Wednesday, April 24, 2024
02:41 PM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > CSS Optional subjects > Group IV > Islamic History & Culture

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #1  
Old Friday, March 25, 2011
mariashamshad's Avatar
Senior Member
 
Join Date: May 2010
Location: god,s earth
Posts: 207
Thanks: 94
Thanked 144 Times in 108 Posts
mariashamshad will become famous soon enough
Default share the history of famous peoples

im starting a new thread where we will post history of famous people which can also help in islamic and indo pak history.plz all of u share also.
__________________
Mere fana honay mei meri fana ka fana hona ha
Ar meine apni fanaa mei ae khuda tujhy payaa...!
Reply With Quote
  #2  
Old Friday, March 25, 2011
mariashamshad's Avatar
Senior Member
 
Join Date: May 2010
Location: god,s earth
Posts: 207
Thanks: 94
Thanked 144 Times in 108 Posts
mariashamshad will become famous soon enough
Default noor,u,din zangi

نور الدین زنگی سلطنت کے بانی عماد الدین زنگی کا بیٹا تھے جنہوں نے

تاریخ میں بڑا نام پیدا کیا۔ نور الدین فروری 1118ء میں پیدا ھوے اور 1146ء سے 1174ء تک 28سال حکومت کی--۔

فتوحات و کارنامے

اس نے عیسائیوں سے بیت المقدس واپس لینے کے لئے پہلے ایک مضبوط حکومت قائم کرنے کی کوشش کی اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے گرد و نواح کی چھوٹی چھوٹی مسلمان حکومتوں کو ختم کرکے ان کواپنی مملکت میں شامل کرلیا۔ شروع میں نورالدین کا دارالحکومت حلب تھا۔ 549ھ میں انہوں نے نے دمشق پر قبضہ کرکے اسے دارالحکومت قرار دیا۔ انہوں نے صلیبی ریاست انطاکیہ پر حملے کرکے کئی قلعوں پرقبضہ کرلیا اور بعد ازاں ریاست ایڈیسا پر مسلمانوں کا قبضہ ختم کرنے کے لئے عیسائیوں کی کوشش کو بھی ناکام بنادیا۔ دوسری صلیبی جنگ کے دوران دمشق پر قبضہ کرنے کی کوششیں بھی سیف الدین غازی اور معین الدین کی مدد سے ناکام بنادیں اور بیت المقدس سے عیسائیوں کو نکالنے کی راہ ھموار کردی۔

دوسری صلیبی جنگ میں فتح کی بدولت ھی مسلمان تیسری صلیبی جنگ میں فتحیاب ھوکر بیت المقدس واپس لینے میں کامیاب ہوئے۔ اس زمانے میں مصر میں فاطمی حکومت قائم تھی لیکن اب وہ بالکل کمزور ھوگئی تھی اور مصر چونکہ فلسطین سے ملا ہوا تھا اس لئے عیسائی اس پرقبضہ کرناچاہتے تھی۔ یہ دیکھ کر نور الدین نے ایک فوج بھیج کر 564ء میں مصر پر بھی قبضہ کرلیا اور فاطمی حکومت کاخاتمہ کردیا۔


انتقال

مصر پر قبضہ کرنے کے بعد نور الدین نے بیت المقدس پر حملہ کرنے کی تیاریاں شروع کردیں۔ بیت المقدس کی مسجد عمر میں رکھنے کے لئے اس نے اعلیٰ درجے کا منبر تیار کروایا۔ اس کی خواھش تھی کہ فتح بیت المقدس کے بعد وہ اس منبر کو اپنے ھاتھوں سے رکھے گے لیکن خدا کو یہ منظور نہ تھا۔ نورالدین ابھی حملے کی تیاریاں ھی کررھے تھے کہ 15 مئی 1174ء کو اس کا انتقال ھوگیا۔ انتقال کے وقت نورالدین کی عمر 58سال تھی


کردار
نور الدین بہادری میں اپنے باپ کی طرح تھے۔ ایک مرتبہ جنگ میں اسے دشمنوں کی صف میں بار بار گھستے دیکھ کر اس کے ایک مصاحب قطب الدین نے کہا : ”اے ھمارے بادشاہ! اپنے آپ کو امتحان میں نہ ڈالئے اگر آپ مارے گئے تو دشمن اس ملک کو فتح کرلین گے اور مسلمانوں کی حالت تباہ ھوجائے گی“۔ نور الدین نے یہ بات سنی تو اس پر بہت ناراض ہوے اور کہا : ”قطب الدین! زبان کو روکو، تم اللہ کے حضور گستاخی کررھے ھو۔ مجھ سے پہلے اس دین اور ملک کا محافظ اللہ کے سوا کون تھا؟ “۔ نور الدین نے شریعت کی خود پابندی کی اور اپنے ساتھیوں کو بھی پابند بنایا۔ انہیں دیکھ کر دوسروں نے تقلید کی جس کی وجہ سے عوام میں اسلام پر عمل کرنے جذبہ پیدا ہوگیا اور لوگ خلاف شرع کاموں کے ذکر سے بھی شرمانے لگی

.رفاہ عامہ اور فلاحی کام
نور الدین صرف ایک فاتح نہیں تھے بلکہ ایک شفیق حکمران اور علم پرور بادشاہ تھے۔ اس نے سلطن میں مدرسوں اور ھسپتالوں کا جال بچھادیا۔ اس کے انصاف کے قصے دور دور تک مشہور تھی۔ وہ بڑی سادہ زندگی گذارتے تھے، بیت المال کا روپیہ کبھی ذاتی خرچ میں نہیں لایا۔ مال غنیمت سے اس نے چند دکانیں خرید لیں تھیں جن کے کرائے سے وہ اپنا خرچ پورا کرتے تھے۔ اس نے اپنے لئے بڑے بڑے محل تعمیر نہیں کئے بلکہ بیت المال کا روپیہ مدرسوں، شفاخانوں اور مسافر خانوں کے قائم کرنے اور رفاہ عامہ کے دیگر کاموں میں صرف کرتے۔ دمشق میں نہوں نے ایک شاندار شفاخانہ قائم کیا تھا جس کی دنیامیں مثال نہ تھی۔ اس میں مریضوں کو دوا بھی مفت دی جاتی تھی اور کھانے اور رھنے کاخرچ بھی حکومت کی طرف سے ادا کیا جاتا تھا۔ نور الدین نے تمام ناجائز ٹیکس موقوف کردیئے تھے ۔وہ مظلوموں کی شکایت خود سنتے اور اس کی تفتیش کرتے تھے۔ نور الدین کی ان خوبیوں اور کارناموں کی وجہ سے اس زمانے کے ایک مورخ ابن اثیر نے لکھا ہے کہ: ”میں نے اسلامی عہد کے حکمرانوں سے لے کر اس وقت تک کے تمام بادشاہوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا لیکن خلفائے راشدین اور عمر بن عبدالعزیز کے سوا نور الدین سے زیادہ بہتر فرمانروا میری نظر سے نہیں گذرا
__________________
Mere fana honay mei meri fana ka fana hona ha
Ar meine apni fanaa mei ae khuda tujhy payaa...!
Reply With Quote
  #3  
Old Friday, March 25, 2011
mariashamshad's Avatar
Senior Member
 
Join Date: May 2010
Location: god,s earth
Posts: 207
Thanks: 94
Thanked 144 Times in 108 Posts
mariashamshad will become famous soon enough
Default sultan sallah,u,din

سلطان صلاح الدین ایوبی

Pakistan History

سلطان صلاح الدین ایوبی سلطنت کے بانی تھے۔ وہ نہ صرف تاریخ اسلام بلکہ تاریخ عالم کے مشہور ترین فاتحین و حکمرانوں میں سے ایک ہیں ۔ وہ 1138ء میں موجودہ عراق کے شہر تکریت میں پیدا ہوئے۔ ان کی زیر قیادت ایوبی سلطنت نے مصر، شام، یمن، عراق، حجاز اور دیار باکر پر حکومت کی۔ صلاح الدین ایوبی کو بہادری، فیاضی، حسن خلق، سخاوت اور بردباری کے باعث نہ صرف مسلمان بلکہ عیسائی بھی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ صلاح الدین کو فاتح بیت المقدس کہا جاتا ہے جنہوں نے 1187ء میں یورپ کی متحدہ افواج کو عبرتناک شکست دے کر بیت المقدس ان سے آزاد کروا لیا



ابتدائی دور
سلطان صلاح الدین نسلاً کرد تھے اور 1138ء میں کردستان کے اس حصے میں پیدا ہوۓ جو اب عراق میں شامل ہے ۔ شروع میں وہ سلطان نور الدین زنگی کے یہاں ایک فوجی افسر تھے۔ مصر کو فتح کرنے والی فوج میں صلاح الدین بھی موجود تھے اور اس کے سپہ سالار شیر کوہ صلاح الدین کے چچا تھے۔ مصر فتح ہو جانے کے بعد صلاح الدین کو 564ھ میں مصر کا حاکم مقرر کردیا گیا۔ اسی زمانے میں 569ھ میں انہوں نے یمن بھی فتح کرلیا۔ نور الدین زنگی کے انتقال کے بعد چونکہ اس کی کوئی لائق اولاد نہیں تھی اس لئے صلاح الدین حکمرانی پر فائز ہوۓ



ترمیمکارنامے
صلاح الدین اپنے کارناموں میں نور الدین پر بھی بازی لے گیے۔ اس میں جہاد کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور بیت المقدس کی فتح اس کی سب سے بڑی خواہش تھی۔۔

مصر کے بعد صلاح الدین نے 1182ء تک شام، موصل، حلب وغیرہ فتح کرکے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے۔ اس دوران صلیبی سردار رینالڈ کے ساتھ چار سالہ معاہدہ صلح ہو چکا تھا جس کی رو سے دونوں ایک دوسرے کی مدد کرنے کے پابند تھے لیکن یہ معاہدہ محض کاغذی اور رسمی تھا۔ صلیبی بدستور اپنی اشتعال انگیزیوں میں مصروف تھے اور مسلمانوں کے قافلوں کو برابر لوٹ رہے تھے۔



جنگ حطین


صلاح الدین ایوبی کی قائم کردہ ایوبی سلطنت1190ء سرخ رنگ میں

ء 1186میں عیسائیوں*کے ایک ایسے ہی حملے میں رینالڈ نے یہ جسارت کی کہ بہت سے دیگر عیسائی امرا کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کی غرض سے حجاز مقدس پر حملہ آور ہوا۔ صلاح الدین ایوبی نے ان کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کیے اور فوراً رینالڈ کا تعاقب کرتے ہوئے حطین میں اسے جالیا۔ سلطان نے یہیں دشمن کے لشکر پر ایک ایسا آتش گیر مادہ ڈلوایا جس سے زمین پر آگ بھڑک اٹھی۔ چنانچہ اس آتشیں ماحول میں 1187ء کو حطین کے مقام پر تاریخ کی خوف ناک ترین جنگ کا آغاز ہوا ۔ اس جنگ کے نتیجہ میں تیس ہزار عیسائی ہلاک ہوئے اور اتنے ہی قیدی بنا لیے گئے۔ رینالڈ گرفتار ہوا اور سلطان نے اپنے ہاتھ سے اس کا سر قلم کیا۔ اس جنگ کے بعد اسلامی افواج عیسائی علاقوں پر چھا گئیں۔



فتح بیت المقدس

حطین کی فتح کے بعد صلاح الدین نے بیت المقدس کی طرف رخ کیا ایک ہفتہ تک خونریز جنگ کے بعد عیسائیوں نے ہتھیار ڈال دیے اور رحم کی درخواست کی۔ بیت المقدس پورے 91 سال بعد دوبارہ مسلمانوں کے قبضہ میں آیا اور تمام فلسطین سے مسیحی حکومت کا خاتمہ ہوگیا۔ بیت المقدس کی فتح صلاح الدین ایوبی کا عظیم الشان کارنامہ تھا۔ اس نے مسجد اقصٰی میں داخل ہوکر نور الدین کا تیار کردہ منبر اپنے ہاتھ سے مسجد میں رکھا۔ اس طرح نور الدین کی خواہش اس کے ہاتھوں پوری ہوئی۔۔۔

صلاح الدین نے بیت المقدس میں داخل ہوکر وہ مظالم نہیں کئے جو اس شہر پر قبضے کے وقت عیسائی افواج نے کئے تھے ۔ صلاح الدین ایک مثالی فاتح کی حیثیت سے بیت المقدس میں داخل ہوا۔ اس نے زر فدیہ لے کر ہر عیسائی کو امان دے دی اور جو غریب فدیہ نہیں ادا کر سکے ان کے فدیے کی رقم صلاح الدین اور اس کے بھائی ملک عادل نے خود ادا کی۔۔
بیت المقدس پر قبضہ کے ساتھ یروشلم کی وہ مسیحی حکومت بھی ختم ہوگئی جو فلسطین میں ء 1099سے قائم تھی۔ اس کے بعد جلد ہی سارا فلسطین مسلمانوں کے قبضے میں آگیا۔۔
بیت المقدس پر تقریباً 761 سال مسلسل مسلمانوں کا قبضہ رہا۔ تاآنکہ 1948ء میں امریکہ ، برطانیہ، فرانس کی سازش سے فلسطین کے علاقہ میں یہودی سلطنت قائم کی گئی اور بیت المقدس کا نصف حصہ یہودیوں کے قبضے میں چلا گیا۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں بیت المقدس پر اسرائیلیوں نے قبضہ کرلیا

تیسری صلیبی جنگ

جب بیت المقدس پر قبضے کی خبر یورپ پہنچی تو سارے یورپ میں کہرام مچ گیا۔ ہر طرف لڑائی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ جرمنی، اٹلی، فرانس اور انگلستان سے فوجوں پر فوجیں فلسطین روانہ ہونے لگیں۔ انگلستان کا بادشاہ رچرڈ جو اپنی بہادری کی وجہ سے شیر دل مشہور تھا اور فرانس کا بادشاہ فلپ آگسٹس اپنی اپنی فوجیں لے کر فلسطین پہنچے ۔ یورپ کی اس متحدہ فوج کی تعداد چھے لاکھ تھی جرمنی کا بادشاہ فریڈرک باربروسا بھی اس مہم میں ان کے ساتھ تھا۔۔
عیسائی دنیا نے اس قدر لاتعداد فوج ابھی تک فراہم نہ کی تھی۔ یہ عظیم الشان لشکر یورپ سے روانہ ہوا اور عکہ کی بندرگاہ کا محاصرہ کر لیا اگرچہ سلطان صلاح الدین نے تن تنہا عکہ کی حفاظت کے تمام انتظامات مکمل کر لیے تھے لیکن صلیبیوں کو یورپ سے مسلسل کمک پہنچ رہی تھی۔ ایک معرکے میں دس ہزار عیسائی قتل ہوئے مگر صلیبیوں نے محاصرہ جاری رکھا لیکن چونکہ کسی اور اسلامی ملک نے سلطان کی طرف دست تعاون نہ بڑھایا اس لیے صلیبی ناکہ بندی کی وجہ سے اہل شہر اور سلطان کا تعلق ٹوٹ گیا اور سلطان باوجود پوری کوشش کے مسلمانوں کو کمک نہ پہنچا سکا۔ تنگ آکر اہل شہر نے امان کے وعدہ پر شہر کو عیسائیوں کے حوالہ کر دینے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین کے درمیان معاہدہ طے ہوا کہ جس کے مطابق مسلمانوں نے دو لاکھ اشرفیاں بطور تاوان جنگ ادا کرنے کا وعدہ کیا اور صلیب اعظم اور 500 عیسائی قیدیوں کی واپسی کی شرائط طے کرتے ہوئے مسلمانوں نے ہتھیار ڈال دیے۔ مسلمانوں کو اجازت دے دی گئی ۔ وہ تمام مال اسباب لے کر شہر سے نکل جائیں لیکن رچرڈ نے بدعہدی کی اور محصورین کو قتل کر دیا۔
عکہ کے بعد صلیبیوں نے فلسطین کی بندرگاہ عسقلان کا رخ کیا۔ عسقلان پہنچنے تک عیسائیوں کا سلطان کے ساتھ گیارہ بارہ بار مقابلہ ہوا سب سے اہم معرکہ ارسوف کا تھا۔ سلطان نے جواں مردی اور بہادری کی درخشندہ مثالیں پیش کیں لیکن چونکہ کسی بھی مسلمان حکومت بالخصوص خلیفہ بغداد کی طرف سے کوئی مدد نہ پہنچی۔ لہذا سلطان کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ واپسی پر سلطان نے عسقلان کا شہر خود ہی تباہ کر دیا۔ اور جب صلیبی وہاں پہنچے تو انہیں اینٹوں کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوا۔ اس دوران سلطان نے بیت المقدس کی حفاظت کی تیاریاں مکمل کیں کیونکہ اب صلیبیوں کا نشانہ بیت المقدس تھا۔ سلطان نے اپنی مختصر سی فوج کے ساتھ اس قدر عظیم لاؤ لشکر کا بڑی جرات اور حوصلہ سے مقابلہ کیا۔ جب فتح کی کوئی امید باقی نہ رہی تو صلیبیوں نے صلح کی درخواست کی۔ فریقین میں معاہدہ صلح ہوا۔ جس کی رو سے تیسری صلیبی جنگ کا خاتمہ ہوا۔
اس صلیبی جنگ میں سوائے عکہ شہر کے عیسائیوں کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور وہ ناکام واپس ہوئے۔ رچرڈ شیر دل ، سلطان کی فیاضی اور بہادری سے بہت متاثر ہوا جرمنی کا بادشاہ بھاگتے ہوئے دریا میں ڈوب کر مرگیا اور تقریباً چھ لاکھ عیسائی ان جنگوں میں*کام آئے۔۔

تیسری صلیبی جنگ میں سلطان صلاح الدین نے ثابت کردیا کہ وہ دنیا کا سب سے طاقتور حکمران ہے۔۔

سیرت

صلاح الدین بڑا بہادر اور فیاض تھا۔ لڑائیوں میں اس نے عیسائیوں کے ساتھ اتنے اچھا سلوک کیا کہ عیسائی آج بھی اس کی عزت کرتے ہیں۔
اس کو جہاد کا اتنا شوق تھا کہ ایک مرتبہ اس کے نچلے دھڑ میں پھوڑے ہوگئے ان کی وجہ سے وہ بیٹھ کر کھانا نہیں کھا سکتا تھا لیکن اس حالت میں بھی جہاد کی سرگرمی میں فرق نہ آیا۔ صبح سے ظہر تک اور عصر سے مغرب تک برابر گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا۔ اس کو خود تعجب ہوتا تھا اور کہا کرتا تھا کہ جب تک گھوڑے کی پیٹھ پر رہتا ہوں ساری تکلیف جاتی رہتی ہے اور اس سے اترنے پر پھر تکلیف شروع ہوجاتی ہے ۔
مسیحیوں سے صلح ہو جانے کے بعد صلاح الدین نے عیسائیوں کو بیت المقدس کی زیارت کی اجازت دے دی۔ اجازت ملنے پر یورپ کے زائرین جو برسوں سے انتظار کررہے تھے اس کثرت سے ٹوٹ پڑے کہ شاہ رچرڈ کے لئے انتظام قائم رکھنا مشکل ہوگیا اور اس نے سلطان سے کہا کہ وہ اس کی تحریر اور اجازت نامے کے بغیر کسی کو بیت المقدس میں داخل نہ ہونے دے ۔ سلطان نے جواب دیا ”زائرین بڑی بڑی مسافتیں طے کرکے زیارت کے شوق میں آتے ہیں ان کو روکنا مناسب نہیں“۔ سلطان نے نہ صرف یہ کہ ان زائرین کو ہر قسم کی آزادی دی بلکہ اپنی جانب سے لاکھوں زائرین کی مدارات، راحت، آسائش اور دعوت کا انتظام کیا۔
صلاح الدین کا غیر مسلموں سے سلوک عین اسلامی تعلیمات کے مطابق تھا اور یہ اس کا ثبوت ہے کہ اسلامی حکومت میں غیر مسلموں کے حقوق بھی اسی طرح محفوظ ہوئے ہیں جس طرح مسلمانوں کے ۔
نور الدین کی طرح صلاح الدین کی زندگی بھی بڑی سادہ تھی۔ ریشمی کپڑے کبھی استعمال نہیں کئے اور رہنے کے لئے محل کی جگہ معمولی سا مکان ہوتا تھا۔

رفاہ عامہ کے کام

قاہرہ پر قبضے کے بعد جب اس نے فاطمی حکمرانوں کے محلات کا جائزہ لیا تو وہاں بے شمار جواہرات اور سونے چاندی کے برتن جمع تھے ۔ صلاح الدین نے یہ ساری چیزیں اپنے قبضے میں لانے کے بجائے بیت المال میں داخل کرادیں۔ محلات کو عام استعمال میں لایا گیا اور ایک محل میں عظیم الشان خانقاہ قائم کی گئی۔
فاطمیوں کے زمانے میں مدرسے قائم نہیں کئے گئے شام میں تو نور الدین کے زمانے میں مدرسے اور شفاخانے قائم ہوئے لیکن مصر اب تک محروم تھا۔ صلاح الدین نے یہاں کثرت سے مدرسے اور شفاخانے قائم کئے ۔ ان مدارس میں طلبا کے قیام و طعام کا انتظام بھی سرکار کی طرف سے ہوتا تھا۔
قاہرہ میں صلاح الدین کے قائم کردہ شفاخانے کے بارے میں ایک سیاح ابن جبیر لکھتا ہے کہ یہ شفاخانہ ایک محل کی طرح معلوم ہوتا ہے جس میں دوائوں کا بہت بڑا ذخیرہ ہے ۔ اس نے عورتوں کے شفاخانے اور پاگل خانے کا بھی ذکر کیا ہے ۔ صلاح الدین سلطنت غوریہ کے حکمران شہاب الدین غوری اور مراکشی حکمران یعقوب المنصور کا ہم عصر تھا اور بلاشبہ یہ تینوں حکمران اپنے وقت میں دنیا کے عظیم ترین حکمرانوں میں سے تھے ۔


انتقال


موی مسجد کے نواح میں قائم صلاح الدین کا مزار

موجودہ دور کے ایک انگریز مورخ لین پول نے بھی سلطان کی بڑی تعریف کی ہے اور لکھتا ہے کہ ”اس کے ہمعصر بادشاہوں اور اس میں ایک عجیب فرق تھا۔ بادشاہوں نے اپنے جاہ و جلال کے سبب عزت پائی اور اس نے عوام سے محبت اور ان کے معاملات میں دلچسپی لے کر ہردلعزیزی کی دولت کمائی“۔
صلاح الدین ایوبی کی قائم کردہ حکومت اس کے والد نجم الدین ایوب کے نامی پر ”ایوبی“ کہلاتی تھی۔
صلاح الدین اگرچہ ایک دانشمند اور قابل حکمران تھا لیکن وہ خود کو رواجی تصور سے آزاد نہ کرسکا۔ خلافت کے حقیقی تصور کو اب مسلمان معاشرہ اس حد تک بھلا چکا تھا کہ نور الدین اور صلاح الدین جیسے حکمران بھی ملوکیت کے انداز میں سوچتے تھے ۔ جانشینی کے معاملے میں صلاح الدین نے وہی غلطی کی جو سب سے پہلے ہارون الرشید نے کی تھی اور سلجوقیوں کے بعد سے تمام حکمران کرتے چلے آرہے تھے ۔


اس نے زمانے کے غلط رواج کے تحت اپنی سلطنت تین لڑکوں میں تقسیم کردی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ طاقتور سلطنت تقسیم ہوکر کمزور پڑگئی۔ پھر بھی ایوبی خاندان کے ان چند لائق حکمرانوں جن میں صلاح الدین کا بھائی ملک عادل اور اس کا لڑکا ملک کامل قابل ذکر ہیں، مصر، شام، حجاز اور یمن کو تقریباً 60 سال تک بڑی حد تک متحد رکھا۔ 648ھ میں ایوبی خاندان کی حکومت ختم ہوگئی اور ان کی جگہ ترک غلاموں کی حکومت قائم ہوئی جو مملوک کہلاتی تھی۔
__________________
__________________
Mere fana honay mei meri fana ka fana hona ha
Ar meine apni fanaa mei ae khuda tujhy payaa...!
Reply With Quote
  #4  
Old Friday, March 25, 2011
mariashamshad's Avatar
Senior Member
 
Join Date: May 2010
Location: god,s earth
Posts: 207
Thanks: 94
Thanked 144 Times in 108 Posts
mariashamshad will become famous soon enough
Default noor,u,din jahangir

وفات: 1627ء






نورالدین جہانگیراکبر اعظم کے تین لڑکےتھے۔ سلیم ، مراد اور دانیال۔ مراد اور دانیال باپ کی زندگی ہی میں شراب نوشی کی وجہ سے مر چکے تھے۔ سلیم اکبر کی وفات پر نورالدین جہانگیر کے لقب سے تخت نشین ہوا۔ 1605ء میں اس نے کئی مفید اصلاحات نافذ کیں۔ کان اور ناک اور ہاتھ وغیرہ کاٹنے کی سزائیں منسوخ کیں۔ شراب اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال حکماً بند کیا۔ کئی ناجائز محصولات ہٹا دیے۔ خاص خاص دنوں میں جانوروں کا ذبیحہ بند کردیا۔ فریادیوں کی داد رسی کے لیے اپنے محل کی دیوار سے ایک زنجیر لٹکا دی۔ جسے زنجیر عدل کہا جاتا تھا۔ 1606ء میں اس کے سب سے بڑے بیٹے خسرو نے بغاوت کردی۔ اور آگرے سے نکل کر پنجاب تک جا پہنچا۔ جہانگیر نے اسے شکست دی۔ سکھوںکےگورو ارجن دیو بھی جو خسرو کی مدد کر رہے تھے۔ شاہی عتاب میں آگئے۔ 1614ء میں شہزادہ خرم ’’شاہجہان‘‘ نے میواڑ کے رانا امرسنگھ کو شکست دی۔ 1620ء میں کانگڑہ خود جہانگیر نے فتح کیا۔ 1622ء میں قندھار کا علاقہ ہاتھ سے نکل گیا۔ جہانگیر ہی کے زمانے میں انگریز سر ٹامس رو سفیر کے ذریعے ، پہلی بار ہندوستان میں تجارتی حقوق حاصل کرنے کی نیت سے آئے۔ 1623ء میں خرم نے بغاوت کردی ۔ کیونکہ نورجہاں اپنے داماد شہریار کو ولی عہد بنانے کی کوشش کررہی تھی۔ آخر 1625ء میں باپ اور بیٹے میں صلح ہوگئی۔

جہانگیر مصوری اور فنون لطیفہ کا بہت شوقین تھا۔ اس نے اپنے حالات ایک کتاب توزک جہانگیری میں لکھے ہیں۔ اسے شکار سے بھی رغبت تھی۔ شراب نوشی کے باعث آخری دنوں میں بیمار رہتا تھا۔ 1627ء میں کشمیر سے واپس آتے وقت راستے ہی میں بھمبر کے مقام پر انتقال کیا۔ لاہور کے قریب شاہدرہ میں دفن ہوا
__________________
Mere fana honay mei meri fana ka fana hona ha
Ar meine apni fanaa mei ae khuda tujhy payaa...!
Reply With Quote
  #5  
Old Friday, March 25, 2011
mariashamshad's Avatar
Senior Member
 
Join Date: May 2010
Location: god,s earth
Posts: 207
Thanks: 94
Thanked 144 Times in 108 Posts
mariashamshad will become famous soon enough
Default yahya khan

these two pages are about yahya khan from a famous book
Attached Thumbnails
share the history of famous peoples-yahya.jpg   share the history of famous peoples-yahya-2.jpg  
__________________
Mere fana honay mei meri fana ka fana hona ha
Ar meine apni fanaa mei ae khuda tujhy payaa...!
Reply With Quote
Reply


Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
Pakistan's History From 1947-till present Sumairs Pakistan Affairs 13 Sunday, October 27, 2019 02:55 PM
Islamic Information safdarmehmood Islamiat 4 Thursday, June 28, 2018 08:09 AM
History of Presidentship in Pakistan Naseer Ahmed Chandio General Knowledge, Quizzes, IQ Tests 1 Tuesday, May 31, 2011 03:00 PM
Please share MCQs Of Pakistan Affairs Azhar Hussain Memon Pakistan Affairs 3 Thursday, February 04, 2010 04:56 PM


CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.