Wednesday, April 24, 2024
09:49 PM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > CSS Optional subjects > Group V > Urdu Literature

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #11  
Old Wednesday, August 24, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default ايم اے پاس بلّی

جب اُس کی ماں اور اُس کے بهائی اُس کے کمرے ميں بيڻهے ہوئے اسُ کے ساته باتيں کر رہے تهے، تو ميں اپنے بستر پر ليڻا ہوا سوچ رہا تها کہ کيا ايسا نہيں ہوسکتا کہ ہم بهی وه روشنی، جو لله خداوند تعالٰی ہميں عطا کرتا ہے اور جسے وه بطور خاص نور کہتا ہے لله نُورُالسّمٰوٰتِ وَالاَرض کہتا ہے کيا ہم اس کو اپنی ذات ميں نہيں سمو سکتے؟ کيا ايسے نہيں ہو سکتا کہ ميں اپنی بلیّ کی طرح اپنی ساری چيزيں اسُ کی روشنی ميں رکه دوں، جيسے ميں نے وه پهول چهت پر رکها تها تاکہ وه روشنی جذب کر کے چمک سکے
- ميری شادی، ميری مُلازمت، ميری زندگی، ميری صحت، ميرے بچّے، ميرے عزيزواقارب، ميرے رشتہ دار حتٰی کہ ميں اپنا مُلک بهی، جسے بڑی محبتّ، محنت کے ساته اور بڑی قربانياں دے کر ہم نے آزادی دلوائی ہے اس کو اُڻها کر اس روشنی کے اندر رکه دوں اور پهر يہ سارا دن رات اسی طرح جگمگاتے رہيں، جيسے ميرے بچّے کا وه پهول رات کے اندهيرے ميں جگمگا رہا تها- ليکن مجهے افسوس ہے کہ ہم کو ظلمات سے اتنا پيار ہوگيا ہے، کس وجہ سے ہوا ہے- ميں يہ الزام آپ پر بهی نہيں ليتا، آپ کو خير کيسے دے سکتا ہوں کہ اندهيرے سے اتنا پيار کيوں ہے؟

ہم اندهيرے کی طرف کيوں مائل ہيں اور جب لله بار بار کہتا ہے، واضح کرتا ہے کہ ميں تم کو ظلمات سے نور کی طرف لانا چاہتا ہوں، تم ظلمات سے نور کی جانب آؤ اور جن کے اذَہان اور روئيں بند ہيں، وه روشنی کی طرف نہيں آتے اور ايسے ہو نہيں پاتا، جيسے ربِ تعالٰی چاہتا ہے اور آرزو يہ رہتی ہے کہ انسان اپنے کام، اپنی ہمّت اور اپنی محنت سے کرے- انسان اپنے کام اپنی ہمّت اور اپنی محنت سے صرف اسی حد تک کرے، جس کا وه مکّلف ہے، يعنی جس کی وه تکليف اڻُها سکتا ہے- ليکن لله کو بهی کچه نہ کچه ذمہ داری عطا کرنی چاہئے- اگر آپ تفريحا ( ميری ايسی ہی باتيں ہيں، جو ايک ڈرائنگ ماسڻرسمجهتے ہيں، وه کرتا ہے کہ اس کے ساته کوئی تعلق پيدا کرنا چاہئے) کچه وقت نکال کر، آپ اس کا تجربہ کر کے ديکه ليں اور ميرے کہنے پر ہی تهوڑے وقت کے کے لئے کہ آپ کسی بهی زبان ميں، اپنے لله کے ساته کچه گفتگو شروع کر ديں ( جس طرح آج کل آپ اپنے سيلولر فون پر کرتے ہيں) تو ند دنوں کے بعد آپ کو ايک
Message
آنے لگ جاتا ہے، جو واضح تو نہيں ہوتا- ايسے تو نہيں ہوتا جيسے آپ ڻيليفون پر سُنتے ہيں، ليکن آپ کا دل، آپ کی ذات اور آپ کا ضمير اس کے ا ستهی وابستہ ہو جاتا ہے، پهر آہستہ آہستہ زياده وقت صرف کرنے سے کہ ميں کچه وقت نکال کر، اپنا ہل چهوڑ کےواہی“ (کهيتی) چهوڑ کر يا قلم چهوڑ کر لکهتے ہوئے يا دفتر ميں اپنے اوقات کے دوران ميں اگر آپ کا کمره الگ ہے، تو اپنی ڻيبل چهوڑ کر، سامنے والے صوفے جو مہمانوں کے لئے رکها ہوتا ہے، وہاں جا کر بيڻهيں اور اپنے جوتے اتُار ديں، پاؤں آرام سے قالين پر رکهيں- پهر آپ کہيں کہ ميں خاص نيّت کے ساته آپ سے ( خُدا سے ) وابستہ ہونے کے لئے يہاں آ کر بيڻها ہوں-

مجهے يہ پتہ نہيں ہے کہ وابستگی کس طرح سے ہوتی ہے، مجهے يہ بهی پتہ نہيں ہے کہ آپ کو کس طرح سے پُکارا جاتا ہے
- ميں صرف يہ بوجه آپ پر ڈالنے کے لئے يہاں آيا ہوں کہ جس طرح جانور کو اپنے مالک پر اعتماد ہوتا ہے- اسی طرح ميں عين اسُ جانور کی حيثيت سے اپنا بوجه آپ پر ڈالنے آيا
ہوں-

مجهے سارے طريقے نہيں اآتے ہيں، جو طريقے بزرگوں کو معلوم ہيں- اس طرح آپ کے اندر اور اس ماحول کے اندر سے اور اُس مقام کے اندر سے اور جو کام کرنے والی جگہ چهوڑ کر آپ اور جگہ پر آ کر بيڻهے ہيں، اُس جگہ کے حوالے سے اور اُس جگہ کی تقديس سے يقيناً آپ
Inline -
ہوں گے جس طرح آپ نے شايد کبهی انجن گاڑی کے ساته جوڑتے ہوئے ديکها ہو گا کہ کس طرح جب انجن کو گاڑی کے پاس لايا جاتا ہے، تو وهکرککر کے گاڑی کے ساته جُڑ جاتا ہے اور گاڑی کو بهی پتہ نہيں چلتا کہ وه ساته جُڑ گيا ہے يہ مشاہده آپ ضرور کريں کہ کس طرح سے آدمی لله کے ساته جُڑ جاتا ہے اور پهر وه اپنا سارا بوجه لله پر ڈال کر اور ساری ذمّے داری اُس کے حوالے کر کے چلتا رہتا ہے

ايک روز ميں جمعہ پڑهنے جا رہا تها
- راستے ميں ايک چهوڻا سا کُتاّ تها، وه پلا ريہڑے کی زد ميں آ گيا اور اُسے بہت زياده چوٹ آگئی- وه جب گهبرا کر گهوما تو دوسری طرف سے آنے والی جيپ اس کو لگی، وه بالکل مرنے کے قريب پہنچ گيا- سکول کے دو بچّے يونيفارم ميں آ رہے تهے- وه اُس کے پاس بيڻه گئے- ميں بهی انُ کے قريب کهڑا ہو گيا- حالانکہ جمعے کا وقت ہو گيا تها- اُن بچوں نے اُس زخمی پلے کو اُڻها کر گهاس پر رکها اور اُس کی طرف ديکهنے لگے- ايک بچّے نے جب اُس کو تهپتهپايا تو اسُ پلے نے ہميشہ کے لئے آنکهيں بند کر ليں- وہاں ايک فقير تها- اُس نے کہا کہ واه، واه واه! وه سارے منظر کو ديکه کر بڑا خوش ہوا، جبکہ ہم کچه آبديده اور نم ديده تهے- اُس فقير نے کہا کہ يہ اب اس سرحد کو چهوڑ کر دوسری سرحد کی طرف چلا گيا- وه کہنے لگا کہ يہ موت نہيں تهی کہ اس کتےّ نے آنکهيں بند کر ليں اور يہ مر گيا- اس کی موت اسُ وقت واقع ہوئی تهی جب يہ زخمی ہوا تها اور لوگ اس کے قريب آ کر سڑک کراس کر رہے تهے اور کوئی رُکا نہيں تها- پهر اُس نے سندهی کا ايک دوہڑا پڑها- اس کا مجهے بهی نہيں پتہ کہ کيا مطلب تها اور وه آگے چلا گيا- وه کوئی پيسے مانگنے والا نہيں تها- پتہ نہيں کون تها اور وہاں کيوں آيا تها؟

وه سپردگی جو اُس سکول کے بچّے نے بڑی دل کی گہرائی سے اُس پلے کو عطا کی، ويسی ہی سپردگی ہم جيسے پلوں کو خدا کی طرف سے بڑی محبّت اور بڑی شفقت سے اور بڑے رحم اور بڑے کرم کے ساته عطا ہوتی ہے
- ليکن يہ ہے کہ اسے
Receive
کيسے کيا جائے؟ کچه جاندار تو اتنی ہمّت والے ہوتے ہيں وه رحمت اور اس شفقت کو اور اس
Touch
کو حاصل کرنے کے لئے جان تک دے ديتے ہيں- آپ نے بزرگانِ دين کے ايسے بيشمار قصّے پڑهے ہوں گے

ميں يہ عرض کر تها کہ ميرا چهوڻا منہ اور بڑی بات ہے، ليکن ان تجربات ميں سے گزرتے ہوئے ميں نے يہ ضرور محسوس کيا ہے کہ لله کی طرف رجوع کيا جائے اور اپنا سارا سامان، جتنا بهی ہے، اسُ کی روشنی ميں رکه ديا جائے اور جب اسُ کی پوری کی پوری روشنی سے وه پورے کا پورا لتهڑ جائے، تو
پهر کوئی خطره کوئی خوف باقی نہيں رہتا
کتابی علم جو ميرے پاس بهی ہے، وه تو مل جائے گا، ليکن وه روح جو سفر کرتی ہے، وه داخل نہيں ہوگی
- ميری بلّی کنبر نے آج صبح سے مجهے بہت متاثر کيا ہے اور ميں بار بار قدم قدم پر يہ سوچتا ہوں کہ کيا ميں اس جيسا نہيں بن سکتا؟ اب مجهے اپنی بلیّ پر غصّہ بهی آتا ہے اور پيار بهی آتا ہے اور ميں اس سے چڑ گيا ہوں کہ يہ تو اتنے بڑے گريڈ حاصل کر گئی اور فرسٹ ڈويژن ميں ايم اے کر گئی ہے اور ميں جو اس کا مالک ہوں، ميں بالکل پيچهے ہوں- يہ ساری بات غور کرنے کی ہے- آپ ميری نسبت باطن کے سفر کے معمول ميں بہتر ہيں اور جو جذبہ اور جو محبّت اور لگن آپ کی روحوں کو عطا ہوتی ہے، وه مجهے عطا نہيں ہوئی- ليکن ميں آپ کے ساته ساته بهاگنے والوں ميں شريک رہنا چاہتا ہوں کہ کچه کرنيں جب بٹ جائيں، آپ کے سامان سے تو وه مجهے مل جائيں

لله آپ کو آسانياں عطا فرمائے اور آسانياں تقسيم کرنے کا شرف عطا فرمائے

***********
__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
  #12  
Old Thursday, August 25, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default تکبر اور جمہوريت کا بڑهاپا

جو دکاندار تها وه بڑے نرم خو اور محبت والے انداز ميں کہنے لگا
صاحب ہم شرفاء اور معزز لوگوں کے لئے جوتے بناتے ہيں ، پيدل چلنے والوں کے لئے نہيں بناتے۔ يہ ايک تکبر کی تلوار تهی جس نے ہم دونوں کو اس مقام پر بری طرح سے قتل کر ديا۔ انسان اکثر دوسروں کو ذليل و خوار کرنے کے لئے ايسے فقرے مجتمع کرکے رکهتا ہے کہ وه اس فقرے کے ذريعے وار کرے اور حملہ آور ہوا اور پهر اس کی زندگی اور اس کا جينا اس کے لئے محال کر دے۔ اس طرح حملے بڑی سطح پر بهی ہوتے ہيں اور چهوڻے ليول پر بهی ہوتے ہيں ليکن ہمارے مذہب ميں يہ روايت بہت کم تهی۔ اگر تهی تو ہمارے پيغمبر محمد صلی لله عليہ وسلم اپنی تعليمات کے ذريعے لوگوں کو اس فرعونيت سے نکالتے رہتے تهے جس کا گناه شداد ، فرعون ، نمرود اور ہامان نے کيا تها۔ ان کا يہ بس ايک ہی گناه تها جو سب گناہوں سے بهاری تها۔ ازل سے لے کر آج تک انسان کے ساته گناه اور بدياں چمڻی رہی، کچه کم ہوتی ہيں اور کچه زياده۔ کسی کے پاس ايک بدی بالکل نہيں ہوتی۔ کسی کے پاس کافی تعداد ميں ہوتی ہيں۔ ليکن کہتے ہيں کہ کائنات ميں کوئی آدمی ايسا نہيں گزرا جو تکبر کا مرتکب نہ رہا ہو۔ کسی نہ کسی روپ ميں وه ضرور اس گناه کا شکار ہوا ہے يا اس ميں مبتلا رہا ہے۔ ہمارے صوفی لوگ اس تلاش ميں مارے مارے پهرے ہيں کہ کوئی ايسا راه تلاش کی جائے جس سے تکبر کی شدت ميں کمی واقع ہو۔ ايک درويش جنگل ميں جارہے تهے۔ وہاں ايک بہت زہريلا کو برا سانپ پهن اڻهائے بيڻها تها۔ اب ان درويشوں ، سانپوں ، خوفناک جنگلی جانوروں اور جنگليوں کا ازل سے ساته رہا ہے۔ وه درويش سانپ کے سامنے کهڑے ہوگئے اور وه بيڻها پهنکار رہا تها۔ انہوں نے سانپ سے کہا کہ ناگ راجہ يار ايک بات تو بتا کہ جب کوئی تيرے سوراخ کے آگے جہاں تو رہتا ہے ، بين بجاتا ہے تو توُ باہر کيوں آجاتا ہے ۔ اس طرح تو تجهے سپيرے پکڑ ليتے ہيں۔ سانپ نے کہا، صوفی صاحب بات يہ ہے کہ اگر کوئی تيرے دروازے پر آکر تجهے پکارے تو يہ شرافت اور مروّت سے بعيد ہے کہ تو باہر نہ نکلے اور اس کا حال نہ
پوچهے۔ ميں اس لئے باہر آتا ہوں کہ وه مجهے بلاتا ہے تو يہ شريف آدميوں کا شيوا نہيں کہ وه اندر ہی گهس کے بيڻهے رہيں۔ ايک طرف تو مشرق ميں اس قسم کی تعليم اور تہذيب کا تذکره رہا ہے اور دوسرے طرف اسی مشرق کے لوگ اپنے قد کو اونچا کرنے کے لئے اور اپنی مونچه کو اينڻه کے رکهنے کے لئے مظلوموں اور محکوموں پر حملے کرتے رہے ہيں تاکہ ان کی رعونيت اور تکبر کا نام بلند ہو۔ بعض اوقات بڑے اچهے اچهے افعال جو بظاہر بڑے معصوم نظر آتے ہيں ، وه بهی تکبر کی ذيل ميں آجاتے ہيں۔ ميں نے آپ سے يہ بات شايد پہلے بهی کی ہو کہ جب ميں اول اول ميں بابا جی کے ڈيرے پر گيا تو ميں نے لوگوں کو ديکها کہ کچه لوگ بابا جی سے اندر کوڻهڑی ميں بيڻهے باتيں کر رہے ہوتے تهے تو کچه لوگ ان کے بکهرے ہوئے
الم بلغماور اگڑم بگڑمجوتے پڑے ہوتے تهے، انہيں اڻها کر ترتيب سے دروازے کے آگے ايک قطار ميں رکهتے چلے جاتے تهے تاکہ جانے والے لوگ جب جانے لگيں تو انہيں زحمت نہ ہو اور وه آسانی کے ساته پاؤں ڈال کے چلے جائيں۔ ميں يہ سب چار ، پانچ ، چه روز تک ديکهتا رہا اور مجهے لوگوں کی يہ عادت اور انداز بہت بهلا لگا۔ چنانچہ ايک روز ميں نے بهی ہمت کرکے (حالانکہ میرے لئے يہ بڑا مشکل کام تها) ميں نے بهی ان جوتوں کو سيدها کرنے کی کوشش کی ليکن چونکہ اس زمانے ميں سوٹ پہنتا تها اور مجهے يہ فکر رہتا تها کہ ميری ڻائی جيکٹ کے اندر ہی رہے لڻکے نہ پائے۔ اس لئے جهکے ہوئے بار بار اپنے لباس کو اور اپنے وجود کو اور خاص طور پر اپنے بدن کے خم کو نظر ميں رکهتا تها۔ ايک دفعہ دو دفعہ ايسا کيا۔ جب بابا جی کو پتہ لگا تو وه بهاگے بهاگے باہر آئے ، کہنے لگے نہ نہ آپ نے ہرگز يہ کام نہيں کرنا ميرے ہاته ميں جوتوں کا ايک جوڑا تها۔ انہوں نے فورا واپس رکهواديا اور کہا يہ آپ کے کرنے کا کام نہيں ہے، چهوڑ ديں۔ ميں بڑا نالاں ہوا اور مجهے بڑی شرمندگی ہوئی کہ لوگوں کے سامنے مجهے اس طرح سے روکا گيا اور مجهے يہ ايک اور طرح کی ذلت برداشت کرنا پڑی ۔ ايک روز جب تخليہ تها ، ميں نے بابا جی سے پوچها کہ سر يہ آپ نے اس روز ميرے ساته کيا کيا ، ميں تو ايک اچها اور نيکی کا کام کر رہا تها۔ جو بات ميں نے آپ ہی کے ہاں سے سيکهی تهی ، اس کا اعاده کر رہا تها۔ انہوں نے ہنس کے ميرے کندهے پر ہاته رکه کے کہا کہ آپ پر يہ واجب نہيں تها جو آپ کررہے تهی۔ انہوں نے کہا کہ نہيں ، آپ تکبر کی طرف جارہے تهے۔ اس لئے ميں نے آُپ کو روک ديا۔ ميں نے کہا، جناب يہ آپ کيسی بات کرتے ہيں! کہنے لگے ، اگر آپ وہاں جوڑے اسی طرح سے سيدهی قطاروں ميں رکهتے رہتے ، جس طرح سے اور لوگ رکهتے تهے تو آپ کے اندر تکبر کی ايک اور رمق پيدا ہو جانی تهی کہ ديکهو ميں اتنے بڑے ادارے کا اتنا بڑا ڈائريکڻر جنرل ہوں اور اتنے اعلٰی سرکاری عہدے پر ہوں اور ميں يہ جوتے سيدهے کر رہا ہوں ، لوگوں نے بهی ديکه کر کہنا تها ، سبحان لله يہ کيسا اچها نيکی کا کام کر رہا ہے۔ اس سے آپ کے اندر عاجزی کی بجائے تکبر اور گهمنڈ کو اُور ابهرنا تها۔ اس لئے آپ مہربانی کرکے اپنے آپ کو کنٹرول ميں رکهيں اور يہ کام ہرگز نہ کريں ، پهر مجهے رکنا پڑا اور ساری عمر ہی رکنا پڑا۔ اس لئے کہ دل کی سليٹ پر اندر جو ايک لکير کهينچی ہوئی ہے ، انا کی اور تکبر کی وه کسی صورت بهی مڻتی
نہيں ہے۔ چاہے جس قدر بهی کوشش کی جائے اور اس کے انداز بڑے نرالے ہوتے ہيں۔ ايک شام ہم لندن ميں فيض صاحب کے گرد جمع تهے اور ان کی شاعری سن رہے تهے۔ انہوں نے ايک نئی نظم لکهی تهی اور اس کو ہم بار بار سن رہے تهے۔ وہاں ايک بہت خوبصورت ، پياری سی لڑکی تهی۔ اس شعر و سخن کے بعد
self
کی باتيں ہونے لگيں يعنی انا کی بات چل نکلی اور اس کے اوپر تمام موجود حاضرين نے بار بار اقرار و اظہار اور تبادلہ خيال کيا۔ اس نوجوان لڑکی نے کہا فيض صاحب مجه ميں بهی بڑا تکبر ہے اور ميں بهی بہت انا کی ماری ہوئی ہوں، کيونکہ صبح جب ميں شيشہ ديکهتی ہوں تو ميں سمجهتی ہوں کہ مجه سے زياده خوبصورت اس دنيا ميں اور کوئی نہيں ، لله نے فيض صاحب کو بڑی
sense of Humor
دی تهی، کہنے لگے بی بی۔ يہ تکبر اور انا ہرگز نہيں ہے ، يہ غلط فہمی ہے (انہوں نے يہ بات بالکل اپنے مخصوص انداز ميں لبها اور لڻا کے کی ) وه بچاری قہقہہ لگا کے ہنسی ۔ زندگی کے اندر ايسی چيزيں ساته ساته چلتی ہيں ليکن قوموں کے لئے اور انسانی گروہوں کے لئے تکبر اور انا، رعونت، گهمنڈ اور مطلق العنانيت بڑی خوفناک چيز ہے، اس انگريز مصنف جس کا نام اب ميرے ذہن ميں آرہا ہے ، وه انگريز مصنف جی۔ کے چيڻسن کہتا ہے کہ جب تکبر انسان کے ذہن ميں آجائے اور وه يہ سمجهے کہ ميرے جيسا اور کوئی بهی نہيں اور ميں جس کو
چاہوں زير کرسکتا ہوں اور جس کو چاہوں تباه کر سکتا ہوں تو وه حکومت ، وه دور ، وه جمہوريت يا وه بادشاہت چاہے کتنی ہی کاميابی کے ساته جمہوری دور سے گزری ہو، اس بابت يہ سمجه لينا چاہيے کہ اس جمہوريت کا جس کا نام لے کر وه چلتے تهے ، اس کا آخری پہر آن پہنچا ہے اوره جمہوريت ضعيف ہوگئی ہے اور اس ميں ناتوانی کے آثار پيدا ہو گئے ہيں اور وه وقت قريب ہے جب وه جمہوريت فوت ہوجائے گی اور فورا ہی گهمنڈ اور فرعونيت ميں بدل جائے گی ۔ مشرق ميں اس پر بطورِ خاص توجہ دی جارہی ہے اور بار بار مسلسل دہرا دہرا کر ايشيا کے جتنے بهی مذاہب ہيں ان ميں بار بار اس بات پر زور ديا جاتا رہا کہ اپنے آپ کو گهمنڈ ، فرعونيت اور شداديت سے بچايا جائے کيونکہ يہ انسان اور نوعِ انسانی کو بالکل کها جاتی ہے کيونکہ اس کا مطلب خدا کے مقابلے ميں خود کو لانا ہے ۔ حافظ ا ضمن صاحب کے خليفہ تهے۔ ان کا نام شمس لله خان يا اسدلله خان تها۔ چلئے اسد لله خان رکه ليتے ہيں۔ وه خليفہ تهے ليکن طبيعت کے ذرا سخت تهے
(پڻهان تهے، طبيعت کے سخت تو ہوں گے ہی) ان کے ہاں ايک مرتبہ چوری ہوگئی۔ اب وه گاؤں کے مکهيا (چودهری) تهے۔ ان کے ہاں چوری ہو جانا بڑے دکه کی بات تهی۔ انہوں نے لوگوں کو اکهڻا کيا اور اپنے طور پر تحقيق و تفتيش شروع کردی۔ ايک بڑا نيک نمازی جولاہا جو گفتگو ميں بڑا کمزور تها ، وه بهی پيش ہوا۔ اب لوگوں نے اس کے حوالے سے کہا کہ چونکہ يہ بولتا نہيں ہے اور ڈرا ڈرا سا ہے اور اندازه يہی ہے کہ اس نے چوری کی ہے۔ چنانچہ اسد لله خان نے پکار کر کہا کہ جولاہے سچ سچ بتا ورنہ ميں تيری جان لے لوں گا ۔ وه بچاره سيدها آدمی تها ، وه سہم گيا اور ہکلا گيا اور اس کی زبان ميں لکنت آگئی۔ خان صاحب نے اس کی گهبراہٹ اور لکنت سے يہ اندازه لگايا کہ يقي ا نً چوری اسی نے کی ہے۔ انہوں نے اسے زور کا ايک تهپڑ مارا ، وه لڑکهڑا کے زمين پر گر گيا اور خوف سے کانپنے لگا اور سر اثبات ميں ہلايا کہ جی ہاں ، چوری ميں نے ہی
کی ہے۔ وه جولاہا سيدها مولانا گنگوہی کی خدمت ميں حاضر ہوا اور سارا واقعہ انہيں سنايا اور کہا کہ میری زندگی عذاب ميں ہے اور ميں يہ گاؤں چهوڑ رہا ہوں۔ مولانا گنگوہی نے خان صاحب کو ايک رقعہ لکها کہ تمہارے گاؤں ميں يہ واقعہ گزرا ہے اور اس طرح تم نے اس جولاہے پر ہاته اڻهايا ہے تو آپ ايسے کريں کہ کيا آپ نے شرعی عذر کی وجہ سے اس پر ہاته اڻهايا ہے ؟ آپ کو کيا حق پہنچتا تها ؟ اس بات کا جواب ابهی سے تيار کرکے رکه ديجيے کيونکہ آگے چل کر آپ کی لله کے ہاں يہ پيشی ہوگی اور پہلا سوال آپ سے يہی پوچها جائے گا۔ جب يہ رقعہ اسد لله خان کے پاس پہنچا تو ان کے پاؤں تلے سے زمين نکل گئی اور سڻپڻائے ، گهبرائے اور وہيں سے پيدل چل پڑے اور گنگوہا پہنچے۔

__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
  #13  
Old Thursday, August 25, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default تکبر اور جمہوريت کا بڑهاپا

جب مولانا گنگوہی کے ہاں پہنچے تو وه آرام فرما رہے تهے۔ ان کے خادم سے کہنے لگے، آپ مولانا سے کہہ ديجيے ايک ظالم اور خونخوار قسم کا آدمی آيا ہے۔ کہيں تو حاضر ہو جائے، نہيں تو وه جا کر اپنے آپ کو ہلاک کرلے اور کنويں ميں ڈوب کر مر جائے اور ميں تہيہ کرکے آيا ہوں۔ مولانا نے انہيں اندر بلواليا۔ آپ ليڻے ہوئے تهے اور فرمانے لگے ، مياں کيوں شور مچايا ہوا ہے ؟ اور کيا ايسا ہوگيا کہ تم وہاں سے پيدل چل کے آگئے۔ غلطی ہو گئی ، گناه ہوگيا ۔ معافی مانگ لو اور کيا ہوسکتا هے۔ جاؤ چهوڑو ، اپنے ضمير پر بوجه نہ ڈالو۔ چنانچہ خان صاحب واپس آگئے اور آکر گاؤں ميں اعلان کيا کہ اس جولاہے کو پهر بلايا جائے۔
(اسی ميدان ميں جہاں اسے سزا دی تهی) وه جولاہا بے چاره پهر کانپتا ڈرتا ہوا حاضر ہوگيا۔ کہنے لگا جتنا ميں نے تجهے مارا تها، اتنا تو مجهے مار ، اب لوگ کهڑے ديکه رہے ہيں۔ لوگوں نے کہا جناب! يہ بے چاره کانپ رہا ہے ، يہ کيسے آپ پر ہاته اڻها سکتا ہے؟ خان صاحب کہنے لگے ، اس نے ہاته نہ اڻهايا تو ميں مارا جاؤں گا۔ جولاہے نے بهی کہا، جناب ميری يہ بساط نہيں ہے اور ميرا ايسا کرنے کو دل بهی نہيں چاہتا ہے۔ اگر کوتاہی ہوئی ہے تو لله معاف کرنے والا ہے۔ لله ہم دونوں کو معاف کرے۔ چنانچہ وه گهر واپس آ گئے۔ اگلے دن جب وه جولاہا کهڈی پر کپڑا بُن رہا تها تو خان صاحب اس کی بيوی کے پاس حاضر ہوئے اور کہنے لگے ، گهر کے کام کاج کے لئے اب ميں حاضر ہوں۔ جو چيز سودا سلف منگوانا ہو مجهے حکم کيا کيجيے ، بهائی صاحب کے ہاته نہ منگوايا کيجيے ( اب عورتوں کو اگر مفت کا نوکر مل جائے تو کہاں چهوڑتی ہيں ) پهر خان صاحب آخری دم تک ہر روز صبح اپنی بگهی دور کهڑی کرکے اس جولاہے کی بيوی کے پاس جاتے اور جو بازار سے چيزيں لانا ہو ي تں لا کر ديتے رہے اور وه گهر کا سودا اپنے کندهوں پہ اڻها کے لا کے ديتے۔ بعض اوقات وه دوپہر کو بلوا بهيجتی کہ فلاں کام ره گيا ہے۔ انہوں نے اپنے ملازموں کو حکم دے رکها تها کہ اگر ميں سويا بهی ہوں تو بهی مجهے بتايا جائے۔ جب تک وه زنده رہے ، اس جولاہے کی بيوی کا ہر حکم بجا لاتے رہے کہ شايد اس وجہ سے جان بخشی ہو جائے اور آگے چل کر وه سوال نہ پوچها جائے۔ کس شرعی ضرورت کے تحت آپ نے اس تهپڑ مارا تها؟ اميد ہے ان سے يہ سوال نہيں پوچها گيا ہوگا۔

لله آپ کو آسانياں عطا فرمائے اور آسانياں تقسيم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

**************
__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
  #14  
Old Friday, August 26, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default ہاٹ لائن

ايک مرتبہ پروگرام
"زاويہ" ميں گفتگو کے دوران "دعا" کے بارے ميں بات ہوئی تهی اور پهر بہت سے لوگ "دعا" کے حوالے سے بحث و تمحيث اور غور و خوض کرتے رہے اور اس بابت مجه سے بهی بار بار پوچها گيا۔ ميں اس کا کوئی ايسا ماہر تو نہيں ہوں لیکن ميں نے ايک تجويز پيش کی تهی جسے بہت سے لوگوں نے پسند کيا اور وه يہ تهی "دعا" کو بجائے کہنے يا بولنے کے ايک عرضی کی صورت ميں لکه ليا جائے۔ عرض کرنے اور ميرے اس طرح سوچنے کی وجہ يہ تهی کہ پوری نماز ميں يا عبادت ميں جب ہم دعا کے مقام پر پہنچتے ہيں تو ہم بہت تيزی ميں ہوتے ہيں اور بہت (اتاولی) کے ساته دعا مانگتے ہيں۔ ايک پاؤں ميں جوتا ہوتا ہے، دوسرا پہن چکے ہوتے ہيں، اڻُهتے اڻهتے،کهڑے کهڑے جلدی سے دعا مانگتے چلے جاتے ہيں يعنی وه رشتہ اور وه تعلق جو انسان کا خدا کی ذات سے ہے، وه اس طرح جلد بازی کی کيفيت ميں پورا نہيں ہو پاتا۔ ہمارے بابا نے ايک ترکيب يہ سوچی تهی کہ دعا مانگتے وقت انسان پورے خضوع کے ساته اور پوری توجّہ کے ساته
Full Attention
رکهتے ہوئے دعا کی طرف توجّہ دے اور جو اس کا نفسِ مضمون ہو، اُس کو ذہن ميں اُتار کر، تکلّم ميں ڈهال کر اور پهر اس کو
Communicate
کرنے کے انداز ميں آگے چلا جائے تاکہ اُس ذات تک پہنچے جس کے سامنے دعا مانگی جا رہی ہے يا پيش کی جا رہی ہے۔ ہمارے ايک دوست تهے، انُہوں نے مجهے بتايا کہ ميں نے دعا کاغذ پر لکهنے کی بجائے ايک اور کام کيا ہے جو آپ کی سوچ سے آگے ہے۔ ميرے دوست افضل ا صحب نے کہا کہ ميں نے ايک رجسڻر بنا ليا ہے اور ميں اس پر اپنی دعا بڑی توجّہ کے ساته لکهتا ہوں اور اس پر باقاعده ڈيٹ بهی لکهتا ہوں اور اس کے بعد ميں پيچهے پلٹ کر اس کيفيت کا جائزه بهی ليتا ہوں جو دعا مانگنے کے بعد پيدا ہوتی ہے۔ چنانچہ ميں نے يہ محسوس کيا ہے کہ ميرے دوست کے رجسڻر بنانے کا بڑا فائده ہے اور ان کا تعلق اپنی ذات، اپنے لله اور اُس ہستی کے ساته جس کے آگے وه سر جهکا کر دعا مانگتے ہيں، بہت قريب ہو جاتا ہے۔ اکثر و بيشتر اور ميں بهی اس ميں شامل ہوں، جو يہ شکايت کرتے ہيں کہ" جی بڑی دعا مانگی ليکن کوئی اثر نہيں ہوا۔ پر کوئی توجّہ نہيں دی جاتی "اور ہماری دعائيں قبول نہں ہوتيں۔

خواتين و حضرات
! دعا کا سلسلہ ہی ايسا ہے جيسا نلکا " گيڑ" کے پانی نکالنے کا ہوتا ہے۔ جس طرح ہينڈ پمپ سے پانی نکالتے ہيں۔ آپ نے ديکها ہو گا جو ہينڈ پمپ بار بار يا مسلسل چلتا رہے يا "گڑتا " رہے، اُس ميں سے بڑی جلدی پانی نکل آتا ہے اور جو ہينڈ پمپ سُوکها ہوا ہو اور استعمال نہ کيا جاتا رہا ہو، اسُ پر " گڑنے" والی کيفيت کبهی نہ گزری ہو۔ اسُ پر آپ کتنا بهی زور لگاتے چلے جائيں، اسُ ميں سے پانی نہيں نکلتا۔ اس لئے دعا کے سلسلے ميں آپ کو ہر وقت اس کی حد کے اندر داخل رہنے کی ضرورت ہے کہ دعا مانگتے ہی چلے جائيں اور مانگيں توجّہ کے ساته، چلتے ہوئے، کهڑے ہوئے، بے خيالی ميں کہ يا لله ايسے کردے۔

عام طور پر جب لوگ ايک دوسرے سے ملتے ہيں تو کہتے ہيں" دعاؤں ميں ياد رکهنا " اور وه بهی کہتے ہيں ہم آپ کو دعاؤں ميں ياد رکهيں گے اور بہت ممکن ہے کہ وه دعاؤں ميں ياد رکهتے بهی ہوں ليکن آپ کو خود کو بهی اپنی دعاؤں ميں ياد رکهنے کی ضرورت ہے۔ خدا کے واسطے دعا کے دائرے سے ہرگز ہرگز نہيں نکلئے گا اور يہ مت کہيئے گا کہ جناب دعا مانگی تهی اور اسُ کا کوئی جواب نہيں آيا، ديکهئے دعا خط وکتابت نہيں، دعا
Correspondent
نہيں ہے کہ آپ نے چڻهی لکهی اور اُس خط کا جواب آئے۔ يہ تو ايک يکطرفہ عمل ہے کہ آپ نے عرضی ڈال دی اور لله کے حضور گزار دی اور پهر مطمئن ہو کر بيڻه گئے کہ يہ عرضی جا چکی ہےاور اب اس کے اوپر عمل ہو گا۔اُس کی (لله) مرضی کے مطابق کيونکہ وه بہتر سمجهتا ہے کہ کس دعا يا عرضی کو پورا کيا جانا ہے اور کس دعا نے آگے چل کر اُس شخص کے لئے نقصان ده بن جانا ہے اور کس دعا نے آگے پہنچ کر اُس کو وه کچه عطا کرنا ہے جو اُس کے فائدے ميں
ہے۔ دعا مانگنے کے لئے صبر کی بڑی ضرورت ہوتی ہے اور اس ميں خط کے جواب آنے کے انتظار کا چکر نہيں ہونا چاہيئے۔ ميں نے شائد پہلے بهی عرض کيا تها کہ کچه دعائيں تو مانگنے کے ساته ہی پوری ہو جاتی ہيں، کچه دعاؤں ميں رکاوٹ پيدا ہو جاتی ہے اور کچه دعائيں آپ کی مرضی کے مطابق پوری نہيں ہوتيں۔ مثال کے طور پر آپ لله سے ايک پهول مانگ رہے ہيں کہ
" اے لله مجهے زندگی ميں ايک ايسا پهول عطا فرما جو مجهے پہلے کبهی نہ ملا ہو۔" ليکن لله کی خواہش ہو کہ اسے ايک پهول کی بجائے زياده پهول، پورا گلدستہ يا پهولوں کا ايک ڻوکرا دے ديا جائے ليکن آپ ايک پهول پر ہی
Insist
کرتے رہيں اور ايک پهول کی ہی دعا بار بار کرتے جائيں اور اپنی عقل اور دانش کے مطابق اپنی تجويز کو شامل کرتے ہيں کہ مجهے ايک ہی پهول چاہيئے تو پهر لله کہتا ہے کہ اگراس کی خواہش ايک پهول ہی ہے تو اسے پهولوں سے بهرا ڻوکرا رہنے ديا جائے۔ آپ کی دانش اور عقل بالکل آپ کی د ت سگيری نہيں کرسکتی۔ مانگنے کا يہ طريقہ ہو کہ " اے لله ميرے لئے جو بہتر ہے، مجهے وه عطا فرما۔ ميں انسان ہوں اور ميری آررزوئيں اورخواہش بهی بہت زياده ہيں، ميری کمزورياں بهی ميرے ساته ہيں اور توُ پروردگارِ مطلق ہے، ميں بہت دست بستہ انداز ميں عرض کرتا ہوں کہ مجهے کچه ايسی چيز عطا فرما جو مجهے بهی پسند آئے اور ميرے ارد گرد رہنے والوں کو، ميرے عزيز واقارب کو پسند ہو اور اس ميں تيری رحمت بهی شامل ہو۔ اگر کہيں کہ لله جو چاہے عطا کرے وه ڻهيک ہے۔لله آپ کو فقيری عطا کردے جبکہ آپ کی خواہش سی ايس ايس افسر بننے يا ضلع ناظم بننے کی ہو۔

دعا ايسی مانگنی چاہيئے کہ اے لله مجهے ضلع ناظم بهی بنا دے اور پهر ايسا نيک بهی رکه کہ رہتی دنيا تک لوگ اس طرح ياد کريں کہ باوصف اس کے کہ اس کو ايک بڑی مشکل درپيش تهی اور انسانوں کے ساته اس کے بہت کڑے روابط تهے ليکن پهر بهی وه اس ميں پورا اترا اور کامياب ڻهہرا۔ دعا کے حوالے سے يہ باريک بات توجہ طلب اور نوٹ کرنے والی ہے۔ پهر بعض اوقات آپ دعا مانگتے مانگتے بہت لمبی عمر کو پہنچ جاتے ہيں اور دعا پوری نہيں ہوتی۔ لله بعض اوقات آپ کی دعا کو
Defer
بهی کر ديتا ہے۔ جيسے آپ ڈيفنس سيونگ بانڈز ليتے ہيں، وه دس سال کے بعد ميچور ہوتے ہيں۔ جس طرح کہتے ہيں کہ يہ بچّہ ہو گيا ہے۔ اب اس کے نام کا ڈيفنس سيونگ سرڻيفيکٹ لے ليں، اسے آگے چل کر انعام مل جائے گا۔ اس طرح لله بهی کہتا ہے اور وه بہتر جانتا ہے کہ اب اس شخص کے لئے يہ چيز عطا کرنا غير مفيد يا بے سود ثابت هو گا، ہم اس کو آگے چل کر اس سے بهی بہت بڑا انعام ديں
گے بشرطيکہ يہ صبر اختيار کرے اور ہماری مرضی سمجهنے کی کوشش کرے۔ دعا کو خدا کے واسطےايک معمولی چيز نہ سمجها کريں۔ پہلی بات تو يہ ہے جو مشاہدے ميں آئی ہے کہ دعا ايک اہم چيز ہے۔ جس کے بارے ميں خداوند تعالٰی خود فرماتے ہيں کہ
"جب تم نماز ادا کر چکو تو پهر پہلو کے بل ليٹ کر، يا بيڻه کر ميرا ذکر کرو" يعنی ميرے ساته ايک رابطہ قائم کرو۔ جب تک يہ تعلق پيدا نہيں ہوگا، جب تک يہ
Hot Line
نہيں لگے گی۔ اُس وقت تک تم بہت ساری چيزيں نہيں سمجه سکو گے۔ ہم نے بهی بابا جی کے کہنے پر جو بات دل ميں ہوتی اُس کو بڑے خوشخط انداز ميں لمبے کاغذ پر ۰لکه کر، لپيٹ کر رکهتے تهے اور اس کے اوپر يوں حاوی ہوتے تهے کہ وه تحرير اور وه دعا ہمارے ذہن کے نہاں خانوں ميں ہر وقت موجود رہتی تهی۔ ايک صاحب مجه سے پوچه رہے تهے کہ جب وه دعا پوری ہوجائے تو پهر کيا کريں؟ ميں نے کہا کہ پهر اس کاغذ کو پهاڑ کر ( ظاہر ہے اس ميں آپ نے بہت باتيں بهی لکهی ہوں گی کيونکہ آدمی کی آرزو خالص
Materialistic
يا مادّه پرستی کی دعاؤں کی ہی نہيں ہوتی کچه اور دعائيں بهی انسان مانگتا ہے ) پُرزه پُرزه کر کے کسی پهل دار درخت کی جڑ ميں دبا ديں، يہ احترام کے لئے کہا ہے ۔ ويسے تو آپ خود بهی جانتے ہيں کہ ايسی تحريروں والے مقدّس کاغذوں کے ڈسپوزل کا کيا طريقہ اختيار کيا جانا چاہيئے۔ ہمارے دوست جو افضل صاحب ہيں ، انہوں نے دعاؤں کا باقاعده ايک رجسڻر بنايا ہوا ہے جو قابل غور بات ہے اور اس ميں وه ديکهتے ہيں کہ فلاں تاريخ کو فلاں سن ميں ميں نے يہ دعا مانگی تهی ، کچه دعائيں چهوڻی ہوتی ہيں، معمولی معمولی سی ۔ وه ان کو بهی رجسڻر ميں سے ديکهتے کہ يہ اس سن ميں مانگی دعا، اس وقت آکر پوری ہوئی اور فلاں دعا کب اور جب جا کر پوری ہوئی۔ دعا پوری توجہ ا ک تقاضا کرتی ہے۔ چلتے چلتے جلدی جلدی ميں دعا مانگنے کا کوئی ايسا فائده نہيں ہوتا۔ کچه دعائيں ايسی ہوتی ہيں جو بہت ڻهاه کرکے لگتی ہيں۔ بغداد ميں ايک نانبائی تها، وه بہت اچهے نان کلچی لگاتا تها اور بڑی دور دور سے دنيا اس کے گرم گرم نان خريدنے کے لئے آتی تهی۔ کچه لوگ بعض اوقات اسے معاوضے کے طور پر کهوڻہ سکہ دے کے چلے جاتے جيسے ہمارے يہاں بهی ہوتے ہيں۔ وه نانبائی کهوڻہ سکہ لينے کے بعد اسے جانچنے اور آنچنے کے بعد اپنے گلے“ (پيسوں والی صندوقچی ) ميں ڈال ليتا تها۔
کبهی واپس نہيں کرتا تها اور کسی کو آواز دے کر نہيں کہتا تها کہ تم نے مجهے کهوڻہ سکہ ديا ہے۔ بے ايمان آدمی ہو وغيره بلکہ محبت سے وه سکہ بهی رکه ليتا۔ جب اس نانبائی کا آخری وقت آيا تو اس نے پکار کر لله سے کہا
(ديکهئے يہ بهی دعا کا ايک انداز ہے ) “ اے لله تو اچهی طرح سے جانتا ہے کہ ميں تيرے بندوں سے کهوڻے سکے لے کر انہيں اعلٰی درجے کے خوشبودار گرم گرم صحت مند نان ديتا رہا اور وه لے کر جاتے رہے۔ آج ميں تيرے پاس جهوڻی اور کهوڻی عبادت لے کر آرہا ہوں ، وه اس طرح سے نہيں جيسا تو چاہتا ہے۔ ميری تجه سے يہ درخواست ہے کہ جس طرح سے ميں نے تيری مخلوق کو معاف کيا تو بهی مجهے معاف کردے۔ ميرے پاس اصل عبادت نہيں ہے۔ بزرگ بيان کرتے ہيں کہ کسی نے اس کو خواب ميں ديکها تو وه اونچے مقام پر فائز تها اور لله نے ان کے ساته وه سلوک کيا جس کا وه متمنی تها۔ کبهی کبهی ايسا بهی ہوتا ہے کہ لوگ يہ سمجهتے ہيں کہ دعا مانگی گئی ہے لیکن قبوليت نہيں ہوئی اور جواب ملنا چاہيے ليکن جو محسوس کرنے والے دل ہوتے ہيں وه يہ کہتے ہيں کہ نہيں جواب ملتا ہے ۔ ايک چهوڻی سی بچی تهی۔ اس کی گڑيا کهيلتے ہوئے ڻوٹ گئی تو وه بيچاری رونے لگی اور جيسے بچوں کی عادت ہوتی ہے تو اس نے کہا کہ لله مياں جی ميری گڑ ا ی جوڑ دو ، يہ ڻوٹ گئی ہے

__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Taimoor Gondal For This Useful Post:
Kamran Chaudhary (Friday, August 26, 2011)
  #15  
Old Friday, August 26, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default ہاٹ لائن

اس کا بهائی ہنسنے لگا کہ بهئی ڻوٹ گئی ہے اور اب يہ جڑ نہيں سکتی۔ اس نے کہا کہ مجهے اس گڑيا کے جڑنے سے کوئی تعلق نہيں ہے ، ميں تم سے يہ کہتا ہوں کہ لله مياں جواب نہيں ديا کرتے ۔ لله مياں کو تو بڑے بڑے کام ہوتے ہيں۔ لڑکی نے کہا کہ ان ميں لله مياں کو ضرور پکاروں گی اور وه ميری بات کا ضرور جواب دے گا۔ اس نے کہا ، اچها اور چلا گيا۔ جب تهوڑی دير بعد واپس آيا تو ديکها کہ بہن ويسے ہی ڻوڻی گڑيا لئے بيڻهی ہوئی ہے اور بہن سے کہنے لگا ، بتاؤ کہ لله مياں کا کوئی جواب آيا۔ وه کہنے لگی ، ہاں آيا ہے ۔ اس لڑکے نے کہا تو پهر کيا کہا ؟ اس کی بہن کہنے لگی ، لله مياں نے کہا ہے يہ نہيں جڑ سکتی ۔ يہ اس لڑکی کا ايک يقين اور ايقان تها۔ بہت سی دعاؤں کے جواب ميں ايسا بهی حکم آجاتا ہے۔ ايسی بهی
Indication
آجاتی ہے کہ يہ کام نہيں ہوگا۔ اس کو دل کی نہايت خوشی کے ساته برداشت کرنا چاہيئے۔ ہم برداشت نہيں کرتے ہيں ليکن کوئی بات نہيں۔ پهر بهی ہميں معافی ہے کہ ہم تقاضۂ بشری کے تحت ، انسان ہونے کے ناطے بہت ساری چيزوں کو اس طرح چهوڑ ديتے ہيں اور ہم پورے کے پورے اس پر حاوی نہيں ہوتے۔ کئی مرتبہ
دعا مانگنے کے سلسلے ميں کچه لوگ بڑی ذہانت استعمال کرتے ہيں۔ آخر انسان ہيں نا
! آدمی سوچتا بهی بڑے ڻيڑهے انداز ميں ہے۔ ہمارے گاؤں ميں ايک لڑکی تهی ، جوان تهی ليکن شادی نہيں ہورہی تهی۔ ہم اسے کہتے کہ توبهی دعا مانگ اور ہم بهی دعا مانگتے ہيں کہ لله تيرا رشتہ کہيں کرا دے۔ اس نے کہا ، ميں اپنی ذات کے لئے کبهی دعا نہيں مانگوں گی۔ مجهے يہ اچها نہيں لگتا۔ ہم نے کہا کہ بهئی توُ تو پهر بڑی ولی ہے جو صرف دوسروں کے لئے ہی دعا مانگتی ہے۔ اس نے کہا ولی نہيں ہوں ليکن دعا صرف مخلوقِ خدا کے لئے مانگتی ہوں۔ وه لله زياده پوری کرتا ہے۔ ہم اس کی اس بات پر بڑے حيران ہوئے تهے۔ وه ہميشہ يہی دعا مانگا کرتی تهی کہ اے لله ميں اپنے لئے کچه نہں مانگتی ، ميں اپنی ماں کے لئے دعا مانگتی ہوں کہ اے خدا ميری ماں کو ايک اچها ، خوبصورت سا داماد دے دے ، تيری بڑی مہربانی ہوگی۔ اس سے ميری ماں خوش ہوگی ، میں اپنے لئے کچه نہيں چاہتی۔ وه ذہين بهی ہو ، اس کی اچهی تنخواه بهی ہو۔ اس کی جائيداد بهی ہو۔ اس طرح کا داماد ميری ماں کو دے دے۔انسان ايسی بهی دعائيں مانگتا ہے ۔ يہ ميری ذاتی رائے ہے کہ اس قسم کی اور اس طرح سے دعا مانگنا بهی بڑی اچهی بات ہے۔ اس سے بهی لله سے ايک تعلق ظاہر ہوتاہے ۔ لله ہر زبان سمجهتا ہے۔ اپنی دعا کو نکهار نکهار کے نتهار نتهار کے چوکهڻا لگا کے لله کی خدمت ميں پيش کيا جائے کہ جی يہ چاہيئے، ان چيزوں کی آرزو ہے۔ يہ بيماری ہے ، يہ مشکل ہے حل کرديں۔ آپ کی بری مہربانی ہوگی۔ اس کے ساته ساته کچه چيزيں ايسی بهی ہيں جو دعا مانگنے والے کے لئے مشکل پيدا کرديتی ہيں کہ وه صبر کا دامن چهوڑ کر بہت زياده تجويز کے ساته وابستہ ہو جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ جتنی جلدی ميں دکهاؤں گا ، جتنی تيزی ميں کروں گا اتنی تيزی کے ساته ميری دعا قبول ہوگی۔ وه ہر جگہ ، ہر مقام پر ہر ايک سے يہی کہتا پهرتا ہے۔ اگر کبهی وه يہ تجربہ کرے کہ ميں نے عرضی ڈال دی ہے اور لکه کر ڈال دی ہے اور اب مجهے آرام کے ساته بيڻه جانا چاہيئے کيونکہ وه عرضی ايک بڑے اعلٰی دربار ميں گئی ہے اور اس کا کچه نہ کچه فيصلہ ضرور ہوگا۔ کئی دفعہ دعا کے راستے ميں يہ چيز حائل ہو جاتی ہے کہ اب جب آپ کوئی کوشش کر ہی رہے ہيں تو پهر انشاء لله تعالی آپ کی کوشش کے صدقے کام ہوجائےگا۔

ہم يہ بهی سوچتے ہيں ليکن يہ بهی ميرا ايک ذاتی خيال ہے کہ دعا کی طرف پہلے توجہ دينی چاہيئے اور کوشش بعد ميں ہونی چاہيے ۔ دعا کی بڑی اہمیت ہے۔ دعا کے ساته گہری اور يقين کے ساته وابستگی ہونی چاہيئے، اور جب گہری وابستگی ہو تو اس يقين کے ساته کوشش کرکے سوچنا چاہيئے کہ اب عرضی چلی گئی ہے ، اب اس کا نتيجہ ضرور نکلے گا۔ دعا ہر زبان ميں پوری ہوتی ہے جس زبان ميں بهی کی جائے۔
1857 ء ميں جب انگريزوں اور مسلمانوں کے درميان جنگ آزادی جا ری تهی اور مولوی حضرات اس جنگ کی رہنمائی کر رہے تهے اور توپيں بهر بهر کے چلا رہے تهے تو اس جنگ کے خاتمے پر ايک مولوی نے ايک انگريز سے کہا کہ حيرانی کی بات ہے کہ ہم جو بهی تدبير يا تجويز کرتے ہيں وه پوری نہيں ہوتی اور آپ جو بهی کام کرتے ہيں ہر جگہ پر آپ کو کاميابی ملتی رہی ہے ، اس کی کيا وجہ ہے؟ انگريز نے ہنس کے کہا ہم ہر کام کے لئے دعا مانگتے ہيں۔مولوی صاحب نے کہا ، دعا تو ہم بهی مانگتے ہيں ۔ انگريز نے کہا ، ہم انگريزی ميں دعا مانگتے ہيں ۔ اب مولوی بيچاره خاموش ہو گيا۔ اس وقت بهی انگريزی کا ايک خاص رعب اور دبدبہ ہوتا تها تو مولوی صاحب نے بهی کہا کہ شايد انگريزی ميں مانگی ہوئی دعا کامياب ہوتی ہوگی۔ دعا کے لئے کسی زبان کی قيد نہيں ہے۔ بس دلّی وابستگی اہم ہے۔

اب ميں آپ سے اجازت چاہوں گا۔ ميری دعا ہے کہ لله آپ کو آسانياں عطا
فرمائے اور آسانياں تقسيم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

********************
__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
  #16  
Old Saturday, August 27, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default دروازه کُهلا رکهنا

آج سے چند ہفتے پہلے يا چند ماه پہلے ميں نے ذکر کيا تها کہ جب بهی آپ دروازه کهول کے اندر کمرے ميں داخل ہوں تو اسے ضرور بند کر ديا کريں اور ميں نے يہ بات بيشتر مرتبہ ولايت ميں قيام کے دوران سُنی تهی۔ وه کہتے تهے کہ
Shut Behind The Door
ميں سوچتا تها کہ وه يہ کيوں کہتے ہيں کہ اندر داخل ہوں تو دروازه پيچهے سے بند کر دو، شايد وہاں برف باری کے باعث ڻهنڈی ہوا بہت ہوتی ہے اس وجہ سے وه يہ جملہ کہتے ہيں۔ ليکن ميرے پوچهنے پر ميری لينڈ ليڈی نے بتايا کہ اس کا مطلب يہ ہوتا ہے کہآپ اندر داخل ہوگئے ہيں اور اب ماضی سے آپ کا کوئی تعلق نہيں رہا، آپ صاحبِ حال ہيں،اسلئےماضی کو بند کر دو اور مستقبل کا دروازه آگے جانے کے کيے کهول دو۔

ہمارے بابے کہتے ہيں صاحبِ ايمان اور صاحبِ حال وه ہوتا ہے،جو ماضی کی ياد ميں مبتلا نہ ہو اور مستقبل سے خوفزده نہ ہو۔ اب ميں اس کے ذرا سا اُلٹ آپ سے بات کرنا چاه رہا تها کيوں کہ پيچهے کی ياديں اور ماضی کی باتيں لوٹ لوٹ کے ميرے پاس آتی رہتی ہيں اور ميں چاہتا ہوں کہ آپ بهی اس ميں سے کچه حصّہ بڻائيں۔

ابنِ انشاء نے کہا تها کہ
دروازه کُهلا رکهنا۔آپ دوسروں کےلئےضرور دروازه کهول کے رکهيں، اسے بند نہ رہنے ديں۔ آپ نے اکثرو بيشتر ديکها ہو گا کہ ہمارے ہاں بينکوں کے دروازے شيشے والے ہوتے ہيں وہاں دروازوں پر موڻا اور بڑا
Thick
قسم کا شيشہ لگا ہوا ہوتا ہے۔ اگر اسے کهول ديا جائے تو بلا شبہ اندر آنے والے کےلئے بڑی آسانی ہوگی اور اگر آپ کسی کےلئےدروازه کهولتے ہيں اور کسی دوسرے کو اس سے آسانی پيدا ہوتی ہے، تو اس کا آپ کو بڑا انعام ملے گا، جس کا آپ کو اندازه نہيں ہے۔ کسی کےلئےدروازه کهولنا بڑے اجر کا کام ہے۔ ہمارے گهروں میں بيبيوں کا زياده اس کا علم نہيں ہے، وه بيڻهی ہی کہ ديتی ہےاچها ماسی سلام، فير ملاں گےاور اپنی جگہ پر بيڻهی کہ ديتی ہيں، يہ نہيں کہ اڻُه کے دروازه کهول کےکہا بسم لله اورجانے کےلئےخود دروازه کهوليں اور خدا حافظ کہيں۔اس ميں بہت ساری برکات ہيں اور بہت سارے فوائد سے آپ مستفيد ہو سکتے ہيں اور ايسا نہ کر کے آپ ان سے محروم ره جاتے ہيں۔

ميں جب اڻلی ميں رہتا تها، تو جب ہميں مہينے کی پہلی تاريخ کو تنخواه ملتی تهی، تو ميں ايک بہت اچهے ريستوران ميں، جہاں اُمراء آتے تهے، خاص طور پر اداکار اور اداکارائيں بهی آتی تهیں، چلا جايا کرتا تها۔ ايک مرتبہ جب ميں بيڻها کافی پی رہا تها تو ايک شخص بڑے وجود اور بڑے بڑے ہاتهوں والا آکر ميرے پاس بيڻه گيا۔ اُس نے کہا کہ ميں نے گزشتہ ماه آپ کو کسی آدمی سے باتيں کرتے سُنا تها، تو آپ بڑی رواں اڻالين زبان بول رہے تهے۔ ليکن آپ

conditional Verb
اور
Subjective Verb
ميں تهوڑی سی غلطی کر جاتے ہيں جيسے
I wish I cold have been doing do ۔
اس طرح تو مشکل اور پيچيده ہو جاتا ہے ناں؟ ميں نے کہا، جی! آپ کی بڑی مہربانی۔ ميں نے اسُ سے کہا کہ ميں بهی آپ کو جانتا ہوں ( اب اُن کا جو حوالہ تها، وه تو ميں نے اُن سے نہيں کہا) آپ اس دنيا کے بہت بڑے امير آدمی ہيں يہ مجهے معلوم ہے ( اسُ کا پہلا حوالہ يہ تها کہ وه ايک بہت بڑے مافيا کا چيف تها) اُس شخص نے مجه سے کہا کہ ميں آپ کو ايک بڑی عجيب و غريب بات بتاتا ہوں، جو ميری امارت کا باعث بنی اور ميں اس قدر امير ہو گ ا ی۔ وه يہ کہ مجهے ہارس ريسنگ کا شوق تها اور ميں گهوڑوں پر جُوا لگاتا تها۔ ميری مالی حالت کبهی اونچی ہو جاتی تهی اور کبهی نيچی،جيسے ريس کهيلنے والے لوگوں کی ہوتی ہے۔
ايک بار ميں نے اپنا سارا مال ومتاع ايک ريس پر لگاديا اور کہا کہ اب اس کے بعد ميں ريس نہيں کهيلوں گا۔ خدا کا کرنا يہ ہوا کہ ميں وه ريس ہار گيا، ميری جيبيں بالکل خالی تهيں اور ميں بالکل مفلس ہو گيا تها۔ جب ميں وہاں سے پيدل گهر لوٹ رہا تها، تو مجهے شدّت سے واش روم جانے کی ضرورت محسوس ہوئی، ليکن وہاں جانے کےلئےميرے پاس مقامی کرنسی کا سکّہ نہيں تها، جو واش روم کا دروازه کهولنے کےلئےاُس کے لاک ميں ڈالا جاتا ہے، وگرنہ دروازه کُهلتا نہيں ہے۔ ميں بہت پريشان تها اور مجهے جسمانی ضرورت کے تحت تکليف بهی محسوس ہو رہی تهی۔ ميں وہاں قريبی پارک ميں گيا۔ وہاں بنچ پر ايک شخص بيڻها ہوا اخبار پڑه رہا تها۔ ميں نے بڑی لجاجت سے اُس سے کہا کہ
کيا آپ مجهے ايک سکّہ عنايت فرمائيں گے؟ اُس شخص نے ميری شکل وصورت کو ديکها اور کہا کيوں نہيں اور سکّہ دے ديا۔ ليکن اس سے قبل ميری جسمانی صحت پر غور ضرور کيا۔ اسُے کيا خبر تهی ميں بالکل پهانگ (مفلس) ہو چکا ہوں۔ جب ميں وه سکّہ لے کر چلا اور واش روم کے دروازے تک پہنچا، جہاں لاک ميں سکّہ ڈالنا تها، تو اچانک وه دروازه کُهل گيا جبکہ وه سکّہ ابهی ميرے ہاته ميں تها۔ جو اندر آدمی پہلے موجود تها وه باہر نکلا اور اُس نے مسکرا کر بڑی محبّت، شرافت اور نہايت استقباليہ انداز ميں دروازه پکڑے رکها اور مجه سے کہا، يہ ايک روپے کا سکّہ کيوں ضائع کرتے ہو؟ ميں نے اُس کا شکريہ ادا کيا اور ميں اندر چلا گيا۔ اب جب ميں باہر نکلا تو ميرے پاس وه ايک روپے کی قدر کا سکّہ بچ گيا تها ۔ تو ميں قريب کسينو ميں چلا گيا، وہاں پر ايک جوا ہو رہا تها کہ ايک روپيہ لگاؤ ہزار روپے پاؤ۔ ميں نے وه روپے کا سکّہ اُس جوئے ميں لگا ديا اور سکّہ بکس ميں ڈال ديا۔ وه سکّہ کهڑ کهڑايا اور ہزار کا نوٹ کڑک کر کے باہر آ گيا۔ ( جواری آدمی کی بهی ايک اپنی زندگی ہوتی ہے)۔ ميں نے آگے لکها ديکها کہ ايک ہزار ڈالو تو ايک لاکه پاؤ۔ ميں نے ہزار کا نوٹ وہاں لگا ديا۔ رولر گهوما، دونوں گينديں اسُ کے اوپر چليں اور ڻک کر کے ايک نمبر پر آکر وه گريں اور ميں ايک لاکه جيت گيا (آپ غور کريں کہ وه ابهی وہيں کهڑا ہے، جہاں سے اُس نے ايک سکّہ مانگا تها) اب ميں ايک لاکه روپيہ لے کر ايک امير آدمی کی حيثيت سے چل پڑا اور گهر آ گيا۔

اگلے دن ميں نے اخبار ميں پڑها کہ يہاں پر اگر کوئی
Sick Industry

ميں انويسٹ کرنا چاہے، تو حکومت انہيں مالی مدد بهی دے گی اور ہر طرح کی انہيں رعايت دے گی۔ ميں نے ايک دو کارخانوں کا انتخاب کيا، حکومت نے ايک لاکه روپيہ فيس داخل کرنے کا کہا اور کہا کہ ہم آپ کو ايک کارخانہ دے ديں گے
( شايد وه جُرابيں بنانے يا انڈر گارمنڻس کا کارخانہ تها) وه کارخانہ چلا تو اس سے دوسرا، تيسرا اور ميں لکه پتی سے کروڑ پتی اور ارب پتی ہو گيا۔ (آپ اب غور کريں کہ يہ سب کچه ايک دروازه کُهلا رکهنے کی وجہ سے ممکن ہوا) اُس نے کہا کہ ميری اتنی عمر گزر چکی ہے اور ميں تلاش کرتا پهر رہا ہوں اُس آدمی کو، جس نے مجه پر يہ احسان کيا ہے۔ ميں نے کہا کہ اُس آدمی کو، جس نے آپ کو ايک روپيہ ديا تها؟ اُس نے کہا، نہيں! اُس آدمی کو، جس نے دروازه کُهلا رکها تها۔ ميں نے کہا کہ آپ اُس کا شکريہ ادا کرنے کےلئےاسُ سے ملنا چاہتے ہيں؟ تو اسُ نے جواب ديا، نہيں! يہ ديکهنے کےلئےاسُ سے ملنا چاہتا ہوں کہ وه شخص کن کيفيات سے گزر رہا ہے اور کس اونچے مقام پر ہے اور مجهے يقين ہے کہ دروازه کهولنے والے کا مقام روحانی، اخلاقی اور انسانی طور پر ضرور بلُند ہو گا اور وه ہر حال ميں مجه سے بہتر اور بلُند تر ہوگا ليکن وه آدمی مجهے مل نہيں رہا ہے۔

__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Taimoor Gondal For This Useful Post:
Arain007 (Sunday, August 28, 2011)
  #17  
Old Saturday, August 27, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default دروازه کُهلا رکهنا

ميں اُس کی يہ بات سُن کر بڑا حيران ہوا، اور اب مجهے انشاء جی کی دروازه کُهلا رکهنا کی بات پڑه کر وه شخص ياد آيا۔ يہ ايک عجيب بات ہے کہ بڑُهاپے ميں گزشتہ چاليس، پينسڻه، باسڻه برس کی باتيں اپنی پوری جزويات اور تفصيلات کے ساته ياد آجاتی ہيں اور کل کيا ہوا تها، يہ ياد نہيں آتا ۔ بڑُهاپے ميں بڑی کمال کمال کی چيزيں ہوتی ہيں۔ ايک تو يہ کہ آدمی چڑچڑا ہوجاتا ہے۔ ميں سمجهتا تها کہ ميں بڑا
pleasant
آدمی ہوں۔ بڑا شريف آدمی هوں۔ ميں تو چڑچڑا نہيں ہوں۔ پرسوں ہی مجهے گيس کا چولہا جلانے کےلئےماچس چاہئے تهی، ميں اتنا چيخا، اوه ! آخر کدهر گئی ماچس! ميرا پوتا اور پوتی کہنے لگے دادا بوڑها ہو گيا ہے۔ ميں نے کہا کيوں؟ تو کہنے لگے، آپ چڑنے لگے ہيں اور ايسی تو آپ کی
Language
کبهی نہ تهی۔ ميں نے کہا، بهئی آخر بڑُهاپے ميں تو داخل ہونا ہی ہے،کيا کيا جائے؟ ليکن پهر بهی تم سے بہت طاقتور ہوں۔ کہنے لگے، آپ کيسے طاقتور ہيں؟ ميں نے کہا، جب تمہاری کوئی چيز زمين پر گرتی ہے تو تم اسُے اڻُها ليتے ہو، ليکن لله نے مجهے يہ قوّت دی ہے، ايک بوڑهے آدمی ميں کہ جب اُس کی ايک چيز گرتی ہے تو وه نہيں اڻُهاتا اور جب دوسری گرتی ہے، تو ميں کہتا ہوں اکڻهی دو اڻُهاليں گے، اسی لئےہميشہ انتظار کرتا ہے کہ دو ہوجائيں تو اچها ہے۔

خواتين وحضرات
! دروازه کُهلا رکهنے کے حوالے سے مجهے يہ بهی ياد آيا ہے اور اپنے آپ کو جب ميں ديکهتا ہوں کہ ايک زمانہ تها (جس طرح سے ماشاءلله آپ لوگ جوان ہيں)
1947 ء ميں جب ہم نعرے مار رہے تهے، تو ہمارا ايک ہی نعره ہوتا تها، لے کے رہيں گے آزادی، لے کے رہيں گے پاکستان، ہم اسُ وقت نعرے لگاتے ہوئے گليوں، بازاروں ميں گُهوما کرتے تهے اور اپنے مخالفين اور دُشمنوں کے درميان بالکل اس طرح چلتے تهےجيسے شير اپنی کچهار ميں چلتا ہے اور اب جب کچه وقت گزرا ہے اور ہم ہی پر يہ وقت آيا ہے اور ہم جو کہتے تهے کہلے کے رہيں گے پاکستان، لے کے رہيں گے آزادیاب ہر بات پر کہتے ہيں کہ لے کے رہيں گے سکيورڻیہم ہ کتے ہيں کہ ہميں سکيورڻی نہيں ہے۔

کسی آدمی کی تبديلی لاہور سے مُلتان کر دی جائے تو وه کہتا ہے کہ جی بس سکيورڻی نہيں ہے
(ايسے ہی کہتے ہيں ناں ) تو سکيورڻی کےلئےاتنے بے چين ہو گئے ہيں ہم، اتنے ڈر گئے ہيں اور آخر کيوں ڈر گئے؟ يہ سب کچه کيسے ہو گيا؟ ہم تو وہی ہيں۔ تب مجهے احساس ہوا کہ ہم نے اپنی بات پر اتنے دروازے بند کرلئے ہيں اور ہم دروازے بند کر کے اندر رہنے کے عادی ہو گئے ہيں۔ ذہنی طور پر، روحانی طور پر اور جسمانی طور پر۔ ہم نے ہر لحاظ سے خود کو ايسا بند کر ديا ہے کہ اب وه آواز سُنائی نہيں ديتی کہلے کے رہیں گے پاکستان" جب چاروں طرف سے دروازے بند ہوں گے تو يہی کيفيت ہوگی۔ پهر آپ اس حصار سے يا کمرے سے باہر نہيں نکل سکيں گے۔ اور نہ کسی کو دعوت دے سکيں گے، نہ تازه ہواؤں کو اپنی طرف بلُا سکيں گے۔ ايسی چيزوں پر جب نظر پڑتی ہے اور ميری عمر کا آدمی سوچتا ہے، تو پهر حيران ہوتا ہے کہ يہ وقت جو آتے ہيں يہ لله کی طرف سے آتے ہيں، يا پهر قوميں ايسے فيصلے کر ليتی ہيں، يا مختلف گروۀ انسانی اس طرح سے سوچنے لگتے ہيں۔ اس کا کوئی حتمی يا يقينی فيصلہ کيا نہيں جا سکتا ۔

ميں ايک دن ناشتے کی ميز پر اخبار پڑه رہا تها اور ميری بہو کچه کام کاج کر رہی تهی باورچی خانے ميں۔ وه کہنے لگی، ابو
! ميں آپ کو کافی کی ايک پيالی بنا دوں؟ ميں نے کہا، بنا تو دو، ليکن چوری بنانا، اپنی ساس کو نہ پتہ لگنے دينا، وه آکر لڑے گی کہ ابهی تو تم نے ناشتہ کيا ہے اور ابهی کافی پی رہے ہو۔ اسُ نے کافی بنا کر مجهے دے دی۔ ہمارے باورچی خانے کا ايک اايسا دروازه ہے، جس کو کهولنے کی کبهی ضرورت نہيں پڑتی، ميری بہو کو وه دروازه کهولنے کی ضرورت پڑی اور وه کهولنے لگی اور جب وه ميرےلئےکافی بنا رہی تهی تو کہنے لگی، ابو آپ يہ مانيں گے کہ عورت بے بدل ہوتی ہے، اس کا کوئی بدل نہيں ہوتا، ميں نے کہا، ہاں بهئی! ميں تومانتا ہوں، وه دروازه کهولنے لگی اور کوشش کرنے لگی، کيونکہ وه کم کهلنے کے باعث کچه پهنسا ہوا تها اور بڑا سخت تها، وه کافی دير زور لگاتی رہی، ليکن وه نہ کهلا تو مجهے کہنے لگی، ابو اس دروازے کو ذرا ديکهئے گا، کهل ہی نہيں رہا۔ ميں گيا اور جا کر ايک بهرپور جهڻکا ديا تو وه کهل گيا، جب وه کهل گيا تو پهر ميں نے بهی کہا کہ ديکها ( انسان خاص طور پر مرد بڑا کمينہ ہوتا ہے، اپنے انداز ميں ) تم تو کہتی تهيں کہ ميں بے بدل ہوں اور عورت کا کوئی بدل نہيں ہوتا۔ کہنے لگی، ہاں ابو! يہی تو میں اب بهی کہتی ہوں کہ عورت بے بدل ہوتی ہے۔ ديکهيں ميں نے ايک منٹ ميں دروازه کهلواليا (قہقہہ) ميں نے کہا، ہاں يہ بڑی پياری بات ہے۔

ميں يہ عرض کررہا تها کہ دوسروں کےلئےدروازه کهولنا، ايک جادو، چالاکی، ايک تعويذ اور ايک وظيفے کی بات ہے، اگر آپ ميں، مجه ميں يہ خصوصيت پيدا ہوجائے تو يہ عجيب سی بات لگے گی کہ ہم دروازه کهولنے لگيں، لوگوں کےلئےتو يہ ايک رہبری عطا کرنے کا کام ہوگا۔ آپ لوگوں کو رہبری عطا کريں گے اپنے اس عمل سے، جس نے دروازه کهول کے اندر جانا ہے، آخر اُسے جانا تو ہے ہی، ليکن آپ اپنے عمل سے اُس شخص کے رہنما بن جاتے ہيں اور جب آدمی رہنمائی کرتا ہے، تو اس کا انعام اسُے ضرور ملتا ہے۔ ہمارے ہاں تو يہ رواج ذرا کم ہے۔ ہم تو دروازه وغيره اس اہتمام سے نہيں کهولتے کہ ہميں کيا ضرورت پڑی ہے کسی کا دروازه کهولنے کی، جب وه چلا جائے گا، دفع ہو جائے گا تو کهول کر اندر چلے جائيں گے۔ اگر ہم ميں دروازه کهولنے کی عادت پيدا ہو جائے۔ اگر ہم اپنے دفتر، بينک يا درس گاه ميں دروازه خود کهوليں، چاہے ايک اسُتاد ہی اپنے شاگردوں کےلئےکلاس روم کا دروازه کيوں نہ کهولے، يہ کام برکت اور آگے بڑهنے کا ايک بڑا اچها تعويذ ثابت ہو گا۔

يہ بات واقعی توجہ طلب ہے۔ اس سے فائده اڻُهايا جانا چاہئے اور ان چهوڻی چهوڻی باتوں کا تعلق ذاتی فائدے سے بهی ضرور ہوتا ہے۔اس ميں چاہے روحانی فائده ہويا جسمانی يا پهر اخلاقی ہو، ہوتا ضرور ہے اور انسان سارے کا سارا محض چيزوں اور اشياء سے ہی نہيں پہچانا جاتا۔ ہمارے ايک اُستاد تهے، ميرے کوليگ،بڑے بزرگ قسم کے، وه ہميشہ يہ کہا کرتے تهے کہ

Rich
آدمی وه ہوتا ہے، جس کی ساری کی ساری
Richness
اس کی امارت، اس کی دولت، سب کی سب ضائع ہو جائے اور وه اگلے دن کيسا ہو؟ اگر وه اگلے دن گر گيا تو اس کا سہارا اور امارت جو تهی وه جهوڻی تهی۔ ميں آپ سے يہ وعده کرتا ہوں کہ ميں بهی اس پروگرام کے بعد دروازے کهولنے والوں ميں ہوں گا، چاہے ميں ڈگمگاتا ہوا ہی اسے کهولوں۔

لله آپ کو آسانياں عطا فرمائے اور آسانياں تقسيم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔

***************
__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Taimoor Gondal For This Useful Post:
Arain007 (Sunday, August 28, 2011)
  #18  
Old Tuesday, August 30, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default خوشی کا راز

ماں خدا کی نعمت ہے اور اس کے پيار کا انداز سب سے الگ اور نرالا ہوتا ہے۔ بچپن ميں ايک بار بادو باراں کا سخت طوفان تها اور جب اس ميں بجلی شدت کے ساته کڑکی تو ميں خوفزده ہو گيا۔ ڈر کے مارے تهر تهر کانپ رہا تها۔ ميری ماں نے ميرے اوپر کمبل ڈالا اور مجهے گود ميں بڻها ليا، تو محسوس ہوا گويا ميں امان ميں آگيا ہوں۔

ميں نے کہا، اماں
! اتنی بارش کيوں ہو رہی ہے؟ اس نے کہا، بيڻا! پودے پياسے ہيں۔ لله نے انہيں پانی پلانا ہے اور اسی بندوبست کے تحت بارش ہو رہی ہے۔ ميں نے کہا، ڻهيک ہے! پانی تو پلانا ہے، ليکن يہ بجلی کيوں بار بار چمکتی ہے؟ يہ اتنا کيوں کڑکتی ہے؟ وه کہنے لگيں، روشنی کر کے پودوں کو پانی پلايا جائے گا۔ اندهيرے ميں تو کسی کے منہ ميں، تو کسی کے ناک ميں پانی چلا جائے گا۔ اس لئے بجلی کی کڑک چمک ضروری ہے۔

ميں ماں کے سينے کے ساته لگ کر سو گيا۔ پهر مجهے پتا نہيں چلا کہ بجلی کس قدر چمکتی رہی، يا نہيں۔ يہ ايک بالکل چهوڻا سا واقعہ ہے اور اس کے اندر پوری دنيا پوشيده ہے۔ يہ ماں کا فعل تها جو ايک چهوڻے سے بچے کے لئے، جو خوفزده ہو گيا تها۔ اسے خوف سے بچانے کے لئے، پودوں کو پانی پلانے کے مثال ديتی ہے۔ يہ اس کی ايک اپروچ تهی۔ گو وه کوئی پڑهی لکهی عورت نہيں تهيں۔ دولت مند، بہت عالم فاضل کچه بهی ايسا نہيں تها، ليکن وه ايک ماں تهی۔ ميں جب نو سال کا ہوا تو ميرے دل ميں ايک عجيب خيال پيدا ہوا کہ سرکس ميں بهرتی ہو جاؤں اور کهيل پيش کروں، کيونکہ ہمارے قصبے ميں ايک بہت بڑا ميلہ لگتا تها۔ تيره، چوده، پندره جنوری کو اور اس ميں بڑے بڑے سرکس والے آتے تهے۔ مجهے وه سرکس ديکهنے کا موقع ملا، جس سے ميں بہت متأثر ہوا۔ جب ميں نے اپنے گهر ميں اپنی يہ خواہش ظاہر کی کہ ميں سرکس مي ںاپنے کمالات دکهاؤں گا، تو ميری نانی
پهاکر کے ہنسی اور کہنے لگيں، ذرا شکل تو ديکهو! يہ سرکس ميں کام کرے گا۔ ميری ماں نے بهی کہا، دفع کر تو بڑا ہو کر ڈپڻی کمشنر بنے گا۔ تو نے سرکس ميں بهرتی ہو کر کيا کرنا ہے۔ اس پر ميرا دل بڑا بجه سا گيا۔ وہی ماں جس نے مجهے اتنی محبت سے اس بادوباراں کے طوفان ميں امان اور آسائش عطا کی تهی۔ وه ميری خواہش کی مخالفت کر رہی تهی۔

ميرے والد سن رہے تهے۔ انہوں نے کہا کہ نہيں، کيوں نہيں؟ اگر اس کی صلاحيت ہے تو اسے بالکل سرکس ميں ہونا چاہئے۔ تب ميں بہت خوش ہوا۔ اب ايک ميری ماں کی مہربانی تهی۔ ايک والد کی اپنی طرف کی مہربانی۔ انہوں نے صرف مجهے اجازت ہی نہيں دی، بلکہ ايک ڈرم جو ہوتا ہے تارکول والا، اس کو لال، نيلا اور پيلا پينٹ کر کے بهی لے آئے اور کہنے لگے، اس پر چڑه کر آپ ڈرم کو آگے پيچهے رول کيا کريں۔ اس پر آپ کهيل کريں گے تو سرکس کے جانباز کهلاڑی بن سکيں گے۔ ميں نے کہا منظور ہے۔

چنانچہ ميں اس ڈرم پر پريکڻس کرتا رہا۔ ميں نے اس پر اس قدر اور اچهی پريکڻس کی کہ ميں اس ڈرم کو اپنی مرضی اور منشاء کے مطابق کہيں بهی لے جا سکتا تها۔ گول چکر کاٹ سکتا تها۔ بغير پيچهے ديکهے ہوئے، آگے پيچهے آجا سکتا تها۔ پهر ميں نے اس ڈرم پر چڑه کر ہاته ميں تين گينديں اچهالنے کی پريکڻس کی۔ وہاں ميرا ايک دوست تها۔ ترکهانوں کا لڑکا محمد رمضان۔ اس کو بهی ميں نے پريکڻس ميں شامل کر ليا۔ وه اچهے چهريرے بدن کا تها۔ وه مجهے سے بهی بہتر کام کرنے لگا۔ بجائے گيندوں کے وه تين چهرياں لے کر ہوا ميں اچهال سکتا تها۔ ہم دونوں ڈرم پر چڑه کر اپنا يہ سرکس لگاتے۔ ايک ہماری بکری تهی، اس کو بهی ميں نے ڻرينڈ کيا۔ وه بکری بهی ڈرم پر آسانی سے چڑه جاتی۔

ہماری ايک
بشُینامی کتا تها، وه لمبے بالوں والا روسی نسل کا تها۔ اس کو ہم نے کافی سکهايا، ليکن وه نہ سيکه سکا۔ وه يہ کام ڻهيک سے نہيں کر سکتا تها۔ حالانکہ کتا کافی ذہين ہوتا ہے۔ وه بهونکتا ہوا ہمارے ڈرم کے ساته ساته بهاگتا تها، مگر اوپر چڑهنے سے ڈرتا تها۔ ہم نے اعلان کر ديا کہ يہ کتا ہماری سرکس ہی کا ايک حصہ ہے، ليکن يہ جوکر کتا ہے اور يہ کوئی کهيل نہيں کرسکتا، صرف جوکر کا کردار ادا کر سکتا ہے۔

خير
! ہم يہ کهيل دکهاتے رهے۔ ہم اپنا شو کرتے توميرے ابا جی ہميشہ ايک روپيہ والا ڻکٹ لے کر کرسی ڈال کر ہماری سرکس ديکهنے بيڻه جاتے تهے۔ ہمارا ايک ہی تماشائی ہوتا تها اوُر کوئی بهی ديکهنے نہيں آتا تها۔ صرف ابا جی ہی آتے تهے۔ ہم انہيں کہتے کہ آج جمعرات ہے۔ آپ سرکس ديکهنے آئيے گا۔ وه ہ کتے، ميں آؤں گا۔ وه ہم سے ايک روپے کا ڻکٹ بهی ليتے تهے، جو ان کی شفقت کا ايک انداز تها۔

زندگی ميں کئی بار ايسا بهی ہوتا ہے اور اکثر ايسا ہوتا ہے اور آپ اس بات کو مائنڈ نہ کيجئے گا۔ اگر آپ کو روحانيت کی طرف جانے کا بہت شوق ہے تو اس بات کو برا نہ سمجهئے گا کہ بعض اوقات ماں باپ کے اثرات اس طرح سے اولاد ميں منتقل نہيں ہوتے، جس طرح سے انسان آرزو کرتا ہے۔اس پر کسی کا زور بهی نہيں ہوتا۔ ڻهيک چواليس برس بعد جب ميرا پوتا جو بڑا اچها، بڑا ذہين لڑکا اور خير و شر کو اچهی طرح سے سمجهتا ہے، وه جاگنگ کر کے گهر ميں واپس آتا ہے، تو اس کے جوگر، جو کيچڑ ميں لتهڑے ہوئے ہوتے ہيں، وه ان کے ساته اندر گهس آتا ہے اور وه ويسے ہی خراب جوگروں کے ساته چائے بهی پيتا ہے اور سارا قالين کيچڑ سے بهر ديتا ہے۔ ميں اب آپ کے سامنے اس بات کا اعتراف کرنے لگا ہوں کہ ميں اسے برداشت نہيں کرتا کہ وه خراب کيچڑ سے بهرے جوگرز کے ساته قالين پر چڑهے۔ ميرا باپ جس نے مجهے ڈرم لا کر ديا تها، ميں اسی کا بيڻا ہوں اور اب ميں پوتے کی اس حرکت کو برداشت نہيں کرتا۔ ديکهئے يہاں کيا تضاد پيدا ہوا ہے۔ ميں نے اپنے پوتے کو شدت کے ساته ڈانڻا اور جهڑکا کہ تم پڑهے لکهے لڑکے ہو، تمهيں شرم آنی چاہئے کہ يہ قالين ہے، برآمده ہے اور تم اسے کيچڑ سے بهر ديتے ہوں۔ اس نے کہا، دادا آئی ايم ويری سوری
!! ميں جلدی ميں ہوتا ہوں، جوگر اتارنے مشکل ہوتے ہيں۔ امی مجهے بلا رہی ہوتی ہيں کہ
have a cup of
tea
،
تو ميں جلدی مي ںايسے ہی اندر آجاتا ہوں۔ ميں نے کہا کہ تمہيں اس بات کا احساس ہونا چاہئے۔ اپنے اندر تبديلی پيدا کرو، چنانچہ ميں اس پر کمنڻس کرتا رہا۔ ڻهيک ہے مجهے ايک لحاظ سے حق تو تها، ليکن جب يہ واقعہ گزر گيا تو ميں نے ايک چهوڻے سے عام سے رسالے مي ںاقوالٍ زريں وغيره ميں ايک قول پڑها کہجو شخص ہميشہ نکتہ چينی کے موڈ ميں رہتا ہے اور دوسروں کے نقص نکالتا رہتا ہے، وه اپنے آپ ميں تبديلی کی صلاحيت سے محروم ہو جاتا ہے۔انسان کو خود يہ سوچنا چاہئے کہ جی مجه ميں فلاں تبديلی آنی چاہئے۔ جی ميں سيگرٹ پيتا ہوں، اسے چهوڑنا چاہتا ہوں، يا ميں صبح نہيں اٹه سکتا۔ مي ںاپنے آپ کو اس حوالے سے تبديل کر لوں۔ ايک نکتہ چيں ميں کبهی تبديلی پيدا نہيں ہو سکتی، کيونکہ اس کی ذات کی جو بيڻری ہے، وه کمزور ہونے لگتی ہے۔ آپ نے ديکها ہوگا کہ جب بيڑی کے سيل کمزور ہو جائيں، تو ايک بيڻری کا بلب ذرا سا جلتا ہے، پهر بجه جاتا ہے۔ اسی طرح کی کيفيت ايک نکتہ چيں کی ہوتی ہے۔

ميں نے وه قول پڑهنے کے بعد محسوس کيا کہ ميری نکتہ چينی اس لڑکے پر ويسی نہيں ہے، جيسا کہ ميرے باپ کی ہو سکتی تهی۔ ميرے باپ نے سرکس سيکهنے کی بات پر مجهے نہيں کہا کہ عقل کی بات کر، تو کيا کہ رہا ہے؟ اس نے مجهے يہ ہ کنے کی بجائے ڈرم لا کر ديا اور ميری ماں نے مجهے بادوباراں کے طوفان ميں يہ نہيں کہا کہ چپ کر، ڈرنے کی کيا بات ہے؟ اور ميں اس ميں کمنڻری کر کے نقص نکال رہا ہوں۔ ابهی ميں اس کا کوئی ازالہ نہيں کر سکا تها کہ اگلے دن ميں نے ديکها ميرے پوتےکی ماں
(ميری بہو) بازار سے تار سے بنا ہوا ميٹ لے آئی اور اس کے ساته ناريل کے بالوں والا ڈور ميٹ بهی لائی، تاکہ اس کے ساته پير گٍهس کے جائے اور اندر کيچڑ نہ جانے پائے۔ سو، يہ فرق تها مجه ميں اور اس ماں ميں۔ مي ںنکتہ چينی کرتا رہا اور اس نے حل تلاش کر ليا۔

جب آپ زندگی ميں داخل ہوتے ہيں اور باطن کے سفر کی آرزو کرتے ہيں، تو جب تک آپ چهوڻی چهوڻی باتوں کا خيال نہ کريں گے اور بڑے ميدان تک پہنچنے کے لئے پگڈنڈی نہ تيار کريں گے، وہاں نہيں جا سکيں گے۔ آپ ہميشہ کسی
بابےکی بابت پوچهتے رہتے ہيں۔ ہمارے باباجی سے فيصل آباد سے آنے والے صاحب نے بهی يہی پوچها اور کہنے لگے کہ سائيں صاحب! آپ کو تو ماشاء لله خداوند تعالٰی نے بڑا درجہ ديا ہے۔ آپ ہم کو کسی قطبکے بارے ميں بتلا ديں۔ باباجی نے ان کی يہ بات نظر انداز کر دی۔ وه صاحب پهر کسی قطب وقت کے بارے دريافت کرنے لگے۔ جب انہوں نے تيسری بار يہی پوچها تو بابا جی نے اس سے کہا کہ کيا تم نے اسے قتل کرنا ہے؟

آدمی کا شايد اس سے يہی مطلب يا مقصد ہوتا ہے کہ کوئی بابا ملے اور ميں اس کی غلطياں نکالوں۔اگر روح کی دنيا کو ڻڻولنے کا کوئی ايسا اراده ہو يا اس دنيا ميں کوئی اونچی پکار کرنے کی خواہش ہو کہ
ميں آگياتو اس کے لئےايک راستہ متعين ہونا چاہئے، تياری ہونی چاہئے۔ تبهی انسان وہاں تک جا سکتا ہے۔ ہم ڈائريکٹ کبهی وہاں نہيں جا سکتے۔آپ کو اس دنيا کے اندر کوئی پيرا شوٹ لے کر نہيں جائے گا۔ جب يہ چهوڻی چهوڻی تبديلياں رونما ہونگی، تو جا کر کہيں بات بنے گی۔

میرے بهائی نے ايک بار مجه سے کہا کہ اگر آپ نے کچه لکهنے لکهانے کا کام کرنا ہے تو ميرے پاس آکر مہينے دو گزار ليں
(ان کا رينالہ خورد ميں ايک مرغی خانہ ہے)۔ ميں وہاں گيا، بچے بهی ساته تهے۔ وہاں جا کر تو ميری جان بڑی اذيت ميں پهنس گئی۔ وه اچهی سر سبز جگہ تهی۔ نہر کا کناره تها، ليکن وه جگہ ميرے لئے زياده
Comfortable
ثابت نہيں ہو رہی تهی۔ آسائشيں ميسر نہيں تهيں۔ ايک تو وہاں مکهياں بہت تهيں، دوسرے مرغی خانے کے قريب ہی ايک اصطبل تها، وہاں سے گهوڑوں کی بو آتی تهی۔ تيسرا وہاں پر مشکل يہ تهی کہ وہاں ايک چهوڻا فريج تها، اس ميں ضرورت کی تمام چيزيں نہيں رکهی جا سکتی تهيں اور بار بار بازار جانا پڑتا تها۔يہ مجهے سخت ناگوار گزرتا تها۔

__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
  #19  
Old Tuesday, August 30, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default خوشی کا راز

اب ديکهئے خدا کی کيسے مہربانی ہوتی ہے۔ وہی مہربانی جس کا ميں آپ سے اکثر ذکر کرتا ہوں۔ ميں اصطبل ميں يہ ديکهنے کے لئے گيا کہ اس کی بو کو روکنے کے لئے کسی دروازے کا بندوبست کيا جا سکے۔ وہاں جا کر کيا ديکهتا ہوں کہ ميرے تينوں بچے گهوڑوں کو ديکهنے کے لئے اصطبل کے دروازوں کے ساته چمڻے ہوئے ہيں۔ وه صبح جاگتے تهے تو سب سے پہلے آکر گهوڑوں کو ديکهتے۔ انہيں گهوڑوں کے ساته اتنا عشق ہو گيا تها۔ ان ميں ايک گهوڑا ايسا تها جو بڑا اچها تها۔ وه انہيں ہميشہ ہنہنا کر ہنساتا تها اور اگر وه
ڻينے مينےبچے وقت پر نہيں پہنچتے تهے، تو شايد انہيں بلاتا تها، اس گهوڑے کی ہنہناہٹ سے يہ اندازه ہوتا تها۔ اب ميں نے کہا کہ نہيں، يہ خوشبو يا بدبو، يہ اصطبل اور گهوڑے اور ان بچوں کی دوستی مجهے وارے ميں ہے اور اب مجهے يہ گهوڑے پيارے ہيں۔ بس ايسے ڻهيک ہے۔

ہم شہر کے صفائی پسند لوگ جو مکهی کو گوارا نہيں کرتے۔ ايک بار ميرے دفتر ميں ميرے بابا جی
(سائيں جی) تشريف لائے، تو اس وقت ميرے ہاته ميں مکهياں مارنے والا فليپ تها۔ مجهے اس وقت مکهی بہت تنگ کر رہی تهی۔ ميں مکهی مارنے کی کوشش کر رہا تها۔ اس لئے مجهے بابا جی کے آنے کا احساس ہی نہيں ہوا۔ اچانک ان کی آواز سنائی دی۔ وه کہنے لگے، يہ لله نے آپ کے ذوقٍ کشتن کے لئے پيدا کی ہے۔ ميں نے کہا، جی يہ مکهی گند پهيلاتی ہے، اس لئے مار رہا تها۔ کہنے لگے، يہ انسان کی سب سے بڑی محسن ہے اور تم اسے مار رہے ہو۔ ميں نے کہا، جی يہ مکهی کيسے محسن ہے؟ کہنے لگے، يہ بغير کوئی کرايہ لئے، بغير کوئی ڻيکس لئے انسان کو يہ بتانے آتی ہے کہ يہاں گند ہے۔ اس کو صاف کر لو تو ميں چلی جاؤں گی اور آپ اسے مار رہے ہیں۔ آپ پہلے جگہ کی صفائی کر کے ديکهيں، يہ خود بخود چلی جائے گی۔ سو، وہاں باباجی کی کہی ہوئی وه بات ميرے ذہن ميں لوٹ کر آئی اور ميں نے سوچا کہ مجهے اس کمرے ميں کوئی فريش چيزيں پهول يا سپرے وغيره رکهنی چاہيں اور يہاں کی صفائی پر دهيان دينا چاہئے۔ وه فرش جيسا بهی تها، اس کو گيلا کر کے ميں نے جهاڑو لے کر خود خوب اچهی طرح سے صاف کيا۔ آپ يقين کريں پهر مجهے مکهيوں نے تنگ نہيں کيا۔

جب ميں سودا لينے کے لئے
(جس سے ميں بہت گهبراتا ہوں ) ايک ميل کے فاصلے پر گيا، تو ميں نے وہاں اپنے بچپن کے کئی سال گزارنے کے بعد لبساطيوں کی دکانيں ديکهيں، جو ہمارے بڑے شہروں ميں نہيں ہوتيں۔ وہاں پر ميں نے بڑی دير بعد دهونکنی کے ساته برتن قلعی کرنے والا بنده ديکها، پهر عجيب بات، جس سے آپ سارے لوگ محروم ہيں اور آپ نہيں جانتے کہ وہاں ايک کسان کا لڑکا ديکها، جو گندم کے باريک ناڑجو تقريب ا چًه انچ لمبا تها، اسے کاٹ کر اس کے ساته الغوزهبجاتا تها۔ وه اتنا خوبصورت الغوزه بجاتا تها کہ اگر آپ اسے سننے لگيں، تو آپ بڑے بڑے استادوں کو بهول جائيں۔ پهر ميں آرزو کرنے لگا کہ مجهے ہر شام بازار جانے کا موقع ملے۔ يہ چيزيں چهوڻی چهوڻی ہيں اور يہ بظاہر معمولی لگتی ہيں، ليکن ان کی اہميت اپنی جگہ بہت زياده ہے۔ اگر آپ معمولی باتوں کی طرف دهيان ديں گے، اگر آپ اپنی کنکریکو بہت دور تک جهيل ميں پهينکيں گے تو بہت بڑا دائره پيدا ہوگا، ليکن آپ کی يہ آرزو ہے کہ آپ کو بنا بنايا دائره کہيں سے مل جائے اور وه آپ کی زندگی ميں داخل ہو جائے، ايسا ہوتا نہيں ہے۔ قدرت کا ايک قانون ہے کہ جب تک آپ چهوڻی چيزوں پر، معمولی سی باتوں پر، جو آپ کی توجہ ميں کبهی نہيں آئيں، اپنے بچے پر اور اپنی بهتيجی پر، آپ جب تک اس کی چهوڻی سی بات کو ديکه کر خوش نہيں ہوں گے، تو آپ کو دنيا کی کوئی چيز يا دولت خوشی عطا نہي ںکر سکے گی، کيونکہ روپيہ آپ کو خوشی عطا نہيں کر سکتا۔ روپے پيسے سے آپ کوئی کيمره خريد ليں، خواتين کپڑے خريد ليں اور وه يہ چيزيں خريدتی چلی جاتی ہيں کہ يہ ہميں خوشی عطا کريں گی۔ ليکن جب وه چيز گهر ميں آجاتی ہے تو اس کی قدر و قيمت گهڻنا شروع ہو جاتی ہے۔ خوشی تو ايسی چڑيا ہے جو آپ کی کوشش کے بغير آپ کے دامن پر اتر آتی ہے۔ اس کے لئے آپ نے کوشش بهی نہيں کی ہوتی، تيار بهی نہيں ہوئے ہوتے، ليکن وه آجاتی ہے۔ گويا اس رُخ پر جانے کے لئے جس کی آپ آرزو رکهتے ہيں، جو کہ بہت اچهی آرزو ہے، کيونکہ روحانيت کے بغير انسان مکمل نہيں ہوتا، مگر جب تک اسے تلاش نہيں کرے گا، جب تک وه راستہ يا پگڈنڈی اختيار نہيں کرے گا، اس وقت تک اسے اپنے مکمل ہونے کا حق نہيں پہنچتا۔ انسان يہ کوشش کرتا ضرور ہے، ليکن اس کی
Methodology
مختلف ہوتی ہے۔ وه چهوڻی چيزوں سے بڑی کی طرف نہيں جاتا۔ آپ جب ايک بار يہ فن سيکه جائيں گے، پهر آپ کو کسی بابے کا ايڈريس لينے کی ضرورت نہيں پڑے گی۔ پهر وه چهوڻی چيز آپ کے اندر بڑا بابا بن کر سامنے آجائے گی اور آپ سے ہاته ملا کر آپ کی گائيڈ بن جائے گی اور آپ کو اس منزل پر يقيناً لے جائے گی، جہاں جانے کے آپ آرزومند ہيں۔ سو، ايک بار کبهی چهوڻی چيز سے آپ تجربہ کر کے ديکه ليں۔ کبهی کسی نالائق پڑوسی سے خوش ہونے کی کوشش کر کے ہی يا کسی بے وقوف آدمی سے خوش ہو کر يا کبهی اخبار ميں خوفناک خبر پڑه کر دعا مانگيں کہ يا لله! تو ايسی خبريں کم کر دے، تو آپ کا راستہ، آپ کا پهاڻک کهلنا شروع ہوگا اور مجهے آپ کے چہروں سے يہ ظاہر ہو رہا ہے کہ آپ يہ کوشش ضرور کريں گے۔لله آپ کو بہت خوش رکهے۔ بہت آسانياں عطا فرمائے اور آسانياں تقسيم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔ آمين

__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
  #20  
Old Sunday, October 30, 2011
Taimoor Gondal's Avatar
Senior Member
Medal of Appreciation: Awarded to appreciate member's contribution on forum. (Academic and professional achievements do not make you eligible for this medal) - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Jul 2010
Location: Mandi Bahauddin
Posts: 1,583
Thanks: 1,658
Thanked 2,188 Times in 1,060 Posts
Taimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant futureTaimoor Gondal has a brilliant future
Default

بابوں کا خیال ہے کے جب تک انسان کی اندر کی آلودگی دور نہیں ہوگی باہر کی آلودگی سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہے . جب تک کے انسان کے اندر کی معیشت ٹھیک نہیں ہوگی چاہے باہر سے جتنے بھی قرضے لیتے رہیں باہر کی معاشی حالت درست نہیں ہو سکتی اسی لئے اندر کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہئے ان بابوں کا یہ خیال تھا جو بڑا جائز خیال تھا کے ہماری بہت سی بیماریاں ہماری اندرونی آلودگی سے پیدا ہوتی ہیں

از اشفاق احمد زاویہ ٢ من کی آلودگی پیج ٢٣٠
__________________
Success is never achieved by the size of our brain but it is always achieved by the quality of our thoughts.
Reply With Quote
Reply


Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
CSS 2009 Result Last Island CSS 2009 Exam 118 Tuesday, June 15, 2010 02:15 AM
SPSC Result of CCE 2008 declared Azhar Hussain Memon SPSC (CCE) 27 Saturday, May 22, 2010 06:34 PM
CSS 2009 Qualifier list Saqib Riaz CSS 2009 Exam 14 Thursday, November 05, 2009 07:01 PM


CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.