Friday, March 29, 2024
04:42 PM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > CSS Optional subjects > Group V > Urdu Literature

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #11  
Old Tuesday, July 28, 2015
Amna's Avatar
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default 10.Hafiz Husain Deen

حافظ حسین دین
حافظ حسین دین جو دونوں آنکھوں سے اندھاتھا ، ظفر شاہ کے گھر میں آیا۔ پٹیالے کا ایک دوست رمضان علی تھا، جس نے ظفر شاہ سے اُس کا تعارف کرایا۔ وہ حافظ صاحب سے مل کر بہت متاثر ہوا۔ گو اُن کی آنکھیں دیکھتی نہیں تھیں مگر ظفر شاہ نے یوں محسوس کیا کہ اُس کو ایک نئی بصارت مل گئی ہے۔ ظفر شاہ ضعیف الاعتقاد تھا۔ اُس کو پیروں فقیروں سے بڑی عقیدت تھی۔ جب حافظ حسین دین اُس کے پاس آیا تو اُس نے اُس کو اپنے فلیٹ کے نیچے موٹر گراج میں ٹھہرایا۔۔۔ اُس کو وہ وائٹ ہاؤس کہتا تھا۔ ظفر شاہ سید تھا۔ مگر اُس کو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ وہ مکمل سید نہیں ہے۔ چنانچہ اُس نے حافظ حسین دین کی خدمت میں گزارش کی کہ وہ اس کی تکمیل کردیں۔ حافظ صاحب نے تھوڑی دیر بعد اپنی بے نُور آنکھیں گھما کر اُس کو جوا ب دیا۔ ’’ بیٹا۔۔۔ تو پورا بننا چاہتا ہے تو غوث اعظم جیلانی سے اجازت لینا پڑے گی۔ ‘‘ حافظ صاحب نے پھر اپنی بے نُور آنکھیں گھمائیں۔ ’’اُن کے حضور میں تو فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔ ‘‘ ظفر شاہ کو بڑی نااُمیدی ہوئی۔ ’’آپ صاحبِ کشف ہیں۔۔۔ کوئی مداوا تو ہوگا۔ ‘‘ حافظ صاحب نے اپنے سر کو خفیف سی جنبش دی۔ ’’ ہاں چلہ کاٹنا پڑے گا مجھے۔ ‘‘ ’’اگر آپ کو زحمت نہ ہوتو اپنے اس خادم کے لیے کاٹ لیجیے۔‘‘ ’’سوچوں گا۔‘‘ حافظ حسین دین ایک مہینے تک سوچتا رہا۔ اس دوران ظفر شاہ نے اُن کی خاطر و مدارات میں کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ حافظ صاحب کے لیے صبح اٹھتے ہی ڈیڑھ پاؤ بادام توڑتا۔ ان کے مغز نکا ل کر سردائی تیار کرتا۔ دوپہر کو ایک سیر گوشت بھنوا کے اُس کی خدمت میں پیش کرتا۔ شام کو بالائی ملی ہوئی چائے پلاتا۔ رات کو ایک مُرغ مسلم حاضر کرتا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا۔ آخر حافظ حسین نے ظفر شاہ سے کہا۔ ’’اب مجھے آوازیں آنی شروع ہوگئی ہیں۔‘‘ ظفر شاہ نے پوچھا۔ ’’کیسی آوازیں قبلہ۔‘‘ ’’تمہارے متعلق۔‘‘ ’’کیا کہتی ہیں۔‘‘ ’’تم ایسی باتوں کے متعلق مت پوچھا کرو۔‘‘ ’’معافی چاہتا ہوں۔‘‘ حافظ صاحب نے ٹٹول ٹٹول کر مرغ کی ٹانگ اُٹھائی اور اُسے دانتوں سے کاٹتے ہوئے کہا۔ ’’ تم اصل میں منکر ہو۔۔۔ آزمانا چاہتے ہو تو کسی کنوئیں پر چلو۔‘‘ ظفر شاہ تھرتھرا گیا۔ ’’ حضور میں آپ کو آزمانا نہیں چاہتا۔۔۔ آپ کا ہر لفظ صداقت سے لبریز ہے۔ ‘‘ حافظ صاحب نے سر کو زور سے جنبش دی۔ ’’ نہیں ۔۔۔ ہم چاہتے ہیں کہ تم ہمیں آزماؤ۔۔۔ کھانا کھالیں تو ہمیں کسی بھی کنوئیں پر لے چلو۔‘‘ ’’وہاں کیا ہوگا قبلہ۔‘‘ ’’میرا معمول آواز دے گا۔۔۔ وہ کنواں پانی سے لبا لب بھر جائے گا اور تمہارے پاؤں گیلے ہوئے جائیں گے۔۔۔ ڈرو گے تو نہیں؟‘‘ ظفر شاہ ڈر گیا تھا۔ حافظ حسن دین جس لہجے میں باتیں کررہا تھا بڑا پر ہیبت تھا۔۔۔ لیکن اُس نے اس خوف پر قابو پاکر حافظ صاحب سے کہا۔ ’’ جی نہیں۔۔۔ آپ کی ذاتِ اقدس میرے ساتھ ہوگی تو ڈر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جب سارا مرغ ختم ہوگیا تو حافظ صاحب نے ظفر شاہ سے کہا۔ ’’ میرے ہاتھ دُھلواؤ۔۔۔ اور کسی کنوئیں پر لے چلو۔ ‘‘ ظفر شاہ نے اُس کے ہاتھ دُھلوائے تولیے سے پونچھے اور اُسے ایک کنوئیں پر لے گیا جو شہر سے کافی دُور تھا ظفر شاہ چادر لپیٹ کر اُس کی منڈیر کے پاس بیٹھ گیا۔ مگر حافظ صاحب نے چلا کر کہا۔ ’’ پانچ قدم پیچھے ہٹ جاؤ۔۔۔ میں پڑھنے والا ہوں۔ کنوئیں کا پانی لبا لب بھر جائے گا۔۔۔ تم ڈر جاؤ گے۔ ‘‘ ظفر شاہ ڈر کر دس قدم پیچھے ہٹ گیا۔ حافظ صاحب نے پڑھنا شروع کردیا۔ رمضان علی بھی ساتھ تھا جس نے ظفر شاہ سے حافظ صاحب کا تعارف کرایا تھا۔۔۔ وہ دُور بیٹھا مونگ پھلی کھا رہا تھا۔ حافظ صاحب نے کنوئیں پر آنے سے پہلے ظفر شاہ سے کہا تھا کہ دو سیر چاول، ڈیڑھ سیر شکر اور پاؤ بھر کالی مرچوں کی ضرورت ہے جواس کا معمول کھا جائے گا۔۔۔ یہ تمام چیزیں حافظ صاحب کی چادر میں بندھی تھیں۔ دیر تک حافظ حسین دین معلوم نہیں کس زبان میں پڑھتا رہا۔ مگر اُس کے معمول کی کوئی آواز نہ آئی۔۔۔ نہ کنوئیں کا پانی اوپر چڑھا۔ حافظ نے چاول، شکر اور مرچیں کنوئیں میں پھینک دیں۔ پھر بھی کچھ نہ ہوا۔۔۔ چند لمحات سکوت طاری رہا۔ اس کے بعد حافظ پر جذب کی سی کیفیت طاری ہوئی اور وہ بُلند آواز میں بولا۔ ’’ظفر شاہ کو کراچی لے جاؤ۔۔۔ اُس سے پانچ سو روپے لو اور گوجرانوالہ میں زمین الاٹ کرالو۔ ‘‘ ظفر شاہ نے پانچ سو روپے حافظ کی خدمت میں پیش کردیے۔ اس نے یہ روپے اپنی جیب میں ڈال کر اُس سے بڑے جلال میں کہا۔۔۔ ’’ ظفر شاہ۔۔۔ تو یہ روپے دے کر سمجھتا ہے مجھ پر کوئی احسان کیا۔ ‘‘ ظفر شاہ نے سرتا پا عجز بن کر کہا۔ ’’ نہیں حضور میں نے تو آپ کے ارشاد کی تعمیل کی ہے۔ ‘‘ حافظ حسین دین کا لہجہ ذرا نرم ہوگیا۔ ’’دیکھو سردیوں کا موسم ہے ، ہمیں ایک دُھسّے کی ضرورت ہے۔ ‘‘ ’’چلیے ابھی خرید لیتے ہیں۔‘‘ ’’دو گھوڑے کی بوسکی کی قمیص اور ایک پمپ شو۔‘‘ ظفر شاہ نے غلاموں کی طرح کہا۔ ’’ حضور آپ کے حکم کی تعمیل ہو جائے گی۔ ‘‘ حافظ صاحب کے حکم کی تعمیل ہوگئی۔ پانچ سو روپے کا دُھسّہ۔ پچاس روپے کی قراقلی کی ٹوپی۔ بیس روپے کا پمپ شو۔۔۔ ظفر شاہ خوش تھا کہ اُس نے ایک پہنچے ہوئے بزرگ کی خدمت کی۔ حافظ صاحب وائٹ ہاؤس میں سو رہے تھے کہ اچانک بڑبڑانے لگے۔ ظفر شاہ فرش پر لیٹا تھا۔ اُس کی آنکھ لگنے ہی والی تھی کہ چونک کر سننے لگا۔ حافظ صاحب کہہ رہے تھے’’ حکم ہوا ہے۔۔۔ ابھی ابھی حکم ہوا ہے کہ حافظ حسین دین تم دریا راوی جاؤ اوروہاں چلہ کاٹو ۔۔۔ چلہ کاٹو۔۔۔ وہاں تم اپنے معمول سے بات کرسکوگے۔ ‘‘ ظفرشاہ، حافظ کو ٹیکسی میں دریائے راوی پر لے گیا۔ وہاں حافظ چھیالیس گھنٹے معلوم نہیں کیا کچھ پڑھتا رہا۔ اُس کے بعد اُس نے ایسی آواز میں جو اُس کی اپنی نہیں تھی کہا۔۔۔’’ ظفر شاہ سے تین سو روپیہ اور لو۔۔۔ اپنے بھائی کی آنکھوں کا علاج کرو۔۔۔ تم اتنے غافل کیوں ہو۔۔۔ اگر تم نے علاج نہ کرایا تو وہ بھی تمہاری طرح اندھا ہوجائے گا۔ ‘‘ ظفر شاہ نے تین سو روپے اوردیدیے۔ حافط حسین دین نے اپنی بے نُور آنکھیں گھمائیں جس میں مسرت کی جھلک نظر آسکتی تھی۔ اور کہا ’’ ڈاک خانے میں میرے بارہ سو روپے جمع ہیں۔۔۔ تم کچھ فکر نہ کرو پہلے پانچ سو اور یہ تین سو ۔۔۔ کُل آٹھ سو ہوئے۔۔۔ میں تمھیں ادا کر دُوں گا۔‘‘ ظفر شاہ بہت متاثر ہوا۔ ’’ جی نہیں۔۔۔ ادائیگی کی کیا ضرورت ہے۔۔۔ آپ کی خدمت کرنا میرا فرض ہے۔‘‘ ظفر شاہ دیر تک حافظ کی خدمت کرتا رہا۔ اس کے عوض حافظ نے چالیس دن کا چلہ کاٹا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ ظفر شاہ نے ویسے کئی مرتبہ محسوس کیا کہ وہ پورا سید بن گیا ہے اور اُس کی تطہیر ہوگئی ہے مگر بعد میں اُس کو مایوسی ہوئی کیونکہ وہ اپنے میں کوئی فرق نہ دیکھتا اس کی تشفی نہیں ہوئی تھی۔ اس نے سمجھا کہ شاید اُس نے حافظ صاحب کی خدمت پوری طرح ادا نہیں کی۔ جس کی وجہ سے اُس کی اُمید برنہیں آئی۔ چنانچہ اُس نے حافظ صاحب کو روزانہ ایک مرغ کھلانا شروع کر دیا۔ باداموں کی تعداد بڑھا دی۔ دودھ کی مقدار بھی زیادہ کر دی۔ ایک دن اُس نے حافظ صاحب سے کہا۔ ’’ پیر صاحب ۔۔۔ میرے حال پر کرم فرمائیے میری مراد کبھی توپوری ہوگی یا نہیں۔ ‘‘ حافظ حسین دین نے بڑے پیرانہ انداز میں جواب دیا’’ ہوگی۔۔۔ ضرور ہوگی۔۔۔ ہم اتنے چلے کاٹ چکے ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تم سے ناراض ہیں۔۔۔ تم نے ضرور اپنی زندگی میں کوئی گناہ کیا ہوگا۔ ‘‘ ظفر شاہ نے کچھ دیر سوچا۔ ’’ حضور ۔۔۔ میں نے ۔۔۔ ایسا کوئی گناہ نہیں کیا جو۔۔۔‘‘ حافظ صاحب نے اُس کی بات کاٹ کر کہا۔ ’’نہیں ضرور کیا ہوگا۔۔۔ ذرا سوچو۔۔۔‘‘ ظفر شاہ نے کچھ دیر سوچا۔ ’’ ایک مرتبہ اپنے والد صاحب کے بٹوے سے آٹھ آنے چرائے تھے۔ ‘‘ ’’ یہ کوئی اتنا بڑا گناہ نہیں۔۔۔ اور سوچو۔۔۔ کبھی تم نے کسی لڑکی کو بُری نگاہوں سے دیکھا تھا؟‘‘ ظفر شاہ نے ہچکچاہٹ کے بعدجواب دیا۔ ’’ ہاں پیرو مُرشد۔۔۔ صرف ایک مرتبہ۔ ‘‘ ’’کون تھی وہ لڑکی‘‘؟ ’’ جی میرے چچا کی۔ ‘‘ ’’ کہاں رہتی ہے ‘‘؟ ’’ جی اسی گھر میں۔ ‘‘ حافظ صاحب نے حکم دیا۔ ’’بُلاؤ اُس کو ۔۔۔ کیا تم اُس سے شادی کرنا چاہتے ہو؟‘‘ ’’جی ہاں ۔۔۔ ہماری منگنی قریب قریب طے ہوچکی ہے۔ ‘‘ حافظ صاحب نے بڑے پر جلال لہجے میں کہا۔ ’’ظفر شاہ۔۔۔ بُلاؤ اس کو ۔۔۔ تم نے مجھ سے پہلے ہی یہ بات کہہ دی ہوتی تو مجھے بیکار اتنا وقت ضائع نہ کرنا پڑتا۔ ‘‘ ظفر شاہ شش و پنج میں پڑ گیا۔ وہ حافظ صاحب کا حکم ٹال نہیں سکتا تھا اور پھر اپنی ہونے والی منگیتر سے یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ حافظ صاحب کو ملے۔۔۔ بادلِ ناخواستہ اُوپر گیا۔ بلقیس بیٹھی ناول پڑھ رہی تھی۔ ظفر شاہ کودیکھ کر ذرا سمٹ گئی اور کہا۔۔۔’’ آپ میرے کمرے میں کیسے آگئے۔ ‘‘ ظفر شاہ نے دبے دبے لہجے میں جواب دیا۔ ’’ وہ ۔۔۔ جو حافظ صاحب آئے ہوئے ہیں نا۔۔۔‘‘ بلقین نے ناول ایک طرف رکھ دیا۔ ’’ ہاں ہاں ۔۔۔ میں نے انھیں کئی مرتبہ دیکھا ہے۔۔۔ کیا بات ہے۔ ‘‘ ’’بات یہ ہے کہ تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ‘‘ بلقیس نے حیرت کااظہار کیا۔ ’’ وہ مجھ سے کیوں ملنا چاہتے ہیں۔۔۔ اُن کی توآنکھیں ہی نہیں۔ ‘‘ وہ تم سے چند باتیں کرناچاہتے ہیں۔۔۔ بڑے صاحب کشف بزرگ ہیں۔۔۔ اُن کی بات سے ممکن ہے ہم دونوں کا بھلا ہو جائے۔ ‘‘ بلقیس مسکرائی۔ ’’معلوم نہیں۔۔۔ آپ اتنے ضعیف الاعتقاد کیوں ہیں۔۔۔ لیکن چلیے۔ اندھا ہی تو ہے۔۔۔ اُس سے کیا پردہ ہے۔‘‘ بلقیس ظفر شاہ کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں گئی۔ حافظ حسین دین بیٹھا چلغوزے کھا رہا تھا۔ جب اُس نے قدموں کی چاپ سُنی تو بولا’’ آ گئے ظفر شاہ۔ ‘‘ ظفر شاہ نے تعظیماً جواب دیا’’ جی ہاں حضور۔ ‘‘ ’’لڑکی آئی ہے۔ ؟ ’’جی ہاں‘‘ حافظ صاحب نے اپنی بے نُور آنکھوں سے بلقیس کو دیکھنے کی کوشش کی اور کہا۔ ’’ بیٹھ جاؤمیرے سامنے۔۔۔ ‘‘ بلقیس سامنے اسٹول پر بیٹھ گئی۔ حافظ صاحب نے ظفر شاہ سے کہا۔ ’’ اب تمہاری مراد بر آئیگی۔۔۔ ہم لڑکی کو وظیفہ بتائیں گے۔۔۔ انشاء اللہ سب کام ٹھیک ہو جائیں گے۔ ‘‘ ظفر شاہ بہت خوش ہوا ۔۔۔ اس نے فوراً پھل منگوائے اور بلقیس سے کہا۔۔۔ حافظ صاحب معلوم نہیں کتنی دیر لگائیں۔۔۔ ان کی خدمت کرنا نہ بھولنا۔ ‘‘ حافظ صاحب نے کہا۔ ’’دیکھو ہم تم سے بہت خوش ہیں۔ آج ہماری طبیعت چاہتی ہے کہ تمیں بھی خوش کردیں۔ جاؤ بازار سے چار تولے نوشادر، ایک تولہ چونا، دس تولے شنگرف اور ایک مٹی کا کُوزا لے آؤ۔۔۔ جتنااس کا وزن ہے اتنا ہی سونا بن جائے گا۔ ‘‘ ظفر شاہ بھاگا بھاگا بازار گیا۔ اور یہ چیزیں لے آیا۔ جب اپنے وائٹ ہاؤس پہنچا تو کواڑ کھلے تھے اور اس میں کوئی نہیں تھا۔ اُوپر گیا تو معلوم ہوا کہ بی بی بلقیس بھی نہیں ہے۔
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
  #12  
Old Tuesday, July 28, 2015
Amna's Avatar
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default 11.Tu Tu


میں سوچ رہا تھا۔ دنیا کی سب سے پہلی عورت جب ماں بنی تو کائنات کا رد عمل کیا تھا؟ دنیا کے سب سے پہلے مرد نے کیا آسمانوں کی طرف تمتماتی آنکھوں سے دیکھ کر دنیا کی سب سے پہلی زبان میں بڑے فخر کے ساتھ یہ نہیں کہا تھا۔’’ میں بھی خالق ہوں۔‘‘ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ میرے آوارہ خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ بالکنی سے اٹھ کر میں اندر کمرے میں آیا۔ ٹیلی فون ضدی بچے کی طرح چلائے جارہا تھا۔ ٹیلی فون بڑی مفید چیز ہے،مگر مجھے اس سے نفرت ہے۔ اس لیے کہ یہ وقت بے وقت بجے لگنا ہے۔۔۔۔۔۔ چنانچہ بہت ہی بددلی سے میں نے ریسیور اٹھایا اور نمبر بتایا’’ فور فور فائیو سیون۔‘‘ دوسرے سرے سے ہیلو ہیلوشروع ہوئی۔ میں جھنجھلا گیا۔’’ کون ہے‘‘ جواب ملا۔’’آیا۔‘‘ میں نے آیاؤں کے طرز گفتگو میں پوچھا۔’’ کس کومانگتا ہے؟‘‘ ’’میم صاحب ہے۔‘‘ ’’ہے۔۔۔۔۔۔ ٹھہرو۔‘‘ ٹیلی فون کا ریسیور ایک طرف رکھ کر میں نے اپنی بیوی کو جو غالباً اندر سو رہی تھی، آواز دی’’میم صاحب۔۔۔۔۔۔ میم صاحب۔‘‘ آواز سن کر میری بیوی اٹھی اور جمائیاں لیتی ہوئی آئی۔’’ یہ کیا مذاق ہے۔۔۔ میم صاحب، میم صاحب!‘‘ میں نے مسکرا کہا۔’’ میم صاحب ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ یاد ہے، تم نے اپنی پہلی آیا سے کہا تھا کہ مجھے میم صاحب کے بدلے بیگم صاحبہ کہا کرو تو اس نے بیگم صاحبہ کو بینگن صاحبہ بنا دیا تھا!‘‘ ایک مسکراتی ہوئی جمائی لے کر میری بیوی نے پوچھا۔’’کون ہے۔‘‘ ’’دریافت کرلو۔‘‘ میری بیوی نے ٹیلی فون اٹھایا اور ہیلو ہیلو شروع کردیا۔۔۔۔۔۔ میں باہر بالکنی میں چلا گیا۔۔۔۔۔۔ عورتیں ٹیلی فون کے معاملے میں بہت لمبی ہوتی ہیں۔ چنانچہ پندرہ بیس منٹ تک ہیلو ہیلو ہوتا رہا۔ میں سوچ رہا تھا۔ ٹیلی فون ہر دو تین الفاظ کے بعد ہیلو کیوں کہا جاتا ہے؟ کیا اس ہلو ہلوکے عقب میں احساس کمتری تو نہیں؟۔۔۔۔۔۔ بار بار ہلو صرف اسے کرنی چاہیے جسے اس بات کا اندیشہ ہو کہ اس کی مہمل گفتگو سے تنگ آکر سننے والا ٹیلی فون چھوڑ دے گا۔۔۔۔۔۔ یا ہو سکتا ہے یہ محض عادت ہو۔ دفعتاً میری بیوی گھبرائی ہوئی آئی۔’’ سعادت صاحب، اس دفعہ معاملہ بہت ہی سیریس معلوم ہوتا ہے۔‘‘ ’’کون سا معاملہ۔‘‘ معاملے کی نوعیت بتائے بغیر میری بیوی نے کہنا شروع کردیا۔’’ بات بڑھتے بڑھتے طلاق تک پہنچ گئی ہے۔۔۔۔۔۔ پاگل پن کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔۔۔ میں شرط لگانے کے لیے تیار ہوں کہ بات کچھ بھی نہیں ہوگی ۔ بس پُھسری کا بھگندر بنا ہوگا۔۔۔ دونوں سر پھرے ہیں۔‘‘ ’’اجی حضرت کون؟‘‘ ’’میں نے بتایا نہیں آپ کو؟۔۔۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔۔۔ ٹیلی فون، طاہرہ کا تھا!‘‘ ’’طاہرہ۔۔۔۔۔۔کون طاہرہ؟‘‘ ’’مسز یزدانی۔‘‘ ’’اوہ!‘‘ میں سارا معاملہ سمجھ گیا’’ کوئی نیا جھگڑا ہوا ہے؟‘‘ نیا اور بہت بڑا۔۔۔۔۔۔ جائیے یزدانی آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ ’’مجھ سے کیا بات کرنا چاہتا ہے؟‘‘ ’’معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔ طاہرہ سے ٹیلی فون چھین کر مجھ سے فقط یہ کہا۔ بھابی جان، ذرا منٹوص احب کو بلائیے!‘‘ ’’خواہ مخواہ میر مغز چاٹے گا‘‘۔ یہ کہہ کر میں اٹھا اور ٹیلی فون پر یزدانی سے مخاطب ہوا۔ اس نے صرف اتنا کہا’’ معاملہ بے حد نازک ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ تم اور بھابی جان ٹیکسی میں فوراً یہاں آجاؤ۔‘‘ میں اور میری بیوی جلدی کپڑے تبدیل کرکے یزدانی کی طرف روانہ ہوگئے۔۔۔۔۔۔ راستے میں ہم دونوں نے یزدانی اور طاہرہ کے متعلق بے شمار باتیں کیں۔ طاہرہ ایک مشہور عشق پیشہ موسیقار کی خوبصورت لڑکی تھی۔ عطا یزدانی ایک پٹھان آڑھتی کا لڑکا تھا۔ پہلے شاعری شروع کی، پھر ڈرامہ نگاری، اس کے بعد آہستہ آہستہ فلمی کہانیاں لکھنے لگا۔۔۔۔۔۔طاہرہ کا باپ اپنے آٹھویں عشق میں مشغول تھا اور عطا یزدانی علامہ مشرقی کی خاکسار تحریک کے لیے’’ بیچلہ‘‘ نامی ڈرامہ لکھنے میں۔۔۔ ایک شام پریڈ کرتے ہوئے عطا یزدانی کی آنکھیں طاہرہ کی آنکھوں سے چار ہوئیں۔ ساری رات جاگ کر اس نے ایک خط لکھا اور طاہرہ تک پہنچا دیا۔۔۔۔۔۔ چند ماہ تک دونوں میں نامہ و پیام جاری رہا اور آخر کار دونوں کی شادی بغیر کسی حیل حجت ہوگئی۔ عطا یزدانی کو اس بات کا افسوس تھا کہ ان کا عشق ڈرامے سے محروم رہا۔ طاہرہ بھی طبعاً ڈرامہ پسند تھی۔۔۔۔۔۔ عشق اور شادی سے پہلے سہیلیوں کے ساتھ باہر شوپنگ کو جاتی تو ان کے لیے مصیبت بن جاتی۔۔۔ گنجے آدمی کو دیکھتے ہی اس کے ہاتھوں میں کھجلی شروع ہو جاتی’’ میں اس کے سر پر ایک دھول تو ضرور جماؤں گی، چاہے تم کچھ ہی کرو۔‘‘ ذہین تھی۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ اس کے پاس کوئی پیٹی کوٹ نہیں تھا۔ اس نے کمر کے گرد ازار بند باندھا اور اس میں ساڑھی اڑس کر سہیلیوں کے ساتھ چل دی۔ کیا طاہرہ واقعی عطا یزدانی کے عشق میں مبتلا ہوئی تھی؟ اس کے متعلق وثوق کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا تھا۔ یزدانی کا پہلا عشقیہ خط ملنے پر اس کا رد عمل غالباً یہ تھا کہ کھیل دلچسپ ہے کیا ہرج ہے، کھیل لیا جائے۔ شادی پربھی اس کا رد عمل کچھ اسی قسم کا تھا۔ یوں تو مضبوط کردار کی لڑکی تھی، یعنی جہاں تک با عصمت ہونے کا تعلق ہے، لیکن تھی کھلنڈری۔ اور یہ جو آئے دن اس کا اپنے شوہر کے ساتھ لڑائی جھگڑا ہوتا تھا، میں سمجھتا ہوں ایک کھیل ہی تھا۔ لیکن جب ہم وہاں پہنچے اور حالات دیکھے تو معلوم ہوا کہ یہ کھیل بڑی خطرناک صورت اختیار کرگیا تھا۔ ہمارے داخل ہوتے ہی وہ شور برپا ہوا کہ کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ طاہرہ اور یزدانی دونوں اونچے اونچے سروں میں بولنے لگے۔ گلے، شکوے، طعنے منے‘۔۔۔۔۔۔ پرانے مردوں پر نئی لاشیں، نئی لاشوں پرپرانے مردے۔۔۔۔۔۔ جب دونوں تھک گئے تو آہستہ آہستہ لڑائی کی نوک پلک نکلنے لگی۔ طاہرہ کو شکایت تھی کہ عطا اسٹوڈیو کی ایک واہیات ایکٹرس کو ٹیکسیوں میں لیے لیے پھرتا ہے۔ یزدانی کا بیان تھا کہ یہ سراسر بہتان ہے۔ طاہرہ قرآن اٹھانے کے لیے تیار تھی عطا کا اس ایکٹرس سے ناجائز تعلق ہے۔ جب وہ صاف انکاری ہوا تو طاہرہ نے بڑی تیزی کے ساتھ کہا۔’’ کتنے پارسا بنتے ہو۔۔۔۔۔۔ یہ آیا جو کھڑی ہے۔ کیا تم نے اسے چومنے کی کوشش نہیں کی تھی۔۔۔ وہ تو میں اوپر سے آگئی۔۔۔‘‘ یزدانی گرجا’’بکواس بند کرو۔‘‘ اس کے بعد پھر وہی شور برپا ہوگیا۔ میں نے سمجھایا۔ میری بیوی نے سمجھایا مگر کوئی اثر نہ ہوا۔ عطا کو تومیں نے ڈانٹا بھی’’زیادتی سراسر تمہاری ہے۔۔۔۔۔۔ معافی مانگو اور یہ قصہ ختم کرو۔‘‘ عطا نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ میری طرف دیکھا’’سعادت، یہ قصہ یوں ختم نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔ میرے متعلق یہ عورت بہت کچھ کہہ چکی ہے، لیکن میں نے اس کے متعلق ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔۔۔۔۔۔ عنایت کو جانتے ہو تم؟‘‘ ’’عنایت؟‘‘ ’’پلے بیک سنگر۔۔۔۔۔۔ اس کے باپ کا شاگرد!‘‘ ’’ہاں ہاں‘‘ ’’اول درجے کا چھٹا ہوا بدمعاش ہے۔۔۔۔۔۔ مگر یہ عورت ہر روز اسے یہاں بلاتی ہے۔۔۔۔۔۔ بہانہ یہ ہے کہ۔۔۔۔۔۔‘‘ طاہرہ نے اس کی بات کاٹ دی۔’’ بہانہ وہانہ کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ بولو، تم کیا کہنا چاہتے ہو؟‘‘ عطا نے انتہائی نفرت کے ساتھ کہا۔’’ کچھ نہیں۔‘‘ طاہرہ نے اپنے ماتھے پر بالوں کی جھالر ایک طرف ہٹائی۔’’ عنایت میرا چاہنے والا ہے۔۔۔۔۔۔ بس!‘‘ عطا نے گالی دی۔۔۔۔۔۔ عنایت کو موٹی اور طاہرہ کو چھوٹی۔۔۔۔۔۔ پھر شور برپا ہوگیا۔ ایک بار پھر وہی کچھ دہرایا گیا۔ جو پہلے کئی بار کہا جا چکا تھا۔۔۔۔۔۔ میں نے اور میری بیوی نے بہت ثالثی کی مگر نتیجہ وہی صفر۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے عطا اور طاہرہ دونوں اپنے جھگڑے سے مطمئن نہیں۔ لڑائی کے شعلے ایک دم بھڑکتے تھے اور کوئی مرئی نتیجہ کیے بغیر ٹھنڈے ہو جاتے تھے۔ پھر بھڑکائے جاتے تھے، لیکن ہوتا ہوتا کچھ نہیں تھا۔ میں بہت دیر تک سوچتا رہا کہ عطا اور طاہرہ چاہتے کیا ہیں مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا۔۔۔۔۔۔ مجھے بڑی الجھن ہورہی تھی۔ دو گھنٹے سے بک بک اور جھک جھک جاری تھی۔ لیکن انجام خدا معلوم کہاں بھٹک رہا تھا۔ تنگ آکر میں نے کہا’’بھئی، اگر تم دونوں کی آپس میں نہیں نبھ سکتی تو بہتر یہی ہے کہ علیحدہ ہو جاؤ۔‘‘ طاہرہ خاموش رہی، لیکن عطا نے چند لمحات غور کرنے کے بعد کہا۔’’ علیحدگی نہیں۔۔۔ طلاق!‘‘ طاہرہ چلائی’’ طلاق، طلاق،طلاق۔۔۔۔۔۔ دیتے کیوں نہیں طلاق۔۔۔۔۔۔ میں کب تمہارے پاؤں پڑی ہوں کہ طلاق نہ دو۔‘‘ عطا نے بڑی مضبوط لہجے میں کہا۔’’ دے دوں گا اور بہت جلد۔‘‘ طاہرہ نے اپنے ماتھے پر سے بالوں کی جھالر ایک طرف ہٹائی۔’’ آج ہی دو۔‘‘ عطا اٹھ کر ٹیلی فون کی طرف بڑھا۔’’ میں قاضی سے بات کرتا ہوں۔‘‘ جب میں نے دیکھا کہ معاملہ بگڑ رہا ہے تو اٹھ کر عطا کو روکا’’ بے وقوف نہ بنو۔۔۔۔۔۔ بیٹھو آرام سے!‘‘ طاہرہ نے کہا۔’’ نہیں بھائی جان، آپ مت روکیے۔‘‘ میری بیوی نے طاہرہ کو ڈانٹا۔’’بکواس بند کرو۔‘‘ ’’یہ بکواس صرف طلاق ہی سے بند ہوگی۔‘‘ یہ کہہ کر طاہرہ ٹانگ ہلانے لگی۔ ’’سن لیا تم نے‘‘ عطا مجھ سے مخاطب ہو کر پھر ٹیلی فون کی طرف بڑھا، لیکن میں درمیان میں کھڑا ہوگیا۔ طاہرہ میری بیوی سے مخاطب ہوئی’’مجھے طلاق دے کر اس چڈد ایکٹرس سے بیاہ رچائے گا۔‘‘ عطا نے طاہرہ سے پوچھا۔’’اور تو؟‘‘ طاہرہ نے ماتھے پر بالوں کے پسینے میں بھیگی ہوئی جھالر ہاتھ سے اوپر کی۔’’ میں۔۔۔۔۔۔ تمہارے اس یوسفِ ثانی عنایت خان سے!‘‘ ’’بس اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔۔۔۔۔۔ حد ہوگئی ہے۔۔۔ تم ہٹ جاؤ ایک طرف‘‘ عطا نے ڈائرکٹری اٹھائی اور نمبر دیکھنے لگا۔ جب وہ ٹیلی فون کرنے لگا تو میں نے اسے روکنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے ایک دو مرتبہ ڈائل کیا۔ لیکن نمبر نہ ملا۔ مجھے موقعہ ملا تو میں نے اسے پرزور الفاظ میں کہا کہ اپنے ارادے سے باز رہے۔ میری بیوی نے بھی اس سے درخواست کی مگر وہ نہ مانا۔ اس پر طاہرہ نے کہا۔’’ صفیہ۔‘‘ تم کچھ نہ کہو۔۔۔۔۔۔ اس آدمی کے پہلو میں دل نہیں پتھر ہے۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں وہ خط دکھاؤں گی جو شادی سے پہلے اس نے مجھے لکھے تھے۔۔۔۔۔۔ اس وقت میں اس کے دل کا فرار اس کی آنکھوں کا نور تھی۔ میری زبان سے نکلا ہوا صرف ایک لفظ اس کے تِن مردہ میں جان ڈالنے کے لیے کافی تھا۔۔۔۔۔۔ میرے چہرے کی صرف ایک جھلک دیکھ کر یہ بخوشی مرنے کے لیے تیار تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن آج اسے میری ذرہ برابر پروا نہیں۔‘‘ عطا نے ایک بار پھر نمبر ملانے کی کوشش کی۔ طاہرہ بولتی رہی’’ میرے باپ کی موسیقی سے بھی اسے عشق تھا۔۔۔۔۔۔ اس کو فخر تھا کہ اتنا بڑا آرٹسٹ مجھے اپنی دامادی میں قبول کررہا ہے۔۔۔ شادی کی منظوری حاصل کرنے کے لیے اس نے ان کے پاؤں تک دابے، پر آج اسے ان کا کوئی خیال نہں۔‘‘ عطا ڈائل گھماتا رہا۔ طاہرہ مجھ سے مخاطب ہو۔’’آپ کو یہ بھائی کہتا ہے، آپ کی عزت کرتا ہے۔۔۔ کہتا تھا جو کچھ بھائی جان کہیں گے میں مانوں گا۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ دیکھ ہی رہے ہیں۔۔۔ ٹیلی فون کررہا ہے قاضی کو۔۔۔۔۔۔ مجھے طلاق دینے کے لیے۔‘‘ میں نے ٹیلی فون ایک طرف ہٹا دیا۔’’ عطا، اب چھوڑو بھی۔‘‘ ’’نہیں‘‘ یہ کہہ کر اس نے ٹیلی فون اپنی طرف گھسیٹ لیا۔ طاہرہ بولی’’جانے دیجیے بھائی جان۔۔۔۔۔۔ اس کے دل میں میرا کیا،ٹُوٹُو کا بھی کچھ خیال نہیں!‘‘ عطا تیزی سے پلٹا۔’’نام نہ لو ٹُو ٹُو کا!‘‘ طاہرہ نے نتھنے پھلا کرکہا۔’’ کیوں نام نہ لوں اس کا۔‘‘ عطا نے ریسیور رکھ دیا۔’’ وہ میرا ہے!‘‘ طاہرہ اٹھی کھڑی ہوئی۔’’ جب میں تمہاری نہیں ہوں تو وہ کیسے تمہارا ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ تم تو اس کا نام بھی نہیں لے سکتے۔‘‘ عطا نے کچھ دیر سوچا۔’’ میں سب بندوبست کرلوں گا۔‘‘ طاہرہ کے چہرے پر ایک دم زردی چھا گئی۔’’ٹُو ٹُو کو چھین لو گے مجھ سے؟‘‘ عطا نے بڑے مضبوط لہجے میں جواب دیا۔’’ہاں۔‘‘ ’’ظالم۔‘‘ طاہرہ کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ بے ہوش کر گرنے والی ہی تھی کہ میری بیوی نے اسے تھام لیا۔۔۔۔۔۔ عطا پریشان ہوگیا۔ پانی کے چھینٹے۔ یوڈی کلونم۔ سملنگ سالٹ۔ ڈاکٹروں کو ٹیلی فون۔۔۔۔۔۔ اپنے بال نوچ ڈالے، قمیض پھاڑ ڈ الی۔۔۔۔۔۔ طاہرہ ہوش میں آئی تو وہ اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر تھپکنے لگا۔’’ جانم ٹوٹو تمہارا ہے۔۔۔۔۔۔ ٹوٹو تمہارا ہے۔‘‘ طاہرہ نے رونا شروع کردیا۔’’ نہیں وہ تمہارا ہے۔‘‘ عطا نے طاہرہ کی آنسوؤں بھری آنکھوں کو چومنا شروع کردیا۔’’ میں تمہارا ہوں۔ تم میری ہو۔۔۔۔۔۔ ٹوٹو تمہارا بھی ہے، میرا بھی ہے!‘‘ میں نے اپنی بیوی سے اشارہ کیا۔ وہ باہر نکلی تو میں بھی تھوڑی دیر کے بعد چل دیا۔۔۔ ٹیکسی کھڑی تھی، ہم دونوں بیٹھ گئے۔ میری بیوی مسکرا رہی تھی۔ میں نے اس سے پوچھا’’یہ ٹوٹو کون ہے؟‘‘ میری بیوی کھکھلا کر ہنس پڑی۔’’ان کا لڑکا‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔’’لڑکا؟‘‘ میری بیوی نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ میں نے اور زیادہ حیرت سے پوچھا’’ کب پیدا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔ میرا مطلب ہے۔۔۔۔۔۔ ’’ابھی پیدا نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔چوتھے مہینے میں ہے۔‘‘ چوتھے مہینے، یعنی اس واقعے کے چار مہینے بعد، میں باہر بالکنی میں بالکی خالی الذہن بیٹھا تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی۔ بڑی بے دلی سے اٹھنے والا تھا کہ آواز بند ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد میری بیوی آئی۔ میں نے اس سے پوچھا۔’’ کون تھا۔‘‘ ’’یزدانی صاحب۔‘‘ ’’کوئی نئی لڑائی تھی؟‘‘ ’’نہیں۔۔۔۔۔۔ طاہرہ کے لڑکی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔ مری ہوئی‘‘ یہ کہہ کر وہ روتی ہوئی اندر چلی گئی۔ میں سوچنے لگا۔’’ اگر اب طاہرہ اور عطا کا جھگڑا ہوا تو اسے کون ٹُو ٹُو چکائے گا۔؟‘‘
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
  #13  
Old Tuesday, July 28, 2015
Amna's Avatar
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default 12.Mammad Bhai


فارس روڈ سے آپ اس طرف گلی میں چلے جائیے جوسفید گلی کہلاتی ہے تو اس کے آخری سرے پر آپ کو چند ہوٹل ملیں گے۔ یوں تو بمبئی میں قدم قدم پر ہوٹل اور ریستوران ہوتے ہیں مگریہ ریستوران اس لحاظ سے بہت دلچسپ اور منفرد ہیں کہ یہ اس علاقے میں واقع ہیں جہاں بھانت بھانت کی لونڈیاں بستی ہیں۔ ایک زمانہ گزر چکا ہے۔ بس آپ یہی سمجھیے کہ بیس برس کے قریب، جب میں ان ریستورانوں میں چائے پیا کرتا تھا اور کھانا کھایا کرتا تھا۔ سفید گلی سے آگے نکل کر’’ پلے ہاؤس‘‘ آتا ہے۔ ادھر دن بھر ہاؤ ہُو رہتی ہے۔ سینما کے شو دن بھر چلتے رہتے تھے۔ چمپیاں ہوتی تھیں۔ سینما گھر غالباً چار تھے۔ ان کے باہر گھنٹیاں بجا بجا کر بڑے سماعت پاش طریقے پر لوگوں کو مدعو کرتے۔’’آؤ آؤ۔۔۔۔۔۔ دو آنے میں۔۔۔۔۔۔فسٹ کلاس کھیل۔۔۔۔۔۔ دو آنے میں!‘‘ بعض اوقات یہ گھنٹیاں بجانے والے زبردستی لوگوں کو اندر دھکیل دیتے تھے۔ باہر کرسیوں پر چمپی کرانے والے بیٹھے ہوتے تھے جن کی کھوپڑیوں کی مرمت بڑے سائنٹیفک طریقے پر کی جاتی تھی۔ مالش اچھی چیز ہے، لیکن میری سمجھ میں نہیں آتا کہ بمبئی کے رہنے والے اس کے اتنے گرویدہ کیوں ہیں۔ دن کو اور رات کو، ہر وقت انھیں تیل مالش کی ضرورت محسوس ہوتی۔ آپ اگر چاہیں تو رات کے تین بچے بڑی آسانی سے تیل مالشیا بلاسکتے ہیں۔ یوں بھی ساری رات، آپ خواہ بمبئی کے کسی کونے میں ہوں، یہ آواز آپ یقیناً سنتے رہیں گے۔’’پی۔۔۔۔۔۔پی۔۔۔۔۔۔پی۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ’پی‘ چمپی کا مخفف ہے۔ فارس روڈ یوں تو ایک سڑک کا نام ہے لیکن دراصل یہ اس پورے علاقے سے منسوب ہے جہاں بیسوائیں بستی ہیں۔ یہ بہت بڑا علاقہ ہے۔ اس میں کئی گلیاں ہیں جن کے مختلف نام ہیں، لیکن سہولت کے طور پر اس کی ہر گلی کو فارس روڈ یا سفید گلی کہا جاتا ہے۔ اس میں سینکڑوں جنگلا لگی دکانیں ہیں جن میں مختلف رنگ و سن کی عورتیں بیٹھ کر اپنا جسم بیچتی ہیں۔ مختلف داموں پر، آٹھ آنے سے آٹھ روپے تک، آٹھ روپے سے سو روپے تک۔۔۔۔۔۔ ہر دام کی عورت آپ کو اس علاقے میں مل سکتی ہے۔ یہودی، پنجابی، مرہٹی،کشمیری،گجراتی،بنگالی،اینگلوانڈین،فرانسیسی،چی نی،جاپانی غرضیکہ ہر قسم کی عورت آپ کو یہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ عورتیں کیسی ہو تی ہیں۔۔۔۔۔۔ معاف کیجیے گا، اس کے متعلق آپ مجھ سے کچھ نہ پوچھیے۔۔۔۔۔۔ بس عورتیں ہوتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور ان کو گاہک مل ہی جاتے ہیں۔ اس علاقے میں بہت سے چینی بھی آباد ہیں۔ معلوم نہیں یہ کیا کاروبار کرتے ہیں، مگر رہتے اسی علاقے میں ہیں۔بعض تو ریستوران چلاتے ہیں جن کے باہر بورڈوں پر اوپر نیچے کیڑے مکوڑوں کی شکل میں کچھ لکھا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ اس علاقے میں بزنس مین اور ہر قوم کے لوگ آباد ہیں۔ ایک گلی ہے جس کا نام عرب سین ہے۔ وہاں کے لوگ اسے عرب گلی کہتے ہیں۔ اس زمانے میں جس کی میں بات کررہا ہوں، اس گلی میں غالباً بیس پچیس عرب رہتے تھے جو خود کو موتیوں کے بیوپاری کہتے تھے۔ باقی آبادی پنجابیوں اور رام پوریوں پر مشتمل تھی۔ اس گلی میں مجھے ایک کمرہ مل گیا تھا جس میں سورج کی روشنی کا داخلہ بند تھا، ہر وقت بجلی کا بلب روشن رہتا تھا۔ اس کا کرایہ ساڑھے نو روپے ماہوار تھا۔ آپ کا اگر بمبئی میں قیام نہیں رہا تو شاید آپ مشکل سے یقین کریں کہ وہاں کسی کو کسی اور سے سروکار نہیں ہوتا۔ اگر آپ اپنی کھولی میں مررہے ہیں تو آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا۔ آپ کے پڑوس میں قتل ہو جائے، مجال ہے جو آپ کو اس کی خبر ہو جائے۔ مگر وہاں عرب گلی میں صرف ایک شخص ایسا تھا جس کو اڑوس پڑوس کے ہر شخص سے دلچسپی تھی۔ اس کا نام ممد بھائی تھا۔ ممد بھائی رام پور کا رہنے والا تھا۔ اول درجے کا پھکیت،گتکے اور بنوٹ کے فن میں یکتا۔ میں جب عرب گلی میں آیا تو ہوٹلوں میں اس کا نام اکثر سننے میں آیا، لیکن ایک عرصے تک اس سے ملاقات نہ ہوسکی۔ میں صبح سویرے اپنی کھولی سے نکل جاتا تھا اور بہت رات گئے لوٹتا تھا ۔ لیکن مجھے ممد بھائی سے ملنے کا بہت اشتیاق تھا۔ کیوں کہ اس کے متعلق عرب گلی میں بے شمار داستانیں مشہور تھیں کہ بیس پچیس آدمی اگر لاٹھیوں سے مسلح ہوکر اس پر ٹوٹ پڑیں تووہ اس کا بال تک بیکا نہیں کرسکتے۔ ایک منٹ کے اندر اندر وہ سب کو چت کردیتا ہے۔ اور یہ کہ اس جیسا چھری مار ساری بمبئی میں نہیں مل سکتا۔ ایسے چھری مارتا ہے کہ جس کے لگتی ہے اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ سو قدم بغیر احساس کے چلتا رہتا ہے اور آخر ایک دم ڈھیر ہو جاتا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس کے ہاتھ کی صفائی ہے۔ اس کے ہاتھ کی صفائی دیکھنے کا مجھے اشتیاق نہیں تھا لیکن یوں اس کے متعلق اور باتیں سن سن کر میرے دل میں یہ خواہش ضرور پیدا ہو چکی تھی کہ میں اسے دیکھوں۔ اس سے باتیں نہ کروں لیکن قریب سے دیکھ لوں کہ وہ کیسا ہے۔ اس تمام علاقے پر اس کی شخصیت چھائی ہوئی تھی۔ وہ بہت بڑا دادا یعنی بدمعاش تھا۔ لیکن اس کے باوجود لوگ کہتے تھے کہ اس نے کسی کی بہو بیٹی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا۔ لنگوٹ کا بہت پکا ہے۔ غریبوں کے دکھ درد کا شریک ہے۔ عرب گلی۔۔۔۔۔۔صرف عرب گلی ہی نہیں، آس پاس جتنی گلیاں تھیں، ان میں جتنی نادار عورتیں تھی، سب ممد بھائی کو جانتی تھیں کیوں کہ وہ اکثر ان کی مالی امداد کرتا رہتا تھا۔ لیکن وہ خود ان کے پاس کبھی نہیں جاتا تھا۔ اپنے کسی خورد سال شاگرد کو بھیج دیتا تھا اور ان کی خیریت دریافت کرلیا کرتا تھا۔ مجھے معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے۔ اچھا کھاتا تھا، اچھا پہنتا تھا۔ اس کے پاس ایک چھوٹا سا تانگہ تھا جس میں بڑا تندرست ٹٹو جُتا ہوتا تھا، اس کووہ خود چلاتا تھا۔ ساتھ دو یا تین شاگرد ہوتے تھے، بڑے باادب۔۔۔۔۔۔ بھنڈی بازار کا ایک چکر لگا یاکسی درگاہ میں ہو کر وہ اس تانگے میں واپس عرب گلی آجاتا تھا اور کسی ایرانی کے ہوٹل میں بیٹھ کر اپنے شاگردوں کے ساتھ گتکے اور بنوٹ کی باتوں میں مصروف ہو جاتا تھا۔ میری کھولی کے ساتھ ہی ایک اور کھولی تھی جس میں مارواڑ کا ایک مسلمان رقاص رہتا تھا۔ اس نے مجھے ممد بھائی کی سینکڑوں کہانیاں سنائیں۔ اس نے مجھے بتایا کہ ممد بھائی ایک لاکھ روپے کا آدمی ہے۔ اس کو ایک مرتبہ ہیضہ ہوگیا تھا۔ ممد بھائی کو پتہ چلا تو اس نے فارس روڈ کے تمام ڈاکٹر اس کی کھولی میں اکٹھے کردیے اور ان سے کہا’’دیکھو، اگر عاشق حسین کو کچھ ہوگیا تو میں سب کا صفایا کردوں گا۔‘‘ عاشق حسین نے بڑے عقیدت مندانہ لہجے میں مجھ سے کہا۔’’منٹو صاحب!ممد بھائی فرشتہ ہے۔۔۔۔۔۔ فرشتہ۔۔۔۔۔۔ جب اس نے ڈا کٹروں کو دھمکی دی تو وہ سب کانپنے لگے۔ ایسا لگ کے علاج کیا کہ میں دو دن میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔ ممد بھائی کے متعلق میں عرب گلی کے گندے اور واہیات ریستورانوں میں اور بھی بہت کچھ سن چکا تھا۔ ایک شخص نے جو غالباً اس کا شاگرد تھا اور خود کو بہت بڑا پھکیت سمجھتا تھا، مجھ سے یہ کہا تھا کہ ممد دادا اپنے نیفے میں ایک ایسا آبدار خنجر اڑس کے رکھتا ہے جو استرے کی طرح شیو بھی کرسکتا ہے اور یہ خنجر نیام میں نہیں ہوتا، کھلا رہتا ہے۔ بالکل ننگا، اور وہ بھی اس کے پیٹ کے ساتھ۔ اس کی نوک اتنی تیکھی ہے کہ اگر باتیں کرتے ہوئے، جھکتے ہوئے اس سے ذرا سی غلطی ہو جائے تو ممد بھائی کا ایک دم کام تمام ہو کے رہ جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کو دیکھنے اور اس سے ملنے کا اشتیاق دن بدن میرے دل و دماغ میں بڑھتا گیا۔ معلوم نہیں میں نے اپنے تصور میں اس کی شکل و صورت کا کیا نقشہ تیار کیا تھا، بہر حال اتنی مدت کے بعد مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ میں ایک قوی ہیکل انسان کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتا تھا جس کا نام ممد بھائی تھا۔ اس قسم کا آدمی جوہر کولیس سائیکلوں پر اشتہار کے طور پر دیا جاتا ہے۔ میں صبح سویرے اپنے کام پر نکل جاتا تھا اوررات کو دس بجے کے قریب کھانے والے سے فارغ ہوکرواپس آکر فوراًسو جاتا تھا۔ اس دوران میں ممد بھائی سے کیسے ملاقات ہو سکتی تھی۔ میں نے کئی مرتبہ سوچا کہ کام پر نہ جاؤں اور سارا دن عرب گلی میں گزار کرممد بھائی کو دیکھنے کی کوشش کروں، مگر افسوس کہ میں ایسا نہ کرسکا اس لیے کہ میری ملازمت ہی بڑی واہیات قسم کی تھی۔ ممد بھائی سے ملاقات کرنے کی سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک انفلوائنزا نے مجھ پر زبردست حملہ کیا۔ ایسا حملہ کہ میں بوکھلا گیا۔ خطرہ تھا کہ یہ بگڑ کر نمونیا میں تبدیل ہو جائے گا، کیوں کہ عرب گلی کے ایک ڈاکٹر نے یہی کہا تھا۔ میں بالکل تن تنہا تھا۔ میرے ساتھ جو ایک آدمی رہتا تھا، اس کو پونہ میں نوکری مل گئی تھی،اس لیے اس کی رفاقت بھی نصیب نہیں تھی۔ میں بخار میں پھنکا جارہا تھا۔ اس قدر پیاس تھی کہ جو پانی کھولی میں رکھا تھا، وہ میرے لیے ناکافی تھا۔ اور دوست یار کوئی پاس نہیں تھا جو میری دیکھ بھال کرتا۔ میں بہت سخت جان ہوں، دیکھ بھال کی مجھے عموماً ضرورت محسوس نہیں ہواکرتی۔مگر معلوم نہیں کہ وہ کسی قسم کا بخار تھا۔ انفلوائنزا تھا، ملیریاتھا یا اور کیا تھا۔ لیکن اس نے میری ریڑھ کی ہڈی توڑ دی۔ میں بلبلانے لگا۔ میرے دل میں پہلی مرتبہ خواہش پیدا ہوئی کہ میرے پاس کوئی ہو جو مجھے دلاسہ دے۔ دلاسہ نہ دے تو کم از کم ایک سیکنڈ کے لیے اپنی شکل دکھا کے چلا جائے تاکہ مجھے یہ خوشگوار احساس ہو کہ مجھے پوچھنے والا بھی کوئی ہے۔ دو دن تک میں بستر میں پڑا تکلیف بھری کروٹیں لیتا رہا، مگر کوئی نہ آیا۔۔۔۔۔۔ آنا بھی کسے تھا۔۔۔۔۔۔ میری جان پہچان کے آدمی ہی کتنے تھے۔۔۔۔۔۔ دو تین یا چار۔۔۔۔۔۔ اور وہ اتنی دور رہتے تھے کہ ان کو میری موت کا علم بھی نہیں ہوسکتا تھا۔۔۔۔۔۔ اور پھروہاں بمبئی میں کون کس کو پوچھتا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی مرے یا جیے۔۔۔۔۔۔ ان کی بلا سے۔۔۔۔۔۔ میری بہت بری حالت تھی۔ عاشق حسین ڈانسر کی بیوی بیمار تھی اس لیے وہ اپنے وطن جا چکا تھا۔ یہ مجھے ہوٹل کے چھوکرے نے بتایا تھا۔ اب میں کس کو بلاتا۔۔۔۔۔۔ بڑی نڈھال حالت میں تھا اور سوچ رہا تھا کہ خود نیچے اتروں اور کسی ڈاکٹر کے پاس جاؤں کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ میں نے خیال کہ ہوٹل کا چھوکرا جسے بمبئی کی زبان میں’باہر والا‘ کہتے ہیں، ہوگا۔بڑی مریل آواز میں کہا۔’’آجاؤ!‘‘ دروازہ کھلا اور ایک چھریرے بدن کا آدمی، جس کی مونچھیں مجھے سب سے پہلے دکھائی دیں، اندر داخل ہوا۔ اس کی مونچھیں ہی سب کچھ تھیں۔ میرا مطلب یہ ہے کہ اگر اس کی مونچھیں نہ ہوتیں تو بہت ممکن ہے کہ وہ کچھ بھی نہ ہوتا۔ اس کی مونچھوں ہی سے ایسا معلوم ہوتا تھاکہ اس کے سارے وجود کو زندگی بخش رکھی ہے۔ وہ اندر آیا اور اپنی قیصر ولیم جیسی مونچھوں کو ایک انگلی سے ٹھیک کرتے ہوئے میری کھاٹ کے قریب آیا۔اس کے پیچھے پیچھے تین چار آدمی تھے، عجیب و غریب وضع قطع کے۔ میں بہت حیران تھا کہ یہ کون ہیں اور میرے پاس کیوں آئے ہیں۔ قیصر ولیم جیسی مونچھوں اور چھریرے بدن والے نے مجھ سے بڑی نرم و نازک آواز میں کہا۔’’ومٹو صاحب! آپ نے حد کردی۔ سالا مجھے اطلاع کیوں نہ دی؟‘‘ منٹو کا ومٹو بن جانا میرے لیے کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس کے علاوہ میں اس موڈ میں بھی نہیں تھا کہ میں اس کی اصلاح کرتا۔ میں نے اپنی نحیف آواز میں اس کی مونچھوں سے صرف اتنا کہا۔’’ آپ کون ہیں؟‘‘ اس نے مختصر سا جواب دیا۔’’ممد بھائی!‘‘ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔توآپ ممد بھائی بھائی ہیں۔۔۔۔۔۔مشہور د ادا!‘‘ میں نے یہ کہہ تو دیا۔ لیکن فوراً مجھے اپنے بینڈے پن کا احساس ہوا اور رک گیا۔ممد بھائی نے چھوٹی انگلی سے اپنی مونچھوں کے کرخت بال ذرا اوپر کیے اور مسکرایا۔’’ہاں ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔ میں ممد ہوں۔۔۔۔۔۔ یہاں کا مشہوردادا۔۔۔۔۔۔ مجھے باہر والے سے معلوم ہوا کہ تم بیمار ہو۔۔۔۔۔۔ سالا یہ بھی کوئی بات ہے کہ تم نے مجھے خبر نہ کی۔ ممد بھائی کا مستک پھر جاتا ہے، جب کوئی ایسی بات ہوتی ہے۔‘‘ میں جواب میں کچھ کہنے والا تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں میں سے ایک سے مخاطب ہو کر کہا’’ارے۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے تیرا۔۔۔۔۔۔جا بھاگ کے جا، اور کیا نام ہے اس ڈاکٹر کا۔۔۔۔۔۔ سمجھ گئے نا اس سے کہہ کہ ممد بھائی تجھے بلاتا ہے۔۔۔۔۔۔ ایک دم جلدی آ۔۔۔۔۔۔ ایک دم سب کام چھوڑ دے اور جلدی آ۔۔۔۔۔۔ اور دیکھ سالے سے کہنا، سب دوائیں لیتا آئے۔‘‘ ممد بھائی نے جس کو حکم دیا تھا، وہ ایک دم چلا گیا۔ میں سوچ رہا تھا۔ میں اس کو دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ تمام داستانیں میرے بخار آلود دماغ میں چل پھر رہی تھیں۔ جو میں اس کے متعلق لوگوں سے سن چکا تھا۔۔۔ ۔۔۔لیکن گڈ مڈ صورت میں۔ کیوں کہ بار بار اس کو دیکھنے کی وجہ سے اس کی مونچھیں سب پر چھا جاتی تھیں۔ بڑی خوفناک، مگر بڑی خوبصورت مونچھیں تھیں۔ لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس چہرے کو جس کے خدوخال بڑے ملائم اور نرم ونازک ہیں، صرف خوفناک بنانے کے لیے یہ مونچھیں رکھی گئی ہیں۔ میں نے اپنے بخار آلود دماغ میں یہ سوچا کہ یہ شخص درحقیقت اتنا خوفناک نہیں جتنا اس نے خود کو ظاہر کر رکھا ہے۔ کھولی میں کرسی نہیں ۔ میں نے ممد بھائی سے کہا وہ میری چارپائی پر بیٹھ جائے۔ مگر اس نے انکار کردیا اور بڑے روکھے سے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔’’ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ہم کھڑے رہیں گے۔‘‘ پھر اس نے ٹہلتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ حالانکہ اس کھولی میں اس عیاشی کی کوئی گنجائش نہیں تھی، کرتے کا دامن اٹھا کر پاجامے کے نیفے سے ایک خنجر نکالا۔۔۔۔۔۔ میں سمجھا چاندی کا ہے۔ اس قدر لشک رہا تھا کہ میں آپ سے کیا کہوں۔یہ خنجر نکال کر پہلے اس نے اپنی کلائی پر پھیرا۔ جو بال اس کی زد میں آئے، سب صاف ہوگئے۔ اس نے اس پر اپنے اطمینان کا اظہار کیا اور ناخن تراشنے لگا۔ اس کی آمد ہی سے میرا بخار کئی درجے نیچے اتر گیا تھا۔ میں نے اب کسی قدر ہوش مند حالت میں اس سے کہا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ چھری تم اس طرح اپنے۔۔۔۔۔۔نیفے میں۔۔۔۔۔۔ یعنی بالکل اپنے پیٹ کے ساتھ رکھتے ہو اتنی تیز ہے، کیا تمہیں خوف محسوس نہیں ہوتا؟‘‘ ممد نے خنجرسے اپنے ناخن کی ایک قاش بڑی صفائی سے اڑاتے ہوئے جواب دیا۔’’ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔یہ چھری دوسروں کے لیے ہے۔ یہ اچھی طرح جانتی ہے۔ سالی، اپنی چیزہے، مجھے نقصان کیسے پہنچائے گی؟‘‘ چھری سے جو رشتہ اس نے قائم کیا تھا وہ کچھ ایسا ہی تھا جیسے کوئی ماں یا باپ کہے کہ یہ میرا بیٹا ہے، یا بیٹی ہے۔ اس کا ہاتھ مجھ پر کیسے اٹھ سکتا ہے۔ ڈاکٹر آگیا۔۔۔۔۔۔ اس کا نام پنٹو تھا اور میں ومٹو۔۔۔۔۔۔ اس نے ممد بھائی کو اپنے کرسچیئن انداز میں سلام کیا اورپوچھا کہ معاملہ کیا ہے۔جو معاملہ تھا، وہ ممد بھائی نے بیان کردیا۔ مختصر، لیکن کڑے الفاظ میں، جن میں تحکم تھا کہ دیکھو اگر تم نے ومٹو بھائی کا علاج اچھی طرح نہ کیا تو تمہاری خیر نہیں۔ ڈاکٹر پنٹو نے فرمانبردار لڑکے کی طرح اپنا کام کیا۔ میری نبض دیکھی۔۔۔۔۔۔سٹیتھو سکوپ لگا میرے سینے اور پیٹھ کا معائنہ کیا۔ بلڈ پریشر دیکھا۔ مجھ سے میری بیماری کی تمام تفصیل پوچھی۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے نہیں، ممد بھائی سے کہا۔’’کوئی فکر کی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ملیریا ہے۔۔۔۔۔۔ میں انجکشن لگا دیتا ہوں۔‘‘ ممد بھائی مجھ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا۔ اس نے ڈاکٹر پنٹو کی بات سنی اور خنجر سے اپنی کلائی کے بال اڑاتے ہوئے کہا۔’’میں کچھ نہیں جانتا۔ انجکشن دینا ہے تو دے، لیکن اگر اسے کچھ ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔‘‘ ڈاکٹر پنٹو کانپ گیا۔’’نہیں ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ممد بھائی نے خنجر اپنے نیفے میں اڑس لیا۔’’تو ٹھیک ہے۔‘‘ ’’تو میں انجکشن لگاتا ہوں۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنا بیگ کھولا اور سرنج نکالی۔۔۔۔۔۔ ’’ٹھہرو۔۔۔۔۔۔ٹھہرو۔۔۔۔۔۔‘‘ ممد بھائی گھبرا گیا تھا۔ ڈاکٹر نے سرنج فوراً بیگ میں واپس رکھی دی اور ممیاتے ہوئے ممد بھائی سے مخاطب ہوا۔’’کیوں؟‘‘ ’’بس۔۔۔۔۔۔ میں کسی کے سوئی لگتے نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھولی سے باہر چلا گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے ساتھی بھی چلے گئے۔ ڈاکٹر پنٹو نے میرے کونین کا انجکشن کا لگایا۔ بڑے سلیقے سے، ورنہ ملیریا کا یہ انجکشن بڑا تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جب وہ فارغ ہوا تو میں نے اس سے فیس پوچھی۔ اس نے کہا’’دس روپے!‘‘ میں تکیے کے نیچے سے اپنا بٹوہ نکال رہا تھا کہ ممد بھائی اندر آگیا۔ اس وقت میں دس روپے کا نوٹ ڈاکٹر پنٹو کو دے رہا تھا۔ ممد بھائی نے غضب آلود نگاہوں سے مجھے اور ڈاکٹر کودیکھا اور گرج کر کہا۔’’یہ کیا ہورہا ہے؟‘‘ میں نے کہا۔’’فیس دے رہا ہوں۔‘‘ ممد بھائی ڈاکٹر پنٹو سے مخاطب ہوا۔’’سالے یہ فیس کیسی لے رہے ہو؟‘‘ ڈاکٹر پنٹو بوکھلا ہوگیا۔’’ میں کب لے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ دے رہے تھے!‘‘ ’’سالا۔۔۔۔۔۔ہم سے فیس لیتے ہو۔۔۔۔۔۔ واپس کرو یہ نوٹ!‘‘ممد بھائی کے لہجے میں اس کے خنجر ایسی تیزی تھی۔ ڈاکٹر پنٹو نے مجھے نوٹ واپس کردیا اور بیگ بند کرکے ممد بھائی سے معذرت طلب کرتے ہوئے چلا گیا۔ ممد بھائی نے ایک انگلی سے اپنی کانٹوں ایسی مونچھوں کو تاؤ دیا اور مسکرایا۔’’ومٹو بھائی۔۔۔۔۔۔ یہ بھی کوئی بات ہے کہ اس علاقے کا ڈاکٹر تم سے فیس لے۔۔۔۔۔۔ تمہاری قسم، اپنی مونچھیں منڈوا دیتا اگر اس سالے نے فیس لی ہوتی۔۔۔۔۔۔ یہاں سب تمہارے غلام ہیں۔‘‘ تھوڑے سے توقف کے بعد میں نے اس سے پوچھا۔’’ممد بھائی! تم مجھے کیسے جانتے ہو؟‘‘ ممد بھائی کی مونچھیں تھرتھرائیں۔’’ممد بھائی کسے نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔ ہم یہاں کے بادشاہ ہیں پیارے۔۔۔۔۔۔ اپنی رعایا کا خیال رکھتے ہیں۔ ہماری سی آئی ڈی ہے۔ وہ ہمیں بتاتی رہتی ہے۔۔۔۔۔۔ کون آیا ہے، کون گیا ہے، کون اچھی حالت ہے، کون بری حالت میں۔۔۔۔۔۔ تمہارے متعلق ہم سب کچھ جانتے ہیں۔‘‘ میں نے ازراہ تفنن پوچھا۔’’کیا جانتے ہیں آپ؟‘‘ سالا۔۔۔۔۔۔ہم کیا نہیں جانتے۔۔۔۔۔۔ تم امرتسر کا رہنے والا ہے۔۔۔۔۔۔ کشمیری ہے۔۔۔۔۔۔ یہاں اخباروں میں کام کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ تم نے بسم اللہ ہوٹل کے دس روپے دینے ہیں، اسی لیے تم ادھر سے نہیں گزرتے۔ بھنڈی بازار میں ایک پان والا تمہاری جان کو روتا ہے۔ اس سے تم بیس روپے دس آنے سے سگریٹ لے کر پھونک چکے ہو۔‘‘ میں پانی پانی ہوگیا۔ ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور مسکرا کہا۔’’ومٹو بھائی!کچھ فکر نہ کرو۔ تمہارے سب قرض چکا دیے گئے ہیں۔ اب تم نئے سرے سے معاملہ شروع کرسکتے ہو۔ میں نے ان سالوں سے کہہ دیا ہے کہ خبردار! اگر ومٹو بھائی کو تم نے تنگ کیا۔۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی تم سے کہتا ہے کہ انشاء اللہ کوئی تمہیں تنگ نہیں کرے گا۔‘‘ میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس سے کیا کہوں۔ بیمار تھا، کونین کا ٹیکہ لگ چکا تھا۔ جس کے باعث کانوں میں شائیں شائیں ہورہی تھی۔ اس کے علاوہ میں اس کے خلوص کے نیچے اتنا دب چکا تھا کہ اگر مجھے کوئی نکالنے کی کوشش کرتا تو اسے بہت محنت کرنی پڑتی۔۔۔۔۔۔ میں صرف اتنا کہہ سکا۔’’ممد بھائی! خدا تمہیں زندہ رکھے۔۔۔۔۔۔ تم خوش رہو۔‘‘ ممد بھائی نے اپنی مونچھوں کے بال ذرا اوپر کیے اور کچھ کہے بغیر چلا گیا۔ ڈاکٹر پنٹو ہر روز صبح شام آتا رہا۔ میں نے اس سے کئی مرتبہ فیس کا ذکر کیا مگر اس نے کانوں کو ہاتھ لگا کر کہا۔’’نہیں، مسٹر منٹو!ممد بھائی کا معاملہ ہے میں ایک ڈیڑھیا بھی نہیں لے سکتا۔‘‘ میں نے سوچا یہ ممد بھائی کوئی بہت بڑا آدمی ہے۔ یعنی خوفناک قسم کا جس سے ڈاکٹر پنٹو جو بڑا خسیس قسم کا آدمی ہے، ڈرتا ہے اور مجھ سے فیس لینے کی جرات نہیں کرتا۔ حالانکہ وہ اپنی جیب سے انجکشنوں پر خرچ کررہا ہے۔ بیماری کے دوران میں ممد بھائی بھی بلاناغہ آتا رہا۔ کبھی صبح آتا، کبھی شام کو، اپنے چھ سات شاگردوں کے ساتھ۔ اور مجھے ہر ممکن طریقے سے ڈھارس دیتا تھا کہ معمولی ملیریا ہے، تم ڈاکٹر پنٹو کے علاج سے انشاء اللہ بہت جلد ٹھیک ہو جاؤ گے۔ پندرہ روز کے بعد میں ٹھیک ٹھاک ہوگیا۔ اس دوران میں ممد بھائی کے ہر خدوخال کو اچھی طرح دیکھ چکا تھا۔ جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں، وہ چھریرے بدن کا آدمی تھا۔ عمر یہی پچیس تیس کے درمیان ہوگی۔ پتلی پتلی بانھیں، ٹانگیں بھی ایسی ہی تھیں۔ ہاتھ بلا کے پھرتیلے تھے۔ ان سے جب وہ چھوٹا تیز دھار چاقو کسی دشمن پر پھینکتا تھا تو وہ سیدھا اس کے دل میں کُھبتا تھا۔ یہ مجھے عرب کے گلی نے بتایا تھا۔ اس کے متعلق بے شمار باتیں مشہور تھیں، اس نے کسی کو قتل کیا تھا، میں اس کے متعلق وثوق سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ چھری مار وہ اول درجے کا تھا۔ بنوٹ اور گتکے کا ماہر۔ یوں سب کہتے تھے کہ وہ سینکڑوں قتل کر چکا ہے، مگر میںیہ اب بھی ماننے کو تیار نہیں۔ لیکن جب میں اس کے خنجر کے متعلق سوچتا ہوں تو میرے تن بدن پر جھرجھری سی طاری ہو جاتی ہے۔ یہ خوفناک ہتھیار وہ کیوں ہر وقت اپنی شلوار کے نیفے میں اڑسے رہتا ہے۔ میں جب اچھا ہوگیا تو ایک دن عرب گلی کے ایک تھرڈ کلاس چینی ریستوران میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ وہ اپنا وہی خوفناک خنجر نکال کر اپنے ناخن کاٹ رہا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا۔’’ ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ آج کل بندوق پستول کا زمانہ ہے۔۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر کیوں لیے پھرتے ہو؟‘‘ ممد بھائی نے اپنی کرخت مونچھوں پر ایک انگلی پھیری اور کہا’’ومٹو بھائی! بندوق پستول میں کوئی مزا نہیں۔ انھیں کوئی بچہ بھی چلا سکتا۔ گھوڑا دبایا اور ٹھاہ۔۔۔۔۔۔ اس میں کیا مزا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ چیز۔۔۔۔۔۔یہ خنجر۔۔۔۔۔۔ یہ چھری۔۔۔۔۔۔یہ چاقو۔۔۔۔۔۔ مزا آتا ہے نا، خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔ یہ وہ ہے۔۔۔۔۔۔ تم کیا کہا کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ہاں۔۔۔۔۔۔ آرٹ۔۔۔۔۔۔ اس میں آرٹ ہوتا ہے میری جان۔۔۔۔۔۔ جس کوچاقو یا چھری چلانے کا آرٹ نہ آتا ہو وہ ایک دم کنڈم ہے۔ پستول کیا ہے۔۔۔۔۔۔ کھلونا ہے۔۔۔۔۔۔ جو نقصان پہنچا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ پر اس میں کیا لطف آتا ہے۔۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ تم یہ خنجر دیکھو۔۔۔۔۔۔ اس کی تیز دھار دیکھو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس نے انگوٹھے پر لب لگایا اور اس کی دھار پر پھیرا۔’’اس سے کوئی دھماکہ نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔بس، یوں پیٹ کے اندر داخل کردو۔۔۔۔۔۔ اس صفائی سے کہ اس سالے کو معلوم تک نہ ہو۔۔۔۔۔۔بندوق، پستول سب بکواس ہے۔‘‘ ممد بھائی سے اب ہر روز کسی نہ کسی وقت ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں اس کا ممنون احسان تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن جب میں اس کا ذکر کیا کرتا تو وہ ناراض ہو جاتا۔ کہتا تھا کہ میں نے تم پر کوئی احسان نہیں کیا، یہ تو میرا فرض تھا۔ جب میں نے کچھ تفتیش کی تو مجھے معلوم ہوا کہ فارس روڈ کے علاقے کا وہ ایک قسم کا حاکم ہے۔ ایسا حاکم جو ہر شخص کی خبر گیری کرتا تھا۔ کوئی بیمار ہو، کسی کے کوئی تکلیف ہو، ممد بھائی اس کے پاس پہنچ جاتا تھا اور یہ اس کی سی آئی ڈی کا کام تھاجو اس کو ہر چیز سے باخبر رکھتی تھی۔ وہ دادا تھا یعنی ایک خطرناک غنڈہ۔ لیکن میری سمجھ میں اب بھی نہیںآتا کہ وہ کس لحاظ سے غنڈہ تھا۔ خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے اس میں کوئی غنڈہ پن نہیں دیکھا۔ ایک صرف اس کی مونچھیں تھیں جو اس کو ہیبت ناک بنائے رکھتی تھیں۔ لیکن اس کو ان سے پیار تھا۔ وہ ان کی اس طرح پرورش کرتا تھا جس طرح کوئی اپنے بچے کی کرے۔ اس کی مونچھوں کا ایک ایک بال کھڑا تھا، جیسے خارپشت کا۔۔۔۔۔۔ مجھے کسی نے بتایا کہ ممد بھائی ہرروز اپنی مونچھوں کو بالائی کھلاتا ہے۔ جب کھانا کھاتا ہے تو سالن بھری انگلیوں سے اپنی مونچھیں ضرور مروڑتا ہے کہ بزرگوں کے کہنے کے مطابق یوں بالوں میں طاقت آتی ہے۔ میں اس سے پیشتر غالباً کئی مرتبہ کہہ چکا ہوں کہ اس کی مونچھیں بڑی خوفناک تھیں۔ دراصل مونچھوں کا نام ہی ممد بھائی تھا۔۔۔۔۔۔ یا اس خنجر کا جو اس کی تنگ گھیرے کی شلوار کے نیفے میں ہر وقت موجود رہتا تھا۔ مجھے ان دونوں چیزوں سے ڈر لگتا تھا، نہ معلوم کیوں۔۔۔۔۔۔ ممد بھائی یوں تو اس علاقے کا بہت بڑا دادا تھا، لیکن وہ سب کا ہمدرد تھا۔ معلوم نہیں اس کی آمدنی کے کیا ذرائع تھے، پر وہ ہر حاجت مند کی بروقت مدد کرتاتھا۔ اس علاقے کی تمام رنڈیاں اس کو اپنا پیر مانتی تھی۔ چونکہ وہ ایک مانا ہوا غنڈہ تھا، اس لیے لازم تھا کہ اس کا تعلق وہاں کی کسی طوائف سے ہوتا، مگر مجھے معلوم ہوا کہ اس قسم کے سلسلے سے اس کا دور کا بھی تعلق نہیں رہا تھا۔ میری اس کی بڑی دوستی ہوگئی تھی۔ ان پڑھ تھا، لیکن جانے کیوں وہ میری اتنی عزت کرتا تھا کہ عرب گلی کے تمام آدمی رشک کرتے تھے۔ ایک دن صبح سویرے، دفتر جاتے وقت میں نے چینی کے ہوٹل میں کسی سے سنا کہ ممد بھائی گرفتار کرلیا گیا ہے۔ مجھے بہت تعجب ہوا، اس لیے کہ تمام تھانے والے اس کے دوست تھے۔ کیا وجہ ہوسکتی تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے آدمی سے پوچھا کہ کیا بات ہوئی جو ممد بھائی گرفتار ہوگیا۔ اس نے مجھ سے کہا کہ اسی عرب گلی میں ایک عورت رہتی ہے، جس کا نام شیریں بائی ہے۔ اس کی ایک جوان لڑکی ہے، اس کو کل ایک آدمی نے خراب کردیا۔ یعنی اس کی عصمت دری کردی۔ شیریں بائی روتی ہوئی ممد بھائی کے پاس آئی اور اس سے کہا’’تم یہاں کے دادا ہو۔ میری بیٹی سے فلاں آدمی نے یہ برا کیا ہے۔۔۔۔۔۔ لعنت ہے تم پر کہ تم گھر میں بیٹھے ہو۔‘‘ ممد بھائی نے یہ موٹی گالی اس بڑھیا کو دی اور کہا۔’’تم چاہتی کیا ہو؟‘‘ اس نے کہا’’ میں چاہتی ہوں کہ تم اس حرامزادے کا پیٹ چاک کردو۔‘‘ ممد بھائی اس وقت ہوٹل میں سیس پاؤں کے ساتھ قیمہ کھا رہا تھا۔ یہ سن کر اس نے اپنے نیفے میں سے خنجر نکالا۔ اس پر انگوٹھا پھیر کر اس کی دھار دیکھی اور بڑھیا سے کہا۔’’جا۔۔۔۔۔۔تیرا کام ہو جائے گا۔‘‘ اور اس کا کام ہوگیا۔۔۔۔۔۔ دوسرے معنوں میں جس آدمی نے اس بڑھیا کی لڑکی کی عصمت دری کی تھی، آدھ گھنٹے کے اندر اندر اس کا کام تمام ہوگیا۔ ممد بھائی گرفتار تو ہوگیا تھا، مگر اس نے کام اتنی ہوشیاری اور چابک دستی سے کیا تھا کہ اس کے خلاف کوئی شہادت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اگر کوئی عینی شاہد موجود بھی ہوتا تو وہ کبھی عدالت میں بیان نہ دیتا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اس کو ضمانت پررہا کردیا گیا۔ دو دن حوالات میں رہا تھا، مگر اس کو وہاں کوئی تکلیف نہ تھی۔ پولیس کے سپاہی،انسپکٹر، سب انسپکٹرسب اس کو جانتے تھے۔ لیکن جب وہ ضمانت پر رہا ہو کرباہر آیا تو میں نے محسوس کیا کہ اسے اپنی زندگی کا سب سے بڑا دھچکا پہنچا ہے۔ اس کی مونچھیں جو خوفناک طورپر اوپرکو اٹھی ہوتی تھیں اب کسی قدر جھکی ہوئی تھیں۔ چینی کے ہوٹل میں اس سے میری ملاقات ہوئی۔ اس کے کپڑے جو ہمیشہ اجلے ہوتے تھے، میلے تھے۔ میں نے اس سے قتل کے متعلق کوئی بات نہ کی لیکن اس نے خود کہا’’ومٹو صاحب! مجھے اس بات کا افسوس ہے کہ سالا دیر سے مرا۔۔۔۔۔۔ چھری مارنے میں مجھ سے غلطی ہوگئی، ہاتھ ٹیڑھا پڑا۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ بھی اس سالے کا قصور تھا۔۔۔۔۔۔ ایک دم مڑ گیا اور اس وجہ سے سارا معاملہ کنڈم ہوگیا۔۔۔۔۔۔لیکن مر گیا۔۔۔۔۔۔ ذرا تکلیف کے ساتھ، جس کا مجھے افسوس ہے۔‘‘ آپ خود سوچ سکتے ہیں کہ میرا رد عمل کیا ہوگا۔ یعنی اس کو افسوس تھا کہ وہ اسے بطریق احسن قتل نہ کرسکا، اور یہ کہ مرنے میں اسے ذرا تکلیف ہوئی ہے۔ مقدمہ چلنا تھا۔۔۔۔۔۔ اور ممد بھائی اس سے بہت گھبراتا تھا۔ اس نے اپنی زندگی میں عدالت کی شکل کبھی نہیں دیکھی تھی۔ معلوم نہیں اس نے اس سے پہلے بھی قتل کیے تھے کہ نہیں لیکن جہاں تک میری معلومات کا تعلق نہیں وہ مجسٹریٹ، وکیل اور گواہ کے متعلق کچھ نہیں جانتا تھا، اس لیے کہ اس کا سابقہ ان لوگوں سے کبھی پڑا نہیں تھا۔ وہ بہت فکر مند تھا۔ پولیس نے جب کیس پیش کرنا چاہا اور تاریخ مقرر ہوگئی تو ممد بھائی بہت پریشان ہوگیا۔ عدالت میں مجسٹریٹ کے سامنے کیسے حاضر ہوا جاتا ہے، اس کے متعلق اس کو قطعاً معلوم نہیں تھا۔ بار بار وہ اپنی کرخت مونچھوں پر انگلیاں پھیرتا اور مجھ سے کہتا تھا۔’’ومٹو صاحب! میں مر جاؤں گا پرکورٹ نہیں جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ سالی، معلوم نہیں کیسی جگہ ہے۔‘‘ عرب گلی میں اس کے کئی دوست تھے۔ انھوں نے اس کو ڈھارس دی کہ معاملہ سنگین نہیں ہے۔ کوئی گواہ موجود نہیں، ایک صرف اس کی مونچھیں ہیں جو مجسٹریٹ کے دل میں اس کے خلاف یقینی طور پر کوئی مخالف جذبہ پیدا کرسکتی ہیں۔ جیسا کہ میں اس سے پیشتر کہہ چکا ہوں کہ اس کی صرف مونچھیں ہی تھیں جو اس کو خوفناک بناتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اگر یہ نہ ہوتیں تو وہ ہرگز ہرگز’’دادا‘‘ دکھائی نہ دیتا۔ اس نے بہت غور کیا۔ اس کی ضمانت تھانے ہی میں ہو گئی تھی۔ اب اسے عدالت میں پیش ہونا تھا۔ مجسٹریٹ سے وہ بہت گھبراتا تھا۔ ایرانی کے ہوٹل میں جب میری ملاقات ہوئی تو میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت پریشان ہے۔ اس کو اپنی مونچھوں کے متعلق بڑی فکر تھی۔ وہ سوچتا تھا کہ ان کے ساتھ اگر وہ عدالت میں پیش ہوا تو بہت ممکن ہے اس کو سزا ہو جائے۔ آپ سمجھتے ہیں کہ یہ کہانی ہے، مگر یہ واقعہ ہے کہ وہ بہت پریشان تھا۔ اس کے تمام شاگرد حیران تھے، اس لے کہ وہ کبھی حیران و پریشان نہیں ہوا تھا۔ اس کو مونچھوں کی فکر تھی کیوں کہ اس کے بعض قریبی دوستوں نے اس سے کہا تھا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔ کورٹ میں جانا ہے تو ان مونچھوں کے ساتھ کبھی نہ جانا۔۔۔۔۔۔مجسٹریٹ تم کو اندر کردے گا۔‘‘ اور وہ سوچتا تھا۔۔۔۔۔۔ ہر وقت سوچتا تھا کہ اس کی مونچھوں نے اس آدمی کوقتل کیا ہے یا اس نے۔۔۔۔۔۔لیکن کسی نتیجے پر پہنچ نہیں سکتا تھا۔ اس نے اپنا خنجر معلوم نہیں جو پہلی مرتبہ خون آشناہوا تھا یا اس سے پہلے کئی مرتبہ ہو چکا تھا، اپنے نیفے سے نکالا اور ہوٹل کے باہر گلی میں پھینک دیا۔ میں نے حیرت بھرے لہجے میں اس سے پوچھا۔’’ممد بھائی۔۔۔۔۔۔یہ کیا؟‘‘ ’’کچھ نہیں ومٹو بھائی۔ بہت گھوٹالا ہوگیا ہے۔ کورٹ میں جانا ہے۔۔۔۔۔۔یار دوست کہتے ہیں کہ تمہاری مونچھیں دیکھ کروہ ضرور تم کو سزا دے گا۔۔۔۔۔۔ اب بولو، میں کیا کروں؟‘‘ میں کیا بول سکتا تھا۔ میں نے اس کی مونچھوں کی طرف دیکھا جو واقعی بڑی خوفناک تھیں۔ میں نے اس سے صرف اتنا کہا۔’’ممد بھائی! بات تو ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ تمہاری مونچھیں مجسٹریٹ کے فیصلے پر ضرور اثر انداز ہوں گی۔۔۔۔۔۔سچ پوچھو تو جو کچھ ہوگا، تمہار خلاف نہیں۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے خلاف ہوگا۔‘‘ ’’تو میں منڈوادوں؟‘‘ممد بھائی نے اپنی چہیتی مونچھوں پر بڑے پیار سے انگلی پھیری۔۔۔۔۔۔ میں نے اس سے پوچھا۔’’تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘ ’’میرا خیال ہے جو کچھ بھی ہو، وہ تم نہ پوچھو۔۔۔۔۔۔ لیکن یہاں ہر شخص کا یہی خیال ہے کہ میں انھیں منڈوا دوں تاکہ وہ سالا مجسٹریٹ مہربان ہو جائے۔ تو منڈوادوں ومٹو بھائی؟‘‘ میں نے کچھ توقف کے بعد اس سے کہا۔’’ہاں، اگر تم مناسب سمجھتے ہو تو منڈوادو۔۔۔۔۔۔ عدالت کا سوال ہے اور تمہاری مونچھیں واقعی بڑی خوفناک ہیں۔‘‘ دوسرے دن ممد بھائی نے اپنی مونچھیں۔۔۔۔۔۔ اپنی جان سے عزیز مونچھیں منڈوا ڈالیں۔ کیوں کہ اس کی عزت خطرے میں تھی۔۔۔۔۔۔ لیکن صرف دوسرے کے مشورے پر۔۔۔۔۔۔ مسٹر ایف، ایچ، ٹیگ کی عدالت میں اس کا مقدمہ پیش ہوا۔ مونچھوں کے بغیر ممد بھائی بھائی پیش ہوا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ اس کے خلاف کوئی شہادت موجود نہیں تھی، لیکن مجسٹریٹ صاحب نے اس کو خطرناک غنڈہ قرار دیتے ہوئے تڑی پار یعنی صوبہ بدر کردیا۔ اس کو صرف ایک دن ملا تھا جس میں اسے اپنا تمام حساب کتاب طے کرکے بمبئی چھوڑ دینا تھا۔ عدالت سے باہر نکل کر اس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔ اس کی چھوٹی بڑی انگلیاں بار بار بالائی ہونٹ کی طرف بڑھتی تھیں۔۔۔۔۔۔ مگر وہاں کوئی بال ہی نہیں تھا۔ شام کو جب اسے بمبئی چھوڑ کر کہیں اور جانا تھا، میری اس کی ملاقات ایرانی کے ہوٹل میں ہوئی۔ اس کے دس بیس شاگرد آس پاس کرسیوں پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ جب میں اس سے ملا تواس نے مجھ سے کوئی بات نہ کی۔۔۔۔۔۔ مونچھوں کے بغیر وہ بہت شریف آدمی دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ وہ بہت مغموم ہے۔ اس کے پاس کرسی پر بیٹھ کر میں نے اس سے کہا۔’’ کیا بات ہے ممد بھائی؟‘‘ اس نے جواب میں ایک بہت بڑی گالی خدا معلوم کس کو دی اور کہا۔’’سالا، اب ممد بھائی ہی نہیں رہا۔‘‘ مجھے معلوم تھا کہ وہ صوبہ بدر کیا جکا ہے۔’’کوئی بات نہیں ممد بھائی!۔۔۔۔۔۔ یہاں نہیں تو کسی اور جگہ سہی!‘‘ اس نے تمام جگہوں کو بے شمار گالیاں دیں۔’’سالا۔۔۔۔۔۔ اپن کو یہ غم نہیں۔۔۔۔۔۔ یہاں رہیں یا کسی اور جگہ رہیں۔۔۔۔۔۔ یہ سالا مونچھیں کیوں منڈوائیں؟‘‘ پھر اس نے ان لوگوں کو جنہوں نے اس کو مونچھیں منڈوانے کا مشورہ دیا تھا، ایک کروڑ گالیاں دیں اور کہا۔’’سالا اگر مجھے تڑی پار ہی ہونا تھا تو مونچھوں کے ساتھ کیوں نہ ہوا۔۔۔۔۔۔‘‘ مجھے ہنسی آگئی۔ وہ آگ بگولا ہوگیا۔’’سالا تم کیسا آدمی ہے، ومٹو۔۔۔۔۔۔ ہم سچ کہتا ہے، خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔ ہمیں پھانسی لگا دیتے۔۔۔۔۔۔ پر۔۔۔۔۔۔ یہ بے وقوفی تو ہم نے خود کی۔۔۔۔۔۔ آج تک کسی سے نہ ڈرا تھا۔۔۔۔۔۔سالا اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے دوہتر اپنے منہ پرمارا۔’’ممد بھائی لعنت ہے تجھ پر۔۔۔۔۔۔سالا۔۔۔۔۔۔اپنی مونچھوں سے ڈر گیا۔۔۔۔۔۔ اب جا اپنی ماں کے۔۔۔۔۔۔‘‘ اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے جو اس کے مونچھوں بغیر چہرے پر کچھ عجیب سے دکھائی دیتے تھے۔
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
  #14  
Old Friday, August 07, 2015
Amna's Avatar
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default 13.Ghaurmukh Singh Ki Wasiyat

پہلے چھرا بھونکنے کی اِکا دُکا واردات ہوتی تھیں، اب دونوں فریقوں میں باقاعدہ لڑائی کی خبریں آنے لگی جن میں چاقو چھریوں کے علاوہ کرپانیں، تلواریں اور بندوقیں عام استعمال کی جاتی تھیں۔ کبھی کبھی دیسی ساخت کے بم پھٹنے کی اطلاع بھی ملتی تھی۔ امرتسر میں قریب قریب ہر ایک کا یہی خیال تھا کہ یہ فرقہ واردانہ فسادات دیر تک جاری نہیں رہیں گے۔ جوش ہے، جونہی ٹھنڈا ہوا، فضا پھر اپنی اصلی حالت پر آجائے گی۔ اس سے پہلے ایسے کئی فساد امرتسر میں ہو چکے تھے جو دیر پا نہیں تھے۔ دس سے پندرہ روز تک مار کٹائی کا ہنگامہ رہتا تھا، پھر خود بخود فرو ہو جاتا تھا۔ چنانچہ پرانے تجربے کی بنا پر لوگوں کا یہی خیال تھا کہ یہ آگ تھوڑی دیر کے بعد اپنا زور ختم کرکے ٹھنڈی ہو جائے گی۔مگر ایسا نہ ہوا۔ بلووں کا زور دن بدن بڑھتا ہی گیا۔ ہندوؤں کے محلے میں جو مسلمان رہتے تھے بھاگنے لگے۔ اسی طرح وہ ہندو جو مسلمانوں کے محلے میں تھے اپنا گھر بار چھوڑ کے محفوظ مقاموں کا رخ کرنے لگے۔ مگر یہ انتظام سب کے نزدیک عارضی تھا، اس وقت تک کے لیے جب فضا فسادات کے تکدر سے پاک ہو جانے والی تھی۔ میاں عبدالحیی ریٹائرڈ سب جج کو تو سو فی صدی یقین تھا کہ صورتحال بہت جلد درست ہو جائے گی، یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ پریشان نہیں تھے ان کا ایک لڑکا تھا گیارہ برس کا۔ ایک لڑکی تھی سترہ برس کی۔ ایک پرانا ملازم تھا جس کی عمر ستر کے لگ بھگ تھی۔ مختصر سا خاندان تھا۔ جب فسادات شروع ہوئے تو میاں صاحب نے بطور حفظِ ماتقدم کافی راشن گھر میں جمع کرلیا تھا۔ اس طرح سے وہ بالکل مطمئن تھے کہ اگر خدانخواستہ حالات کچھ زیادہ بگڑ گئے اور دکانیں وغیرہ بند ہوگئیں تو انھیں کھانے پینے کے معاملے میں تردو نہیں کرنا پڑے گا۔ لیکن ان کی جوان لڑکی صغریٰ بہت متردد تھی۔ ان کا گھر تین منزلہ تھا۔ دوسری عمارتوں کے مقابلے میں کافی اونچا۔ اس کی ممٹی سے شہر کا تین چوتھائی حصہ بخوبی نظر آتا تھا۔ صغریٰ اب کئی دنوں سے دیکھ رہی تھی کہ نزدیک دور کہیں نہ کہیں آگ لگی ہوتی ہے۔ شروع شروع میں تو فائر بریگیڈ کی ٹن ٹن سنائی دیتی تھی پر اب وہ بھی بند ہوگئی تھی، اس لیے کہ جگہ جگہ آگ بھڑکنے لگی تھی۔ رات کو اب کچھ اور ہی سماں ہوتا۔ گھپ اندھیرے میں آگ کے بڑے بڑے شعلے اٹھتے جیسے دیو ہیں جو اپنے منہ سے آگ کے فوارے سے چھوڑ رہے ہیں۔ پھر عجیب عجیب سی آوازیں آتیں جو ہر ہر مہادیو اور اللہ اکبر کے نعروں کے ساتھ مل کر بہت ہی وحشت ناک بن جاتیں۔ صغریٰ باپ سے اپنے خوف و ہراس کا ذکر نہیں کرتی تھی۔ اس لیے کہ وہ ایک بار گھر میں کہہ چکے تھے کہ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ سب ٹھیک ٹھاک ہو جائے گا۔ میاں صاحب کی باتیں اکثر درست ہوا کرتی تھیں۔ صغریٰ کو اس سے ایک گونہ اطمینان تھا۔ مگرجب بجلی کا سلسلہ منقطع ہوگیا اور ساتھ ہی نلوں میں پانی آنا بند ہوگیا تو اس نے میاں صاحب سے اپنی تشویش کا اظہار کیا اور ڈرتے ڈرتے رائے دی تھی کہ چند روز کے لیے شریف پورے اٹھ جائیں جہاں اڑوس پڑوس کے سارے مسلمان آہستہ آہستہ جارہے تھے۔ میاں صاحب نے اپنا فیصلہ نہ بدلا اور کہا۔’’بیکار گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ حالات بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔‘‘ مگر حالات بہت جلدی ٹھیک نہ ہو جائے اور دن بدن بگڑتے گئے۔ وہ محلہ جس میں میاں عبدالحیی کا مکان تھا مسلمانوں سے خالی ہوگیا۔ اور خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ میاں صاحب پر ایک روز اچانک فالج گرا جس کے باعث وہ صاحبِ فراش ہوگئے۔ ان کا لڑکا بشارت بھی جو پہلے اکیلا گھرمیں اوپر نیچے طرح طرح کے کھیلوں میں مصروف رہتا تھا اب باپ کی چارپائی کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا اور حالات کی نزاکت سمجھنے لگا۔ وہ بازار جو اُن کے مکان کے ساتھ ملحق تھا سنسنان پڑا تھا۔ ڈاکٹر غلام مصطفےٰ کی ڈسپنسری مدت سے بند پڑی تھی۔ اس سے کچھ دور ہٹ کر ڈاکٹر گوراندتامل تھے۔ صغریٰ نے شہ نشین سے دیکھا تھا کہ ان کی دکان میں بھی تالے پڑے ہیں۔ میاں صاحب کی حالت بہت مخدوش تھی۔ صغریٰ اس قدر پریشان تھی کہ اس کے ہوش و حواس بالکل جواب دے گئے تھے۔ بشارت کو الگ لے جا کر اس نے کہا۔’’ خدا کے لیے،تم ہی کچھ کرو۔ میں جانتی ہوں کہ باہر نکلنا خطرے سے خالی نہیں، مگر تم جاؤ۔۔۔۔۔۔ کسی کو بھی بلا لاؤ۔ اباجی کی حالت بہت خطرناک ہے۔‘‘ بشارت گیا، مگر فوراً ہی واپس آگیا۔ اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ چوک میں نے اس نے ایک لاش دیکھی تھی، خون سے تر بتر۔۔۔۔۔۔ اور پاس ہی بہت سے آدمی ٹھاٹے باندھے ایک دکان لوٹ رہے تھے۔ صغریٰ نے اپنے خوفزدہ بھائی کو سینے کے ساتھ لگایا اور صبر شکر کے بیٹھ گئی۔ مگر اُس سے اپنے باپ کی حالت نہیں دیکھی جاتی تھی۔ میاں صاحب کے جسم کا داہنا حصہ بالکل سن ہوگیا تھا جیسے اس میں جان ہی نہیں۔ گویائی میں بھی فرق پڑ گیا تھا اور وہ زیادہ تر اشاروں ہی سے باتیں کرتے تھے جس کا مطلب یہ تھا کہ صغریٰ گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ خدا کے فضل وکرم سے سب ٹھیک ہو جائے گا۔ کچھ بھی نہ ہوا۔ روزے ختم ہونے والے تھے۔ صرف دو رہ گئے تھے۔ میاں صاحب کا خیال تھا کہ عید سے پہلے پہلے فضا بالکل صاف ہو جائیگی مگر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ شاید عید ہی کا روز روزِ قیامت ہو، کیونکہ ممٹی پر سے اب شہر کے قریب قریب ہر حصے سے دھوئیں کے بادل اٹھتے دکھائی دیتے تھے۔ رات کو بم پھٹنے کی ایسی ایسی ہولناک آوازیں آتی تھیں کہ صغریٰ اور بشارت ایک لحظے کے لیے بھی سو نہیں سکتے تھے۔ صغریٰ کو یوں بھی باپ کی تیمارداری کے لیے جاگنا پڑتا تھا، مگر اب یہ دھماکے، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس کے دماغ کے اندر ہورہے ہیں۔ کبھی وہ اپنے مفلوج باپ کی طرف دیکھتی اور کبھی اپنے وحشت زدہ بھائی کی طرف۔۔۔۔۔۔ ستر برس کا بڈھا ملازم اکبر تھا جس کا وجود ہونے نہ ہونے کے برابر تھا۔ وہ سارا دن اور ساری رات پر اپنی کوٹھڑی میں کھانستا کھنکارتا اور بلغم نکالتا رہتا تھا۔ ایک روز تنگ آکر صغریٰ اس پر برس پڑی۔’’ تم کس مرض کی دوا ہو۔ دیکھتے نہیں ہو، میاں صاحب کی کیا حالت ہے۔ اصل میں تم پرلے درجے کے نمک حرام ہو۔ اب خدمت کا موقعہ آیا ہے تو دمے کا بہانہ کرکے یہاں پڑے رہتے ہو۔۔۔۔۔۔ وہ بھی خادم تھے جو آقا کے لیے اپنی جان تک قربان کردیتے تھے۔‘‘ صغریٰ اپنا جی ہلکا کرکے چلی گئی۔ بعد میں اس کو افسوس ہوا کہ ناحق اس غریب کو اتنی لعنت ملامت کی۔رات کا کھانا تھال میں لگا کر اس کی کوٹھڑی میں گئی تو دیکھا خالی ہے۔ بشارت نے گھر میں اِدھر اُدھر تلاش کیا مگر وہ نہ ملا۔ باہر کے دروازے کی کنڈی کھلی تھی جس کا یہ مطلب تھا کہ وہ میاں صاحب کے لیے کچھ کرنے گیا ہے۔ صغریٰ نے بہت دعائیں مانگیں کہ خدا اُسے کامیاب کرے لیکن دو دن گزر گئے اور وہ نہ آیا۔ شام کا وقت تھا۔ ایسی کئی شامیں صغریٰ اور بشارت دیکھ چکے تھے۔ جب عید کی آمد آمد کے ہنگامے برپا ہوتے تھے جب آسمان پر چاند دیکھنے کے لیے ان کی نظریں جمی رہتی تھیں۔ دوسرے روز عید تھی۔ صرف چاند کو اس کا اعلان کرنا تھا۔ دونوں اس اعلان کے لیے کتنے بے تاب ہوا کرتے تھے۔ آسمان پر چاند والی جگہ پر اگر بادل کا کوئی ہٹیلا ٹکڑہ جم جاتا توکتنی کوفت ہوتی تھی انھیں مگر اب چاروں صرف دھوئیں کے بادل تھے۔ صغریٰ اور بشارت دونوں ممٹی پر چڑھے۔ دور کہیں کہیں کوٹھوں لوگوں کے سائے دھبوں کی صورت میں دکھائی دیتے تھے،مگر معلوم نہیں یہ چاند دیکھ رہے تھے یا جگہ جگہ سلگتی اور بھڑکتی ہوئی آگ۔ چاند بھی کچھ ایسا ڈھیٹ تھا کہ دھوئیں کی چادر میں سے بھی نظر آگیا۔ صغریٰ نے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگی کہ خدا اپنا فضل کرے اور اس کے باپ کو تندرستی عطا فرمائے۔ بشارت دل ہی دل میں کوفت محسوس کررہا تھا کہ گڑ بڑ کے باعث ایک اچھی بھلی عید غارت ہوگئی۔ دن ابھی پوری طرح ڈھلا نہیں تھا۔ یعنی شام کی سیاہی ابھی گہری نہیں ہوئی تھی۔ میاں صاحب کی چارپائی چھڑکاؤ کیے ہوئے صحن میں بچھی تھی۔وہ اس پر بے حس و حرکت لیٹے تھے اور دور آسمان پر نگاہیں جمائے جانے کیا سوچ رہے تھے۔ عید کا چاند دیکھ کر جب صغریٰ نے پاس آکر انھیں سلام کیا تو انھوں نے اشارے سے جواب دیا۔ صغریٰ نے سر جھکایا تو انھوں نے وہ بازو جو ٹھیک تھا اٹھایا اور اس پر شفقت سے ہاتھ پھیرا۔ صغریٰ کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے تو میاں صاحب کی آنکھیں بھی نمناک ہوگئیں، مگر انھوں نے تسلی دینے کی خاطر بمشکل اپنی نیم مفلوج زبان سے یہ الفاظ نکالے۔’’ اللہ تبارک و تعالیٰ سب ٹھیک کردے گا۔‘‘ عین اسی وقت باہر دروازے پر دستک ہوئی۔ صغریٰ کا کلیجہ دھک سے رہ گیا۔ اس نے بشارت کی طرف دیکھا۔ جس کا چہرہ کاغذ کی طرح سفید ہوگیا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ میاں صاحب صغریٰ سے مخاطب ہوئے۔’’دیکھو، کون ہے!‘‘ صغریٰ نے سوچا کہ شاید بڈھا اکبر ہو۔ اس خیال ہی سے اس کی آنکھیں تمتما اٹھیں۔ بشارت کا بازو پکڑ کر اس نے کہا۔’’جاؤ دیکھو۔۔۔۔۔۔شاید اکبر آیا ہے۔‘‘ یہ سن کر میاں صاحب نے نفی میں یوں سر ہلایا جیسے وہ یہ کہہ رہے ہیں۔’’نہیں۔۔۔۔۔۔یہ اکبر نہیں ہے۔‘‘ صغریٰ نے کہا۔’’تو اور کون ہو سکتا ہے ابا جی؟‘‘ میاں عبدالحیی نے اپنی قوتِ گویائی پر زور دے کر کچھ کہنے کی کوشش کی کہ بشارت آگیا۔ وہ سخت خوفزدہ تھا ۔ ایک سانس اوپر، ایک نیچے، صغریٰ کو میاں صاحب کی چارپائی سے ایک طرف ہٹا کر اس نے ہولے سے کہا۔ ’’ایک سکھ ہے!‘‘ صغریٰ کی چیخ نکل گئی۔’’سکھ؟۔۔۔۔۔۔کیا کہتا ہے؟‘‘ بشارت نے جواب دیا۔’’کہتا ہے دروازہ کھولو۔‘‘ صغریٰ نے کانپتے ہوئے بشارت کو کھینچ کر اپنے ساتھ چمٹا لیا اور باپ کی چارپائی پر بیٹھ گئی اور اپنے باپ کی طرف ویران نظروں سے دیکھنے لگی۔ میاں عبدالحیّ کے پتلے پتلے بے جان ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ پیدا ہو گئی۔’’جاؤ۔۔۔۔۔۔ گورمکھ سنگھ ہے!‘‘ بشارت نے نفی میں سر ہلایا۔’’کوئی اور ہے؟‘‘ میاں صاحب نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔’’جاؤ صغریٰ وہی ہے!‘‘ صغریٰ اٹھی۔ وہ گورمکھ سنگھ کو جانتی تھی۔ پنشن لینے سے کچھ دیر پہلے اس کے باپ نے اس نام کے ایک سکھ کا کوئی کام کیا تھا۔ صغریٰ کو اچھی طرح یاد نہیں تھا۔شاید اس کو ایک جھوٹے مقدمے سے نجات دلائی تھی۔ جب سے وہ ہر چھوٹی عید سے ایک دن پہلے رومالی سویوں کا ایک تھیلا لیکر آیا کرتا تھا۔ اس کے باپ نے کئی مرتبہ اس سے کہا تھا۔’’سردار جی، آپ یہ تکلیف نہ کیا کریں۔‘‘ مگر وہ ہاتھ جوڑ کر جواب دیا کرتا تھا۔’’ میاں صاحب واہگورو جی کی کرپا سے آپ کے پاس سب کچھ ہے۔ یہ تو ایک تحفہ یہ جو میں جناب کی خدمت میں ہر سال لے کر آتا ہوں۔ مجھ پر جو آپ نے احسان کیا تھا۔ اس کا بدلہ تو میر ی سو پشت بھی نہیں چکا سکتی۔۔۔۔۔۔ خدا آپ خوش رکھے۔‘‘ سردار گورمکھ سنگھ کو ہر سال عید سے ایک روز پہلے سویوں کا تھیلا لاتے اتنا عرصہ ہوگیا تھا کہ صغریٰ کو حیرت ہوئی کہ اس نے دستک سن کر یہ کیوں خیال نہ کیا کہ وہی ہوگا، مگر بشارت بھی تو اس کو سینکڑوں مرتبہ دیکھ چکا تھا، پھر اس نے کیوں کہا کوئی اور ہے۔۔۔۔۔۔ اور کون ہو سکتا ہے۔ یہ سوچتی صغریٰ ڈیوڑھی تک پہنچی۔ دروازہ کھولے یا اندر ہی سے پوچھے، اس کے متعلق وہ ابھی فیصلہ ہی کررہی تھی کہ دروازے پر زور سے دستک ہوئی۔ صغریٰ کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ بمشکل تمام اس نے حلق سے آواز نکالی ہے۔’’کون ہے؟‘‘ بشارت پاس کھڑا تھا۔ اس نے دروازے کی ایک درز کی طرف اشارہ کیا اور صغریٰ سے کہا۔’’اس میں سے دیکھو؟‘‘ صغریٰ نے درز میں سے دیکھا۔ گورمکھ سنگھ نہیں تھا۔ وہ تو بہت بوڑھا تھا، لیکن یہ جو باہر تھڑے پر کھڑا تھا جوان تھا۔ صغریٰ ابھی درز پر آنکھ جمائے اس کا جائزہ لے رہی تھی کہ اس نے پھر دروازہ کھٹکھٹایا۔ صغریٰ نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں کاغذ کا تھیلا تھا ویسا ہی جیسا گورمکھ سنگھ لایا کرتا تھا۔ صغریٰ نے درز سے آنکھ ہٹائی اور ذرا بلند آواز میں دستک دینے والا سے پوچھا۔’’کون ہیں آپ؟‘‘ باہر سے آواز آئی۔’’جی۔۔۔۔۔۔جی میں۔۔۔۔۔۔ میں سردار گورمکھ سنگھ کا بیٹا ہوں۔۔۔۔۔۔سنتو کھ!‘‘ صغریٰ کا خوف بہت حد تک دور ہوگیا۔ بڑی شائستگی سے اس نے پوچھا۔’’فرمائیے۔ آپ کیسے آئے ہیں؟‘‘ باہرسے آواز آئی۔’’ جی۔۔۔۔۔۔ جج صاحب کہاں ہیں۔‘‘ صغریٰ نے جواب دیا ۔’’بیمار ہیں۔‘‘ سردار سنتوکھ سنگھ نے افسوس آمیز لہجے میں کہا۔’’اوہ۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے کاغذ کا تھیلا کھڑکھڑایا۔’’جی یہ سویاں ہیں۔۔۔۔۔۔ سردار جی کا دیہانت ہو گیا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ مر گئے ہیں!‘‘ صغریٰ نے جلدی سے پوچھا۔’’مر گئے ہیں؟‘‘ باہر سے آواز آئی۔’’جی ہاں۔۔۔۔۔۔ ایک مہینہ ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔ مرنے سے پہلے انھوں نے مجھے تاکید کی تھی کہ دیکھو بیٹھا، میں جج صاحب کی خدمت میں پورے دس برسوں سے ہر چھوٹی عید پر سویاں لے جاتا رہا ہوں۔۔۔ یہ کام میرے مرنے کے بعد اب تمہیں کرنا ہوگا۔۔۔۔۔۔ میں نے انھیں بچن دیا تھا۔ جو میں پورا کررہا ہوں۔۔۔۔۔۔ لے لیجئے سویاں۔‘‘ صغریٰ اس قدر متاثر ہوئی کہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس نے تھوڑا سا دروازہ کھولا۔ سردار گورمکھ سنگھ کے لڑکے نے سویوں کا تھیلا آگے بڑھادیا جو صغریٰ نے پکڑ لیا اور کہا۔’’خدا سردار جی کو جنت نصیب کرے۔‘‘ گورمکھ سنگھ کا لڑکا کچھ توقف کے بعد بولا۔’’جج صاحب بیمار ہیں؟‘‘ صغریٰ نے جواب دیا۔’’ جی ہاں!‘‘ ’’کیا بیماری ہے؟‘‘ ’’فالج‘‘ ’’اوہ۔۔۔۔۔۔سردار جی زندہ ہوتے تو یہ انھیں یہ سُن کر بہت دکھ ہوتا۔۔۔۔۔۔مرتے دم تک انھیں جج صاحب کا احسان یاد تھا۔ کہتے تھے کہ وہ انسان نہیں دیوتا ہے۔۔۔۔۔۔ اللہ میاں انھیں زندہ رکھے۔۔۔۔۔۔انھیں میرا سلام۔‘‘ اور یہ کہہ کر وہ تھرے سے اتر گیا۔۔۔۔۔۔ صغریٰ سوچتی ہی رہ گئی کہ وہ اسے ٹھہرائے اور کہے کے جج صاحب کے لیے کسی ڈاکٹر کا بندوبست کردے۔ سردار گورمکھ سنگھ کا لڑکا سنتوکھ جج صاحب کے مکان سے تھڑے سے اتر کر چند گز کے آگے بڑھا تو چار ٹھاٹا باندھے ہوئے آدمی اس کے پاس آئے۔ دوکے پاس جلتی مشعلیں تھیں اور دو کے پاس مٹی کے تیل کے کنستر اور کچھ دوسری آتش خیز چیزیں۔ ایک نے سنتوکھ سے پوچھا۔’’کیوں سردار جی، اپنا کام کر آئے؟‘‘ سنتوکھ نے سر ہلا کر جواب دیا۔’’ہاں کر آیا۔‘‘ اس آدمی نے ٹھاٹے کے اندر ہنس کر پوچھا۔’’تو کردیں معاملہ ٹھنڈا جج صاحب کا۔‘‘ ’’ہاں۔۔۔۔۔۔جیسے تمہاری مرضی!‘‘ یہ کہہ کر سردار گورمکھ سنگھ کا لڑکا چل دیا۔ ء
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
  #15  
Old Friday, August 07, 2015
Amna's Avatar
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default 14.Mozil

ترلوچن نے پہلی مرتبہ۔۔۔۔۔۔ چار برسوں میں پہلی مرتبہ رات کو آسمان دیکھا تھا اور وہ بھی اس لیے کہ اس کی طبیعت سخت گھبرائی ہوئی تھی اور وہ محض کھلی ہوا میں کچھ دیر سوچنے کے لیے اڈوانی چیمبرزکے ٹیرس پر چلا آیا تھا۔ آسمان بالکل صاف تھا۔ بادلوں سے بے نیاز، بہت بڑے خاکستری تنبو کی طرح ساری بمبئی پر تنا ہوا تھا۔ حدِ نظر تک جگہ جگہ بتیاں روشن تھیں۔ ترلوچن نے ایسا محسوس کیا تھا کہ آسمان سے بہت سارے ستارے جھڑ کر بلڈنگوں سے جو رات کے اندھیرے میں بڑے بڑے درخت معلوم ہوتی تھیں، اٹک گئے ہیں اور جگنوؤں کی طرح ٹمٹما رہے ہیں ترلوچن کے لیے یہ بالکل ایک نیا تجربہ، ایک نئی کیفیت تھی۔۔۔۔۔۔ رات کو کھلے آسمان کے نیچے ہونا۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ چار برس تک اپنے فلیٹ میں قید رہا اور قدرت کی ایک بہت بڑی نعمت سے محروم۔ قریب قریب تین بجے تھے۔ ہوا بے حد ہلکی پھلکی تھی۔ ترلوچن پنکھے کی مکانکی ہوا کا عادی تھا جو اس کے سارے وجود کو بوجھل کردیتی تھی۔ صبح اٹھ کر وہ ہمیشہ یوں محسوس کرتا تھا۔ رات بھر اس کو مارا پیٹا گیا ہے۔ پر اب صبح کی قدرتی ہوا میں اس کے جسم کا رواں رواں، تر و تازگی چوس کر خوش ہورہا تھا۔ جب وہ اوپر آیا تھا تو اس کا دل و دماغ سخت مضطرب اور ہیجان زدہ تھا۔ لیکن آدھے گھنٹے ہی میں وہ اضطراب اور ہیجان جو اس کو بہت تنگ کررہا تھا۔ کسی حد تک ٹھنڈا ہوگیا تھا وہ اب صاف طورپر سوچ سکتا تھا۔ کرپال کور اور اس کا سارا خاندان۔۔۔۔۔۔ محلے میں تھا۔ جو کٹڑ مسلمانوں کا مرکز تھا۔ یہاں کئی مکانوں کو آگ لگ چکی تھی کئی جانیں تلف ہو چکی تھیں۔ ترلوچن ان سب کو لے آیا ہوتا۔ مگر مصیبت یہ تھی کہ کرفیو نافذ ہوگیا تھا اور وہ بھی نہ جانے کتنے گھنٹوں کا۔۔۔۔۔۔ غالباً اڑتالیس گھنٹوں کا۔۔۔۔۔۔ اور ترلوچن لازماً مغلوب تھا آس پاس سب مسلمان تھے، بڑے خوفناک قسم کے مسلمان۔ اور پنجاب سے دھڑا دھڑ خبریں آرہی تھیں کہ وہاں سکھ مسلمانوں پر بہت ظلم ڈھا رہے ہیں۔ کوئی بھی ہاتھ۔۔۔۔۔۔مسلمان ہاتھ بڑی آسانی سے نرم و نازک کرپال کور کی کلائی پکڑ کر موت کے کنوئیں کی طرف لے جاسکتا تھا۔ کرپال کی ماں اندھی تھی۔ باپ مفلوج۔ بھائی تھا، وہ کچھ عرصے سے دیو لالی میں تھا کہ اسے وہاں اپنے تازہ تازہ لیے ہوئے ٹھیکے کی دیکھ بھال کرنا تھی۔ ترلوچن کو کرپال کے بھائی نرنجن پر بہت غصہ آتا تھا۔ اس نے جو کہ ہر روز اخبار پڑھتا تھا، فسادات کی تیزی و تندی کے متعلق ہفتہ بھر پہلے آگاہ کردیا تھا اور صاف لفظوں میں کہہ دیا تھا۔ نرنجن، یہ ٹھیکے ویکے ابھی رہنے دو۔ ہم ایک بہت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ تمہارا اگرچہ رہنا بہت ضروری ہے۔ اول تو یہاں سے اٹھ جاؤ، اور میرے یہاں چلے آؤ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جگہ کم ہے لیکن مصیبت کے دنوں میں آدمی کسی نہ کسی طرح گزارا کرلیا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر وہ نہ مانا۔ اس کا اتنا بڑا لیکچر سن کر صرف اپنی گھنی مونچھوں میں مسکرادیا۔’’ تم خواہ مخواہ فکر کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ میں نے یہاں ایسے کئی فساد دیکھے ہیں۔ یہ امرتسر یا لاہور نہیں بمبئے ہے۔ بمبئے۔ تمہیں یہاں آئے صرف چار برس ہوئے ہیں اور میں بارہ برس سے یہاں رہ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ بارہ برس سے۔‘‘ جانے نرنجن بمبئی کو کیا سمجھتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ ایسا شہر ہے۔ اگر فساد برپا بھی ہوں تو ان کا اثر خود زائل ہو جاتا ہے۔جیسے اس کے پاس چھومنتر ہے۔۔۔۔۔۔ یا وہ کہانیوں کا کوئی ایسا قلعہ ہے جس پر کوئی آفت نہیں آسکتی۔ مگر ترلوچن صبح کی ٹھنڈی ہوا میں صاف دیکھ رہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔محلہ بالکل محفوظ نہیں۔ وہ تو صبح کے ا خباروں میں یہ بھی پڑھنے کے لیے تیار تھا کہ کرپال کور اور اس کے ماں باپ قتل ہوچکے ہیں۔ اس کو کرپال کور کے مفلوج باپ اور اس کی اندھی ماں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ وہ مر جاتے اور کرپال کور بچ جاتی تو ترلوچن کے لیے اچھا تھا۔۔۔۔۔۔ وہاں دیولالی میں اس کا بھائی نرنجن بھی مارا جاتا تو وہ بھی اچھا تھا کہ ترلوچن کے لیے میدان صاف ہو جاتا۔ خاص طور پر نرنجن اس کے راستے میں ایک روڑا ہی نہیں، بہت بڑا کھنگر تھا۔ چنانچہ جب کبھی کرپال کور سے اس کی بات ہوتی تووہ اسے نرنجن سنگھ کے بجائے کھنگر سنگھ کہتا۔ صبح کی ہوا دھیرے دھیرے بہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ ترلوچن کا کیسوں سے بے نیاز سر بڑی خوشگوار ٹھنڈک محسوس کررہا تھا۔ مگر اس کے اندر بے شمار اندیشے ایک دوسرے کے ساتھ ٹکرا رہے تھے۔۔۔۔۔۔کرپال کور نئی نئی اس کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔ وہ یوں تو ہٹے کٹے کنگھر سنگھ کی بہن تھی،مگر بہت ہی نرم و نازک لچکیلی تھی۔ اس نے دیہات میں پرورش پائی تھی۔ وہاں کی کئی گرمیاں سردیاں دیکھی تھیں مگر اس میں وہ سختی، وہ گٹھاؤ، وہ مردانہ پن نہیں تھا جو دیہات کی عام سِکھ لڑکیوں میں ہوتا ہے جنھیں کڑی سے کڑی مشقت کرنی پڑتی ہے۔ اس کے نقش پتلے پتلے تھے، جیسے ابھی نامکمل ہیں۔ چھوٹی چھوٹی چھاتیاں تھیں جن پر بالائیوں کی چند اور تہیں چڑھنے کی ضرورت تھی۔ عام سکھ دیہاتی لڑکیوں کے مقابلے میں اس کا رنگ گورا تھا مگر کورے لٹھے کی طرح، اور بدن چکنا تھا جس طرح مرسی رائزڈ کپڑے کی سطح ہوتی ہے۔ بے حد شرمیلی تھی۔ ترلوچن اسی کے گاؤں کا تھا۔ مگر زیادہ دیر وہاں رہا نہیں تھا۔ پرائمری سے نکل کر جب وہ شہر کے ہائی اسکول میں گیا تو بس پھروہیں کا ہو کے رہ گیا۔ اسکول سے فارغ ہوا تو کالج کی تعلیم شروع ہوگئی۔ اس دوران میں وہ کئی مرتبہ۔۔۔۔۔۔لاتعداد مرتبہ اپنے گاؤں گیا، مگر اس نے کرپال کور کے نام کی کسی لڑکی کا نام تک نہ سنا، شاید اس لیے کہ وہ ہر بار اس افراتفری میں رہتا تھا کہ جلد از جلد واپس شہر پہنچے۔ کالج کا زمانہ بہت پیچھے رہ گیا تھا۔ اڈوانی چیمبرز کے ٹیریس اور کالج کی عمارت میں غالباً دس برس کا فاصلہ تھا اور یہ فاصلہ ترلوچن کی زندگی کے عجیب و غریب واقعات سے پُر تھا۔ برما۔ سنگاپور۔ ہانگ کانگ۔۔۔۔۔۔ پھر بمبئی جہاں وہ چار برس سے مقیم تھا۔ ان چار برسوں میں اس نے پہلی مرتبہ رات کو آسمان کی شکل دیکھی تھی۔ جو بُری نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ خاکستری رنگ کے تنبو کی چھت میں ہزار ہا دیے روشن تھے اور ہوا ٹھنڈی اور ہلکی پھلکی تھی۔ کرپال کور کا سوچتے سوچتے وہ موذیل کے متعلق سوچنے لگا۔ اس یہودی لڑکی کے بارے میں جو اڈوانی چیمبرز میں رہتی تھی۔ اس سے ترلوچن کو، گوڈے گوڈے عشق ہوگیا تھا۔ ایسا عشق جو اس نے اپنی پینتیس برس کی زندگی میں کبھی نہیں کیا تھا۔ جس دن اس نے اڈوانی چیمبرز میں اپنے ایک عیسائی دوست کی معرفت دوسرے اے پر فلیٹ لیا، اسی دن اس کی مڈبھیڑ موذیل سے ہوئی جو پہلی نظر دیکھنے پر اسے خوفناک طور پر دیوانی معلوم ہوئی تھی۔ کٹے ہوئے بھورے بال اس کے سر پر پریشان تھے۔ بے حد پریشان۔ ہونٹوں پر لپ اسٹک یوں جمی تھی جیسے گاڑھا خون اور وہ بھی جگہ جگہ سے چٹخی ہوئی تھی۔ ڈھیلا ڈھالا لباس سفید چغہ پہنے تھے۔ جس کے کھلے گریبان سے اس کی نیل پڑی بڑی بڑی چھاتیاں تین چوتھائی کے قریب نظر آرہی تھیں۔ بانھیں جو کہ ننگی تھیں مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی تھیں جیسے وہ ابھی ابھی کسی سیلون سے بال کٹوا کے آئی ہے اور ان کی ننھی ننھی ہوائیاں ان پر جم گئی ہیں۔ ہونٹ اتنے موٹے نہیں تھے مگر گہرے عنابی رنگ کی لپ اسٹک کچھ اس انداز سے لگائی تھی کہ وہ موٹے اور بھینسے کے گوشت کے ٹکڑے معلوم ہوتے تھے۔ ترلوچن کا فلیٹ اس کے فلیٹ کے بالکل سامنے تھا۔ بیچ میں ایک تنگ گلی تھی۔ بہت ہی تنگ۔۔۔۔۔۔ جب ترلوچن اپنے فلیٹ میں داخل ہونے کے لیے آگے بڑھا تو موذیل باہر نکلی۔ کھڑاؤں پہنے تھی ۔ ترلوچن ان کی آواز سن کر رک گیا۔ موذیل نے اپنے پریشان بالوں کی چقوں میں سے بڑی بڑی آنکھوں سے ترلوچن کی طرف دیکھا اور ہنسی۔۔۔۔۔۔ ترلوچن بوکھلا گیا۔ جیب سے چابی نکال کر وہ جلدی سے دروازے کی جانب بڑھا۔ موذیل کی ایک کھڑاؤں سیمنٹ کے چکنے فرش پر پھسلی اور اس کے اوپر آرہی۔ جب ترلوچن سنبھلا تو موذیل اس کے اوپر تھی، کچھ اس طرح کہ اس کا لمبا چُغہ اوپر چڑھ گیا تھا اور اس کی دو ننگی۔۔۔۔۔۔ بڑی تگڑی ٹانگیں اس کے ادھر ادھر تھیں اور۔۔۔۔۔۔جب ترلوچن نے اٹھنے کی کوشش کی تو وہ بوکھلاہٹ میں کچھ اس طرح موذیل۔۔۔۔۔۔ساری موذیل سے الجھا جیسے وہ صابن کی طرح اس کے سارے بدن پر پھر گیا ہے۔ ترلوچن نے ہانپتے ہوئے مناسب و موزوں الفاظ میں سے اس معافی مانگی۔ موذیل نے اپنا لبادہ ٹھیک کیا اور مسکرا دی۔’’ یہ کھڑاؤں ایک دم کنڈم چیز ہے۔‘‘ اور وہ اتری ہوئی کھڑاؤں میں اپنا انگوٹھا اور اس کی ساتھ والی انگلی پھنساتی کوڑی ڈور سے باہر چلی گئی۔ ترلوچن کا خیال تھا کہ موذیل سے دوستی پیدا کرنا شاید مشکل ہو۔ لیکن وہ بہت ہی تھوڑے عرصے میں اس سے گھل مل گئی۔ لیکن ایک بات تھی کہ وہ بہت خود سر تھی۔ وہ ترلوچن کو کبھی خاطر میں نہیں لاتی تھی۔ اس سے کھاتی تھی۔ اس سے پیتی تھی۔ اس کے ساتھ سینما جاتی تھی۔ سارا سارا دن اس کے ساتھ جوہو پر نہاتی تھی۔ لیکن جب وہ بانھوں اور ہونٹوں سے کچھ اور آگے بڑھنا چاہتا تو وہ اسے ڈانٹ دیتی۔ کچھ اس طور پر اسے گُھرکتی کہ اس کے سارے ولولے اس کی داڑھی اور مونچھوں میں چکر کاٹتے رہ جاتے۔ ترلوچن کو پہلے کسی کے ساتھ محبت نہیں ہوتی تھی۔ لاہور میں، برما میں، سنگاپور میں وہ لڑکیاں کچھ عرصے کے لیے خرید لیا کرتا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ بمبئی پہنچتے ہی وہ ایک نہایت الھڑ قسم کی یہودی لڑکی کے عشق میں’’گوڈے گوڈے‘‘ دھنس جائے گا۔ وہ اس سے کچھ عجیب قسم کی بے اعتنائی اور بے التفاتی برتتی تھی۔ اس کے کہنے پر فوراً سج بن کر سینما جانے پر تیار ہو جاتی تھی۔ مگر جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھتے تو ادھر ادھر نگاہیں دوڑانا شروع کردیتی۔ کوئی اس کا شناسا نکل آتا تو زور سے ہاتھ ہلاتی اور ترلوچن سے اجازت لیے بغیر اس کے پہلو میں جا بیٹھتی۔ ہوٹل میں بیٹھے ہیں۔ ترلوچن نے خاص طور پر موذیل کے لیے پرتکلف کھانے منگوائے ہیں، مگراس کو کوئی اپنا پرانا دوست نظر آگیا ہے اور وہ نوالہ چھوڑ کر اس کے پاس جا بیٹھی ہے اور ترلوچن کے سینے پر مونگ دل رہی ہے۔ ترلوچن بعض اوقات بھنا جاتا تھا، کیونکہ وہ اسے قطعی طور پر چھوڑ کر اپنے ان پرانے دوستوں اور شناساؤں کے ساتھ چلی جاتی تھی اور کئی کئی دن اس سے ملاقات نہ کرتی تھی۔ کبھی سر درد کا بہانہ، کبھی پیٹ کی خرابی کا جس کے متعلق ترلوچن کو اچھی طرح معلوم تھا کہ فولاد کی طرح سخت ہے اور کبھی خراب نہیں ہوسکتا۔ جب اس سے ملاقات ہوتی تو وہ اس سے کہتی۔’’تم سکھ ہو۔۔۔۔۔۔ یہ نازک باتیں تمہاری سمجھ میں نہیں آسکتیں۔‘‘ ترلوچن جل بھن جاتا اور پوچھتا۔’’ کون سی نازک باتیں۔۔۔۔۔۔ تمہارے پرانے یاروں کی؟‘‘ موذیل دونوں ہاتھ اپنے چوڑے چکلے کولہوں پر لٹکا کر اپنی تگڑی ٹانگیں چوڑی کردیتی اور کہتی۔’’یہ تم مجھے ان کے طعنے کیا دیتے ہو۔۔۔۔۔۔ ہاں وہ میرے یار ہیں۔۔۔۔۔۔ اور مجھے اچھے لگتے ہیں۔ تم جلتے ہو تو جلتے رہو۔‘‘ ترلوچن بڑے وکیلانہ انداز میں پوچھتا۔’’ اس طرح تمہاری میری کس طرح نبھے گی‘‘ موذیل زور کا قہقہہ لگاتی۔’’ تم سچ مچ سِکھ ہو۔۔۔۔۔۔ ایڈیٹ، تم سے کس نے کہا ہے کہ میرے ساتھ نبھاؤ۔۔۔۔۔۔ اگر نبھانے کی بات ہے تو جاؤ اپنے وطن میں کسی سکھنی سے شادی کرلو۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ تو اسی طرح چلے گا۔‘‘ ترلوچن نرم ہو جاتا۔ دراصل موذیل اس کی زبردست کمزوری بن گئی تھی۔ وہ ہر حالت میں اس کی قربت کا خواہش مند تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ موذیل کی وجہ سے اس کی اکثر توہین ہوتی تھی۔ معمولی معمولی کرسٹان لونڈوں کے سامنے جن کی کوئی حقیقت ہی نہیں تھی، اسے خفیف ہونا پڑتا تھا۔ مگر دل سے مجبور ہو کر اس نے یہ سب کچھ برداشت کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ عام طور پر توہین اور ہتک کا رد عمل انتقام ہوتا ہے مگر ترلوچن کے معاملے میں ایسا نہیں تھا۔ اس نے اپنے دل و دماغ کی بہت سی آنکھیں میچ لی تھیں اور کئی کانوں میں روئی ٹھونس لی تھی۔ ا س کو موذیل پسند تھی۔۔۔۔۔۔ پسند ہی نہیں جیسا کہ وہ اکثر اپنے دوستوں سے کہا کرتا تھا۔’’گوڈے گوڈے‘‘ اس کے عشق میں دھنس گیا تھا۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا اس کے جسم کا جتنا حصہ باقی رہ گیا ہے۔ وہ بھی اس عشق کی دلدل میں چلا جائے اور قصہ ختم ہو۔ دو برس تک وہ اسی طرح خوار ہوتا رہا۔ لیکن ثابت قدم رہا۔ آخر ایک روز جب کہ موذیل موج میں تھی۔ اپنے بازوؤں میں سمیٹ کر پوچھا۔’’موذیل۔۔۔۔۔۔ کیا تم مجھ سے محبت نہیں کرتی ہو۔‘‘ موذیل اس کے بازوؤں سے جدا ہوگئی اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فراک کا گھیرا دیکھنے لگی۔ پھر اس نے اپنی موٹی موٹی یہودی آنکھیں اٹھائیں اور گھنی پلکیں جھپکا کر کہا۔’’میں سکھ سے محبت نہیں کرسکتی۔‘‘ ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ پگڑی کے نیچے اس کے کیسوں میں کسی نے دہکتی ہوئی چنگاریاں رکھ دی ہیں۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔۔۔۔۔۔’’موذیل! تم ہمیشہ میرا مذاق اڑاتی ہو۔۔۔۔۔۔ یہ میرا مذاق نہیں، میری محبت کا مذاق ہے۔‘‘ موذیل اٹھی اور اس نے اپنے بھورے ترشے ہوئے بالوں کو ایک دلفریب جھٹکا دیا۔’’تم شیوا کرالو اور اپنے سر کے بال کھلے چھوڑ دو۔۔۔۔۔۔ تو میں شرط لگاتی ہوں کئی لونڈے تمہیں آنکھ ماریں گے۔۔۔۔۔۔تم خوبصورت ہو۔‘‘ ترلوچن کے کیسوں میں مزید چنگاریاں پڑ گئیں۔ اس نے آگے بڑھ کر زور سے موذیل کو اپنی طرف گھسیٹا اور اس کے عنابی ہونٹوں میں اپنے مونچھوں بھرے ہونٹ پیوست کردیے۔ موذیل نے ایک دم’’پھوں پھوں‘‘ کی اور اس کی گرفت سے علیحدہ ہوگئی۔ ’’میں صبح اپنے دانتوں پر برش کر چکی ہوں۔۔۔۔۔۔تم تکلیف نہ کرو۔‘‘ ترلوچن چلایا۔’’موذیل۔‘‘ موذیل وینٹی بیگ سے ننھا سا آئینہ نکال کر اپنے ہونٹ دیکھنے لگی جس پر لگی ہوئی گاڑھی لپ اسٹک پر خراشیں آگئی تھیں۔ ’’خدا کی قسم۔۔۔۔۔۔تم اپنی داڑھی اور مونچھوں کا صحیح استعمال نہیں کرتے۔۔۔۔۔۔ ان کے بال ایسے اچھے ہیں کہ میرا نیوی بلوسکرٹ بہت اچھی طرح صاف کرسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔بس تھوڑا سا پٹرول لگانے کی ضرورت ہوگی۔‘‘ ترلوچن غصے کی اس انتہا تک پہنچ چکا تھا۔ جہاں وہ بالکل ٹھنڈا ہوگیا تھا۔ آرام سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ موذیل بھی آگئی اور اس نے ترلوچن کی داڑھی کھولنی شروع کردی۔۔۔۔۔۔اس میں جو پنیں لگی تھیں۔ وہ اس نے ایک ایک کرکے اپنے دانتوں تلے دبا لیں۔ ترلوچن خوبصورت تھا۔ جب اس کے داڑھی مونچھ نہیں اگی تھی تو واقعی لوگ اس کو کھلے کیسوں کے ساتھ دیکھ کر دھوکا کھا جاتے تھے کہ وہ کوئی کم عمر خوبصورت لڑکی ہے۔ مگر بالوں کے اس انبار نے اب اس کے تمام خدوخال جھاڑیوں کے مانند اندر چھپا لیے تھے۔ اس کو اس کا احساس تھا۔ مگر وہ ایک اطاعت شعار اورفرماں بردار لڑکا تھا۔ اس کے دل میں مذہب کا احترام تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان چیزوں کو اپنے وجود سے الگ کردے جن سے اس کے مذہب کی ظاہری تکمیل ہوتی تھی۔ جب داڑھی پوری کھل گئی اور اس کے سینے پر لٹکنے لگی تو اس نے موذیل سے پوچھا۔’’یہ تم کیا کررہی ہو؟‘‘ دانتوں میں پنیں دبائے وہ مسکرائی۔’’ تمہارے بال بہت ملائم ہیں۔۔۔۔۔۔ میرا اندازہ غلط تھا کہ ان سے میرا نیوی بلوسکرٹ صاف ہوسکے گا۔۔۔۔۔۔ترلوچن۔۔۔۔۔۔تم یہ مجھے دے دو۔ میں انھیں گوندھ کر اپنے لیے ایک فسٹ کلاس بٹوا بناؤں گی۔‘‘ اب ترلوچن کی داڑھی میں چنگاریاں بھڑکنے لگی۔ وہ بڑی سنجیدگی سے موذیل سے مخاطب ہوا۔’’ میں نے آج تک تمہارے مذہب کا مذاق نہیں اڑایا۔۔۔۔۔۔ تم کیوں اڑاتی ہو۔۔۔۔۔۔ دیکھو کسی کے مذہبی جذبات سے کھیلنا اچھا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔ میں یہ کبھی برداشت نہ کرتا۔ مگر صرف اس لیے کرتا رہا ہوں کہ مجھے تم سے بے پناہ محبت ہے۔۔۔۔۔۔کیا تمہیں اس کا پتہ نہیں۔‘‘ موذیل نے ترلوچن کی داڑھی سے کھیلنا بند کردیا۔’’مجھے معلوم ہے۔‘‘ ’’پھر۔‘‘ ترلوچن نے اپنی داڑھی کے بال بڑی صفائی سے تہ کیے اور موذیل کے دانتوں سے پنیں نکال لیں۔’’ تم اچھی طرح جانتی ہو کہ میری محبت بکواس نہیں۔۔۔۔۔۔ میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘ ’’مجھے معلوم ہے۔‘‘بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر وہ اٹھی اور دیوار سے لٹکی ہوئی تصویر کی طرف دیکھنے لگی۔’’میں بھی قریب قریب یہی فیصلہ کر چکی ہوں کہ تم سے شادی کروں گی۔‘‘ ترلوچن اچھل پڑا۔’’سچ‘‘ موذیل کے عنابی ہونٹ بڑی موٹی مسکراہٹ کے ساتھ کھلے اور اس کے سفید مضبوط دانت ایک لحظے کے لیے چمکے۔’’ہاں!‘‘ ترلوچن نے اپنی نصف لپٹی ہوئی داڑھی ہی سے اس کو اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔’’تو۔۔۔۔۔۔تو کب؟‘‘ موذیل الگ ہٹ گئی۔’’جب۔۔۔۔۔۔تم اپنے یہ بال کٹوا دو گے!‘‘ ترلوچن اس وقت’جو ہو سو ہو‘ بنا تھا۔ اس نے کچھ نہ سوچا اور کہہ دیا۔’’ میں کل ہی کٹوا دوں گا۔‘‘ موذیل فرش پر ٹیپ ڈانس کرنے لگی۔’’تم بکواس کرتے ہوئے ترلوچن۔۔۔۔۔۔ تم میں اتنی ہمت نہیں ہے۔‘‘ اس نے ترلوچن کے دل و دماغ سے مذہب کے رہے سہے خیال کو نکال باہر پھینکا۔’’تم دیکھ لوگی۔‘‘ ’’دیکھ لوں گی۔‘‘ اور وہ تیزی سے آگے بڑھی۔ترلوچن کی مونچھوں کو چوما اور ’’پھوں پھوں‘‘ کرتی باہر نکل گئی۔ ترلوچن نے رات بھر کیا سوچا۔۔۔۔۔۔ وہ کن کن اذیتوں سے گزرا، اس کا تذکرہ فضول ہے، اس لیے کہ دوسرے روز اس نے فورٹ میں اپنے کیس کٹوا دیے اور داڑھی بھی منڈوادی۔۔۔۔۔۔ یہ سب کچھ ہوتا رہا اور وہ آنکھیں میچے رہا۔ جب سارا معاملہ صاف ہوگیا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور دیر تک اپنی شکل آئینے میں دیکھتا رہاجس پر بمبئی کی حسین سے حسین لڑکی بھی کچھ دیر کے لیے غور کرنے پر مجبور ہوجاتی۔ ترلوچن وہی عجیب و غریب ٹھنڈک محسوس کرنے لگا تھا جو سیلون سے باہر نکل کر اس کو لگی تھی۔ اس نے ٹیریس پر تیز تیز چلنا شروع کردیا۔ جہاں ٹینکوں اور نلوں کا ایک ہجوم تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اس داستان کا بقایا حصہ اس کے دماغ میں نہ آئے۔ مگر وہ آئے بن نہ رہا۔ بال کٹوا کر وہ پہلے دن گھر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ اس نے اپنے نوکر کے ہاتھ دوسرے روز چٹ موذیل کو بھیجی کہ اس کی طبیعت ناساز ہے، تھوڑی دیر کے لیے آجائے۔ موذیل آئی۔ ترلوچن کو بالوں کے بغیر کے دیکھ کر پہلے وہ ایک لحظے کے لیے ٹھٹکی۔ پھر’’مائی ڈارلنگ ترلوچن‘‘ کہہ کر اس کے ساتھ لپٹ گئی اور اس کا سارا چہرہ عنابی کردیا۔ اس نے ترلوچن کے صاف اور ملائم گالوں پر ہاتھ پھیرا۔ اس کے چھوٹے انگریزی وضع کے کٹے ہوئے بالوں میں اپنی کنگھی کی اور عربی زبان میں نعرے مارتی رہی۔ اس نے اس قدر شور مچایا کہ اس کی ناک سے پانی بہنے لگا۔۔۔۔۔۔موذیل نے جب اسے محسوس کیا تو اپنی سکرٹ کا گھیرا اٹھایا اور اسے پونچھنا شروع کردیا۔۔۔۔۔۔ترلوچن شرما گیا۔ اس نے سکرٹ نیچی کی اور سرزنش کے طور پر اس سے کہا۔’’نیچے کچھ پہن تو لیا کرو۔‘‘ موذیل پر اس کا کچھ اثر نہ ہوا۔ باسی اور جگہ جگہ سے اکھڑی ہوئی لپ اسٹک لگے ہونٹوں سے مسکرا کر اس نے صرف اتنا ہی کہا۔’’مجھے بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ایسے ہی چلتا ہے۔‘‘ ترلوچن کو وہ پہلا دن یاد آگیا۔ جب وہ اور موذیل دونوں ٹکرا گئے تھے اور آپس میں کچھ عجیب طرح گڈ مڈ ہوگئے تھے۔ مسکرا کر اس نے موذیل کو اپنے سینے کے ساتھ لگا۔’’شادی کل ہوگی!‘‘ ’’ضرور۔‘‘ موذیل نے ترلوچن کی ملائم ٹھوڑی پر اپنے ہاتھ کی پشت پھیری۔ طے یہ ہوا کہ شادی پونے میں ہو۔ چونکہ سول میرج تھی۔ اس لیے ان کو دس پندرہ دن کا نوٹس دینا تھا۔ عدالتی کارروائی تھی۔ اس لیے مناسب یہی خیال کیا گیا کہ پونہ بہتر ہے۔ پاس ہے اور ترلوچن کے وہاں کئی دوست بھی ہیں۔ دوسرے روز انھیں پروگرام کے مطابق پونہ روانہ ہو جانا تھا۔ موذیل، فورٹ کے ایک اسٹور میں سیلز گرل تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر ٹیکسی اسٹینڈ تھا۔ بس یہیں موذیل نے اس کو انتظار کرنے کے لیے کہا تھا۔۔۔۔۔۔ ترلوچن وقت مقررہ پر وہاں پہنچا۔ ڈیڑھ گھٹنہ انتظار کرتا رہا مگر وہ نہ آئی۔ دوسرے روز اسے معلوم ہوا کہ وہ اپنے ایک پرانے دوست کے ساتھ جس نے تازہ تازہ موٹر خریدی ہے، دیولالی چل گئی ہے اور ایک غیر معین عرصے کے لیے وہیں رہے گی۔ ترلوچن پرکیا گزری؟۔۔۔۔۔۔ یہ ایک بڑی لمبی کہانی ہے۔ قصہ مختصر یہ ہے کہ اس نے جی کڑا کیا اور اس کو بُھول گیا۔۔۔۔۔۔ اتنے میں اس کی ملاقات کرپال کور سے ہوگئی اور وہ اس سے محبت کرنے لگا اور تھوڑے ہی عرصے میں اس نے محسوس کیا کہ موذیل بہت واہیات لڑکی تھی جس کے دل کے ساتھ پتھر لگے ہوئے تھے اور جوچڑوں کے مانند ایک جگہ سے دوسری جگہ پھدکتا رہتا تھا۔ اس احساس سے اس کو ایک گونہ تسکین ہوئی تھی کہ وہ موذیل سے شادی کرنے کی غلطی نہ کر بیٹھا تھا۔ لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی موذیل کی یاد ایک چٹکی کے مانند اس کے دل کو پکڑ لیتی تھی اور پھر چھوڑ کر کدکڑے لگاتی غائب ہو جاتی تھی۔۔۔۔۔۔وہ بے حیا تھی۔۔۔۔۔۔بے مروت تھی، اس کو کسی کے جذبات کا پاس نہیں تھا، پھر بھی وہ ترلوچن کو پسند تھی۔ اس لیے کبھی کبھی وہ اس کے متعلق سوچنے پر مجبور ہو جاتا تھا کہ وہ دیو لالی میں اتنے عرصے سے کیا کررہی ہے۔ اسی آدمی کے ساتھ ہے۔ جس نے نئی نئی کار خریدی تھی یا اسے چھوڑ کر کسی اور کے پاس چلی گئی ہے۔ اس کو اس خیال سے سخت کوفت ہوتی تھی کہ وہ اس کے سوا کسی اور کے پاس ہوگی۔ حالانکہ اس کو موذیل کے کردار کا بخوبی علم تھا۔ وہ اس پر سینکڑوں نہیں ہزاروں روپے خرچ کر چکا تھا، لیکن اپنی مرضی سے۔ ورنہ موذیل مہنگی نہیں تھی۔ اس کو بہت سستی قسم کی چیزیں پسند آتی تھیں۔ ایک مرتبہ ترلوچن نے اسے سونے کے ٹوپس دینے کا ارادہ کیا جو اسے بہت پسند تھے، مگر اسی دکان میں موذیل جھوٹے اور بھڑکیلے اور بہت سستے آویزوں پر مرمٹی اور سونے کے ٹوپس چھوڑ کر ترلوچن سے منتیں کرنے لگی کہ وہ انھیں خرید دے۔ ترلوچن اب تک نہ سمجھ سکا کہ موذیل کس قماش کی لڑکی ہے۔ کس آب و گل سے بنی ہے۔ وہ گھنٹوں اس کے ساتھ لیٹی رہتی تھی۔ اس کو چومنے کی اجازت دیتی تھی۔ وہ سارا کا سارا صابن کی مانند اس کے جسم پر پھر جاتا تھا۔ مگر وہ اس کو اس سے آگے ایک انچ بڑھنے نہیں دیتی تھی۔ اس کو چڑانے کی خاطر اتنا کہہ دیتی تھی۔’’تم سکھ ہو۔۔۔۔۔۔مجھے تم سے نفرت ہے!‘‘۔۔۔۔۔۔ ترلوچن اچھی طرح محسوس کرتا تھا کہ موذیل کو اس سے نفرت نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ اس سے کبھی نہ ملتی۔ برداشت کا مادہ اس میں رتی بھر بھی نہیں تھا۔ وہ کبھی دو برس تک اس کی صحبت میں نہ گزارتی۔ دوٹوک فیصلہ کردیتی۔ انڈر ویئر اس کو ناپسند تھے۔ اس لیے کہ ان سے اس کو الجھن ہوتی تھی۔ ترلوچن نے کئی بار اس کو ان کی اشد ضرورت سے آگاہ کیا۔ اس کو شرم و حیا کا واسطہ دیا، مگر اس نے یہ چیز کبھی نہ پہنی۔ ترلوچن جب اس سے حیا کی بات کرتا تھا وہ چڑ جاتی تھی۔’’یہ حیا ویا کیا بکواس ہے۔۔۔۔۔۔ اگر تمہیں اس کا کچھ خیال ہے تو آنکھیں بند کرلیا کرو۔۔۔۔۔۔ تم مجھے یہ بتاؤ کون سا لباس ہے جس میں آدمی ننگا نہیں ہوسکتا۔۔۔۔۔۔ یا جس میں سے تمہاری نگاہیں پار نہیں ہوسکتیں۔۔۔۔۔۔ مجھ سے ایسی بکواس نہ کیا کرو۔۔۔۔۔۔ تم سکھ ہو۔۔۔۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تم پتلون کے نیچے ایک سلکی سا انڈر ویئر پہنتے ہو جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔۔۔۔۔۔یہ بھی تمہاری داڑھی اور سر کے بالوں کی طرح مذہب میں شامل ہے۔۔۔۔۔۔ شرم آنی چاہیے تمہیں۔ اتنے بڑے ہوگئے ہو اور ابھی تک یہی سمجھتے ہو کہ تمہارا مذہب انڈر ویئر میں چھپا بیٹھا ہے!‘‘ ترلوچن کو شروع شروع میں ایسی باتیں سن کر غصہ آیا تھا ۔ مگر بعد میں غور و فکر کرنے پر وہ کبھی کبھی لڑھک جاتا تھا اور سوچتا تھا کہ موذیل کی باتیں شاید نادرست نہیں اور جب اس نے اپنے کیسوں اور داڑھی کا صفایا کرادیا تو اسے قطعی طور پر ایسا محسوس ہوا کہ وہ بیکار اتنے دن بالوں کا اتنا بوجھ اٹھائے اٹھائے پھرا جس کا کچھ مطلب ہی نہیں تھا۔ پانی کی ٹینکی کے پاس پہنچ کر ترلوچن رک گیا۔ موذیل کو ایک بڑی موٹی گالی دے کر اس نے اس کے متعلق سوچنا بند کردیا۔۔۔۔۔۔ کرپا کور۔ ایک پاکیزہ لڑکی۔ جس سے اس کو محبت ہوئی تھی۔ خطرے میں تھی، وہ ایسے محلے میں تھی جس میں کٹر قسم کے مسلمان رہتے تھے اور وہاں دو تین واردات بھی ہو چکی تھیں۔۔۔۔۔۔ لیکن مصیبت یہ تھی کہ اس محلے میں اڑتالیس گھنٹے کا کرفیو تھا۔ مگر کرفیو کی کون پروا کرتا ہے۔ اس چالی کے مسلمان ہی اگر چاہتے تو اندر ہی اندر کرپال کور، اس کی ماں اور اس کے باپ کا بڑی آسانی کے ساتھ صفایا کرسکتے تھے۔ ترلوچن سوچتا سوچتا پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گیا۔ اس کے سر کے بال اب کافی لمبے ہوگئے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ ایک برس کے اندر اندر یہ پورے کیسوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔ اس داڑھی تیزی سے بڑھی تھی۔ مگر وہ اسے بڑھانا نہیں چ اہتا تھا۔ فورٹ میں ایک باربر تھا وہ اس صفائی سے اسے تراشتا تھا کہ ترشی ہوئی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس نے اپنے لمبے اور ملائم بالوں میں انگلیاں پھیریں اور ایک سرد آہ بھری۔۔۔۔۔۔اٹھنے کا ارادہ ہی کررہا تھا کہ اسے کھڑاؤں کی کرخت آواز سنائی دی، اس نے سوچا کون ہوسکتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ بلڈنگ میں کئی یہودی عورتیں تھیں جو سب کی سب گھر میں کھڑاؤں پہنتی تھیں۔۔۔۔۔۔ آواز قریب آتی گئی۔ یکلخت اس نے دوسری ٹیکنی کے پاس موذیل کو دیکھا، جو یہودیوں کی خاص قطع کا ڈھیلا ڈھالا لمبا کرتا پہنے بڑے زور کی انگڑائی لے رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اس زور کی کہ ترلوچن کو محسوس ہوا اس کے آس پاس کی ہوا چٹخ جائے گی۔ ترلوچن، پانی کے نل پر سے اٹھا۔ اس نے سوچا۔’’ یہ ایکا ایکی کہاں سے نمودا ہو گئی۔۔۔۔۔۔اور اس وقت ٹیرس پر کیا کرنے آئی ہے؟‘‘۔۔۔۔۔۔ موذیل نے ایک اور انگڑائی لی۔۔۔۔۔۔اب ترلوچن کی ہڈیاں چٹخنے لگیں۔ ڈھیلے ڈھالے کرتے میں اس کی مضبوط چھاتیاں دھڑکیں۔۔۔۔۔۔ ترلوچن کی آنکھوں کے سامنے کئی گول گول اور چپٹے چپٹے نیل ابھر آئے ۔ وہ زور سے کھانسا موذیل نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ اس کا رد عمل بالکل خفیف تھا۔ کھڑاؤں گھسٹتی وہ اس کے پاس آئی اور اس کی ننھی منی داڑھی دیکھنے لگی۔’’تم پھر سکھ بن گئے ترلوچن؟‘‘ داڑھی کے بال ترلوچن کو چبھنے لگے۔ موذیل نے آگے بڑھ کر اس کی ٹھوڑی کے ساتھ اپنے ہاتھ کی پشت رگڑی اور مسکرا کر کہا۔’’اب یہ برش اس قابل ہے کہ میری نیو بلوسکرٹ صاف کرسکے۔۔۔۔۔۔مگر وہ تو وہیں دیو لالی میں رہ گئی ہے۔‘‘ ترلوچن خاموش رہا۔ موذیل نے اس کے بازو کی چٹکی لی۔’’ بولتے کیوں نہیں سردار صاحب؟‘‘ ترلوچن اپنی پچھلی بیوقوفیوں کا اعادہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ تاہم اس نے صبح کے ملگجے اندھیرے میں موذیل کے چہرے کو غور سے دیکھا۔۔۔۔۔۔ کوئی خاص تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ایک صرف وہ پہلے سے کچھ کمزور نظر آتی تھی۔ ترلوچن نے اس سے پوچھا۔’’بیمار رہی ہو؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ موذیل نے اپنے ترشے ہوئے بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔ ’’پہلے سے کمزور دکھائی دیتی ہو؟‘‘ ’’میں ڈائٹنگ کررہی ہوں۔‘‘موذیل پانی کے موٹے نل پر بیٹھ گئی اور کھڑاؤں فرش کے ساتھ بجانے لگی۔’’تم گویا کہ۔۔۔۔۔۔اب پھر۔۔۔۔۔۔نئے سرے سے سکھ بن رہے ہو۔‘‘ ترلوچن نے کسی قدر ڈھٹائی کے ساتھ کہا۔’’ہاں!‘‘ ’’مبارک ہو۔‘‘ موذیل نے ایک کھڑاؤں پیر سے اتار لی اور پانی کے نل پر بجانے لگی۔’’ کسی اور لڑکی سے محبت کرنی شروع کی؟‘‘ ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔’’ہاں!‘‘ ’’مبارک ہو۔۔۔۔۔۔اسی بلڈنگ کی ہے کوئی؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ ’’یہ بہت بری بات ہے۔‘‘ موذیل کھڑاؤں اپنی انگلیوں میں اڑس کر اٹھی۔’’ہمیشہ آدمی کو اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘ ترلوچن خاموش رہا۔ موذیل نے اٹھ کر اس کی د اڑھی کو اپنی پانچوں انگلیوں سے چھیڑا۔’’ کیا اسی لڑکی نے تمہیں یہ بال بڑھانے کا مشورہ دیا ہے؟‘‘ ’’نہیں۔‘‘ ترلوچن بڑی الجھن محسوس کررہا تھا جیسے کنگھا کرتے کرتے اس کی داڑھی کے بال آپس میں الجھ گئے ہیں۔ جب اس نے’’نہیں‘‘ کہا تو اس کے لہجے میں تیکھا پن تھا۔ موذیل کے ہونٹوں پر لپ اسٹک باسی گوشت کی طرح معلوم ہوتی تھی۔ وہ مسکرائی تو ترلوچن نے ایسا محسوس کیا کہ اس کے گاؤں میں جھٹکے کی دکان پر قصائی نے چھری سے موٹی رگ کے گوشت کے دو ٹکڑے کردیے ہیں۔ مسکرانے کے بعد وہ ہنسی۔’’ تم اب یہ داڑھی منڈا ڈالو تو کسی کی بھی قسم لے لو، میں تم سے شادی کرلوں گی۔‘‘ ترلوچن کے جی میں آئی کہ اس سے کہے کہ وہ ایک بڑی شریف، با عصمت اور پاک طینت کنواری لڑکی سے محبت کررہا ہے اور اسی سے شادی کرے گا۔۔۔۔۔۔موذیل اس کے مقابلے میں فاحشہ ہے۔ بدصورت ہے۔ بے وفا ہے۔ بے مروت ہے مگر وہ اس قسم کا گھٹیا آدمی نہیں تھا۔ اس نے موذیل سے صرف اتنا کہا۔’’موذیل! میں اپنی شادی کا فیصلہ کر چکا ہوں۔ میرے گاؤں کی ایک سیدھی سادی لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔ جو مذہب کی پابند ہے۔ اسی کے لیے میں نے بال بڑھانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔‘‘ موذیل سوچ بچار کی عادی نہیں تھی، لیکن اس نے کچھ دیر سوچا اور کھڑاؤں پر نصف دائرے میں گھوم کر ترلوچن سے کہا۔’’ وہ مذہب کی پابند ہے تو تمہیں کیسے قبول کرے گی؟۔۔۔۔۔۔ کیا اسے معلوم نہیں کہ تم ایک دفعہ اپنے بال کٹوا چکے ہو؟‘‘ ’’اس کو ابھی تک معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔داڑھی میں نے تمہارے دیو لالی جانے کے بعد ہی بڑھانی شروع کردی تھی۔۔۔۔۔۔ محض انتقامی طور پر۔۔۔۔۔۔ اسے کے بعد میری کرپال کور سے ملاقات ہوئی۔ مگر میں پگڑی اس طریقے سے باندھتا ہوں کہ سو میں سے ایک ہی آدمی مشکل سے جان سکتا ہے کہ میرے کیس کٹے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر اب یہ بہت جلد ٹھیک ہو جائیں گے‘‘ ترلوچن نے اپنے لمبے ملائم بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کرنا شروع کی۔ موذیل نے لمبا کرتہ اٹھاکر اپنی گوری دبیز ران کھجلانی شروع کی۔’’یہ بہت اچھا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر یہ کم بخت مچھر یہاں بھی موجود ہے۔۔۔۔۔۔ دیکھو، کس زور سے کاٹا ہے۔‘‘ ترلوچن نے دوسری طرف دیکھنا شروع کردیا۔ موذیل نے اس جگہ جہاں مچھر نے کاٹا تھا انگلی سے لب لگائی اور کرتہ چھوڑ کر سیدھی کھڑی ہوگئی۔’’ کب ہورہی ہے تمہاری شادی؟‘‘ ’’ابھی کچھ پتہ نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر ترلوچن سخت متفکر ہوگیا۔ چند لمحات تک خاموشی رہی۔ اس کے بعد موذیل نے اس کے تفکرکا اندازہ لگا کر اس سے بڑے سنجیدہ انداز میں پوچھا۔’’ترلوچن۔۔۔۔۔۔ تم کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ ترلوچن کو اس وقت کسی ہمدرد کی ضرورت تھی۔ خواہ وہ موذیل ہی کیوں نہ ہو۔ چنانچہ اس نے اس کو سارا ماجرا سنا دیا۔ موذیل ہنسی۔’’ تم اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔۔۔۔۔۔جاؤ اس کو لے آؤ۔ ایسی کیا مشکل ہے؟‘‘ ’’مشکل!۔۔۔۔۔۔ موذیل، تم اس معاملے کی نزاکت کو کبھی نہیں سمجھ سکتیں۔۔۔۔۔۔ کسی بھی معاملے کی نزاکت۔۔۔۔۔۔ تم ایک لا ابالی قسم کی لڑکی ہو۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ تمہارے اور میرے تعلقات قائم نہیں رہ سکے، جس کا مجھے ساری عمر افسوس رہے گا۔‘‘ موذیل نے زور سے اپنی کھڑاؤں پانی کے نل کے ساتھ ماری۔’’افسوس بی ڈیمڈ۔۔۔۔۔۔ سلی ایڈیٹ۔۔۔۔۔۔ تم یہ سوچو کہ تمہاری اُس۔۔۔۔۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔۔اس محلے سے بچا کر لانا کیسے ہے۔۔۔۔۔۔ تم بیٹھ گئے ہو تعلقات کا رونا رونے۔۔۔۔۔۔ تمہارے میرے تعلقات کبھی قائم نہیں رہ سکتے تھے۔۔۔۔۔۔ تم ایک سِلی قسم کے آدمی ہو۔۔۔۔۔۔ اور بہت ڈرپوک۔ مجھے نڈر مرد چاہیے۔۔۔۔۔۔لیکن چھوڑو ان باتوں کو۔۔۔۔۔۔چلو آؤ، تمہاری اس کور کو لے آئیں!‘‘ اس نے ترلوچن کا بازو پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔ ترلوچن نے گھبراہٹ میں اس سے پوچھا۔’’کہاں سے؟‘‘ ’’وہیں سے، جہاں وہ ہے۔۔۔۔۔۔ میں اس محلے کی ایک ایک اینٹ کو جانتی ہوں۔۔۔۔۔۔ چلو آؤ میرے ساتھ۔‘‘ ’’مگر سنو تو۔۔۔۔۔۔کرفیو ہے۔‘‘ ’’موذیل کے لیے نہیں۔۔۔۔۔۔ چلو آؤ۔‘‘ وہ ترلوچن کو بازو سے پکڑ کر کھینچتی اس دروازے تک لے گئی تھی جو نیچے سیڑھیوں کی طرح کھلتا تھا۔ دروازہ کھول کر وہ اترنے والی تھی کہ رک گئی اور ترلوچن کی داڑھی کی طرف دیکھنے لگی۔ ترلوچن نے پوچھا۔’’کیا بات ہے؟‘‘ موذیل نے کہا۔’’یہ تمہاری داڑھی۔۔۔۔۔۔ لیکن خیر ٹھیک ہے۔اتنی بڑی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ ننگے سر چلو گے تو کوئی نہیں سمجھے گا کہ تم سکھو۔‘‘ ’’ننگے سر!‘‘ ترلوچن نے کسی قدر بوکھلا کر کہا۔’’میں ننگے سر نہیں جاؤں گا۔‘‘ موذیل نے بڑے معصوم انداز میں پوچھا۔’’کیوں؟‘‘ ترلوچن نے اپنے بالوں کی ایک لٹ ٹھیک کی۔’’تم سمجھتی نہیں ہو۔ میرا وہاں پگڑی کے بغیر جانا ٹھیک نہیں۔‘‘ ’’کیوں ٹھیک نہیں۔‘‘ ’’تم سمجھتی کیوں نہیں ہو کہ اس نے مجھے ابھی تک ننگے سر نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔ وہ یہی سمجھتی ہے کہ میرے کیس ہیں۔ میں اس پر یہ راز افشا نہیں کرنا چاہتا۔‘‘ موذیل نے زور سے اپنی کھڑاؤں دروازے کی دہلیز پر ماری۔’’تم واقعی اول درجے کے ایڈیٹ ہو۔۔۔۔۔۔گدھے کہیں کے۔۔۔۔۔۔ اس کی جان کا سوال ہے۔۔۔۔۔۔کیا نام ہے، تمہاری اس کور کا، جس سے تم محبت کرتے ہو۔‘‘ ترلوچن نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔’’موذیل، وہ بڑی مذہبی قسم کی لڑکی ہے۔۔۔۔۔۔ اگر اس نے مجھے ننگے سر دیکھ لیا تو مجھ سے نفرت کرنے لگے گی۔‘‘ موذیل چڑ گئی۔’’اوہ، تمہاری محبت بی ڈیمڈ۔۔۔۔۔۔ میں پوچھتی ہوں۔ کیا سارے سکھ تمہارے طرح کے بے وقوف ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس کی جان کو خطرہ ہے اور تم کہتے ہو کہ پگڑی ضرور پہنو گے۔۔۔۔۔۔ اور شاید وہ اپنا انڈرویئر بھی جو نیکر سے ملتا جلتا ہے۔‘‘ ترلوچن نے کہا۔’’وہ تو میں ہر وقت پہنے ہوتا ہوں۔‘‘ ’’بہت اچھا کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ مگر اب تم یہ سوچو کہ معاملہ اس محلے کا ہے جہاں میاں بھائی ہی میاں بھائی رہتے ہیں اور وہ بھی بڑے بڑے دادا اور بڑے بڑے موالی۔۔۔۔۔۔ تم پگڑی پہن کر گئے تو وہیں ذبح کردیے جاؤ گے۔‘‘ ترلوچن نے مختصر سا جواب دیا۔’’ مجھے اس کی پروا نہیں۔۔۔۔۔۔ اگر میں تمہارے ساتھ وہاں جاؤں گا تو پگڑی پہن کر جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ میں اپنی محبت خطرے میں نہیں ڈالنا چاہتا!‘‘ موذیل جھنجھلا گئی۔اس زور سے اس نے پیچ و تاپ کھائے کہ اس کی چھاتیاں آپس میں بھڑ بھڑ گئیں۔’’گدھے۔۔۔۔۔۔تمہاری محبت ہی کہاں رہے گی۔ جب تم نہ ہو گے۔۔۔۔۔۔ تمہاری وہ۔۔۔۔۔۔ کیا نام ہے اس بھڑوی کا۔۔۔۔۔۔ جب وہ بھی نہ رہے گی۔ اس کا خاندان تک نہ رہے گا۔۔۔۔۔۔ تم سکھ۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم تم سکھ ہو اور بڑے ایڈیٹ سکھ ہو!‘‘ ترلوچن بھنا گا۔’’بکواس نہ کرو!‘‘ موذیل زور سے ہنسی۔ مہین مہین بالوں کے غبار سے اٹی ہوئی بانھیں اس نے ترلوچن کے گلے میں ڈال دیں اور تھوڑا سا جھول کر کہا۔’’ڈارلنگ چلو، جیسے تمہاری مرضی۔۔۔۔۔۔ جاؤ پگڑی پہن آؤ۔ میں نیچے بازار میں کھڑی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ نیچے جانے لگی۔ ترلوچن نے اسے روکا۔’’تم کپڑے نہیں پہنو گی!‘‘ موذیل نے اپنے سر کو جھٹکا دیا۔’’نہیں۔۔۔۔۔۔چلے گا اسی طرح۔‘‘ یہ کہہ کر وہ کھٹ کھٹ کرتی نیچے اتر گئی۔ ترلوچن نچلی منزل کی سیڑھیوں پر بھی اس کی کھڑاؤں کی چوبی آواز سنتا رہا۔ پھر اس نے اپنے لمبے بال انگلیوں سے پیچھے کی طرف سمیٹے اور نیچے اتر کر اپنے فلیٹ میں چلا گیا۔ جلدی جلدی اس نے کپڑے تبدیل کیے۔ پگڑی بندھی بندھائی رکھی تھی۔ اسے اچھی طرح سر پر جمایا اور فلیٹ کا دروازہ مقفل کرکے نیچے اتر گیا۔ باہر فٹ پاتھ پر موذیل اپنی تکڑی ٹانگیں چوڑی کیے سگرٹ پی رہی تھی۔ بالکل مردانہ انداز میں۔ جب ترلوچن اس کے نزدیک پہنچا تو اس نے شرارت کے طور پر منہ بھر کے دھواں اس کے چہرے پر دے مارا۔ ترلوچن نے غصے میں کہا۔’’تم بہت ذلیل ہو۔‘‘ موذیل مسکرائی۔’’ یہ تم نے کوئی نئی بات نہیں کہی۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے اور کئی مجھے ذلیل کہہ چکے ہیں۔‘‘ پھر اس نے ترلوچن کی پگڑی کی طرف دیکھا۔’’یہ پگڑی تم نے واقعی بہت اچھی طرح باندھی ہے۔۔۔۔۔۔ ایسا معلوم ہوتا ہے تمہارے کیس ہیں‘‘ بازار بالکل سنسان تھا۔ ایک صرف ہوا چل رہی تھی اور وہ بھی بہت دھیرے دھیرے۔ جیسے کرفیو سے خوفزدہ ہے۔ بتیاں روشن تھیں مگر ان کی روشنی بیمار سی معلوم ہوتی تھی۔ عام طور پر اس وقت ٹریمیں چلنی شروع ہوجاتی تھیں اور لوگوں کی آمدورفت بھی جاری ہوجاتی تھی۔ اچھی خاصی گہما گہمی ہوتی تھی۔ پر اب ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سڑک پر کوئی انسان گزرا ہے نہ گزرے گا۔‘‘ موذیل آگے آگے تھی۔ فٹ پاتھ کے پتھروں پر اس کی کھڑاؤں کھٹ کھٹ کررہی تھی۔ یہ آواز، اس خاموش فضا میں ایک بہت بڑا شور تھی۔ ترلوچن دل ہی دل میں موذیل کو برا بھلا کہہ رہا تھا کہ دو منٹ میں اور کچھ نہیں تو اپنی واہیات کھڑاؤں ہی اتار کر کوئی دوسری چیز پہن سکتی تھی۔ اس نے چاہا کہ موذیل سے کہے کھڑاؤں اتار دو اور ننگے پاؤں چلو۔ مگر اس کو یقین تھا کہ وہ کبھی نہیں مانے گی۔ اس لیے خاموش رہا۔ ترلوچن سخت خوفزدہ تھا۔ کوئی پتا کھڑکتا تو اس کے دل دھک سے رہ جاتا تھا۔ مگر موذیل بالکل بے خوف چلی جارہی تھی۔ سگرٹ کا دھواں اڑاتی جیسے وہ بڑی بے فکری سے چہل قدمی کررہا ہے۔ چوک میں پہنچے تو پولیس مین کی آواز گرجی۔’’ اے۔۔۔۔۔۔کدھر جارہا ہے۔‘‘ ترلوچن سہم گیا۔ موذیل آگے بڑھی اور پولیس مین کے پاس پہنچ گئی اور بالوں کو ایک خفیف سا جھٹکا دے کر کہا۔’’اوہ ، تم۔۔۔۔۔۔ہم کو پچانا نہیں تم نے۔۔۔۔۔۔موذیل۔۔۔۔۔۔‘‘ پھر اس نے ایک گلی کی طرف اشارہ کیا۔’’ادھر اس باجو۔۔۔۔۔۔ ہمارا بہن رہتا ہے۔ اس کی طبیعت خراب ہے۔۔۔۔۔۔ڈاکٹر لے کر جارہا ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ سپاہی اسے پہچاننے کی کوشش کررہا تھا کہ اس نے خدا معلوم کہاں سے سگریٹ کی ڈبیا نکالی اور ایک سگرٹ نکال کر اس کو دیا۔’’لو پیو۔‘‘ سپاہی نے سگرٹ لے لیا۔ موذیل نے اپنے منہ سے سلگا ہوا سگرٹ نکالا اور اس سے کہا’’ہیر از لائٹ!‘‘ سپاہی نے سگرٹ کا کش لیا۔ موذیل نے داہنی آنکھ اس کو اور بائیں آنکھ ترلوچن کو ماری اور کھٹ کھٹ کرتی اس گلی کی طرف چل دی۔۔۔۔۔۔ جس میں سے گزر کر انھیں۔۔۔۔۔۔ محلے جانا تھا۔ ترلوچن خاموش تھا، مگر وہ محسوس کررہا تھا کہ موذیل کرفیو کی خلاف ورزی کرکے ایک عجیب و غریب قسم کی مسرت محسوس کررہی ہے۔۔۔۔۔۔ خطروں سے کھیلنا اسے پسند تھا۔ جب جوہو پر اس کے ساتھ جاتی تھی تو اس کے لیے ایک مصیبت بن جاتی تھی۔ سمندر کی پیل تن لہروں سے ٹکراتی، بھڑتی وہ دور تک نکل جاتی تھی اور اس کو ہمیشہ اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ وہ کہیں ڈوب نہ جائے۔ جب واپس آتی تو اس کا جسم سیپوں اور زخموں سے بھرا ہوتا تھا مگر اسے ان کی کوئی پروا نہیں ہوتی تھی۔ موذیل آگے آگے تھی۔ ترلوچن اس کے پیچھے پیچھے۔ ڈر ڈر کے ادھر ادھر دیکھتا رہتا تھا کہ اس کی بغل سے کوئی چھری مار نمودار نہ ہو جائے۔ موذیل رک گئی۔ جب ترلوچن پاس آیا تو اس نے سمجھانے کے انداز میں اسے کہا۔’’ترلوچن ڈیئر۔۔۔۔۔۔ اس طرح ڈرنا اچھا نہیں۔۔۔۔۔۔ تم ڈرو گے تو ضرور کچھ نہ کچھ ہو کے رہے گا۔۔۔۔۔۔ سچ کہتی ہوں، یہ میری آزمائی ہوئی بات ہے۔‘‘ ترلوچن خاموش رہا۔ جب وہ گلی طے کرکے دوسری گلی میں پہنچے ۔ جو اس محلے کی طرف نکلتی تھی، جس میں کرپال کور رہتی تھی توموذیل چلتے چلتے ایک دم رک گئی۔۔۔۔۔۔ کچھ فاصلے پر بڑے اطمینان سے ایک مار واڑی کی دکان لوٹی جارہی تھی۔ ایک لحظے کے لیے اس نے معاملے کا جائزہ لیا اور ترلوچن سے کہا۔’’کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔ چلو آؤ۔‘‘ دونوں چلنے لگے۔۔۔۔۔۔ ایک آدمی جو سر پر بہت بڑی پرات اٹھائے چلا آرہا تھا۔ ترلوچن سے ٹکرا گیا۔پرات گر گئی۔ اس آدمی نے غور سے ترلوچن کی طرف دیکھا۔ صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ سکھ ہے۔ اس آدمی نے جلدی سے اپنے نیفے میں ہاتھ ڈالا۔۔۔۔۔۔ کہ موذیل آگئی۔ لڑکھڑاتی ہوئی جیسے نشے میں چور ہے اس نے زور سے اس کو آدمی کو دھکا دیا اور مخمور لہجے میں کہا۔’’ اے کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔اپنے بھائی کو مارتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہم اس سے شادی بنانے کو مانگتا ہے۔‘‘ پھر وہ ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔’’ کریم۔۔۔۔۔۔اٹھاؤ، یہ پرات اور رکھ دو اس کے سر پر۔‘‘ اس آدمی نے نیفے میں سے ہاتھ نکال لیا اور شہوانی آنھکوں سے موذیل کی طرف دیکھا، پھر آگے بڑھ کر اپنی کہنی سے اس کی چھاتیوں میں ایک ٹہوکا دیا۔’’عیش کر سالی۔۔۔۔۔۔عیش کر‘‘ پھر اس نے پرات اٹھائی اور یہ جا، وہ جا۔ ترلوچن بڑبڑایا۔’’ کیسی ذلیل حرکت کی ہے حرامزادے نے!‘‘ موذیل نے اپنی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرا۔’’کوئی ذلیل حرکت نہیں۔۔۔۔۔۔ سب چلتا ہے۔۔۔۔۔۔آؤ۔‘‘ اور وہ تیز تیز چلنے لگی۔۔۔۔۔۔ ترلوچن نے بھی قدم تیز کردیے۔ یہ گلی طے کرکے دونوں اس محلے میں پہنچ گئے۔ جہاں کرپال کور رہتی تھی۔ موذیل نے پوچھا۔’’کس گلی میں جانا ہے؟‘‘ ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔’’تیسری گلی میں۔۔۔۔۔۔نکڑ والی بلڈنگ!‘‘ موذیل نے اس طرف چلنا شروع کردیا۔ یہ راستہ بالکل خاموش تھا۔ آس پاس اتنی گنجان آبادی تھی مگر کسی بچے تک کے رونے کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ جب وہ اس گلی کے قریب پہنچے تو کچھ گڑ بڑ دکھائی دی۔۔۔۔۔۔ایک آدمی بڑے سے اس کنارے والی بلڈنگ سے نکلا اور دوسرے کنارے والی بلڈنگ میں گھس گیا۔ اس بلڈنگ سے تھوڑی دیر کے بعد تین آدمی نکلے۔ فٹ پاتھ پر انھوں نے ادھر ادھر دیکھا اور بڑی پھرتی سے دوسری بلڈنگ میں چلے گئی۔’’موذیل ٹھٹک گئی تھی۔ اس نے ترلوچن کو اشارہ کیا کہ اندھیرے میں ہو جائے۔ پھر اس نے ہولے سے کہا۔’’ترلوچن ڈیئر۔۔۔۔۔۔یہ پگڑی اتار دو!‘‘ ترلوچن نے جواب دیا۔’’ میں یہ کسی صورت میں بھی نہیں اتار سکتا!‘‘ موذیل جھنجھلا گئی۔’’ تمہاری مرضی۔۔۔۔۔۔لیکن تم دیکھتے نہیں، سامنے کیا ہو رہا ہے‘‘ سامنے جو کچھ ہورہا تھا دونوں کی آنکھوں کے سامنے تھا۔۔۔۔۔۔ صاف گڑ بڑ ہورہی تھی اور بڑی پراسرار قسم کی۔ دائیں ہاتھ کی بلڈنگ سے جب دو آدمی اپنی پیٹھ پر بوریاں اٹھائے نکلے تو موذیل ساری کی ساری کانپ گئی۔ ان میں سے کچھ گاڑھی گاڑھی سیال سی چیز ٹپک رہی تھی۔ موذیل اپنے ہونٹ کاٹنے لگی۔ غالباً وہ سوچ رہی تھی۔ جب یہ دونوں آدمی گلی کے دوسرے سرے پر پہنچ کر غائب ہوگئے تو اس نے ترلوچن سے کہا۔’’دیکھو، ایسا کرو۔۔۔۔۔۔ میں بھاگ کر نکڑ والی بلڈنگ میں جاتی ہوں۔۔۔۔۔۔ تم میرے پیچھے آنا۔۔۔۔۔۔ بڑی تیزی سے، جیسے تم میرا پیچھا کررہے ہو۔۔۔۔۔۔سمجھے۔۔۔۔۔۔مگر یہ سب ایک دم جلدی جلدی میں ہو۔‘‘ موذیل نے ترلوچن کے جواب کا انتظار نہ کیا اور نکڑ والی بلڈنگ کی طرف کھڑاؤں کھٹکھٹاتی بڑی تیزی سے بھاگی۔ ترلوچن بھی اس کے پیچھے دوڑا۔ چند لمحوں وہ بلڈنگ کے اندر تھے۔۔۔۔۔۔ سیڑھیوں کے پاس۔ ترلوچن ہانپ رہا تھا۔ مگر موذیل بالکل ٹھیک ٹھاک تھی۔ اس نے ترلوچن سے پوچھا۔’’کون سا مالا؟‘‘ ترلوچن نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری۔’’دوسرا۔‘‘ ’’چلو۔‘‘ یہ کہہ وہ کھٹ کھٹ سیڑھیاں چڑھنے لگے۔ ترلوچن اس کے پیچھے ہولیا۔ زینوں پر خون کے بڑے بڑے دھبے پڑے تھے۔ ان کو دیکھ دیکھ کر اس کا خون خشک ہورہا تھا۔ دوسرے مالے پر پہنچے تو کوری ڈور میں کچھ دور جا کر ترلوچن نے ہولے سے ایک دروازے پر دستک دی۔ موذیل دور سیڑھیوں کے پاس کھڑی رہی۔ ترلوچن نے ایک بار پھر دستک دی اور دروازے کے ساتھ منہ لگا کر آواز دی۔ ’’مہنگا سنگھ جی۔۔۔۔۔۔مہنگا سنگھ جی!‘‘ اندر سے مہین آواز آئی۔’’کون؟‘‘ ’’ترلوچن!‘‘ دروازہ دھیرے سے کھلا۔۔۔۔۔۔ترلوچن نے موذیل کو اشارہ کیا۔ وہ لپک کر آئی دونوں اندر داخل ہوئے۔۔۔۔۔۔ موذیل نے اپنی بغل میں ایک دبلی پتلی لڑکی کو دیکھا۔۔۔۔۔۔جو بے حد سہمی ہوئی تھی۔ موذیل نے اس کو ایک لحظے کے لیے غور سے دیکھا پتلے پتلے نقش تھے۔ ناک بہت ہی پیاری تھی مگر زکام میں مبتلا۔ موذیل نے اس کو اپنے چوڑے چکلے سینے کے ساتھ لگا لیا اور اپنے ڈھیلے ڈھالے کرنے کا دامن اٹھا کر اس کی ناک پونچھی۔ ترلوچن سرخ ہوگیا۔ موذیل نے کرپال کور سے بڑے پیار کے ساتھ کہا۔’’ڈرو نہیں، ترلوچن تمہیں لینے آیا ہے۔‘‘ کرپال کور نے ترلوچن کی طرف اپنی سہمی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور موذیل سے الگ ہوگئی۔ ترلوچن نے اس سے کہا۔’’ سردار صاحب سے کہو کہ جلدی تیار ہو جائیں۔۔۔۔۔۔ اور اپنی ماتا جی سے بھی۔۔۔۔۔۔لیکن جلدی کرو۔‘‘ اتنے میں اوپر کی منزل پر بلند آوازیں آنے لگیں جیسے کوئی چیخ چلا رہا ہے اور دھینگا مشتی ہورہی ہے۔ کرپال کور کے حلق سے دبی دبی چیخ بلند ہوئی۔’’ اسے پکڑ لیا انھوں نے!‘‘ ترلوچن نے پوچھا۔’’کسے؟‘‘ کرپال کور جواب دینے ہی والی تھی کہ موذیل نے اس کو بازو سے پکڑاور گھسیٹ کر ایک کونے میں لے گئی۔’’پکڑ لیا تو اچھا ہوا۔۔۔۔۔۔تم یہ کپڑے اتارو۔‘‘ کرپال کور ابھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موذیل نے آنا فانا اس کی قمیض اتار کر ایک طرف رکھ دی۔ کرپال کور نے اپنی بانھوں میں اپنے ننگے جسم کو چھپا لیا اور سخت وحشت زدہ ہوگئی۔ ترلوچن نے منہ دوسری طرف منہ موڑ لیا۔ موذیل نے اپنا ڈھیلا ڈھالا کرتا اتارا اور اس کو پہنا دیا۔ خود وہ ننگ دھڑنگ تھی۔ جلدی جلدی اس نے کرپال کور کا ازار بند ڈھیلا کیا اور اس کی شلوار اتار کر، ترلوچن سے کہنے لگی۔’’جاؤ، اسے لے جاؤ۔۔۔۔۔۔لیکن ٹھہرو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے کرپال کور کے بال کھول دیے اور اس سے کہا۔’’جاؤ۔۔۔۔۔۔جلدی نکل جاؤ۔‘‘ ترلوچن نے اس سے کہا۔’’آؤ۔‘‘ مگر فوراً ہی رک گیا۔ پلٹ کر اس نے موذیل کی طرف دیکھا جو دھوئے دیدے کی طرح ننگی کھڑی تھی۔ اس کی بانھوں پر مہین مہین بال سردی کے باعث جاگے ہوئے تھے۔ ’’تم جاتے کیوں نہیں ہو؟‘‘ موذیل کے لہجے میں چڑچڑاپن تھا۔ ترلوچن نے آہستہ سے کہا۔’’ اس کے ماں باپ بھی تو ہیں۔‘‘ ’’جہنم میں جائیں وہ۔۔۔۔۔۔ تم اسے لے جاؤ۔‘‘ ’’اور تم؟‘‘ ’’میں آجاؤں گی۔‘‘ ایک دم اوپر کی منزل سے کئی آدمی دھڑا دھڑ نیچے اترنے لگے۔ دروازے کے پاس آکر انھوں نے اسے کوٹنا شروع کردیا جیسے وہ اسے توڑ ہی ڈالیں گے۔ کرپال کور کی اندھی ماں اور اس کا مفلوج باپ دوسرے کمرے میں پڑے کراہ رہے تھے۔ موذیل نے کچھ سوچا اور بالوں کو خفیف سا جھٹکا دے کر اس نے ترلوچن سے کہا۔’’سنو۔ اب صرف ایک ہی ترکیب سمجھ میں آتی ہے۔۔۔۔۔۔ میں دروازہ کھولتی ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘ کرپال کور کے خشک حلق سے چیخ نکلتی نکلتی دب گئی۔’’ دروازہ۔‘‘ موذیل، ترلوچن سے مخاطب رہی۔’’ میں دروازہ کھول کر باہر نکلتی ہوں۔۔۔۔۔۔تم میرے پیچھے بھاگنا۔۔۔۔۔۔ میں اوپر چڑھ جاؤں گی۔۔۔۔۔۔ تم بھی اوپر چلے آنا۔۔۔۔۔۔ یہ جو لوگ جو دروازہ توڑ رہے ہیں، سب کچھ بھول جائیں گے اور ہمارے پیچھے چلے آئیں گے۔۔۔۔۔۔‘‘ ترلوچن نے پھر پوچھا۔’’پھر؟‘‘ موذیل نے کہا۔’’یہ تمہاری۔۔۔۔۔۔ کیا نام ہے اس کا۔۔۔۔۔۔ موقعہ پا کر نکل جائے ۔۔۔۔۔۔اس لباس میں اسے کوئی کچھ نہ کہے گا۔‘‘ ترلوچن نے جلدی جلدی کرپال کور کو ساری بات سمجھا دی۔ موذیل زور سے چلائی۔ دروازہ کھولا اور دھڑام سے باہر کے لوگوں پر گری۔۔۔۔۔۔ سب بوکھلا گئے۔ اٹھ کر اس نے اوپر کی سیڑھیوں کا رخ کیا۔ ترلوچن اسکے پیچھے بھاگا۔ سب ایک طرف ہٹ گئے۔ موذیل اندھا دھند سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ کھڑاؤں اس کے پیروں میں تھی۔۔۔۔۔۔ وہ جو لوگ جو دروازہ توڑنے کی کوشش کررہے تھے سنبھل کر ان کے تعاقب میں دوڑے۔ موذیل کا پاؤں پھسلا۔۔۔۔۔۔اوپر کے زینے سے وہ کچھ اس طرح لڑھکی کہ ہر پتھریلے زینے کے ساتھ ٹکراتی، لوہے کے جنگلے کے ساتھ الجھتی وہ نیچے آرہی۔۔۔۔۔۔پتھریلے فرش پر۔ ترلوچن ایک دم نیچے اترا۔ جھک کر اس نے دیکھا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ منہ سے خون بہہ رہا تھا۔ کانوں کے رستہ بھی خون نکل رہا تھا۔ وہ جو دروازہ توڑنے آئے تھے اردگرد جمع ہوگئے۔۔۔۔۔۔ کسی نے بھی نہ پوچھا کیا ہوا ہے۔ سب خاموش تھے اور موذیل کے ننگے اور گورے جسم کو دیکھ رہے تھے۔ جس پر جا بجا خراشیں پڑی تھیں۔ ترلوحن نے اس کا بازو ہلایا اور آواز دی۔’’موذیل۔۔۔۔۔۔موذیل۔‘‘ موذیل نے اپنی بڑی بڑی یہودی آنکھیں کھولیں جو لال بوٹی ہورہی تھیں اور مسکرائی۔ ترلوچن نے اپنی پگڑی اتاری اور کھول کر اس کا ننگا جسم ڈھک دیا۔ موذیل پھرمسکرائی اور آنکھ مار کر اس نے ترلوچن سے منہ میں خون کے بلبلے اڑاتے ہوئے کہا۔’’جاؤ، دیکھو۔۔۔۔۔۔میرا انڈر ویئر وہاں ہے کہ نہیں۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے وہ۔۔۔۔۔۔‘‘ ترلوچن اس کا مطلب سمجھ گیا مگر اس نے اٹھنا نہ چاہا۔ اس پر موذیل نے غصے میں کہا۔’’تم سچ مچ سکھ ہو۔۔۔۔۔۔ جاؤ دیکھ کر آؤ۔‘‘ ترلوچن اٹھ کر کرپال کور کے فلیٹ کی طرف چلا گیا۔ موذیل نے اپنی دھندلی آنکھوں سے آس پاس کھڑے مردوں کی طرف دیکھا اور کہا’’یہ میاں بھائی ہے۔۔۔۔۔۔لیکن بہت دادا قسم کا۔۔۔۔۔۔میں اسے سکھ کہا کرتی ہوں۔‘‘ ترلوچن واپس آگیا۔ اس نے آنکھوں ہی آنکھوں میں موذیل کو بتا دیاکہ کرپال کور جا چکی ہے۔۔۔۔۔۔ موذیل نے اطمینان کا سانس لیا۔۔۔۔۔۔ لیکن ایسا کرنے سے بہت سا خون اس کے منہ سے بہہ نکلا’’اوہ ڈیم اٹ۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اپنی مہین مہین بالوں سے اٹی ہوئی کلائی سے اپنا منہ پونچھا اور ترلوچن سے مخاطب ہوئی۔’’آل رائٹ ڈارلنگ۔۔۔۔۔۔ بائی بائی۔‘‘ ترلوچن نے کچھ کہنا چاہا، مگر لفظ اس کے حلق میں اٹک گئے۔ موذیل نے اپنے بدن پر سے ترلوچن کی پگڑی ہٹائی۔’’لے جاؤ اس کو۔۔۔۔۔۔اپنے اس مذہب کو۔‘‘ اور اس کا بازو اس کی مضبوط چھاتیوں پر بے حس ہو کر گر پڑا۔
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
  #16  
Old Friday, August 07, 2015
Amna's Avatar
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default 15.Khol Do

امرتسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی اور آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی۔ راستے میں کئی آدمی مارے گئے۔ متعدد زخمی ہوئے اور کچھ اِدھر اُدھر بھٹک گئے۔ صبح دس بجے۔۔۔۔۔۔ کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں اور بچوں کا ایک متلاطم سمندر دیکھا تو اس کی سوچنے سمجھنے کی قوتیں اور بھی ضعیف ہوگئیں۔ وہ دیر تک گدلے آسمان کو ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ یوں تو کیمپ میں ہر طرف شور برپا تھا۔ لیکن بوڑھے سراج الدین کے کان جیسے بند تھے۔ اسے کچھ سنائی نہیں دیتا تھا۔ کوئی اسے دیکھتا تو یہ خیال کرتا کہ وہ کسی گہری فکر میں غرق ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ اس کے ہوش و حواس شل تھے۔ اس کا سارا وجود خلا میں معلق تھا۔ گدلے آسمان کی طرف بغیر کسی ارادے کے دیکھتے دیکھتے سراج الدین کی نگاہیں سورج سے ٹکرائیں۔ تیز روشنی اس کے وجود کے رگ و ریشے میں اتر گئی اور وہ جاگ اٹھا۔ اوپر تلے اس کے دماغ پر کئی تصویریں دوڑ گئیں۔ لوٹ، آگ۔۔۔۔۔۔ بھاگم بھاگ۔۔۔ اسٹیشن۔۔۔ گولیاں۔۔۔۔۔۔ رات اور سکینہ۔۔۔۔۔۔ سراج الدین ایک دم اٹھ کھڑا ہوا اور پاگلوں کی طرح اس نے اپنے چاروں طرف پھیلے ہوئے انسانوں کے سمندر کو کھنگالنا شروع کیا۔ پورے تین گھنٹے وہ’’ سکینہ سکینہ‘‘ پکارتا کیمپ میں خاک چھانتا رہا۔ مگر اسے اپنی جوان اکلوتی بیٹی کا کوئی پتا نہ ملا۔ چاروں طرف ایک دھاندلی سی مچی تھی۔ کوئی اپنا بچہ ڈھونڈ رہا تھا۔ کوئی ماں۔ کوئی بیوی اور کوئی بیٹی۔ سراج الدین تھک ہار کر ایک طرف بیٹھ اور گیا اور حافظے پر زور دے کر سوچنے لگا کہ سکینہ اس سے کب اور کہاں جدا ہوئی۔ لیکن سوچتے سوچتے اس کا دماغ سکینہ کی ماں کی لاش پر جم جاتا۔ جس کی ساری انتڑیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس سے آگے وہ اور کچھ نہ سوچ سکتا۔ سکینہ کی ماں مر چکی تھی۔ اس نے سراج الدین کی آنکھوں کے سامنے دم توڑا تھا۔ لیکن سکینہ کہاں تھی جس کے متعلق اس کی ماں نے مرتے ہوئے کہا تھا’’ مجھے چھوڑو اور سکینہ کو لے کر جلدی یہاں سے بھاگ جاؤ۔‘‘ سکینہ اس کے ساتھ ہی تھی۔ دونوں ننگے پاؤں بھاگ رہے تھے۔ سکینہ کا دوپٹہ گر پڑا تھا۔ اسے اٹھانے کے لیے اس نے رکنا چاہا تھا مگر سکینہ نے چلا کر کہا تھا’’ ابا جی۔۔۔۔۔۔ چھوڑیئے۔‘‘ لیکن اس نے دوپٹہ اٹھا لیا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ سوچتے سوچتے اس نے اپنے کوٹ کی ابھری ہوئی جیب کی طرف دیکھا اور اس میں ہاتھ ڈال کر ایک کپڑا نکالا۔۔۔۔۔۔ سکینہ کا وہی پٹہ تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن سکینہ کہاں تھی؟ سراج الدین نے اپنے تھکے ہوئے دماغ پر بہت زور دیا مگر وہ کسی نتیجہ پر نہ پہنچ سکا۔ کیا وہ سکینہ کو اپنے ساتھ اسٹیشن تک لے آیا تھا؟۔۔۔۔۔۔ کیا وہ اس کے ساتھ ہی گاڑی میں سوار تھی؟۔۔۔۔۔۔ راستہ میں جب گاڑی روکی گئی تھی اور بلوائی اندر گھس آئے تھے تو کیا وہ بے ہوش ہوگیا تھا جو وہ سکینہ کو اٹھا کرلے گئے؟ سراج الدین کے دماغ میں سوال ہی سوال تھے، جواب کوئی بھی نہیں تھا۔ اس کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ لیکن چاروں طرف جتنے بھی انسان پھیلے ہوئے تھے سب کو ہمدردی کی ضرورت تھی۔ سراج الدین نے رونا چاہا۔ مگر آنکھوں نے اس کی مدد نہ کی۔ آنسو جانے کہاں غائب ہوگئے تھے۔ چھ روز کے بعد جب ہوش و حواس کسی قدر درست ہوئے تو سراج الدین ان لوگوں سے ملا جو اس کی مدد کرنے کے لیے تیار تھے۔ آٹھ نوجوان تھے۔ جن کے پاس لاری تھی، بندوقیں تھیں۔ سراج الدین نے ان کو لاکھ لاکھ دعائیں دیں اور سکینہ کا حلیہ بتایا۔’’گورارنگ ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔۔۔۔۔۔ مجھ پر نہیں اپنی ماں پر تھی۔۔۔۔۔۔ عمر سترہ برس کے قریب ہے۔۔۔۔۔۔ آنکھیں بڑی بڑی۔۔۔۔۔۔ بال سیاہ، دہنے گال پر موٹا سا تل۔۔۔۔۔۔میری اکلوتی لڑکی ہے۔ ڈھونڈ لاؤ۔ تمہارا خدا بھلا کرے گا۔‘‘ رضا کار نوجوانوں نے بڑے جذبے کے ساتھ بوڑھے سراج الدین کو یقین دلایا کہ اگر اس کی بیٹی زندہ ہوئی تو چند ہی دنوں میں اس کے پاس ہوگی۔ آٹھوں نوجوان نے کوشش کی۔ جان ہتھیلیوں پر رکھ کر وہ امرتسر گئے۔ کئی عورتوں، کئی مردوں اور کئی بچوں کو نکال نکال کر انھوں نے محفوظ مقاموں پر پہنچایا۔ دس روز گزر گئے مگر انھیں سکینہ کہیں نہ ملی۔ ایک روز وہ اسی خدمت کے لیے لاری پر امرتسر جارہے تھے کہ چھ ہرٹہ کے پاس سڑک پر انھیں ایک لڑکی دکھائی دی۔ اری کی آواز سن کروہ بدکی اور بھاگنا شروع کردیا۔ رضا کاروں نے موٹر رکی اور سب کے سب اس کے پیچھے بھاگے۔ ایک کھیت میں انھوں نے لڑکی کو پکڑ لیا۔ دیکھا تو بہت خوبصورت تھی۔ دہنے گال پر موٹا تل تھا۔ ایک لڑکے نے اس سے کہا’’گھبراؤ نہیں۔۔۔۔۔۔ کیا تمہارا نام سکینہ ہے؟‘‘ لڑکی کا رنگ اور بھی زرد ہوگیا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ لیکن جب تمام لڑکوں نے اسے دم دلاسا دیا تو اس کی وحشت دور ہوئی اور اس نے مان لیا کہ وہ سراج الدین کی بیٹی سکینہ ہے۔ آٹھ رضا کار نوجوانوں نے ہر طرح سکینہ کی دلجوئی کی۔ اسے کھانا کھلایا۔ دودھ پلایا اور لاری میں بٹھا دیا۔ ایک نے اپنا کو ٹ اتار کر اسے دے دیا۔ کیونکہ دوپٹہ نہ ہونے کے باعث وہ بہت الجھن محسوس کررہی تھی۔ اور بار بار بانھوں سے اپنے سینے کو ڈھانکنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھی۔ کئی دن گزر گئے۔۔۔۔۔۔ سراج الدین کو سکینہ کی کوئی خبر نہ ملی۔ وہ دن بھر مختلف کیمپوں اور دفتروں کے چکر کاٹتا رہتا۔ لیکن کہیں سے بھی اس کی بیٹی کا پتہ نہ چلا۔ رات کو وہ بہت دیر تک ان رضا کار نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعائیں مانگتا رہتا۔ جنہوں نے اس کو یقین دلایا تھا کہ اگر سکینہ زندہ ہوئی تو چند دنوں ہی میں وہ اسے ڈھونڈ نکالیں گے۔ ایک روز سراج الدین نے کیمپ میں ان نوجوان رضا کاروں کو دیکھا۔ لاری میں بیٹھے تھے۔ سراج الدین بھاگا بھاگا ان کے پاس گیا۔ لاری چلنے ہی والی تھی کہ اس نے پوچھا۔’’بیٹا، میری سکینہ کا پتہ چلا؟‘‘ سب نے یک زبان ہو کر کہا۔’’ چل جائے گا، چل جائے گا۔‘‘ اور لاری چلا دی۔ سراج الدین نے ایک بار پھران نوجوانوں کی کامیابی کے لیے دعا مانگی اور اس کا جی کسی قدر ہلکا ہوگیا۔ شام کے قریب کیمپ میں جہاں سراج الدین بیٹھا تھا۔ اس کے پاس ہی کچھ گڑبڑسی ہوئی۔ چار آدمی کچھ اٹھا کر لارہے تھے۔ اس نے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ایک لڑکی ریلوے لائن کے پاس بیہوش پڑی تھی۔ لوگ اسے اٹھا کر لائے ہیں۔ سراج الدین ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ لوگوں نے لڑکی کو ہسپتال والوں کے سپرد کیا اور چلے گئے۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی ہسپتال کے باہر گڑے ہوئے لکڑی کے کھمبے کے ساتھ لگ کر کھڑا رہا۔ پھر آہستہ آہستہ اندر چلا گیا۔ کمرے میں کوئی بھی نہیں تھا۔ ایک اسٹریچر تھا جس پر ایک لاش پڑی تھی۔ سراج الدین چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس کی طرف بڑھا۔ کمرے میں دفعتاً روشنی ہوئی۔ سراج الدین نے لاش کے زرد چہرے پر چمکتا ہوا تل دیکھا اور چلایا۔’’سکینہ!‘‘ ڈاکٹر نے جس نے کمرے میں روشنی کی تھی سراج الدین سے پوچھا۔’’کیا ہے؟‘‘ سراج الدین کے حلق سے صرف اس قدر نکل سکا۔’’جی میں۔۔۔۔۔۔ جی میں۔۔۔۔۔۔ اس کا باپ ہوں!‘‘ ڈاکٹر نے اسٹریچر پر پڑی ہوئی لاش کی طرف دیکھا۔ اس کی نبض ٹٹولی اور سراج الدین سے کہا’’کھڑکی کھول دو۔‘‘ سکینہ کے مردہ جسم میں جنبش پیدا ہوئی۔ بے جان ہاتھوں سے اس نے ازار بند کھولا اور شلوار نیچے سرکا دی۔ بوڑھا سراج الدین خوشی سے چلایا۔’’ زندہ ہے۔۔۔۔۔۔ میری بیٹی زندہ ہے‘‘۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر سر سے پیر تک پسینے میں غرق ہوگیا۔
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
  #17  
Old Friday, August 07, 2015
Amna's Avatar
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default 16.Toba Tek Singh

بٹوارے کے دو تین سال بعد پاکستان اور ہندوستان کی حکومتوں کو خیال آیا کہ اخلاقی قیدیوں کی طرح پاگلوں کا تبادلہ بھی ہونا چاہیے یعنی جو مسلمان پاگل، ہندوستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں پاکستان پہنچا دیا جائے اور جو ہندو اور سکھ، پاکستان کے پاگل خانوں میں ہیں انھیں ہندوستان کے حوالے کردیا جائے۔ معلوم نہیں یہ بات معقول تھی یا غیر معقول،بہر حال دانش مندوں کے فیصلے کے مطابق ادھر ادھر اونچی سطح کی کانفرنسیں ہوئیں اور بالآخر ایک دن پاگلوں کے تبادلے کے لیے مقرر ہوگیا۔ اچھی طرح چھان بین کی گئی۔ وہ مسلمان پاگل جن کے لواحقین ہندوستان ہی میں تھے۔ وہیں رہنے دیے گئے تھے۔ جو باقی تھے، ان کو سرحد پر روانہ کردیا گیا۔ یہاں پاکستان میں چونکہ قریب قریب تمام ہندو، سکھ جا چکے تھے اسی لیے کسی کو رکھنے رکھانے کا سوال ہی نہ پیدا ہوا۔ جتنے ہندو، سکھ پاگل تھے سب کے سب پولیس کی حفاظت میں بارڈرپر پہنچا دیے گئے۔ ادھر کا معلوم نہیں، لیکن ادھر لاہور کے پاگل خانے میں جب اس تبادلے کی خبر پہنچی تو بڑی دلچسپ چہ مے گوئیاں ہونے لگیں۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس سے ہر روز باقاعدگی کے ساتھ’’زمیندار‘‘ پڑھتا تھا، اس سے جب اس کے ایک دوست نے پوچھا۔’’مولبی ساب! یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟‘‘ تو اس نے بڑے غور و فکر کے بعد جواب دیا۔’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں۔‘‘ یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہوگیا۔ اسی طرح ایک سکھ پاگل نے ایک دوسرے سکھ پاگل سے پوچھا۔’’سردار جی ہمیں ہندوستان کیوں بھیجا رہا ہے۔۔۔۔۔۔ ہمیں تو وہاں کی بولی نہیں آتی۔‘‘ دوسرا مسکرایا۔’’مجھے تو ہندوستوڑوں کی بولی آتی ہے۔۔۔۔۔۔ ہندوستانی بڑے شیطانی،اکڑ اکڑ پھرتے ہیں۔‘‘ ایک دن نہاتے نہاتے ایک مسلمان پاگل نے’’پاکستان زندہ باد‘‘ کا نعرہ اس زور سے بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گرا اور بے ہوش ہوگیا۔ بعض پاگل ایسے بھی تھے جو پاگل نہیں تھے۔ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو دے دلا کر، پاگل خانے بھجوا دیا تھا کہ پھانسی کے پھندے سے بچ جائیں۔ یہ کچھ کچھ سمجھتے تھے کہ ہندوستان کیوں تقسیم ہوا ہے اور یہ پاکستان کیا ہے۔ لیکن صحیح واقعات سے وہ بھی خبر تھے۔ اخباروں سے کچھ پتا نہیں چلتا تھا اور پہرہ دار سپاہی ان پڑھ اور جاہل تھے۔ ان کی گفتگوؤں سے بھی وہ کوئی نتیجہ برآمد نہیں کرسکتے تھے۔ ان کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ایک آدمی محمد علی جناح ہے جس کو قائداعظم کہتے ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ ملک بنایا ہے جس کا نام پاکستان ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کہاں ہے، اس کا محل وقوع کیا ہے، اس کے متعلق وہ کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پاگل خانے میں وہ سب پاگل جن کا دماغ پوری طرح ماؤف نہیں ہوا تھا، اس مخصمے میں گرفتار تھے کہ وہ پاکستان میں ہیں یا ہندوستان میں۔۔۔۔۔۔ اگرہندوستان میں ہیں تو پاکستان کہاں ہے! اگر وہ پاکستان میں ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ کچھ عرصے پہلے یہیں رہتے ہوئے بھی ہندوستان میں تھے! ایک پاگل تو پاکستان اور ہندوستان۔ اور ہندوستان اور پاکستان کے چکر میں کچھ ایسا گرفتار ہوا کہ اور زیادہ پاگل ہوگیاجھاڑو دیتے ایک دن درخت پر چڑھ گیا اور ٹہنے پر بیٹھ کر دو گھنٹے مسلسل تقریر کرتا رہا جو پاکستان اور ہندوستان کے نازک مسئلے پر تھی۔ سپاہیوں نے اسے نیچے اترنے کو کہا تووہ اور اوپر چڑھ گیا۔ ڈرایا دھمکایا گیا تو اس نے کہا۔’’ میں ہندوستان میں رہنا چاہتا ہوں نہ پاکستان میں۔۔۔۔۔۔ میں اس درخت پر ہی رہوں گا۔‘‘ بڑی مشکلوں کے بعد جب اس کا دورہ سرد پڑا تو وہ نیچے اترا اور اپنے ہندو سکھ دوستوں سے گلے مل مل کر رونے لگا۔ اس خیال سے اس کا دل بھر آیا تھا کہ وہ اسے چھوڑکر ہندوستان چلے جائیں گے۔ ایک ایم۔ ایس۔ سی پاس ریڈیو انجنیئر میں جو مسلمان تھا اور دوسرے پاگلوں سے بالکل الگ تھلگ، باغ کی ایک خاص روش پر، سارا دن خاموش ٹہلتا رہتا تھا، یہ تبدیلی نمودار ہوئی کہ اس نے تمام کپڑے اتار کر دفعدار کے حوالے کردیے اور ننگ دھڑنگ سارے باغ میں چلنا پھرنا شروع کردیا۔ چنیوٹ کے ایک موٹے مسلمان پاگل نے جو مسلم لیگ کا سرگرم کارکن رہ چکا تھا اور دن میں پندرہ سو مرتبہ نہایا کرتا تھا، یک لخت یہ عادت ترک کردی۔ اس کا نام محمد علی تھا۔ چنانچہ اس نے ایک دن اپنے جنگلے میں اعلان کردیا کہ وہ قائداعظم محمد علی جناح ہے۔ اس کی دیکھا دیکھی ایک سکھ پاگل ماسٹر تارا سنگھ بن گیا۔ قریب تھا کہ اس جنگلے میں خون خرابہ ہو جائے مگر دونوں کو خطرناک پاگل قرار دے کر علیحدہ علیحدہ بند کردیا گیا۔ لاہور کا ایک نوجوان ہندووکیل تھا جو محبت میں ناکام ہو کر پاگل ہوگیا تھا۔ جب اس نے سنا کہ امرتسر ہندوستان میں چلا گیا ہے تو اسے بہت دکھ ہوا۔ اسی شہر کی ایک ہندو لڑکی سے اسے محبت ہوئی تھی۔ گو اس نے اس وکیل کو ٹھکرا دیا تھا، مگر دیوانگی کی حالت میں بھی وہ اس کو نہیں بھولا تھا۔ چنانچہ وہ ان تمام ہندو اور مسلم لیڈروں کو گالیاں دیتا تھا جنہوں نے مل ملا کر ہندوستان کے دو ٹکڑے کردیے۔۔۔۔۔۔ اس کی محبوبہ ہندوستانی بن گئی اور وہ پاکستانی۔ جب تبادلے کی بات شروع ہوئی تووکیل کو کئی پاگلوں نے سمجھایا کہ وہ دل برا نہ کرے، اس کوہندوستان بھیج دیا جائے گا۔ اس ہندوستان میں جہاں اس کی محبوبہ رہتی ہے۔ مگر وہ لاہور چھوڑنا نہیں چاہتا تھا اس لیے کہ اس کا خیال تھا کہ امرتسر میں اس کی پریکٹس نہیں چلے گی۔ یورپین وارڈ میں اینگلو انڈین پاگل تھے۔ ان کو جب معلوم ہوا کہ ہندوستان کو آزاد کرکے انگریز چلے گئے ہیں تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ وہ چھپ چھپ کر گھنٹوں آپس میں اس اہم مسئلے پر گفتگو کرتے رہتے کہ پاگل خانے میں اب ان کی حیثیت کس قسم کی ہوگی۔ یورپین وارڈ رہے گا یا اڑا دیا جائے گا۔ بریک فاسٹ ملا کرے گا یا نہیں۔ کیا انھیں ڈبل روٹی کے بجائے بلڈی انڈین چپاتی تو زہر مار نہیں کرنا پڑے گی۔ ایک سکھ تھا جس کو پاگل خانے میں داخل ہوئے پندرہ برس ہو چکے تھے۔ ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب وغریب الفاظ سننے میں آتے تھے۔’’ اوپڑدی گڑگڑدی انیکس دی بے دھیانادی منگ دی دال اف دی لالٹین۔‘‘ دیکھتا تھا رات کو۔ پہرہداروں کا یہ کہنا تھا کہ پندرہ برس کے طویل عرصے میں وہ ایک لحظے کے لیے بھی نہیں سویا۔ لیٹا بھی نہیں تھا۔ البتہ کبھی کبھی کسی دیوار کے ساتھ ٹیک لگا لیتا تھا۔ ہر وقت کھڑا رہنے سے اس کے پاؤں سوج گئے تھے۔ پنڈلیاں بھی پھول گئی تھیں، مگر اس جسمانی تکلیف کے باوجود لیٹ کر آرام نہیں کرتا تھا۔ ہندوستان، پاکستان اور پاگلوں کے تبادلے کے متعلق جب کبھی پاگل خانے میں گفتگو ہوتی تھی وہ غور سے سنتا تھا۔ کوئی اس سے پوچھتا تھا کہ اس کا کیا خیال ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے جواب دیتا۔’’اوپڑدی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی پاکستان گورنمنٹ۔‘‘ لیکن بعد میں’’آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘ کی جگہ ’’اوف دی ٹوبہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ‘‘ نے لی لی اور اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں۔ جو بتانے کی کوشش کرتے تھے، خود اس الجھاؤ میں گرفتار ہو جاتے تھے کہ سیالکوٹ پہلے ہندوستان میں ہوتا تھا پر اب سنا ہے کہ پاکستان میں ہے، کیا پتہ ہے کہ لاہور جواب پاکستان میں ہے کل ہندوستان میں چلا جائے۔ یا سارا ہندوستان ہی پاکستان بن جائے اور یہ بھی کون سینے پر ہاتھ رکھ کر کہہ سکتا تھا کہ ہندوستان اور پاکستان دونوں کسی دن سرے سے غائب ہی ہو جائیں۔ اس سکھ پاگل کے کیس چھدرے ہو کر بہت مختصر رہ گئے تھے۔ چونکہ بہت کم نہاتا تھا، اس لیے داڑھی اور سر کے بال آپس میں جم گئے تھے، جس کے باعث اس کی شکل بڑی بھیانک ہوگئی تھی۔ مگر آدمی بے ضرر تھا۔ پندرہ برسوں میں اس نے کبھی کسی سے جھگڑا فساد نہیں کیا تھا۔ پاگل خانے کے جو پرانے ملازم تھے، وہ اس کے متعلق جانتے تھے کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں اس کی کئی زمینیں تھیں۔ اچھا کھاتا پیتا زمیندار تھا کہ اچانک دماغ الٹ گیا۔ اس کے رشتہ دار لوہے کی موٹی موٹی زنجیروں میں اسے باندھ کر لا ئے اور پاگل خانے میں داخل کرا گئے۔ مہینے میں ایک بارملاقات کے لیے یہ لوگ آتے تھے اور اس کی خیر خیریت دریافت کرکے چلے جاتے تھے۔ ایک مدت تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ پر جب پاکستان، ہندوستان کی گڑبڑ شروع ہوئی تو ان کا آنا بند ہوگیا۔ اس کا نام بشن سنگھ تھا مگر اسے ٹوبہ ٹیک سنگھ کہتے تھے۔ اس کو یہ قطعاً معلوم نہیں تھا کہ دن کون سا ہے، مہینہ کون سا ہے یا کتنے سال بیت چکے ہیں۔ لیکن ہر مہینے جب اس کے عزیز و اقارب اس سے ملنے کے لیے آتے تھے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا۔ چنانچہ وہ دفعدار سے کہتا کہ اس کی ملاقات آرہی ہے۔ اس دن وہ اچھی طرح نہاتا، بدن پر خوب صابن گھستا اور سر میں تیل لگا کر کنگھا کرتا، اپنے کپڑے جو وہ کبھی استعمال نہیں کرتا تھا، نکلوا کے پہنتا اور یوں سج کر ملنے والوں کے پاس جاتا۔ وہ اس سے کچھ پوچھتے تو وہ خاموش رہتا یا کبھی کبھار’’ اوپر دی گڑگڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی وال آف دی لالٹین‘‘ کہہ دیتا۔ اس کی ایک لڑکی تھی جوہر مہینے ایک انگلی بڑھتی بڑھتی پندرہ برسوں میں جوان ہوگئی تھی۔بشن سنگھ اس کو پہچانتا ہی نہیں تھا۔ وہ بچی تھی جب بھی اپنے باپ کو دیکھ کر روتی تھی، جوان ہوئی تب بھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے تھے۔ پاکستان اور ہندوستان کا قصہ شروع ہوا تو اس نے دوسرے پاگلوں سے پوچھنا شروع کیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔ جب اطمینان بخش جواب نہ ملا تو اس کی کرید دن بدن بڑھتی گئی۔ اب ملاقات بھی نہیں آتی تھی۔ پہلے تو اسے اپنے آپ پتہ چل جاتا تھا کہ ملنے والے آرہے ہیں، پر اب جیسے اس کے دل کی آواز بھی بند ہوگئی تھی جو اسے ان کی آمد کی خبر دے دیا کرتی تھی۔ اس کی بڑی خواہش تھی کہ وہ لوگ آئیں جو اس سے ہمدردی کا اظہار کرتے تھے اور اس کے لیے پھل، مٹھائیاں اور کپڑے لاتے تھے۔ وہ اگر ان سے پوچھتا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟ تو وہ اسے یقیناً بتا دیتے کہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں کیونکہ اس کا خیال تھا کہ وہ ٹوبہ ٹیک سنگھ ہی سے آتے ہیں، جہاں اس کی زمینیں ہیں۔ پاگل خانے میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو خود کو خدا کہتا تھا۔ اس سے جب ایک روز بشن سنگھ نے پوچھا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں تو اس نے حسب عادت قہقہہ لگایا اور کہا’’ وہ پاکستان میں ہے نہ ہندوستان میں۔ اس لیے کہ ہم نے ابھی تک حکم نہیں دیا۔‘‘ بشن سنگھ نے اس خدا سے کئی مرتبہ منت سماجت سے کہا کہ وہ حکم دیدے تاکہ جھنجھٹ ختم ہو، مگر وہ بہت مصروف تھا اس لیے کہ اسے اور بے شمار حکم دینے تھے۔ ایک دن تنگ آکر وہ اس پر برس پڑا:’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف واہے گورجی دا خالصہ اینڈ واہے گوروجی کی فتح۔۔۔۔۔۔ جو بولے سونہال، ست سری اکال۔‘‘ اس کا شاید یہ مطلب تھا کہ تم مسلمان کے خدا ہو۔۔۔۔۔۔ سکھوں کے خدا ہوتے تو ضرور میری سنتے۔ تبادلے سے کچھ دن پہلے ٹوبہ ٹیک سنگھ کا ایک مسلمان جو اس کا دوست تھا، ملاقات کے لیے آیا۔ پہلے وہ کبھی نہیں آیا تھا۔ جب بشن سنگھ نے اسے دیکھا تو ایک طرف ہٹ گیا اور واپس جانے لگا، مگر سپاہیوں نے اسے روکا۔’’یہ تم سے ملنے آیا ہے۔۔۔۔۔۔تمہارا دوست فضل دین ہے۔‘‘ بشن سنگھ نے فضل دین کو ایک نظر دیکھا اور کچھ بڑبڑانے لگا۔ فضل دین نے آگے بڑھ کر اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا‘‘ میں بہت دنوں سے سوچ رہا تھا کہ تم سے ملوں لیکن فرصت ہی نہ ملی۔۔۔۔۔۔ تمہارے سب آدمی خیریت سے ہندوستان چلے گئے۔۔۔۔۔۔ مجھ سے جتنی مدد ہوسکی، میں نے کی۔۔۔۔۔۔تمہاری بیٹی روپ کور۔۔۔۔۔۔‘‘ وہ کچھ کہتے کہتے روک گیا۔ بشن سنگھ کچھ یاد کرنے لگا۔’’بیٹی روپ کور!‘‘ فضل دین نے رک رک کر کہا’’ہاں۔۔۔۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔وہ بھی ٹھیک ٹھاک ہے۔۔۔۔۔۔ ان کے ساتھ ہی چلی گئی۔‘‘ بشن سنگھ خاموش رہا۔ فضل دین نے کہنا شروع کیا’’ انھوں نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہاری خیر خیریت پوچھتا رہوں۔۔۔۔۔۔ اب میں نے سنا ہے کہ تم ہندوستان جارہے ہو۔۔۔۔۔۔ بھائی بلبیر سنگھ اور بھائی ودھاوا سنگھ سے میرا سلام کہنا۔۔۔۔۔۔ اور بہن امرت کور سے بھی۔۔۔۔۔۔ بھائی بلبیر سے کہنا فضل دین راضی خوشی ہے۔۔۔۔۔۔ دو بھوری بھینسیں جو وہ چھوڑ گئے تھے، ان میں سے ایک نے کٹا دیا ہے۔۔۔۔۔۔ اور دوسری کے کٹی ہوئی تھی پر وہ چھ دن کی ہو کے مر گئی۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔میرے لائق جو خدمت ہو کہنا، میں ہر وقت تیار ہوں۔۔۔۔۔۔ اور یہ تمہارے لیے تھوڑے سے مرونڈے لایا ہوں۔‘‘ بشن سنگھ نے مرونڈوں کی پوٹلی لے کر پاس کھڑے سپاہی کے حوالے کردی اور فضل دین سے پوچھا۔’’ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے؟‘‘ فضل دین نے قدرے حیرت سے کہا۔’’کہاں ہے۔۔۔۔۔۔وہیں ہے جہاں تھا۔‘‘ بشن سنگھ نے پھر پوچھا۔’’پاکستان میں یا ہندوستان میں؟‘‘ ’’ہندوستان میں۔۔۔۔۔۔نہیں نہیں، پاکستان میں۔‘‘ فضل دین بوکھلا سا گیا۔ بشن سنگھ بڑبڑاتا ہوا چلا گیا۔’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف پاکستان اینڈ ہندوستان آف دی درفٹے منہ۔‘‘ تبادلے کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں۔ ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آنے والے پاگلوں کی فہرستیں پہنچ گئی تھیں اور تبادلے کا دن بھی مقرر ہو چکا تھا۔ سخت سردیاں تھیں، جب لاہور کے پاگل خانے سے ہندو، سکھ پاگلوں سے بھری ہوئی لاریاں پولیس کے محافظ د ستے کے ساتھ روانہ ہوئیں۔ متعلقہ افسر بھی ہمراہ تھے۔ واہگہ کے بارڈر پر طرفین کے سپرنٹنڈنٹ ایک دوسرے سے ملے اور ابتدائی کارروائی ختم ہونے کے بعد تبادلہ شروع ہوگیا جو رات بھر جاری رہا۔ پاگلوں کو لاریوں سے نکالنا اور ان کو دوسرے افسروں کے حوالے کرنا بڑا کٹھن کام تھا۔ بعض تو باہر نکلتے ہی نہیں تھے۔ جو نکلنے پررضا مند ہوئے تھے، ان کو سنبھالنا مشکل ہو جاتا تھا کیوں کہ ادھر ادھر بھاگ اٹھتے تھے، جو ننگے تھے، ان کو کپڑے پہنائے جاتے وہ پھاڑ کر اپنے تن سے جدا کردیتے۔ کوئی گالیاں بک رہا ہے۔ کوئی گا رہا ہے۔ آپس میں لڑ جھگڑ رہے ہیں۔ رو رہے ہیں، بلک رہے ہیں۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔۔۔۔۔۔پاگل عورتوں کا شور و غوغا الگ تھا اور سردی اتنی کڑاکے کی تھی کہ دانت سے دانت بج رہے تھے۔ پاگلوں کی اکثریت اس تبادلے کے حق میں نہیں تھی، اس لے کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انھیں اپنی جگہ سے اکھاڑ کر یہاں پھینکا جارہا ہے۔ وہ چند جو کچھ سوچ سمجھ سکتے تھے۔’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور’’پاکستان مردہ باد‘‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔ دو تین مرتبہ فساد ہوتے ہوتے بچا کیوں کہ بعض مسلمانوں اور سکھوں کو یہ نعرہ سن کر طیش آگیا تھا۔ جب بشن سنگھ کی باری آئی اور واہگہ کے اس پار متعلقہ افسر اس کا نام رجسٹر میں درج کرنے لگا تو اس نے پوچھا۔’’ ٹوبہ ٹیک سنگھ کہاں ہے۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں یا ہندوستان میں؟‘‘ متعلقہ افسر ہنسا۔’’پاکستان میں۔‘‘ یہ سن کر بشن سنگھ اچھی کر ایک طرف ہٹا اور دوڑ کر اپنے باقی ماندہ ساتھیوں کے پاس پہنچ گیا۔ پاکستانی سپاہیوں نے اسے پکڑ لیا اور دوسری طرف لے جانے لگے، مگر اس نے چلنے سے انکار کردیا:’’ٹوبہ ٹیک سنگھ یہاں ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ اور زور زور سے چلانے لگا۔’’اوپڑ دی گڑ گڑ دی انیکس دی بے دھیانا دی منگ دی دال آف ٹوبہ ٹیک سنگھ اینڈ پاکستان۔‘‘ اسے بہت سمجھایا گیا کہ دیکھو اب ٹوبہ ٹیک سنگھ ہندوستان میں چلا گیا ہے۔۔۔۔۔۔اگر نہیں گیا تو اسے فوراً وہاں بھیج دیا جائے گا، مگر وہ نہ مانا۔ جب اس کو زبردستی دوسری طرف لے جانے کی کوشش کی گئی تو وہ درمیان میں ایک جگہ اس انداز میں اپنی سوجی ہوئی ٹانگوں پر کھڑا ہوگیا جیسے اب اسے کوئی طاقت وہاں سے نہیں بلا سکے گی۔ آدمی چونکہ بے ضرر تھا اس لیے اس سے مزید زبردستی نہ کی گئی۔ اس کو وہیں کھڑا رہنے دیا گیا اور تبادلے کا باقی کام ہوتا رہا۔ سورج نکلنے سے پہلے ساکت وصامت بشن سنگھ کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔۔۔۔۔۔ادھر ادھر سے کئی افسر دوڑے آئے اور دیکھا کہ وہ آدمی جو پندرہ برس تک دن رات اپنی ٹانگوں پر کھڑا رہا تھا، اوندھے منہ لیٹا ہے۔ ادھر خار دار تاروں کے پیچھے ہندوستان تھا۔۔۔۔۔۔ادھر ویسے ہی تاروں کے پیچھے پاکستان۔ درمیان میں زمین کے اس ٹکڑے پر جس کا کوئی نام نہیں تھا، ٹوبہ ٹیک سنگھ پڑا تھا!
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
  #18  
Old Friday, August 07, 2015
Amna's Avatar
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default 17.Phulon ki Sazish

باغ میں جتنے پھول تھے۔ سب کے سب باغی ہوگئے۔ گلاب کے سینے میں بغاوت کی آگ بھڑک رہی تھی۔ اس کی ایک ایک رگ آتشیں جذبہ کے تحت پھڑک رہی تھی۔ ایک روز اس نے اپنی کانٹوں بھری گردن اٹھائی اور غور و فکرکو بالائے طاق رکھ کر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہوا:۔ ’’ کسی کو کوئی حق حاصل نہیں کہ ہمارے پسینے سے اپنے عیش کا سامان مہیا کرے۔۔۔۔۔۔ ہماری زندگی کی بہاریں ہمارے لیے ہیں اور ہم اس میں کسی کی شرکت گوارا نہیں کرسکتے!‘‘ گلاب کا منہ غصہ سے لال ہورہا تھا۔ اس کی پنکھڑیاں تھرتھرارہی تھیں۔ چنبلی کی جھاڑی میں تمام کلیاں یہ شور سن کر جاگ اٹھیں اور حیرت میں ایک دوسرے کا منہ تکنے لگیں۔ گلاب کی مردانہ آواز پھر بلند ہوئی۔ ’’ہر ذی روح کو اپنے حقوق کی نگرانی کا حق حاصل ہے اور ہم پھول اس سے مستثنےٰ نہیں ہیں۔ ہمارے قلوب زیادہ نازک اور حساس ہیں۔ گرم ہوا کا ایک جھونکا ہماری دنیائے رنگ و بو کو جلا کر خاکستر کرسکتا ہے اور شبنم کا ایک بے معنی قطرہ ہماری پیاس بجھا سکتا ہے۔ کیا ہم اس کانے مالی کے کھردرے ہاتھوں کو برداشت کرسکتے ہیں جس پر موسموں کے تغیر و تبدل کا کچھ اثر ہی نہیں ہوتا؟‘‘ موتیا کے پھول چلائے’’ ہرگز نہیں‘‘۔ لالہ کی آنکھوں میں خون اتر آیا اور کہنے لگا اس کے ظلم سے میرا سینہ داغدار ہورہا ہے۔ میں پہلا پھول ہوں گا جو اس جلاد کے خلاف بغاوت کا سُرخ جھنڈا بلند کرے گا۔‘‘ یہ کہہ کروہ غصہ سے تھرتھر کانپنے لگا۔ چنبیلی کی کلیاں متحیر تھیں کہ یہ شور کیوں بلند ہورہا ہے۔ ایک کلی ناز کے ساتھ گلاب کے پودے کی طرف جھکی اور کہنے لگی’’ تم نے میری نیند خراب کردی ہے۔ آخر گلا پُھلا پُھلا کر کیوں چلاّ رہے ہو؟‘‘ گلِ خیرا جو دُور کھڑا گُلاب کی قائدانہ تقریر پر غور کررہا تھا بولا۔’’ قطرہ قطرہ مل کر دریا بنتا ہے۔ گو ہم ناتواں پھول ہیں لیکن اگر ہم سب مل جائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اپنی جان کے دشمن کو پیس کر نہ رکھ دیں۔ ہماری پتیاں اگر خوشبو پیدا کرتی ہیں تو زہریلی گیس بھی تیار کر سکتی ہیں۔۔۔۔۔۔ بھائیو! گلاب کا ساتھ دو اور ا پنی فتح سمجھو۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے اخوت کے جذبے کے ساتھ ہر پھول کی طرف دیکھا۔ گلاب کچھ کہنے ہی والا تھا کہ چنبیلی کی کلی نے اپنے مرمریں جسم پر ایک تھرتھری پیدا کرتے ہوئے کہا۔’’ یہ سب بیکار باتیں ہیں۔۔۔۔۔۔ آؤ تم مجھے شعر سناؤ، میں آج تمہاری گود میں سونا چاہتی ہوں۔۔۔۔۔۔ تم شاعر ہو، میرے پیارے آؤ ہم بہار کے ان خوشگوار دنوں کو ایسی فضول باتوں میں ضائع نہ کریں اور اس دنیا میں جائیں جہاں نیند ہی نیند ہے۔۔۔۔۔۔ میٹھی اور راحت بخش نیند!‘‘ گُلاب کے سینے میں ایک ہیجان برپا ہوگیا۔ اس کی نبض کی دھڑکن تیز ہوگئی اسے ایسا محسوس ہوا کہ وہ کسی اتھاہ گہرائی میں اُتر رہا ہے۔ اسی نے کلی کی گفتگو کے اثر کو دور کرنے کی سعی کرتے ہوئے کہا۔’’ نہیں میں میدانِ جنگ میں اُترنے کی قسم کھا چکا ہوں۔ اب یہ تمام رومان میرے لیے مہمل ہیں۔‘‘ کلی نے اپنے لچکیلے جسم کو بل دے کر خواب گوں لہجہ میں کہا۔’’ آہ، میرے پیارے گلاب ایسی باتیں نہ کرو، مجھے وحشت ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ چاندنی راتوں کا خیال کرو۔۔۔ جب میں اپنا لباس اتار کر اس نورانی فوارے کے نیچے نہاؤں گی تو تمہارے گالوں پر سُرخی کا اُتار چڑھاؤ مجھے کتنا پیارا معلوم ہوگا اور تم میرے سیمیں لب کس طرح دیوانہ وار چومو گے۔۔۔۔۔۔ چھوڑو ان فضول باتوں کو میں تمہارے کاندھے پر سر رکھ کر سونا چاہتی ہُوں۔‘‘ اور چنبیلی کی نازک ادا کلی گُلاب کے تھراّتے ہُوئے گال کے ساتھ لگ کر سو گئی۔۔۔۔۔۔ گلاب مدہوش ہوگیا۔ چاروں طرف سے ایک عرصہ تک دوسرے پھولونکی کی صدائیں بُلند ہوتی رہیں مگر گُلاب نہ جاگا۔۔۔۔۔۔ ساری رات وہ مخمور رہا۔ صبح کانا مالی آیا۔ اس نے گلاب کے پھول کی ٹہنی کے ساتھ چنبیلی کی کلی چمٹی ہُوئی پائی۔ اس نے اپنا کُھر درا ہاتھ بڑھایا اور دونوں کو توڑ لیا۔۔۔۔۔۔
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
  #19  
Old Friday, August 07, 2015
Amna's Avatar
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default 18.Sarak Ke Kinare

’’یہی دن تھے۔۔۔۔۔۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔ دھلا ہوا، نتھرا ہوا۔۔۔۔۔۔ اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکنی تھی۔۔۔۔۔۔ سہانے خوابوں کی طرح۔ مٹی کی باس بھی ایسی ہی تھی جیسی کہ اس وقت میرے دل و دماغ میں رچ رہی ہے۔۔۔۔۔۔ اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑپھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کردی تھی۔‘‘ ’’اسً نے مجھ سے کہا تھا۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے جو یہ لمحات عطا کیے ہیں یقین جانو۔ میری زندگی ان سے خالی تھی۔۔۔۔۔۔ جو خالی جگہیں تم نے آج میری ہستی میں پُر کی ہیں۔، تمہاری شکر گزار ہیں۔ تم میری زندگی میں نہ آتیں تو شاید وہ ہمیشہ ادھوری رہتی۔۔۔۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں تم سے اور کیا کہوں۔۔۔۔۔۔ میری تکمیل ہوگئی ہے۔ ایسے مکمل طور پر کہ محسوس ہوتا ہے مجھے اب تمہاری ضرورت نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ اور وہ چلا گیا۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ کے لیے چلا گیا۔‘‘ ’’میری آنکھیں روئیں۔۔۔۔۔۔ میرا دل رویا۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کی منت سماجت کی۔ اس سے لاکھ مرتبہ پوچھا کہ میری ضرورت اب تمہیں کیوں نہیں رہی۔۔۔۔۔۔ جبکہ تمہاری ضرورت۔۔۔۔۔۔ اپنی تمام شدتوں کے ساتھ اب شروع ہوئیہے۔ ان لمحات کے بعد جنہوں نے بقول تمہارے، تمہاری ہستی کی خالی جگہیں پُر کی ہیں۔‘‘ اس نے کہا۔’’ تمہارے وجود کے جس جس ذرے کی میری ہستی کی تعمیر و تکمیل کو ضرورت تھی، یہ لمحات چن چن کر دیتے رہے۔۔۔۔۔۔ اب کہ تکمیل ہوگئی ہے تمہارا میرا رشتہ خود بخود ختم ہوگیا ہے۔‘‘ کس قدر ظالمانہ لفظ تھے۔۔۔۔۔۔ مجھے سے یہ پتھراؤ برداشت نہ کیا گیا۔۔۔۔۔۔ میں چیخ چیخ کر رونے لگی۔۔۔۔۔۔ مگر اس پر کچھ اثر نہ ہوا۔۔۔۔۔۔میں نے اس سے کہا۔’’ یہ ذرے جن سے تمہاری ہستی کی تکمیل ہوئی ہے، میرے وجود کا ایک حصہ تھے۔۔۔۔۔۔ کیا ان کا مجھ سے کوئی رشتہ نہیں۔۔۔۔۔۔ کیا میرے وجود کا بقایا حصہ ان سے اپنا ناطہ توڑ سکتا ہے؟۔۔۔۔۔۔ تم مکمل ہوگئے ہو۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے ادھورا کرکے۔۔۔۔۔۔ کیا میں نے اسی لیے تمہیں اپنا معبود بنایا تھا؟‘‘ اس نے کہا۔’’بھونرے، پھولوں اور کلیوں کا رس چوس چوس کر شہید کشید کرتے ہیں، مگر وہ اس کی تلچھٹ تک بھی ان پھولوں اور کلیوں کے ہونٹوں تک نہیں لاتے۔۔۔۔۔۔ خدا اپنی پرستش کراتا ہے، مگر خود بندگی نہیں کرتا۔۔۔۔۔۔ عدم کے ساتھ خلوت میں چند لمحات بسر کرکے اس نے وجود کی تکمیل کی۔۔۔۔۔۔ اب عدم کہاں ہے۔۔۔۔۔۔ اس کی اب وجود کو کیا ضرورت ہے۔ وہ ایک ایسی ماں تھی جو وجود کو جنم دیتے ہی زچگی کے بستر پر فنا ہوگئی تھی۔‘‘ عورت رو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ دلیلیں پیش نہیں کرسکتی۔۔۔۔۔۔ اس کی سب سے بڑی دلیل اس کی آنکھ سے ڈھلکا ہوا آنسو ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے اس سے کہا۔’’دیکھو۔۔۔۔۔۔ میں رو رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ میری آنکھیں آنسو برسا رہی ہیں تم جارہے ہو تو جاؤ، مگر ان میں سے کچھ آنسوؤں کو تو اپنے رومال کے کفن میں لپیٹ کر ساتھ لیتے جاؤ۔۔۔۔۔۔ میں تو ساری عمر روتی رہوں گی۔۔۔۔۔۔ مجھے اتنا تو یاد رہے گا کہ چند آنسوؤں کے کفن دفن کا سامان تم نے بھی کیا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھ خوش کرنے کے لیے!‘‘ اس نے کہا۔’’ میں تمہیں خوش کرچکا ہوں۔۔۔۔۔۔ تمہیں اس ٹھوس مسرت سے ہمکنار کرچکا ہوں۔ جس کے تم سراب ہی دیکھا کرتی تھیں۔۔۔۔۔۔ کیا اس کا لطف اس کا کیف، تمہاری زندگی کے بقایا لمحات کا سہارا نہیں بن سکتا۔ تم کہتی ہوکہ میری تکمیل نے تمہیں ادھورا کردیا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ ادھورا پن ہی کیا تمہاری زندگی کو متحرک رکھنے کے لیے کافی نہیں۔۔۔۔۔۔ میں مرد ہوں۔۔۔۔۔۔ آج تم نے میری تکمیل کی ہے۔۔۔۔۔۔ کل کوئی اور کرے گا۔۔۔۔۔۔ میراوجود کچھ ایسے آب و گل سے بنا ہے جس کی زندگی میں ایسے کئی لمحات آئیں گے جب وہ خود کو تشنہ تکمیل سمجھے گا۔۔۔۔۔۔ وہ تم ایسی کئی عورتیں آئیں گی جو ان لمحات کی پیدا کی ہوئی خالی جگہیں پُر کریں گی۔‘‘ میں روتی رہی۔ جھنجھلاتی رہی۔ میں نے سوچا۔۔۔۔۔۔ یہ چند لمحات جو ابھی ابھی میری مٹھی میں تھے۔۔۔۔۔۔نہیں۔۔۔۔۔۔ میں ان لمحات کی مٹھی میں تھی۔۔۔۔۔۔ میں نے کیوں خود کو ان کے حوالے کردیا۔۔۔۔۔۔ میں نے کیوں اپنی پھڑپھڑاتی روح ان کے منہ کھولے قفس میں ڈال دی۔۔۔۔۔۔ اس میں مزا تھا۔ ایک لطف تھا۔۔۔۔۔۔ایک کیف تھا۔۔۔۔۔۔ تھا، ضرور تھا۔۔۔۔۔۔ اور یہ اس کے اور میرے تصادم میں تھا۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔یہ کیا کہ وہ ثابت و سالم رہا۔۔۔۔۔۔ اورمجھ میں تریڑے پڑ گئے۔۔۔۔۔۔ یہ کیا، کہ وہ اب میری ضرورت محسوس نہیں کرتا۔۔ لیکن میں اور بھی شدت سے اس کی ضرورت محسوس کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔ وہ طاقتور بن گیا ہے۔ میں نحیف ہوگئی ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ کیا کہ آسمان پر دو بادل ہم آغوش ہوں۔۔۔۔۔۔ ایک رو رو کر برسنے لگا، دوسرا بجلی کا کوندا بن کر اس بارش سے کھیلتا، کدکڑے لگاتا بھاگ جائے۔۔۔۔۔۔ یہ کس کا قانون ہے؟۔۔۔۔۔۔آسمانوں کا؟۔۔۔۔۔۔ زمینوں کا۔۔۔۔۔۔ یا ان کے بنانے والوں کا؟ میں سوچتی رہی اور جھنجھلاتی رہی۔ دو روحوں کا سمٹ کر ایک ہو جانا اور ایک ہو کر والہانہ وسعت اختیار کرجانا۔۔۔۔۔۔ کیا یہ سب شاعری ہے۔۔۔۔۔۔ نہیں، دو روحیں سمٹ کر ضرور اس ننھے سے نکتے پر پہنچتی ہیں جو پھیل کرکائنات بنتا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن اس کائنات میں ایک روح کیوں کبھی کبھی گھائل چھوڑ دی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ کیا اس قصور پر کہ اس نے دوسری روح کو اس ننھے سے نکتے پر پہنچنے میں مدد تھی۔ یہ کیسی کائنات ہے۔ یہی دن تھے۔۔۔۔۔۔ آسمان کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔۔۔۔۔۔ اور دھوپ بھی ایسی ہی کنکنی تھی۔۔۔۔۔۔ اور میں نے اسی طرح لیٹے لیٹے اپنی پھڑپھڑاتی ہوئی روح اس کے حوالے کردی تھی۔۔۔۔۔۔ وہ موجود نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ بجلی کا کوندا بن کر جانے وہ کن بدلیوں کی گریہ و زاری سے کھیل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اپنی تکمیل کر کے چلا گیا۔۔۔۔۔۔ ایک سانپ تھا جو مجھے ڈس کر چلا گیا۔۔۔۔۔۔ لیکن اب اس کی چھوڑی ہوئی لکیر کیوں میرے پیٹ میں کروٹیں لے رہی ہے۔۔۔۔۔۔ کیا یہ میری تکمیل ہورہی ہے؟ نہیں، نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ کیسی تکمیل ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ تو تخریب ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ میرے جسم کی خالی جگہیں پُر ہورہی ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ جو گڑھے تھے کس ملبے سے پُر کیے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔ میری رگوں میں یہ کیسی سرسراہٹیں دوڑ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ میں سمٹ کر اپنے پیٹ میں کس ننھے سے نکتے پر پہنچنے کے لیے پیچ و تاب کھا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ میری ناؤ ڈوب کر اب کن سمندروں میں ابھرنے کے لیے اٹھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔؟ یہ میرے اندر دہتے ہوتے چولھوں پر کس مہمان کے لیے دودھ گرم کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ میرا دل میرے خن کو دھنک دھنک کر کس کے لیے نرم و نازک رضائیاں تیار کررہا ہے۔ یہ میرا دماغ میرے حالات کے رنگ برنگ دھاگوں سے کس کے لیے ننھی منی پوشاکیں بن رہا ہے؟ میرا رنگ کس کے لیے نکھر رہا ہے۔۔۔۔۔۔ میرے انگ انگ اور روم روم میں پھنسی ہوئی ہچکیاں لوریوں میں کیوں تبدیل ہورہی ہیں۔۔۔۔۔۔ یہی دن تھے۔۔۔۔۔۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ آسمان اپنی بلندیوں سے اتر کر کیوں میرے پیٹ میں تن گیا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کی نیلی نیلی آنکھیں کیوں میری رگوں میں دوڑتی پھرتی ہیں؟ میرے سینے کی گولائیوں میں مسجدوں کے محرابوں ایسی تقدیس کیوں آرہی ہے؟ نہیں، نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ تقدیس کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ میں ان محرابوں کو ڈھا دوں گی۔۔۔۔۔۔ میں اپنے اندر تمام چولھے سرد کردوں گی جن پر بن بلائے مہمان کی خاطر داڑیاں چڑھی ہیں۔۔۔۔۔۔ میں اپنے خیالات کے تمام رنگ برنگ دھاگے آپس میں الجھا دوں گی۔۔۔۔۔۔ یہی دن تھے۔۔۔۔۔۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن میں وہ دن کیوں یاد کرتی ہوں جن کے سینے پر سے وہ اپنے نقش قدم بھی اٹھا کر لے گیا تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ۔۔۔۔۔۔ یہ نقش قدم کس کا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ جو میرے پیٹ کی گہرائیوں میں تڑپ رہا ہے۔۔۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔۔ کیایہ میرا جانا پہچانا نہیں۔۔۔۔۔۔ میں اسے کھرچ دوں گی۔۔۔۔۔۔ اسے مٹادوں گی۔۔۔۔۔۔ یہ رسولی ہے۔۔۔۔۔۔ پھوڑا ہے۔۔۔۔۔۔ بہت خوفناک پھوڑا۔ لیکن مجھے کیوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ پھاہا ہے۔۔۔۔۔۔ پھاہا ہے تو کس زخم کا؟۔۔۔۔۔۔ اس زخم کا جو وہ مجھے لگا کر چلا گیا تھا؟۔۔۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ تو ایسا لگتا ہے کسی پیدائشی زخم کے لیے ہے۔۔۔۔۔۔ ایسے زخم کے لیے جو میں نے کبھی دیکھا ہی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ جو میری کوکھ میں جانے کب سے سورہا تھا۔ یہ کوکھ کیا؟۔۔۔۔۔۔ فضول سی مٹی کی ہنڈکلیا۔۔۔۔۔۔ بچوں کا کھلونا۔ میں اسے توڑ پھوڑ دوں گی۔ لیکن یہ کون میرے کان میں کہتا ہے۔’’یہ دنیا ایک چوراہا ہے۔۔۔۔۔۔ اپنا بھانڈا کیوں اس میں پھوڑتی ہے۔۔۔۔۔۔ یاد رکھ تجھ پر انگلیاں اٹھیں گی۔ انگلیاں۔۔۔۔۔۔ ادھر کیوں نہ اٹھیں گی، جدھر وہ اپنی ہستی مکمل کرکے چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ کیا ان انگلیوں کو وہ راستہ معلوم نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ دنیا ایک چوراہا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن اس وقت تو وہ مجھے ایک دوراہے پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔۔۔۔۔۔ ادھر بھی ادھورا پن تھا۔ اُدھر بھی ادھورا پن۔۔۔۔۔۔ اِدھر بھی آنسو، اُدھر بھی آنسو۔ لیکن یہ کس کا آنسو،میرے سیپ میں موتی بن رہا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کہاں بندھے گا؟ انگلیاں اٹھیں گی۔۔۔۔۔۔ جب سیپ کا منہ کھلے اور موتی پھسل کر باہر چوراہے میں گر پڑے گا تو انگلیاں اٹھیں گی۔۔۔۔۔۔ سیپی کی طرف بھی اور موتی کی طرف بھی۔۔۔۔۔۔ اور یہ انگلیاں سنپولیاں بن بن کر ان دونوں کو ڈسیں گی اور اپنے زہر سے ان کو نیلا کردیں گی۔ آسمان اس کی آنکھوں کی طرح ایسا ہی نیلا تھا جیسا کہ آج ہے۔۔۔۔۔۔ یہ گر کیوں نہیں پڑتا۔۔۔۔۔۔ وہ کون سے ستون ہیں جو اس کو تھامے ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔ کیا اس دن جو زلزلہ آیا تھا وہ ان ستونوں کی بنیادیں ہلا دینے کے لیے کافی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ یہ کیوں اب تک میرے سر کے اوپر اسی طرح تنا ہوا ہے؟ میری روح پسینے میں غرق ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا ہر مسام کھلا ہوا ہے۔ چاروں طرف آگ دہک رہی ہے۔۔۔۔۔۔ میرے اندر کٹھالی میں سونا پگھل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ دھونکنیاں چل رہی ہیں۔ شعلے بھڑک رہے ہیں۔ سونا، آتش فشاں پہاڑ کے لاوے کی طرح ابل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ میری رگوں میں نیلی آنکھیں دوڑ دوڑ کر ہانپ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ گھنٹیاں بج رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ کوئی آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ بند کردو۔۔۔۔۔۔ بند کردو کواڑ۔۔۔۔۔۔ کٹھالی الٹ گئی ہے۔۔۔۔۔۔ پگھلا ہوا سونا بہہ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ گھنٹیاں بج رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ میری آنکھیں مند رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ نیلا آسمان گدلا ہو کر نیچے آرہا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ کس کے رونے کی آواز ہے۔۔۔۔۔۔ اسے چپ کراؤ۔۔۔۔۔۔ اس کی چیخیں میرے دل پر ہتھوڑے مار رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ چپ کراؤ۔۔۔۔۔۔ اسے چپ کراؤ۔۔۔۔۔۔ اسے چپ کراؤ۔۔۔۔۔۔ میں گود بن رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ میں کیوں گودبن رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ میری بانھیں کھل رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ چولھوں پر دودھ ابل رہا ہے۔۔۔۔۔۔ میرے سینے کی گولائیاں پیالیاں بن رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ لاؤ اس گوشت کے لوتھڑے کو میرے دل کے دھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں لٹا دو۔۔۔۔۔۔ مت چھینو۔۔۔۔۔۔مت چھینو اسے۔۔۔۔۔۔ مجھ سے جدا نہ کرو۔ خدا کے لیے مجھ سے جدا نہ کرو۔ انگلیاں۔۔۔۔۔۔انگلیاں۔۔۔۔۔۔ اٹھنے دو انگلیاں۔۔۔۔۔۔ مجھے کوئی پروا نہیں۔۔۔۔۔۔ یہ دنیا چوراہا ہے۔۔۔۔۔۔ پھوٹنے دومیری زندگی کے تمام بھانڈے۔۔۔۔۔۔ میری زندگی تباہ ہو جائے گی؟۔۔۔۔۔۔ ہو جانے دو۔۔۔۔۔۔ مجھے میرا گوشت واپس دے دو۔۔۔۔۔۔ میری روح کا یہ ٹکڑا مجھ سے مت چھینو۔۔۔۔۔۔ تم نہیں جانتے یہ کتنا قیمتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ گوہر ہے جو مجھے ان چند لمحات نے عطا کیا ہے۔۔۔۔۔۔ ان چند لمحات نے جنہوں نے میرے وجود کے کئی ذرے چن چن کر کسی کی تکمیل کی تھی اور مجھے اپنا خیال میں ادھورا چھوڑ کے چلے گئے تھے۔۔۔۔۔۔ میری تکمیل آج ہوئی ہے۔ مان لو۔۔۔۔۔۔مان لو۔۔۔۔۔۔ میرے پیٹ کے خلا سے پوچھو۔۔۔۔۔۔ میری دودھ بھری ہوئی چھاتیوں سے پوچھو۔۔۔۔۔۔ ان لوریوں سے پوچھو، جو میرے انگ انگ اور روم روم میں تمام ہچکیاں سلا کر آگے بڑھ رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ ان جھولنوں سے پوچھو جومیرے بازوؤں میں ڈالے جارہے ہیں۔ میرے چہرے کی زردیوں سے پوچھو جو گوشت کے اس لوتھڑے کے گالوں کو اپنی تمام سرخیاں چھپاتی رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ ان سانسوں سے پوچھو، جو چھپے چوری اس کو اس کا حصہ پہنچاتے رہے ہیں۔ انگلیاں۔۔۔۔۔۔ اٹھنے دو انگلیاں۔۔۔۔۔۔ میں انھیں کاٹ ڈالوں گی۔۔۔۔۔۔ شور مچے گا۔۔۔۔۔۔ میں یہ انگلیاں اٹھا کر اپنے کانوں میں ٹھونس لوں گی۔۔۔۔۔۔ میں گونگی ہو جاؤں گی، بہری ہو جاؤں گی، اندھی ہو جاؤں گی۔۔۔۔۔۔ میرا گوشت، میرے اشارے سمجھ لیا کرے گا۔۔۔۔۔۔ میں اسے ٹٹول ٹٹول کر پہچان لیا کروں گی۔۔۔۔۔۔ مت چھینو۔۔۔۔۔۔ مت چھینو اسے۔۔۔۔۔۔ یہ میری کوکھ کی مانگ کا سیندھور ہے۔۔۔۔۔۔ یہ میری ممتا کے ماتھے کی بندیا ہے۔۔۔۔۔۔ میرے گناہ کا کڑوا پھل ہے؟ ۔۔۔۔۔۔لوگ اس پرتھو تھو کریں گے؟۔۔۔۔۔۔ میں چاٹ لوں گی یہ سب تھوکیں۔۔۔۔۔۔ آنول سمجھ کر صاف کردوں گی۔۔۔۔۔۔ دیکھو، میں ہاتھ جوڑتی ہوں۔۔۔۔۔۔ تمہارے پاؤں پڑتی ہوں۔ میرے بھرے ہوئے دودھ کے برتن اوندھے نہ کرو۔۔۔۔۔۔ میرے دل کے دھنکے ہوئے خون کے نرم نرم گالوں میں آگ نہ لگاؤ۔۔۔۔۔۔ میری بانھوں کے جھولوں کی رسیاں نہ توڑو۔۔۔۔۔۔ میرے کانوں کو ان گیتوں سے محروم نہ کرو جو اس کے رونے میں مجھے سنائی دیتے ہیں۔ مت چھینو۔۔۔۔۔۔ مت چھینو۔۔۔۔۔۔ مجھ سے جدا نہ کرو۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیے مجھے اس سے جدا نہ کرو۔ لاہور21جنوری دھوبی منڈی سے پولیس نے ایک نوزائیدہ بچی کو سردی سے ٹھٹھرتے سڑک کے کنارے پڑی ہوئی پایا اور اپنے قبضے میں لے لیا۔ کسی سنگدل نے بچی کی گردن کو مضبوطی سے کپڑے میں جکڑ رکھا تھا اور عریاں جسم کو پانی سے گیلے کپڑے میں باندھ رکھا تھا تاکہ وہ سردی سے مر جائے۔ مگر وہ زندہ تھی۔ بچی بہت خوبصورت ہے۔ آنکھیں نیلی ہیں۔ اس کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
  #20  
Old Friday, August 07, 2015
Amna's Avatar
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default 19.Farishta

سرخ کھردرے کمبل میں عطاء اللہ نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی اور اپنی مندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں۔ کہرے کی دبیز چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں جن کے صحیح خدوخال نظر نہیں آتے تھے۔ ایک لمبا، بہت ہی لمبا، نہ ختم ہونے والا دالان تھا یا شاید کمرہ تھا جس میں دھندلی دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ میلی ہورہی تھی۔ دور بہت دور، جہاں شاید کمرہ یا دالان ختم ہو سکتا تھا، ایک بہت بڑا تھا جس کا دراز قد چھت کو پھاڑتا ہوا باہر نکل گیا تھا۔ عطاء اللہ کو اس کا صرف نچلا حصہ نظر آرہا تھا جو بہت پُر ہیبت تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ موت کا دیوتا ہے جو اپنی ہولناک شکل دکھانے سے قصداً گریز کررہا ہے۔ عطاء اللہ نے ہونٹ گول کرکے اور زبان پیچھے کھینچ کر اس پُر ہیبت بت کی طرف دیکھا اور سیٹی بجائی، بالکل اس طرح جس طرح کتے کو بلانے کے لیے بجائی جاتی ہے۔ سیٹی کا بجنا تھا کہ اس کمرے یا دالان کی دھندلی فضا میں ان گنت دُمیں لہرانے لگیں۔ لہراتے لہراتے یہ سب بہت بڑے شیشے کے مرتبان میں جمع ہوگئیں جو غالباً اسپرٹ سے بھرا ہوا تھا۔ آہستہ آہستہ یہ مرتبان فضا میں بغیر کسی سہارے کے تیرتا، ڈولتا اس کی آنکھوں کے پاس پہنچ گیا۔ اب وہ ایک چھوٹا سا مرتبان تھا جس میں اسپرٹ کے اندر اس کا دل ڈبکیاں لگا رہا تھا اور دھڑکنے کی ناکام کوشش کررہا تھا۔ عطاء اللہ کے حلق سے دبی دبی چیخ نکلی۔ اس مقام پر جہاں اس کا دل ہوا کرتا تھا، اس نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ رکھا اور بے ہوش ہوگیا۔ معلوم نہیں کتنی دیر کے بعد اسے ہوش آیا مگر جب اس نے آنکھیں کھولیں تو کہرا غائب تھا۔ وہ دیوہیکل بت بھی۔ اس کا سارا جسم پسینے میں شرابور تھا اور برف کی طرح ٹھنڈا۔ مگر اس مقام پر جہاں اس کا دل تھا، ایک آگ سی لگی ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔ اس آگ میں کئی چیزیں جل رہی تھیں، بے شمار چیزیں۔ اس کی بیوی اور بچوں کی ہڈیاں تو چٹخ رہی تھیں، مگر اس کے گوشت پوست اور اس کی ہڈیوں پرکوئی اثر نہیں ہورہا تھا۔ جھلسا دینے والی تپش میں بھی وہ یخ بستہ تھا۔ اس نے ایک دم اپنے برفیلے ہاتھوں سے اپنی زرد رو بیوی اور سوکھے کے مارے ہوئے بچوں کو اٹھایا اور پھینک دیا۔۔۔۔۔۔ اب آگ کے اس الاؤ میں عرضیاں کے پلندے کے پلندے جل رہے تھے۔۔۔۔۔۔ ہر زبان میں لکھی ہوئی عرضیاں۔ ان پر اس کے اپنے ہاتھ سے کیے ہوئے دستخط، سب جل رہے تھے، آواز پیدا کیے بغیر۔ آگ کے شعلوں کے پیچھے اسے اپنا چہرہ نظر آیا۔ پسینے سے۔۔۔۔۔۔ سرد پسینے سے تربتر۔ اس نے آگ کا ایک شعلہ پکڑا اور اس سے اپنے ماتھے کا پسینے پونچھ کر ایک طرف پھینک دیا۔ الاؤ میں گرتے ہی یہ شعلہ بھیگے ہوئے اسفنج کی طرف رونے لگا۔۔۔۔۔۔ عطاء اللہ کو اس کی یہ حالت دیکھ کر بہت ترس آیا۔ عرضیاں جلتی رہیں اورعطاء اللہ دیکھتا رہا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کی زرد رو بیوی نمودار ہوئی۔ اس کے ہاتھ میں گندھے ہوئے آٹے کا تھال تھا۔ جلدی جلدی اس نے پیڑے بنائے اور آگ میں ڈالنا شروع کردیے جو آنکھ جھپکنے کی دیر میں کوئلے بن کر سلگنے لگے۔ انھیں دیکھ کر عطاء اللہ کے پیٹ میں زور کا درد اٹھا۔ جھپٹا مار کر اس نے تھال میں سے آخری پیڑا اٹھایا اور منہ میں ڈال لیا۔ لیکن آٹا خشک تھا۔ ریت کی طرح۔ اس کا سانس رکنے لگا اور وہ پھر بے ہوش ہوگیا۔ اب اس نے ایک بے جوڑ خواب دیکھنا شروع کیا۔ ایک بہت بڑی محراب تھی جس پر جلی حروف میں یہ شعر لکھا تھا ؂ روز محشر کہ جاں گداز بود اولیں پرسش نماز بود وہ فوراً پتھریلے فرش پر سجدے میں گر پڑا۔ نماز بخشوانے کے لیے دعا مانگنا چاہی مگر بھوک اس کے معدے کو اس بری طرح ڈسنے لگی کہ بلبلا اٹھا۔ اتنے میں کسی نے بڑی بارعب آواز میں پکارا: ’’عطاء اللہ!‘‘ عطاء اللہ کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔۔محرابوں کے پیچھے۔۔۔۔۔۔ بہت پیچھے، اونچے منبر پر ایک شخص کھڑا تھا۔ مادر زاد برہنہ، اس کے ہونٹ ساکت تھے مگر آواز آرہی تھی۔ ’’عطاء اللہ! تم کیوں زندہ ہو؟ آدمی صرف اس وقت تک زندہ رہتا ہے جب تک اسے کوئی سہارا ہو۔۔۔۔۔۔ ہمیں بتاؤ، کوئی ایسا سہارا ہے جس کا تمہیں سہارا ہو؟۔۔۔۔۔۔تم بیمار ہو۔۔۔۔۔۔تمہاری بیوی آج نہیں تو کل بیمار ہو جائے گی۔ وہ جن کا کوئی سہارا نہیں ہوتا، بیمار ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔زندر درگور ہوتے ہیں۔ اس کا سہارا تم ہو جو بڑی تیزی سے ختم ہورہا ہے۔۔۔۔۔۔تمہارے بچے بھی ختم ہو رہے ہیں۔۔۔۔۔۔کتنے افسوس کی بات ہے کہ تم نے خود اپنے آپ کو ختم نہیں کیا۔ اپنے بچوں اور اپنی بیوی کو ختم نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ کیا اس خاتمے کے لیے بھی تمہیں کسی سہارے کی ضرورت ہے؟۔۔۔۔۔۔ تم رحم و کرم کے طالب ہو۔۔۔۔۔۔بے وقوف! کون تم پر رحم کرے گا۔ موت کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمہیں مصیبتوں سے نجات دلائے۔ اس کے لیے یہ مصیبت کیا کم ہے کہ وہ موت ہے۔۔۔۔۔۔ کس کس کو آئے۔۔۔۔۔۔ایک صرف تم عطاء اللہ نہیں ہو، تم ایسے لاکھوں عطاء اللہ اس بھری دنیا میں موجود ہیں۔۔۔۔۔۔جاؤ، اپنی مصیبتوں کا علاج خود کرو۔۔۔۔۔۔ دو مریل بچوں اور ایک فاقہ زدہ بیوی کو ہلاک کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ اس بوجھ سے ہلکے ہو جاؤ تو موت شرمسار ہو کر خود بخود تمہارے پاس چلی آئے گی۔‘‘ عطاء اللہ غصے سے تھرتھرکانپنے لگا۔’’ تم۔۔۔۔۔۔تم سب سے بڑے ظالم ہو۔۔۔۔۔۔بتاؤ، تم کون ہو۔ اس سے پیشتر کہ میں اپنی بیوی اور بچوں کو ہلاک کروں، میں تمہارا خاتمہ کردینا چاہتا ہوں۔‘‘ مادر زاد برہنہ شخص نے قہقہہ لگایا اور کہا’’میں عطاء اللہ ہوں۔۔۔۔۔۔غور سے دیکھو۔۔۔۔۔۔کیا تم اپنے آپ کو بھی نہیں پہچانتے؟‘‘ عطاء اللہ نے اس ننگ دھڑنگ آدمی کی طرف دیکھا اور اس کی گردن جھک گئی۔۔۔۔۔۔ وہ خود ہی تھا، بغیر لباس کے۔ ان کا خون کھولنے لگا۔ فرش میں سے اس نے اپنے بڑھے ہوئے ناخنوں سے کھرچ کھرچ کر ایک پتھر نکالا اور تان کر منبر کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔ اس کا سر چکرا گیا۔ماتھے پرہاتھ رکھا تو اس میں سے لہو نکل رہا تھا۔ وہ بھاگا۔۔۔۔۔۔ پتھریلے صحن کو عبور کرکے جب باہر نکلا تو ہجوم نے اسے گھیر لیا۔ ہجوم کا ہر فرد عطاء اللہ تھا۔ جس کا ماتھا لہولہان تھا۔ بڑی مشکلوں سے ہجوم کو چیر کر وہ باہر نکلا۔ایک تنگ و تاریک سڑک پر دیر تک چلتا رہا۔ اس کے دونوں کناروں پر حشیش اور تھوہر کے پودے اگے ہوئے تھے۔ ان میں کہیں کہیں دوسری زہریلی بوٹیاں بھی جمی تھیں۔ عطاء اللہ نے جیب سے بوتل نکال کر تھوہر کا عرق جمع کیا۔ پھر زہریلی بوٹیوں کے پتے توڑ کر اس میں ڈالے اور انھیں ہلاتا ہلاتا اس موڑ پر پہنچ گیا جہاں سے کچھ فاصلے پر اس کا مکان تھا۔۔۔۔۔۔ شکستہ اینٹوں کا ڈھیر۔ ٹاٹ کا بوسیدہ پردہ ہٹا کر وہ اندر داخل ہوا۔۔۔۔۔۔سامنے طاق میں مٹی کے تیل کی کُپی سے کافی روشنی نکل رہی تھی۔ اس مٹیالی روشنی میں اس نے دیکھا کہ جھلنگی پلنگڑی پر اس کے دونوں مریل بچے مرے پڑے ہیں۔ عطاء اللہ کوبہت ناامیدی ہوئی۔ بوتل جیب میں رکھ کر جب وہ پلنگڑی کے پاس گیا تو اس نے دیکھا کہ وہ پھٹی پرانی گدڑی جو اس کے بچوں پر پڑی ہے، آہستہ آہستہ ہل رہی ہے۔ عطاء اللہ بہت خوش ہوا۔۔۔۔۔۔ وہ زندہ تھے۔ بوتل جیب سے نکال کر وہ فرش پربیٹھ گیا۔ دونوں لڑکے تھے۔ ایک چار برس، دوسرا پانچ کا۔۔۔۔۔۔ دونوں بھوکے تھے۔ دونوں ہڈیوں کا ڈھانچہ تھے۔ گدڑی ایک طرف ہٹا کر جب عطاء اللہ نے ان کو غور سے دیکھا تو اسے تعجب ہوا کہ اتنے چھوٹے بچے اتنی سوکھی ہڈیوں پر اتنی دیر سے کیسے زندہ ہیں۔ اس نے زہر کی شیشی ایک طرف رکھ دی اور انگلیوں سے ایک بچے کی گردن ٹٹولتے ٹٹولتے۔۔۔۔۔۔ ایک خفیف سا جھٹکا دیا۔ ہلکی سی تڑاخ ہوئی اور اس بچے کی گردن ایک طرف لٹک گئی۔ عطاء اللہ بہت خوش ہوا کہ اتنی جلدی اور اتنی آسانی سے کام تمام ہوگیا۔ اسی خوشی میں اس نے اپنی بیوی کو پکارا۔’’جیناں! جیناں۔۔۔۔۔۔ ادھر آؤ۔ دیکھو میں نے کتنی صفائی سے رحیم کو مار ڈالا ہے۔۔۔۔۔۔ کوئی تکلیف نہیں ہوئی اس کو۔‘‘ اس نے ادھر ادھر دیکھا۔زینب کہاں ہے؟۔۔۔۔۔۔معلوم نہیں کہاں چلی گئی ہے؟۔۔۔۔۔۔ شاید بچوں کے لیے کسی سے کھانا مانگنے گئی ہو۔۔۔۔۔۔ یا ہسبپتال میں اس کی خیریت دریافت کرنے۔۔۔۔۔۔عطاء اللہ ہنسا۔۔۔۔۔۔مگر اس کی ہنسی فوراً دب گئی، جب دوسرے بچے نے کروٹ بدلی اور اپنے مردہ بھائی کو بلانا شروع کیا۔’’رحیم۔۔۔۔۔۔رحیم۔‘‘ وہ نہ بولا تو اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا۔ ہڈیوں کی چھوٹی چھوٹی سیاہ پیالوں میں اس کی آنکھیں چمکیں۔’’ابا۔۔۔۔۔۔تم آگئے۔‘‘ عطاء اللہ نے ہولے سے کہا۔’’ہاں کریم، میں آگیا۔‘‘ کریم نے اپنے استخوانی ہاتھ سے رحیم کو جھنجھوڑا۔’’اٹھو رحیم۔۔۔۔۔۔ابا آگئے ہسپتال سے۔‘‘ عطاء اللہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔’’خاموش رہو۔۔۔۔۔۔وہ سو گیا ہے۔‘‘ کریم نے اپنے باپ کا ہاتھ ہٹایا۔’’کیسے سو گیا ہے۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں نے ابھی تک کچھ کھایا نہیں۔‘‘ ’’تم جاگ رہے تھے؟‘‘ ’’ہاں ابا۔‘‘ ’’سو جاؤ گے ابھی تم۔‘‘ ’’کیسے؟‘‘ ’’میں سلاتا ہوں تمہیں۔‘‘ یہ کہہ کرعطاء اللہ نے اپنی سخت انگلیاں کریم کی گردن پر رکھیں اور اس کو مروڑ دیا۔ مگر تڑاخ کی آواز پیدا نہ ہوئی۔ کریم کو بہت درد ہوا۔’’یہ آپ کیا کررہے ہیں۔‘‘ ’’کچھ نہیں۔‘‘عطاء اللہ حیرت زندہ تھا کہ اس کا یہ دوسرا لڑکا اتنا سخت جان کیوں ہے۔ ’’کیا تم سونا نہیں چاہتے؟‘‘ کریم نے اپنی گردن سہلاتے ہوئے جواب دیا۔’’ سونا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ کچھ کھانے کو دے دو۔۔۔۔۔۔سو جاؤں گا۔‘‘ عطاء نے اللہ زہر کی شیشی اٹھائی۔’’ پہلے یہ دوا پی لو۔‘‘ ’’اچھا۔‘‘ کریم نے اپنا منہ کھول دیا۔ عطاء اللہ نے ساری شیشی اس کے حلق میں انڈیل دی اور اطمینان کا سانس لیا۔’’اب تم گہری نیند سو جاؤ گے۔‘‘ کریم نے اپنے باپ کا ہاتھ پکڑا اور کہا۔’’ابا۔۔۔۔۔۔اب کچھ کھانے کو دو۔‘‘ عطاء اللہ کو بہت کوفت ہوئی۔’’تم مرتے کیوں نہیں۔؟‘‘ کریم یہ سن کر سٹپٹا سا گیا۔’’کیا ابا‘‘ ’’تم مرتے کیوں نہیں۔۔۔۔۔۔میرا مطلب ہے، اگر تم مر جاؤگے تو نیند بھی آجائے گی تمہیں۔‘‘ کریم کی سمجھ میں نہ آیا کہ اس کا باپ کیا کہہ رہا ہے۔’’مارتا تو اللہ میاں ہے ابا۔‘‘ اب عطاء اللہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا کہے۔’’مارا کرتا تھا کبھی۔۔۔۔۔۔اب اس نے یہ کام چھوڑ دیا ہے۔۔۔۔۔۔چلو اٹھو۔‘‘ پلنگڑی پر کریم تھوڑا سا اٹھا تو عطاء اللہ نے اسے اپنی گود میں لے لیا اور سوچنے لگا کہ وہ اللہ میاں کیسے بنے۔ ٹاٹ کا پردہ ہٹا کر جب باہر گلی میں نکلا، اسے یوں محسوس ہوا جیسے آسمان اس پر جھکا ہوا ہے۔ اس میں جا بجا مٹی کے تیل کی کپٹیاں جل رہی تھیں۔ اللہ میاں خدا جانے کہاں تھا۔۔۔۔۔۔ اور زینب بھی۔۔۔۔۔۔ معلوم نہیں وہ کہاں چلی گئی تھی۔ کہیں سے کچھ مانگنے گئی ہوگی۔۔۔۔۔۔عطاء اللہ ہنسنے لگا۔ لیکن فوراً اسے خیال آیا کہ اسے اللہ میاں بننا تھا۔۔۔۔۔۔ سامنے موری کے پاس بہت سے پتھر پڑے تھے۔ ان پر وہ اگر کریم کو دے مارے تو۔۔۔۔۔۔ مگر اس میں اتنی طاقت نہیں تھی۔ کریم اس کی گود میں تھا۔ اس نے کوشش کی کہ اسے اپنے بازوؤں میں اٹھائے اور سر سے اوپر لے جا کر پتھروں پر پٹک دے، مگر اسکی طاقت جواب دے گئی۔ اس نے کچھ سوچا اور اپنی بیوی کو آواز دی’’جیناں۔۔۔۔۔۔جیناں۔‘‘ زینب معلوم نہیں کہاں ہے۔۔۔۔۔۔ کہیں وہ اس ڈاکٹر کے ساتھ تو نہیں چلی گئی جو ہر وقت اس سے اتنی ہمدردی کا اظہار کرتا رہتا ہے۔ وہ ضرور اس کے فریب میں آگئی ہوگی۔ میرے لیے اس نے کہیں خود کو بیچ تو نہیں دیا۔۔۔۔۔۔ یہ سوچتے ہی اس کا خون کھول اٹھا۔ کریم کو پاس بہتی ہوئی بدرو میں پھینک کر وہ ہسپتال کی طرف بھاگا۔۔۔۔۔۔ اتنا تیز دوڑا کہ چند منٹ میں ہسپتال پہنچ گیا۔ رات نصف سے زیادہ گزر چکی تھی۔ چاروں طرف سناٹا تھا۔ جب وہ اپنے و ارڈ کے برآمدے میں پہنچا تو دو آوازیں سنائی دیں۔ ایک اس کی بیوی کی تھی۔ وہ کہہ رہی تھی۔’’تم دغا باز ہو۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے دھوکا دیا ہے۔۔۔۔۔۔اس سے جو کچھ تمہیں ملا ہے، تم نے اپنی جیب میں ڈال لیا ہے۔‘‘ کسی مرد کی آواز سنائی دی۔’’ تم غلط کہتی ہو۔۔۔۔۔۔ تم اس کو پسند نہیں آئیں اس لیے وہ چلا گیا۔‘‘ اس کی بیوی دیوانہ وار چلائی۔’’بکواس کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ٹھیک ہے کہ میں دو بچوں کی ماں ہوں۔۔۔۔۔۔میرا وہ پہلا سا رنگ روپ نہیں رہا۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ مجھے قبول کرلیتا اگر تم بھانجی نہ مارتے۔۔۔۔۔۔تم بہت ظالم ہو۔۔۔۔۔۔بہت کٹھور ہو۔۔۔۔۔۔‘‘اس کی آواز گلے میں رندھنے لگی۔’’میں کبھی تمہارے ساتھ نہ چلتی۔۔۔۔۔۔ میں کبھی ذلت میں نہ گرتی اگر میرا خاوند بیمار اور میرے بچے کئی دنوں کے بھوکے نہ ہوتے۔۔۔۔۔۔ تم نے کیوں یہ ظلم کیا؟‘‘ اس مرد نے جواب دیا۔’’وہ۔۔۔۔۔۔ وہ کوئی بھی نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ میں خود تھا۔۔۔۔۔۔ جب تم میرے ساتھ چل پڑیں تو میں نے خود کو پہچانا۔۔۔۔۔۔اور تم سے کہا کہ وہ چلا گیا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ، جس کے لیے میں تمہیں لایا تھا۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارا خاوند مر جائے گا۔۔۔۔۔۔تمہارے بچے مر جائیں گے۔ تم بھی مر جاؤ گی۔۔۔۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔‘‘ ’’لیکن کیا۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کی بیوی نے تیکھی آواز میں پوچھا۔ ’’میں مرتے دم تک زندہ رہوں گا۔۔۔۔۔۔ تم نے مجھے اس زندگی سے بچا لیا ہے جو موت سے کہیں زیادہ خوف ناک ہوتی۔۔۔۔۔۔چلو آؤ۔۔۔۔۔۔عطاء اللہ ہمیں بلا رہا ہے۔‘‘ ’’عطاء اللہ یہاں کھڑا ہے۔‘‘عطاء اللہ نے بھینچی ہوئی آواز میں کہا۔ دو سائے پلٹے۔۔۔۔۔۔ اس سے کچھ فاصلے پر وہ ڈاکٹر کھڑا تھا جو زینب سے بڑی ہمدردی کا اظہارکیا کرتا تھا۔ اس کے منہ سے صرف اس قدر نکل سکا تھا۔’’تم!‘‘ ’’ہاں، میں۔۔۔۔۔۔تمہاری سب باتیں سن چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر عطاء اللہ نے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔’’جیناں۔۔۔۔۔۔ میں نے رحیم اور کریم دونوں کو مار ڈالا ہے۔۔۔۔۔۔اب میں اور تم باقی رہ گئے ہیں۔‘‘ زینب چیخی۔’’مار ڈالا تم نے! دونوں بچوں کو؟‘‘ عطاء اللہ نے بڑے پرسکون لہجے میں کہا۔’’ہاں۔۔۔۔۔۔ انھیں کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے تمہیں بھی کوئی تکلیف نہیں۔ ڈاکٹر صاحب موجود ہیں!‘‘ ڈاکٹر کانپنے لگا۔۔۔۔۔۔ عطاء اللہ آگے بڑھا اور اس سے مخاطب ہوا۔’’ایسا انجکشن دے دو کہ فوراً مر جائے۔‘‘ ڈاکٹر نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اپنا بیگ کھولا اور سرنج میں زہر بھر کے زینب کے ٹیکہ لگا دیا۔ ٹیکہ لگتے ہی وہ فرش پر گری اور مر گئی۔ اس کی زبان پر آخری الفا٭۔۔۔۔۔۔ میرے بچے۔۔۔۔۔۔میرے بچے‘‘ تھے، مگر اچھی طرح ادا نہ ہوسکے۔ عطاء اللہ نے اطمینان کا سانس لیا۔’’چلو یہ بھی ہوگیا۔۔۔۔۔۔ اب میں باقی رہ گیا ہوں۔‘‘ ’’لیکن۔۔۔۔۔۔لیکن میرے پاس زہر ختم ہوگیا ہے۔‘‘ڈاکٹر کے لہجے میں لکنت تھی۔ عطاء اللہ تھوڑی دیر کے لیے پریشان ہوگیا، لیکن فوراً سنبھل کر اس نے ڈاکٹر سے کہا۔’’کوئی بات نہیں۔۔۔۔۔۔میں اندر اپنے بستر پر لیٹتا ہوں، تم بھاگ کر زہر لے کر آؤ۔‘‘ بستر پر لیٹ کر سرخ کھردرے کمبل میں اس نے بڑی مشکل سے کروٹ بدلی اور اپنی مندی ہوئی آنکھیں آہستہ آہستہ کھولیں۔ کہرے کی چادر میں کئی چیزیں لپٹی ہوئی تھیں جن کے صحیح خدوخال نظر نہیں آتے تھے۔۔۔۔۔۔ ایک لمبا، بہت ہی لمبا نہ ختم ہونے والا دالان تھا۔۔۔۔۔۔یا شاید کمرہ جس میں دھندلی دھندلی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ایسی روشنی جو جگہ جگہ میلی ہورہی تھی۔ دور، بہت دور ایک فرشتہ کھڑا تھا۔ جب وہ آگے بڑھنے لگا تو چھوٹا ہوتا گیا۔ عطاء اللہ کی چارپائی کے پاس پہنچ کر وہ ڈاکٹر بن گیا۔ وہی ڈاکٹر جو اس کی بیوی سے ہر وقت ہمدردی کا اظہار کیا کرتا تھا۔ اور اسے بڑے پیار سے دلاسا دیتا تھا۔ عطاء اللہ نے اسے پہچانا تو اٹھنے کی کوشش کی۔’’آئیے ڈ اکٹر صاحب!‘‘ مگر وہ ایک دم غائب ہوگیا۔ عطاء اللہ لیٹ گیا۔ اس کی آنکھیں کھلی تھیں۔ کہرا دور ہو چکا تھا۔ معلوم نہیں کہاں غائب ہوگیا تھا۔ اس کا دماغ بھی صاف تھا۔ ایک دم وارڈ میں شور بلند ہوا۔ سب سے اونچی آواز جو چیخ سے مشابہ تھی، زینب کی تھی، اس کی بیوی کی۔ وہ کچھ کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔معلوم نہیں کیا کہہ رہی تھی۔ عطاء اللہ نے اٹھنے کی کوشش کی۔ زینب کو آواز دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔۔۔۔۔۔ دھند پھر چھانے لگی اور وارڈ لمبا۔۔۔۔۔۔بہت لمبا ہوتا چلا گیا۔ تھوڑی دیر کے بعد زینب آئی۔ اس کی حالت دیوانوں کی سی ہورہی تھی۔ دونوں ہاتھوں سے اس نے عطاء اللہ کو جھنجوڑنا شروع کیا۔’’میں نے اسے مار ڈالا ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے اس حرام زادے کو مار ڈالا ہے۔‘‘ ’’کس کو؟‘‘ اسی کو مجھ سے اتنی ہمدردی جتایا کرتا تھا۔۔۔۔۔۔اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ تمہیں بچا لے گا۔۔۔۔۔۔ وہ جھوٹا تھا۔۔۔۔۔۔ دغا باز تھا، اس کا دل توے کی کالک سے بھی زیادہ کالا تھا۔ اس نے مجھے۔۔۔۔۔۔اس نے مجھے۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کے آگے زینب کچھ نہ کہہ سکی۔ عطاء اللہ کے دماغ میں بے شمار خیالات آئے اور آپس میں گڈمڈ ہوگئے۔’’تمہیں تو اس نے مار ڈالا تھا؟‘‘ زینب چیخی۔’’نہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے اسے مار ڈالا ہے۔‘‘ عطاء اللہ چند لمحے خلا میں دیکھتا رہا۔ پھر اس نے زینب کو ہاتھ سے ایک طرف ہٹایا۔’’تم ادھر ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔وہ آرہا ہے۔‘‘ ’’کون؟‘‘ ’’وہی ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔وہی فرشتہ۔‘‘ فرشتہ آہستہ آہستہ اس کی چارپائی کے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں زہر بھری سرنج تھی۔ عطاء اللہ مسکرایا۔’’لے آئے!‘‘ فرشتے نے اثبات میں سر ہلایا۔’’ہاں، لے آیا۔‘‘ عطاء اللہ نے اپنا لرزاں بازو اس کی طرف بڑھایا۔’’تو لگا دو۔‘‘ فرشتے نے سوئی اس کے بازو میں گھونپ دی۔ عطاء اللہ مر گیا۔ زینب اسے جھنجوڑنے لگی۔’’اٹھو۔۔۔۔۔۔اٹھو کریم، رحیم کے ابا، اٹھو۔۔۔۔۔۔یہ ہسپتال بہت بری جگہ ہے۔۔۔۔۔۔چلو گھر چلیں۔‘‘ تھوڑی دیر کے بعد پولیس آئی اور زینب کو اس کے خاوند کی لاش پر سے ہٹا کر اپنے ساتھ لے گئی!
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
Reply

Thread Tools Search this Thread
Search this Thread:

Advanced Search

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
NAB ::: Psychological Test ::: HELP NEEDED MYG2010 National Accountability Bureau (NAB) 1216 Friday, September 16, 2016 06:45 PM
Pakistan Broadcasting Corporation Headquarters Recruitment Test by NTS shahzad55 Jobs Announcements 743 Wednesday, May 11, 2016 06:07 PM
NAB Result Announced: Please Share Your Marks sarfaraz shami National Accountability Bureau (NAB) 240 Saturday, August 15, 2015 12:07 PM
YPIP Result Announced Descendant of Saul Banking Jobs 443 Thursday, November 21, 2013 05:38 PM
PCS lectureship exams 2011 result date is announced famfai PPSC Lecturer Jobs 60 Thursday, December 08, 2011 07:18 PM


CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.