Friday, March 29, 2024
01:54 AM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > CSS Optional subjects > Group V > Urdu Literature

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #1  
Old Tuesday, April 10, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Meer Taqi Meer:Fikr o Fun

میر تقی میر

محمد تقی المعروف مير تقّى مير ـ اردو كے عظیم شاعر تھے. اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايكـ منفرد شاعر تھے ـ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے ـ

ریختے كےتمہی استاد نہیں ہو غالب ـ
کہتے ہیں اگلے زمانے ميں كوئى مير بھی تھاـ


میر تقی میر تخلص ، آگر ہ میں 1723ءمیں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام محمد علی تھا لیکن علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ اور درویش گوشہ نشین تھے۔ میر نے ابتدائی تعلیم والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی۔ میر ابھی نو برس کے تھے کہ وہ چل بسے ان کے بعد ان کے والد نے تعلیم و تربیت شروع کی۔ مگر چند ہی ماہ بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہاں سے میر کی زندگی میں رنج و الم کے طویل باب کی ابتداءہوئی۔


ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے اچھا سلوک نہ کیا۔ تلاش معاش کی فکر میں دہلی پہنچے اور ایک نواب کے ہاں ملازم ہو گئے ۔ مگر جب نواب موصوف ایک جنگ میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے۔ لیکن گزر اوقات کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ چنانچہ دوبارہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنے خالو سراج الدین آرزو کے ہاں قیام پذیر ہوئے ۔ سوتیلے بھائی کے اکسانے پر خان آرزو نے بھی پریشان کرنا شروع کر دیا۔ کچھ غم دوراں کچھ غم جاناں ،سے جنوں کی کیفیت پیدا ہو گئی۔
میر کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ ہر طرف صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بالآخر میر گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے۔ اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد لکھنو پہنچے ۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ اور میر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ لیکن تند مزاجی کی وجہ سے کسی بات پر ناراض ہو کر دربار سے الگ ہو گئے۔ آخری تین سالوں میں جوان بیٹی او ر بیوی کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کر دیا۔ آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 1810ءمیں لکھنو کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔



میر تقی میر کے محاسنِ کلام
میرتقی میر کے نمایاں محاسنِ کلام درج ذیل ہیں
:
عہد کا ترجمان
میر کا عہد افراتفری اور طوائف الملوکی کا عہد تھا۔ اگر میر میں زمانے کی چوٹ کھانے اور زخم سہنے کی عادت نہ ہوتی تو زمانے کی بھیانک آندھی کے سامنے ان کی شخصیت اور شاعری کا چراغ گل ہوجاتا اس لئے میر کی رام کہانی اس عہد کی داستان معلوم ہوتی ہے۔ میر کی تنہائی پسندی اورخلوت نشینی انہیں اپنے عہد اور ماحول کی ترجمانی سے باز نہ رکھ سکی۔ اس عہد کی افراتفری، ذہنی انتشار، سکون کی تلاش، شرفاء کی پریشان حالی اور معاش کی قلت کی جیتی جاگتی تصویریں ہمیں ان کے کلام سے ملتی ہیں۔


میر کی دنیا میں عشق کی حکمرانی ہے جس میں ان کے خاندان کی تہذیب اور معاشرتی روایات کو بڑا دخل ہے ان کو شروع ہی سے عشق و محبت کی تعلیم دی گئی تھی


اگر چہ میر کی دنیا میں غم کی حکمرانی ہے۔ لیکن یہ غم نہ تو روایتی ہے اور تخیل کی پیداوار بلکہ داخلی اور خارجی زندگی کا حقیقی عطیہ ہے۔ اس غم میں استقامت، حوصلہ مندی، غیرت و حمیت بلندی اور وقار ہے۔ وہ غم میں ڈوب کر ابھرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے غم میں ایک سنبھلی ہوئی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ میر کا غم انفرادی ہی نہیں بلکہ آفاقی بھی ہے۔ اس سے انسان کی عظیم جدوجہد کا اندازہ ہوتا ہے۔ غم انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ انسانیت غم سے اور زیادہ سنورتی ہے یہ غم ہی ہے جس نے میر کی شاعری میں حسن، موسیقیت، معصومانہ تخیل اور روانی و تاثر پیدا کردیا ہے۔



جذبات کی قربانی
جب میر اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں تو ان کے اشعار میں حیرت انگیز سادگی پائی جاتی ہے۔ جب وہ اپنے احساسات اور تاثرات کو صفائی اور درد انگیزی کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو ان کے اشعار میں ایسا ترنم پیدا ہوتا ہے گویا ان کی روح موسیقی میں آبسی ہے وہ الفاظ میں ایسا جادو بھردیتے ہیں جس سے دل پر چوٹ سے لگتی ہے۔ میر نے اپنے غم انگیز وجدان سے ایک الگ دنیا تعمیر کی ہے جو اپنی عظمت اور رنگ روپ کے اعتبار سے بالکل نئی ہے۔ ان کی شاعری میں رمزیت بھی پائی جاتی ہے



خودداری
میر کی ایک اور خصوصیت ان کی غیرت اور خودداری ہے۔ وہ امراء اور روسا سے میل جول کو پسند نہ کرتے تھے کہ اس سے ان کی خودداری کو ٹھیس نہ لگے۔ وہ بے حد کم گو اور آزاد طبیعت واقع ہوئے تھے۔ مفلسی اور درویشی نے ان کی اعلی ظرفی کو اور بلند تر کردیا تھا ان کی خودداری کا ایک سبب تو طبعی تھا۔ دوسرے انہیں اپنی وضع کا بہت پاس تھا



تصوف و فلسفہ
میر تصوف کے نہیں تغزل کے شاعر ہیں لیکن اس دور کے رواج کے مطابق ان کی شاعری میں عارفانہ مضامین بھی ملتے ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری میں فلسفہ کا اثر بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ فلسفہ کوئی ٹھوس حقیقت نہیں ہے۔



مرقع نگاری
میر کے کلام میں حقیقت اور اصلیت بھرپور انداز میں ملتی ہے وہ ایک ایسے مصور ہیں کہ ان کے لفظی مرقعے ہماری آنکھوں کے سامنے جیتی جاگتی تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔ یہ مرقع نگاری داخلی اور خارجی اثرات دونوں کی ہے۔ ان میں جذباتِ انسانی بھی ہے اور مناظر قدرت بھی ہیں۔ ان کے کلام میں انفرادی اور اجتماعی شعور کا حسین امتزاج ملتا ہے۔



فارسی تراکیب اور تشبیہات
میر کو اسالیب بیان پر بڑی قدرت حاصل تھی انہوں نے اکثر فارسی تراکیب یا ان کے ترجموں کو انتہائی خوبصورتی سے اپنے کلام میں سمویا ہے۔ اسی طرح تشبیہیں اور استعارے جو ہر شاعری کی جان ہوتی ہیں اگر خوبصورتی سے برتے جائیں تو شعر کا حسن دوبالا کردیتے ہیں۔ میر نے ان کا استعمال بھی دلکش انداز میں کیا ہے
Source:
http://www.guesspapers.net/6160/%D9%...5%DB%8C%D8%B1/
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Tuesday, April 10, 2012), Mugheera (Sunday, April 15, 2012)
  #2  
Old Saturday, April 14, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default meer taqi meer

میر تقی میر غم کا شاعر


سودا تو اس زمین میں غزل در غزل لکھ
ہونا ہے تم کو میر سے استا د کی طرح


غالب اپنا یہ عقیدہ ہے بقول ناسخ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقد میر نہیں


نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا


شعر میرے بھی ہیں پردرد و لیکن حسرت
میر کا شیوہ گفتار کہاں سے لائوں


اللہ کرے میر کا جنت میں مکاں ہو
مرحوم نے ہر بات ہماری ہی بیاں کی
بقول عبدالحق،
” اُن کا ہر شعر ایک آنسو ہے اور ہر مصرع خون کی ایک بوند ہے۔“

ایک اور جگہ عبدالحق لکھتے ہیں،
انہوں نے سوز کے ساتھ جو نغمہ چھیڑا ہے اس کی مثال دنیائے اردو میں نہیں ملتی۔
ہر شاعر اپنے ماحول کی پیداوار ہوتا ہے۔ اس کے اردگرد رونما ہونے والے واقعات ، حادثات ،اس کی ذاتی زندگی میں پیش آنے والے تجربات اور اس سلسلے میں اس کے تاثرات ہی دراصل اس کی شاعری اور فن کے رخ کا تعین کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں ۔ ماحول اور معاشرے کی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ لاشعوری طور پر شاعر اپنی فکر کا رخ موڑتا چلا جاتا ہے اور یوں اس کی شاعری وقت کی رفتار کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔


مير تقی میر ایک ایسے عہد میں پیدا ہوئے جو سیاسی ، سماجی ، ملکی اور معاشی اعتبار سے سخت انتشار اور افراتفری کا دور تھا۔ مغل مرکز کمزور پڑ چکا تھا۔ ہندوستان کے بہت سے صوبے خود مختار ہو چکے تھے پورا ملک لوٹ ما ر کا شکار تھا۔ بیرونی حملہ آور آئے دن حملے کرتے تھے او ر عوام و خواص کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتے ۔ لوگ بھوکے مرنے لگے اور دولت لٹنے سے اقتصادی بدحالی کا دور شروع ہوا۔

میر اپنے اس دور کے احساس زوال اور انسانی الم کے مظہر ہیں۔ ان کی شاعری اس تما م شکست و ریخت کے خلاف ایک غیر منظم احتجاج ہے۔میر کے تصور غم کے بارے میں ڈاکٹر سید عبداللہ فرماتے ہیں کہ،
” میر کا سب سے بڑا مضمون شاعری ان کا غم ہے۔ غم و الم میر کے مضامین شاعری سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ یہ غم میر کا ذاتی غم بھی تھا اور یہی انسان کی ازلی اور ابدی تقدیر کا غم بھی تھا ۔ یہ سارے غم میر کی شاعری میں جمع ہوگئے ہیں۔
غم و حزن

میر کا تصور ،زندگی کے بارے میں بڑا واضح ہے کہ ان کا زندگی کی بارے میں نقطۂ نظر حزنیہ تھا۔ حزن ایک ایسے غم کا نام ہے جو اپنے اندر تفکر اورتخلیقی صلاحیتیں بھی رکھتا ہے۔ یہ غم ذاتی مقاصد اور ذاتی اغراض کا پرتو نہیں رکھتا۔ اس غم میں تو سوچ ، غور و فکر اور تفکر کو دخل ہے۔ میر کے متعلق یہ کہنا بھی درست نہیں کی میر قتوطی شاعر ہیں یا محض یاسیت کا شکار ہیں۔ محض یاس کا شاعر ہونا کوئی بڑی بات نہیں، اصل بات تو یہ ہے کی انسان یاس و غم کا شکار ہونے کے باوجود زندگی سے نباہ کیسے کرتا ہے۔ یہی نباہ اس کا تصور زندگی کی تشکیل دیتا ہے۔ میر کا تصور ِ زندگی مایوس کن نہیں صرف اس میں غم و الم کا ذکر بہت زیادہ ہے۔ مگر یہ غم و الم ہمیں زندگی سے نفرت نہیں سکھاتا بلکہ زندہ رہنے کا حوصلہ عطا کر تا ہے۔ اس میں زندگی کی بھرپور توانائی کا احساس ہوتا ہے۔
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب میں نے
درد و غم کتنے کئے جمع تو دیوا ن کیا


چشم رہتی ہے اب پر آب بہت
دل کو میر ے ہے اضطرا ب بہت


متصل روتے رہیے تو بجھے آتش دل
ایک دو اشک تو اور آگ لگا دیتے ہیں
میر کا تصور غم

میر کا تصور غم تخیلی اور فکری ہے۔ یہ قنوطیت پیدا نہیں کرتا ۔ اس کے ہوتے ہوئے میر کی شاعری میں توازن اور ٹھہرائو نظر آتا ہے۔ شکستگی کا احساس نہیں ہوتا اور ضبط ، سنجیدگی اور تحمل ملتا ہے۔ وہ غم سے سرشار ہو کر اسے سرور اور نشاط بنا دیتے ہیں۔ مجنوں گورکھپوری ان کے تصورات غم سے بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
” میر نے غم عشق اور اس کے ساتھ غم زندگی کو ہمارے لیے راحت بنا دیا ہے۔ وہ درد کو ایک سرور اور الم کو ایک نشاط بنا دیتے ہیں۔ میر کے کلام کے مطالعہ سے ہمارے جذبات و خیالات اور ہمارے احساسات و نظریات میں وہ ضبط اور سنجیدگی پیدا ہوتی ہے۔ جس کو صحیح معنوں میں تحمل کہتے ہیں۔
ہر صبح غموں میں شام کی ہے میں
خونبابہ کشی مدام کی ہے میں نے


یہ مہلت کم کہ جس کو کہتے ہیں عمر
مر مر کے غرض تمام کی ہے میں نے
میر کی دردمندی

میر کے ہاں درمندی ان کے فلسفہ غم کا دوسرا نام ہے۔ اگرچہ لفظ فلسفہ انہوں نے استعمال ہی نہیں کیا، مگر اس سے مراد ان کی یہی ہے۔ دردمندی سے مراد زندگی کی تلخ حقیقتوں کا اعتراف و ادراک اور مقدور بھر ان تلخیوں کو دور کرنے کی کوشش کا نام ہے۔ یہ درمندی ان کی زندگی کے تضادات سے جنم لیتی ہیں۔ درمندی کا سرچشمہ دل ہے۔ میر کے یہ اشعار ذہن میں رکھیے:
آبلے کی طرح ٹھےس لگی پھوٹ بہے
درمندی میں کٹی ساری جوانی اپنی


نہ درد مندی سے یہ راہ تم چلے ورنہ
قدم قدم پہ تھی یاں جائے نالہ و فریاد


چشم رہتی ہے اب پرُ آب بہت
دل کو میرے ہے اضطراب بہت
دردمندی کے محرکات

میر کا دور شدید ابتری کا دور تھا ۔ زندگی کے مختلف دائروں کی اقدار کی بے آبروئی ہو رہی تھی۔ انسانی خون کی ارزانی ، دنیا کی بے ثباتی اور ہمہ گیرانسانی تباہی نے انسانوں کو بے حد متاثر کیا۔ میر اس تباہی کے محض تماشائی نہ تھے بلکہ وہ خود اس تباہ حال معاشرہ کے ایک رکن تھے۔ جو صدیوں کے لگے بندھے نظام کی بردبادی سے تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر کر رہ گیا تھا۔ اوراب اس کو جوڑنا ممکن نہ رہا تھا۔ میر نے اس ماحول کے اثرات شدت سے محسوس کیے ہیں۔ ان کی غزلوں میں اس تباہی کے نقوش ملتے ہیں۔ لٹے ہوئے نگروں ، شہروں اور اجڑی ہوئی بستیوں کے حالات ، بجھے ہوئے دلوں کی تصویریں، زمانے کے گرد و غبار کی دھنڈلاہٹیں ،تشبیہوں اور استعاروں کی شکل میں میر کے ہاں موجود ہیں۔
روشن ہے اس طرح دل ِ ویراں میں داغ ایک
اُجڑے نگر میں جیسے جلے ہے چراغ ایک


پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے


دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
بلند حوصلگی

بقول ڈاکٹر سید عبداللہ:
” میر کو زندگی سے بیزار شاعر نہیں کہا جاسکتا ۔ ان کا غم بعد میں آنے والے شاعر ، فانی کے غم سے مختلف ہے جس کی تان ہمیشہ موت پرٹوٹتی ہے۔ ان کا غم سودا سے بھی مختلف ہے۔ ان کا غم ایک مہذب اوردرمند آدمی کا غم ہو جو زندگی کے تضاد کو گہرے طور سے محسوس کرتا ہے کہ ایسی دلکش جگہ اور اتنی بے بنیاد اور محروم۔
غم و الم کے اس عالم میں میر بے حوصلہ نہیں ہوتے ۔ وہ سپاہیانہ دم خم رکھتے ہیں۔ فوجی سازو سامان کے استعاروں میں مطلب ادا کرکے زندگی کا ایسا احساس دلاتے ہیں جس میں بزدلی بہرحال عیب ہے۔ وہ رویہ جسے اہل تذکرہ بے دماغی یا بد دماغی کہتے ہیں وہ دراصل وہ احتجاجی روش ہے جو ہر سپاہی کا شیوہ ہے۔
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میر معلوم ہے قلندر تھا


بہت آرزو تھی گلی کی تیری
سو یاں سے لہو میں نہا کر چلے


حوصلہ شرط عشق ہے ورنہ
بات کا کس کو ڈھب نہیں آت
دنیا کی بے ثباتی

بے ثباتی دنیا کا احساس اردو شاعری میں بہت عام ہے۔ اس موضوع پر تقریباً سبھی شعراءنے طبع آزمائی کی ہے۔ لیکن دبستان دہلی کے شعراءکے ہاں بے ثباتی کا احساس زیادہ گہرا نظرآتا ہے۔ خصوصاً میرتقی میر کی تمام شاعری میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر بڑے واضح الفاظ میں ملتا ہے۔ جس کی اصل وجہ اُس دور کے غیر یقینی اور ہنگامی حالات تھے ۔ جس کی وجہ سے اُن کی شاعری مےں دنیا سے بے زاری اور بے ثباتی کے موضوعات پروان چڑھے۔
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا


غور کرکے وہیں بحر غم میں بیٹھ گیا
کہے تو میر اک بلبلا تھا پانی ک
دلی کی بربادی کا غم

بقول ڈاکٹر غلام حسن:
” شاعروں نے دل کے استعارے میں اس عہد کے سیاسی اور سماجی احوال کو سمو کر بڑے بلیغ کنائے سے کام لیا ہے۔ جس طرح انسانی جسم کی ساری نقل و حرکت کا مرکزو محور دل ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک سلطنت کا مرکز و محور اس کا دارالحکومت ہوتا ہے۔ زیر نظر دور میں ہندوستان کا مرکز سلطنت شہر دلی تھا ۔ دلی جو صدیوں سے اس ملک کے دل کی حیثیت اختیار کر چکاتھا۔۔۔۔دلی کی تباہی کو شاعروں نے کنایتاً دل کی ویرانی و بربادی سے تشبیہ دے کر سارے جسم یعنی کل ملک کی تباہی کی داستان بیان کی ہے۔



میر نے دوسرے شعراءکی طرح یہ تمام خونی واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ میر کی شاعری پر خون کے یہ دھبے آج تک نمایاں ہیں۔
دلی کے نہ تھے کوچے اوراق مصور تھے
جو شکل نظر آئی تصویر نظرآئی


خاک بھی سر پر ڈالنے کو نہیں
کس خرابے میں ہم ہوئے آباد


دلی میں آج بھیک بھی ملتی نہیں انہیں
تھا کل تلک دماغ جنہیں تاج و تخت کا
سادگی، خلوص، صداقت

میر نے فنی خلوص کو پوری صداقت سے استعمال کیا ہے۔ فنی خلوص سے یہ مراد ہے کہ شاعر زندگی کے واقعات کو جس طرح دیکھتا ہے ، اسی طرح بیان کرے ۔ میر کا انداز اسی لیے مقبول ہے کہ اس میں صداقت اور خلوص او ر تمام باتیں بے تکلفی کے انداز میں کہی گئی ہیں۔ میر نے خیال بند شاعر وں کی سی معنی آفرینی سے کام نہیں لیا۔ محض تخیل کے گھوڑ ے نہیں دوڑائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میر عوام کا شاعر ہے۔ اس کے آس پاس کی زندگی سے درد و غم کے مضامین کے چشمے ابل رہے تھے۔ میر نے انہی مضامین کو سادہ الفاظ میں بے تکلف انداز میں پیش کیا۔ میرکے خلوص وصداقت کا اندازہ ان اشعار سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
قدر رکھتی نہ تھی متاع دل
سارے عالم کو میں دکھا لایا


دل مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا


ابتداءہی میں مرگئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
خطابیہ انداز

میر کو خطاب اور گفتگو کا انداز بڑا پسند ہے۔ کبھی وہ خود سے مخاطب ہو کر ”باتیں “ کرتے ہیں اور کبھی کسی دوسرے شخص سے۔ کبھی ان کا تخاطب بلبل سے ہے اور کبھی شمع و پروانہ سے۔ ان تمام حالتوں میں شعر میں بات چیت اور بے تکلفی کا رنگ بہر حال قائم رہتا ہے۔ ایک مانوس اور محبت بھری آواز کانوں سے ٹکراتی ہے جو اپنے پیرایہ ادا کی کشش سے قاری یا سامع کو فوراً اپنے حلقہ اثر میں لے لیتی ہے اور وہ خود بخود میر صاحب کی ان بے ساختہ اور پر خلوص ”باتوں“ سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے۔
چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم بادو باراں ہے


میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے

بارے دنیا میں رہو غمزدہ یا شاد رہو
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد ر

ہو
میر کا طنز:۔

میر کا طنز ان کی طبیعت کا آئینہ ہے ۔ جب کوئی بات طنز کے ساتھ کہتے ہیں تو اس سے محض بے تکلفی نہیں ٹپکتی بلکہ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس عالم یا اس تجربہ سے گزر چکے ہیں۔ ان کا طنز اس شدید اور عمیق تعلق کا نتیجہ ہے جو بے تکلفی کے بعد ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر عمر بھر قائم رہتا ہے۔ ان کے طنز میں ایک مدہم سی تلخی ہوتی ہے جو پختہ مغزی کی علامت ہوتی ہے۔ ان کے طنز میں غالب کی تیزی کی جگہ ایک عجب پرکیف نرمی ہوتی ہے۔
ہوگا کسو دیوار کے سائے تلے میں میر
کیا کام محبت سے اس آرام طلب کو


عشق کرتے ہیں اس پری رو سے
میر صاحب بھی کیا دوانے ہیں


حال بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہربانی ہے
تشبیہات و استعارات:۔

میر نے اپنے شیوہ گفتار کو زیادہ موثر اور دلکش بنانے کے لئے تشبیہ و استعارے کا بڑے سلیقے سے استعمال کیا ہے۔یہ تشبیہات مردہ نہیں بلکہ ان کے اندر زندگی دوڑتی ہوئی نظرآتی ہے۔ اس لیے کہ ان کے خالق کے خون میں گرمی اور حرارت ہے اور وہ پوری صداقت اور پورے فنی خلوص سے اپنی زندگی بھر کے تجربات و تاثرات کو ان تشبیہات و استعارات کی صورت میں پیش کررہا ہے۔ ان میں کہیں بھی تصنع یا بناوٹ کا احساس نہیں ہوپاتا۔
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا


نازکی اس کی لب کی کیا کہیے
پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے


کھلنا کم کم کلی نے سےکھا ہے
اُس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
ترنم اور موسیقیت:۔

میر کے شاعرانہ انداز کی غنائیت اور موسیقیت اپنے اندر فنی دلکشی کے بہت سے پہلو رکھتی ہے۔ میر کے اندازکی نغمگی اور ترنم مسلم ہے۔ اور یہی میر کی عظمت کا راز ہے۔ان کا کمال فن یہ ہے کہ وہ مختلف خیالات کے اظہار کے لیے مختلف بحروں کا انتخاب کرکے نغمگی پیدا کرتے ہیں۔ فارسی مروجہ بحروں کے استعمال کے ساتھ ساتھ میر نے ہندی کے پنگل کو اردو غزل کے مزاج کا حصہ بنا کر ہم آہنگی کی صورت دینے کی کوشش کی ہے۔ ا س کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کی شاعری میں بڑی کیف آور اور اثر انگیز غنائیت و موسیقی پیدا ہوتی ہے۔
پتا پتا ، بوٹا بوٹاحال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے


چلتے ہو تو چمن کو چلیے سنتے ہیں کہ بہاراں ہے
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
تصوف :۔

میر کی شاعری کے فکری عناصر میں متصوفانہ رنگ خاص طور پرقابل ذکر ہے۔ ان کے باپ اور چچا صوفیانہ مزاج کے مالک تھے اور رات دن جذب و مستی کی کیفیات میں سرشار رہتے تھے۔ میر نے ان بزرگوں کی آنکھیں دیکھی تھیں ۔ وہ بھلا کس طرح صوفیانہ تجربہ سے الگ رہ سکتے تھے۔ ان کے ہاں تصوف کا تجربہ محض روایتی نہیں ہے یہ رسمی بھی نہیں ہے، اس تجربے نے میر کے زہن و فکر کی تہذیب پر گہرے اثرات مرتسم کیے ہیں۔ وہ زندگی کو کسی عام انسان کی طرح نہیں دیکھتے ، ان کی نظر صاف دل صوفی کی نظر ہے۔
موت اک ماندگی کا وقفہ ہے
یعنی آگے چلیں گے دم لے کر


سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
حکیمانہ انداز :۔

عام اخلاقی مضامین بھی ہمارے تصوف کے اہم مسائل ہیں۔ یہ لوگ نیکی ، شرافت ، دیانت ،صدق و امانت اور دیگر چھوٹے چھوٹے اخلاقی مسائل پر اس انداز سے گفتگو کرتے ہیں کہ ایک طر ف تو ان مسائل کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے اور دوسرے ان کا انداز اس قدر دلنشین ہوتا ہے کہ قاری پر اثر بھی پڑتا ہے۔میر تقی میر کی شاعری میں حکیمانہ انداز پایا جاتاہے جو قاری کو سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ مثلاً
یہ تو ہم کا کارخانہ ہے
یاں وہی ہے جو اعتبار کیا


سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
تصور محبوب

یہ بات تو طے ہے کہ میر نے ایک گوشت پوست کے زندہ و متحرک محبوب سے عشق نہیں ، بھرپور عشق کیا تھا۔ اور محبوب سے ان کے احساسِ جمال ، قوتِ تخیل او ر تصو ر حسن پر روشنی پڑتی ہے۔ ان کا محبوب خود حسن و نور کا منبع ہے اور روشنی کی طرح شفاف۔ میر کا محبوب صرف روشنی ہی نہیں بلکہ جسم، خوشبواور رنگ و بو کا پیکر بھی ہے۔ وہ مادی کثافتوں سے منزہ اور حسن محض ہے۔
ان گل رخوں کی قامت لہکے ہے یوں ہوا میں
جس رنگ سے لچکتی پھولوں کی ڈالیاں ہیں


کھلنا کم کم کلی نے سیکھا ہے
اس کی آنکھوں کی نیم خوابی سے
تصور عشق:۔

میر کے ہاں عشق آداب سکھاتا ہے ۔ محبوب کی عزت و تکریم کا درس دیتا ہے۔ اگرچہ اس کا انجام ہمیشہ المیاتی اور دردناک ہوتا ہے پھر بھی میر کو اس عشق سے پیار ہے۔ یہ عشق ان کی زندگی کا حاصل ہے۔ اسی عشق سے میر نے زندگی کا سلیقہ اورحوصلہ سیکھا ہے۔ اسی عشق نے ان کی زندگی میں حرکت و عمل اور چہل پہل پیدا کی۔میر کے خیال میں زندگی کی ساری گہما گہمی اور گونا گونی اسی عشق کی وجہ سے ہے۔ اگر عشق نہ ہوتا تو یہ کار خانہ قدرت بے کار ، خاموش ، بے حرکت اور بے لذت ہوتا۔تصور عشق کے حوالے سے ان کے نمائندہ اشعار درج ذیل ہیں۔
دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا


محبت ہی اس کارخانے میں ہے
محبت سے سب کچھ زمانے میں ہے


ہم طور ِ عشق سے واقف نہیں ہیں لیکن
سینے میں جسے دل کو کوئی ملا کرے ہے
سہلِ ممتنع :۔

میر کی سہل ممتنع کے بارے میں اثر لکھنوی کہتے ہیں کہ
” زندگی کا شائد ہی کوئی پہلو ہو جس کی مصوری میر نے بہترین الفاظ میں اور موثر ترین پیرائے میں نہ کی ہو ان کے اشعار سہل ممتنع ہیں۔
سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہا ن دیگر تھا


سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا


سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
احساس برتری:۔

میر کی شاعری کا ایک مخصوص رنگ ہے اور انداز شعر گوئی کی کیفیات ہیں جس نے تما م شاعروں کو بے حد متاثر کیا اور سارے شاعروں نے اس رنگ میں شعر کہنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکے ۔ اس لئے میر احساس برتری کو سامنے لاتے ہوئے کہتے ہیں کہ
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا


گفتگو ریختی میں ہم سے نہ کر
یہ ہماری زبان ہے پیارے


پڑھتے پھریں گے گلیوں میں ان ریختوں کو لوگ
مدت رہیں گی یاد یہ باتیں ہماریاں
بقول سید عبداللہ ،
” بعض صاحب کمال ایسے ہوتے ہیں جن کے فن کی نمایاں خصوصیت نہ صرف اپنے دور کو متاثر کرتی ہے بلکہ مستقبل میں بھی لوگ ان کی طرز خاص کو مانتے ہیں میر بھی ایسے ہی صاحب کمال ہیں۔
مجموعی جائزہ:۔

مولوی عبدالحق فرماتے ہیں کہ
” میر تقی میر سرتاج شعرائے اردو ہیں ان کا کلام اسی ذوق و شوق سے پڑھا جائے گا جیسے سعدی کا کلام فارسی میں، اگر دنیا کے ایسے شاعروں کی ایک فہرست تیار کی جائے جن کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا تو میر کا نام اس فہرست میںضرور داخل ہوگا۔

بقول رشیداحمد صدیقی،

” غزل شاعری کی آبرو ہے اور میر غزل کے بادشاہ ہیں۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں،
”میر کی بات دل سے نکلتی ہے اور سامع کے دل میں جگہ کر لیتی ہے۔

اک بات کہیں گے انشاءتمہیں ریختہ کہتے عمر ہوئی
تم لاکھ جہان کا علم پڑھے کوئی میرسا شعر کہا تم نے
Source: Wikipedia
Reply With Quote
The Following 3 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
fiza mehar (Thursday, April 19, 2012), Mugheera (Sunday, April 15, 2012), usama mir (Wednesday, October 04, 2017)
Reply

Tags
meer ka tasawur e gham, meer taqi meer, urdu classical shaair

Thread Tools Search this Thread
Search this Thread:

Advanced Search

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
Important urdu mcqs for lecturers naveed143smile PPSC Lecturer Jobs 0 Thursday, September 29, 2011 08:50 AM
Meer Taki Meer's Poetry .. Stunner Urdu Poetry 9 Sunday, February 27, 2011 12:57 PM
mir taqi mir HUMERA Urdu Literature 0 Friday, November 20, 2009 11:41 PM
Meer Taqi Meer Sureshlasi Urdu Poetry 0 Saturday, August 25, 2007 11:45 AM


CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.