٰہ الا الحق ( سورہ اعراف آیت ۱۲۹)
"کیا ان سے کتاب (کتاب فطرت یا آسمانی کتب) میں وعدہ نہیں لیا گیا کہ خدا پر سچ کے علاوہ کچھ نہیں کہیں گے (بات کا حق سچ ہونا ضروری ہے)۔"
ایک اور آیت میں یوں فرمایا:
بل کذبو ابمالم یحیطوا بعلم
( سورہ یونس آیت ۳۹)
"انہوں نے اس چیز کا انکار کیا اور جھٹلایا جس پر ان کو کوئی احاطہ نہ تھا (یعنی اسے نہ جانتے تھے)۔" (تفسیرالمیزان (عربی) ج ۶ ص ۳۱۹)
# آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
انسان اپنی طبیعت اولیٰ کے تحت جب دیکھتا ہے کہ کوئی ایک خاص فکر و عقیدہ گذشتہ نسلوں میں موجود تھا تو خود بغیر سوچے سمجھے اس کو قبول کر لیتا ہے۔ قرآن یاددہانی کرواتا ہے کہ گذشتہ نسلوں کے افکار و نظریات کو جب تک عقل و منطق کے معیار پر نہ پرکھو انہیں قبول نہ کرو۔ پہلی نسلوں کے عقائد کے حوالے سے تمہیں آزاد فکر ہونا چاہئے۔
و اذا قیل لھم اتبعوا ما انزل اللّٰہ قالوا بل نتبع ما الفینا علیہ آبائنا اولو کان آباؤ ھم لا یعقلون شیاً و لا یھتدون ( سورہ بقرہ آیت ۱۷۰)
"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ خدا نے وحی کے ذریعے جو کچھ نازل کیا ہے اس کی پیروی کرو تو کہتے ہیں کہ نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ہم صرف اپنی راہ و رسم اور روایات پر چلیں گے جن پر ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو پایا۔"
کیا اگر ان کے آباؤ اجداد کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور انہیں کوئی راستہ سجھائی نہ دیتا ہو پھر بھی یہ انہی کی پیروی کریں گے؟
شخصیت پرستی
فکری لغزشوں کے اسباب میں سے ایک سبب شخصیت پرستی بھی ہے۔ عظیم تاریخی شخصیات یا معاصر بڑی بڑی شخصیات لوگوں کے دل و دماغ پر اپنی عظمت اور ہیبت کی وجہ سے ان کی فکر سوچ ارادے اور فیصلوں پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ درحقیقت دوسروں کے فکر و ارادہ کو مسخر کر لیتی ہیں۔ پھر دوسرے لوگ اسی طرح سوچتے ہیں جیسے وہ سوچیں اور اسی طرح فیصلے کرتے ہیں جیسے ان کے فیصلے ہوں۔ اس طرح لوگ ان کے سامنے اپنا ارادہ اور فکری آزادی کھو بیٹھتے ہیں۔
قرآن ہمیں فکری آزادی کی دعوت دیتا ہے۔ بڑوں کی اندھی تقلید کو دائمی بدبختی کا سبب گردانتا ہے۔ بنابرایں اسی راستے سے گمراہی پر چل نکلنے والوں کی زبانی کہتا ہے:
ربنا انا اطعنا سادتنا و کبرانا فاضلونا السبیلا ( سورہ احزاب آیت ۶۷)
"ہمارے خدا ہم نے اپنے بڑے بوڑھوں کی پیروی اور اطاعت کی نتیجتاً انہوں نے ہمیں گمراہ کر دیا۔"
اسلام میں فکری مآخذ
قرآن غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ فکری لغزشوں کی راہیں واضح طور پر بیان کرتا ہے۔ مزید برآں غور و فکر کے سرچشموں کی بھی خبر دیتا ہے۔ یعنی جن موضوعات پر انسان کو سوچنا چاہئے اور ان موضوعات سے اپنی معلومات و اطلاعات کے لئے استفادہ کرنا چاہئے۔ قرآن نے انہیں بیان کیا ہے۔
اسلام میں کلی طور پر ایسے مسائل میں فکری توانائیاں خرچ کرنے سے منع کیا گیا ہے جن کا نتیجہ تھکاوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ ایسے موضوعات پر اسلام نے تحقیق کرنے سے روکا ہے۔ ممکن ہے بعض مسائل قابل تحقیق ہوں لیکن انسان کو ان سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہوتا ہو تو ایسے مسائل میں پڑنے کی بھی مخالفت کی گئی ہے۔
پیغمبر اکرم نے ایسے علم کو بے ہودہ اور لغو کہا ہے جس کے ہونے سے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو اور اس کے نہ ہونے سے کوئی نقصان بھی نہ ہو۔ لیکن وہ علوم جو فائدہ مند ہیں۔ ان کے لئے تحقیق کے تمام راستے کھلے ہیں۔ اسلام نے ان کی تائید کی ہے اور ان کے بارے میں شوق و رغبت بڑھائی ہے۔
قرآن کریم نے غور و فکر کے لئے تین موضوعات کو مفید اور سودمند بیان کیا ہے۔
(مزید تفصیل کیلئے شہید مطہری کی کتاب "رسالہ شناخت در قرآن" دیکھئے)
عالم طبیعت
قرآن میں متعدد آیات ایسی ہیں جو عالم طبیعت کی طرف توجہ دلاتی ہیں: طبیعت یعنی زمین آسمان ستارے سورج چاند بادل بارش ہوائیں دریاؤں میں کشتیوں کا چلنا نباتات حیوانات حتیٰ ہر وہ محسوس چیز جو انسان کے اردگرد موجود ہے۔ یہ ان موضوعات میں سے ہیں جن کے بارے میں بہت دقیق غور و فکر کرنا چاہئے اور غور و فکر سے علم حاصل کرنا چاہئے۔
بطور مثال یہ آیت ملاحظہ ہو:
قل انظروا ماذا فی السموات والارض (یونس ۱۰۱)
"لوگوں سے کہہ دیجئے کہ غور کریں۔ مطالعہ کریں دیکھیں زمین و آسمان میں کیا کچھ ہے؟"
تاریخ
قرآن کی بہت سی آیات گذشتہ قوموں کے مطالعہ کی دعوت دیتی ہیں اور اسے حصول علم کا ایک منبع و سرچشمہ قرار دیتی ہیں۔ قرآن کی رو سے تاریخ بشر اور اس کے انقلابات یا تغیر و تبدل اصول و سنن کی بنیاد پر انجام پاتے ہیں۔ تاریخ میں عزت ذلت کامیابی ناکامی فتح و شکست خوش بختی و بدبختی کا ایک خاص دقیق و منظم حساب کتاب ہے۔ اسی حساب کتاب اور قانون و ضابطہ کو جان کر موجودہ تاریخ عصر حاضر کی لگام اپنے ہاتھ میں لے جا سکتی ہے۔ اپنے اور لوگوں کی سعادت کے لئے ان اصول و روایات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔
نمونہ کے طور پر یہ آیت مجیدہ ملاحظہ ہو:
قد خلت من قبلکم سنن فسیروا فی الارض فانظروا کیف کان عاقبة المکذبین (آل عمران آیت ۱۳۷)
"آپ سے پہلے قوانین اور اصول سنن روبہ عمل آ چکے ہیں۔ پس آپ ذرا زمین میں چل پھر کر گذشتگان کے آثار میں غور و فکر کریں اور دیکھیں ان لوگوں کا کیا انجام ہوا جنہیں ہم نے وحی کے ذریعے حقائق بیان کئے اور انہوں نے اسے جھوٹ سمجھا۔"
انسانی ضمیر
قرآن انسانی ضمیر کو معرفت کا ایک خاص منبع و مآخذ قرار دیتا ہے۔ قرآن کی نظر میں تمام خلقت حقیقت کشف کرنے کے لئے اللہ کی آیات اس کی علامتیں اور نشانیاں ہیں۔ قرآن انسان کی بیرونی دنیا کو "آفاق" اور اندرونی دنیا کو "انفس" کے نام سے یاد کرتا ہے۔
( سورہ فصلت آیت ۵۳)
اسی طرح قرآن نے انسانی ضمیر کی خاص اہمیت کی طرف متوجہ کیا ہے۔ اسلامی ادبیات میں "آفاق و انفس" کی اصطلاح یہیں سے پیدا ہوئی ہے۔
جرمن فلسفی "کانٹ" کا ایک مشہور عالم جملہ جو اس کی قبر پر بھی کندہ ہے۔
کانٹ کہتا ہے کہ
"دو چیزیں انسان کو سخت تعجب میں ڈال دیتی ہیں ایک ستاروں سے بھرا آسمان جو ہمارے سروں پر قائم ہے اور دوسرا وجدان و ضمیر جو ہمارے اندر ہے۔"

Raz Thursday, December 06, 2007 12:26 PM

قرآن اور عورت
 
[center][b] قرآن اور عورت[/b][/center]

بسم اللہ الرحمن الرحیم الحمد للہ رب العالمین والصلاة والسلام علی سید الانبیاء والمرسلین محمد وآلہ الطاھرین المعصومین اما بعد ! حضرت انسان میں سلسلہ تفاضل، ابتداء خلقت انسان سے موجود ہے۔سب سے پہلے تفاضل یعنی ایک دوسرے پہ فضیلت کا دعویٰ حضرت آدم - اور ملائکہ کے درمیان ہوا۔جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔ وَإِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلاَئِکَۃِ إِنِیّ جَاعِلٌ فِی الْأَرْضِ خَلِیْفَۃً قَالُوْا أَتَجْعَلُ فِیْہَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْہَا وَیَسْفِکُ الدِّمَاءَ ج وَنَحْنُ نُسِبِّحُ بِحَمْدِکَ ونُقَدِّسُ لَکَ "اور تیرے رب نے جب فرشتوں سے کہا: میں اس زمین میں ایک خلیفہ ( نائب ، نمائندہ ) بنانے والا ہوں تو فرشتوں نے کہا: کیا تو زمین میں اس کو خلیفہ بنائے گا جو وہاں فساد پھیلائے گا اور خون ریزی کرے گا جب کہ ہم تیری حمد و ثناء کی تسبیح اور پاکیزگی کا ورد کرتے رہتے ہیں۔" (بقرہ ۳۰) پھر یہ سلسلہ تفاضل و تفاخر قابیل و ہابیل میں ہوا جب خدا وند قدوس نے ایک کی قربانی قبول فرمائی اور دوسرے کی رد کر دی۔ وَاتْلُ عَلَیْہِمْ نَبَأَ ابْنَیْ آدَمَ بِالْحَقِّ م إِذْ قَرَّبَا قُرْبَانًا فَتُقُبِّلَ مِنْ أَحَدِہِمَا وَلَمْ یُتَقَبَّلْ مِنَ الْآخَرِ قَالَ لَأَقْتُلَنَّکَ قَالَ إِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِینَ۔ "اور آپ انہیں آدم کے بیٹوں کا حقیقی قصہ سنائیں۔ جب ان دونوں نے قربانی پیش کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی تو اس نے کہامیں ضرور تجھے قتل کر دوں گا (پہلے نے کہا ) اللہ تو صرف تقویٰ رکھنے والوں سے قبول کرتا ہے ۔" (مائدہ :27) یہ سلسلہ تفاضل و تفاخر یعنی ایک دوسرے پر فوقیت کا دعویٰ آج بھی موجود ہے ہر جگہ رائج ہے حالانکہ مرد اور عورت دونوں انسان ہیں، دونوں کی خلقت مٹی سے ہوئی ہے جیسا کہ ارشاد ہوا ۔ ھُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ تُرَابٍ "وہی تو ہے جس نے تمہیں مٹی سے پیدا کیا ۔" (موٴمن :67) وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ سُلَالَةٍ مِنْ طِیْنٍ ج ثُمَّ جَعَلْنَاہُ نُطْفَة ً فِیْ قَرَارٍ مَّکِیْنٍ۔ "ضاور بتحقیق ہم نے انسان کو مٹی سے بنایا پھر ہم نے اسے محفوظ جگہ میں نطفہ بنا دیا۔" ( الموٴمنون :12.13) مرداور عورت خلقت کے لحاظ سے مساوی اور برابر ہیں، دونوں کی خلقت مٹی سے ہوئی، نطفہ سے پیدائش کے بعد تمام مراحل میں ایک جیسے ہیں پھر ذکر و انثیٰ یعنی مرد اور عورت کی پیدائش کے حوالے سے ارشاد رب العزت ہو رہا ہے : یَاأَیُّہَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّأُنثٰی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۔ "اے لوگو! ہم نے تمہیں ایک مرد اور عورت سے پیدا کیا ،پھر تمہیں قومیں اور قبیلے بنا دیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو۔"(حجرات: 13) ہاں تو خلقت ایک جیسی، محل خلقت ایک جیسا ، اساس خلقت ایک ، اس کے باوجود تفاضل و تفاخر کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے۔ آخر کیوں ؟ اسلام نے خواہ مرد سے مرد کا مقابلہ ہو یا عورت کا عورت سے تقابل ہو، یا مردا ور عورت کا آپس میں تفاخر ہو، ان سب میں برتری کا معیار صرف تقویٰ، خوف خدا اور عظمت ِرب کے احساس کو قرار دیا ہے ارشاد ہو رہا ہے: إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہ أَتْقَاکُمْ۔ "اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ معزز و مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیز گار ہے " (حجرات :13) مرد اور عورت کے باہمی فخر و مباہات کا سلسلہ ایسا چلا کہ عورت کو بے چارا بنا دیا گیا۔ قبل از اسلام تو انسانیت کے دائرہ سے بھی خارج قرار دیا گیاتھا، یونانیوں میں عورت کا وجود ناپاک اور شیطانی تصور کیا جاتا تھا۔ عورت فقط خدمت اورنفسانی خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ تھی۔ رومی لوگ عورت کو روح انسانی سے خالی جانتے تھے وہ اسے قیامت کے دن دوبارہ زندہ کئے جانے کے قابل نہیں سمجھتے تھے۔ساسانی بادشاہوں کے زمانے میں عورت کا شمار اشیاء خرید و فروخت میں ہوتا تھا، یہودیوں میں عورت کی گواہی نا قابل قبول تھی۔ زمانہ جاہلیت کے عرب تو بیٹی کی پیدائش کو اپنے لئے موجب ننگ و عار جانتے تھے۔ہندو اور پارسی ،عورت کو ہر خرابی کی جڑ ، فتنہ کی بنیاد اور حقیر ترین چیز شمار کرتے تھے۔ چین کے فلسفی (کونفوشیوس) کا قول ہے عورت حکم و احکام دینے کے قابل نہیں ہے ،عورت کو گھر میں بند رہنا چاہئے تاکہ لوگ اس کے شر سے محفوظ رہیں۔قبل از اسلام جزیرہ نما عرب میں عورت زندہ رہنے کے قابل نہیں سمجھی جاتی تھی۔ بیٹی کی پیدائش ننگ و عار اور فضیحت و شرمساری کا موجب تھی ۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا اور ایسی عظمت دی جس کا تصور کسی غیر مسلم معاشرے میں ممکن نہیں ہے ۔ اسلام میں عورت کی عظمت کا کیا کہنا کہ جب بیٹی ملنے آتی تو علت غائی ممکنات ، انبیاء کے سرداربنفس نفیس تعظیم کیلئے کھڑے ہو جاتے اور اپنی مسند پر بٹھاتے عظمت عورت کا ذریعہ جناب فاطمہ ہیں ۔ قبل از اسلام اہل عرب بیٹی کو زندہ در گور کر دیا کرتے تھے ۔جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد رب العزت ہے۔ وَاِذَا الْمَوْء دَةُ سُئِلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ۔ "اور جب زندہ در گور لڑکی سے پوچھا جائے گا کہ وہ کس گناہ میں ماری گئی ۔" (تکویر :9-8) یہ قبیح رسم اس قدر عام تھی کہ جب عورت کے وضع حمل کا وقت قریب آتا تو زمین میں گڑھا کھودکر اسے وہاں بیٹھا دیا جاتا پھراگر نوزائیدہ لڑکی ہوتی تو اسے اس گڑھے میں پھینک دیا جاتا اور اگر لڑکا ہوتا تو اسے زندہ چھوڑ دیا جاتا ،اسی لئے اس دور کے شعراء میں ایک شاعر بڑے فخریہ انداز میں کہتا ہوا نظر آتا ہے: سمیتھا اذا ولدت تموت والقبر صہرضامن زمیت (مجمع البیان ج 10ص444) "میں نے اس نوزائدہ لڑکی کا نام اس کی پیدائش کے وقت تموت (مر جائے گی) رکھا اور قبر میرا داماد ہے، جس نے اسے اپنی بغل میں لے لیا اور اسے خاموش کر دیا۔" بیٹیوں کو زندہ در گور کرنے کی رسم بڑی دردناک ہے۔ ان واقعات کو پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اس نے (متأثر ہونے کے بعد سچا اسلام قبول کیا ) ایک آپ کی خدمت میں آ کر عرض کرنے لگا یا۔ رسول اللہ اگر میں نے کوئی بہت بڑا گناہ کیا ہو تو کیا میری توبہ قبول ہو سکتی ہے ؟ آپ نے فرمایا: "خد ا رحم الراحمین ہے ۔" اس نے عرض کیا یا رسول اللہ !میرا گناہ بہت بڑا ہے۔ فرمایا! وائے ہو تجھ پر تیرا گناہ کتنا ہی بڑا ہی کیوں نہ ہو خدا کی بخشش سے تو بڑا نہیں ؟۔ اس نے کہا !اگر یہ بات ہے تو میں آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں زمانہ جاہلیت میں ،میں دور دراز سفر پر گیا ہوا تھا، ان دنوں میری بیوی حاملہ تھی چار سال بعد گھر لوٹاتو میری بیوی نے میرا ستقبال کیا ،گھر میں ایک بچی پر نظر پڑی، میں نے پوچھا یہ کس کی بیٹی ہے ؟ بیوی نے کہا !ایک ہمسائے کی بیٹی ہے۔ میں نے سوچا یہ ابھی اپنے گھر چلی جائے گی، لیکن مجھے اس وقت بہت تعجب ہوا جب وہ نہ گئی ،آخر کار مجھے پوچھنا ہی پڑا ،میں نے بیوی سے پوچھا ۔سچ بتایہ کس کی بیٹی ہے ؟ بیوی نے جواب دیا۔ آپ سفر پر تھے، یہ پیدا ہوئی، یہ تمہاری ہی بیٹی ہے۔ وہ شخص کہتا ہے۔ میں نے ساری رات پریشانی میں گزاری ،کبھی آنکھ لگتی اور کبھی بیدار ہو جاتا، صبح قریب تھی میں بستر سے اٹھا میں نے بچی کو ماں کے ساتھ سویا ہوا دیکھا ، بڑی خوبصورت لگ رہی تھی اسے جگایا اور کہا۔ میرے ساتھ چلو ہم نخلستان کی طرف چلے وہ میرے پیچھے پیچھے چل رہی تھی، جب ہم نخلستان میں پہنچے میں نے گڑھا کھودنا شروع کیا، وہ میری مدد کرتی رہی ،مٹی باہر پھینکتی رہی، میں نے اسے بغل کے نیچے سے ہاتھ رکھ کر اٹھایا اور اسے گڑھے میں پھینک دیا۔ یہ سننا تھا رسول اعظم کی آنکھیں بھر آئیں ۔ اس نے بات کو آگے بڑھایا، میں نے اپنا بایاں ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا تاکہ وہ باہر نہ نکل سکے اور دائیں ہاتھ سے مٹی ڈالنے لگا اس نے بہت کوشش کی اور بڑی مظلومانہ انداز میں فریاد کرتی تھی اور بار بار کہتی تھی بابا جان! کچھ مٹی آپ کی داڑھی اور کپڑوں میں پڑ گئی ہے، وہ ہاتھ بڑھا کر اس مٹی کو صاف کرنے لگی ،لیکن میں پوری قساوت اور سنگدلی سے اس پر مٹی ڈالتا رہا، یہاں تک اس کے نالہ و فریاد کی آخری آواز آئی اور وہ خاک میں دم توڑ گئی۔ حضرت رسول اعظم نے دکھی حالت میں یہ داستان سنی، پریشانی ظاہر تھی۔اپنی آنکھوں سے آنسو صاف کرتے ہوئے فرمایا: اگر رحمت خدا کو اس کے غضب پر سبقت نہ ہوتی تو حتمًاجتنا جلدی ہوتا خدا اس سے انتقام لیتا۔ (القرآن ،یواکب الدہر،ج 2ص 214) جزیرہ عرب کے کفار توہین کے انداز میں ملائکہ کو خدا کی بیٹیاں کہتے تھے اور فرشتوں کا مذاق اڑاتے تھے۔ بیٹی کی پیدائش پر ان کا چہرہ مارے غصہ کے سیاہ ہو جاتاہے جیسا کہ ارشاد خدا ندی ہے: أَمِ اتَّخَذَ مِمَّا یَخْلُقُ بَنَاتٍ وَّأَصْفَاکُمْ بِالْبَنِیَنَ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِمَا ضَرَبَ لِلرَّحْمَانِ مَثَلاً ظَلَّ وَجْہُہ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ أَوَمَنْ یُنَشَّأُ فِی الْحِلْیَةِ وَہُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ وَجَعَلُوا الْمَلاَئِکَةَ الَّذِینَ ہُمْ عِبَادُ الرَّحْمَانِ إِنَاثًا أَشَہِدُوْا خَلْقَہُمْ ۔ "کیا اللہ نے اپنی مخلوق میں سے (اپنے لیے)بیٹیاں بنا لیں ہیں اور تمہیں بیٹے چن کردیئے حالانکہ ان میں سے جب کسی ایک کوبھی بیٹی کامثردہ سنایا جاتا ہے جو اس نے خدا ئے رحمان کی طرف منسوب کی تھی تواندر اندر غصے سے پیچ و تاب کھا کر اس کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے۔ کیا وہ جو ناز و نعم کے زیورمیں پلی ہے اور جھگڑے کے وقت (اپنا) مدعا بھی واضح نہیں کرسکتی۔ (اللہ کے حصہ میں آتی ہے؟) اورا ن لوگوں نے فرشتوں کو جو خدا کے بندے ہیں (خدا کی)بیٹیاں بنا ڈالا ۔ کیا وہ فرشتوں کی پیدائش کو کھڑے دیکھ رہے تھے؟ (زخرف،16تا19) ہو سکتاہے کہ یہ خیال زمانہ جاہلیت کی خرافات سے عربوں تک پہنچا ہو لیکن عرب ظلم و جور میں بہت آگے بڑھ گئے وہ اپنی بیٹیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ۔ (زخرف،16تا19) ارشاد خدا وندی ہے: وَیَجْعَلُونَ لِلَّہِ الْبَنَاتِ سُبْحَانَہ وَلَہُمْ مَّا یَشْتَہُوْنَ وَإِذَا بُشِّرَ أَحَدُہُمْ بِالْأُنْثَی ظَلَّ وَجْہُہ مُسْوَدًّا وَّہُوَ کَظِیْمٌ یَتَوَارٰی مِنَ الْقَوْمِ مِنْ سُوْءِ مَّا بُشِّرَ بِہ أَیُمْسِکُہ عَلٰی ہُوْنٍ أَمْ یَدُسُّہ فِی التُّرَابِ أَلاَسَاءَ مَا یَحْکُمُوْنَ "اور انہوں نے اللہ کے لیے بیٹاں قرار دے رکھی ہیں جس سے وہ پاک و منزہ ہے اور یہ لوگ اپنے لیے وہ اختیار کرتے ہیں جو یہ پسند کریں یعنی لڑکے اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی کی خوشخبری دی جاتی ہے تو غصے کی وجہ سے ان کا منہ سیاہ ہوجاتاہے اس بری خبر کی وجہ سے لوگوں سے چھپتے رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کیا انہیں اس ذلت کے ساتھ زندہ رہنے دیا جائے یا انہیں زیر خاک دفن کردیا جائے۔دیکھو کتنا برا فیصلہ ہے جو یہ کر رہے ہیں۔ " ( سورہ نحل آیت 57-58-59 ) بہر حال اسلام سے قبل بیٹی( لڑکی) انسان ہی نہیں سمجھی جاتی تھی اور آج بھی بیٹے کی پیدائش پر خوشیوں کے شادیانے بجتے ہیں ، مٹھائیاں تقسیم ہوتی ہیں ،ہدیہ تبریک پیش کیا جاتاہے ۔ اوربیٹی کی پیدائش پر بس سردمہری ،سکوت اورخاموشی کا مظاہرہ ہوتا ہے آخر ایسا کیوں ہے؟

Raz Thursday, December 06, 2007 12:33 PM

زکوٰة کے احکام
 
[b][center] زکوٰة کے احکام[/center][/b](۱۸۲۰)زکوٰة چند چیزوں پر واجب ہے۔
(۱)گیہوں(۲)جو(۳)کھجور(۴)کشمش(۵)سونا(۶)چاندی(۷)اونٹ(۸)گائے(۹)بھیڑبکری (۱۰)احتیاط لازم کی بنا پر مال تجارت۔
اگر کوئی شخص ان دس چیزوں میں سے کسی ایک کا مالک ہو تو ان شرائط کے تحت جن کاذکر بعد میں کیا جائے گا ضروری ہے کہ جو مقدار مقرر کی گئی ہے اسے ان مصارف میں سے کسی ایک مد میں خرچ کرے جن کا حکم دیا گیا ہے۔
[b][center]زکوٰة واجب ہونے کی شرائط[/center][/b](۱۸۲۱)زکوٰة مذکورہ دس چیزوں پر اس صورت میں واجب ہوتی ہے جب مال اس نصاب کی مقدار تک پہنچ جائے جس کا ذکر بعد میں کیا جائے گا اور وہ مال انسان کی اپنی ملکیت ہو اور اس کا مالک آزاد ہو۔
(۱۸۲۲)اگر انسان گیارہ مہینے گائے، بھیڑ بکری،اونٹ،سونے یا چاندی کا مالک رہے تو اگرچہ بارہویں مہینے کی پہلی تاریخ کو زکوٰة اس پر واجب ہوجائے گی لیکن ضروری ہے کہ اگلے سال کی ابتداء کا حساب بارہویں مہینے کے خاتمے کے بعد سے کرے۔
(۱۸۲۳)سونے ،چاندی اور مال تجارت پر زکوٰة کے واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ ان چیزوں کا مالک پورے سال بالغ اور عاقل ہو ۔لیکن گیہوں،جو ،کھجور،کشمش اور اسی طرح اونٹ ،گائے اور بھیڑ بکریوں میں مالک کا بالغ اور عاقل ہونا شرط نہیں ہے۔
(۱۸۲۴)گیہوں اور جو پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب انہیں گیہوں اور جو کہا جائے۔کشمش پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ ابھی انگورہی کی صورت میں ہوں۔کھجور پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب(وہ پک جائیں اور )عرب اسے تمر کہیں۔ لیکن ان میں زکوٰة کا نصاب دیکھنے کا وقت وہ ہے جب یہ خشک ہو جائیں اور گندم و جوکی زکوٰة دینے کا وقت وہ ہوتا ہے جب یہ غلہ کھلیان میں پہنچے اور ان(کی بالیوں ) سے بھوسا اور (دانہ)الگ کیا جائے،جبکہ کھجور اور کشمش میں یہ وقت وہ ہوتا ہے جب انہیں اتار لیتے ہیں۔اگر اس وقت کے بعد مستحق کے ہوتے ہوئے بلاوجہ تاخیر کرے اور تلف ہو جائے تو مالک ضامن ہے۔
(۱۸۲۵)گیہوں،جو،کشمش اور کھجور میں زکوٰة ثابت ہونے کے لئے جیسا کہ سابقہ مسئلے میں بتایا گیا ہے۔معتبر نہیں ہے کہ ان کامالک ان میں تصرف کر سکے۔پس اگر مالک غائب ہو اور مال بھی اس کے یا اس کے وکیل کے ہاتھ میں نہ ہو مثلاً کسی نے ان چیزوں کو غصب کر لیا ہو تب بھی جس وقت وہ مال اس کو مل جائے زکوٰة ان چیزوں میں ثابت ہے۔
(۱۸۲۶)اگر گائے،بھیڑ،اونٹ،سونے اور چاندی کا مالک سال کا کچھ حصہ مست (بے حواس) یا بے ہوش رہے تو زکوٰة اس پر سے ساقط نہیں ہوتی اور اسی طرح گیہوں،جو کھجور اور کشمش کامالک زکوٰة واجب ہونے کے موقع پر مست یا بے ہوش ہوجائے توبھی یہی حکم ہے۔
(۱۸۲۷)گیہوں،جو کھجوراور کشمش کے علاوہ دوسری چیزوں میں زکوٰة ثابت ہونے کے لئے یہ شرط ہے کہ مالک اس مال میں شرعاً اور تکویناً تصرف کر سکتا ہو۔پس اگر سال کے ایک قابل توجہ حصے میں کسی نے اس مال کوغصب کر لیا ہو یا مالک اس مال میں شرعاً تصرف نہ کر سکتا ہو تو اس میں زکوةٰ نہیں ہے۔
(۱۸۲۸)اگر کسی نے سونا اور چاندی یاکوئی اور چیز جس پرزکوٰة دینا واجب ہوکسی سے قرض لی ہو اور وہ چیز ایک سال تک اس کے پاس رہے توضروری ہے کہ اس کی زکوٰة دے اورجس نے قرض دیا ہواس پر کچھ واجب نہیں ہے۔ہاں اگر قرض دینے والااس کی زکوٰة دیدے تو قرضدار پرکچھ واجب نہیں۔
گیہوں،جو کھجوراور کشمش کی زکوٰة
(۱۸۲۹)گیہوں،جوکھجور اور کشمش پر زکوٰة اس وقت واجب ہوتی ہے جب وہ نصاب کی حد تک پہنچ جائیں اوران کا نصاب تین سو صاع ہے جوایک گروہ(علماء) کے بقول تقریباً۸۴۷کلو ہوتا ہے۔
(۱۸۳۰)جس انگور،کھجور،جو اور گیہوں پر زکوٰة واجب ہوچکی ہو اگر کوئی شخص خود یا اس کے اہل وعیال اسے کھالیں یا مثلاً وہ یہ اجناس کسی فقیر کو زکوٰة کے علاوہ کسی اور نیت سے دیدے تو ضروری ہے کہ جتنی مقدار استعمال کی ہو اس پر زکوٰة دے۔
(۱۸۳۱)اگر گیہوں،جو کھجور اور انگور پر زکوٰة واجب ہونے کے بعد ان چیزوں کا مالک مر جائے تو جتنی زکوٰة بنتی ہو وہ اس کے مال سے دینی ضروری ہے لیکن اگر وہ شخص زکوٰة واجب ہونے سے پہلے مر جائے تو ہر وہ وارث جس کاحصہ نصاب تک پہنچ جائے ضروری ہے کہ اپنے حصے کی زکوٰة خود ادا کرے۔
(۱۸۳۲)جو شخص حاکم شرع کی طرف سے زکوٰة جمع کرنے پر مامور ہو وہ گیہوں اورجو کے کھلیان میں بھوسا (اور دانہ) الگ کرنے کے وقت اور کھجور اور انگور کے خشک ہونے کے وقت زکوٰة کا مطالبہ کر سکتا ہے اور اگر مالک نہ دے اورجس چیز پر زکوٰة واجب ہو گئی ہو وہ تلف ہو جائے توضروری ہے کہ اس کا عوض دے۔
(۱۸۳۳)اگر کسی شخص کے کھجور کے درختوں،انگور کی بیلوں یا گیہوں اور جوکھیتوں(کی پیداور)کا مالک بننے کے بعد ان چیزوں پر زکوٰة واجب ہوجائے توضروری ہے کہ ان پر زکوٰة دے۔
(۱۸۳۴)اگر گیہوں،جوکھجور اور انگور پر زکوٰة واجب ہونے کے بعد کوئی شخص کھیتوں اور درختوں کو بیچ دے تو بیچنے والے پر ان اجناس کی زکوٰة دینا واجب ہے اور جب وہ زکوٰة ادا کردے تو خریدنے والے پر کچھ واجب نہیں ہے۔
(۱۸۳۵)اگر کوئی شخص گیہوں،جو ،کھجور یاانگور خریدے اور اسے علم ہو کہ بیچنے والے نے ان کی زکوٰة دے دی ہے یا شک کرے کہ اس نے زکوٰة دی ہے یا نہیں تو اس پر کچھ واجب نہیں ہے اور اگر اسے معلوم ہو کہ بیچنے والے نے ان پرزکوٰة نہیں دی تو ضروری ہے کہ وہ خود اس پر زکوٰة دے دے،لیکن اگر بیچنے والے نے اسے دھوکہ دیا ہوتو وہ زکوٰة دینے کے بعد اس سے رجوع کرسکتا ہے اور زکوٰة کی مقدار کا اس سے مطالبہ کر سکتاہے۔
(۱۸۳۶)اگر گیہوں،جو،کھجور اور انگور کا وزن تر ہونے کے وقت نصاب کی حد تک پہنچ جائے اور خشک ہونے کے وقت اس حد سے کم ہوجائے تو اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۳۷)اگر کوئی شخص گیہوں،جواور کھجور کو خشک ہونے کے وقت سے پہلے خرچ کرے تو اگر وہ خشک ہوکر نصاب پر پوری اتریں تو ضروری ہے کہ ان کی زکوٰة دے۔
[b][center](۱۸۳۸)کجھور کی تین قسمیں ہیں:[/center][/b](۱) وہ جسے خشک کیا جاتا ہے اس کی زکوٰة کا حکم بیان ہوچکا۔
(۲)وہ جو رطب(پکی ہوئی رس دار) ہونے کی حالت میں کھائی جاتی ہے۔
(۳)وہ جو کچی ہی کھائی جاتی ہے۔
دوسری قسم کی مقدار اگرخشک ہونے پر نصاب کی حد تک پہنچ جائے تو احتیاط مستحب ہے کہ اس کی زکوٰة دی جائے۔جہاں تک تیسری قسم کا تعلق ہے ظاہر یہ ہے کہ اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۳۹)جس گیہوں،جو،کھجور اور کشمش کی زکوٰة کسی شخص نے دے دی ہو اگر وہ چند سال اس کے پاس پڑی بھی رہیں تو ان پر دوبارہ زکوٰة واجب نہیں ہوگی۔
(۱۸۴۰) اگر گیہوں، جو، کھجور اور انگور (کی کاشت) بارانی یا نہری زمین پر کی جائے یا مصری زراعت کی طرح انہیں زمین کی نمی سے فائدہ پہنچے تو ان پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر ان کی سینچائی (جھیل یا کنویں وغیرہ کے پانی سے) بذریعہ ڈول کی جائے تو ان پر زکوٰة بیسواں حصہ ہے۔
(۱۸۴۱)اگر گیہوں،جو،کھجور اور انگور(کی کاشت) بارش کے پانی سے بھی سیراب ہو اور اسے ڈول وغیرہ کے پانی سے بھی فائدہ پہنچے تو اگر یہ سینچائی ایسی ہو کہ عام طور پر کہا جاسکے کہ ان کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی گئی ہے تو اس پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ یہ نہر اور بارش کے پانی سے سیراب ہوئے ہیں تو ان پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر سینچائی کی صورت یہ ہو کہ عالم طور پر کہا جائے کہ دونوں ذرائع سے سیراب ہوئے ہیں تو اس پر زکوٰة ساڑھے سات فیصد ہے۔
(۱۸۴۲)اگر کوئی شک کرے کہ عام طور پر کون سی بات صحیح سمجھی جائے گی او ر اسے علم نہ ہو کہ سینچائی کی صورت ایسی ہے کہ لوگ عام طور پر کہیں کہ دونوں ذرائع سے سینچائی ہوئی یا یہ کہیں کہ مثلاً بارش کے پانی سے ہوئی ہے تو وہ اگر ساڑھے سات فیصد زکوٰة دے تو کافی ہے۔
(۱۸۴۳)اگر کوئی شک کرے اور اسے علم نہ ہوکہ عموماً لوگ کہتے ہیں کہ دونوں ذرائع سے سینچائی ہوئی ہے یا یہ کہتے ہیں کہ ڈول وغیرہ سے ہوئی ہے تو اس صورت میں بیسواں حصہ دینا کافی ہے او اگر اس بات کا احتمال بھی ہو کہ عموماً لوگ کہیں کہ بارش کے پانی سے سیراب ہوئی ہے تب بھی یہی حکم ہے۔
(۱۸۴۴)اگر گیہوں،جو ،کھجور اور انگور بارش اور نہر کے پانی سے سیراب ہوں اور انہیں ڈول وغیرہ کے پانی کی حاجت نہ ہولیکن ان کی سینچائی ڈول کے پانی سے بھی ہوئی ہو اور ڈول کے پانی سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مدد نہ ملی ہو تو ان پر زکوٰة دسواں حصہ ہے اور اگر ڈول وغیرہ کے پانی سے سینچائی ہوئی ہواور نہر اور بارش کے پانی کی حاجت نہ ہولیکن نہر اور بارش کے پانی سے بھی سیراب ہوں اور اس سے آمدنی میں اضافے میں کوئی مدد نہ ملی ہوتو ان پر زکوٰة بیسواں حصہ ہے۔
(۱۸۴۵)اگر کسی کھیت کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی جائے اور اس سے ملحقہ زمین میں کھیتی باڑی کی جائے او ر وہ ملحقہ زمین اس زمین سے فائدہ اٹھائے اور اسے سینچائی کی ضرورت نہ رہے تو جس زمین کی سینچائی ڈول وغیرہ سے کی گئی ہے اس کی زکوٰة بیسواں حصہ اور اس سے ملحقہ کھیت کی زکوٰة احتیاط کی بنا پر دسواں حصہ ہے۔
(۱۸۴۶)جو اخراجات کسی شخص نے گیہوں،جو کھجوراور انگور پر کئے ہوں انہیں وہ فصل کی آمدنی سے منہاکر کے نصاب کا حساب نہیں لگا سکتا لہذا اگر ان میں سے کسی ایک کا وزن اخراجات کا حساب لگانے سے پہلے نصاب کی مقدار تک پہنچ جائے توضروری ہے کہ اس پر زکوٰة دے۔
(۱۸۴۷)جس شخص نے زراعت میں بیج استعمال کیا ہو خواہ وہ اس کے پاس موجود ہویا اس نے خریدا ہو وہ نصاب کاحساب اس بیج کو فصل کی آمدنی سے منہا کر کے نہیں کر سکتا بلکہ ضروری ہے کہ نصاب کا حساب پوری فصل کو مد نظر رکھتے ہوئے لگائے۔
(۱۷۴۸)جو کچھ حکومت اصلی مال سے(جس پر زکوٰة واجب ہو)بطور محصول لے لے اس پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔مثلاً اگر کھیت کی پیداوار۲۰۰۰کلو ہواور حکومت ۱۰۰کلو بطور لگان کے لے لے تو زکوٰة فقط۱۹۰۰ کلو پر واجب ہے۔
(۱۸۴۹)احتیاط واجب کی بنا پر انسان یہ نہیں کر سکتا کہ جو اخراجات اس نے زکوٰة واجب ہونے سے پہلے کئے ہوں انہیں وہ پیداوار سے منہا کرے اور باقی ماندہ پر زکوٰة دے۔
(۱۸۵۰)زکوٰةواجب ہونے کے بعد اخراجات کئے جائیں جو کچھ زکوٰة کی مقدار کی نسبت خرچ کیا جائے وہ پہداوار سے منہا نہیں کیا جاسکتا اگرچہ احتیاط کی بنا پر حاکم شرع یا اس کے وکیل سے اس کو خرچ کرنے کی اجازت بھی لے لی ہو۔
(۱۸۵۱)کسی شخص کے لئے یہ واجب نہیں کہ وہ انتظار کرے تاکہ جو اور گیہوں کھلیان تک پہنچ جائیں اور انگوراور کھجور کے خشک ہونے کاوقت ہوجائے پھر زکوٰة دے بلکہ جونہی زکوٰة واجب ہو جائز ہے کہ زکوٰة کی مقدار کاا ندازہ لگا کر وہ قیمت بطور زکوٰة دے۔
(۱۸۵۲)زکوٰة واجب ہونے کے بعد انسان یہ کرسکتا ہے کہ کھڑی فصل کاٹنے یا کھجور اور انگور کے چننے سے پہلے زکوٰة،مستحق شخص یا حاکم شرع یا اس کے وکیل کو مشترکہ طور پرپیش کر دے اور اس کے بعد وہ اخراجات میں شریک ہوں گے۔
(۱۸۵۳) جب کوئی شخص فصل یا کھجور اور انگور کی زکوٰة عین مال کی شکل میں حاکم شرع یا مستحق شخص یا ان کے وکیل کو دے دے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ بلا معاوضہ مشترکہ طور پر ان چیزوں کی حفاظت کرے بلکہ وہ فصل کی کٹائی یا کھجور اور انگور کے خشک ہونے تک مال زکوٰة اپنی زمین میں رہنے کے بدلے اجرت کا مطالبہ کر سکتا ہے۔
(۱۸۵۴)اگر انسان چند شہروں میں گیہوں،جو ،کھجور یا انگور کا مالک ہو اور ان شہروں میں فصل پکنے کا وقت ایک دوسرے سے مختلف ہو اور ان سب شہروں سے فصل اور میوے ایک ہی وقت میں دستیاب نہ ہوتے ہوں اور یہ سب ایک سال کی پیداور شمار ہوتے ہوں تو اگر ان میں سے جوچیز پہلے پک جائے وہ نصاب کے مطابق ہو توضروری ہے کہ اس پر اس کے پکنے کے وقت زکوٰة دے اور باقی ماندہ اجناس پر اس وقت زکوٰة دے جب وہ دستیاب ہوں اور اگر پہلے والی چیز نصاب کے برابر نہ ہو تو انتطار کرے تاکہ باقی اجناس پک جائیں۔پھر اگر سب ملاکر نصاب کے برابر ہوجائیں تو ان پر زکوٰة واجب ہے اور اگر نصاب کے برابر نہ ہوں تو ان پر زکوٰة واجب نہیں ہے۔
(۱۸۵۵)اگر کھجور اور انگور کے درخت سال میں دو دفعہ پھل دیں اور دونوں مرتبہ کی پیداور جمع کرنے پر نصاب کے برابر ہوجائے تواحتیاط کی بنا پر اس پیداور پر زکوٰة واجب ہے۔
(۱۸۵۶)اگر کسی شخص کے پاس غیر خشک شدہ کھجوریں ہوں یا انگور ہوں جو خشک ہونے کی صورت میں نصاب کے مطابق ہوں تو اگر ان کے تازہ ہونے کی حالت میں وہ زکوٰة کی نیت سے ان کی اتنی مقدار زکوٰة کے مصرف میں لے آئے جتنی ان کے خشک ہونے پر زکوٰة کی اس مقدار کے برابر ہو جو اس پر واجب ہے تواس میں کوئی حرج نہیں۔
(۱۸۵۷)اگر کسی شخص پر خشک کھجور یا کشمش کی زکوٰة واجب ہو تو وہ ان کی زکوٰة تازہ کھجور یا انگور کی شکل میں نہیں دے سکتا بلکہ اگر وہ خشک کھجور یا کشمش کی زکوٰة کی قیمت لگائے انگور یا تازہ کھجور یں یا کوئی اور کشمش یا خشک کھجوریں اس قیمت کے طور پر دے تو اس میں بھی اشکال ہے نیز اگر کسی پر تازہ کھجور یا انگور کی زکوٰة واجب ہو تو وہ خشک کھجور یا کشمش دے کر وہ زکوٰة ادا نہیں کر سکتا بلکہ اگر وہ قیمت لگا کر کوئی دوسری کھجور یا انگور دے تو اگرچہ تازہ ہی ہو اس میں اشکال ہے۔
(۱۸۵۸)اگر کوئی ایسا شخص مر جائے جو مقروض ہو اور اس کے پاس ایسا مال بھی ہو جس پر زکوٰة واجب ہوچکی ہو توضروری ہے کہ جس مال پر زکوٰة واجب ہو چکی ہو پہلے اس میں تمام زکوٰة دی جائے اور اس کے بعد اس کا قرضہ ادا کیا جائے ۔لیکن اگرزکوٰة اس کے ذمے واجب الادا ہوچکی ہو تواس کا حکم بھی باقی قرضوں کا حکم ہے۔
(۱۸۵۹)اگر کوئی ایسا شخص مرجائے جو مقروض ہو اور ا سکے پاس گیہوں،جو کھجور یا انگور بھی ہو اور اس سے پہلے کہ ان اجناس پر زکوٰة واجب ہو اس کے ورثاء اس کا قرضہ کسی دوسرے مال سے ادا کر دیں تو جس وارث کا حصہ نصاب کی مقدار تک پہنچتا ہو تو ضروری ہے کہ زکوٰة دے اور اگر اس سے پہلے کہ زکوٰة ان اجناس پر واجب ہو متوفی کا قرضہ ادا نہ کریں اور اگر اس کا مال فقط اس قرضے جتنا ہو تو ورثاء کے لئے واجب نہیں کہ ان اجناس پر زکوٰة دیں اور اگر متوفی کا مال اس کے قرض سے زیادہ ہو جبکہ متوفی پر اتنا قرض ہو کہ اگر اسے ادا کرنا چاہیں توگیہوں،جو،کھجور اور انگور میں سے بھی کچھ مقدار قرض خواہ کو دینی پڑے گی تو جو کچھ قرض خواہ کو دیں اس پر زکوٰة نہیں ہے اور باقی ماندہ مال پر وارثوں میں سے جس کا بھی حصہ زکوٰة کے نصاب کے برابر ہو اس کی زکوٰة دینا ضروری ہے۔
(۱۸۶۰)جس شخص کے پاس اچھی اورگھٹیا دونوں قسم کی گندم،جو،کھجوراور انگور ہوں جن پر زکوٰة واجب ہوگئی ہو اس کے لئے احتیاط واجب یہ ہے کہ اچھی والی قسم کی زکوٰة گھٹیا قسم سے نہ دے۔


10:14 PM (GMT +5)

vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.