CSS Forums

CSS Forums (http://www.cssforum.com.pk/)
-   Urdu Literature (http://www.cssforum.com.pk/css-optional-subjects/group-v/urdu-literature/)
-   -   Manto Kay 20 Afsanay by Dr.Anwar Ahmad and Dr. A.B. Ashraf (http://www.cssforum.com.pk/css-optional-subjects/group-v/urdu-literature/103138-manto-kay-20-afsanay-dr-anwar-ahmad-dr-b-ashraf.html)

Amna Tuesday, July 28, 2015 01:19 PM

Manto Kay 20 Afsanay by Dr.Anwar Ahmad and Dr. A.B. Ashraf
 
1. Tamasha
2. Chori
3. Sadhe Teen Anne
4. Naya Qanun
5.Nara
6. Banjh
7. Hatak
8. Kali Shalwar
9. Babu Ghopinath
10.Hafiz Husain Deen
11.Tu Tu
12.Mammad Bhai
13.Ghaurmukh Singh Ki Wasiyat
14.Mozil
15.Khol Do
16.Toba Tek Singh
17.Phulon ki Sazish
18.Sarak Ke Kinare
19.Farishta
20.Phundane

[URL="https://docs.google.com/file/d/0By0Yum52WooCNVZnNGVNTDh6TWs/edit?pli=1"]Download [/URL]

Amna Tuesday, July 28, 2015 01:20 PM

1. Tamasha
 
[size="5"]
دو تین روز سے طیارے سیاہ عقابوں کی طرح پر پھلائے خاموش فضا میں منڈلا رہے تھے۔ جیسے وہ کسی شکار کی جستجو میں ہوں۔ سرخ آندھیاں وقتاً فوقتاً کسی آنے والی خونی حادثے کا پیغام لا رہی تھیں۔ سنسان بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت ایک عجیب ہیئت ناک سماں پیش کر رہی تھی۔ وہ بازار جو صبح سے کچھ عرصہ پہلے لوگوں کے ہجوم سے پُر ہوا کرتے تھے۔ اب کسی نامعلوم خوف کی وجہ سے سُونے پڑے تھے ___ شہر کی فضا پر ایک پُر اسرار خاموشی مُسلّط تھی۔ بھیانک خوف راج کر رہا تھا۔ خالد گھر کی خاموشی و پرسکون فضا سے سہما ہوا اپنے والد کے قریب بیٹھا باتیں کر رہا تھا۔ ’’ابّا، آپ مجھے سکول کیوں نہیں جانے دیتے؟‘‘ ’’بیٹا آج سکول میں...... چھٹی ہے۔‘‘ ’’ماسٹر صاحب نے تو ہمیں بتایا ہی نہیں۔ وہ تو کل کہہ رہے تھے کہ جو لڑکا آج سکول کا کام ختم کرکے اپنی کاپی نہ دکھائے گا۔ اسے سخت سزا دی جائے گی!‘‘ ’’وہ اطلاع دینی بُھول گئے ہوں گے۔‘‘ ’’آپ کے دفتر میں بھی چُھٹی ہو گی؟‘‘ ’’ہاں ہمارا دفتر بھی آج بند ہے۔‘‘ ’’چلو اچھا ہوا۔ آج میں آپ سے کوئی اچھی سی کہانی سنوں گا۔‘‘ یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ تین طیارے چیختے ہوئے ان کے سر پر سے گزر گئے۔ خالد ان کو دیکھ کر بہت خوفزدہ ہُوا، وہ تین چار روز سے ان طیاروں کو بغور دیکھ رہا تھا۔ مگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکا تھا۔ وہ حیران تھا کہ یہ جہاز سارا دن دھوپ میں کیوں چکر لگاتے رہتے ہیں۔ وہ ان کی روزانہ نقل و حرکت سے تنگ آ کر بولا۔ ’’ابّا مجھے ان جہازوں سے سخت خوف معلوم ہو رہا ہے۔ آپ ان کے چلانے والوں سے کہہ دیں کہ وہ ہمارے گھر پر سے نہ گزراکریں۔‘‘ ’’خوب! ۔۔۔ کہیں پاگل تو نہیں ہو گئے خالد!‘‘ ’’ابّا، یہ جہاز بہت خوفناک ہیں۔ آپ نہیں جانتے، یہ کسی نہ کسی روز ہمارے گھر پر گولہ پھینک دیں گے___ کل صبح ماما امّی جان سے کہہ رہی تھی ___ کہ ان جہاز والوں کے پاس بہت سے گولے ہیں۔ اگر انہوں نے اس قسم کی کوئی شرارت کی، تو یاد رکھیں میرے پاس بھی ایک بندوق ہے___ وہی جو آپ نے پچھلی عید پر مجھے دی تھی۔‘‘ خالد کا باپ اپنے لڑکے کی غیر معمولی جسارت پر ہنسا۔ ’’ماما تو پاگل ہے، میں اس سے دریافت کروں گا۔ کہ وہ گھر میں ایسی باتیں کیوں کیا کرتی ہے___ اطمینان رکھو، وہ ایسی بات ہرگز نہیں کریں گے۔‘‘ اپنے والد سے رخصت ہو کر خالد اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اور ہوائی بندوق نکال کر نشانہ لگانے کی مشق کرنے لگا۔ تاکہ اس روز جب ہوائی جہاز والے گولے پھینکیں۔ تو اس کا نشانہ خطا نہ جائے۔ اور وہ پوری طرح انتقام لے سکے___ کاش! انتقام کا یہی ننھا جذبہ ہر شخص میں تقسیم ہو جائے۔ اسی عرصے میں جبکہ ایک ننھا بچہ اپنے انتقام لینے کی فکر میں ڈُوبا ہُوا طرح طرح کے منصوبے باندھ رہا تھا۔ گھر کے دوسرے حصے میں خالد کا باپ اپنی بیوی کے پاس بیٹھا ہوا ماما کو ہدایت کر رہا تھا۔ کہ وہ آئندہ گھر میں اس قسم کی کوئی بات نہ کرے۔ جس سے خالد کو دہشت ہو۔ ماما اور بیوی کو اسی قسم کی مزید ہدایات دے کر وہ ابھی بڑے دروازے سے باہر جا رہا تھا کہ خادم ایک دہشت ناک خبر لایا۔ کہ شہر کے لوگ بادشاہ کے منع کرنے پر بھی شام کے قریب ایک عام جلسہ کرنے والے ہیں اور یہ توقع کی جاتی ہے۔ کہ کوئی نہ کوئی واقعہ ضرور پیش آکر رہے گا۔ خالد کا باپ یہ خبر سن کر بہت خوفزدہ ہوا۔ اب اسے یقین ہو گیا۔ کہ فضا میں غیر معمولی سکون۔ طیاروں کی پرواز، بازاروں میں مسلح پولیس کی گشت، لوگوں کے چہروں پر اُداسی کا عالم اور خونی آندھیوں کی آمد کسی خوفناک حادثہ کا پیش خیمہ تھے۔ وہ حادثہ کس نوعیت کا ہو گا؟___ یہ خالد کے باپ کی طرح کسی کو بھی معلوم نہ تھا۔ مگر پھر بھی سارا شہر کسی نامعلوم خوف میں لپٹا ہُوا تھا۔ باہر جانے کے خیال کو ملتوی کرکے خالد کا باپ ابھی کپڑے تبدیل کرنے بھی نہ پایا تھا۔ کہ طیاروں کا شور بلند ہُوا۔ وہ سہم گیا ___ اسے ایسا معلوم ہوا، جیسے سینکڑوں انسان ہم آہنگ آواز میں درد کی شدت سے کراہ رہے ہیں۔ خالد طیاروں کا شور و غل سُن کر اپنی ہوائی بندوق سنبھالتا ہوا کمرے سے باہر دوڑا آیا۔ اور انہیں غور سے دیکھنے لگا۔ تاکہ وہ جس وقت گولہ پھینکنے لگیں۔ تو وہ اپنی ہوائی بندوق کی مدد سے انہیں نیچے گرا دے۔ اس وقت چھ سال کے بچے کے چہرے پر آہنی ارادہ و استقلال کے آثار نمایاں تھے۔ جو کم حقیقت بندوق کا کھلونا ہاتھ میں تھامے ایک جری سپاہی کو شرمندہ کر رہا تھا۔ معلوم ہوتا تھا۔ کہ وہ آج اس چیز کو جو اُسے عرصے سے خوفزدہ کر رہی تھی۔ مٹانے پر تُلا ہُوا ہے۔ خالد کے دیکھتے دیکھتے ایک جہاز سے کچھ چیز گریں۔ جو کاغذ کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کے مشابہ تھی۔ گرتے ہی یہ ٹکڑے ہوا میں پتنگوں کی طرح اُڑنے لگے۔ ان میں سے چند خالد کے مکان کی بالائی چھت پر بھی گرے۔ خالد بھاگا ہوا اُوپر گیا۔ اور کاغذاُٹھا لایا۔ ’’ابّا جی___ ماما سچ مچ جھوٹ بک رہی تھی۔ جہاز والوں نے تو گولوں کے بجائے یہ کاغذ پھینکے ہیں‘‘۔ خالد کے باپ نے وہ کاغذ لے کر پڑھنا شروع کیا۔ تو رنگ زرد ہو گیا۔ ہونے والے حادثے کی تصویر اب اسے عیاں طور پر نظر آنے لگی۔ اس اشتہار میں صاف لکھا تھا۔ کہ بادشاہ کسی جلسہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔ اور اگر اس کی مرضی کے خلاف کوئی جلسہ کیا گیا۔ تو نتائج کی ذمہ دار خود رعایا ہو گی۔ اپنے والد کو اشتہار پڑھنے کے بعد اس قدر حیران و پریشان دیکھ کر خالد نے گھبراتے ہوئے کہا۔ ’’اس کاغذ میں یہ تو نہیں لکھا کہ وہ ہمارے گھر پر گولے پھینکیں گے؟‘‘ ’’خالد، اس وقت تم جاؤ!___ جاؤ اپنی بندوق کے ساتھ کھیلو!‘‘ ’’مگر اس پر لکھا کیا ہے؟‘‘ ’’لکھا ہے کہ آج شام کو ایک تماشا ہو گا۔‘‘ خالد کے باپ نے گفتگو کو مزید طول دینے کے خوف سے جُھوٹ بولتے ہوئے کہا۔ ’’تماشا ہو گا!___ پھر تو ہم بھی چلیں گے نا!‘‘ ’’کیا کہا؟‘‘ ’’کیا اس تماشے میں آپ مجھے نہ لے چلیں گے؟‘‘ ’’لے چلیں گے!___ اب جاؤ جا کر کھیلو۔‘‘ ’’کہاں کھیلوں؟___ بازار میں آپ جانے نہیں دیتے۔ ماما مجھ سے کھیلتی نہیں، میرا ہم جماعت طفیل بھی تو آج کل یہاں نہیں آتا۔ اب میں کھیلوں تو کس سے کھیلوں؟___ شام کے وقت تماشا دیکھنے تو ضرور چلیں گے نا؟‘‘ کسی جواب کا انتظار کیے بغیر خالد کمرے سے باہر چلا گیا۔ اور مختلف کمروں میں آوارہ پھرتا ہوا اپنے والد کی نشست گاہ میں پہنچا۔ جس کی کھڑکیاں بازار کی طرف کُھلتی تھیں۔ کھڑکی کے قریب بیٹھ کر وہ بازار کی طرف جھانکنے لگا۔ کیا دیکھتا ہے کہ بازار میں دکانیں تو بند ہیں۔ مگر آمدورفت جاری ہے___ لوگ جلسے میں شریک ہونے کے لیے جا رہے تھے۔ وہ سخت حیران تھا۔ کہ دو تین روز سے دکانیں کیوں بند رہتی ہیں اس مسئلہ کے حل کے لیے اس نے اپنے ننھے دماغ پر بُہتیر ازور دیا مگر کوئی نتیجہ برآمد نہ کر سکا۔ بہت غور و فکر کے بعد اس نے یہ سوچا کہ لوگوں نے اس تماشا کو دیکھنے کی خاطر، جس کے اشتہار جہاز بانٹ رہے تھے دکانیں بند کر رکھی ہیں۔ اب اس نے خیال کیا۔ کہ وہ کوئی نہایت ہی دلچسپ تماشا ہو گا۔ جس کے لیے تمام بازار بند ہیں۔ اس خیال نے خالد کو سخت بے چین کر دیا۔ اور وہ اس وقت کا نہایت بے قراری سے انتظارکرنے لگا۔ جب اس کا ابّا اسے تماشا دکھلانے کو لے چلے۔ وقت گزرتا گیا___ وہ خونی گھڑی قریب تر آتی گئی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ خالد، اس کا باپ اور والدہ صحن میں خاموش بیٹھے ایک دوسرے کی طرف خاموش نگاہوں سے تک رہے تھے___ ہوا سسکیاں بھرتی ہوئی چل رہی تھی۔ تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔ تڑ۔.............. یہ آواز سُنتے ہی خالد کے باپ کے چہرے کا رنگ کاغذ کی طرح سفید ہو گیا۔ زبان سے بمشکل اس قدر کہہ سکا’’___ گولی ___‘‘ خالد کی ماں فرطِ خوف سے ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکال سکی۔ گولی کا نام سنتے ہی اسے ایسے معلوم ہوا۔ جیسے خود اس کی چھاتی میں گولی اُتر رہی ہے۔ خالد اس آواز کو سنتے ہی اپنے والد کی انگلی پکڑ کر کہنے لگا۔ ’’ابّا جی چلو چلیں! تماشا تو شروع ہو گیا ہے!‘‘ ’’کون سا تماشا؟‘‘ خالد کے باپ نے اپنے خوف کو چھپاتے ہوئے کہا۔ ’’وہی تماشا جس کے اشتہار آج صبح بانٹ رہے تھے___ کھیل شروع ہو گیا۔ تبھی تو اتنے پٹاخوں کی آوازسنائی دے رہی ہے۔‘‘ ’’ ابھی بہت وقت باقی ہے، تم شور مت کرو___ خدا کے لیے اب جاؤ، ماما کے پاس جا کر کھیلو!‘‘ خالد یہ سنتے ہی باورچی خانے کی طرف گیا۔ مگر وہاں ماما کو نہ پا کر اپنے والد کی نشست گاہ میں چلا گیا۔ اور کھڑکی سے بازار کی طرف دیکھنے لگا۔ بازار آمدورفت بند ہو جانے کی وجہ سے سائیں سائیں کر رہا تھا ___ دُور فاصلے سے کُتوں کی درد ناک چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ چند لمحات کے بعد ان چیخوں میں انسان کی درد ناک آواز بھی شامل ہو گئی۔ خالد کسی کو کراہتے سُن کر بہت حیران ہُوا۔ ابھی وہ اس آواز کی جستجو کے لیے کوشش ہی کر رہا تھا۔ کہ چوک میں اسے ایک لڑکا دکھائی دیا۔ جو چیختا، چلاتا، بھاگتا چلا آ رہا تھا۔ خالد کے گھر کے عین مقابل وہ لڑکا لڑکھڑا کر گرا۔ اور گرتے ہی بے ہوش ہو گیا___ اس کی پنڈلی پر ایک زخم تھا۔ جس سے فواروں خون نکل رہا تھا۔ یہ سماں دیکھ کر خالد بہت خوفزدہ ہُوا۔ بھاگ کر اپنے والد کے پاس آیا۔ اور کہنے لگا۔ ’’ابّا، ابّا، بازار میں ایک لڑکا گر پڑا ہے___ اس کی ٹانگ سے بہت خون نکل رہا ہے۔‘‘ یہ سنتے ہی خالد کا باپ کھڑکی کی طرف گیا۔ اور دیکھا کہ واقعی ایک نوجوان لڑکا بازار میں اوندھے منہ پڑا ہے۔ بادشاہ کے خوف سے اسے جرأت نہ ہُوئی۔ کہ اس لڑکے کو سڑک پر سے اُٹھا کر سامنے والی دکان کے پٹرے پر لٹا دے___ بے سازو برگ افراد کو اُٹھانے کے لیے حکومت کے اربابِ حل و عقد نے آہنی گاڑیاں مہیا کر رکھی ہیں۔ مگر اس معصوم بچے کی نعش جو انہی کی تیغ ستم کا شکار تھی۔ وہ ننھا پودا جو انہی کے ہاتھوں مسلا گیا تھا۔ وہ کونپل جو کھلنے سے پہلے اُنہی کی عطا کردہ بادِ سموم سے جھلس گئی تھی کسی کے دل کی راحت جو انہی کے جورو استبداد نے چھین لی تھی اب انہی کی تیار کردہ سڑک پر___ آہ! موت بھیانک ہے، مگر ظلم اس سے کہیں زیادہ خوفناک اور بھیانک ہے۔ ’’ابا اس لڑکے کو کسی نے پیٹا ہے؟‘‘ خالد کا باپ اثبات میں سر ہلاتا ہوا کمرے سے باہر چلا گیا۔ جب خالد اکیلا کمرے میں رہ گیا۔ تو سوچنے لگا۔ کہ اس لڑکے کو اتنے بڑے زخم سے کتنی تکلیف ہُوئی ہو گی۔ جبکہ ایک دفعہ اسے قلم تراش کی نوک چبھنے سے تمام رات نیند نہ آئی تھی اور اس کا باپ اور ماں تمام رات اس کے سرہانے بیٹھے رہے تھے۔ اس خیال کے آتے ہی اسے ایسا معلوم ہونے لگا۔ کہ وہ زخم خود اس کی پنڈلی میں ہے۔ اور اس میں شدت کا درد ہے۔___ یکلخت وہ رونے لگ گیا۔ اس کے رونے کی آواز سُن کر اس کی والدہ دوڑی آئی۔ اور اسے گود میں لے کر پوچھنے لگی۔ ’’میرے بچے رو کیوں رہے ہو؟‘‘ ’’امی، اس لڑکے کو کسی نے مارا ہے؟‘‘ ’’شرارت کی ہو گی اس نے؟‘‘ خالد کی والدہ اپنے خاوند کی زبانی زخمی لڑکے کی داستان سُن چکی تھی۔ ’’مگر سکول میں تو شرارت کرنے پر چھڑی سے سزا دیتے ہیں۔ لہو تو نہیں نکالتے۔‘‘ خالد نے روتے ہوئے اپنی والدہ سے کہا۔ ’’چھڑی زور سے لگ گئی ہو گی!‘‘ ’’تو پھر کیا اُس لڑکے کا والد سکول میں جا کر اس اُستاد پر خفا نہ ہو گا۔ جس نے اس لڑکے کو اس قدر مارا ہے۔ ایک روز جب ماسٹر صاحب نے میرے کان کھینچ کر سُرخ کر دئیے تھے تو ابّا جی نے ہیڈ ماسٹر کے پاس جا کر شکایت کی تھی نا؟‘‘ ’’اس لڑکے کا ماسٹر بہت بڑا آدمی ہے۔‘‘ ’’اللہ میاں سے بھی بڑا؟‘‘ ’’نہیں ان سے چھوٹا ہے۔‘‘ ’’تو پھر وہ اللہ میاں کے پاس شکایت کرے گا۔‘‘ ’’خالد، اب دیر ہو گئی ہے، چلو سوئیں۔‘‘ ’’اللہ میاں! میں دعا کرتا ہُوں۔ کہ تو اس ماسٹر کو جس نے اس لڑکے کو پیٹا ہے۔ اچھی طرح سزا دے۔ اور اس چھڑی کو چھین لے جس کے استعمال سے خون نکل آتا ہے___ میں نے پہاڑے یاد نہیں کیے۔ اس لیے مجھے ڈر ہے۔ کہ کہیں وہی چھڑی میرے اُستاد کے ہاتھ نہ آ جائے___ اگر تم نے میری باتیں نہ مانیں ، تو پھر میں بھی تم سے نہ بولوں گا۔‘‘ سوتے وقت خالد دل میں دُعا مانگ رہا تھا۔[/size]

Amna Tuesday, July 28, 2015 01:22 PM

2. Chori
 
[size="5"]
سکول کے تین چار لڑکے الاؤ کے گرد حلقہ بنا کربیٹھ گئے۔ اور اس بوڑھے آدمی سے جو ٹاٹ پر بیٹھا اپنے استخوانی ہاتھ تاپنے کی خاطر الاؤ کی طرف بڑھائے تھا کہنے لگے’’ بابا جی کوئی کہانی سنائیے؟‘‘ مردِ معمر نے جو غالباً کسی گہری سوچ میں غرق تھا۔ اپنا بھاری سر اٹھایا جو گردن کی لاغری کی وجہ سے نیچے کو جھکا ہوا تھا۔’’ کہانی!۔۔۔۔۔۔ میں خود ایک کہانی ہُوں مگر۔۔۔‘‘ اس کے بعد کے الفاظ اس نے اپنے پوپلے منہ ہی میں بڑبڑائے۔۔۔۔۔۔ شاید وہ اس جملے کو لڑکوں کے سامنے ادا کرنا نہیں چاہتا تھا جن کی سمجھ اس قابل نہ تھی کہ وہ فلسفیانہ نکات حل کرسکیں۔ لکڑی کے ٹکڑے ایک شور کے ساتھ جل جل کر آتشیں شکم کو پُر کررہے تھے۔ شعلوں کی عنابی روشنی لڑکوں کے معصوم چہروں پر ایک عجیب انداز میں رقص کررہی تھی۔ ننھی ننھی چنگاریاں سپید راکھ کی نقاب اُلٹ اُلٹ کر حیرت میں سربُلند شعلوں کا منہ تک رہی تھیں۔ بوڑھے آدمی نے الاؤ کی روشنی میں سے لڑکوں کی طرف نگاہیں اٹھا کرکہا۔ ’’کہانی۔۔۔۔۔۔ ہرروز کہانی!۔۔۔۔۔۔ کل سناؤں گا۔‘‘ لڑکوں کے تمتماتے ہُوئے چہروں پر افسردگی چھاگئی۔ ناامیدی کے عالم میں وہ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ گویا وہ آنکھوں ہی آنکھوں میں کہہ رہے تھے۔’’ آج رات کہانی سنے بغیر سونا ہوگا۔‘‘ یکایک ان میں سے ایک لڑکا جو دوسروں کی بہ نسبت بہت ہوشیار اور ذہین معلوم ہوتا تھا الاؤ کے قریب سر ک کر بلند آواز میں بولا۔ مگر کل آپ نے وعدہ کیا تھا اور وعدہ خلافی کرنا درست نہیں۔۔۔۔۔۔ کیا آپ کو کل والے حامد کا انجام یاد نہیں ہے جو ہمیشہ اپنا کہا بھول جایا کرتا تھا۔‘‘ ’’درست!۔۔۔۔۔۔ میں بھول گیا تھا۔‘‘ بوڑھے آدمی نے یہ کہہ کر اپنا سر جھکا لیا۔ جیسے وہ اپنی بھول پر نادم ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ اس دلیر لڑکے کی جرأت کا خیال کرکے مسکرایا۔ ’’میرے بچے! مجھ سے غلطی ہوگئی۔ مجھے معاف کردو۔۔۔ مگر میں کون سی کہانی سُناؤں؟۔ ٹھہرو۔ مجھے یاد کرلینے دو۔‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ سر جُھکا کر گہری سوچ میں غرق ہوگیا۔ اسے جِن اور پریوں کی لایعنی داستانوں سے سخت نفرت تھی۔ وہ بچوں کو ایسی کہانیاں سُنایا کرتا تھا۔ جو ان کے دل و دماغ کی اصلاح کرسکیں۔ اسے بہت سے فضول قصے یاد تھے جو اس نے بچپن میں سُنے تھے۔ یا کتابوں میں پڑھے تھے۔ مگر اس وقت وہ اپنے بربط پیری کے بوسیدہ تار چھیڑ رہا تھا کہ شاید ان میں کوئی خوابیدہ راگ جاگ اٹھے۔ لڑکے بابا جی کو خاموش دیکھ کر آپس میں آہستہ آہستہ باتیں کرنے لگے۔ غالباً اس لڑکے کی بابت جسے کتاب چُرانے پر بید کی سزا ملی تھی۔ باتوں باتوں میں ان میں سے کسی نے بلند آواز میں کہا۔’’ ماسٹر جی کے لڑکے نے بھی تو میری کتاب چُرالی تھی۔ مگر اسے سزا ذرا نہ ملی۔‘‘ ’’کتاب چُرا لی تھی۔‘‘ ان چار لفظوں نے جوبلند آواز میں ادا کیے گئے تھے۔ بوڑھے کی خفتہ یاد میں ایک واقعہ کو جگا دیا۔ اس نے اپنا سپید سر اٹھایا اور اپنی آنکھوں کے سامنے بُھولی بسری داستان کو انگڑائیاں لیتے پایا۔ ایک لمحہ کے لیے اس کی آنکھوں میں چمک پیدا ہُوئی۔ مگر وہیں غرق ہو گئی۔۔۔۔۔۔ اضطراب کی حالت میں اس نے اپنے نحیف جسم کو جنبش دے کر الاؤ کے قریب کیا۔ اس کے چہرے کے تغیر و تبدل سے صاف طور پر عیاں تھا۔ کہ وہ کسی واقعہ کو دوبارہ یاد کرکے بہت تکلیف محسوس کررہا ہے۔ الاؤ کی روشنی بدستور لڑکوں کے چہروں پر ناچ رہی تھی۔ دفعتاً بوڑھے نے آخری ارادہ کرتے ہوئے کہا: ’’ بچو! آج میں اپنی کہانی سُناؤں گا۔‘‘ لڑکے فوراً اپنی باتیں چھوڑ کر ہمہ تن گوش ہوگئے۔ الاؤ کی چٹختی ہوئی لکڑیاں ایک شورکے ساتھ اپنی اپنی جگہ پر ابھر کر خاموش ہوگئیں۔۔۔۔۔۔ ایک لمحہ کے لیے فضا پر مکمل سکوت طاری رہا۔۔۔۔۔۔ ’’بابا جی اپنی کہانی سنائیں گے؟‘‘ ایک لڑکے نے خوش ہوکرکہا۔ باقی سرک کر آگ کے قریب خاموشی سے بیٹھ گئے۔ ’’ہاں، اپنی کہانی۔‘‘ یہ کہہ کر بوڑھے آدمی نے اپنی جھکی ہُوئی گھنی بھوؤں میں سے کوٹھڑی کے باہر تاریکی میں دیکھنا شروع کیا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ لڑکوں سے پھرمخاطب ہُوا۔’’ میں آج تمہیں اپنی پہلی چوری کی داستان سُناؤں گا۔‘‘ لڑکے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ انھیں اِس بات کا وہم و گمان بھی نہ تھا۔ کہ بابا جی کسی زمانہ میں چوری بھی کرتے رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ بابا جی جو ہر وقت انھیں بُرے کاموں سے بچنے کے لیے نصیحت کیا کرتے ہیں۔ لڑکا جو اِن میں دلیر تھا۔ اپنی حیرت نہ چُھپا سکا۔’’ پر کیا آپ نے واقعی چوری کی؟‘‘ ’’واقعی!‘‘ ’’ آپ اُس وقت کس جماعت میں پڑھا کرتے تھے؟‘‘ ’’نویں میں۔‘‘ یہ سُن کر لڑکے کی حیرت اور بھی بڑھ گئی۔ اسے اپنے بھائی کا خیال آیا جو نویں جماعت میں تعلیم پارہا تھا وہ اس سے عمرمیں دوگنا بڑا تھا۔ اس کی تعلیم اس سے کہیں زیادہ تھی۔ وہ انگریزی کی کئی کتابیں پڑھ چکا تھا۔ اور اسے ہر وقت نصیحتیں کیا کرتا تھا۔ یہ کیوں کر ممکن تھا کہ اس عمر کا اور اچھا پڑھا لکھا لڑکا چوری کرے؟۔۔۔۔۔۔ اس کی عقل اس معمہ کو حل نہ کرسکی۔ چنانچہ اس نے پھر سوا ل کیا۔’’آپ نے چوری کیوں کی؟‘‘ اس مشکل سوال نے بڈھے کو تھوڑی دیر کے لیے گھبرا دیا۔۔۔۔۔۔ آخر وہ اس کا کیا جواب دے سکتا تھا کہ فلاں کام اس نے کیوں کیا؟ بظاہر اس کا جواب یہی ہوسکتا تھا۔’’ اس لیے کہ اس وقت اس کے دماغ میں یہی خیال آیا۔‘‘ اس نے دل میں یہی جواب سوچا۔ مگر اس نے مطمئن نہ ہو کر یہ بہتر خیال کیا کہ تمام داستان من و عن بیان کردے۔ ’’اس کا جواب میری کہانی ہے۔ جو میں اب تمہیں سنانے والا ہوں۔‘‘ ’’سُنائیے؟‘‘ لڑکے اس بوڑھے آدمی کی چوری کا حال سننے کے لیے اپنی اپنی جگہ پر جم کر بیٹھ گئے۔ جو الاؤ کے سامنے اپنے سپید بالوں میں انگلیوں سے کنگھی کررہا تھا۔ اور جیسے وہ ایک بہت بڑا آدمی خیال کرتے تھے۔ بڈھا کچھ عرصے تک اپنے بالوں میں انگلیاں پھیرتا رہا۔ پھر اس بُھولے ہوئے واقعہ کے تمام منتشر ٹکڑے فراہم کرکے بولا:۔ ’’ہر شخص خواہ وہ بڑا ہو یا چھوٹا۔ اپنی زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسی حرکت ضرور کرتا ہے جس پر وہ تمام عمر نادم رہتا ہے۔ میری زندگی میں سب سے بُرا فعل ایک کتاب کی چوری ہے۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ کہہ کر وہ رک گیا۔ اس کی آنکھیں جو ہمیشہ چمکتی رہتی تھیں۔ دُھندلی پڑ گئیں۔ اس کے چہرے کی تبدیلی سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس واقعہ کو بیان کرتے ہُوئے زبردست ذہنی تکلیف کا سامنا کررہا ہے۔ چند لمحات کے توقف کے بعد وہ پھر بولا:۔ ’’ سب سے مکروہ فعل کتاب کی چوری ہے۔ یہ میں نے ایک کتب فروش کی دکان سے چُرائی۔ یہ اس زمانہ کا ذکر ہے۔ جب میں نویں جماعت میں تعلیم پاتا تھا۔ قدرتی طور پر جیسا کہ اب تمہیں کہانی سننے کا شوق ہے مجھے افسانے اور ناول پڑھنے کا شوق تھا۔۔۔۔۔۔ دوستوں سے مانگ کر یا خود خرید کر میں ہر ہفتے ایک نہ ایک کتاب ضرور پڑھا کرتا تھا۔ وہ کتابیں عموماً عشق و محبت کی بے معنی داستانیں یا فضول جاسوسی قصے ہُوا کرتے تھے۔ یہ کتابیں میں ہمیشہ چھپ چھپ کر پڑھا کرتا تھا۔ والدین کو اس بات کا علم نہ تھا۔ اگر انھیں معلوم ہوتا تو وہ مجھے ایسا ہرگز ہرگز نہ کرنے دیتے۔ اس لیے کہ اس قسم کی کتابیں اسکول کے لڑکے کے لیے بہت نقصان دہ ہوتی ہیں۔ میں ان کے مہلک نقصان سے غافل تھا۔ چنانچہ مجھے اس کا نتیجہ بھگتنا پڑا۔ میں نے چوری کی اور پکڑا گیا۔۔۔۔۔۔‘‘ ایک لڑکے نے حیرت زدہ ہو کرکہا۔’’ آپ پکڑے گئے؟‘‘ ’’ہاں پکڑا گیا۔۔۔۔۔۔ چونکہ میرے والدین اس واقعہ سے بالکل بے خبر تھے۔ یہ عادت پکتے پکتے میری طبیعت بن گئی۔گھر سے جتنے پیسے ملتے ہیں انھیں جوڑ جوڑ کر بازار سے افسانوں کی کتابیں خریدنے میں صرف کردیتا۔ اسکول کی پڑھائی سے رفتہ رفتہ مجھے نفرت ہونے لگی۔ ہر وقت میرے دل میں یہی خیال سمایا رہتا کہ فلاں کتاب جو فلاں ناول نویس نے لکھی ہے ضرور پڑھنی چاہیے۔ یا فلاں کتب فروش کے پاس نئی ناولوں کا جو ذخیرہ موجود ہے۔ ایک نظر ضرور دیکھنا چاہیے۔ شوق کی یہ انتہا دوسرے معنوں میں دیوانگی ہے۔ اس حالت میں انسان کو معلوم نہیں ہوتا۔ کہ وہ کیا کرنے والا ہے۔ یا کیا کررہا ہے۔ اس وقت وہ بے عقل بچے کے مانند ہوتا ہے جو اپنی طبیعت خوش کرنے یا شوق پورا کرنے کے لیے جلتی ہوئی آگ میں بھی ہاتھ ڈال دیتا ہے۔ اسے یہ پتہ نہیں ہوتا کہ چمکنے والی شے جسے وہ پکڑ رہا ہے اس کا ہاتھ جلا دے گی۔ ٹھیک یہی حالت میری تھی۔ فرق اتنا ہے کہ بچہ شعور سے محروم ہوتا ہے۔ اس لیے وہ بغیر سمجھے بُوجھے بُری سے بُری حرکت کربیٹھتا ہے مگر میں نے عقل کا مالک ہوتے ہُوئے چوری ایسے مکروہ جُرم کا ارتکاب کیا۔۔۔۔۔۔ یہ آنکھوں کی موجودگی میں میرے اندھے ہونے کی دلیل ہے۔میں ہرگز ایسا کام نہ کرتا۔ اگر میری عادت مجھے مجبور نہ کرتی۔ ہر انسان کے دماغ میں شیطان موجود ہوتا ہے۔ جو وقتاً فوقتاً اسے بُرے کاموں پر مجبور کرتا ہے۔ یہ شیطان مجھ پر اس وقت غالب آیا جبکہ سوچنے کے لیے میرے پاس بہت کم وقت تھا۔۔۔خیر‘‘ لڑکے خاموشی سے بوڑھے کے ہلتے ہوئے لبوں کی طرف نگاہیں گاڑے ان کی داستان سن رہے تھے۔ داستان کا تسلسل اس وقت ٹوٹتا دیکھ کر جب کہ اصل مقصد بیان کیا جانے والا تھا۔ وہ بڑی بے قراری سے بقایا تفصیل کا انتظار کرنے لگے۔ ’’مسعود بیٹا! یہ سامنے والا دروازہ تو بند کردینا۔۔۔۔۔۔ سرد ہوا آرہی ہے۔‘‘بوڑھے نے اپنا کمبل گھٹنوں پرڈال لیا۔ مسعود،’’ اچھا بابا جی۔‘‘ کہہ کر اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرنے کے بعد اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ ’’ ہاں تو ایک دن جبکہ والد گھر سے باہر تھے۔‘‘ بوڑھے نے اپنی داستان کا بقایا حصہ شروع کیا۔’’ مجھے بھی کوئی خاص کام نہ تھا۔ اور وہ کتاب جو میں ان دنوں پڑھ رہا تھا ختم ہونے کے قریب تھی۔ اس لیے میرے جی میںآئی کہ چلو اس کتب فروش تک ہو آئیں۔ جس کے پاس بہت سی جاسوسی ناولیں پڑی تھیں۔ میری جیب میں اس وقت اتنے پیسے موجود تھے۔ جو ایک معمولی ناول کے دام ادا کرنے کے لیے کافی ہوں۔ چنانچہ میں گھر سے سیدھا اس کتب فروش کی دکان پر گیا۔۔۔۔۔۔یوں تو اس دکان پر ہر وقت بہت سی اچھی اچھی ناولیں موجود رہتی تھیں۔مگر اس دن خاص طور پر بالکل نئی کتابوں کا ایک ڈھیر باہر تختے پر رکھا تھا۔ ان کتابوں کے رنگ برنگ سرِورق دیکھ کر میری طبیعت میں ایک ہیجان سا برپا ہوگیا۔ دل میں اس خواہش نے گدگدی کی کہ وہ تمام میری ہو جائیں۔ میں دکاندار سے اجازت لے کر ان کتابوں کو ایک نظر دیکھنے میں مشغول ہوگیا۔ ہر کتاب کے شوخ رنگ سرورق پر اس قسم کی کوئی نہ کوئی عبارت لکھی ہُوئی تھی۔ ’’ ناممکن ہے کہ اس کا مطالعہ آپ پر سنسنی طاری نہ کردے۔‘‘ ’’مصور اسرار کا لاثانی شاہکار۔‘‘ ’’تمثیل!ہیجان!!رومان!!!۔۔۔۔۔۔ سب یکجا۔‘‘ اس قسم کی عبارتیں شوق بڑھانے کے لیے کافی تھیں۔ مگر میں نے کوئی خاص توجہ نہ دی۔ اس لیے کہ میری نظروں سے اکثر ایسے الفاظ گزر چکے تھے۔ میں تھوڑا عرصہ کتابوں کو الٹ پلٹ کردیکھتا رہا۔ اس وقت میرے دل میں چوری کرنے کا خیال مطلقاً نہ تھا۔ بلکہ میں نے خریدنے کے لیے ایک کم قیمت کی ناول چن کر الگ بھی رکھ لی تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد دل میں یہ ارادہ کرکے میں دوسرے ہفتے ان ناولوں کو دوبارہ دیکھنے آؤں گا۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنی چُنی ہُوئی کتاب اُٹھائی۔۔۔۔۔۔ کتاب کا اٹھانا تھا کہ میری نگاہیں ایک مجلد ناول پر گڑ گئیں۔ سرِ ورق کے کونے پر میرے محبوب ناولسٹ کا نام سُرخ لفظوں میں چھپا تھا۔ اس کے ذرا اوپر کتاب کا نام تھا۔ ’’منتقم شعاعیں۔۔۔۔۔۔ کس طرح ایک دیوانے ڈاکٹر نے لندن کو تباہ کرنے کا ارادہ کیا۔‘‘ یہ سطور پڑھتے ہی میرے اشتیاق میں طغیانی سی آگئی۔۔۔۔۔۔ کتاب کا مصنف وہی تھا۔ جس نے اس سے پیشتر مجھ پر راتوں کی نیند حرام کر رکھی تھی۔ ناول کو دیکھتے ہی میرے دماغ میں خیالات کا ایک گروہ داخل ہوگیا۔ ’’منتقم شعاعیں۔۔۔۔۔۔ دیوانے ڈاکٹرکی ایجاد۔۔۔۔۔۔ کیسا دلچسپ افسانہ ہوگا!‘‘ ’’لندن تباہ کرنے کا ارادہ۔۔۔۔۔۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے؟‘‘ ’’ اس مصنف نے فلاں فلاں کتابیں کتنی سنسنی خیز لکھی ہیں!‘‘ ’’ یہ کتاب ضرور ان سب سے بہتر ہوگی!‘‘ میں خاموش اشتیاق کے ساتھ اس کتاب کی طرف دیکھ رہا تھا اور یہ خیالات یکے بعد دیگرے میرے کانوں میں شور برپا کررہے تھے۔ میں نے اس کتاب کو اُٹھایا اور کھول کر دیکھا توپہلے ورق پر یہ عبارت نظر آئی۔’’ مصنف اس کتاب کو اپنی بہترین تصنیف قرار دیتاہے۔‘‘ ’’ ان الفاظ نے میرے اشتیاق میں آگ پر ایندھن کا کام دیا۔ ایکا ایکی میرے دماغ کے خدا معلوم کس گوشے سے ایک خیال کود پڑا۔۔۔۔۔۔ وہ یہ کہ میں اس کتاب کو اپنے کوٹ میں چھپا کر لے جاؤں۔ میری آنکھیں بے اختیار کتب فروش کی طرف مڑیں۔ جو کاغذ پر کچھ لکھنے میں مشغول تھا۔ دوکان کی دوسری طرف دو نوجوان کھڑے میری طرح کتابیں دیکھ رہے تھے۔۔۔۔۔۔ میں سر سے پیر تک لرز گیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بوڑھے کا نحیف جسم اس واقعہ کی یاد سے کانپا۔۔۔ تھوڑی دیر تک خاموش رہ کر اس نے پھر اپنی داستان شروع کردی۔’’ ایک لحظہ کے لیے میرے دماغ میں یہ خیال پیدا ہوا کہ چوری کرنا بہت بُرا کام ہے مگر ضمیر کی آواز سرورق پر بنی ہوئی لانبی لانبی شعاعوں میں غرق ہوگئی۔ میرا دماغ’’منتقم شعاعیں‘‘ ’’منتقم شعاعیں‘‘ کی گردان کررہا تھا۔ میں نے اِدھر اُدھر جھانکا اور جھٹ سے وہ کتاب کوٹ کے اندر بغل میں دبا لی مگر میں کانپنے لگا۔ اس حالت پر قابو پا کر میں کتب فروش کے قریب گیا۔ اور اُس کتاب کے دام ادا کردیئے۔ جو میں نے پہلے خریدی تھی۔ قیمت لیتے وقت اور روپے میں سے باقی پیسے واپس کرنے میں اس نے غیر معمولی تاخیر سے کام لیا۔ میری طرف اس نے گُھور کربھی دیکھا۔ جس سے میری طبیعت سخت پریشان ہوگئی۔ جی میں بھی آئی کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کروہاں سے بھاگ نکلوں۔ میں نے اس دوران میں کئی بار اس جگہ پر جو کتاب کی وجہ سے اُبھری ہُوئی تھی نگاہ ڈالی۔۔۔۔۔۔ اور شاید اسے چھپانے کی بے سود کوشش بھی کی۔ میری ان عجیب و غریب حرکتوں کو دیکھ کر اسے شک ضرور ہُوا۔ اسے لیے کہ وہ بار بار کچھ کہنے کی کوشش کرکے پھر خاموش ہو جاتا تھا۔ میں نے باقی پیسے جلدی سے لیے اور وہاں سے چل دیا۔ دو سو قدم کے فاصلے پر میں نے کسی کی آواز سنی۔ مڑ کر دیکھا تو کتب فروش ننگے پاؤں چلا آرہا تھا اور مجھے ٹھہرنے کے لیے کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ میں نے اندھا دھند بھاگناشروع کردیا۔ مجھے معلوم نہ تھا میں کدھر بھاگ رہاہوں۔ میرا رخ اپنے گھر کی جانب نہ تھا۔ میں شروع ہی سے اس طرف بھاگ رہا تھا جدھر بازار کا اختتام تھا۔ اس غلطی کا مجھے اس وقت احساس ہوا جب دو تین آدمیوں نے مجھے پکڑ لیا۔‘‘ بوڑھا اتنا کہہ کر اضطراب کی حالت میں اپنی خشک زبان لبوں پر پھیرنے لگا۔ کچھ توقف کے بعد وہ ایک لڑکے سے مخاطب ہوا۔ ’’مسعود! پانی کا ایک گھونٹ پلوانا۔‘‘ مسعود خاموشی سے اُٹھا۔ اورکوٹھڑی کے ایک کونے میں پڑے ہوئے گھڑے سے گلاس میں پانی انڈیل کر لے آیا۔ بوڑھے نے گلاس لیتے ہی منہ سے لگا لیا اور ایک گھونٹ میں سارا پانی پی گیا۔ اور خالی گلاس زمین پر رکھتے ہوئے کہا۔’’ ہاں میں کیا بیان کررہا تھا؟‘‘ ایک لڑکے نے جواب دیا۔’’ آپ بھاگے جارہے تھے۔‘‘ ’’میرے پیچھے کتب فروش’’ چور چور‘‘ کی آواز بلند کرتا چلا آرہا تھا جب میں نے دو تین آدمیوں کو اپنا تعاقب کرتے دیکھا تو میرے ہوش ٹھکانے نہ رہے۔ جیل کی آہنی سلاخیں، پولیس اور عدالت کی تصویریں ایک ایک کرکے میری آنکھوں کے سامنے آگئیں۔ بے عزتی کے خیال سے میری پیشانی عرق آلود ہوگئی۔ میں لڑکھڑایا اور گِر پڑا۔ اُٹھنا چاہا تو ٹانگوں نے جواب دے دیا۔ اس وقت میرے دماغ کی عجیب حالت تھی۔ ایک تُند دھواں سا میرے سینے میں کروٹیں لے رہا تھا۔ آنکھیں فرطِ خوف سے اُبل رہی تھیں۔ اورکانوں میں ایک زبردست شور برپا تھا۔ جیسے بہت سے لوگ آہنی چادریں ہتھوڑوں سے کوٹ رہے ہیں۔ میں ابھی اُٹھ کر بھاگنے کی کوشش ہی کررہا تھا کہ کتب فروش اور اسکے ساتھیوں نے مجھے پکڑ لیا۔ اس وقت میری کیا حالت تھی۔ اس کا بیان کرنا بہت دشوار ہے۔ سینکڑوں خیالات پتھروں کی طرح میرے دماغ سے ٹکرا ٹکرا کر مختلف آوازیں پیدا کررہے تھے۔ جب انھوں نے مجھے پکڑا تو ایسا معلوم ہوا کہ آہنی پنجہ نے میرے دل کو مسل ڈالا ہے۔۔۔۔۔۔ میں بالکل خاموش تھا۔ وہ مجھے دُکان کی طرف کشاں کشاں لے گئے۔ جیل خانے کی کوٹھڑی اور عدالت کا منہ دیکھنا یقین تھا۔ اس خیال پر میرے ضمیر نے لعنت ملامت شروع کردی۔ چونکہ اب جوہونا تھا ہو چکا تھا۔ اور میرے پاس اپنے ضمیر کو جواب دینے کے لیے کوئی الفاظ موجود نہ تھے۔ اس لیے میری گرم آنکھوں میں آنسو اُتر آئے اور میں نے بے اختیار رونا شروع کردیا۔‘‘ یہ کہتے ہوئے بوڑھے کی دُھندلی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ ’’کتب فروش نے مجھے پولیس کے حوالے نہ کیا۔ اپنی کتاب لے لی اور نصیحت کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔‘‘ بوڑھے نے اپنے آنسو کُھردرے کمبل سے خشک کیے۔۔۔۔۔۔’’ خدا اُس کو جزائے خیر دے۔ میں عدالت کے دروازے سے تو بچ گیا۔مگر اس واقعہ کی والد اور اسکول کے لڑکوں کو خبر ہوگئی۔ والد مجھ پر سخت خفا ہُوئے لیکن انھوں نے بھی اخیر میں مجھے معاف کردیا۔ دو تین روز مجھے اس ندامت کے باعث بخار آتا رہا اس کے بعد جب میں نے دیکھا میرا دل کسی کروٹ آرام نہیں لیتا اور مجھ میں اتنی قوت نہیں کہ میں لوگوں کے سامنے اپنی نگاہیں اٹھا سکوں۔ تو میں شہر چھوڑ کروہاں سے ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا۔اس وقت سے لیکر اب تک میں نے مختلف شہروں کی خاک چھانی ہے۔ ہزاروں مصائب برداشت کیے ہیں۔ صرف اس کتاب کی چوری کی وجہ سے جومجھے تا دمِ مرگ نادم و شرمسار رکھے گی۔ اس آوارہ گردی کے دوران میں، میں نے اور بھی بہت سی چوریاں کیں۔ ڈاکے ڈالے اور ہمیشہ پکڑا گیا۔ مگر اُن پر نادم نہیں ہُوں۔۔۔۔۔۔ مجھے فخر ہے۔‘‘ بوڑھے کی دُھندلی آنکھوں میں پھر پہلی سی چمک نمودار ہوگئی۔ اور اس نے الاؤ کے شعلوں کو ٹکٹکی باندھ کردیکھنا شروع کردیا۔’’ ہاں مجھے فخر ہے۔‘‘ یہ لفظ اس نے تھوڑے توقف کے بعد دوبارہ کہے۔ الاؤمیں آگ کا ایک شعلہ بُلند ہوا۔۔۔۔۔۔ اور ایک لمحہ فضا میں تھرتھرا کر وہیں سو گیا۔ بوڑھے نے شعلے کی جرأت دیکھی اور مسکرا دیا۔ پھر لڑکوں سے مخاطب ہوکر کہنے لگا۔’’ کہانی ختم ہوگئی اب تم جاؤ۔ تمہارے ماں باپ انتظار کرتے ہونگے۔‘‘ مسعود نے سوال کیا۔’’ مگر آپ کو اپنی دوسری چوریوں پر کیوں فخر ہے؟‘‘ ’’فخر کیوں ہے؟‘‘۔۔۔۔۔۔ بوڑھا مسکرا دیا۔’’ اس لیے کہ وہ چوریاں نہیں تھیں۔۔۔۔۔۔ اپنی مسروقہ چیزوں کودوبارہ حاصل کرنا چوری نہیں ہوتی میرے عزیز! بڑے ہو کرتمہیں اچھی طرح معلوم ہو جائے گا۔‘‘ ’’میں سمجھا نہیں۔‘‘ ’’ہروہ چیز جو تم سے چُرا لی گئی ہے، تمہیں حق حاصل ہے کہ اسے ہر ممکن طریقہ سے اپنے قبضہ میں لے آؤ۔ پر یاد رہے تمہاری کوشش کامیاب ہونی چاہیے۔ ورنہ ایسا کرتے ہوئے پکڑے جانا اور اذیتیں اُٹھانا عبث ہے۔‘‘ لڑکے اٹھے اور بابا جی کو شب بخیر کہتے ہوئے کوٹھڑی کے دروازہ سے باہر چلے گئے۔ بوڑھے کی نگاہیں ان کو تاریکی میں گم ہوتے دیکھتی رہیں۔ تھوڑی دیر اسی طرح دیکھنے کے بعد وہ اٹھا اور کوٹھڑی کا دروازہ بند کرتے ہوئے بولا:۔ ’’ کاش کہ یہ بڑے ہو کر اپنی کھوئی ہُوئی چیز واپس لے سکیں۔‘‘ بوڑھے کو خدا معلوم ان لڑکوں سے کیا امید تھی؟‘‘[/size]

Amna Tuesday, July 28, 2015 01:24 PM

3.Sadhe Teen Anne
 
[size="5"]
’’ میں نے قتل کیوں کیا۔ ایک انسان کے خون میں اپنے ہاتھ کیوں رنگے، یہ ایک لمبی داستان ہے ۔ جب تک میں اس کے تمام عواقب و عواطف سے آپ کو آگاہ نہیں کروں گا، آپ کو کچھ پتہ نہیں چلے گا۔۔۔۔۔۔ مگر اس وقت آپ لوگوں کی گفتگو کا موضوع جرم اور سزا ہے۔ انسان اور جیل ہے۔۔۔۔۔۔ چونکہ میں جیل میں رہ چکا ہوں، اس لیے میری رائے نادرست نہیں ہوسکتی۔ مجھے منٹو صاحب سے پورا اتفاق ہے کہ جیل، مجرم کی اصلاح نہیں کرسکتی۔ مگر یہ حقیقت اتنی بار دہرائی جا چکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کسی محفل میں ہزار بار سنایا ہوا لطیفہ بیان کررہا ہے۔۔۔۔۔۔ اور یہ لطیفہ نہیں کہ اس حقیقت کو جانتے پہچانتے ہوئے بھی ہزار ہا جیل خانے موجود ہیں۔ ہتھکڑیاں ہیں اور وہ ننگِ انسانیت بیڑیاں۔۔۔۔۔۔ میں قانون کا یہ زور پہن چکا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر رضوی نے میری طرف دیکھا اور مسکرایا۔ اس کے موٹے موٹے حبشیوں کے سے ہونٹ عجیب انداز میں پھڑکے۔’’ اس کی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھیں، جو قاتل کی آنکھیں لگی تھیں چمکیں۔ ہم سب چونک پڑے تھے۔ جب اس نے یکا یک ہماری گفتگو میں حصہ لینا شروع کردیا تھا۔ وہ ہمارے قریب کرسی پر بیٹھا کریم ملی ہوئی کوفی پی رہا تھا۔ جب اس نے خود کو متعارف کرایا تو ہمیں وہ تمام واقعات یاد آگئے جو اس کی قتل کی واردات سے وابستہ تھے۔ وعدہ معاف گواہ بن کر اس نے بڑی صفائی سے اپنی اور اپنے دوستوں کی گردن پھانسی کے پھندے سے بچا لی تھی۔ وہ اسی دن رہا ہوکر آیا تھا۔ بڑے شائستہ انداز میں وہ مجھ سے مخاطب ہوا۔’’ معاف کیجیے گا منٹو صاحب۔۔۔۔۔۔ آپ لوگوں کی گفتگو سے مجھے دلچسپی ہے۔ میں ادیب تو نہیں، لیکن آپ کی گفتگو کا جو موضوع ہے اس پر اپنی ٹوٹی پھوٹی زبان میں کچھ نہ کچھ ضرور کہہ سکتا ہوں۔پھر اس نے کہا۔’’ میرا نام صدیق رضوی ہے۔۔۔۔۔۔ لنڈا بازار میں جو قتل ہوا تھا، میں اس سے متعلق تھا۔‘‘ میں نے اس قتل کے متعلق صرف سرسری طور پر پڑھا تھا۔ لیکن جب رضوی نے اپنا تعارف کرایا تو میرے ذہن میں خبروں کی تمام سرخیاں ابھر آئیں۔ ہماری گفتگو کا موضوع یہ تھا کہ آیا جیل مجرم کی اصلاح کرسکتی ہے۔ میں خود محسوس کررہا تھا۔ ہم ایک باسی روٹی کھا رہے ہیں۔ رضوی نے جب یہ کہا۔’’ یہ حقیقت اتنی بار دہرائی جا چکی ہے کہ اس پر زور دینے سے آدمی کو یوں محسوس ہوتا ہے۔ جیسے وہ کسی محفل میں ہزار بار سنایا ہوا لطیفہ بیان کررہا ہے۔’’ تو مجھے بڑی تسکین ہوئی۔ میں نے یہ سمجھا جیسے رضوی نے میرے خیالات کی ترجمانی کردی ہے۔ کریم ملی ہوئی کوفی کی پیالی ختم کرکے رضوی نے اپنی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھوں سے مجھے دیکھا اور بڑی سنجیدگی سے کہا۔منٹو صاحب آدمی جرم کیوں کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ جرم کیا ہے، سزا کیا ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے متعلق بہت غور کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہر جرم کے پیچھے ایک ہسٹری ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ زندگی کے واقعات کا ایک بہت بڑا ٹکرا ہوتا ہے، بہت اچھا ہوا، ٹیڑھا میڑھا۔۔۔۔۔۔ میں نفسیات کا ماہر نہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ انسان سے خود جرم سرزد نہیں ہوتا۔ حالات سے ہوتا ہے!‘‘ نصیر نے کہا۔’’ آپ نے بالکل درست کہا ہے۔‘‘ رضوی نے ایک اور کافی کا آرڈر دیا اور نصیر سے کہا۔’’ مجھے معلوم نہیں جناب، لیکن میں نے جو کچھ عرض کیا ہے اپنے مشاہدات کی بنا پر عرض کیا ہے ورنہ یہ موضوع بہت پرانا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وکٹر ہیوگو۔۔۔۔۔۔ فرانس کا ایک مشہور ناولسٹ تھا۔۔۔۔۔۔ شاید کسی اور ملک کا ہو۔۔۔۔۔۔ آپ تو خیر جانتے ہی ہوں گے، جرم اور سزا پر اس نے کافی لکھا ہے۔۔۔۔۔۔ مجھے اس کی ایک تصنیف کے چند فقرے یاد ہیں۔‘‘ یہ کہہ کروہ مجھ سے مخاطب ہوا۔’’ منٹو صاحب، غالباً آپ ہی کا ترجمہ تھا۔۔۔۔۔۔کیا تھا؟۔۔۔۔۔۔ وہ سیڑھی اتار دو جو انسان کوجرائم اور مصائب کی طرف لے جاتی ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن میں سوچتا کہ وہ سیڑھی کون سی ہے۔ اس کے کتنے زینے ہیں۔ کچھ بھی ہو، یہ سیڑھی ضرور ہے، اس کے زینے بھی ہیں، لیکن جہاں تک میں سمجھتا ہوں ، بے شمار ہیں، ان کو گننا، ان کا شمار کرنا ہی سب سے بڑی بات ہے’’ منٹو صاحب، حکومتیں رائے شماری کرتی ہیں، حکومتیں اعداد و شمار کرتی ہیں، حکومتیں ہر قسم کی شماری کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اس سیڑھی کے زینوں کی شماری کیوں نہیں کرتیں۔۔۔۔۔۔ کیا یہ ان کا فرض نہیں۔۔۔۔۔۔ میں نے قتل کیا۔۔۔۔۔۔ لیکن اس سیڑھی کے کتنے زینے طے کرکے کیا۔۔۔۔۔۔ حکومت نے مجھے وعدہ معاف گواہ بنا لیا، اس لیے کہ قتل کا ثبوت اس کے پاس نہیں تھا، لیکن سوال یہ ہے کہ میں اپنے گناہ کی معافی کس سے مانگوں۔۔۔۔۔۔ وہ حالات جنہوں نے مجھے قتل کرنے پر مجبور کیا تھا۔ اب میرے نزدیک نہیں ہیں، ان میں اور مجھ میں ایک برس کا فاصلہ ہے۔ میں اس فاصلے سے معافی مانگوں یا ان حالات سے جو بہت دور کھڑے میرا منہ چڑا رہے ہیں۔‘‘ ہم سب رضوی کی باتیں بڑے غور سے سن رہے تھے۔ وہ بظاہر تعلیم یافتہ معلوم نہیں ہوتا تھا، لیکن اس کی گفتگو سے ثابت ہوا کہ وہ پڑھا لکھا ہے اور بات کرنے کا سلیقہ جانتا ہے۔ میں نے اس سے کچھ کہا ہوتا، لیکن میں چاہتا تھا کہ وہ باتیں کرتا جائے اور میں سنتا جاؤں۔ اسی لیے میں اس کی گفتگو میں حائل نہ ہوا۔ اس کے لیے نئی کوفی آگئی تھی۔ اسے بنا کر اس نے چند گھونٹ پیے اور کہنا شروع کیا۔’’ خدا معلوم میں کیا بکواس کرتا رہا ہوں، لیکن میرے ذہن میں ہر وقت ایک آدمی کا خیال رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اس آدمی کا، اس بھنگی کا جو ہمارے ساتھ جیل میں تھا۔ اس کو ساڑھے تین آنے چوری کرنے پر ایک برس کی سزا ہوئی تھی۔‘‘ نصیر نے حیرت سے پوچھا۔ صرف ساڑھے تین آنے چوری کرنے پر؟‘‘ رضوی نے یخ آلود جواب دیا۔’’ جی ہاں۔۔۔۔۔۔ صرف ساڑھے تین آنے کی چوری پر۔۔۔۔۔۔ اور جو اسکو نصیب نہ ہوئے، کیونکہ وہ پکڑا گیا۔۔۔۔۔۔ یہ رقم خزانے میں محفوظ ہے اور پھگو بھنگی غیر محفوظ ہے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے وہ پھر پکڑا جائے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے اس کا پیٹ پھر اسے مجبور کرے، کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اس سے گُو مُوت صاف کرانے والے اس کی تنخواہ نہ دے سکیں، کیونکہ ہو سکتا ہے اس کو تنخواہ دینے والوں کو اپنی تنخواہ نہ ملے۔۔۔۔۔۔ یہ ہو سکتا ہے کا سلسلہ منٹو صاحب عجیب وغریب ہے۔ سچ پوچھئے تو دنیا میں سب کچھ ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔رضوی سے قتل بھی ہوسکتا ہے۔‘‘ یہ کہہ کروہ تھوڑے عرصے کے لیے خاموش ہوگیا۔ نصیر نے اس سے کہا۔ ’’ آپ پھگو بھنگی کی بات کررہے تھے۔؟‘‘ رضوی نے اپنی چھدری مونچھوں پرسے کوفی رومال کے ساتھ پونچھی۔’’ جی ہاں۔۔۔۔۔۔ پھگو بھنگی چور ہونے کے باوجود، یعنی وہ قانون کی نظروں میں چور تھا۔ لیکن ہماری نظروں میں پورا ایماندار۔۔۔۔۔۔ خدا کی قسم میں نے آج تک اس جیسا ایماندار آدمی نہیں دیکھا، ساڑھے تین آنے اس نے ضرور چرائے تھے، اس نے صاف صاف عدالت میں کہہ دیا تھا کہ یہ چوری میں نے ضرور کی ہے، میں اپنے حق میں کوئی گواہی پیش نہیں کرنا چاہتا۔۔۔۔۔۔ میں دو دن کا بھوکا تھا، مجبوراً مجھے کریم درزی کی جیب میں ہاتھ ڈالنا پڑا۔ اس سے مجھے پانچ روپے لینے تھے۔۔۔۔۔۔ دو مہینوں کی تنخواہ۔۔۔۔۔۔ حضور اس کا بھی کچھ قصور نہیں تھا۔ اس لیے کہ اس کے کئی گاہکوں نے اس کی سلائی کے پیسے مارے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ حضور، میں پہلے بھی چوریاں کر چکا ہوں۔ ایک دفعہ میں نے دس روپے ایک میم صاحب کے بٹوے سے نکال لیے تھے۔ مجھے ایک مہینے کی سزا ہوئی تھی۔ پھر میں نے ڈپٹی صاحب کے گھر سے چاندی کا ایک کھلونا چرایا تھا اس لیے کہ میرے بچے کو نمونیا تھا اور ڈاکٹر بہت فیس مانگتا تھا۔۔۔۔۔۔ حضور میں آپ سے جھوٹ نہیں کہتا۔ میں چور نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ کچھ حالات ہی ایسے تھے کہ مجھے چوریاں کرنی پڑیں۔۔۔۔۔۔ اور حالات ہی ایسے تھے کہ میں پکڑا گیا۔۔۔۔۔۔ مجھ سے بڑے بڑے چور موجود ہیں لیکن وہ ابھی تک پکڑے نہیں گئے۔۔۔۔۔۔ حضور، اب میرا بچہ بھی نہیں ہے، بیوی بھی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن حضور افسوس ہے کہ میرا پیٹ ہے، یہ مر جائے تو سارا جھنجھٹ ہی ختم ہو جائے، حضور مجھے معاف کردو۔۔۔۔۔۔ لیکن حضور نے اس کو معاف نہ کیا اور عادی چور سمجھ کر اس کو ایک برس قید بامشقت کی سزا دے دی۔‘‘ رضوی بڑے بے تکلف انداز میں بول رہا تھا۔ اس میں کوئی تصنع، کوئی بناوٹ نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ الفاظ خود بخود اس کی زبان پر آتے اور بہتے چلتے جارہے ہیں۔ میں بالکل خاموش تھا۔ سگریٹ پہ سگریٹ پی رہا تھا اور اس کی باتیں سن رہا تھا۔ نصیر پھر اس سے مخاطب ہوا۔’’ آپ پھگو کی ایمانداری کی بات کررہے تھے؟‘‘ ’’جی ہاں۔‘‘ رضوی نے جیب سے بیٹری نکال کر سلگائی۔’’ میں نہیں جانتا قانون کی نگاہوں میں ایمانداری کیا چیز ہے، لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میں نے بڑی ایمانداری سے قتل کیا تھا۔۔۔۔۔۔ اور میرا خیال ہے کہ پھگو بھنگی نے بھی بڑی ایمانداری سے ساڑھے تین آنے چرائے تھے۔۔۔۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ لوگ ایماندار کو صرف اچھی باتوں سے کیوں منسوب کرتے ہیں، اور سچ پوچھیے تو میں اب یہ سوچنے لگا ہوں کہ اچھائی اور برائی ہے کیا۔ ایک چیز آپ کے لیے اچھی ہو سکتی ہے، میرے لیے بری۔ ایک سوسائٹی میں ایک چیز اچھی سمجھی جاتی ہے، دوسری میں بری۔۔۔۔۔۔ ہمارے مسلمانوں میں بغلوں کے بال بڑھانا گناہ سمجھا جاتا ہے، لیکن سکھ اس سے بے نیاز ہیں۔ اگریہ بال بڑھانا واقعی گناہ ہے تو خدا ان کو سزا کیوں نہیں دیتا اگر کوئی خدا ہے تو میری اس سے درخواست ہے کہ خدا کے لیے تم یہ انسانوں کے قوانین توڑ دو، ان کی بنائی ہوئی جیلیں ڈھا دو۔۔۔۔۔۔ اور آسمانوں پر اپنی جیلیں خود بناؤ۔ خود اپنی عدالت میں ان کو سزا دو، کیونکہ اور کچھ نہیں تو کم از کم خدا تو ہو۔‘‘ رضوی کی اس تقریر نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس کی خامکاری ہی اصل میں تاثر کا باعث بھی۔ وہ باتیں کرتا تھا تو یوں لگتا ہے جیسے وہ ہم سے نہیں بلکہ اپنے آپ سے دل ہی دل میں گفتگو کررہا ہے۔ اس کی بیڑی بجھ گئی تھی، غالباً اس میں تمباکو کی گانٹھ اٹکی ہوئی تھی۔ اس لیے کہ اس نے پانچ چھ مرتبہ اس کو سلگانے کی کوشش کی۔ جب نہ سلگی تو پھینک دی اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔’’ منٹو صاحب، پھگو مجھے اپنی تمام زندگی یاد رہے گا۔۔۔۔۔۔ آپ کو بتاؤں گا تو آپ ضرورکہیں گے کہ جذباتیت ہے، لیکن خدا کی قسم جذباتیت کو اس میں کوئی دخل نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ میرا دوست نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ نہیں وہ میرا دوست تھا کیونکہ اس نے ہر بار خود کو ایسا ہی ثابت کیا۔‘‘ رضوی نے جیب میں سے دوسری بیڑی نکالی مگر وہ ٹوٹی ہوئی تھی۔ میں نے اسے سگریٹ پیش کیا تو اس نے قبول کرلیا۔’’ شکریہ۔۔۔۔۔۔ منٹو صاحب، معاف کیجیے گا، میں نے اتنی بکواس کی ہے حالانکہ مجھے نہیں کرنی چاہیے تھی اس لیے کہ ماشاء اللہ آپ۔۔۔۔۔۔‘‘ میں نے اس کی بات کاٹی۔’’ رضوی صاحب، میں اس وقت منٹو نہیں ہوں صرف سعادت حسن ہوں۔ آپ اپنی گفتگو جاری رکھئے۔ میں بڑی دلچسپی سے سن رہا ہوں۔‘‘ رضوی مسکرایا۔ اس کی چھوٹی چھوٹی مخمور آنکھوں میں چمک پیدا ہوئی۔ آپ کی بڑی نوازش ہے۔ پھر وہ نصیرسے مخاطب ہوا۔’’ میں کیا کہہ رہا تھا۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔’’ آپ پھگو کی ایمانداری کے متعلق کچھ کہنا چاہتے تھے۔‘‘ ’’جی ہاں‘‘ یہ کہہ کراس نے میرا پیش کیا ہوا سگریٹ سلگایا۔’’منٹو صاحب، قانون کی نظروں میں وہ عادی چور تھا۔ بیڑیوں کے لیے ایک دفعہ اس نے آٹھ آنے چرائے تھے۔ بڑی مشکلوں سے، دیوار پھاند کر جب اس نے بھاگنے کی کوشش کی تھی تو اس کے ٹخنے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ قریب قریب ایک برس تک وہ اس کا علاج کراتا رہا تھا، مگر جب میرا ہم الزام دوست جرجی بیس بیڑیاں اسکی معرفت بھیجتا تو وہ سب کی سب پولیس کی نظریں بچا کر میرے حوالے کردیتا۔ وعدہ معاف گوا ہوں پر بہت کڑی نگرانی ہوتی ہے، لیکن جرجی نے پھگو کو اپنا دوست اور ہمراز بنا لیا تھا۔ وہ بھنگی تھا، لیکن اس کی فطرت بہت خوشبودار تھا۔ شروع شروع میں جب وہ برجی کی بیڑیاں لے کر میری پاس آیا تو میں نے سوچا، اس حرامزادے چور نے ضرور ان میں سے کچھ غائب کرلی ہوں گی، مگر بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ وہ قطعی طور پر ایماندار تھا۔۔۔۔۔۔ بیڑی کے لیے اس نے آٹھ آنے چراتے ہوئے اپنے ٹخنے کی ہڈی تڑوا لی تھی مگر یہاں جیل میں اس کو تمباکو کہیں سے بھی نہیں مل سکتا تھا، وہ جرجی کی دی ہوئی بیڑیاں تمام و کمال میرے حوالے کردیتا تھا، جیسے وہ امانت ہوں۔۔۔۔۔۔ پھر وہ کچھ دیر ہچکچانے کے بعد مجھ سے کہتا، بابو جی، ایک بیڑی تو دیجیے اور میں اس کو صرف ایک بیڑی دیتا۔۔۔۔۔۔ انسان بھی کتنا کمینہ ہے!‘‘ رضوی نے کچھ اس انداز سے اپنا سر جھٹکا جیسے وہ اپنے آپ سے متنفر ہے۔’’ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں مجھ پر بہت کڑی پابندیاں عائد تھیں۔ وعدہ معاف گواہوں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جرجی البتہ میرے مقابلے میں بہت آزاد تھا۔ اس کو رشوت دے دلا کر بہت آسانیاں مہیا تھیں۔ کپڑے مل جاتے تھے۔ صابن مل جاتا تھا۔ بیڑیاں مل جاتی تھیں۔ جیل کے اندر رشوت دینے کے لیے روپے بھی مل جاتے تھے۔۔۔۔۔۔پھگو بھنگی کی سزا ختم ہونے میں صرف چند دن باقی رہ گئے تھے، جب اس نے آخری بار جرجی کی دی ہوئی بیڑیاں مجھے لا کر دیں۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ وہ جیل سے نکلنے پر خوش نہیں تھا۔میں نے جب اس کو مبارکباد دی تو اس نے کہا۔’’بابو جی، میں پھر یہاں آجاؤں گا۔۔۔۔۔۔ بھوکے انسان کو چوری کرنی ہی پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔ بالکل ایسے ہی جیسے ایک بھوکے انسان کو کھانا کھاناہی پڑتا ہے۔۔۔۔۔۔ بابو جی آپ بڑے اچھے ہیں، مجھے اتنی بیڑیاں دیتے رہے۔۔۔۔۔۔ خدا کرے آپ کے سارے دوست بری ہو جائیں۔ جرجی بابو آپ کو بہت چاہتے ہیں۔‘‘ نصیر نے یہ سن کر غالباً اپنے آپ سے کہا۔’’ اور اس کو صرف ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں سزا ملی تھی۔‘‘ رضوی نے گرم کافی کا ایک گھونٹ پی کر ٹھنڈے انداز میں کہا۔’’ جی ہاں صرف ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں۔۔۔۔۔۔ اور وہ بھی خزانے میں جمع ہیں۔۔۔۔۔۔ خدا معلوم ان سے کس پیٹ کی آگ بجھے گی!‘‘ رضوی نے کافی کا ایک اور گھونٹ پیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہا۔’’ ہاں منٹو صاحب، اس کی رہائی میں صرف ایک دن رہ گیا تھا۔مجھے دس روپوں کی اشد ضرورت تھی۔۔۔ میں تفصیل میں نہیں جانا چاہتا۔ مجھے یہ روپے ایک سلسلے میں سنتری کو رشوت کے طور پر دینے تھے۔ میں نے بڑی مشکلوں سے کاغذ پنسل مہیا کرکے جرجی کو ایک خط لکھا تھا اور پھگو کے ذریعہ سے اس تک بھجوایا تھا کہ وہ مجھے کسی نہ کسی طرح دس روپے بھیج دے۔ پھگو ان پڑھ تھا۔ شام کو وہ مجھ سے ملا۔ جرجی کا رقعہ اس نے مجھے دیا۔ اس میں دس روپے کا سرخ پاکستانی نوٹ قید تھا۔میں نے رقعہ پڑھا۔ یہ لکھا تھا۔ رضوی پیارے دس روپے بھیج تو رہا ہوں، مگر ایک عادی چور کے ہاتھ، خدا کرے تمہیں مل جائیں۔ کیونکہ یہ کل ہی جیل سے رہا ہو کر جارہاہے۔‘‘ میں نے یہ تحریر پڑھی تو پھگو بھنگی کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ اس کو ساڑھے تین آنے چرانے کے جرم میں ایک برس کی سزا ہوئی تھی۔ میں سوچنے لگااگر اس نے دس روپے چرائے ہوتے تو ساڑھے تین آنے فی برس کے حساب سے اس کو کیا سزا ملتی؟‘‘ یہ کہہ کررضوی نے کافی کا آخری گھونٹ پیا اور رخصت مانگے بغیر کافی ہاؤس سے باہر چلا گیا۔ء[/size]

Amna Tuesday, July 28, 2015 01:29 PM

4.Naya Qanun
 
[size="5"]
منگو کوچوان اپنے اڈے میں بہت عقلمند آدمی سمجھا جاتا تھا۔ گو اس کی تعلیمی حیثیت صفر کے برابر تھی اور اس نے کبھی اسکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا لیکن اس کے باوجود اسے دنیا بھر کی چیزوں کا علم تھا۔ اڈے کے وہ تمام کوچوان جن کو یہ جاننے کی خواہش ہوتی تھی کہ دنیا کے اندر کیا ہو رہا ہے استاد منگو کی وسیع معلومات سے اچھی طرح واقف تھے۔ پچھلے دنوں جب استاد منگو نے اپنی ایک سواری سے سپین میں جنگ چھڑ جانے کی افواہ سنی تھی۔ تو اس نے گاما چودھری کے چوڑے کاندھے پر تھپکی دے کر مدبرانہ انداز میں پیش گوئی کی تھی ’’دیکھ لینا گاما چودھری، تھوڑے ہی دنوں میں اسپین کے اندر جنگ چھڑ جائے گی۔‘‘ جب گاما چودھری نے اس سے یہ پوچھا تھا۔ کہ اسپین کہاں واقع ہے تو استاد منگو نے بڑی متانت سے جواب دیا تھا۔ ولایت میں اور کہاں‘‘؟ اسپین کی جنگ چھڑی۔ اور جب ہر شخص کو پتہ چل گیا۔ تو اسٹیشن کے اڈے میں جتنے کوچوان حُقہ پی رہے تھے۔ دل ہی دل میں استاد منگو کی بڑائی کا اعتراف کر رہے تھے۔ اور استاد منگو اس وقت مال روڈ کی چمکیلی سطح پر تانگہ چلاتے ہوئے کسی سواری سے تازہ ہندو مسلم فساد پر تبادلہ خیال کر رہا تھا۔ اس روز شام کے قریب جب وہ اڈے میں آیا تو اس کا چہرہ غیر معمولی طور پر تمتمایا ہوا تھا۔ حُقے کا دور چلتے چلتے جب ہندومسلم فساد کی بات چھڑی تو استاد منگو نے سر پر سے خاکی پگڑی اتاری۔ اور بغل میں داب کر بڑے مفکرانہ لہجے میں کہا:۔ ’’یہ کسی پیر کی بددُعا کا نتیجہ ہے کہ آئے دن ہندوؤں اور مسلمانوں میں چاقو، چُھریاں چلتی رہتی ہیں۔ اور میں نے اپنے بڑوں سے سُنا ہے کہ اکبر بادشاہ نے کسی درویش کا دل دکھایا تھا۔ اور اس درویش نے جل کر یہ بددُعا دی تھی۔ جا، تیرے ہندوستان میں ہمیشہ فساد ہی ہوتے رہیں گے۔ اور دیکھ لو جب سے اکبر بادشاہ کا راج ختم ہوا ہے ہندوستان میں فساد پر فساد ہوتے رہتے ہیں‘‘۔ یہ کہہ کر اس نے ٹھنڈی سانس بھری۔ اور پھر حقّے کا دم لگا کر اپنی بات شروع کی۔ ’’یہ کانگرسی ہندوستان کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں اگر یہ لوگ ہزار سال بھی سر پٹکتے رہیں۔ تو کچھ نہ ہو گا۔ بڑی سے بڑی بات یہ ہو گی کہ انگریز چلا جائے گا اور کوئی اٹلی والا آجائے گا۔ یا وہ روس والا جس کی بابت میں نے سنا ہے کہ بہت تگڑا آدمی ہے۔ لیکن ہندوستان سدا غلام رہے گا۔ ہاں میں یہ کہنا بھول ہی گیا۔ کہ پیر نے یہ بددُعا بھی دی تھی کہ ہندوستان پر ہمیشہ باہر کے آدمی راج کرتے رہیں گے۔‘‘ استاد منگو کو انگریزوں سے بڑی نفرت تھی۔ اور اس نفرت کا سبب تو وہ یہ بتلایا کرتا تھا کہ وہ ہندوستان پر اپنا سکہ چلاتے ہیں۔ اور طرح طرح کے ظلم ڈھاتے ہیں۔ مگر اس کے تنّفر کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چھاؤنی کے گورے اسے بہت ستایا کرتے تھے۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے تھے۔ گویا وہ ایک ذلیل کُتا ہے۔ اس کے علاوہ اسے ان کا رنگ بھی بالکل پسند نہ تھا۔ جب کبھی وہ گورے کے سُرخ وسپید چہرے کو دیکھتا۔ تو اُسے متلی آ جاتی۔ نہ معلوم کیوں۔ وہ کہا کرتا تھا کہ ان کے لال جھریوں بھرے چہرے دیکھ کر مجھے وہ لاش یاد آ جاتی ہے جس کے جسم پر سے اوپر کی جھلّی گل گل کر جھڑ رہی ہو! جب کسی شرابی گورے سے اس کا جھگڑا ہو جاتا۔ تو سارا دن اس کی طبیعت مکّدر رہتی۔ اور وہ شام کو اڈے میں آکر ہل مارکہ سگرٹ پیتے یا حُقے کے کش لگاتے ہوئے اس’’ گورے‘‘ کو جی بھر کر سنایا کرتا۔ ’’......... ‘‘ یہ موٹی گالی دینے کے بعد وہ اپنے سر کو ڈھیلی پگڑی سمیت جھٹکا دے کر کہا کرتا تھا ’’آگ لینے آئے تھے۔ اب گھر کے مالک ہی بن گئے ہیں۔ ناک میں دم کر رکھا ہے ان بندروں کی اولاد نے۔ یوں رعب گانٹھتے ہیں۔ گویا ہم ان کے باوا کے نوکر ہیں..... ۔‘‘ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا تھا۔ جب تک اس کا کوئی ساتھی اس کے پاس بیٹھا رہتا وہ اپنے سینے کی آگ اُگلتا رہتا۔ ’’شکل دیکھتے ہو نا تم اس کی........ جیسے کوڑھ ہو رہا ہے........ بالکل مُردار، ایک دھپّے کی مار اور گٹ پٹ یوں بک رہا تھا۔ جیسے مار ہی ڈالے گا۔تیری جان کی قسم ، پہلے پہل جی میں آئی۔ کہ ملعون کی کھوپڑی کے پُرزے اڑا دوں لیکن اس خیال سے ٹل گیا کہ اس مردود کو مارنا اپنی ہتک ہے‘‘......... یہ کہتے کہتے وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہو جاتا۔ اور ناک کو خاکی قمیض سے صاف کرنے کے بعد پھر بڑبڑانے لگ جاتا۔ ’’قسم ہے بھگوان کی ان لاٹ صاحبوں کے ناز اٹھاتے اٹھاتے تنگ آگیا ہوں۔ جب کبھی ان کا منحوس چہرہ دیکھتا ہوں۔ رگوں میں خون کھولنے لگ جاتا ہے۔ کوئی نیا قانون وانون بنے۔ تو ان لوگوں سے نجات ملے۔ تیری قسم جان میں جان آ جائے‘‘۔ اور جب ایک روز استاد منگو نے کچہری سے اپنے تانگے پر دو سواریاں لادیں۔ اور ان کی گفتگو سے اسے پتہ چلا کہ ہندوستان میں جدید آئین کا نفاذ ہونے والا ہے تو اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ دو مار واڑی جو کچہری میں اپنے دیوانی مقدمے کے سلسلے میں آئے تھے گھر جاتے ہوئے جدید آئین یعنی انڈیا ایکٹ کے متعلق آپس میں بات چیت کر رہے تھے۔ سُنا ہے کہ پہلی اپریل سے ہندوستان میں نیا قانون چلے گا......... کیا ہر چیز بدل جائے گی؟‘‘ ’’ہر چیز تو نہیں بدلے گی۔ مگر کہتے ہیں کہ بہت کچھ بدل جائے گا اور ہندوستانیوں کو آزادی مل جائے گی؟‘‘ ’’کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہو گا؟‘‘ ’’یہ پوچھنے کی بات ہے کل کسی وکیل سے دریافت کریں گے۔ ان مار واڑیوں کی بات چیت استاد منگو کے دل میں ناقابلِ بیان خوشی پیدا کر رہی تھی۔ وہ اپنے گھوڑے کو ہمیشہ گالیاں دیتا تھا۔ اور چابک سے بہت بُری طرح پیٹا کرتا تھا۔ مگر اس روز وہ بار بار پیچھے مڑ کر مارداڑیوں کی طرف دیکھتا۔ اور اپنی بڑھی ہوئی مونچھوں کے بال ایک انگلی سے بڑی صفائی کے ساتھ اونچے کرکے گھوڑے کی پیٹھ پر باگیں ڈھیلی کرتے ہوئے بڑے پیار سے کہتا چل بیٹا....... ذرا ہوا سے باتیں کرکے دکھا دے‘‘۔ مارواڑیوں کو ان کے ٹھکانے پہنچا کر اس نے انارکلی میں دینو حلوائی کی دکان پر آدھ سیر دہی کی لسّی پی کر ایک بڑی ڈکار لی۔اور مونچھوں کو منہ میں دبا کر ان کو چُوستے ہوئے ایسے ہی بلند آواز میں کہا۔’’ہمت تیری ایسی تیسی۔‘‘ شام کو جب وہ اڈے کو لوٹا۔ تو خلافِ معمول اسے وہاں اپنی جان پہچان کا کوئی آدمی نہ مل سکا۔ یہ دیکھ کر اس کے سینے میں ایک عجیب و غریب طوفان برپا ہو گیا۔ آج وہ ایک بڑی خبر اپنے دوستوں کو سنانے والا تھا.......... بہت بڑی خبر، اور اس خبر کو اپنے اندر سے نکالنے کے لیے وہ سخت مجبور ہو رہا تھا لیکن وہاں کوئی تھا ہی نہیں۔ آدھ گھنٹے تک وہ چابک بغل میں دبائے اسٹیشن کے اڈے کی آہنی چھت کے نیچے بیقراری کی حالت میں ٹہلتا رہا۔ اس کے دماغ میں بڑے اچھے اچھے خیالات آ رہے تھے۔ نئے قانون کے نفاذ کی خبر نے اس کو ایک نئی دنیا میں لاکر کھڑا کر دیا تھا۔ وہ اس نئے قانون کے متعلق جو پہلی اپریل کو ہندوستان میں نافذ ہونے والا تھا۔ اپنے دماغ کی تمام بتیاں روشن کرکے غورو فکر کر رہا تھا۔ اس کے کانوں میں مارواڑی کا یہ اندیشہ کیا بیاج کے متعلق بھی کوئی نیا قانون پاس ہو گا‘‘؟ بار بار گونج رہا تھا۔ اور اس کے تمام جسم میں مسّرت کی ایک لہر دوڑا رہا تھا۔ کئی بار اپنی گھنی مونچھوں کے اندر ہنس کر اس نے مارواڑیوں کو گالی دی‘‘۔.... غریبوں کی کُھٹیا میں گُھسے ہوئے کھٹمل..... نیا قانون ان کے لیے کھولتا ہوا پانی ہو گا۔‘‘ وہ بے حد مسرور تھا، خاص کر اس وقت اس کے دل کو بہت ٹھنڈک پہنچتی جب وہ خیال کرتا کہ گوروں....... سفید چوہوں (وہ ان کو اسی نام سے یاد کیا کرتا تھا) کی تھوتھنیاں نئے قانون کے آتے ہی بِلّوں میں ہمیشہ کے لیے غائب ہو جائیں گی۔ جب نتھو گنجا، پگڑی بغل میں دبائے، اڈے میں داخل ہوا۔ تو استاد منگو بڑھ کر اُس سے ملا اور اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بلند آواز سے کہنے لگا‘‘۔ لا ہاتھ ادھر............ ایسی خبر سناؤں کہ جی خوش ہو جائے؟......... تیری اس گنجی کھوپری پر بال اُگ آئیں۔‘‘ اور یہ کہہ کر منگو نے بڑے....... مزے لے لے کر نئے قانون کے متعلق اپنے دوست سے باتیں شروع کر دیں۔ دورانِ گفتگو میں اس نے کئی مرتبہ نتھو گنجے کے ہاتھ پر زور سے اپنا ہاتھ مار کر کہا‘‘۔ تو دیکھتا رہ، کیا بنتا ہے، یہ روس والا بادشاہ کچھ نہ کچھ ضرور کرکے رہے گا۔ استاد منگو موجودہ سوویت نظام کی اشتراکی سرگرمیوں کے متعلق بہت کچھ سُن چکا تھا۔ اور اسے وہاں کے نئے قانون اور دوسری نئی چیزیں بہت پسند تھیں۔ اسی لیے اس نے روس والے بادشاہ ’’کو انڈیا ایکٹ‘‘ یعنی جدید آئین کے ساتھ ملا دیا۔ اور پہلی اپریل کو پرانے نظام میں جو نئی تبدیلیاں ہونے والی تھیں۔ وہ اُنھیں ’’روس والے بادشاہ‘‘ کے اثر کا نتیجہ سمجھتا تھا۔ کچھ عرصے سے پشاور اور دیگر شہروں میں سُرخ پوشوں کی تحریک جا رہی تھی۔ منگو نے اس تحریک کو اپنے دماغ میں ’’روس والے بادشاہ‘‘ اور پھر نئے قانون کے ساتھ خلط ملط کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ جب کبھی وہ کسی سے سنتا۔ کہ فلاں شہر میں بم ساز پکڑے گئے ہیں۔ یا فلاں جگہ اتنے آدمیوں پر بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا ہے۔ تو ان تمام واقعات کو نئے قانون کا پیش خیمہ سمجھتا۔ اور دل ہی دل میں خوش ہوتا۔ ایک روز اس کے تانگے میں دو بیرسٹر بیٹھے نئے آئین پر بڑے زور سے تبادلہ خیال کر رہے تھے۔ اور وہ خاموشی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ ان میں سے ایک دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ ’’جدید آئین کا دوسرا حصّہ فیڈریشن ہے جو میری سمجھ میں ابھی تک نہیں آسکا۔ فیڈریشن دنیا کی تاریخ میں آج تک نہ سُنی نہ دیکھی گئی۔ سیاسی نظریہ سے بھی یہ فیڈریشن بالکل غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ کوئی فیڈریشن ہے ہی نہیں!‘‘ ان بیرسٹروں کے درمیان جو گفتگو ہوئی اس میں بیشتر الفاظ انگریزی کے تھے۔ اس لیے استاد منگو صرف اُوپر کے جملے ہی کو کسی قدر سمجھا اور اُس نے کہا۔ ’’یہ لوگ ہندوستان میں نئے قانون کی آمد کو بُرا سمجھتے ہیں۔ اور نہیں چاہتے کہ ان کا وطن آزاد ہو۔‘‘ چنانچہ اس خیال کے زیر اثر اس نے کئی مرتبہ ان دو بیرسٹروں کو حقارت کی نگاہوں سے دیکھ کر کہا۔ ’’ٹو ڈی بچے!‘‘ جب کبھی وہ کسی کو دبی زبان میں ’’ٹوڈی بچہ‘‘ کہتا تو دل میں یہ محسوس کرکے بڑا خوش ہوتا کہ اس نے اس نام کو صحیح جگہ استعمال کیا ہے اور یہ کہ وہ شریف آدمی اور ’’ٹوڈی بچے‘‘ کی تمیز کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ اس واقعے کے تیسرے روز وہ گورنمنٹ کالج کے تین طلبا کو اپنے تانگے میں بٹھا کر مزنگ جا رہا تھا کہ اس نے ان تین لڑکوں کو آپس میں یہ باتیں کرتے سنا:۔ ’’نئے آئین نے میری امیدیں بڑھا دی ہیں اگر......... صاحب اسمبلی کے ممبر ہو گئے۔ تو کسی سرکاری دفتر میں ملازمت ضرور مل جائے گی۔‘‘ ’’ویسے بھی بہت سی جگہیں اور نکلیں گی۔ شاید اسی گڑبڑ میں ہمارے ہاتھ بھی کچھ آ جائے۔‘‘ ’’ہاں ہاں کیوں نہیں۔‘‘ ’’وہ بے کار گریجویٹ جو مارے مارے پھر رہے ہیں۔ ان میں کچھ تو کمی ہو گی۔‘‘ اس گفتگو نے استاد منگو کے دل میں جدید آئین کی اہمیت اور بھی بڑھا دی۔ وہ اس کو ایسی چیز ’’سمجھنے لگا جو بہت چمکتی ہو‘‘۔ نیا قانون........ ‘‘! وہ دن میں کئی بار سوچتا یعنی کوئی نئی چیز!‘‘اور ہر بار اس کی نظروں کے سامنے اپنے گھوڑے کا وہ ساز آ جاتا۔ جو اس نے دو برس ہوئے چودھری خدا بخش سے اچھی طرح ٹھونک بجا کر خریدا تھا۔ اس ساز پر جب وہ نیا تھا۔ جگہ جگہ لوہے کی نِکل کی ہوئی کیلیں چمکتی تھیں اور جہاں جہاں پیتل کا کام تھا وہ تو سونے کی طرح دمکتا تھا۔ اس لحاظ سے بھی ’’نئے قانون‘‘ کا درخشاں و تاباں ہونا ضروری تھا۔ پہلی اپریل تک استاد منگو نے جدید آئین کے خلاف اور اس کے حق میں بہت کچھ سنا۔ مگر اس کے متعلق جو تصور وہ اپنے ذہن میں قائم کر چکا تھا۔ بدل نہ سکا۔ وہ سمجھتا تھا کہ پہلی اپریل کو نئے قانون کے آتے ہی سب معاملہ صاف ہو جائے گا۔ اور اس کو یقین تھا کہ اس کی آمد پر جو چیزیں نظر آئیں گی ان سے اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچے گی۔ آخر کار مارچ کے اکتیس دن ختم ہو گئے اور اپریل کے شروع ہونے میں رات کے چند خاموش گھنٹے باقی رہ گئے ۔ موسم خلافِ معمول سرد تھا۔ اور ہوا میں تازگی تھی۔ پہلی اپریل کو صبح سویرے استاد منگو اُٹھا اور اصطبل میں جاکر گھوڑے کو جوتا اور باہر نکل گیا۔ اس کی طبیعت آج غیر معمولی طور پر مسرور تھی...... وہ نئے قانون کو دیکھنے والا تھا۔ اس نے صبح کے سرد دُھندلکے میں کئی تنگ اور کُھلے بازاروں کا چکر لگایا۔ مگر اسے ہر چیز پرانی نظر آئی۔ آسمان کی طرح پرانی۔ اس کی نگاہیں آج خاص طور پر نیا رنگ دیکھنا چاہتی تھیں۔ مگر سوائے اس کلغی کے جو رنگ برنگ کے پروں سے بنی تھی۔ اور اس کے گھوڑے کے سر پر جمی ہوئی تھی۔ اور سب چیزیں پرانی نظر آتی تھیں۔ یہ نئی کلغی اس نے نئے قانون کی خوشی میں یکم مارچ کو چودھری خدا بخش سے ساڑھے چودہ آنہ میں خریدی تھی۔ گھوڑے کی ٹاپوں کی آواز، کالی سڑک اور اس کے آس پاس تھوڑا تھوڑا فاصلہ چھوڑ کر لگائے ہوئے بجلی کے کھمبے، دکانوں کے بورڈ، اس کے گھوڑے کے گلے میں پڑے ہوئے گھنگھرو کی جھنجھناہٹ، بازار میں چلتے پھرتے آدمی....... ان میں سے کون سی چیز نئی تھی؟ ظاہر ہے کہ کوئی بھی نہیں لیکن اُستاد منگو مایوس نہیں تھا۔ ’’ابھی بہت سویرا ہے دکانیں بھی تو سب کی سب بند ہیں‘‘۔ اس خیال سے اُسے تسکین تھی۔ اس کے علاوہ وہ یہ بھی سوچتا تھا۔ ’’ہائی کورٹ میں نو بجے کے بعد ہی کام شروع ہوتا ہے۔ اب اس سے پہلے نئے قانون کا کیا نظر آئے گا؟‘‘ جب اس کا تانگہ گورنمنٹ کالج کے دروازے کے قریب پہنچا۔ تو کالج کے گھڑیال نے بڑی رعونت سے نو بجائے۔ جو طلبا کالج کے بڑے دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ خوش پوش تھے۔ مگر استاد منگو کو نہ جانے ان کے کپڑے مَیلے مَیلے سے کیوں نظر آئے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی، کہ اس کی نگاہیں آج کسی خیرہ کن جلوے کا نظارہ کرنے والی تھیں۔ تانگے کو دائیں ہاتھ موڑ کر وہ تھوڑی دیر کے بعد پھر انار کلی میں تھا۔ بازار کی آدھی دکانیں کھل چکی تھیں۔اور اب لوگوں کی آمدورفت بھی بڑھ گئی تھی۔ حلوائی کی دکانوں پر گاہکوں کی خوب بھیڑ تھی۔ منہاری والوں کی نمائشی چیزیں شیشے کی الماریوں میں لوگوں کو دعوتِ نظارہ دے رہی تھیں۔ اور بجلی کے تاروں پر کئی کبوتر آپس میں لڑ جھگڑ رہے تھے۔ مگر استاد منگو کے لیے ان تمام چیزوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی....... وہ نئے قانون کو دیکھنا چاہتا تھا۔ ٹھیک اسی طرح جس طرح وہ اپنے گھوڑے کو دیکھ رہا تھا۔ جب اُستاد منگو کے گھر میں بچہ پیدا ہونے والا تھا۔ تو اس نے چار پانچ مہینے بڑی بے قراری سے گزارے تھے۔ اس کو یقین تھا کہ بچہ کسی نہ کسی دن ضرور پیدا ہو گا مگر وہ نتظار کی گھڑیاں نہیں کاٹ سکتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اپنے بچے کو صرف ایک نظر دیکھ لے۔ اس کے بعد وہ پیدا ہوتا رہے۔ چنانچہ اسی غیر مغلوب خواہش کے زیرِ اثر اس نے کئی بار اپنی بیمار بیوی کے پیٹ کو دبا دبا کر اور اس کے اوپر کان رکھ کر اپنے بچے کے متعلق کچھ جاننا چاہا تھا مگر ناکام رہا تھا۔ ایک مرتبہ وہ انتظار کرتے کرتے اس قدر تنگ آگیا تھا کہ اپنی بیوی پر برس پڑا تھا: ’’تو ہر وقت مُردے کی طرح پڑی رہتی ہے۔ اُٹھ ذرا چل پھر، تیرے انگ میں تھوڑی سی طاقت تو آئے۔ یوں تختہ بنے رہنے سے کچھ نہ ہو سکے گا۔تو سمجھتی ہے کہ اس طرح لیٹے لیٹے بچّہ جن دے گی؟‘‘ اُستاد منگو طبعاً بہت جلد باز واقع ہوا تھا۔ وہ ہر سبب کی عملی تشکیل دیکھنے کا خواہش مند تھا بلکہ متجسّس تھا۔ اس کی بیوی گنگاوئی اس کی اس قسم کی بے قراریوں کو دیکھ کر عام طور پر یہ کہا کرتی تھی۔ ’’ابھی کنواں کھودا نہیں گیا اور پیاس سے نڈھال ہو رہے ہو۔‘‘ کچھ بھی ہو مگر اُستاد منگو نئے قانون کے انتظار میں اتنا بیقرار نہیں تھا۔ جتنا کہ اسے اپنی طبیعت کے لحاظ سے ہونا چاہیے تھا۔ وہ نئے قانون کو دیکھنے کے لیے گھر سے نکلا تھا، ٹھیک اسی طرح جیسے وہ گاندھی یا جواہر لال کے جلوس کا نظارہ کرنے کے لیے نکلا کرتا تھا۔ لیڈروں کی عظمت کا اندازہ اُستاد منگو ہمیشہ ان کے جلوس کے ہنگاموں اور اُن کے گلے میں ڈالے ہوئے پھولوں کے ہاروں سے کیا کرتا تھا اگر کوئی لیڈر گیندے کے پھولوں سے لدا ہوتو استاد منگو کے نزدیک، وہ بڑا آدمی تھا۔ اور اگر کسی لیڈر کے جلوس میں بھیڑ کے باعث دو تین فساد ہوتے ہوتے رہ جائیں۔ تو اس کی نگاہوں میں وہ اور بھی بڑا تھا۔ اب نئے قانون کو وہ اپنے ذہن کے اسی ترازو میں تولنا چاہتا تھا۔ انار کلی سے نکل کر وہ مال روڈ کی چمکیلی سطح پر اپنے تانگے کو آہستہ آہستہ چلا رہا تھا کہ موٹروں کی دکان کے پاس اسے چھاؤنی کی ایک سواری مل گئی۔ کرایہ طے کرنے کے بعد اس نے اپنے گھوڑے کو چابک دکھایا۔ اور دل میں خیال کیا:۔ ’’چلو یہ بھی اچھا ہوا....... شاید چھاؤنی ہی سے نئے قانون کا کچھ پتہ چل جائے۔‘‘ چھاؤنی پہنچ کر استاد منگو نے سواری کو اس کی منزل مقصود پر اتاردیا۔اور جیب سے سگریٹ نکال کر بائیں ہاتھ کی آخری دو انگلیوں میں دبا کر سلگایا۔ اور پچھلی نشست کے گدّے پر بیٹھ گیا........ جب اُستاد منگو کو کسی سواری کی تلاش نہیں ہوتی تھی۔ یا اُسے کسی بیتے ہوئے واقعے پر غور کرنا ہوتا تھا۔ تو وہ عام طور پر اگلی نشست چھوڑ کر پچھلی نشست پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اپنے گھوڑے کی باگیں دائیں ہاتھ کے گرد لپیٹ لیا کرتا تھا۔ ایسے موقعوں پر اس کا گھوڑا تھوڑا سا ہنہنانے کے بعد بڑی دھیمی چال چلنا شروع کر دیتا تھا۔ گویا اسے کچھ دیر کے لیے بھاگ دوڑ سے چھٹی مل گئی ہے۔ گھوڑے کی چال اور استاد منگو کے دماغ میں خیالات کی آمد بہت سُست تھی۔ جس طرح گھوڑا آہستہ آہستہ قدم اُٹھا رہا تھا۔ اسی طرح استاد منگو کے ذہن میں نئے قانون کے متعلق نئے قیاسات داخل ہو رہے تھے۔ وہ نئے قانون کی موجودگی میں میونسپل کمیٹی سے تانگوں کے نمبر ملنے کے طریقے پر غور کر رہا تھا۔ وہ اس قابلِ غور بات کو آئینِ جدید کی روشنی میں دیکھنے کی سعی کر رہا تھا۔ وہ اس سوچ بچار میں غرق تھا۔ اُسے یوں معلوم ہوا جیسے کسی سواری نے اُسے بُلایا ہے۔ پیچھے پلٹ کر دیکھنے سے اسے سڑک کے اس طرف دُور بجلی کے کھمبے کے پاس ایک ’’گورا‘‘ کھڑا نظر آیا۔ جو اُسے ہاتھ سے بُلا رہا تھا۔ جیسا کہ بیان کی جا چکا ہے۔ استاد منگو کو گوروں سے بیحد نفرت تھی۔ جب اُس نے اپنے تازہ گاہک کو گورے کی شکل میں دیکھا۔ تو اس کے دل میں نفرت کے جذبات بیدار ہو گئے۔ پہلے تو اس کے جی میں آئی کہ بالکل توجہ نہ دے اور اس کو چھوڑ کر چلا جائے مگر بعد میں اس کو خیال آیا۔ ان کے پیسے چھوڑنا بھی بیوقوفی ہے۔ کلغی پر جو مفت میں ساڑھے چودہ آنے خرچ دئیے ہیں۔ ان کی جیب ہی سے وصول کرنے چاہئیں۔ چلو چلتے ہیں۔‘‘ خالی سڑک پر بڑی صفائی سے ٹانگہ موڑ کر اس نے گھوڑے کو چابک دکھایا اور آنکھ جھپکنے میں وہ بجلی کے کھمبے کے پاس تھا۔ گھوڑے کی باگیں کھینچ کر اس نے تانگہ ٹھہرایا اور پچھلی نشست پر بیٹھے بیٹھے گورے سے پوچھا، ’’صاحب بہادر کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘ اس سوال میں بلا کا طنزیہ انداز تھا، صاحب بہادر کہتے وقت اس کا اوپر کا مونچھوں بھرا ہونٹ نیچے کی طرف کھچ گیا۔ اور پاس ہی گال کے اس طرف جو مدھم سی لکیر ناک کے نتھنے سے ٹھوڑی کے بالائی حصے تک چلی آ رہی تھی، ایک لرزش کے ساتھ گہری ہو گئی، گویا کسی نے نوکیلے چاقو سے شیشم کی سانولی لکڑی میں دھاری ڈال دی ہے۔ اس کا سارا چہرہ ہنس رہا تھا، اور اپنے اندر اس نے اس ’’گورے‘‘ کو سینے کی آگ میں جلا کر بھسم کر ڈالا تھا۔ جب ’’گورے ‘‘ نے جو بجلی کے کھمبے کی اوٹ میں ہوا کا رُخ بچا کر سگرٹ سُلگا رہا تھا مڑ کر تانگے کے پائدان کی طرف قدم بڑھایا تو اچانک استاد منگو کی اور اس کی نگاہیں چار ہوئیں۔ اور ایسا معلوم ہوا کہ بیک وقت آمنے سامنے کی بندوقوں سے گولیاں خارج ہوئیں۔ اور آپس میں ٹکرا کر ایک آتشیں بگولا بن کر اوپر کو اڑ گئیں۔ استاد منگو جو اپنے دائیں ہاتھ سے باگ کے بل کھول کر تانگے پر سے نیچے اُترنے والا تھا۔ اپنے سامنے کھڑے ’’گورے‘‘ کو یوں دیکھ رہا تھا گویا وہ اس کے وجود کے ذرّے ذرّے کو اپنی نگاہوں سے چبا رہا ہے۔ اور گورا کچھ اس طرح اپنی نیلی پتلون پر سے غیر مرئی چیزیں جھاڑ رہا ہے، گویا وہ استاد منگو کے اس حملے سے اپنے وجود کے کچھ حصے کو محفوظ رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ گورے نے سگریٹ کا دُھواں نگلتے ہوئے کہا ’’جانا مانگٹا یا پھر گڑبڑ کرے گا؟‘‘ ’’وہی ہے‘‘۔ یہ لفظ استاد منگو کے ذہن میں پیدا ہوئے۔ اور اس کی چوڑی چھاتی کے اندر ناچنے لگے۔ ’’وہی ہے۔‘‘ اس نے یہ لفظ اپنے منہ کے اندر ہی اندر دُہرائے اور ساتھ ہی اسے پورا یقین ہو گیا۔ کہ وہ گورا جو اس کے سامنے کھڑا تھا۔ وہی ہے جس سے پچھلے برس اس کی جھڑپ ہوئی تھی، اور اس خواہ مخواہ کے جھگڑے میں جس کا باعث گورے کے دماغ میں چڑھی ہوئی شراب تھی۔ اسے طوہاً ’’کرہاً‘‘ بہت سی باتیں سہنا پڑی تھیں۔استاد منگو نے گورے کا دماغ درست کر دیا ہوتا۔ بلکہ اس کے پُرزے اُڑا دئیے ہوتے، مگر وہ کسی خاص مصلحت کی بنا پر خاموش ہو گیا تھا۔ اس کو معلوم تھا کہ اس قسم کے جھگڑوں میں عدالت کا نزلہ عام طور کوچوانوں ہی پر گرتا ہے۔ استاد منگو نے پچھلے برس کی لڑائی اور پہلی اپریل کے نئے قانون پر غور کرتے ہوئے گورے سے کہا۔ ’’کہاں جانا مانگٹا ہے؟‘‘ استاد منگو کے لہجے میں چابک ایسی تیزی تھی۔ گورے نے جواب دیا۔’’ہیرا منڈی‘‘۔ ’’کرایہ پانچ روپے ہو گا۔ استاد منگو کی مونچھیں تھرتھرائیں۔ یہ سن کر گورا حیران ہو گیا۔ وہ چلاّیا۔ پانچ روپے۔ کیا تم...... ؟‘‘ ’’ہاں، ہاں، پانچ روپے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے استاد منگو کا داہنا بالوں بھرا ہاتھ بھنج کر ایک وزنی گھونسے کی شکل اختیار کر گیا۔ ’’کیوں جاتے ہو یا بیکار باتیں بناؤ گے؟‘‘ استاد منگو کا لہجہ زیادہ سخت ہو گیا۔ گورا پچھلے برس کے واقعے کو پیش نظر رکھ کر استاد منگو کے سینے کی چوڑائی نظر انداز کر چکا تھا۔ وہ خیال کر رہا تھا کہ اس کی کھوپڑی پھر کھجلا رہی ہے۔ اس حوصلہ افزا خیال کے زیر اثر وہ تانگے کی طرف اکڑ کر بڑھا اور اپنی چھڑی سے استاد منگو کو تانگے پر سے نیچے اُترنے کا اشارہ کیا۔ بید کی یہ پالش کی ہوئی پتلی چھڑی استاد منگو کی موٹی ران کے ساتھ دو تین مرتبہ چھوئی۔ اس نے کھڑے کھڑے اوپر سے پست قد گورے کو دیکھا گویا وہ اپنی نگاہوں کے وزن ہی سے اسے پیس ڈالنا چاہتا ہے۔ پھر اس کا گھونسہ کمان میں سے تیر کی طرح سے اُوپر کو اُٹھا اور چشمِ زدن میں گورے کی ٹھڈی کے نیچے جم گیا۔ دھکا دے کر اس نے گورے کو پرے ہٹایا۔ اور نیچے اتر کر اسے دھڑا دھڑ پیٹنا شروع کر دیا۔ ششدر و متحیر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر استاد منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی۔ اور جب دیکھا کہ اس کے مخالف پر دیوانگی کی سی حالت طاری ہے۔ اور اس کی آنکھوں میں سے شرارے برس رہے ہیں۔ تو اس نے زور زور سے چلانا شروع کیا۔ اس کی چیخ پکار نے استاد منگو کی بانہوں کا کام اور بھی تیز کر دیا۔ وہ گورے کو جی بھر کے پیٹ رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ یہ کہتا جاتا تھا:۔ ’’پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں ......... پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑ فوں.......... ‘‘ ’’ہے بچہ؟‘‘لوگ جمع ہو گئے۔ اور پولیس کے دو سپاہیوں نے بڑی مشکل سے گورے کو استاد منگو کی گرفت سے چھڑایا۔ استاد منگو ان دو سپاہیوں کے درمیان کھڑا تھا اس کی چوڑی چھاتی پھولی سانس کی وجہ سے اوپر نیچے ہو رہی تھی۔ منہ سے جھاگ بہہ رہا تھا۔ اور اپنی مسکراتی ہوئی آنکھوں سے حیرت زدہ مجمع کی طرف دیکھ کر وہ ہانپتی ہوئی آواز میں کہہ رہا تھا۔‘‘ ’’وہ دن گزر گئے۔ جب خلیل خاں فاختہ اُڑایا کرتے تھے........ اب نیا قانون ہے میاں........ نیا قانون!‘‘ اور بیچارا گورا اپنے بگڑے ہوئے چہرے کے ساتھ بے وقوفوں کے مانند کبھی استاد منگو کی طرف دیکھتا تھا اور کبھی ہجوم کی طرف۔ استاد منگو کو پولیس کے سپاہی تھانے میں لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر کمرے میں وہ ’’نیا قانون نیا قانون‘‘ چلاّتا رہا۔ مگر کسی نے ایک نہ سُنی۔ ’’نیا قانون، نیا قانون۔ کیا بک رہے ہو........ قانون وہی ہے پرانا!‘‘ اور اس کو حوالات میں بند کر دیا گیا![/size]

Amna Tuesday, July 28, 2015 01:36 PM

5.Nara
 
[size="5"]اُسے یوں محسوس ہوا کہ اس سنگین عمارت کی ساتوں منزلیں اُس کے کاندھوں پر دھر دی گئی ہیں۔ وہ ساتویں منزل سے ایک ایک سیڑھی کرکے نیچے اُترا اور تمام منزلوں کا بوجھ اُس کے چوڑے مگر دُبلے کاندھے پر سوار ہوتا گیا۔ جب وہ مکان کے مالک سے ملنے کے لیے اوپر چڑھ رہا تھا۔ تو اُسے محسوس ہوا تھا کہ اُس کا کچھ بوجھ ہلکا ہو گیا ہے اور کچھ ہلکا ہو جائے گا۔ اس لیے کہ اس نے اپنے دل میں سوچا تھا۔ مالک مکان جسے سب سیٹھ کے نام سے پُکارتے ہیں اس کی بپتا ضرور سنے گا۔ اور کرایہ چکانے کے لیے اُسے ایک مہینے کی اور مہلت بخش دے گا..... بخش دے گا!...... یہ سوچتے ہوئے اُس کے غرور کو ٹھیس لگی تھی لیکن فوراً ہی اس کو اصلیت بھی معلوم ہو گئی تھی.... وہ بھیک مانگنے ہی تو جا رہا تھا۔ اور بھیک ہاتھ پھیلا کر، آنکھوں میں آنسو بھر کے، اپنے دُکھ درد سُنا کر اور اپنے گھاؤ دکھا کر ہی مانگی جاتی ہے......! اُس نے یہی کچھ کیا۔ جب وہ اس سنگین عمارت کے بڑے دروازے میں داخل ہونے لگا۔ تو اُس نے اپنے غرور کو، اُس چیز کو جو بھیک مانگنے میں عام طور پر رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔ نکال کر فٹ پاتھ پر ڈال دیا تھا۔ وہ اپنا دیا بُجھا کر اور اپنے آپ کو اندھیرے میں لپیٹ کر مالک مکان کے اس روشن کمرے میں داخل ہوا۔ جہاں وہ اپنی دو بلڈنگوں کا کرایہ وصول کیا کرتا تھا۔ اور ہاتھ جوڑ کر ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ سیٹھ کے تلک لگے ماتھے پر کئی سلوٹیں پڑ گئیں۔ اُس کا بالوں بھرا ہاتھ ایک موٹی سی کاپی کی طرف بڑھا۔ دو بڑی بڑی آنکھوں نے اس کاپی پر کچھ حروف پڑھے اور ایک بھدّی سی آواز گونجی۔ ’’کیشو لال..... کھولی پانچویں، دوسرا مالا....... دو مہینوں کا کرایہ........ لے آئے ہو کیا؟‘‘ یہ سُن کر اس نے اپنا دل جس کے سارے پرانے اور نئے گھاؤ وہ سیڑھیاں چڑھتے ہُوئے کرید کرید کر گہرے کر چکا تھا۔ سیٹھ کو دکھانا چاہا۔ اُسے پورا پورا یقین تھا کہ اسے دیکھ کر اس کے دل میں ضرور ہمدردی پیدا ہو جائے گی۔ پر...... سیٹھ جی نے کچھ سننا نہ چاہا۔ اور اس کے سینے میں ایک ہلڑ سا مچ گیا۔ سیٹھ کے دل میں ہمدردی پیدا کرنے کے لیے اُس نے اپنے وہ تمام دُکھ جو بیت چکے تھے۔ گزرے دنوں کی گہری کھائی سے نکال کر اپنے دل میں بھر لیے تھے اور ان تمام زخموں کی جلن جو مُدّت ہُوئی مِٹ چکے تھے۔ اُس نے بڑی مشکل سے اکٹھی اپنی چھاتی میں جمع کی تھی۔ اب اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اتنی چیزوں کو کیسے سنبھالے؟ اُس کے گھر میں بن بلائے مہمان آ گئے ہوتے وہ ان سے بڑے روکھے پن کے ساتھ کہہ سکتا تھا۔ جاؤ بھئی میرے پاس اتنی جگہ نہیں ہے کہ تمہیں بٹھا سکوں اور نہ میرے پاس روپیہ ہے کہ تم سب کی خاطر مدارات کر سکوں۔ لیکن یہاں تو قصّہ ہی دوسرا تھا۔ اُس نے تو اپنے بھولے بھٹکے دُکھوں کو ادھر اُدھر سے پکڑ کر اپنے آپ سینے میں جمع کیا تھا۔ اب بھلا وہ باہر نکل سکتے تھے؟ افراتفری میں اُسے کچھ پتہ نہ چلا تھا۔ کہ اس کے سینے میں کتنی چیزیں بھر گئی ہیں۔ پر جیسے جیسے اُس نے سوچنا شروع کیا۔ وہ پہچاننے لگا کہ فلاں دُکھ فلاں وقت کا ہے اور فلاں درد اُسے فلاں وقت پر ہوا تھا۔ اور جب یہ سوچ بچار ہوئی تو حافظے نے بڑھ کر وہ دُھند ہٹا دی۔ جو ان پر لپٹی ہوئی تھی۔ اور کل کے تمام دُکھ درد آج کی تکلیفیں بن گئے اور اس نے اپنی زندگی کی باسی روٹیاں پھر انگاروں پر سینکنا شروع کر دیں۔ اُس نے سوچا، تھوڑے سے وقت میں اُس نے بہت کچھ سوچا۔ اس کے گھر کا اندھا لیمپ کئی بار بجلی کے اُس بلب سے ٹکرایا جو مالک مکان کے گنجے سر کے اوپر مسکرا رہا تھا۔ کئی بار اُس پیوندلگے کپڑے ان کھونٹیوں پر لٹک کر پھر اس کے میلے بدن سے چمٹ گئے۔ جو دیوار میں گڑی چمک رہی تھیں۔ کئی بار اُسے ان داتا بھگوان کا خیال آیا جو بہت دُور نہ جانے کہاں بیٹھا اپنے بندوں کا خیال رکھتا ہے۔ مگر اپنے سامنے سیٹھ کو کُرسی پر بیٹھا دیکھ کر جس کے قلم کی جنبش کچھ کا کچھ کر سکتی تھی۔ وہ اس بارے میں کچھ بھی نہ سوچ سکا۔ کئی بار اُس خیال آیا۔ اور وہ سوچنے لگا۔ کہ اُسے کیا خیال آیا تھا۔ مگر وہ اس کے پیچھے بھاگ دوڑ نہ کر سکا۔ وہ سخت گھبرا گیا تھا۔اُس نے آج تک اپنے سینے میں اتنی کھلبلی نہیں دیکھی تھی۔ وہ اس کھلبلی پر ابھی تعجب ہی کر رہا تھا۔ کہ مالک مکان نے غصّے میں آکر اُسے گالی دی..... گالی....... یوں سمجھیے کہ کانوں کے راستے پگھلا ہوا سیسہ شائیں شائیں کرتا اس کے دل میں اُتر گیا۔ اور اس کے سینے کے اندر جو ہلڑ مچ گیا۔ اُس کا تو کچھ ٹھکانہ ہی نہ تھا جس طرح کسی گرم گرم جلسے میں کسی شرارت سے بھگدڑ مچ جایا کرتی ہے۔ ٹھیک اسی طرح اُس کے دل میں ہلچل پیدا ہو گئی۔ اُس نے بہت جتن کیے کہ اس کے وہ دُکھ درد جو اس نے سیٹھ کو دکھانے کے لیے اکٹھے کیے تھے۔ چپ چاپ رہیں۔ پر کچھ نہ ہو سکا۔ گالی کا سیٹھ کے منہ سے نکلنا تھا کہ تمام دکھ بے چین ہو گئے۔ اور اندھا دھند ایک دوسرے سے ٹکرانے لگے۔ اب تو وہ یہ نئی تکلیف بالکل نہ سہ سکا۔ اور اس کی آنکھوں میں جو پہلے ہی تپ رہی تھیں آنسو آ گئے جس سے ان کی گرمی اور بھی بڑھ گئی اور ان سے دُھواں نکلنے لگا۔ اُس کے جی میں آئی کہ اس گالی کو جسے وہ بڑے حد تک نگل چکا تھا۔ سیٹھ کے جھُریوں پڑے چہرے پر قے کر دے مگر وہ اس خیال سے باز آگیا کہ اس کا غرور تو فُٹ پاتھ پر پڑا ہے۔ اپولوبندر پر نمک لگی مونگ پھلی بیچنے والے کا غرور...... اُس کی آنکھیں ہنس رہی تھیں۔ اور ان کے سامنے نمک لگی مونگ پھلی کے وہ تمام دانے جو اُس کے گھر میں ایک تھیلے کے اندر برکھا کے باعث گیلے ہو رہے تھے، ناچنے لگے۔ اس کی آنکھیں ہنسیں، اس کا دل بھی ہنسا، یہ سب کچھ ہُوا۔ پر وہ کڑواہت دُور نہ ہُوئی۔ جو اُس کے گلے میں سیٹھ کی گالی نے پیدا کر دی تھی۔ یہ کڑواہٹ اگر صرف زبان پر ہوتی تو وہ اسے تھوک دیتا مگر وہ تو بہت بُری طرح اس کے گلے میں اٹک گئی تھی۔ اور نکالے نہ نکلتی تھی۔ اور پھر ایک عجیب قسم کا دُکھ جو اُس گالی نے پیدا کر دیا تھا۔ اس کی گھبراہٹ کو اور بھی بڑھا رہا تھا۔ اُسے یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کی آنکھیں جو سیٹھ کے سامنے رونا فضول سمجھتی تھیں۔ اس کے سینے کے اندر اُتر کر آنسو بہا رہی ہیں۔ جہاں ہر چیز پہلے ہی سے سوگ میں تھی۔ سیٹھ نے اسے پھر گالی دی۔ اتنی ہی موٹی جتنی اُس کی چربی بھری گردن تھی۔ اور اُسے یوں لگا کہ کسی نے اُوپر سے اس پر کوڑا کرکٹ پھینک دیا ہے۔ چنانچہ اس کا ایک ہاتھ اپنے آپ چہرے کی حفاظت کے لیے بڑھا پر اس گالی کی ساری گرد اس پر پھیل چکی تھی..... اب اس نے وہاں ٹھہرنا اچھا نہ سمجھا۔ کیونکہ کیا خبر تھی...... کیا خبر تھی...... اُسے کچھ خبر نہ تھی...... وہ صرف اتنا جانتا تھا کہ ایسی حالتوں میں کسی بات کی سُدھ بُدھ نہیں رہا کرتی۔ وہ جب نیچے اترا تو اُسے ایسا محسوس ہوا کہ اس سنگین عمارت کی ساتوں منزلیں اُس کے کندھوں پر دھر دی گئی ہیں۔ ایک نہیں، دو گالیاں..... بار بار یہ دو گالیاں جو سیٹھ نے بالکل پان کی پیک کے مانند اپنے منہ سے اُگل دی تھیں جو اُس کے کانوں کے پاس زہریلی بھڑوں کی طرح بھنبھنانا شروع کر دیتی تھیں اور وہ سخت بے چین ہو جاتا تھا۔ وہ کیسے اُس ۔۔۔ اُس ۔۔۔ اُس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس گڑ بڑ کا نام کیا رکھے، جو اس کے دل میں اور دماغ میں ان گالیوں نے مچا رکھی تھی۔ وہ کیسے اس تپ کو دُور کر سکتا تھا۔ جس میں وہ پھنکا جا رہا تھا۔ کیسے؟..... پر وہ سوچ بچار کے قابل بھی تو نہیں رہا تھا۔ اس کا دماغ تو اس وقت ایک ایسا اکھاڑہ بنا ہُوا تھا جس میں بہت سے پہلوان کشتی لڑ رہے ہوں۔ جو خیال بھی وہاں پیدا ہوتا۔ کسی دوسرے خیال سے جو پہلے ہی سے وہاں موجود ہوتا بھڑ جاتا۔ اور وہ کچھ سوچ نہ سکتا۔ چلتے چلتے جب ایکا ایکی اُس کے دُکھ قےَ کی صورت میں باہر نکلنے کو تھے اس کے جی میں آئی۔ جی میں کیا آئی، مجبوری کی حالت میں وہ اس آدمی کو روک کر جو لمبے لمبے ڈگ بھرتا اُس کے پاس سے گزر رہا تھا۔ یہ کہنے ہی والا تھا۔ ’’بھیّا میں روگی ہوں‘‘ مگر جب اُس نے اُس راہ چلتے آدمی کی شکل دیکھی تو بجلی کا وہ کھمبا جو اس کے پاس ہی زمین میں گڑا تھا۔ اسے اس آدمی سے کہیں زیادہ حساس دکھائی دیا۔ اور جو کچھ وہ اپنے اندر سے باہر نکالنے والا تھا۔ ایک ایک گھونٹ کرکے پھر نگل گیا۔ فٹ پاتھ پر چوکور پتھر ایک ترتیب کے ساتھ جُڑے ہُوئے تھے۔ وہ ان پتھروں پر چل رہا تھا۔ آج تک کبھی اُس نے ان کی سختی محسوس نہ کی تھی۔ مگر آج ان کی سختی اس کے دل تک پہنچ رہی تھی۔ فٹ پاتھ کا ہر ایک پتھر جس پر اُس کے قدم پڑ رہے تھے۔ اُس کے دل کے ساتھ ٹکرا رہا تھا..... سیٹھ کے پتھر کے مکان سے نکل کر ابھی وہ تھوڑی دُور ہی گیا ہو گا کہ اس کا بند بند ڈھیلا ہو گیا۔ چلتے چلتے اُس کی ایک لڑکے سے ٹکر ہوئی۔ اور اُسے یوں محسوس ہوا۔ کہ وہ ٹوٹ گیا ہے۔ چنانچہ اُس نے جھٹ اُس آدمی کی طرح جس کی جھولی سے بیر گر رہے ہوں۔ ادھر اُدھر ہاتھ پھیلائے اور اپنے آپ کو اکٹھا کر کے ہولے ہولے چلنا شروع کیا۔ اُس کا دماغ اس کی ٹانگوں کے مقابلے میں زیادہ تیزی کے ساتھ چل رہا تھا چنانچہ کبھی کبھی چلتے چلتے اُسے یہ محسوس ہوتا تھا۔ کہ اس کا نچلا دھڑ سارے کا سارابہت پیچھے رہ گیا ہے۔ اور دماغ بہت آگے نکل گیا ہے۔ کئی بار اسے اس خیال سے ٹھہرنا پڑا کہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہو جائیں۔ وہ فٹ پاتھ پر چل رہا تھا جس کے اس طرف سڑک پر پوں پوں کرتی موٹروں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ گھوڑے گاڑیاں، ٹرالیں، بھاری بھرکم ٹرک، لاریاں یہ سب سڑک کی کالی چھاتی پر دندناتی ہوئی چل رہی تھیں۔ ایک شور مچا ہُواتھا۔ پر اس کے کانوں کو کچھ سنائی نہ دیتا تھا۔ وہ تو پہلے ہی سے شائیں شائیں کر رہے تھے۔ جیسے ریل گاڑی کا انجن زائد بھاپ باہر نکال رہا ہے۔ چلتے چلتے ایک لنگڑے کُتے سے اس کی ٹکر ہوئی۔ کُتے نے اس خیال سے کہ شاید اُس کا پیر کچل دیا گیا ہے۔ ’’چاؤں‘‘ کیا اور پرے ہٹ گیا۔ اور وہ سمجھا کہ سیٹھ نے اُسے پھر گالی دی ہے......... گالی...... گالی ٹھیک اسی طرح اُس سے اُلجھ کر رہ گئی تھی جیسے بیری کے کانٹوں میں کوئی کپڑا۔ وہ جتنی کوشش اپنے آپ کو چھڑانے کی کرتا تھا۔ اتنی ہی زیادہ اس کی روح زخمی ہوتی جا رہی تھی۔ اُسے اس نمک لگی مونگ پھلی کا خیال نہیں تھا جو اس کے گھر میں برکھا کے باعث گیلی ہو رہی تھی اور نہ اسے روٹی کپڑے کا خیال تھا۔ اس کی عمر تیس برس کے قریب تھی۔ اور ان تیس برسوں میں جن کے پرماتما جانے کتنے دن ہوتے ہیں۔ وہ کبھی بھُوکا نہ سویا تھا۔ اور نہ کبھی ننگا ہی پھرا تھا۔ اُسے صرف اس بات کا دُکھ تھا۔ کہ اُسے ہر مہینے کرایہ دینا پڑتا تھا۔ وہ اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ بھرے۔ اس بکرے جیسی داڑھی والے حکیم کی دوائیوں کے دام دے۔ شام کو تاڑی کی ایک بوتل کے لیے دوّئی پیدا کر لے۔ یا اس گنجے سیٹھ کے مکان کے ایک کمرے کا کرایہ ادا کرے۔ مکانوں اور کرایوں کا فلسفہ اس کی سمجھ سے سدا اونچا رہا تھا۔ وہ جب بھی دس روپے گن کر سیٹھ یا اس کے منیم کی ہتھیلی پر رکھتا تو سمجھتا تھا کہ زبردستی اس سے یہ رقم چھین لی گئی ہے۔ اور اب اگر وہ پانچ برس تک برابر کرایہ دیتے رہنے کے بعد صرف دو مہینے کا حساب چکتا نہ کر سکا تو کیا سیٹھ کو اس بات کا اختیار ہو گیا۔ کہ وہ اُسے گالی دے؟ سب سے بڑی بات تو یہ تھی جو اُسے کھائے جا رہی تھی۔ اُسے ان بیس روپوں کی پروا نہ تھی جو اُسے آج نہیں کل ادا کر دینے تھے۔ وہ ان دو گالیوں کی بابت سوچ رہا تھا۔ جو ان بیس روپوں کے بیچ میں سے نکلتی تھیں۔ نہ وہ بیس روپے کا مقروض ہوتا اور نہ سیٹھ کے کٹھالی جیسے منہ سے یہ گندگی باہر نکلتی۔ مان لیا وہ دھنوان تھا۔ اس کے پاس دو بلڈنگیں تھیں۔ جن کے ایک سو چوبیس کمروں کا کرایہ اس کے پاس آتا تھا۔ پر ان ایک سو چوبیس کمروں میں جتنے لوگ رہتے ہیں۔ اُس کے غلام تو نہیں اور اگر غلام بھی ہیں تو وہ انھیں گالی کیسے دے سکتا ہے؟‘‘ ’’ٹھیک ہے اُسے کرایہ چاہیے۔ پر میں کہاں سے لاؤں پانچ برس تک اُس کو دیتا ہی رہا ہوں۔ جب ہو گا، دے دوں گا۔ حالانکہ مجھے اس سے کہیں زیادہ ہولناک گالیاں یاد ہیں۔ پر میں نے سیٹھ سے بار ہا کہا۔ کہ سیڑھی کا ڈنڈا ٹوٹ گیا ہے۔ اُسے بنوا دیجیے۔ پر میری ایک نہ سُنی گئی۔ میری پھول سی بچی گری۔ اس کا داہنا ہاتھ ہمیشہ کے لیے بیکار ہو گیا۔ میں گالیوں کے بجائے اسے بددعائیں دے سکتا تھا۔ پر مجھے اس کا دھیان ہی نہیں آیا...... دو مہینے کا کرایہ نہ چکانے پر میں گالیوں کے قابل ہو گیا۔ اس کو یہ خیال تک نہ آیا۔ کہ اس کے بچے اپولوبندر پرمیرے تھیلے سے مٹھیاں بھر بھر کے مونگ پھلی کھاتے ہیں۔‘‘ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے پاس اتنی دولت نہیں تھی جتنی کہ اس دو بلڈنگوں والے سیٹھ کے پاس تھی۔ اور ایسے لوگ بھی ہوں گے جن کے پاس اس سے بھی زیادہ دولت ہو گی، پر وہ غریب کیسے ہو گیا..... اسے غریب سمجھ کر ہی تو گالی دی گئی تھی۔ ورنہ اس گنجے سیٹھ کی کیا مجال تھی۔ کہ کرسی پر بڑے اطمینان سے بیٹھ کر اُسے دو گالیاں سُنا دیتا۔ گویا کسی کے پاس دھن دولت کا نہ ہونا بہت بُری بات ہے۔ اب یہ اس کا قصور نہیں تھا۔ کہ اس کے پاس دولت کی کمی تھی۔ سچ پوچھیے۔ تو اُس نے کبھی دھن دولت کے خواب دیکھے ہی نہ تھے وہ اپنے حال میں مست تھا۔ اُس کی زندگی بڑے مزے میں گزر رہی تھی۔ پر پچھلے مہینے ایکا ایکی اس کی بیوی بیمار پڑ گئی اور اس کے دوا دارو پر وہ تمام روپے خرچ ہو گئے جو کرایے میں جانے والے تھے۔ اگر وہ خود بیمار ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ دواؤں پر روپیہ خرچ نہ کرتا لیکن یہاں تو اس کے ہونے والے بچے کی بات تھی جو ابھی اپنی ماں کے پیٹ ہی میں تھا۔ اس کو اولاد بہت پیاری تھی جو پیدا ہو چکی تھی اور جو پیدا ہونے والی تھی۔ سب کی سب اُسے عزیز تھی وہ کیسے اپنی بیوی کا علاج نہ کراتا؟......کیا وہ اس بچے کا باپ نہ تھا؟...... باپ پِتا....... وہ تو صرف دو مہینے کے کرائے کی بات تھی۔ اگر اُسے اپنے بچے کے لیے چوری بھی کرنا پڑتی تو وہ کبھی نہ چوکتا....... چوری__ نہیں نہیں وہ چوری کبھی نہ کرتا..... یوں سمجھئے کہ وہ اپنے بچے کے لیے بڑی سے بڑی قربانی کرنے کے لیے تیار تھا۔ مگر وہ چور کبھی نہ بنتا..... وہ اپنی چھِنی ہُوئی چیز واپس لینے کے لیے لڑ مرنے کو تیار تھا۔ پر وہ چوری نہیں کر سکتا تھا۔ اگر وہ چاہتا تو اس وقت جب سیٹھ نے اُسے گالی دی تھی۔ آگے بڑھ کر اس کا ٹینٹوا دبا دیتا اور اس کی تجوری میں سے وہ تمام نیلے اور سبز نوٹ نکال کر بھاگ جاتا۔ جن کو وہ آج تک لاجونتی کے پتّے سمجھا کرتا تھا..... نہیں نہیں وہ ایسا کبھی نہ کرتا۔ لیکن پھر سیٹھ نے اسے گالی کیوں دی؟...... پچھلے برس چوپاٹی پر ایک گاہک نے اُسے گالی دی تھی۔ اس لیے کہ دو پیسے کی مونگ پھلی میں چار دانے کڑوے چلے گئے تھے۔ اور اس کے جواب میں اس کی گردن پر ایسی دُھول جمائی تھی کہ دُور بنچ پر بیٹھے آدمیوں نے بھی اس کی آواز سُن لی تھی۔ مگر سیٹھ نے اُسے دو گالیاں دیں اور وہ چپ رہا...... کیشو لال کھاری سینگ والا۔ جس کی بابت یہ مشہور تھا۔ کہ وہ ناک پر مکھی بھی نہیں بیٹھنے دیتا.... سیٹھ نے ایک گالی دی اور وہ کچھ نہ بولا........ دوسری گالی دی تو بھی خاموش رہا جیسے وہ مٹی کا پُتلا ہے...... پر مٹی کا پتلا کیسے ہُوا۔ اس نے ان دو گالیوں کو سیٹھ کے تھوک بھرے منہ سے نکلتے دیکھا جیسے دو بڑے بڑے چوہے موریوں سے باہر نکلتے ہیں۔ وہ جان بوجھ کر خاموش رہا۔ اس لیے کہ وہ اپنا غرور نیچے چھوڑ آیا تھا..... مگر اُس نے اپنا غرور اپنے سے الگ کیوں کیا؟ سیٹھ سے گالیاں لینے کے لیے؟ یہ سوچتے ہوئے اُسے ایکا ایکی خیال آیا کہ شاید سیٹھ نے اُسے نہیں کسی اور کو گالیاں دی تھیں...... نہیں، نہیں، گالیاں اُسے ہی دی گئی تھیں۔ اس لیے کہ دو مہینے کا کرایہ اُسی کی طرف نکلتا تھا۔ اگر اسے گالیاں نہ دی گئی ہوتی تو اس سوچ بچار کی ضرورت ہی کیا تھی۔ اور یہ جو اس کے سینے میں ہُلّڑ سا مچ رہا تھا۔ کیا بغیر کسی وجہ کے اُسے دُکھ دے رہا تھا؟ اُسی کو دو گالیاں دی گئی تھیں۔ جب اُس کے سامنے ایک موٹر نے اپنے ماتھے کی بتیاں روشن کیں۔ تو اُسے معلوم ہوا کہ وہ دو گالیاں پگھل کر اس کی آنکھوں میں دھنس گئی ہیں...... گالیاں...... گالیاں ۔۔۔ وہ جھنجھلا گیا...... وہ جتنی کوشش کرتا تھا۔ کہ ان گالیوں کی بابت نہ سوچے اتنی ہی شدت سے اُسے ان کے متعلق سوچنا پڑتا تھا۔ اور یہ مجبوری اسے بہت چڑچڑا بنا رہی تھی۔ چنانچہ اسی چڑچڑے پن میں اُس نے خواہ مخواہ دو تین آدمیوں کو جو اس کے پاس سے گزر رہے تھے۔ دل ہی دل میں گالیاں دیں۔ ’’یوں اکڑ کے چل رہے ہیں جیسے ان کے باوا کا راج ہے!‘‘ اگر اس کا راج ہوتا تو وہ سیٹھ کو مزا چکھا دیتا جو اُسے اوپر تلے دو گالیاں سُنا کر اپنے گھر میں یوں آرام سے بیٹھا تھا جیسے اُس نے اپنی گدے دار کرسی میں سے وہ کھٹمل نکال کر باہر پھینک دیے ہیں..... سچ مچ اگر اس کا اپنا راج ہوتا تو چوک میں بہت سے لوگوں کو اکٹھا کرکے سیٹھ کو بیچ میں کھڑا کر دیتا۔ اور اس کی گنجی چندیا پر اس زور سے دھپّا مارتا کہ بِلبلا اُٹھتا، پھر وہ سب لوگوں سے کہتا کہ ہنسو، جی بھر کر ہنسو اور خود اتنا ہنستا کہ ہنستے ہنستے ہنستے اُس کا پیٹ دُکھنے لگتا پر اس وقت اُسے بالکل ہنسی نہیں آتی تھی ۔۔۔ کیوں ؟ ۔۔۔ وہ اپنے راج کے بغیر بھی تو سیٹھ کے گنجے سر پر دھپّا مار سکتا تھا۔ اسے کس بات کی رکاوٹ تھی؟ ...... رکاوٹ تھی....... رکاوٹ تھی تو وہ گالیاں سُن کر خاموش ہو رہا۔ اُس کے قدم رُک گئے۔ اس کا دماغ بھی ایک دو پل کے لیے سستایا اور اس نے سوچا کہ چلو ابھی اس جھنجھٹ کا فیصلہ ہی کر دوں...... بھاگا ہُوا جاؤں اور ایک ہی جھٹکے میں سیٹھ کی گردن مروڑ کر اس تجوری پر رکھ دوں۔جس کا ڈھکنا مگر مچھ کے منہ کی طرح کھلتا ہے...... لیکن وہ کھمبے کی طرح زمین میں کیوں گڑ گیا تھا؟ سیٹھ کے گھر کی طرف پلٹا کیوں نہیں تھا؟..... کیا اس میں جرأت نہ تھی؟ اس میں جرأت نہ تھی..... کتنے دُکھ کی بات ہے کہ اس کی ساری طاقت سرد پڑ گئی تھی.... یہ گالیاں..... وہ ان گالیوں کو کیا کہتا..... ان گالیوں نے اس کی چوڑی چھاتی پر رولر سا پھیر دیا تھا.... صرف دو گالیوں نے.... حالانکہ پچھلے ہندو مُسلم فساد میں ایک ہندو نے اُسے مسلمان سمجھ کر لاٹھیوں سے بہت پِیٹا تھا اور آدھ مُوا کر دیا تھا اور اُسے اتنی کمزوری محسوس نہ ہُوئی تھی۔ جتنی کہ اب ہو رہی تھی....... کیشولال کھاری سینگ والا جو دوستوں سے بڑے فخر کے ساتھ کہا کرتا تھا۔ کہ وہ کبھی بیمار نہیں پڑا۔ آج یوں چل رہا تھا جیسے برسوں کا روگی ہے...... اور یہ روگ کس نے پیدا کیا تھا؟..... دو گالیوں نے! گالیاں..... گالیاں....... کہاں تھیں وہ دو گالیاں؟ اس کے جی میں آئی۔ کہ اپنے سینے کے اندر ہاتھ ڈال کر وہ ان دو پتھروں کو جو کسی حیلے گلتے ہی نہ تھے۔ باہر نکال لے اور جو کوئی بھی اُس کے سامنے آئے اُس کے سر پر دے مارے، پر یہ کیسے ہو سکتا تھا..... اُس کا سینہ مُربے کا مرتبان تھوڑی تھا۔ ٹھیک ہے۔ لیکن پھر کوئی اور ترکیب بھی تو سمجھ میں آئے جس سے یہ گالیاں دُور دفان ہوں.... کیوں نہیں کوئی شخص بڑھ کر اُسے دُکھ سے نجات دلانے کی کوشش کرتا؟ کیا وہ ہمدردی کے قابل نہ تھا؟..... ہو گا۔ پر کسی کو اس کے دل کے حال کا کیا پتہ تھا۔ وہ کھلی کتاب تھوڑی تھا۔ اور نہ اُس نے اپنا دل باہر لٹکا رہا تھا۔ اندر کی بات کسی کو کیا معلوم؟ نہ معلوم ہو!......... پر ماتما کرے کسی کو معلوم نہ ہو..... اگر کسی کو اندر کی بات کا پتہ چل گیا۔ تو کیشولال کھاری سینگ والے کے لیے ڈوب مرنے کی بات تھی..... گالیاں سُن کر خاموش رہنا معمولی بات تھی کیا؟ معمولی بات نہیں بہت بڑی بات ہے ...... ہمالیہ پہاڑ جتنی بڑی بات ہے۔ اس سے بھی بڑی بات ہے۔ اُس کا غرور مٹی میں مل گیا ہے۔ اُس کی ذلّت ہُوئی ہے۔ اس کی ناک کٹ گئی ہے..... اس کا سب کچھ لُٹ گیا ہے چلو بھئی چھٹی ہوئی۔ اب تو یہ گالیاں اُس کا پیچھا چھوڑ دیں....... وہ کمینہ تھا۔ رذیل تھا۔نیچ تھا۔ گندگی صاف کرنے والا بھنگی تھا، کُتّا تھا...... اُس کو گالیاں ملنا ہی چاہیے تھیں۔ نہیں نہیں، کسی کی کیا مجال تھی کہ اسے گالیاں دے اور پھر بغیر کسی قصور کے، وہ اسے کچا نہ چبا جاتا.....اماں ہٹاؤ یہ سب کہنے کی باتیں ہیں...... تم نے تو سیٹھ سے یُوں گالیاں سنیں۔ جیسے میٹھی میٹھی بولیاں تھیں۔ ’’میٹھی میٹھی بولیاں تھیں، بڑے مزے دار گھونٹ تھے، چلو یہی سہی..... اب تو میرا پیچھا چھوڑ دو ورنہ سچ کہتا ہُوں۔ دیوانہ ہو جاؤں گا..... یہ لوگ جو بڑے آرام سے ادھر اُدھر چل پھر رہے ہیں۔ میں ان میں سے ہر ایک کا سر پھوڑ دوں گا بھگوان کی قسم مجھے اب زیادہ تاب نہیں رہی۔ میں ضرور دیوانے کُتّے کی طرح سب کو کاٹنا شروع کر دوں گا۔ لوگ مجھے پاگل خانے میں بند کر دیں گے۔ اور میں دیواروں کے ساتھ اپنا سر ٹکرا ٹکرا کر مر جاؤں گا......مر جاؤں گا۔ سچ کہتا ہوں، مر جاؤں گا.... مر جاؤں گا۔ سچ کہتا ہوں، مر جاؤں گا۔ اور میری رادھا ودھوا اور میرے بچے اناتھ ہو جائیں گے...... یہ سب کچھ اس لیے ہو گا کہ میں نے سیٹھ سے دو گالیاں سُنیں اور خاموش رہا۔ جیسے میرے منہ پر تالا لگا ہُوا تھا۔ میں لُولا، لنگڑا، اپاہج تھا.....پر ماتما کرے میری ٹانگیں اس موٹر کے نیچے آکر ٹوٹ جائیں، میرے ہاتھ کٹ جائیں...... میں مر جاؤں تاکہ یہ بک بک تو ختم ہو ..... توبہ ....... کوئی ٹھکانہ ہے اس دُکھ کا.... کپڑے پھاڑ کر ننگا ناچنا شروع کر دوں..... اس ٹرام کے نیچے سر دے دوں، زور زور سے چلانا شروع کر دوں..... کیا کروں کیا نہ کروں؟‘‘ یہ سوچتے ہوئے اُسے ایکا ایکی خیال آیا کہ بازار کے بیچ کھڑا ہو جائے، اور سب ٹریفک کو روک کر جو اس کی زبان پر آئے بکتا چلا جائے۔ حتیٰ کہ اس کا سینہ سارے کا سارا خالی ہو جائے۔ یا پھر اس کے جی میں آئی کہ کھڑے کھڑے یہیں سے چلانا شروع کر دے۔ ’’مجھے بچاؤ.... مجھے بچاؤ!‘‘ اتنے میں ایک آگ بُجھانے والا انجن سڑک پر ٹن ٹن کرتا آیا اور اُدھر اس موڑ میں گُم ہو گیا۔ اس کو دیکھ کر وہ اونچی آواز میں کہنے ہی والا تھا۔ ’’ٹھہرو..... میری آگ بُجھاتے جاؤ۔‘‘ مگر نہ جانے کیوں رک گیا۔ ایکا ایکی اُس نے اپنے قدم تیز کر دیے۔ اُسے ایسا محسوس ہوا تھا کہ اس کی سانس رُکنے لگی ہے اور اگر وہ تیز نہ چلے گا تو بہت ممکن ہے کہ وہ پھٹ جائے۔ لیکن جونہی اس کی رفتار بڑھی۔ اُس کا دماغ آگ کا ایک چکر سا بن گیا۔ اس چکر میں اس کے سارے پرانے اور نئے خیال ایک ہار کی صورت میں گندھ گئے...... دو مہینے کا کرایہ، اس کا پتھر کی بلڈنگ میں درخواست لے کر جانا...... سات منزلوں کے ایک سوبارہ زینے، سیٹھ کی بھدّی آواز، اس کے گنجے سر پر مسکراتا ہوا بجلی کا لیمپ اور..... یہ موٹی گالی..... پھر دوسری..... اور اس کی خاموشی..... یہاں پہنچ کر آگ کے اس چکر میں تڑ تڑ گولیاں سی نکلنا شروع ہو جاتیں اور اسے ایسا محسوس ہوتا کہ اس کا سینہ چھلنی ہو گیا ہے۔ اس نے اپنے قدم اور تیز کیے اور آگ کا یہ چکر اتنی تیزی سے گھومنا شروع ہُوا۔ کہ شعلوں کی ایک بہت بڑی گیند سی بن گئی۔ جو اس کے آگے آگے زمین پر اُچھلنے کودنے لگی۔ وہ اب دوڑنے لگا۔ لیکن فوراً ہی خیالوں کی بھیڑ بھاڑ میں ایک نیا خیال بلند آواز میں چلایا۔ ’’ تم کیوں بھاگ رہے ہو؟ کس سے بھاگ رہے ہو؟ تم بزدل ہو!‘‘ اُس کے قدم آہستہ آہستہ اُٹھنے لگے۔ بریک سی لگ گئی۔ اور وہ ہولے ہولے چلنے لگا..... وہ سچ مچ بزدل تھا....... بھاگ کیوں رہا تھا؟ ........ اُسے تو انتقام لینا تھا.... انتقام........ یہ سوچتے ہُوئے اُسے اپنی زبان پر لہو کا نمکین ذائقہ محسوس ہُوا۔ اور اس کے بدن میں ایک جھرجھری سی پیدا ہُوئی۔ لہو..... اُسے آسمان زمین سب لہو ہی میں رنگے ہُوئے نظر آنے لگے....... لہو....... اس وقت اس میں اتنی قوت تھی کہ پتھر کی رگوں میں سے بھی لہو نچوڑ سکتا تھا۔ اُس کی آنکھوں میں لال ڈورے اُبھر آئے۔ مٹھیاں بھنچ گئیں۔ اور قدموں میں مضبوطی پیدا ہو گئی..... اب وہ انتقام پر تُل گیا تھا! وہ بڑھا۔ آنے جانے والے لوگوں میں سے تیر کے مانند اپنا راستہ بناتا۔ آگے بڑھتا رہا۔ آگے...... آگے! جس طرح تیز چلنے والی ریل گاڑی چھوٹے چھوٹے اسٹیشنوں کو چھوڑ جایا کرتی ہے۔ اسی طرح وہ بجلی کے کھمبوں، دوکانوں اور لمبے لمبے بازاروں کو اپنے پیچھے چھوڑتا آگے بڑھ رہا تھا۔ آگے...... آگے...... بہت آگے! راستے میں ایک سینما کی رنگین بلڈنگ آئی۔ اُس نے اس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہ دیکھا۔ اور اس کے پاس سے بے پرواہ ، ہَوا کے مانند بڑھ گیا۔ وہ بڑھتا گیا۔ اندر ہی اندر اُس نے اپنے ہر ذّرے کو ایک بم بنا لیا تھا۔ تاکہ وقت پر کام آئے مختلف بازاروں سے زہریلے سانپ کے مانند پھنکارتا ہوا وہ اپولوبندر پہنچا....... اپولوبندر.... گیٹ وے آف انڈیا کے سامنے بے شمار موٹریں قطار اندر قطار کھڑی تھیں۔ ان کو دیکھ کر اس نے یہ سمجھا کہ بہت سے گدھ ’پر‘ جوڑے کسی کی لاش کے ارد گرد بیٹھے ہیں۔ جب اُس نے خاموش سمندر کی طرف دیکھا۔ تو اُسے یہ ایک لمبی چوڑی لاش معلوم ہُوئی...... اس سمندر کے اُس طرف ایک کونے میں لال لال روشنی کی لکیریں ہولے ہولے بل کھا رہی تھیں۔ یہ ایک عالی شان ہوٹل کی پیشانی کا برقی نام تھا۔ جس کی لال روشنی سمندر کے پانی میں گُدگُدی پیدا کر رہی تھی۔ کیشولال کھاری سینگ والا اُس عالی شان ہوٹل کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ اس برقی بورڈ کے عین نیچے قدم گاڑ کر اُس نے اوپر دیکھا..... سنگین عمارت کی طرف جس کے روشن کمرے چمک رہے تھے اور....... اس کے حلق سے ایک نعرہ...... کان کے پردے پھاڑ دینے والا نعرہ پگھلے ہُوئے گرم گرم لاوے کے مانند نکلا۔ ’’ہت تیری....... !‘‘ جتنے کبوتر ہوٹل کی منڈیروں پر اُونگھ رہے تھے ڈر گئے اور پھڑپھڑانے لگے۔ نعرہ مار کر جب اس نے اپنے قدم زمین سے بڑی مشکل کے ساتھ علیحدہ کیے اور واپس مڑا۔ تو اُسے اس بات کا پورا یقین تھا۔ کہ ہوٹل کی سنگین عمارت اڑا اڑا دھم نیچے گر گئی ہے۔ اور یہ نعرہ سُن کر ایک شخص نے اپنی بیوی سے جو یہ شور سن کر ڈر گئی تھی۔ کہا۔ ’’پگلا ہے!‘‘[/size]

Amna Tuesday, July 28, 2015 01:37 PM

6.Banjh
 
[size="5"]
میری اور اُس کی ملاقات آج سے ٹھیک دو برس پہلے اپولو بندر پر ہُوئی شام کا وقت تھا۔ سورج کی آخری کرنیں سمندر کی اُن دراز لہروں کے پیچھے غائب ہو چکی تھی۔ جو ساحل کے بنچ پر بیٹھ کر دیکھنے سے موٹے کپڑے کی تہیں معلوم ہوتی تھیں۔ میں گیٹ آف انڈیا کے اس طرف پہلا بنچ چھوڑ کر جس پر ایک آدمی چمپی والے سے اپنے سر کی مالش کرا رہا تھا۔ دوسرے بنچ پر بیٹھا تھا۔ اور حدِ نظر تک پھیلے ہوئے سمندر کو دیکھ رہا تھا۔ دور بہت دُور جہاں سمندر اور آسمان گھل مل رہے تھے۔ بڑی بڑی لہریں آہستہ آہستہ اُٹھ رہی تھیں۔ اور ایسا معلوم ہوتا تھا۔ کہ بہت بڑا گدلے رنگ کا قالین ہے۔ جسے ادھر سے اُدھر سمیٹا جا رہا ہے۔ ساحل کے سب قمقمے روشن تھے جن کا عکس کنارے کے لرزاں پانی پر کپکپاتی ہوئی موٹی لکیروں کی صورت میں جگہ جگہ رینگ رہا تھا۔ میرے پاس پتھریلی دیوار کے نیچے کئی کشتیوں کے لپٹے ہوئے بادبان اور بانس ہولے ہولے حرکت کر رہے تھے۔ سمندر کی لہریں اور تماشائیوں کی آواز ایک گنگناہٹ بن کر فضا میں گھلی ہُوئی تھی۔ کبھی کبھی کسی آنے یا جانے والی موٹر کے ہارن کی آواز بلند ہوتی اور یوں معلوم ہوتا کہ بڑی دلچسپ کہانی سننے کے دوران میں کسی نے زور سے’’ہوں‘‘ کی ہے۔ ایسے ماحول میں سگریٹ پینے کا بہت مزہ آتا ہے میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سگریٹ کی ڈبیا نکالی۔ مگر ماچس نہ ملی۔ جانے کہاں بھول آیا تھا۔ سگریٹ کی ڈبیا واپس جیب میں رکھنا ہی والا تھا۔ کہ پاس سے کسی نے کہا۔ ’’ماچس لیجیے گا۔‘‘ میں نے مڑ کر دیکھا۔ بنچ کے پیچھے ایک نوجوان کھڑا تھا۔ یوں تو بمبئی کے عام باشندوں کا رنگ زرد ہوتا ہے۔ لیکن اس کا چہرہ خوفناک طور پر زرد تھا۔ میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ ’’آپ کی بڑی عنایت ہے۔‘‘ اُس نے جواب دیا۔ آپ سگریٹ سلگا لیجیے۔ مجھے جانا ہے‘‘۔ مجھے ایسا محسوس ہُوا کہ اُس نے جھوٹ بولا ہے۔ کیونکہ اس کے لہجے سے اس بات کا پتہ چلتا تھا کہ اُسے کوئی جلدی نہیں ہے اور نہ اسے کہیں جانا ہے۔ آپ کہیں گے کہ لہجے سے ایسی باتوں کا کس طرح پتہ چل سکتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے اس وقت ایسا محسوس ہوا چنانچہ میں نے ایک بار پھر کہا۔ ’’ایسی جلدی کیا ہے...... تشریف رکھیے۔ اور یہ کہہ کر میں نے سگریٹ کی ڈبیا اس کی طرف بڑھا دی۔ شوق فرمائیے۔‘‘ اُس نے سگریٹ کی چھاپ کی طرف دیکھا۔ اور جواب دیا۔ شکریہ، میں صرف برانڈ پیا کرتا ہوں۔‘‘ آپ مانیں نہ مانیں۔ مگر میں قسمیہ کہتا ہوں کہ اس بار اُس نے پھر چھوٹ بولا۔ اس مرتبہ پھر اُس کے لہجے نے چغلی کھائی۔ اور مجھے اس سے دلچسپی پیدا ہو گئی۔ اس لیے کہ میں نے اپنے دل میں قصد کر لیا تھا۔ کہ اسے ضرور اپنے پاس بٹھاؤں گا۔ اور اپنا سگریٹ پلواؤں گا۔ میرے خیال کے مطابق اس میں مشکل کی کوئی بات ہی نہ تھی۔ کیونکہ اس کے دو جملوں ہی نے مجھے بتا دیا تھا کہ وہ اپنے آپ کو دھوکہ دے رہا ہے۔ اُس کا جی چاہتا ہے کہ میرے پاس بیٹھے اور سگریٹ پیے۔ لیکن بیک وقت اُس کے دل میں یہ خیال بھی پیدا ہوا تھا کہ میرے پاس نہ بیٹھے اور میرا سگریٹ نہ پیے چنانچہ ہاں اور نہ کا یہ تصادم اُس کے لہجے میں صاف طور پر مجھے نظر آیا تھا۔ آپ یقین جانیے کہ اس کا وجود بھی ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں لٹکا ہوا تھا۔ اُس کا چہرہ جیساکہ میں بیان کر چکا ہوں بے حد پیلا تھا۔ اس پر اُس کی ناک آنکھوں اور منہ کے خطوط اس قدر مدھم تھے جیسے کسی نے تصویر بنائی ہے اور اس کو پانی سے دھو ڈالا ہے۔ کبھی کبھی اس کی طرف دیکھتے دیکھتے اس کے ہونٹ اُبھر سے آتے لیکن پھر راکھ میں لپٹی ہوئی چنگاری کے مانند سو جاتے۔ اس کے چہرے کے دوسرے خطوط کا بھی یہی حال تھا۔ آنکھیں گدلے پانی کی دو بڑی بڑی بوندیں تھیں جن پر اس کی چھوری پلکیں جھُکی ہوئی تھیں۔ بال کالے تھے۔ مگر اُن کی سیاہی جلے ہوئے کاغذ کے مانند تھی جن میں بھوسلا پن ہوتا ہے۔ قریب سے دیکھنے پر اُس کی ناک کا صحیح نقشہ معلوم ہو سکتا تھا۔ مگر دور سے دیکھنے پر وہ بالکل چپٹی معلوم ہوتی تھی۔ کیونکہ جیسا کہ میں اس سے پیشتر بیان کر چکا ہوں۔ اُس کے چہرے کے خطوط بالکل ہی مدھم تھے۔ اس کا قد عام لوگوں جتنا تھا۔ یعنی نہ چھوٹا نہ بڑا۔ البتہ جب وہ ایک خاص انداز سے یعنی اپنی کمر کی ہڈی کو ڈھیلا چھوڑ کے کھڑا ہوتا۔ تو اس کے قد میں نمایاں فرق پیدا ہو جاتا۔ اس طرح جب کہ وہ ایک دم کھڑا ہوتا۔ تو اُس کا قد جسم کے مقابلے میں بہت بڑا دکھائی دیتا۔ کپڑے اُس کے خستہ حالت میں تھے۔ لیکن میلے نہیں تھے۔ کوٹ کی آستینوں کے آخری حصّے کثرتِ استعمال کے باعث گھِس گئے تھے اور پھُوسڑے نکل آئے تھے۔ کالر کھلا تھا۔ اور قمیض بس ایک اور دھلائی کی مار تھی۔ مگر ان کپڑوں میں بھی وہ خود کو ایک باوقار انداز میں پیش کرنے کی سعی کر رہا تھا۔ میں نے سعی کر رہا تھا! اس لیے کہا۔ کیونکہ جب میں نے اس کی طرف دیکھا تھا۔ تو اس کے سارے وجود میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی تھی۔ اور مجھے ایسا معلوم ہوا تھا۔ کہ وہ اپنے آپ کو میری نگاہوں سے اوجھل رکھنا چاہتا ہے۔ میں اُٹھ کھڑا ہوا اور سگریٹ سلگا کر اس کی طرف ڈبیا بڑھا دی۔ ’’شوق فرمائیے۔‘‘ یہ میں نے کچھ اس طریقے سے کہا۔ اور فوراً ماچس سُلگا کر اس انداز سے پیش کی کہ وہ سب کچھ بھول گیا۔ اُس نے ڈبیا میں سے سگریٹ نکال کر منہ میں دبا لیا۔ اور اُسے سلگا کر پینا بھی شروع کر دیا۔ لیکن ایکا ایکی اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اور منہ میں سے سگریٹ نکال کر مصنوعی کھانسی کے آثار حلق میں پیدا کرتے ہُوئے اُس نے کہا۔ ’’کیو نڈر مجھے راس نہیں آتے ان کا تمباکو بہت تیز ہے۔ میرے گلے میں فوراً خراشیں پیدا ہو جاتی ہیں۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔ ’’آپ کون سے سگریٹ پسند کرتے ہیں؟‘‘ اُس نے تتلا کر جواب دیا۔ ’’میں ...... میں........ دراصل سگریٹ بہت کم پیتا ہوں۔ کیونکہ ڈاکٹر اروکر نے منع کر رکھا ہے۔ ویسے میں تھری فالُو پیتا ہوں جن کا تمباکو تیز نہیں ہوتا۔ اس نے جس ڈاکٹر کا نام لیا۔ وہ بمبئی کا بہت بڑا ڈاکٹر ہے۔ اس کی فیس دس روپے ہے۔ اور جن سگریٹوں کا اس نے حوالہ دیا۔ اس کے متعلق آپ کو بھی معلوم ہو گا کہ بہت مہنگے داموں پر ملتے ہیں۔ اس نے ایک ہی سانس میں دو جھوٹ بولے۔ جو مجھے ہضم نہ ہوئے۔ مگر میں خاموش رہا۔ حالانکہ سچ عرض کرتا ہوں۔ اُس وقت میرے دل میں یہی خواہش چٹکیاں لے رہی تھی۔ کہ اس کا غلاف اتار دوں اور اس کی دروغ گوئی کو بے نقاب کر دوں۔ اور اسے کچھ اس طرح شرمندہ کروں کہ وہ مجھ سے معافی مانگے۔ مگر میں نے جب اُس کی طرف دیکھا تو اس فیصلے پر پہنچا کہ اس نے جو کچھ کہا ہے اس کا جزو بن کر رہ گیا ہے۔ جھوٹ بول کرچہرے پر جو ایک سُرخی سی دوڑ جایا کرتی ہے۔ مجھے نظر نہ آئی بلکہ میں نے یہ دیکھا کہ وہ جو کچھ کہہ چکا ہے۔ اس کو حقیقت سمجھتا ہے۔ اُس کے جھوٹ میں اس قدر اخلاص تھا۔ یعنی اس نے اتنے پُرخلوص طریقے پر جھوٹ بولا تھا۔ کہ اس کی میزانِ احساس میں ہلکی سی جنبش بھی پیدا نہیں ہوئی تھی۔ خیر اس قصّے کو چھوڑیے۔ ایسی باریکیاں میں آپ کو بتانے لگوں تو صفحوں کے صفحے کالے ہو جائیں گے۔ اور افسانہ بہت خشک ہو جائے گا۔ تھوڑی سی رسمی گفتگو کے بعد میں نے اس کو راہ پر لگایا۔ اور ایک اور سگریٹ پیش کرکے سمندر کے دلفریب منظر کی بات چھیڑ دی۔ چونکہ افسانہ نگار ہوں۔ اس لیے کچھ اس دلچسپ طریقے پر اُسے سمندر، اپولُوبندر اور وہاں آنے جانے والے تماشائیوں کے بارے میں چند باتیں سنائیں۔ کہ چھ سگریٹ پینے پر بھی اُس کے حلق میں خرخراہٹ پیدا نہ ہوئی۔ اس نے میرا نام پوچھا۔ میں نے بتایا تو وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور کہنے لگا۔ ’’آپ مسٹر....... ہیں...... میں آپ کے کئی افسانے پڑھ چکا ہوں۔ مجھے....... مجھے معلوم نہ تھا۔ کہ آپ ___ ہیں........ مجھے آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ہے واللہ بہت خوشی ہوئی ہے۔‘‘ میں نے اس کا شکریہ ادا کرنا چاہا۔ مگر اُس نے اپنی بات شروع کر دی....... ’’ہاں خوب یاد آیا ابھی حال ہی میں آپ کا ایک افسانہ میں نے پڑھا ہے...... عنوان بھول گیاہوں....... اس میں آپ نے ایک لڑکی پیش کی ہے۔ جو کسی مرد سے محبت کرتی تھی۔ مگر وہ اُسے دھوکہ دے گیا۔ اسی لڑکی سے ایک اور مرد بھی محبت کرتا تھا۔ جو افسانہ سناتا ہے جب اس کو لڑکی کی افتاد کا پتہ چلتا ہے۔ تو وہ اس سے ملتا ہے اور اس سے کہتا ہے۔ زندہ رہو....... ان چند گھڑیوں کی یاد میں اپنی زندگی کی بنیادیں کھڑی کرو۔ جو تم نے اس کی محبت میں گزاری ہیں۔ اُس مسّرت کی یاد میں جو تم نے چند لمحات کے لیے حاصل کی تھی‘‘...... مجھے اصل عبارت یاد نہیں رہی۔ لیکن مجھے بتائیے۔ کیا ایسا ممکن ہے..... ممکن کو چھوڑیے۔ آپ یہ بتائیے کہ وہ آدمی آپ تو نہیں تھے؟...... مگر کیا آپ ہی نے اس سے کوٹھے پر ملاقات کی تھی اور اس کی تھکی ہوئی جوانی کو اُونگھتی ہوئی چاندنی میں چھوڑ کر نیچے اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے آئے تھے......‘‘ یہ کہتے ہوئے وہ ایک دم ٹھہر گیا۔ ’’مگر مجھے ایسی باتیں نہیں پوچھنی چاہئیں___ اپنے دل کا حال کون بتاتا ہے۔‘‘ اس پر میں نے کہا۔ ’’ میں آپ کو بتاؤں گا___ لیکن پہلی ملاقات میں سب کچھ پوچھ لینا۔ اور سب کچھ بتا دینا اچھا معلوم نہیں ہوتا۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ وہ جوش جو گفتگو کرتے وقت اس کے اندر پیدا ہو گیا تھا۔ ایک دم ٹھنڈا پڑ گیا۔ اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔’’ آپ کا فرمانا بالکل درست ہے مگر کیا پتہ ہے کہ آپ سے پھر کبھی ملاقات نہ ہو۔‘‘ اس پر میں نے کہا۔ ’’اس میں شک نہیں بمبئی بہت بڑا شہر ہے لیکن ہماری ایک نہیں بہت سی ملاقاتیں ہو سکتی ہیں بیکار آدمی ہوں یعنی افسانہ نگار....... شام کو ہر روز اسی وقت بشرطیکہ بیمار نہ ہو جاؤں آپ مجھے ہمیشہ اسی جگہ پر پائیں گے___ یہاں بے شمار لڑکیاں سیر کو آتی ہیں۔ اور میں اس لیے آتا ہوں کہ خود کو کسی کی محبت میں گرفتار کر سکوں......... محبت بُری چیز نہیں ہے!‘‘ ’’محبت...... محبت...... ! اُس نے اس سے آگے کچھ کہنا چاہا۔ مگر نہ کہہ سکا۔ اور جلتی ہوئی رسّی کی طرح آخری بل کھا کر خاموش ہو گیا۔ میں نے از راہِ مذاق اُس سے محبت کا ذکر کیا تھا۔ دراصل اس وقت فضا ایسی دلفریب تھی۔ کہ اگر کسی عورت پر عاشق ہو جاتا تو مجھے افسوس نہ ہوتا جب دونوں وقت آپس میں مل رہے ہوں۔ نیم تاریکی میں بجلی کے قمقمے قطار اندر قطار آنکھیں جھپکنا شروع کر دیں۔ ہوا میں خنکی پیدا ہو جائے اور فضا پر ایک افسانوی کیفیت سی چھا جائے تو کسی اجنبی عورت کی قربت کی ضرورت محسوس ہوا کرتی ہے۔ ایک ایسی جس کا احساس تحت شعور میں چھپا رہتا ہے۔ خدا معلوم اُس نے کس افسانے کے متعلق مجھ سے پوچھا تھا۔ مجھے اپنے سب افسانے یاد نہیں۔ اور خاص طور پر وہ تو بالکل یاد نہیں جو رومانی ہیں۔ میں اپنی زندگی میں بہت کم عورتوں سے ملا ہوں۔ وہ افسانے جو میں نے عورتوں کے متعلق لکھے ہیں۔ یا تو کسی خاص ضرورت کے ماتحت لکھے گئے ہیں۔ یا محض دماغی عیاشی کے لیے میرے ایسے افسانوں میں چونکہ خلوص نہیں ہے۔ اس لیے میں نے کبھی اُن کے متعلق غور نہیں کیا۔ ایک خاص طبقے کی عورتیں میری نظر سے گزر ی ہیں۔ اور ان کے متعلق میں نے چند افسانے لکھے ہیں۔ مگر وہ رومان نہیں ہیں۔ اُس نے جس افسانے کا ذکر کیا تھا۔ وہ یقیناًکوئی ادنیٰ درجے کا رومان تھا۔ جو میں نے اپنے چند جذبات کی پیاس بجھانے کے لیے لکھا ہو گا....... لیکن میں نے تو اپنا افسانہ بیان کرنا شروع کر دیا۔ ہاں تو جب وہ محبت کہہ کر خاموش ہو گیا۔ تو میرے دل میں خواہش پیدا ہُوئی کہ محبت کے بارے میں کچھ اور کہوں۔ چنانچہ میں نے کہنا شروع کیا۔ ’’محبت کی یُوں تو بہت سی قسمیں ہمارے باپ دادا بیان کر گئے ہیں۔ مگر میں سمجھتا ہوں۔ کہ محبت خواہ ملتان میں ہو یا سائبیریا کے یخ بستہ میدانوں میں۔ سردیوں میں پیدا ہو یا گرمیوں میں، امیر کے دل میں پیدا ہو یا غریب کے دل میں....... محبت خوبصورت کرے یا بدصورت بدکردار کرے یا نیکوکار........ محبت محبت ہی رہتی ہے۔ اس میں کوئی فرق پیدا نہیں ہوتا جس طرح بچے پیدا ہونے کی صورت ہمیشہ ہی ایک سی چلی آرہی ہے۔ اسی طرح محبت کی پیدائش بھی ایک ہی طریقے پر ہوتی ہے۔ یہ جُدا بات ہے کہ سعیدہ بیگم ہسپتال میں بچہ جنے اور راجکماری جنگل میں۔ غلام محمدؐ کے دل میں بھنگن محبت پیدا کر دے، اور نٹور لال کے دل میں کوئی رانی جس طرح بعض بچے وقت سے پہلے پیدا ہوتے ہیں اور کمزور رہتے ہیں۔ اسی طرح وہ محبت بھی کمزور رہتی ہے جو وقت سے پہلے جنم لے بعض دفعہ بچے بڑی تکلیف سے پیدا ہوتے ہیں بعض دفعہ محبت بھی بڑی تکلیف دے کر پیدا ہوتی ہے۔ جس طرح عورتوں کا حمل گر جاتا ہے۔ اسی طرح محبت بھی گر جاتی ہے بعض دفعہ بانجھ پن پیدا ہو جاتا ہے۔ ادھر بھی آپ کو ایسے آدمی نظر آئیں گے جو محبت کرنے کے معاملہ میں بانجھ ہیں....... اس کا مطلب یہ نہیں کہ محبت کرنے کی خواہش اُن کے دل سے ہمیشہ کے لیے مٹ جاتی ہے، یا ان کے اندر وہ جذبہ ہی نہیں رہتا، نہیں، یہ خواہش اُن کے دل میں موجود ہوتی ہے۔ مگر وہ اس قابل نہیں رہتے کہ محبت کر سکیں۔ جس طرح عورت اپنے جسمانی نقائص کے باعث بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ اسی طرح یہ لوگ چند روحانی نقائص کی وجہ سے کسی کے دل میں محبت پیدا کرنے کی قوت نہیں رکھتے...... محبت کا اسقاط بھی ہو سکتا ہے...... ‘‘ مجھے اپنی گفتگو دلچسپ معلوم ہو رہی تھی۔ چنانچہ میں اس کی طرف دیکھے بغیر لیکچر دیے جا رہا تھا۔ لیکن جب میں اس کی طرف متوجہ ہوا۔ تو وہ سمندر کے اُس پار خلا میں دیکھ رہا تھا۔ اور اپنے خیالات میں گم تھا میں خاموش ہو گیا۔ جب دُور سے کسی موٹر کا ہارن بجا تو وہ چونکا اور خالی الذہن ہو کر کہنے لگا۔ ’’جی....... آپ نے بالکل درست فرمایا ہے!‘‘ میرے جی میں آئی۔ کہ اس سے پوچھوں...... درست فرمایا ہے؟........ اس کو چھوڑیے آپ یہ بتائیے کہ میں نے کیا کہا ہے‘‘؟ لیکن میں خاموش رہا۔ اور اس کو موقع دیا کہ اپنے وزنی خیالات دماغ سے جھٹک دے۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا۔ اس کے بعد اُس نے پھر کہا۔ ’’آپ نے بالکل ٹھیک فرمایا ہے۔ لیکن...... خیر چھوڑئیے اس قصّے کو۔‘‘ مجھے اپنی گفتگو بہت اچھی معلوم ہوئی تھی۔ میں چاہتا تھا۔ کہ کوئی میری باتیں سُنتا چلا جائے۔ چنانچہ میں نے پھر سے کہنا شروع کیا۔ ’’تو میں عرض کر رہا تھا کہ بعض آدمی بھی محبت کے معاملے میں بانجھ ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے دل میں محبت کرنے کی خواہش تو موجود ہوتی ہے لیکن ان کی یہ خواہش کبھی پوری نہیں ہوتی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس بانجھ پن کا باعث روحانی نقائص ہیں۔ آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘ اس کا رنگ اور بھی زرد پڑ گیا جیسے اس نے کوئی بھوت دیکھ لیا ہو۔ یہ تبدیلی اُس کے اندر اتبی جلدی پیدا ہوئی کہ میں نے گھبرا کر اُس سے پوچھا۔ ’’خیریت تو ہے..... آپ بیمار ہیں۔‘‘ ’’نہیں تو ۔۔۔ نہیں تو‘‘ اُس کی پریشانی اور بھی زیادہ ہو گئی ۔۔۔ ’’مجھے کوئی بیماری و یماری نہیں ہے ۔۔۔ لیکن آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں بیمار ہوں۔‘‘ میں نے جواب دیا۔ اس وقت آپ کو جو کوئی بھی دیکھے گا۔ یہی کہے گا۔ کہ آپ بہت بیمار ہیں۔ آپ کا رنگ خوفناک طور پر زرد ہو رہا ہے........ میرا خیال ہے آپ کو گھر چلے جانا چاہیے۔ آئیے میں آپ کو چھوڑ آؤں۔‘‘ ’’نہیں میں چلا جاؤں گا۔ مگر میں بیمار نہیں ہوں...... کبھی کبھی میرے دل میں معمولی سا درد پیدا ہو جایا کرتا ہے۔ شاید وہی ہو..... میں ابھی ٹھیک ہو جاؤں گا آپ اپنی گفتگو جاری رکھیے۔‘‘ میں تھوڑی دیر خاموش رہا۔ کیونکہ وہ ایسی حالت میں نہیں تھا کہ میری بات غور سے سُن سکتا۔ لیکن جب اُس نے اصرار کیا۔ تو میں نے کہنا شروع کیا۔ ’’میں آپ سے یہ پوچھ رہا تھا کہ ان لوگوں کے متعلق آپ کا کیا خیال ہے جو محبت کرنے کے معاملے میں بانجھ ہوتے ہیں.... میں ایسے آدمیوں کے جذبات اور اُن کی اندرونی کیفیات کا اندازہ نہیں کر سکتا۔ لیکن جب میں اس بانجھ عورت کا تصور کرتا ہوں۔ جو صرف ایک بیٹی یا بیٹا حاصل کرنے کے لیے دعائیں مانگتی ہے۔ خدا کے حضور میں گڑگڑاتی ہے اور جب وہاں سے کچھ نہیں ملتا تو ٹونے ٹوٹکوں میں اپنا گوہر مقصود ڈھونڈتی ہے۔ شمشانوں سے راکھ لاتی ہے کئی کئی راتیں جاگ کر سادھوؤں کے بتائے ہوئے منتر پڑھتی ہے۔ منتیں مانتی ہے۔ چڑھاوے چڑھاتی ہے۔ تو میں خیال کرتا ہوں کہ اس آدمی کی بھی یہی حالت ہوتی ہو گی۔ جو محبت کے معاملے میں بانجھ ہو...... ایسے لوگ واقعی ہمدردی کے قابل ہیں۔مجھے اندھوں پر اتنا رحم نہیں آتا جتنا ان لوگوں پر آتا ہے‘‘۔ اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ اور وہ تھوک نگل کر دفعتہ اُٹھ کھڑا ہُوا۔ اور پرلی طرف منہ کر کے کہنے لگا۔ ’’اوہ بہت دیر ہو گئی۔ مجھے ضروری کام کے لیے جانا تھا یہاں باتوں باتوں میں کتنا وقت گزر گیا‘‘۔ میں بھی اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ پلٹا اور جلدی سے میرا ہاتھ دبا کر لیکن میری طرف دیکھے بغیر اُس نے ’’اب رخصت چاہتاہوا‘‘ کہا اور چل دیا۔ _________________ دوسری مرتبہ اس سے میری ملاقات پھر اپولوبندر ہی پر ہوئی۔ میں سیر کا عادی نہیں ہوں۔ مگر اس زمانے میں ہر شام اپولوبندر پر جانا میرا دستور ہو گیا تھا۔ ایک مہینے کے بعد جب مجھے آگرہ کے ایک شاعر نے ایک لمبا چوڑا خط لکھا جس میں اُس نے نہایت ہی حریصا نہ طور پر اپولوبندر اور وہاں جمع ہونے والی پریوں کا ذکر کیا۔ اور مجھے اس لحاظ سے بہت خوش قسمت کہا۔ کہ میں بمبئی میں ہوں۔ تو اپالوبندر سے میری دلچسپی ہمیشہ کے لیے فنا ہو گئی۔ اب جب کبھی کوئی مجھے اپولوبندر جانے کو کہتا ہے تو مجھے آگرے کے شاعر کا خط یاد آجاتا ہے اور میری طبیعت متلا جاتی ہے۔ لیکن میں اُس زمانے کا ذکر کر رہا ہوں۔ جب خط مجھے نہیں ملا تھا۔اور میں ہر روز جاکر شام کو اپولوبندر کے اس بنچ پر بیٹھا کرتا تھا۔ جس کے اُس طرف کئی آدمی چمپی والوں سے اپنی کھوپڑیوں کی مرمت کراتے رہتے ہیں۔ دن پوری طرح ڈھل چکا تھا۔ اور اُجالے کا کوئی نشان باقی نہیں رہا تھا۔ اکتوبر کی گرمی میں کمی واقع نہیں ہوئی تھی۔ ہوا چل رہی تھی....... تھکے ہوئے مسافر کی طرح۔ سیر کرنے والوں کا ہجوم زیادہ تھا۔ میرے پیچھے موٹریں ہی موٹریں کھڑی تھیں۔بنچ بھی سب کے سب پُر تھے۔ جہاں بیٹھا کرتا تھا۔ وہاں دو باتونی ایک گجراتی اور ایک پارسی نہ جانے کب کے جمے ہُوئے تھے۔ دونوں گجراتی بولتے تھے۔ مگر مختلف لب و لہجہ سے۔ پارسی کی آواز میں دو سُر تھے۔ وہ کبھی باریک سُر میں بات کرتا تھا کبھی موٹے سُر میں۔ جب دونوں تیزی سے بولنا شروع کر دیتے۔ تو ایسا معلوم ہوتا جیسے طوطے مینا کی لڑائی ہو رہی ہے۔ میں ان کی لامتناہی گفتگو سے تنگ آکر اُٹھا اور ٹہلنے کی خاطر تاج محل ہوٹل کا رُخ کرنے ہی والا تھا کہ سامنے سے مجھے وہ آتا دکھائی دیا۔ مجھے اس کا نام معلوم نہیں تھا۔ اس لیے میں اسے پکار نہ سکا۔ لیکن جب اُس نے مجھے دیکھا۔ تو اس کی نگاہیں ساکن ہو گئیں۔ جیسے اُسے وہ چیز مل گئی ہو جس کی اُسے تلاش تھی۔ کوئی بنچ خالی نہیں تھا۔ اس لیے میں نے اس سے کہا۔ ’’آپ سے بہت دیر کے بعد ملاقات ہوئی..... چلیے سامنے ریستوران میں بیٹھتے ہیں۔ یہاں کوئی بنچ خالی نہیں۔‘‘ اُس نے رسمی طور پر چند باتیں کیں اور میرے ساتھ ہو لیا۔ چند گزوں کا فاصلہ طے کرنے کے بعد ہم دونوں ریستوران میں بید کی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ چائے کا آرڈر دیکر میں نے اس کی طرف سگرٹوں کا ٹین بڑھا دیا۔ اتفاق کی بات ہے۔ میں نے اسی روز دس روپے دے کر ڈاکٹر ارولکر سے مشورہ لیا تھا۔ اور اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اوّل تو سگریٹ پینا ہی موقوف کر دو۔اور اگر تم ایسا نہیں کر سکتے۔ تو اچھے سگریٹ پیا کرو۔ مثال کے طور پر پانچ سو پچپن...... چنانچہ میں نے ڈاکٹر کے کہنے کے مطابق یہ ٹین اُسی شام خریدا تھا۔ اُس نے ڈبے کی طرف غور سے دیکھا۔ پھر میری طرف نگاہیں اٹھائیں، کچھ کہنا چاہا مگر خاموش رہا۔ میں ہنس پڑا۔ ’’آپ یہ نہ سمجھیے گا۔ کہ میں نے آپ کے کہنے پر یہ سگریٹ پینا شروع کیے ہیں...... اتفاق کی بات ہے۔ کہ آج مجھے بھی ڈاکٹر ارولکر کے پاس جانا پڑا۔ کیونکہ کچھ دنوں سے میرے سینے میں درد ہو رہا ہے چنانچہ اس نے مجھ سے کہا کہ یہ سگریٹ پیا کرو لیکن بہت کم...... ‘‘ میں نے یہ کہتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور محسوس کیا کہ اس کو میری یہ باتیں ناگوار معلوم ہوئی ہیں۔ چنانچہ میں نے فوراً جیب سے وہ نسخہ نکالا۔ جو ڈاکٹر ارولکر نے مجھے لکھ کر دیا تھا۔ یہ کاغذ میز پر میں نے اس کے سامنے رکھ دیا۔ ’’یہ عبارت مجھ سے پڑھی تو نہیں جاتی۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے وٹامن کا سارا خاندان اس نسخے میں جمع کر دیا ہے۔‘‘ اُس کاغذ کو جس پر اُبھرے ہُوے کالے حروف میں ڈاکٹر ارولکر کا نام اور پتہ مندرج تھا اور تاریخ بھی لکھی ہوئی تھی۔ اُس نے چورنگاہوں سے دیکھا اور وہ اضطراب جو اس کے چہرے پر پیدا ہو گیا تھا فوراً دُور ہو گیا۔ چنانچہ اس نے مُسکرا کر کہا‘‘۔ کیا وجہ ہے کہ اکثر لکھنے والوں کے اندر وٹامنز ختم ہو جاتی ہیں؟‘‘ ’’میں نے جواب دیا۔ اس لیے کہ انھیں کھانے کو کافی نہیں ملتا۔ کام زیادہ کرتے ہیں۔ لیکن اُجرت بہت کم ملتی ہے‘‘۔ اس کے بعد چائے آگئی اور دوسری باتیں شروع ہو گئیں۔ پہلی ملاقات اور اس ملاقات میں غالباً ڈھائی مہینے کا فاصلہ تھا۔ اس کے چہرے کا رنگ پہلے سے زیادہ پیلا تھا۔ آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پیدا ہو رہے تھے۔ اُسے غالباً کوئی تکلیف تھی جس کا احساس اُسے ہر وقت رہتا تھا۔ کیونکہ باتیں کرتے کرتے بعض اوقات وہ ٹھہر جاتا۔ اور اس کے ہونٹوں میں سے غیر ارادی طور پر آہ نکل جاتی۔ اگر ہنسنے کی کوشش بھی کرتا۔ تو اس کے ہونٹوں میں زندگی پیدا نہیں ہوتی تھی۔ میں نے یہ کیفیت دیکھ کر اس سے اچانک طور پر پوچھا۔ ’’آپ اداس کیوں ہیں؟‘‘ ’’اُداس..... اُداس‘‘۔ ایک پھیکی سی مسکراہٹ جو ان مرنے والوں کے لبوں پر پیدا ہوا کرتی ہے جو ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ وہ موت سے خائف نہیں۔ اُس کے ہونٹوں پر پھیلی۔ میں اُداس نہیں ہوں۔ آپ کی طبیعت اداس ہو گی۔‘‘ یہ کہہ کر اُس نے ایک ہی گھونٹ میں چائے کی پیالی خالی کر دی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ ’’اچھا تو میں اجازت چاہتا ہوں...... ایک ضروری کام سے جانا ہے۔‘‘ مجھے یقین تھا کہ اسے کسی ضروری کام سے نہیں جانا ہے۔ مگر میں نے اسے نہ روکا اور جانے دیا۔ اس دفعہ پھر اُس کا نام دریافت نہ کر سکا۔ لیکن اتنا پتہ چل گیا کہ وہ ذہنی اور روحانی طور پر بے حد پریشان تھا۔ وہ اداس تھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ اُداسی اُس کی رگ و ریشہ میں سرایت کر چکی تھی۔ مگر وہ نہیں چاہتا تھا۔ کہ اس کی اُداسی کا دوسروں کو علم ہو۔ وہ دو زندگیاں بسر کرنا چاہتا تھا۔ ایک وہ جو حقیقت تھی اور ایک وہ جس کی تخلیق میں ہر گھڑی، ہر لمحہ مصروف رہتا تھا۔ لیکن اس کی زندگی کے یہ دونوں پہلو ناکام تھے۔ کیوں؟....... یہ مجھے معلوم نہیں۔ اُس سے تیسری مرتبہ میری ملاقات پھر اپولو بندر پر ہُوئی۔ اس دفعہ میں اسے اپنے گھر لے گیا۔ راستے میں ہماری کوئی بات چیت نہ ہوئی لیکن گھر پر اس کے ساتھ بہت سی باتیں ہوئیں۔ جب وہ میرے کمرے میں داخل ہوا۔ تو اس کے چہرے پر چند لمحات کے لیے اداسی چھا گئی۔ مگر وہ فوراً سنبھل گیا۔ اور اس نے اپنی عادت کے خلاف اپنے آپ کو بہت تروتازہ اور باتونی ظاہر کرنے کی کوشش کی۔ اس کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے اُس پر اور بھی ترس آگیا۔ وہ ایک موت جیسی یقینی حقیقت کو جھٹلا رہا تھا۔ اور مزا یہ ہے کہ اس خود فریبی سے کبھی کبھی وہ مطمئن بھی نظر آتا تھا۔ باتوں کے دوران میں اس کی نظر میرے میز پر پڑی۔ شیشے کے فریم میں اس کو ایک لڑکی کی تصویر نظر آئی۔ اٹھ کر اس نے تصویر کی طرف جاتے ہوئے کہا۔ ’’کیا میں آپ کی اجازت سے یہ تصویر دیکھ سکتا ہوں۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’بصد شوق۔‘‘ اُس نے تصویر کو ایک نظر دیکھا۔ اور دیکھ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ اچھی خوبصورت لڑکی ہے..... میں سمجھتا ہوں کہ آپ کی...... ‘‘ ’’جی نہیں......... ایک زمانہ ہوا۔ اس سے محبت کرنے کا خیال میرے دل میں پیدا ہُوا تھا۔ بلکہ یوں کہیے کہ تھوڑی سی محبت میرے دل میں پیدا بھی ہو گئی تھی۔ مگر افسوس ہے کہ اس کو اس کی خبر تک نہ ہُوئی۔ اور میں...... میں......... نہیں۔ بلکہ وہ بیاہ دی گئی......... یہ تصویر میری پہلی محبت کی یادگار ہے۔ جو اچھی طرح پیدا ہونے سے پہلے ہی مر گئی......‘‘ ’’یہ آپ کی محبت کی یادگار ہے...... اس کے بعد تو آپ نے اور بھی بہت سی رومان لڑائے ہوں گے۔‘‘ اُس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری‘‘ یعنی آپ کی زندگی میں تو کئی ایسی نامکمل اور مکمل محبتیں موجود ہوں گی۔‘‘ میں کہنے ہی والا تھا کہ جی نہیں خاکسار بھی محبت کے معاملے میں آپ جیسا بنجر ہے۔ مگر جانے کیوں یہ کہتا کہتا رک گیا۔ اور خواہ مخواہ جھوٹ بول دیا۔ ’’جی ہاں..... ایسے سلسلے ہوتے رہتے ہیں...... آپ کی کتابِ زندگی بھی تو ایسے واقعات سے بھر پور ہو گی‘‘ وہ کچھ نہ بولا۔ اور بالکل خاموش ہو گیا۔ جیسے کسی گہرے سمندر میں غوطہ لگا گیا ہے۔ دیر تک جب وہ اپنے خیالات میں غرق رہا اور میں اس کی خاموشی سے اداس ہونے لگا۔ تو میں نے کہا۔ ’’اجی حضرت! آپ کن خیالات میں کھو گئے‘‘؟ وہ چونک پڑا۔ ’’میں....... میں...... کچھ نہیں میں ایسے ہی کچھ سوچ رہا تھا‘‘۔ میں نے پوچھا۔ ’’کوئی بیتی کہانی یاد آ گئی۔ ...... کوئی بچھڑا ہوا سپنا مل گیا........ پرانے زخم ہرے ہو گئے۔‘‘ ’’زخم..... پرانے...... زخم...... کئی زخم نہیں..... صرف ایک ہی ہے، بہت گہرا، بہت کاری..... اور زخم میں چاہتا بھی نہیں۔ ایک ہی زخم کافی ہے‘‘ یہ کہہ کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ اور میرے کمرے میں ٹہلنے کی کوشش کرنے لگا۔ کیونکہ اُس چھوٹی سی جگہ میں جہاں کرسیاں، میز اور چارپائی سب کچھ پڑا تھا۔ ٹہلنے کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ میز کے پاس اُسے رکنا پڑا۔ تصویر کو اب کی دفعہ گہری نظروں سے دیکھا اور کہا‘‘۔ اس میں اور اس میں کتنی مشابہت ہے........ مگر اس کے چہرے پر ایسی شوخی نہیں تھی۔ اس کی آنکھیں بڑی تھیں۔ مگر ان آنکھوں کی طرح ان میں شرارت نہیں تھی۔ وہ فکر مند آنکھیں تھی۔ ایسی آنکھیں جو دیکھتی بھی ہیں اور سمجھتی بھی ہیں‘‘........ یہ کہتے ہوئے اس نے ایک سرد آہ بھری اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ موت بالکل ناقابلِ فہم چیز ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب کہ یہ جوانی میں آئے....... میں سمجھتا ہوں کہ خدا کے علاوہ ایک طاقت اور بھی ہے جو بڑی حاسد ہے۔ جو کسی کو خوش دیکھنا نہیں چاہتی...... مگر چھوڑیے اس قصّے کو۔‘‘ میں نے اس سے کہا۔ ’’نہیں نہیں، آپ سناتے جائیے..... لیکن اگر آپ ایسا مناسب سمجھیں..... سچ پوچھیے تو میں یہ سمجھ رہا تھا۔ کہ آپ نے کبھی محبت کی ہی نہ ہو گی۔‘‘ ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں نے کبھی محبت کی ہی نہیں اور ابھی ابھی تو آپ کہہ رہے تھے کہ میری کتاب زندگی ایسے کئی واقعات سے بھری پڑی ہو گی‘‘۔ یہ کہہ کر اُس نے میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا‘‘۔میں نے اگر محبت نہیں کی تو یہ دکھ میرے دل میں کہاں سے پیدا ہو گیا ہے؟........ میں نے اگر محبت نہیں کی۔ تو میری زندگی کو یہ روگ کہاں سے چمٹ گیا ہے؟........ میں روز بروز موم کی طرح کیوں پگھلا جا رہا ہوں؟ بظاہر یہ تمام سوال وہ مجھ سے کر رہا تھا۔ مگر دراصل وہ سب کچھ اپنے آپ ہی سے پُوچھ رہا تھا۔ میں نے کہا۔ میں نے جھوٹ بولا تھا۔ کہ آپ کی زندگی میں ایسے کئی واقعات ہوں گے۔ مگر آپ نے بھی جھوٹ بولا تھا کہ میں اداس نہیں ہوں اور مجھے کوئی روگ نہیں ہے..... کسی کے دل کا حال جاننا آسان بات نہیں ہے، آپ کی اُداسی کی اور بہت سی وجہیں ہو سکتی ہیں۔ مگر جب تک مجھے آپ خود نہ بتائیں میں کسی نتیجے پر کیسے پہنچ سکتا ہوں......... اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ واقعی روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ آپ کو یقیناًبہت بڑا صدمہ پہنچا ہے اور..... اور ........ مجھے آپ سے ہمدردی ہے۔ ’’ہمدردی.....‘‘ اُس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ ’’مجھے کسی کی ہمدردی کی ضرورت نہیں اس لیے کہ ہمدردی اُسے واپس نہیں لا سکتی..... اس عورت کو موت کی گہرائیوں سے نکال کر میرے حوالے نہیں کر سکتی جس سے مجھے پیار تھا....... آپ نے محبت نہیں کی..... مجھے یقین ہے، آپ نے محبت نہیں کی، اس لیے کہ اس کی ناکامی نے آپ پر کوئی داغ نہیں چھوڑا...... میری طرف دیکھیے‘‘ یہ کہہ کر اُس نے خود اپنے آپ کو دیکھا۔‘‘ کوئی جگہ آپ کو ایسی نہیں ملے گی۔ جہاں میری محبت کے نقش موجود نہ ہوں....... میرا وجود خود اس محبت کی ٹوٹی ہوئی عمارت کا ملبہ ہے....... میں آپ کو یہ داستان کیسے سناؤں اور کیوں سناؤں جب کہ آپ اسے سمجھ ہی نہیں سکیں گے......... کسی کا یہ کہہ دینا کہ میری ماں مر گئی ہے۔ آپ کے دل پر وہ اثر پیدا نہیں کر سکتا۔ جو موت نے بیٹے پر کیا تھا..... میری داستان محبت آپ کو....... کسی کو بھی بالکل معمولی معلوم ہو گی۔ مگر مجھ پر جو اثر ہوا ہے۔ اس سے کوئی بھی آگاہ نہیں ہو سکتا۔ اس لیے کہ محبت میں نے کی ہے۔ اور سب کچھ صرف مجھی پر گزرا ہے۔‘‘ یہ کہہ کر وہ خاموش ہو گیا۔ اس کے حلق میں تلخی پیدا ہو گئی تھی۔ کیونکہ وہ بار بار تھوک نگلنے کی کوشش کر رہا تھا۔ ’’کیا وہ آپ کو دھوکہ دے گئی‘‘۔ میں نے اس سے پوچھا۔‘‘ یا کچھ اور حالات تھے؟‘‘ ’’دھوکا....... وہ دھوکا دے ہی نہیں سکتی تھی۔ خدا کے لیے دھوکا نہ کہیے۔ وہ عورت نہیں فرشتہ تھی۔ مگر بُرا ہوا اس موت کا جو ہمیں خوش نہ دیکھ سکی۔ اور اسے ہمیشہ کے لیے اپنے پروں میں سمیٹ کر لے گئی...... آہ!....... آپ نے میرے دل پر خراشیں پیدا کر دی ہیں۔ سُنیے.... سُنیے، میں آپ کو درد ناک داستان کا کچھ حصّہ سناتا ہوں...... وہ ایک بڑے اور امیر گھیرانے کی لڑکی تھی جس زمانے میں اس کی اور میری پہلی ملاقات ہوئی۔ میں اپنے باپ دادا کی ساری جائیداد عیاشیوں میں برباد کر چکا تھا۔ میرے پاس ایک کوڑی بھی نہیں تھی۔ پھر بمبئی چھوڑ کر میں لکھنو چلا آیا۔ اپنی موٹر چونکہ میرے پاس ہُوا کرتی تھی۔ اس لیے میں صرف موٹر چلانے کا کام جانتا تھا۔ چنانچہ میں نے اسی کو اپنا پیشہ قرار دینے کا فیصلہ کیا۔ پہلی ملازمت مجھے ڈپٹی صاحب کے یہاں ملی۔ جن کی اکلوتی لڑکی تھی..... یہ کہتے کہتے وہ اپنے خیالات میں کھو گیا۔ اور دفعتہ خاموش رہا۔ میں بھی چپ ہو گیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ پھرچونکا اور کہنے لگا۔ ’’میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ ’’آپ ڈپٹی صاحب کے یہاں ملازم ہو گئے۔‘‘ ہاں وہ انہی ڈپٹی صاحب کی اکلوتی لڑکی تھی ہر روز صبح نو بجے میں زہرہ کو موٹر میں سکول لے جایا کرتا تھا۔ وہ پردہ کرتی تھی مگر موٹر ڈرائیور سے کوئی کب تک چھپ سکتا ہے۔ میں نے اسے دوسرے روز ہی دیکھ لیا....... وہ صرف خوبصورت ہی نہیں تھی۔ اس میں ایک خاص بات بھی تھی....... بڑی سنجیدہ اور متین لڑکی تھی۔ اس کی سیدھی مانگ نے اس کے چہرے پر ایک خاص قسم کا وقار پیدا کر دیا تھا...... وہ...... میں کیا عرض کروں وہ کیا تھی۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس کی صورت اور سیرت بیان کر سکوں........ ‘‘ بہت دیر تک وہ اپنی زہرہ کی خوبیاں بیان کرتا رہا۔ اس دوران میں اس نے کئی مرتبہ اس کی تصویر کھینچنے کی کوشش کی۔ مگر ناکام رہا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ خیالات اس کے دماغ میں ضرورت سے زیادہ جمع ہو گئے ہیں۔ کبھی کبھی بات کرتے کرتے اُس کا چہرہ تمتما اٹھتا۔ لیکن پھر اداسی چھا جاتی۔ اور وہ آہوں میں گفتگو کرنا شروع کر دیتا وہ اپنی داستان بہت آہستہ آہستہ سنا رہا تھا۔ جیسے خود بھی مزا لے رہا ہو۔ ایک ایک ٹکڑا جوڑ کر اس نے ساری کہانی پوری کی جس کا ماحصل یہ تھا۔ زہرہ سے اسے بے پناہ محبت ہو گئی۔ کچھ دن تو موقع پا کر اس کا دیدار کرنے اور طرح طرح کے منصوبے باندھنے میں گزر گئے۔ مگر جب اس نے سنجیدگی سے اس محبت پر غور کیا۔ تو خود کو زہرہ سے بہت دُور پایا۔ ایک موٹر ڈرائیور اپنے آقا کی لڑکی سے محبت کیسے کر سکتا ہے۔؟ چنانچہ جب اُس تلخ حقیقت کا احساس اس کے دل میں پیدا ہوا تو وہ مغموم رہنے لگا۔ لیکن ایک دِن اس نے بڑی جرات سے کام لیا کاغذ کے ایک پُرزے پر اُس نے زہرہ کو چند سطریں لکھیں...... یہ سطریں مجھے یاد ہیں۔ ’’زہرہ! میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ تمہارا نوکر ہوں! تمہارے والد صاحب مجھے تیس روپے ماہوار دیتے ہیں۔ مگر میں تم سے محبت کرتا ہُوں..... میں کیا کروں، کیا نہ کروں، میری سمجھ میں نہیں آتا......‘‘ یہ سطریں کاغذ پر لکھ کر اس نے کاغذ اس کی کتاب میں رکھ دیا۔ دوسرے روز جب وہ اُسے موٹر میں اسکول لے گیا۔ تو اُس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔ ہینڈل کئی بار اس کی گرفت سے نکل نکل گیا۔ مگر خدا کا شکر ہے۔ کہ کوئی ایکسی ڈنٹ نہ ہُوا۔ اس روز اس کی کیفیت عجیب رہی۔ شام کو جب وہ زہرہ کو اسکول سے واپس لا رہا تھا۔ تو راستے میں اس لڑکی نے موٹر روکنے کے لیے کہا۔ اُس نے جب موٹر روک لی۔ تو زہرہ نے نہایت سنجیدگی کے ساتھ کہا‘‘۔ دیکھو نعیم آئندہ تم ایسی حرکت کبھی نہ کرنا۔ میں نے ابھی تک ابّا جی سے تمہارے اُس خط کا ذکر نہیں کیا۔ جو تم نے میرے کتاب میں رکھ دیا تھا۔ لیکن اگر پھر تم نے ایسی حرکت کی۔ تو مجبوراً اُن سے شکایت کرنا پڑے گی۔ سمجھے..... چلو اب موٹر چلاؤ۔‘‘ اس گفتگو کے بعد اُس نے بہت کوشش کی کہ ڈپٹی صاحب کی نوکری چھوڑ دے اور زہرہ کی محبت کو اپنے دل سے ہمیشہ کے لیے مٹا دے۔ مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ ایک مہینہ اسی کشمکش میں گزر گیا۔ ایک روز اس نے پھر جرأت سے کام لے کر خط لکھا اور زہرہ کی ایک کتاب میں رکھ کر اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کرنے لگا۔ اُسے یقین تھا کہ دوسرے روز صبح کو اُسے نوکری سے برطرف کر دیا جائے گا۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ شام کو اسکول سے واپس آتے ہُوئے زہرہ اس سے ہم کلام ہُوئی ایک بار پھر اُس کو ایسی حرکتوں سے باز رہنے کے لیے کہا۔ ’’اگر تمہیں اپنی عزت کا خیال نہیں تو کم از کم میری عزت کا تو کچھ خیال تمہیں ہونا چاہیے‘‘ یہ اس نے ایک بار پھراُسے کچھ سنجیدگی اور متانت سے کہا۔ کہ نعیم کی ساری امیدیں فنا ہو گئیں۔ اور اس نے قصد کر لیا کہ وہ نوکری چھوڑ دے گا۔ اور لکھنؤ سے ہمیشہ کے لیے چلا جائے گا۔ مہینے کے اخیر میں نوکری چھوڑنے سے پہلے اُس نے اپنی کوٹھڑی میں لالٹین کی مدھم روشنی میں زہرہ کو آخری خط لکھا۔ اس میں اُس نے نہایت درد بھرے لہجے میں اس سے کہا۔ ’’زہرہ! میں نے بہت کوشش کی کہ میں تمہارے کہے پر عمل کر سکوں مگر دل پر میرا اختیار نہیں ہے۔ یہ میرا آخری خط ہے۔ کل شام کو میں لکھنؤ چھوڑ دوں گا۔ اس لیے تمہیں اپنے والد صاحب سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری خاموشی میری قسمت کا فیصلہ کر دے گی۔ مگر یہ خیال نہ کرنا کہ تم سے دُور رہ کر تم سے محبت نہیں کروں گا۔ میں جہاں کہیں بھی رہوں گا۔ میرا دل تمہارے قدموں میں ہو گا.... میں ہمیشہ اُن دنوں کو یاد کرتا رہوں گا۔ جب میں موٹر آہستہ آہستہ چلاتا تھا کہ تمہیں دھکا نہ لگے..... میں اس کے سوا اور تمہارے لیے کر ہی کیا سکتا تھا..... ‘‘ یہ خط بھی اُس نے موقع پاکر اُس کتاب میں رکھ دیا۔ صبح کو زہرہ نے اسکول جاتے ہوئے اُس سے کوئی بات نہ کی۔ اور شام کو بھی راستے میں اُس نے کچھ نہ کہا۔ چنانچہ وہ بالکل نا امید ہو کر اپنی کوٹھڑی میں چلا آیا۔ جو تھوڑا بہت اسباب اس کے پاس تھا باندھ کر اُس نے ایک طرف رکھ دیا۔ اور لالٹین کی اندھی روشنی میں چارپائی پر بیٹھ کر سوچنے لگا۔ کہ زہرہ اور اس کے درمیان کتنا بڑا فاصلہ ہے۔ وہ بے حد مغموم تھا۔ اپنی پوزیشن سے اچھی طرح واقف تھا۔ اُسے اس بات کا احساس تھا کہ وہ ایک ادنیٰ درجے کا ملازم ہے اور اپنے آقا کی لڑکی سے محبت کرنے کا کوئی حق نہیں رکھتا۔ لیکن اس کے باوجود کبھی کبھی بے اختیار ا س سے محبت کرتا ہے تو اس میں اس کا کیا قصور ہے اور پھر اس کی محبت فریب تو نہیں۔ وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ آدھی رات کے قریب اس کی کوٹھڑی کے دروازے پر دستک ہُوئی۔ اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ لیکن پھر اُس نے خیال کیا۔ کہ مالی ہو گا ممکن ہے اس کے گھر میں کوئی ایکا ایکی بیمار پڑ گیا ہو۔ اور وہ اس سے مدد لینے کے لیے آیا ہو۔ لیکن جب اُس نے دروازہ کھولا تو زہرہ سامنے کھڑی تھی...... جی ہاں زہرہ...... دسمبر کی سردی میں شال کے بغیر وہ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اُس کی زبان گنگ ہو گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ کیا کہے، چند لمحات قبر کی سی خاموشی میں گزر گئے۔ آخر زہرہ کے ہونٹ وا ہُوئے اور تھرتھراتے ہوئے لہجے میں اُس نے کہا۔ ’’نعیم میں تمہارے پاس آ گئی ہوں۔ بتاؤ اب تم کیا چاہتے ہو..... لیکن اس سے پہلے کہ تمہاری اس کوٹھڑی میں داخل ہوں۔ میں تم سے چند سوال کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ نعیم خاموش رہا۔ لیکن زہرہ اس سے پوچھنے لگی۔ ’’کیا واقعی تم مجھ سے محبت کرتے ہو؟‘‘ نعیم کو جیسے ٹھیس سی لگی۔ اس کا چہرہ تمتما اُٹھا۔ ’’زہرہ تم نے ایسا سوال کیا ہے جس کا جواب اگر میں دوں تو میری محبت کی توہین ہو گی...... میں تم سے پوچھتا ہوں۔‘‘ کیا میں محبت نہیں کرتا؟‘‘ زہرہ نے اس سوال کا جواب نہ دیا۔ اور تھوڑی دیر خاموش رہ کر اپنا دوسرا سوال’’میرے باپ کے پاس دولت ہے، مگر میرے پاس ایک پھوٹی کوڑی بھی نہیں، جو کچھ میرا کہا جاتا ہے میرا نہیں ہے، ان کا ہے۔ کیا تم مجھے دولت کے بغیر بھی ویسا ہی عزیز سمجھو گے؟‘‘ نعیم بہت جذباتی آدمی تھا۔ چنانچہ اس سوال نے بھی اُس کے وقار کو زخمی کیا بڑے دُکھ بھرے لہجے میں اُس نے زہرہ سے کہا۔ ’’زہرہ خدا کے لیے مجھ سے ایسی باتیں نہ پوچھو جن کا جواب اس قدر عام ہو چکا ہے کہ تمہیں تھرڈ کلاس عشقیہ ناولوں میں بھی مل سکتا ہے‘‘ زہرہ اس کی کوٹھڑی میں داخل ہو گئی۔ اور اس کی چارپائی پر بیٹھ کر کہنے لگی۔ ’’میں تمہاری ہوں اور ہمیشہ تمہاری رہوں گی۔‘‘ زہرہ نے اپنا قول پورا کیا جب دونوں لکھنو چھوڑ کر دہلی چلے آئے اور شادی کرکے ایک چھوٹے سے مکان میں رہنے لگے۔ تو ڈپٹی صاحب ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں پہنچ گئے۔ نعیم کو نوکری مل گئی تھی۔ اس لیے وہ گھر میں نہیں تھا۔ ڈپٹی صاحب نے زہرہ کو بہت بُرا بھلا کہا۔ ان کی ساری عزت خاک میں مل گئی تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ زہرہ نعیم کو چھوڑ دے اور جو کچھ ہو چکا ہے اسے بھولا جائے۔ وہ نعیم کو دو تین ہزار روپیہ دینے کے لیے بھی تیار تھے۔ مگر انھیں ناکام لوٹنا پڑا۔ اس لیے کہ زہرہ نعیم کو کسی قیمت پر بھی چھوڑنے کے لیے تیار نہ ہوئی۔ اس نے اپنے باپ سے کہا۔ ’’ابّا جی! میں نعیم (کے) ساتھ بہت خوش ہوں۔ آپ اس سے اچھا شوہر میرے لیے کبھی تلاش نہیں کر سکتے۔ میں اور وہ آپ سے کچھ نہیں مانگتے۔ اگر آپ ہمیں دعائیں دے سکیں۔ تو ہم آپ کے ممنون ہوں گے۔‘‘ ڈپٹی صاحب نے جب یہ گفتگو سُنی تو بہت خشم آلود ہُوئے۔ انھوں نے نعیم کو قید کرا دینے کی دھمکی بھی دی مگر زہرہ نے صاف صاف کہہ دیا۔ ابّا جی! اس میں نعیم کا کیا قصور ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم دونوں بے قصور ہیں۔ البتہ ہم ایک دوسرے سے محبت ضرور کرتے ہیں اور وہ میرا شوہر ہے.... یہ کوئی قصور نہیں ہے میں نابالغ نہیں ہوں۔‘‘ ڈپٹی صاحب عقلمند تھے، فوراً سمجھ گئے کہ جب ان کی بیٹی ہی رضامند ہے تو نعیم پر کیسے جُرم عائد ہو سکتا ہے۔ چنانچہ وہ زہرہ کو ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلے گئے۔ کچھ عرصے کے بعد ڈپٹی صاحب نے مختلف لوگوں کے ذریعے سے نعیم پر دباؤ ڈالنے اور اس کو روپے پیسے سے لالچ دینے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ دونوں کی زندگی بڑے مزے میں گزر رہی تھی۔ گو نعیم کی آمدن بہت ہی کم تھی۔ اور زہرہ کو جو نازونعم میں پلی تھی۔ بدن پر کھُردرے کپڑے پہننے پڑتے تھے۔ اور اپنے ہاتھ سے سب کام کرنے پڑتے تھے۔ مگر وہ خوش تھی۔ اور خود کو ایک نئی دنیا میں پاتی تھی۔ وہ بہت سکھی تھی...... بہت سکھی۔ نعیم بھی بہت خوش تھا۔ لیکن ایک روز خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ زہرہ کے سینے میں موذی درد اٹھا اور پیشتر اس کے کہ نعیم اس کے لیے کچھ کر سکے وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی اور نعیم کی دنیا ہمیشہ کے لیے تاریک ہو گئی۔ یہ داستان اُس نے رُک رُک کر اور خود مزے لے لے کر قریباً چار گھنٹوں میں سنائی۔ جب وہ اپنا حال دل سنا چکا۔ تو اس کا چہرہ بجائے زرد ہونے کے تمتما اُٹھا جیسے اُس کے اندر آہستہ آہستہ کسی نے خون داخل کر دیا ہے۔ لیکن اس کی آنکھوں میں آنسوتھے اور اس کا حلق سوکھ گیا تھا۔ داستان جب ختم ہوئی۔ تو وہ فوراً اٹھ کھڑا ہوا۔ جیسے اسے بہت جلدی ہے اور کہنے لگا۔ ’’میں نے بہت غلطی کی...... جو آپ کو اپنی داستانِ محبت سنا دی...... میں نے بہت غلطی کی....... زہرہ کا ذکر صرف مجھی تک محدود رہنا چاہیے تھا..... لیکن...... اُس کی آواز بھرّا گئی..... میں زندہ ہُوں اور وہ...... وہ........ اس سے آگے وہ کچھ نہ کہہ سکا اور جلدی سے میرا ہاتھ دبا کر کمرے سے باہر چلا گیا۔ نعیم سے پھر میری ملاقات نہ ہوئی۔ اپولوبندر پر کئی مرتبہ اس کی تلاش میں گیا۔ مگر وہ نہ ملا چھ یا سات مہینے کے بعد اُس کا ایک خط مجھے ملا۔ جو میں یہاں پر نقل کر رہا ہوں...... صاحب! آپ کو یاد ہو گا۔ میں نے آپ کے مکان پر اپنی داستانِ محبت سنائی تھی۔ وہ محض فسانہ تھا۔ ایک جھوٹا فسانہ کوئی زہرہ ہے نہ نعیم..... میں ویسے موجود تو ہوں مگر وہ نعیم نہیں ہوں جس نے زہرہ سے محبت کی تھی۔ آپ نے ایک بار کہا تھا کہ بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو محبت کے معاملے میں بانجھ ہوتے ہیں۔ میں بھی ان بدقسمت آدمیوں میں سے ایک ہُوں جس کی ساری جوانی اپنا دل پرچانے میں گزرگئی۔ زہرہ سے نعیم کی محبت ایک دلی بہلاوا تھا اور زہرہ کی موت..... میں ابھی تک نہیں سمجھ سکا۔ کہ میں نے اسے کیوں مار دیا۔ بہت ممکن ہے کہ اس میں بھی میری زندگی کی سیاہی کا دخل ہو۔ مجھے معلوم نہیں۔ آپ نے میرے افسانے کو جھوٹا سمجھا یا سچا لیکن میں آپ کو ایک عجیب و غریب بات بتاتا ہوں کہ میں نے..... یعنی اُس جھوٹے افسانے کے خالق نے اس کو بالکل سچا سمجھا۔ سو فیصدی حقیقت پر مبنی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں نے واقعی زہرہ سے محبت کی ہے۔ اور وہ سچ مچ مر چکی ہے۔ آپ کو یہ سُن کر اور بھی تعجب ہو گا کہ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا۔ اُس افسانے کے اندر حقیقت کا عنصر زیادہ ہوتا گیا۔ اور زہرہ کی آواز ، اُس کی ہنسی بھی میرے کانوں میں گونجنے لگی۔ میں اُس کے سانس کی گرمی تک محسوس کرنے لگا۔ افسانے کا ہر ذرہ جاندار ہو گیااور میں نے....... اور میں نے یوں اپنی قبر اپنے ہاتھوں سے کھودی.... ۔ زہرہ فسانہ نہ سہی مگر میں تو فسانہ ہوں۔ وہ مر چکی ہے۔ اس لیے مجھے بھی مر جانا چاہیے۔ یہ خط آپ کو میری موت کے بعد ملے گا....... الوداع...... زہرہ مجھے ضرور ملے گی..... کہاں!...... یہ مجھے معلوم نہیں۔ میں نے یہ چند سطور صرف اس لیے آپ کو لکھ دیے ہیں کہ آپ افسانہ نگار ہیں اگر اس سے آپ افسانہ تیار کر لیں تو آپ کو سات آٹھ روپے مل جائیں گے۔ کیونکہ ایک مرتبہ آپ نے کہا تھا کہ افسانے کا معاوضہ آپ کو سات سے دس روپے تک مل جایا کرتا ہے۔ یہ میرا تحفہ ہو گا۔ اچھا الوداع۔‘‘ آپ کا ملاقاتی۔ ’’نعیم‘‘ نعیم نے اپنے لیے زہرہ بنائی اور مر گیا..... میں نے اپنے لیے یہ افسانہ تخلیق کیا ہے اور زندہ ہوں..... یہ میری زیادتی ہے۔[/size]

Amna Tuesday, July 28, 2015 01:40 PM

7.Hatak
 
[size="5"]
دن بھر کی تھکی ماندی وہ ابھی ابھی اپنے بستر پر لیٹی تھی اور لیٹتے ہی سو گئی۔ میونسپل کمیٹی کا داروغہ صفائی، جسے وہ سیٹھ جی کے نام سے پکارا کرتی تھی۔ ابھی ابھی اس کی ہڈیاں پسلیاں جھنجھوڑ کر شراب کے نشے میں چُور، گھر واپس گیا تھا۔۔۔ وہ رات کو یہیں پر ٹھہر جاتا مگر اسے اپنی دھرم پتنی کا بہت خیال تھا۔ جو اس سے بے حد پریم کرتی تھی۔ وہ روپے جو اس نے اپنی جسمانی مشقت کے بدلے اس داروغہ سے وصول کیے تھے، اس کی چست اور تھوک بھری چولی کے نیچے سے اوپر کو ابھرے ہوئے تھے۔ کبھی کبھی سانس کے اتار چڑھاؤ سے چاندی کے یہ سکے کھنکھنانے لگتے۔ اور اس کی کھنکھناہٹ اس کے دل کی غیر آہنگ دھڑکنوں میں گھل مل جاتی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ ان سکّوں کی چاندی پگھل کر اس کے دل کے خون میں ٹپک رہی ہے! اس کا سینہ اندر سے تپ رہا تھا۔ یہ گرمی کچھ تو اس برانڈی کے باعث تھی جس کا ادّھا داروغہ اپنے ساتھ لایا تھا۔ اور کچھ اس’’بیوڑا‘‘ کا نتیجہ تھی جس کا سوڈا ختم ہونے پر دونوں نے پانی ملا کر پیا تھا۔ وہ ساگوان کے لمبے اور چوڑے پلنگ پر اوندھے منہ لیٹی تھی۔ اس کی باہیں جو کاندھوں تک ننگی تھیں، پتنگ کی اس کانپ کی طرح پھیلی ہوئی تھیں جو اوس میں بھیگ جانے کے باعث پتلے کاغذ سے جدا ہو جائے۔ دائیں بازو کی بغل میں شکن آلود گوشت ابھرا ہوا تھا۔ جو بار بار مونڈنے کے باعث نیلی رنگت اختیار کرگیا تھا۔ جیسے نُچی ہوئی مرغی کی کھال کا ایک ٹکڑا وہاں پر رکھ دیا گیا ہے۔ کمرہ بہت چھوٹا تھا جس میں بے شمار چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں۔ تین چار سوکھے سڑے چپل پلنگ کے نیچے پڑے تھے جن کے اوپر منہ رکھ کر ایک خارش زدہ کتا سورہا تھا۔ اور نیند میں کسی غیر مرئی چیز کا منہ چڑا رہا تھا۔ اس کتے کے بال جگہ جگہ سے خارش کے باعث اڑے ہوئے تھے۔ دور سے اگرکوئی اس کتے کو دیکھتا۔ تو سمجھتا کہ پیر پونچھنے والا پرانا ٹاٹ دوہرا کرکے زمین پررکھا ہے۔ اس طرف چھوٹے سے دیوار گیر پرسنگار کا سامان رکھا تھا۔ گالوں پر لگانے کی سرخی، ہونٹوں کی سرخ بتی، پاؤڈر، کنگھی اور لوہے کے پِن جو وہ غالباً اپنے جوڑے میں لگایا کرتی تھی۔ پاس ہی ایک لمبی کھونٹی کے ساتھ سبز طوطے کا پنجرہ لٹک رہا تھا۔ جو گردن کو اپنی پیٹھ کے بالوں میں چھپائے سو رہا تھا۔ پنجرہ کچے امرود کے ٹکڑوں اور گلے ہوئے سنگترے کے چھلکوں سے بھرا پڑا تھا۔ ان بدبودار ٹکڑوں پر چھوٹے چھوٹے کالے رنگ کے مچھر یا پتنگ اڑ رہے تھے۔ پلنگ کے پاس ہی بید کی ایک کرسی پڑی تھی۔ جس کی پشت سر ٹیکنے کے باعث بے حد میلی ہورہی تھی۔ اس کرسی کے دائیں ہاتھ کو ایک خوبصورت تپائی تھی جس پر ہِز ماسٹر زوائس کا پورٹ ایبل گرامو فون پڑا تھا، اس گراموفون پر منڈھے ہوئے کالے کپڑے کی بہت بُری حالت تھی۔زنگ آلود سوئیاں تپائی کے علاوہ کمرے کے ہر کونے میں بکھری ہوئی تھیں۔ اس تپائی کے عین اوپر دیوار پر چار فریم لٹک رہے تھے۔ جن میں مختلف آدمیوں کی تصویریں جڑی تھیں۔ ان تصویروں سے ذرا ہٹ کر یعنی دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف کی دیوار کے کونے میں گنیش جی کی شوخ رنگ کی تصویر جو تازہ اور سوکھے ہوئے پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ شاید یہ تصویر کپڑے کے کسی تھان سے اتار کر فریم میں جڑائی گئی تھی۔اس تصویر کے ساتھ چھوٹے سے دیوار گیر پر جو کہ بے حد چکنا ہورہا تھا، تیل کی ایک پیالی دھری تھی۔ جو دِیے کو روشن کرنے کے لیے رکھی گئی تھی۔ پاس ہی دِیا پڑا تھا۔ جس کی لَو ہوا بند ہونے کے باعث ماتھے کے مانند سیدھی کھڑی تھی۔ اس دیوار گیر پر روئی کی چھوٹی بڑی مروڑیاں بھی پڑی تھیں۔ جب وہ بوہنی کرتی تھی تو دور سے گنیش جی کی اس مورتی سے روپے چھوا کر اور پھر اپنے ماتھے کے ساتھ لگا کر انھیں اپنی چولی میں رکھ لیا کرتی تھی۔ اس کی چھاتیاں چونکہ کافی ابھری ہوئی تھیں اس لیے وہ جتنے روپے بھی اپنی چولی میں رکھتی محفوظ پڑے رہتے تھے۔ البتہ کبھی کبھی جب مادھو پونے سے چھٹی لے کر آتا تو اسے اپنے کچھ روپے پلنگ کے پائے کے نیچے اس چھوٹے سے گڑھے میں چھپانا پڑتے تھے۔ جو اس نے خاص اس کام کی غرض سے کھودا تھا۔ مادھو سے روپے محفوظ رکھنے کا یہ طریقہ سو گندھی کورام لال دلال نے بتایا تھا۔ اس نے جب یہ سنا کہ مادھو پونے سے آکر سو گندھی پر دھاوے بولتا ہے تو کہا تھا۔۔۔’’ اس سالے کو تو نے کب سے یار بنایا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔ یہ بڑی انوکھی عاشقی معشوقی ہے۔‘‘ ’’ایک پیسہ اپنی جیب سے نکالتا نہیں اور تیرے ساتھ مزے اڑاتا رہتا ہے، مزے الگ رہے، تجھ سے کچھ لے بھی مرتا ہے۔۔۔ سوگندھی! مجھے کچھ دال میں کالا نظر آتا ہے۔ اس سالے میں کچھ بات ضرور ہے۔ جو تجھے بھا گیا ہے۔۔۔ سات سال۔۔۔ سے یہ دھندا کررہا ہوں۔ تم چھوکریوں کی ساری کمزوریاں جانتا ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر رام لال دلال نے جو بمبئی شہر کے مختلف حصوں سے دس روپے سے لے کرسو روپے تک والی ایک سو بیس چھوکریوں کا دھندا کرتا تھا۔ سوگندھی کو بتایا۔۔۔۔۔۔ ’’سالی اپنا دھن یوں نہ برباد کر۔۔۔تیرے انگ پر سے یہ کپڑا بھی اتار کر لے جائے گا۔ وہ تیری ماں کا یار۔۔۔۔۔۔ اس پلنگ کے پائے کے نیچے چھوٹا سا گڑھا کھود کر اس میں سارے پیسے دبا دیا کر اور جب وہ یار آیا کرے تو اس سے کہا۔۔۔ تیری جان کی قسم مادھو، آج صبح سے ایک دھیلے کا منہ نہیں دیکھا۔ باہر والے سے کہہ کر ایک کپ چائے اور افلاطون بسکٹ تو منگا۔ بھوک سے میرے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔۔۔ سمجھیں! بہت نازک وقت آگیا ہے میری جان۔۔۔ اس سالی کانگرس نے شراب بند کرکے بازار بالکل مندا کردیا ہے۔ پر تجھے تو کہیں نہ کہیں سے پینے کو مل ہی جاتی ہے، بھگوان کی قسم، جب تیرے یہاں کبھی رات کی خالی کی ہوئی بوتل دیکھتا ہوں اور دارو کی باس سونگھتا ہوں تو جی چاہتا ہے تیری جون میں چلا جاؤں۔‘‘ سو گندھی کو اپنے جسم میں سب سے زیادہ اپنا سینہ پسند تھا۔ ایک بار جمنا نے اس سے کہا تھا۔ ’’نیچے سے ان بمب کے گولوں کو باندھ کے رکھا کر،انگیا پہنے گی تو ان کی سختائی ٹھیک رہے گی۔‘‘ سو گندھی یہ سن کر ہنس دی۔’’جمنا تو سب کو اپنے مری کا سمجھتی ہے۔ دس روپے میں لوگ تیری بوٹیاں توڑ کر چلے جاتے ہیں۔ تُو تو سمجھتی ہے کہ سب کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوتا ہوگا۔۔۔ کوئی موا لگائے تو ایسی ویسی جگہ ہاتھ۔۔۔ ارے ہاں، کل کی بات تجھے سناؤں رام لال رات کے دوبجے ایک پنجابی کو لایا۔ رات کا تیس روپے طے ہوا۔۔۔ جب سونے لگے تو میں نے بتی بجھا دی۔۔۔ ارے وہ تو ڈرنے لگا ۔۔۔ سنتی ہو جمنا؟ تیری قسم اندھیرا ہوتے ہی اس کا سارا ٹھاٹھ کرکرا ہوگیا!۔۔۔ وہ ڈرگیا! میں نے کہا چلو چلو دیر کیوں کرتے ہو۔ تین بجنے والے ہیں، اب دن چڑھ آئے گا ۔۔۔ بولا۔۔۔ روشنی کرو۔۔۔ روشنی کرو۔۔۔ میں نے کہا، یہ روشنی کیا ہوا۔۔۔ بولا لائٹ ۔۔۔ لائٹ! ۔۔۔ اس کی بھینچی ہوئی آواز سن کر مجھ سے ہنسی نہ رکی۔’’بھئی میں تو لائٹ نہ کروں گی!‘‘۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہہ کر میں نے اس کی گوشت بھری ران کی چٹکی لی۔۔۔ تڑپ کر اٹھ بیٹھا اور لائٹ اون کردی میں نے جھٹ سے چادر اوڑھ لی، اور کہا، تجھے شرم نہیں آتی مردوے!‘‘ ۔۔۔۔۔۔ وہ پلنگ پر آیا تو میں اٹھی اور لپک کر لائٹ بجھا دی!۔۔۔۔۔۔ وہ پھر گھبرانے لگا۔۔۔تیری قسم بڑے مزے میں رات کٹی، کبھی اندھیرا کبھی اجالا، کبھی اجالا، کبھی اندھیرا۔۔۔ ٹرام کی کھڑکھڑ ہوئی تو پتلون و تلون پہن کر وہ اٹھ بھاگا۔۔۔ سالے نے تیس روپے سٹے میں جیتے ہوں گے۔ جو یوں مفت دے گیا۔۔۔ جمنا تو بالکل الھڑ ہے۔ بڑے بڑے گُر یاد ہیں مجھے ان لوگوں کے ٹھیک کرنے کے لیے!‘‘ سو گندھی کو واقعی بہت سے گر یاد تھے جو اس نے اپنی ایک دو سہیلیوں کو بتائے بھی تھے۔ عام طور پر وہ یہ گرسب کو بتایا کرتی تھی ۔۔۔ ’’اگر آدمی شریف ہو، زیادہ باتیں نہ کرنے والا ہو تو اس سے خوب شرارتیں کرو، ان گنت باتیں کرو۔ اسے چھیڑو ستاؤ، اس کے گدگدی کرو۔ اس سے کھیلو۔۔۔ اگر داڑھی رکھتا ہو تو اس میں انگلیوں سے کنگھی کرتے کرتے دو چار بال بھی نوچ لو پیٹ بڑا ہو تو تھپتھپاؤ۔۔۔ اس کو اتنی مہلت ہی نہ دو کہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرنے پائے۔۔۔ وہ خوش خوش چلا جائے گا اور رقم بھی بچی رہے گی ۔۔۔ ایسے مرد جو گُپ چُپ رہتے ہیں بڑے خطرناک ہوتے ہیں بہن۔۔۔ ہڈی پسلی توڑ دیتے ہیں اگر ان کا داؤ چل جائے۔ سوگندھی اتنی چالاک نہیں تھی جتنی خود کو ظاہرکرتی تھی۔اس کے گاہک بہت کم تھے غایت درجہ جذباتی لڑکی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام گر جو اسے یاد تھے اس کے دماغ سے پھسل کر اس کے پیٹ میں آجاتے تھے جس پر ایک بچہ پیدا کرنے کے باعث کئی لکیریں پڑ گئی تھیں ۔۔۔ ان لکیروں کو پہلی مرتبہ دیکھ کر اسے ایسا لگا تھا کہ اس کے خارش زدہ کتے نے اپنے پنجے سے یہ نشان بنا دیے ہیں۔ سوگندھی دماغ میں زیادہ رہتی تھی لیکن جونہی کوئی نرم نازک بات۔۔۔ کوئی کومل بولی۔۔۔ اس سے کہتا تو جھٹ پگھل کر وہ اپنے جسم کے دوسرے حصوں میں پھیل جاتی۔ گو مرد اور عورت کے جسمانی ملاپ کو اس کا دماغ بالکل فضول سمجھتا تھا۔ مگر اس کے جسم کے باقی اعضاء سب کے سب اس کے بہت بری طرح قائل تھے! وہ تھکن چاہتے تھے۔۔۔ ایسی تھکن جو انھیں جھنجھوڑ کر۔۔۔ اسے مارکر سلانے پر مجبور کردے!ایسی نیند جو تھک کر چور چور ہو جانے کے بعد آئے، کتنی مزیدار ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ بے ہوشی جو مار کھا کر بند بند ڈھیلے ہو جانے پر طاری ہوتی ہے، کتنا آنند دیتی ہے!۔۔۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ تم ہو اور کبھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تم نہیں اور اس ہونے اور نہ ہونے کے بیچ میں کبھی کبھی ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ تم ہوا میں بہت اونچی جگہ لٹکی ہوئی ہو۔ اوپر ہوا، نیچے ہوا، دائیں ہوا، بائیں ہوا، بس ہوا ہی ہوا ! اور پھر اس ہوا میں دم گھٹنا بھی ایک خاص مزا دیتا ہے۔ بچپن میں جب وہ آنکھ مچولی کھیلا کرتی تھی، اور اپنی ماں کا بڑا صندوق کھول کر اس میں چھپ جایا کرتی تھی، تو ناکافی ہوا میں دم گھٹنے کے ساتھ ساتھ پکڑے جانے کے خوف سے وہ تیز دھڑکن جو اس کے دل میں پیدا ہوجایا کرتی تھی کتنا مزا یاد کرتی تھی۔ سوگندھی چاہتی تھی کہ اپنی ساری زندگی کسی ایسے ہی صندوق میں چھپ کر گزار دے۔ جس کے باہر ڈھونڈنے والے پھرتے رہیں۔ کبھی کبھی اس کو ڈھونڈ نکالیں تاکہ وہ کبھی ان کو ڈھونڈنے کی کوشش کرے! یہ زندگی جو وہ پانچ برس سے گزاررہی تھی آنکھ مچولی ہی تو تھی!۔۔۔ کبھی وہ کسی کو ڈھونڈ لیتی تھی اور کبھی کوئی اسے ڈھونڈ لیتا تھا۔۔۔ بس یونہی اس کا جیون بیت رہا تھا۔ وہ خوش تھی اس لیے کہ اس کو خوش رہنا پڑتا تھا۔ ہر روز رات کو کوئی نہ کوئی مرد اس کے چوڑے ساگوانی پلنگ پر ہوتا تھا اور سوگندھی جس کو مردوں کے ٹھیک کرنے کے لیے بے شمار گُر یاد تھے۔ اس بات کا بار بار تہیہ کرنے پر بھی کہ وہ ان مردوں کی کوئی ایسی ویسی بات نہیں مانے گی۔ اور ان کے ساتھ بڑے روکھے پن کے ساتھ پیش آئے گی۔ ہمیشہ اپنے جذبات کے دھارے میں بہہ جایا کرتی تھی اور فقط ایک پیاسی عورت رہ جایا کرتی تھی! ہرروز رات کو اس کا پرانا یا نیا ملاقاتی اس سے کہا کرتا تھا۔’’سوگندھی میں تجھ سے پریم کرتا ہوں۔‘‘ اور سوگندھی یہ جان بوجھ کر بھی کہ وہ جھوٹ بولتا ہے بس موم ہو جاتی تھی اور ایسا محسوس کرتی تھی جیسے سچ مچ اس سے پریم کیا جارہا ہے۔۔۔۔۔۔پریم۔۔۔۔۔۔ کتنا سندر بول ہے! وہ چاہتی تھی، اس کو پگھلا کر اپنے سارے انگوں پر مل لے اس کی مالش کرے تاکہ یہ سارے کا سارا اس کے مساموں میں رچ جائے ۔۔۔ یا پھر وہ خود اس کے اندر چلی جائے۔ سمٹ سمٹا کر اس کے اندر داخل ہو جائے اور اوپر سے ڈھکنا بند کردے۔ کبھی کبھی جب پریم کیے جانے کا جذبہ اُس کے اندر بہت شدت اختیار کرلیتا تو کئی بار اس کے جی میں آتا کہ اپنے پاس پڑے ہوئے آدمی کو گود ہی میں لے کر تھپتھپانا شروع کردے اور لوریاں دے کر اسے گود ہی میں سلا دے۔ پریم کر سکنے کی اہلیت اس کے اندر اس قدر زیادہ تھی کہ ہر اس مرد سے جو اس کے پاس آتا تھا۔ وہ محبت کرسکتی تھی۔ اور پھر اس کو نباہ بھی سکتی تھی۔ اب تک چار مردوں سے اپنا پریم نباہ ہی تو رہی تھی جن کی تصویریں اس کے سامنے دیوار پرلٹک رہی تھیں۔ ہروقت یہ احساس اس کے دل میں موجود رہتا تھا کہ وہ بہت اچھی ہے لیکن یہ اچھا پن مردوں میں کیوں نہیں ہوتا۔ یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی۔۔۔ ایک بار آئینہ دیکھتے ہوئے بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا تھا۔۔۔ ’’سو گندھی۔۔۔ تجھ سے زمانے نے اچھا سلوک نہیں کیا!‘‘ یہ زمانہ یعنی پانچ برسوں کے دن اور ان کی راتیں، اس کے جیون کے ہر تار کے ساتھ وابستہ تھا۔ گو اس زمانے سے اُس کو خوشی نصیب نہیں ہوئی تھی جس کی خواہش اس کے دل میں موجود تھی۔ تاہم وہ چاہتی تھی کہ یونہی اس کے دن بیتتے چلے جائیں، اسے کون سے محل کھڑے کرنا تھے جو روپے پیسے کا لالچ کرتی۔ دس روپے اس کا عام نرخ تھا جس میں سے ڈھائی روپے رام لال اپنی دلالی کے کاٹ لیتا تھا۔ ساڑے سات روپے اسے روز مل ہی جایا کرتے تھے جو اس کی اکیلی جان کے لیے کافی تھے۔ اور مادھو جب پونے سے بقول رام لال دلال، سوگندھی پر دھاوے بولنے کے لیے آتا تھا تو وہ دس پندرہ روپے خراج بھی ادا کرتی تھی! یہ خراج صرف اس بات کا تھا کہ سوگندھی کو اس سے کچھ وہ ہوگیا تھا۔ رام لال دلال ٹھیک کہتا تھا اس میں ایسی بات ضرور تھی جو سوگندھی کو بہت بھا گئی تھی۔ اب اس کو چھپانا کیا! بتا ہی کیوں نہیں دیں!۔۔۔ سوگندھی سے جب مادھو کی پہلی ملاقات ہوئی تو اس نے کہا تھا۔’’تجھے لاج نہیں آتی اپنا بھاؤ کرتے! جانتی ہے تو میرے ساتھ کس چیز کا سودا کررہی ہے ۔۔۔۔۔۔ اور میں تیرے پاس کیوں آیا ہوں؟۔۔۔۔۔۔ چھی چھی چھی ۔۔۔۔۔۔ دس روپے اور جیسا کہ تو کہتی ہے ڈھائی روپے دلال کے، باقی رہے ساڑھے سات، رہے نا ساڑھے سات؟۔۔۔۔۔۔ اب ان ساڑھے سات روپوں پر تو مجھے ایسی چیز دینے کا وچن دیتی ہے جو تو دے ہی نہیں سکتی اور میں ایسی چیز لینے آیا۔ جو میں لے ہی نہیں سکتا ۔۔۔ مجھے عورت چاہیے پر تجھے کیا اس وقت اسی گھڑی مرد چاہیے؟۔۔۔۔۔۔ مجھے تو کوئی عورت بھی بھا جائے گی پر کیا میں ستجھے جچتا ہوں!۔۔۔۔۔۔ تیرا میرا ناطہ ہی کیا ہے کچھ بھی نہیں۔۔۔ بس یہ دس روپے، جن میں سے ڈھائی روپے دلال میں چلے جائیں گے اور باقی ادھر ادھر بکھر جائیں گے، تیرے اورمیرے بیچ میں بج رہے ہیں۔۔۔ تو بھی ان کا بجنا سن رہی ہے اور میں بھی۔ تیرا من کچھ اور سوچتا ہے میرا من کچھ اور۔۔۔کیوں نہ کوئی ایسی بات کریں کہ تجھے میری ضرورت ہو اور مجھے تیری۔۔۔ پُونے میں حوالدار ہوں، مہینے میں ایک بار آیا کروں گا۔ تین چار دن کے لیے۔۔۔ یہ دھندا چھوڑ۔۔۔ میں تجھے خرچ دے دیا کروں گا۔۔۔ کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا۔۔۔؟‘‘ مادھو نے اور بھی بہت کچھ کہا تھا جس کا اثر سوگندھی پر اس قدر زیادہ ہوا تھا کہ وہ چند لمحات کے لیے خود کو حوالدارنی سمجھنے لگی تھی۔ باتیں کرنے کے بعد مادھو نے اس کے کمرے کی بکھری ہوئی چیزیں قرینے سے رکھی تھیں اور ننگی تصویریں جو سوگندھی نے اپنے سر ہانے لٹکا رکھی تھیں، بنا پوچھے گچھے پھاڑ دی تھیں اور کہا تھا۔۔۔ ’’سوگندھی بھئی میں ایسی تصویریں یہاں نہیں رکھنے دوں گا۔۔۔ اور پانی کا یہ گھڑا ۔۔۔ دیکھنا کتنا میلا ہے اور یہ۔۔۔ یہ چیتھڑے۔۔۔ یہ چندیاں۔۔۔ اف کتنی بُری باس آتی ہے، اٹھا کے باہر پھینک ان کو۔۔۔ اور تو نے اپنے بالوں کا ستیاناس کر رکھا ہے۔۔۔ اور۔۔۔ اور۔۔۔‘‘۔ تین گھنٹے کی بات چیت کے بعد سوگندھی اور مادھو آپس میں گھل مل گئے تھے اور سوگندھی کو تو ایسا محسوس ہوا تھا کہ برسوں سے حوالدار کو جانتی ہے، اس وقت تک کسی نے بھی کمرے میں بدبودار چیتھڑوں، میلے گھڑے اور ننگی تصویروں کی موجودگی کا خیال نہیں کیا تھا اور نہ کبھی کسی نے اس کو یہ محسوس کرنے کا موقع دیا تھا کہ اس کا ایک گھر ہے جس میں گھریلو پن آسکتا ہے۔ لوگ آتے تھے اور بستر تک غلاظت کو محسوس کیے بغیر چلے جاتے تھے۔ کوئی سوگندھی سے یہ نہیں کہتا تھا۔’’دیکھ تو آج تیری ناک کتنی لال ہورہی ہے کہیں زکام نہ ہو جائے تجھے۔۔۔ ٹھہر میں تیرے واسطے دوا لاتا ہوں۔‘‘ مادھو کتنا اچھا تھا اس کی ہر بات باون تولہ اور پاؤ رتی کی تھی۔ کیا کھری کھری سنائی تھیں اس نے سو گندھی کو۔۔۔۔۔۔ اسے محسوس ہونے لگا کہ اسے مادھو کی ضرورت ہے۔ چنانچہ ان دونوں کا سمبندھ ہوگیا۔ مہینے میں ایک بار مادھو پُونے سے آتا تھا اور واپس جاتے ہوئے ہمیشہ سوگندھی سے کہا کرتا تھا۔’’ دیکھ سوگندھی! اگر تو نے پھر سے اپنا دھندا شروع کیا۔ تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی۔۔۔ اگر تو نے ایک بار بھی کسی مرد کو اپنے یہاں ٹھہرایا تو چٹیا سے پکڑ کر باہر نکال دوں گا۔۔۔۔۔۔ دیکھ اس مہینے کا خرچ میں تجھے پونا پہنچتے ہی منی آرڈر کردوں گا۔۔۔۔۔۔ ہاں کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا۔۔۔۔۔۔‘‘ نہ مادھو نے کبھی پونا سے خرچ بھیجا تھا اور نہ سوگندھی نے اپنا دھندا بند کیا تھا۔ دونوں اچھی طرح جانتے تھے کہ کیا ہورہا ہے۔ نہ سوگندھی نے کبھی مادھو سے یہ کہا تھا کہ’’ تویہ کیا ٹرٹرکیا کرتا ہے، ایک پھوٹی کوڑی بھی دی ہے کبھی تو نے؟‘‘ اور نہ مادھو نے کبھی سو گندھی سے پوچھا تھا۔’’یہ مال تیرے پاس کہاں سے آتا ہے جب کہ میں تجھے کچھ دیتا ہی نہیں‘‘۔۔۔۔۔۔ دونوں جھوٹے تھے۔ دونوں ایک ملمع کی ہوئی زندگی بسر کررہے تھے۔۔۔۔۔۔ لیکن سوگندھی خوش تھی جس کو اصل سونا نہ ملے وہ ملمع کیے ہوئے گہنوں ہی پر راضی ہو جایا کرتا ہے۔ اس وقت سوگندھی تھکی ماندی سو رہی تھی۔ بجلی کا قمقمہ جسے اوف کرنا وہ بھول گئی تھی اس کے سر کے اوپر لٹک رہا تھا۔ اس کی تیز روشنی اس کی مندی ہوئی آنکھوں کے سامنے ٹکرا رہی تھی۔ مگروہ گہری نیند سو رہی تھی۔ دروازے پر دستک ہوئی۔۔۔ رات کے دو بجے یہ کون آیا تھا؟ سوگندھی کے خواب آلود کانوں میں دستک بھنبھناہٹ بن کر پہنچی۔ دروازہ جب زور سے کھٹکھٹایا گیا تو چونک کر اٹھ بیٹھی۔۔۔ دو ملی جلی شرابوں اور دانتوں کے ریخوں میں پھنسے ہوئے مچھلی کے ریزوں نے اس کے منہ کے اندر ایسا لعاب پیدا کردیا تھا جو بے حد کسیلا اور لیسدار تھا۔ دھوتی کے پلّو سے اس نے یہ بدبو دار لعاب صاف کیا اور آنکھیں ملنے لگی۔ پلنگ پر وہ اکیلی تھی۔ جھک کر اس نے پلنگ کے نیچے دیکھا تو اس کا کتا سوکھے ہوئے چپلوں پر منہ رکھے سو رہا تھا اور نیند میں کسی غیر مرئی چیز کا منہ چڑ رہا تھا اور طوطا پیٹھ کے بالوں میں سر دیے سورہا تھا۔ دروازے پر دستک ہوئی۔ سو گندھی بستر پر سے اٹھی۔ سردرد کے مارے پھٹا جارہا تھا۔ گھڑے سے پانی کا ایک ڈونگا نکال کر اس نے کُلی کی۔ اور دوسرا ڈونگا غٹا غٹ پی کر اس نے دروازے کا پٹ تھوڑا سا کھولا اور کہا۔’’رام لال؟‘‘ رام لال جو باہر دستک دیتے ہوئے تھک گیا تھا۔ بھنا کر کہنے لگا۔’’تجھے سانپ سونگھ گیا تھا یا کیا ہوگیا تھا۔ ایک کلاک(گھنٹے) سے باہر کھڑا دروازہ کھٹکھٹا رہا ہوں کہاں مر گئی تھی؟‘‘۔۔۔۔۔۔ پھر آواز دبا کر اس نے ہولے سے کہا۔’’اندر کوئی ہے تو نہیں؟‘‘ جب سوگندھی نے کہا۔’’نہیں۔۔۔۔۔۔ تو رام لال کی آواز پھر اونچی ہوگئی۔’’ تو دروازہ کیوں نہیں کھولتی؟۔۔۔ بھئی حد ہوگئی ہے کیا نیند پائی ہے۔ یوں ایک ایک چھوکری اتارنے میں دو دو گھنٹے سر کھپانا پڑے تو میں اپنا دھندا کرچکا۔۔۔ اب تو میرا منہ کیا دیکھتی ہے۔ جھٹ پٹ یہ دھوتی اتار کروہ پھولوں والی ساڑھی پہن، پوڈر ووڈر لگا اور چل میرے ساتھ۔۔۔ باہر موٹر میں ایک سیٹھ بیٹھے تیرا انتظار کررہے ہیں۔۔۔ چل چل ایک دم جلدی کر۔‘‘ سو گندھی آرام کرسی پر بیٹھ گئی اور رام لال آئینے کے سامنے اپنے بالوں میں کنگھی کرنے لگا۔ سوگندھی نے تپائی کی طرف اپنا ہاتھ بڑھایا اور بام کی شیشی اٹھا کر اس کا ڈھکنا کھولتے ہوئے کہا۔’’رام لال آج میرا جی اچھا نہیں۔‘‘ رام لال نے کنگھی دیوار گیر پر رکھ دی اور مڑ کرکہا۔’’تو پہلے ہی کہہ دیا ہوتا۔‘‘ سو گندھی نے ماتھے اور کنپٹیوں پر بام سے چھوتے ہوئے غلط فہمی دور کردی۔ ’’وہ بات نہیں رام لال!۔۔۔ ایسے ہی میرا جی اچھا نہیں۔۔۔ بہت پی گئی۔‘‘ رام لال کے منہ میں پانی بھر آیا۔’’تھوڑی بچی ہو تو لا۔۔۔ ذرا ہم بھی منہ کا مزا ٹھیک کرلیں۔‘‘ سو گندھی نے بام کی شیشی تپائی پر رکھ دی اور کہا۔’’بچائی ہوتی تو یہ موا سر میں درد ہی کیوں ہوتا۔۔۔ دیکھ رام لال! وہ جو باہر موٹر میں بیٹھا ہے اسے اندر ہی لے آؤ۔‘‘ رام لال نے جواب دیا۔’’نہیں بھئی وہ اندر نہیں آسکتے۔ جنٹلمین آدمی ہیں۔ وہ تو موٹر کو گلی کے باہر کھڑی کرتے ہوئے گھبراتے تھے۔۔۔ تو کپڑے وپڑے پہن لے اور ذرا گلی کے نکڑ تک چل۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘ ساڑھے سات روپے کا سودا تھا۔ سوگندھی اس حالت میں جب کہ اس کے سر میں شدت کا درد ہورہا تھا۔ کبھی قبول نہ کرتی مگر اسے روپوں کی سخت ضرورت تھی۔ اس کی ساتھ والی کھولی میں ایک مدراسی عورت رہتی تھی جس کا خاوند موٹر کے نیچے آکر مر گیا تھا۔ اس عورت کو اپنی جوان لڑکی سمیت وطن جانا تھا۔ لیکن اس کے پاس چونکہ کرایہ ہی نہیں تھا اس لیے وہ کسمپرسی کی حالت میں پڑی تھی۔ سوگندھی نے کل ہی اس کو ڈھارس دی تھی اور اس سے کہا تھا۔’’ بہن تو چنتا نہ کر۔ میرا مرد پُونے سے آنے ہی والا ہے میں اس سے کچھ روپے لے کرتیرے جانے کا بندوبست کردوں گی۔‘‘ مادھو پونا سے آنے والا تھا۔ مگر روپوں کا بندوبست تو سوگندھی ہی کو کرنا تھا۔ چنانچہ وہ اٹھی اور جلدی جلدی کپڑے تبدیل کرنے لگی۔ پانچ منٹوں میں اس نے دھوتی اتار کر پھولوں والی ساڑھی پہنی اور گالوں پر سرخ پوڈر لگا کر تیار ہوگئی۔ گھڑے کے ٹھنڈے پانی کا ایک اور ڈونگا پیا اور رام لال کے ساتھ ہولی۔ گلی جو کہ چھوٹے شہروں کے بازار سے بھی کچھ بڑی تھی۔ بالکل خاموش تھی گیس کے وہ لیمپ جو کھمبوں پر جڑے تھے پہلے کی نسبت بہت دھندلی روشنی دے رہے تھے۔ جنگ کے باعث ان کے شیشوں کو گدلا کردیا گیا تھا۔ اس اندھی روشنی میں گلی کے آخری سرے پر ایک موٹر نظر آرہی تھی۔ کمزور روشنی میں اس سیاہ رنگ کی موٹر کا سایہ سا نظر آنا اوررات کے پچھلے پہر کی بھیدوں بھری خاموشی۔۔۔ سو گندھی کو ایسا لگا کہ اسکے سر کا درد فضا پر بھی چھا گیا ہے۔ ایک کسیلا پن اُسے ہوا کے اندر بھی محسوس ہوتا تھا جیسے برانڈی اور بیوڑا کی باس سے وہ بوجھل ہورہی ہے۔ آگے بڑھ کر رام لال نے موٹر کے اندر بیٹھتے ہوئے آدمیوں سے کچھ کہا۔ اتنے میں جب سو گندھی موٹر کے پاس پہنچ گئی تو رام لال نے ایک طرف ہٹ کرکہا۔’’لیجیے وہ آگئی۔‘‘ ’’بڑی اچھی چھوکری ہے تھوڑے ہی دن ہوئے ہیں اسے دھندا شروع کیے۔‘‘ پھر سوگندھی سے مخاطب ہو کر کہا۔’’سوگندھی، ادھر آؤ سیٹھ جی بلاتے ہیں۔‘‘ سوگندھی ساڑھی کا ایک کنارہ اپنی انگلی پر لپیٹتی ہوئی آگے بڑھی اور موٹر کے دروازے کے پاس کھڑی ہوگئی۔ سیٹھ صاحب نے بیٹری اس کے چہرے کے پاس روشن کی۔ ایک لمحے کے لیے اس روشنی نے سوگندھی کی خمار آلود آنکھوں میں چکا چوند پیدا کی۔ بٹن دبانے کی آواز پیدا ہوئی اور بجھ گئی۔ ساتھ ہی سیٹھ کے منہ سے’’اونہہ‘‘ نکلا۔ پھر ایک موٹر کا انجن پھڑپھڑایا اور کار یہ جا وہ جا۔۔۔۔۔۔ سوگندھی کچھ سوچنے بھی نہ پائی تھی کہ موٹر چل دی۔ اس کی آنکھوں میں ابھی تک بیٹری کی تیز روشنی گھسی ہوئی تھی۔ وہ ٹھیک طرح سے سیٹھ کا چہرہ بھی تو نہ دیکھ سکی تھی۔ یہ آخر ہوا کیا تھا۔ اس’’اونہہ‘‘ کا کیا مطلب تھا۔ جو ابھی تک اس کے کانوں میں بھنبھنا رہی تھی۔ کیا؟ ۔۔۔۔۔۔ کیا؟ رام لال دلال کی آواز سنائی دی۔’’ پسند نہیں کیا تجھے۔ دو گھنٹے مفت میں ہی برباد کیے۔‘‘ یہ سن کر سوگندھی کی ٹانگوں میں، اس کی بانہوں میں، اس کے ہاتھوں میں ایک زبردست حرکت کا ارادہ پیدا ہوا۔ کہاں تھی وہ موٹر ۔۔۔ کہاں تھا وہ سیٹھ۔۔۔ تو ’’اونہہ‘‘ کا مطلب یہ تھا کہ اس نے مجھے پسند نہیں کیا۔۔۔اُس کی۔۔۔ گالی اس کے پیٹ کے اندر اٹھی اور زبان کی نوک پر آکر رک گئی۔ وہ آخرگالی کسے دیتی، موٹر تو جا چکی تھی۔ اس کی دم کی سرخ بتی اس کے سامنے بازار کے اندھیارے میں ڈوب رہی تھی۔ اور سوگندھی کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ یہ لال لال انگارہ’’اونہہ‘‘ ہے جو اس کے سینے میں برمے کی طرح اترا چلا جارہا ہے۔ اس کے جی میں آئی کہ زور سے پکارے۔’’او سیٹھ۔ ذرا موٹر روکنا اپنی۔۔۔ بس ایک منٹ کے لیے۔ وہ سنسان بازار میں کھڑی تھی۔ پھولوں والی ساڑھی جو وہ خاص خاص موقعوں پر پہنا کرتی تھی رات کے پچھلے پہر کی ہلکی ہلکی ہوا سے لہرا رہی تھی۔ یہ ساڑھی اور اس کی ریشمی سرسراہٹ سوگندھی کو کتنی بُری معلوم ہوتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس ساڑھی کے چیتھڑے اڑا دے۔ کیونکہ ساڑھی ہوا میں لہرا لہرا کر ’’اونہہ اونہہ‘ کررہی تھی۔ گالوں پر اس نے پوڈر لگایا تھا اور ہونٹوں پرسرخی۔ جب اسے خیال آیا کہ یہ سنگار اس نے اپنے آپ کو پسند کرانے کے واسطے کیا تھا تو شرم کے مارے اسے پسینہ آگیا۔ یہ شرمندگی دور کرنے کے لیے اس نے کچھ سوچا۔۔۔میں نے اس موئے کو دکھانے کے لیے تھوڑی اپنے آپ کو سجایا تھا۔ یہ تو میری عادت ہے۔۔۔ میری کیا سب کی یہی عادت ہے۔۔۔ پر۔۔۔پر۔۔۔ یہ رات کے دو بجے اور رام لال دلال اور۔۔۔یہ بازار۔۔۔ اور وہ موٹر اور بیٹری کی چمک۔۔۔۔۔۔ یہ سوچتے ہی روشنی کے دھبے اس کی حدِ نگاہ تک فضا میں اِدھر اُدھر تیرنے لگے اور موٹر کے انجن کی پھڑپھڑاہٹ اُسے ہوا کے ہر جھونکے میں سنائی دینے لگی۔ اس کے ماتھے پر بام کا لیپ جو سنگار کرنے کے دوران میں بالکل ہلکا ہوگیا تھا۔ پسینہ آنے کے باعث اس کے مساموں میں داخل ہونے لگا۔ اور سوگندھی کو اپنا ماتھا کسی اور کا ماتھا معلوم ہوا۔ جب ہوا کا ایک جھونکا اس کے عرق آلود ماتھے کے پاس سے گزرا تو اسے ایسا لگا کہ سرد سردٹین کا ٹکڑا کاٹ کر اس کے ماتھے کے ساتھ چسپاں کردیا گیا ہے۔ سر میں درد ویسے کا ویسا موجود تھا مگر خیالات کی بھیڑ بھاڑ اور ان کے شور نے اس درد کو اپنے نیچے دبا رکھا تھا۔ سو گندھی نے کئی بار اس درد کو اپنے خیالات کے نیچے سے نکال کر اوپر لانا چاہا مگر ناکام رہی۔ وہ چاہتی تھی کہ کسی نہ کسی طرح اس کا انگ انگ دُکھنے لگے، اس کے سر میں درد ہو، اس کی ٹانگوں میں درد ہو، اس کے پیٹ میں درد ہو، اس کی بانہوں میں درد ہو۔ ایسا درد کہ وہ صرف درد ہی کا خیال کرے اور سب کچھ بھول جائے۔ یہ سوچتے سوچتے اس کے دل میں کچھ ہوا۔۔۔ کیا یہ درد تھا؟۔۔۔ ایک لمحے کے لیے اس کا دل سکڑا اور پھر پھیل گیا۔۔۔ یہ کیا تھا؟۔۔۔ لعنت! یہ تو وہی’’اونہہ‘‘ تھی جو اس کے دل کے اندر کبھی سکڑتی تھی اور کبھی پھیلتی تھی۔ گھر کی طرف سوگندھی کے قدم اٹھے ہی تھے کہ رک گئے اور وہ ٹھہر کر سوچنے لگی، رام لال دلّال کا خیال ہے کہ اسے میری شکل پسند نہیں آئی۔۔۔ شکل کا تو اس نے ذکر نہیں کیا۔ اس نے تو یہ کہا تھا’’ سوگندھی تجھے پسند نہیں کیا !‘‘ اُسے۔۔۔۔۔۔ اُسے۔۔۔۔۔۔ صرف میری شکل ہی پسند نہیں آئی تو کیا ہوا؟۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی تو کئی آدمیوں کی شکل پسند نہیں آتی۔۔۔۔۔۔ وہ جو اماوس کی رات کو آیا تھا۔ کتنی بُری صورت تھی اس کی۔۔۔ کیا میں نے ناک بھوں نہیں چڑھائی تھی؟ جب وہ میرے ساتھ سونے لگا تھا تو مجھے گھن نہیں آئی تھی؟۔۔۔ کیامجھے ابکائی آتے آتے نہیں رک گئی تھی؟۔۔۔ ٹھیک ہے، پر سوگندھی۔۔۔۔۔۔ تو نے اسے دھتکارا نہیں تھا۔ تو نے اس کو ٹھکرایا نہیں تھا ۔۔۔۔۔۔ اس موٹر والے سیٹھ نے تو تیرے منہ پر تھوکا ہے۔۔۔ اونہہ۔۔۔۔۔۔ اس’’ اونہہ‘‘ کا اور مطلب ہی کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ یہی کہ اس چھچھوندر کے سر میں چنبیلی کا تیل۔۔۔۔۔۔ اونہہ۔۔۔۔۔۔ یہ منہ اور مسور کی دال۔۔۔۔۔۔ ارے رام لال تو یہ چھپکلی کہاں سے پکڑ کرلے آیا ہے۔۔۔۔۔۔ اس لونڈیا کی اتنی تعریف کررہا ہے تو۔۔۔۔۔۔ دس روپے اور یہ عورت۔۔۔۔۔۔ خچّر کیا بُری ہے۔ سوگندھی سوچ رہی تھی اور اس کے پیر کے انگوٹھے سے لے کر سر کی چوٹی تک گرم لہریں دوڑ رہی تھیں۔ اس کو کبھی اپنے آپ پر غصہ آتا تھا، کبھی رام لال دلال پر جس نے رات کے دو بجے اسے بے آرام کیا۔ لیکن فوراً ہی دونوں کو بے قصور پا کر وہ سیٹھ کا خیال کرتی تھی۔ اس خیال کے آتے ہی اس کی آنکھیں، اس کے کان، اس کی بانہیں، اس کی ٹانگیں، اس کا سب کچھ مڑتا تھا کہ اس سیٹھ کو کہیں دیکھ پائے ۔۔۔ اس کے اندر یہ خواہش بڑی شدت سے پیدا ہورہی تھی کہ جو کچھ ہوچکا ہے ایک بار پھر ہو۔۔۔۔۔۔صرف ایک بار۔۔۔۔۔۔ وہ ہولے ہولے موٹر کی طرف بڑھے۔ موٹر کے اندر سے ایک ہاتھ بیٹری نکالے اور اس کے چہرے پرروشنی پھینکے۔’’اونہہ‘‘ کی آواز آئے اور وہ۔۔۔۔۔۔ سوگندھی اندھا دھند اپنے دونوں پنجوں سے اس کا منہ نوچنا شروع کردے۔ وحشی بلی کی طرح جھپٹے اور۔۔۔۔۔۔ اور اپنی انگلیوں کے سارے ناخن جو اس نے موجودہ فیشن کے مطابق بڑھا رکھے تھے۔ اس سیٹھ کے گالوں میں گاڑ دے۔۔۔۔۔۔ بالوں سے پکڑ کر اسے باہر گھسیٹ لے اور دھڑا دھڑ مکے مارنا شروع کردے اور جب تھک جائے۔۔۔۔۔۔ جب تھک جائے تو رونا شروع کردے۔ رونے کا خیال سوگندھی کو صرف اس لیے آیا کہ اس کی آنکھوں میں غصے اور بے بسی کی شدت کے باعث تین چار بڑے بڑے آنسو بن رہے تھے۔ ایکا ایکی سوگندھی نے اپنی آنکھوں سے سوال کیا۔’’تم روتی کیوں ہو؟ تمہیں کیا ہوا ہے کہ ٹپکنے لگی ہو؟۔۔۔۔۔۔ آنکھوں سے کیا ہوا سوال چند لمحات تک ان آنسوؤں میں تیرتا رہا جو اب پلکوں پر کانپ رہے تھے۔ سوگندھی ان آنسوؤں میں سے دیرتک اس خلا کو گھورتی رہی جدھر سیٹھ کی موٹر گئی تھی۔ پھڑپھڑپھڑ۔۔۔۔۔۔ یہ آواز کہاں سے آئی؟ سوگندھی نے چونک کر ادھر ادھر دیکھا لیکن کسی کو نہ پایا۔۔۔ ارے یہ تو اس کا دل پھڑپھڑایا تھا۔ وہ سمجھی تھی موٹر کا انجن بولا ہے۔۔۔ اس کا دل۔۔۔ یہ کیا ہوگیا تھا اس کے دل کو! آج ہی روگ لگ گیا تھا اسے۔۔۔ اچھا بھلا چلتا چلتا ایک جگہ رک کر دھڑ دھڑ کیوں کرتا تھا۔۔۔ بالکل اسے گھسے ہوئے ریکارڈ کی طرح جو سوئی کے نیچے ایک جگہ آکے رک جاتا ہے۔ رات کٹی گِن گِن تارے کہتا کہتا تارے تارے کی رٹ لگا دیتا تھا۔ آسمان تاروں سے اٹا ہوا تھا۔سوگندھی نے ان کی طرف دیکھا اور کہا کتنے سُندر ہیں۔۔۔۔۔۔ وہ چاہتی تھی کہ اپنا دھیان کسی اور طرف پلٹ دے۔ پر جب اس نے سندر کہا تو جھٹ سے یہ خیال اس کے دماغ میں کودا۔’’یہ تارے سندر ہیں پر تو کتنی بھونڈی ہے ۔۔۔۔۔۔ کیا بھول گئی ابھی ابھی تیری صورت کو پھٹکارا گیا ہے؟‘‘ سوگندھی بدصورت تو نہیں تھی۔ یہ خیال آتے ہی وہ تمام عکس ایک ایک کرکے اس کی آنکھوں کے سامنے آنے لگے۔ جو ان پانچ برسوں کے دوران میں وہ آئینے میں دیکھ چکی تھی۔ اس میں شک نہیں کہ اس کا رنگ روپ اب وہ نہیں رہا تھا۔ جو آج سے پانچ سال پہلے تھا جب کہ وہ تمام فکروں سے آزاد اپنے ماں باپ کے ساتھ رہا کرتی تھی۔ لیکن وہ بدصورت تو نہیں ہوگئی تھی۔ اس کی شکل و صورت ان عام عورتوں کی سی تھی جن کی طرف مرد گزرتے گزرتے گُھور کے دیکھ لیا کرتے ہیں۔ اس میں وہ تمام خوبیاں موجود تھیں جو سوگندھی کے خیال میں ہر مرد اس عورت میں ضروری سمجھتا ہے جس کے ساتھ اسے ایک دو راتیں بسر کرنا ہوتی ہیں۔ وہ جوان تھی، اس کے اعضا متناسب تھے۔ کبھی کبھی نہاتے وقت جب اس کی نگاہیں اپنی رانوں پر پڑتی تھیں۔ تو وہ خود ان کی گولائی اور گدگداہٹ کو پسند کیا کرتی تھی۔ وہ خوش خلق تھی۔ ان پانچ برسوں کے دوران میں شاید ہی کوئی آدمی اس سے ناخوش ہو کر گیا ہو۔۔۔۔۔۔ بڑی ملنسار تھی، بڑی رحمدل تھی۔ پچھلے دنوں جب کرسمس میں وہ کول پیٹھا میں رہا کرتی تھی، ایک نوجوان لڑکا اس کے پاس آیا تھا۔ صبح اٹھ کر جب اس نے دوسرے کمرے میں جا کر کھونٹی سے کوٹ اتارا تو بٹوہ غائب پایا۔سوگندھی کا نوکر یہ بٹوہ لے اڑا تھا۔ بے چارہ بہت پریشان ہوا۔ چھٹیاں گزارنے کے لیے حیدر آباد سے بمبئی آیا تھا۔ اب اس کے پاس واپس جانے کے لیے دام نہ تھے۔سوگندھی نے ترس کھا کر اسے اس کے دس روپے واپس دے دیے تھے۔۔۔’’ مجھ میں کیا برائی ہے؟‘‘ سوگندھی نے یہ سوال ہر اس چیز سے کیا جو اس کی آنکھوں کے سامنے تھی۔ گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھر اور سڑک کی اکھڑی ہوئی بجری۔۔۔ ان سب چیزوں کی طرف اس نے باری باری دیکھا، پھر آسمان کی طرف نگاہیں اٹھائیں۔ جو اس کے اوپر جھکا ہوا تھا۔ مگرسوگندھی کو کوئی جواب نہ ملا۔ جواب اس کے اندرموجود تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ بُری نہیں اچھی ہے، پر وہ چاہتی تھی کہ کوئی اس کی تائید کرے۔۔۔ کوئی۔۔۔ کوئی۔۔۔ اس وقت اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھ کر صرف اتنا کہہ دے۔’’ سوگندھی! کون کہتا ہے، تو بُری ہے، جو تجھے بُرا کہے وہ آپ بُرا ہے‘‘ ۔۔۔۔۔۔ نہیںیہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ کسی کا اتنا کہہ دینا کافی تھا۔’’سوگندھی تو بہت اچھی ہے!‘‘ وہ سوچنے لگی کہ وہ کیوں چاہتی ہے کوئی اس کی تعریف کرے۔ اس سے پہلے اسے اس بات کی اتنی شدت سے ضرورت محسوس نہ ہوئی تھی۔ آج کیوں وہ بے جان چیزوں کو بھی ایسی نظروں سے دیکھتی ہے جیسے ان پر اپنے اچھے ہونے کا احساس طاری کرنا چاہتی ہے، اس کے جسم کا ذرہ ذرہ کیوں’’ ماں‘‘ بن رہا ہے۔۔۔۔۔۔ وہ ماں بن کر دھرتی کی ہر شے کو اپنی گود میں لینے کے لیے کیوں تیار ہورہی تھی؟ ۔۔۔۔۔۔ اس کا جی کیوں چاہتا تھا کہ سامنے والے گیس کے آہنی کھمبے کے ساتھ چمٹ جائے اور اس کے سرد لوہے پر اپنے گال رکھ دے ۔۔۔۔۔۔ اپنے گرم گرم گال اور اس کی ساری سردی چُوس لے۔ تھوڑی دیر کے لیے اسے ایسا محسوس ہوا کہ گیس کے اندھے لیمپ، لوہے کے کھمبے، فٹ پاتھ کے چوکور پتھر اور ہر وہ شے جو رات کے سناٹے میں اس کے آس پاس تھی۔ ہمدردی کی نظروں سے اسے دیکھ رہی ہے اور اس کے اوپر جھکا ہوا آسمان بھی جو مٹیالے رنگ کی ایسی موٹی چادرمعلوم ہوتا تھا جس میں بے شمار سوراخ ہو رہے ہوں، اس کی باتیں سمجھتا تھا اور سوگندھی کو بھی ایسا لگتا تھا کہ وہ تاروں کا ٹمٹمانا سمجھتی ہے۔۔۔ لیکن اس کے اندر یہ کیا گڑ بڑ تھی؟۔۔۔۔۔۔ وہ کیوں اپنے اندر اس موسم کی فضا محسوس کرتی تھی جو بارش سے پہلے دیکھنے میں آیا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس کا جی چاہتا تھا کہ اس کے جسم کا ہر مسام کھل جائے۔ اور جو کچھ اس کے اندر اُبل رہا ہے ان کے رستے باہر نکل جائے۔ پر یہ کیسے ہو۔۔۔۔۔۔ کیسے ہو؟ سوگندھی گلی کے نکڑ پر خط ڈالنے والے لال بھبکے کے پاس کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔ ہوا کے تیز جھونکے سے اس بھبکے کی آہنی زبان جو اس کے کھلے ہوئے منہ میں لٹکتی رہتی ہے، لڑکھڑائی تو سوگندھی کی نگاہیں یک بیک اس کی طرف اٹھیں جدھر موٹر گئی تھی مگر اسے کچھ نظر نہ آیا ۔۔۔ اسے کتنی زبردست آرزو تھی کہ موٹرپھر ایک بار آئے اور۔۔۔ اور۔۔۔’’ نہ آئے۔۔۔ بلاسے۔۔۔ میں اپنی جان کیوں بیکار ہلکان کروں۔ گھر چلتے ہیں اور آرام سے لمبی تان کر سوتے ہیں۔ ان جھگڑوں میں رکھا ہی کیا ہے۔ مفت کی دردسری ہی تو ہے۔۔۔ چل سوگندھی گھر چل۔۔۔ ٹھنڈے پانی کا ایک ڈونگا پی اور تھوڑا سا بام مل کر سو جا۔۔۔ فسٹ کلاس نیند آئے گی اور سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔ سیٹھ اور اس کی موٹر کی ایسی تیسی۔۔۔۔۔۔‘‘ یہ سوچتے ہوئے سوگندھی کا بوجھ ہلکا ہوگیا۔ جیسے وہ کسی ٹھنڈے تالاب سے نہا دھو کر باہر نکلی ہے۔ جس طرح پوجا کرنے کے بعد اس کا جسم ہلکا ہو جاتا تھا، اسی طرح اب بھی ہلکا ہوگیا تھا۔ گھر کی طرف چلنے لگی تو خیالات کا بوجھ نہ ہونے کے باعث اس کے قدم کئی بارلڑکھڑائے۔ اپنے مکان کے پاس پہنچی تو ایک ٹیس کے ساتھ پھر تمام واقعہ اس کے دل میں اٹھا اور درد کی طرح اس کے روئیں روئیں پر چھا گیا ۔۔۔۔۔۔ قدم پھر بوجھل ہوگئے اور وہ اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کرنے لگی کہ گھر سے بلا کر، باہر بازار میں منہ پرروشنی کا چانٹا مار کر ایک آدمی نے اس کی ابھی ابھی ہتک کی ہے۔ یہ خیال آیا تو اس نے اپنی پسلیوں پر کسی کے سخت انگوٹھے محسوس کیے جیسے کوئی اسے بھیڑ بکری کی طرح دبا دبا کردیکھ رہا ہے کہ آیا گوشت بھی ہے یا بال ہی بال ہیں۔۔۔۔۔۔ اس سیٹھ نے۔۔۔۔۔۔ پرماتما کرے۔۔۔۔۔۔ سوگندھی نے چاہا کہ اس کو بددعا دے، مگر سوچا، بددعا دینے سے کیا بنے گا۔ مزا تو جب تھا کہ وہ سامنے ہوتا اور وہ اس کے وجود کے ہر ذرّے پر لعنتیں لکھ دیتی۔۔۔ اس کے منہ پر کچھ ایسے الفاظ کہتی کہ زندگی بھر بے چین رہتا۔۔۔ کپڑے پھاڑ کر اس کے سامنے ننگی ہو جاتی اور کہتی۔’’ یہی لینے آیا تھا نا توُ؟۔۔۔۔۔۔ لے دام دیے بنا لے جا اسے۔۔۔۔۔۔ یہ جو کچھ میں ہوں، جو کچھ میرے اندر چھپاہوا ہے وہ تُو کیا، تیرا باپ بھی نہیں خرید سکتا۔۔۔‘‘ انتقام کے نئے نئے طریقے سوگندھی کے ذہن میں آرہے تھے۔ اگر اس سیٹھ سے ایک بار۔۔۔ صرف ایک بار۔۔۔ اس کی مڈبھیڑ ہو جائے تو یہ کرے۔ نہیں یہ نہیں۔ یہ کرے۔۔۔۔۔۔ یوں اس سے انتقام لے، نہیں یوں نہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن جب سوگندھی سوچتی کہ سیٹھ سے اس کا دوبارہ ملنا محال ہے تو وہ اسے ایک چھوٹی سی گالی دینے ہی پر خود کو راضی کرلیتی۔۔۔ بس صرف ایک چھوٹی سی گالی، جو اس کی ناک پر چپکو مکھی کی طرح بیٹھ جائے اور ہمیشہ وہیں جمی رہے۔ اسی ادھیڑ بن میں وہ دوسری منزل پر اپنی کھولی کے پاس پہنچ گئی۔ چولی میں سے چابی نکال کرتالا کھولنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو چابی ہوا ہی میں گھوم کر رہ گئی! کنڈے میں تالا نہیں تھا۔سوگندھی نے کواڑ اندر کی طرف دبائے تو ہلکی سی چڑچڑاہٹ پیدا ہوئی۔ اندر سے کنڈی کھولی گئی اوردروازے نے جمائی لی، سوگندھی اندر داخل ہوگئی۔ مادھو مونچھوں میں ہنسا اور دروازہ بند کرکے سوگندھی سے کہنے لگا۔’’ آج تو نے میرا کہا مان ہی لیا۔۔۔ صبح کی سیر تندرستی کے لیے بڑی اچھی ہوتی ہے۔ ہر روز اس طرح صبح اٹھ کر گھومنے جایا کرے گی تو تیری ساری سستی دور ہو جائے گی اور وہ تیری کمر کا درد بھی غائب ہو جائے گا، جس کی بابت تو آئے دن شکایت کیا کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ وکٹوریہ گارڈن تک ہو آئی ہوگی تو؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیوں؟‘‘ سوگندھی نے کوئی جواب نہ دیا اور نہ مادھو نے جواب کی خواہش ظاہر کی۔ دراصل جب مادھو بات کیا کرتا تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا تھا کہ سوگندھی ضرور اس میں حصہ لے اورسوگندھی جب کوئی بات کیا کرتی تھی یہ ضروری نہیں ہوتا تھا کہ مادھو اس میں حصہ لے۔۔۔۔۔۔ چونکہ کوئی بات کرنا ہوتی تھی۔ اس لیے وہ کہہ دیا کرتے تھے۔ مادھو بید کی کرسی پر بیٹھ گیا۔ جس کی پشت پر اس کے تیل سے چپڑے ہوئے سر نے میل کا ایک بہت بڑا دھبہ بنا رکھا تھا۔ اور ٹانگ پر ٹانگ رکھ کر اپنی مونچھوں پر انگلیاں پھیرنے لگا۔ سوگندھی پلنگ پر بیٹھ گئی۔ اور مادھو سے کہنے لگی۔’’ میں آج تیرا انتظار کررہی تھی۔‘‘ مادھو بڑا سٹپٹایا۔انتظار؟۔۔۔۔۔۔ ’’تجھے کیسے معلوم ہوا کہ میں آج آنے والا ہوں۔‘‘ سوگندھی کے بھنچے ہوئے لب کُھلے۔ ان پر ایک پیلی مسکراہٹ نمودار ہوئی۔’’ میں نے رات تجھے سپنے میں دیکھا تھا۔۔۔ اٹھی تو کوئی بھی نہ تھا۔ سوجی نے کہا، چلو کہیں باہر گھوم آئیں۔۔۔ اور۔۔۔‘‘ مادھو خوش ہوکر بولا۔’’ اورمیں آگیا۔۔۔۔۔۔ بھئی بڑے لوگوں کی باتیں بڑی پکی ہوتی ہیں۔ کسی نے ٹھیک کہا ہے، دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔۔۔ تو نے یہ سپنا کب دیکھا تھا؟‘‘ سوگندھی نے جواب دیا۔’’ چار بجے کے قریب۔‘‘ مادھو کرسی سے اٹھ کر سوگندھی کے پاس بیٹھ گیا۔’’ اورمیں نے تجھے ٹھیک دو بجے سپنے میں دیکھا۔۔۔۔۔۔ جیسے تو پھولوں والی ساڑھی۔۔۔۔۔۔ ارے بالکل یہی ساڑھی پہنے میرے پاس کھڑی ہے تیرے ہاتھوں میں۔۔۔۔۔۔ کیا تھا تیرے ہاتھوں میں!۔۔۔۔۔۔ ہاں تیرے ہاتھوں میں روپوں سے بھری ہوئی تھیلی تھی۔ تو نے یہ تھیلی میری جھولی میں رکھ دی۔ اور کہا۔’’مادھو تو چنتا کیوں کرتا ہے؟۔۔۔ لے یہ تھیلی۔۔۔ ارے تیرے میرے روپے کیا دو ہیں؟‘‘۔۔۔۔۔۔سوگندھی تیری جان کی قسم فوراً اٹھا اور ٹکٹ کٹا کر ادھر کا رخ کیا۔۔۔ کیا سناؤں بڑی پریشانی ہے!۔۔۔۔۔۔ بیٹھے بٹھائے ایک کیس ہوگیاہے اب بیس تیس روپے ہوں تو۔۔۔۔۔۔ انسپکٹر کی مٹھی گرم کرکے چھٹکارا ملے۔۔۔۔۔۔ تھک تو نہیں گئی تو؟ لیٹ جا میری طرف پیر کرکے لیٹ جا۔‘‘ سوگندھی لیٹ گئی۔ دونوں بانہوں کا تکیہ بنا کر وہ ان پر سر رکھ کر لیٹ گئی۔ اور اس لہجے میں جو اس کا اپنا نہیں تھا، مادھو سے کہنے لگی۔’’مادھو یہ کس موئے نے تجھ پر کیس کیا ہے؟۔۔۔۔۔۔ بیل ویل کا ڈر ہو تو مجھ سے کہہ دے بیس تیس کیا سو پچاس بھی ایسے موقعوں پر پولیس کے ہاتھ میں تھما دیے جائیں تو فائدہ اپنا ہی ہے۔۔۔۔۔۔ جان بچی لاکھوں پائے۔۔۔ بس بس اب جانے دے۔ تھکن کچھ زیادہ نہیں ہے۔۔۔ مٹھی چاپی چھوڑ اور مجھے ساری بات سنا۔۔۔ کیس کا نام سنتے ہی میرا دل دھک دھک کرنے لگا ہے۔۔۔۔۔۔ واپس کب جائے گا تو؟‘‘ مادھو کو سوگندھی کے منہ سے شراب کی باس آئی تو اس نے یہ موقع اچھا سمجھا اور جھٹ سے کہا۔’’ دوپہرکی گاڑی سے واپس جانا پڑے گا۔۔۔ اگر شام تک سب انسپکٹر کو سو پچاس نہ تھمائے تو۔۔۔ زیادہ دینے کی ضرورت نہیں۔ میں سمجھتا ہوں پچاس میں کام چل جائے گا۔‘‘ ’’پچاس!‘‘ یہ کہہ کر سوگندھی بڑے آرام سے اٹھی اور ان چار تصویروں کے پاس آہستہ آہستہ گئی۔ جو دیوار پر لٹک رہی تھیں۔ بائیں طرف سے تیسرے فریم میں مادھو کی تصویر تھی۔ بڑے بڑے پھولوں والے پردے کے آگے کرسی پر وہ دونوں رانوں پر اپنے ہاتھ رکھے بیٹھا تھا۔ ایک ہاتھ میں گلاب کا پھول تھا۔ پاس ہی تپائی پر دو موٹی موٹی کتابیں دھری تھیں۔ تصویر اترواتے وقت تصویر اتروانے کا خیال مادھو پر اس قدر غالب تھا کہ اس کی ہر شے تصویر سے باہر نکل نکل کرپکار رہی تھی۔’’ ہمارا فوٹو اترے گا۔ ہمارا فوٹو اترے گا!‘‘ کیمرے کی طرف مادھو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ فوٹو اترواتے وقت اسے بہت تکلیف ہورہی تھی۔ سوگندھی کھکھلا کر ہنس پڑی۔۔۔۔۔۔ اس کی ہنسی کچھ ایسی تیکھی اور نوکیلی تھی کہ مادھو کے سوئیاں سی چُبِھیں۔ پلنگ پر سے اٹھ کروہ سوگندھی کے پاس گیا۔’’کس کی تصویر دیکھ کر تو اس قدر زور سے ہنسی ہے؟‘‘ سوگندھی نے بائیں ہاتھ کی پہلی تصویر کی طرف اشارہ کیا جو میونسپلٹی کے داروغۂ صفائی کی تھی۔‘‘ اس کی۔۔۔۔۔۔ منشی پالٹی کے داروغہ کی۔۔۔ ذرا دیکھ تو اس کا تھوبڑا۔۔۔۔۔۔ کہتا تھا، ایک رانی مجھ پر عاشق ہوگئی تھی۔۔۔۔۔۔ اونہہ! یہ منہ اور مسور کی دال۔ یہ کہہ کرسوگندھی نے فریم کو اس زور سے کھینچا کہ دیوار میں سے کیل بھی پلستر سمیت اکھڑ آئی! مادھو کی حیرت ابھی دور نہ ہوئی تھی کہ سوگندھی نے فریم کو کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔ دو منزلوں سے فریم نیچے زمین پر گرا اور کانچ ٹوٹنے کی جھنکار سنائی دی۔ سوگندھی نے اس جھنکار کے ساتھ کہا۔’’ رانی بھنگن کچرا اٹھانے آئے گی۔ تو میرے اس راجہ کو بھی ساتھ لے جائے گی۔‘‘ ایک بار پھر اسی نوکیلی اور تیکھی ہنسی کی پھوار سوگندھی کے ہونٹوں سے گرنا شروع ہوئی جیسے وہ ان پر چاقو یا چھری کی دھار تیز کررہی ہے۔ مادھو بڑی مشکل سے مسکرایا۔ پھر ہنسا۔’’ہی ہی ہی۔۔۔‘‘ سوگندھی نے دوسرا فریم بھی نوچ لیا اور کھڑکی سے باہر پھینک دیا۔’’ اس سالے کا یہاں کیا مطلب ہے؟۔۔۔۔۔۔ بھونڈی شکل کا کوئی آدمی یہاں نہیں رہے گا۔۔۔۔۔۔ کیوں مادھو؟‘‘ مادھو پھر بڑی مشکل سے مسکرایا اور پھر ہنسا۔’’ہی ہی ہی۔‘‘ ایک ہاتھ سے سوگندھی نے پگڑی والے کی تصویر اتاری اور دوسرا ہاتھ اس فریم کی طرف بڑھایا جس میں مادھو کا فوٹو جڑا تھا۔ مادھو اپنی جگہ پر سمٹ گیا، جیسے ہاتھ اس کی طرف بڑھ رہا ہے۔ ایک سیکنڈ میں فریم کیل سمیت سوگندھی کے ہاتھ میں تھا۔ زور کا قہقہہ لگا کر اس نے’’اونہہ‘‘ کی اور دونوں فریم ایک ساتھ کھڑکی میں سے باہر پھینک دیے۔ دو منزلوں سے جب فریم زمین پر گرے تو کانچ ٹوٹنے کی آواز آئی۔ تو مادھو کو ایسا معلوم ہوا کہ اس کے اندر کوئی چیز ٹوٹ گئی ہے۔ بڑی مشکل سے اس نے ہنس کر کہا۔’’ اچھا کیا؟۔۔۔۔۔۔ مجھے بھی یہ فوٹو پسند نہیں تھا۔‘‘ آہستہ آہستہ سوگندھی مادھو کے پاس آئی اور کہنے لگی۔’’ تجھے یہ فوٹو پسند نہیں تھا۔ پر میں پوچھتی ہوں تجھ میں ایسی کون سی چیز ہے جو کسی کو پسند آسکتی ہے۔۔۔۔۔۔ تیری پکوڑا ایسی ناک۔ یہ تیرا بالوں بھرا ماتھا۔ یہ تیرے سُوجے ہوئے نتھنے۔ یہ تیرے بڑھے ہوئے کان، یہ تیرے منہ کی باس، یہ تیرے بدن کا میل؟۔۔۔۔۔۔ تجھے اپنا فوٹو پسند نہیں تھا،اونہہ۔۔۔۔۔۔ پسند کیوں ہوتا، تیرے عیب جو چھپا رکھے تھے اس نے۔۔۔۔۔۔ آج کل زمانہ ہی ایسا ہے جو عیب چھپائے وہی بُرا۔۔۔۔۔۔‘‘ مادھو پیچھے ہٹتا گیا۔ آخر جب وہ دیوار کے ساتھ لگ گیا تو اس نے اپنی آواز میں زور پیدا کرکے کہا۔’’دیکھ سوگندھی، مجھے ایسا دکھائی دیتا ہے کہ تو نے پھر سے اپنا دھندا شروع کردیا ہے۔۔۔ اب میں تجھ سے آخری بار کہتا ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘ سوگندھی نے اس سے آگے مادھو کے لہجے میں کہنا شروع کیا۔’’ اگر تو نے پھر سے دھندا شروع کیا تو بس تیری میری ٹوٹ جائے گی۔ اگر تو نے پھر کسی کو اپنے یہاں بلایا تو چٹیا سے پکڑ کر تجھے باہر نکال دوں گا۔۔۔۔۔۔ اس مہینے کا خرچ میں تجھے پُونا سے ہی منی آرڈر کردوں گا۔۔۔۔۔۔ ہاں کیا بھاڑا ہے اس کھولی کا؟‘‘ مادھو چکرا گیا۔ سوگندھی نے کہنا شروع کیا۔’’ میں بتاتی ہوں۔۔۔۔۔۔ پندرہ روپیہ بھاڑا ہے اس کھولی کا۔۔۔۔۔۔ اور دس روپیہ بھاڑا ہے میرا۔۔۔۔۔۔ اور جیسا تجھے معلوم ہے۔ ڈھائی روپے دلال کے۔ باقی رہے ساڑھے سات۔ ہے نا ساڑھے سات؟ ان ساڑھے سات روپیوں میں مَیں نے ایسی چیز دینے کا وچن دیا تھا جو میں دے ہی نہیں سکتی تھی۔ اور تو ایسی چیز لینے آیا تھا۔ جو تو لے ہی نہیں سکتا تھا۔۔۔۔۔۔ تیرا میرا ناتا ہی کیا تھا۔ کچھ بھی نہیں۔ بس یہ دس روپے تیرے اور میرے بیچ میں بج رہے تھے، سو ہم دونوں نے مل کر ایسی بات کی کہ تجھے میری ضرورت اور مجھے تیری۔۔۔۔۔۔ پہلے تیرے اور میرے بیچ میں دس روپے بجتے تھے، آج پچاس بج رہے ہیں۔ تو بھی ان کا بجنا سُن رہا ہے اور میں بھی ان کا بجنا سن رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ تونے اپنے بالوں کا کیا ستیاناس کر رکھا ہے؟‘‘ یہ کہہ کر سوگندھی نے مادھو کی ٹوپی انگلی سے ایک طرف اُڑا دی۔ یہ حرکت مادھو کو بہت ناگوار گزری۔ اس نے بڑے کڑے لہجے میں کہا۔’’سوگندھی!‘‘ سوگندھی نے مادھو کی جیب سے رومال نکال کر سونگھا اور زمین پر پھینک دیا۔ یہ’’ چیتھڑے، یہ چندیاں۔۔۔۔۔۔ اف کتنی بُری باس آتی ہے، اٹھا کے باہر پھینک ان کو۔۔۔۔۔۔‘‘ مادھو چلایا۔’’سوگندھی۔‘‘ سوگندھی نے تیز لہجے میں کہا۔’’سوگندھی کے بچیّ تو آیا کس لیے ہے یہاں؟۔۔۔۔۔۔ تیری ماں رہتی ہے اس جگہ جو تجھے پچاس روپے دے گی؟ یا تو کوئی ایسا بڑا گبرو جوان ہے جو میں تجھ پر عاشق ہوگئی ہوں۔۔۔۔۔۔ کُتے، کمینے، مجھ پر رعب گانٹھتا ہے؟ میں تیری دبیل ہوں کیا؟۔۔۔۔۔۔ بھک منگے تو اپنے آپ کو سمجھ کیا بیٹھا ہے؟۔۔۔۔۔۔ میں کہتی ہوں تو ہے کون؟۔۔۔۔۔۔ چوریا گٹھ کترا؟۔۔۔ اس وقت تومیرے مکان میں کرنے کیا آیا ہے؟ بلاؤں پولیس کو۔۔۔۔۔۔ پُونے میں تجھ پر کیس ہو نہ ہو۔ یہاں توتجھ پر ایک کیس کھڑا کردوں۔۔۔۔۔۔‘‘ مادھو سہم گیا۔ دبے ہوئے لہجے میں وہ صرف اس قدر کہہ سکا۔’’سوگندھی، تجھے کیا ہوگیا ہے؟‘‘ ’’میری ماں کا سر۔۔۔۔۔۔ تو ہوتا کون ہے مجھ سے ایسے سوال کرنے والا۔۔۔۔۔۔ بھاگ یہاں سے، ورنہ۔۔۔۔۔۔‘‘ سوگندھی کی بلند آواز سن کر اس کا خارش زدہ کُتا جو سوکھے ہوئے چپلوں پر منہ رکھے سو رہا تھا۔ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا اور مادھو کی طرف منہ اٹھا کر بھونکنا شروع کردیا۔ کتے کے بھونکنے کے ساتھ ہی سوگندھی زور سے ہنسنے لگی۔ مادھو ڈر گیا۔ گری ہوئی ٹوپی اٹھانے کے لیے وہ جھکا تو سوگندھی کی گرج سنائی دی۔’’خبردار۔۔۔۔۔۔ پڑی رہنے دے وہیں ۔۔۔۔۔۔ تو جا، تیرے پُونہ پہنچتے ہی میں اس کو منی آرڈر کردوں گی۔‘‘ یہ کہہ کر وہ اور زور سے ہنسی اور ہنستی ہنستی کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس کے خارش زدہ کتے نے بھونک بھونک کرمادھو کو کمرے سے باہر نکال دیا۔ سیڑھیاں اتار کر جب کتا اپنی ٹنڈ منڈدُم ہلاتاسوگندھی کے پاس آیا اور اس کے قدموں کے پاس بیٹھ کر کان پھڑپھڑانے لگا۔ تو سوگندھی چونکی۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنے چاروں طرف ایک ہولناک سناٹا دیکھا۔۔۔۔۔۔ ایسا سناٹا جو اس نے پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ اُسے ایسا لگا کہ ہر شے خالی ہے۔۔۔۔۔۔ جیسے مسافروں سے لدی ہوئی ریل گاڑی سب اسٹیشنوں پر مسافر اتار کر اب لوہے کے شیڈ میں بالکل اکیلی کھڑی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ خلا جو اچانک سوگندھی کے اندر پیدا ہوگیا تھا۔ اسے بہت تکلیف دے رہا تھا۔ اس نے کافی دیر تک اس خلا کو بھرنے کی کوشش کی۔ مگر بے سُود، وہ ایک ہی وقت میں بے شمار خیالات اپنے دماغ میں ٹھونستی تھی مگر بالکل چھلنی کا سا حساب تھا۔ ادھر دماغ کو پُر کرتی تھی۔ ادھر وہ خالی ہو جاتا تھا۔ بہت دیر تک وہ بید کی کرسی پر بیٹھی رہی۔ سوچ بچار کے بعد بھی جب اس کو اپنا دل پرچانے کا کوئی طریقہ نہ ملا تو اس نے اپنے خارش زدہ کُتّے کو گود میں اٹھایا اور ساگوان کے چوڑے پلنگ پر اسے پہلو میں لٹا کر سوگئی۔ [/size]

Amna Tuesday, July 28, 2015 01:44 PM

8.Kali Shalwar
 
[size="5"]دہلی آنے سے پہلے وہ ابنالہ چھاؤنی میں تھی جہاں کئی گورے اس کے گاہک تھے۔ ان گوروں سے ملنے جلنے کے باعث وہ انگریزی کے دس پندرہ جملے سیکھ گئی تھی، ان کو وہ عام گفتگو میں استعمال نہیں کرتی تھی لیکن جب وہ دہلی میں آئی اوراس کا کاروبار نہ چلا تو ایک روز اس نے اپنی پڑوسن طمنچہ جان سے کہا۔’’ دِ س لیف۔۔۔۔۔۔ ویری بیڈ۔‘‘ یعنی یہ زندگی بہت بُری ہے جبکہ کھانے ہی کو نہیں ملتا۔ ابنالہ چھاؤنی میں اس کا دھندا بہت اچھی طرح چلتا تھا۔ چھاؤنی کے گورے شراب پی کر اس کے پاس آجاتے تھے اور وہ تین چار گھنٹوں ہی میں آٹھ دس گوروں کو نمٹا کر بیس تیس روپے پیدا کر لیا کرتی تھی۔ یہ گورے، اس کے ہم وطنوں کے مقابلے میں بہت اچھے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایسی زبان بولتے تھے جس کا مطلب سلطانہ کی سمجھ میں نہیں آتا تھا مگر ان کی زبان سے یہ لاعلمی اس کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوتی تھی۔ اگر وہ اس سے کچھ رعایت چاہتے تو وہ سر ہلا کرکہہ دیا کرتی تھی۔’’صاحب، ہماری سمجھ میں تمہاری بات نہیں آتا۔‘‘اور اگر وہ اس سے ضرورت سے زیادہ چھیڑ چھاڑ کرتے تو وہ ان کو اپنی زبان میں گالیاں دینا شروع کردیتی تھی۔ وہ حیرت میں اس کے منہ کی طرف دیکھتے تو وہ ان سے کہتی’’ صاحب، تم ایک دم اُلو کا پٹھا ہے۔ حرامزادہ ہے۔۔۔ سمجھا۔‘‘ یہ کہتے وقت وہ اپنے لہجہ میں سختی پیدا نہ کرتی بلکہ بڑے پیار کے ساتھ اُن سے باتیں کرتی۔ یہ گورے ہنس دیتے اور ہنستے وقت وہ سلطانہ کو بالکل الو کے پٹھے دکھائی دیتے۔ مگر یہاں دہلی میں وہ جب سے آئی تھی ایک گورا بھی اس کے یہاں نہیں آیا تھا۔ تین مہینے اس کو ہندوستان کے اس شہر میں رہتے ہوگئے تھے جہاں اس نے سنا تھا کہ بڑے لاٹ صاحب رہتے ہیں، جو گرمیوں میں شملے چلے جاتے ہیں، مگر صرف چھ آدمی اس کے پاس آئے تھے۔ صرف چھ، یعنی مہینے میں دو اور ان چھ گاہکوں سے اس نے خدا جھوٹ نہ بلوائے تو ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے تھے۔ تین ر وپے سے زیادہ پرکوئی مانتا ہی نہیں تھا۔ سلطانہ نے ان میں سے پانچ آدمیوں کو اپنا ریٹ دس روپے بتایا تھا مگر تعجب کی بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک نے یہی کہا۔ ’’بھئی ہم تین روپے سے ایک کوڑی زیادہ نہ دیں گے۔‘‘ نہ جانے کیا بات تھی کہ ان میں سے ہر ایک نے اسے صرف تین روپے کے قابل سمجھا۔ چنانچہ جب چھٹا آیا تو اس نے خود اس سے کہا۔’’دیکھو، میں تین روپے ایک ٹیم کے لوں گی۔ اس سے ایک دھیلا تم کم کہو تو میں نہ لوں گی۔ اب تمہاری مرضی ہو تو رہو ورنہ جاؤ۔‘‘ چھٹے آدمی نے یہ بات سن کر تکرار نہ کی اور اس کے ہاں ٹھہر گیا۔ جب دوسرے کمرے میں دروازے وروازے بند کرکے وہ اپنا کوٹ اتارنے لگا تو سلطانہ نے کہا۔’’لائیے ایک روپیہ دودھ کا۔‘‘ اس نے ایک روپیہ تو نہ دیا لیکن نئے بادشاہ کی چمکتی ہوئی اٹھنی جیب میں سے نکال کر اس کو دے دی اور سلطانہ نے بھی چپکے سے لے لی کہ چلو جو آیا ہے غنیمت ہے۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینوں میں۔۔۔۔۔۔ بیس روپے ماہوار تو اس کوٹھے کا کرایہ تھا جس کو مالک مکان انگریزی زبان میں فلیٹ کہتا تھا۔ اس فلیٹ میں ایسا پاخانہ تھا جس میں زنجیر کھینچنے سے ساری گندگی پانی کے زور سے ایک دم نیچے نل میں غائب ہو جاتی تھی اور بڑا شور ہوتا تھا۔ شروع شروع میں تو اس شور نے اسے بہت ڈرایا تھا۔ پہلے دن جب وہ رفع حاجت کے لیے اس پاخانہ میں گئی تو اس کے لیے کمر میں شدت کا درد ہورہا تھا۔ فارغ ہو کر جب اٹھنے لگی تو اس نے لٹکی ہوئی زنجیر کا سہارا لے لیا۔ اس زنجیرکو دیکھ کر اس نے خیال کیا چونکہ یہ مکان خاص ہم لوگوں کی رہائش کے لیے تیار کیے گئے ہیں یہ زنجیر اس لیے لگائی گئی ہے کہ اٹھتے وقت تکلیف نہ ہو اور سہارا مل جایا کرے مگر جونہی اس نے زنجیر پکڑ کر اٹھنا چاہا، اوپر کھٹ کھٹ سی ہُوئی اور پھر ایک دم پانی اس شور کے ساتھ باہر نکلا کہ ڈر کے مارے اس کے منہ سے چیخ نکل گئی۔ خدا بخش دوسرے کمرے میں اپنا فوٹو گرافی کا سامان درست کررہا تھا اور ایک صاف بوتل میں ہائی ڈرو کونین ڈال رہا تھا کہ اس نے سلطانہ کی چیخ سنی۔ دوڑ کروہ باہر نکلا اور سلطانہ سے پوچھا۔’’کیا ہوا؟۔۔۔۔۔۔ یہ چیخ تمہاری تھی؟‘‘ سلطانہ کا دل دھڑک رہا تھا۔ اس نے کہا۔’’ یہ موا پاخانہ ہے یا کیا ہے۔ بیچ میں یہ ریل گاڑیوں کی طرح زنجیر کیا لٹکا رکھی ہے۔ میری کمرمیں درد تھا۔ میں نے کہا چلو اس کا سہارا لے لوں گی، پر اس موئی زنجیر کو چھیڑنا تھا کہ وہ دھماکہ ہُوا کہ میں تم سے کیا کہوں۔‘‘ اس پر خدا بخش بہت ہنسا تھا اور اس نے سلطانہ کو اس پیخانے کی بابت سب کچھ بتا دیا تھا کہ یہ نئے فیش کا ہے جس میں زنجیر ہلانے سے سب گندگی نیچے زمین میں دھنس جاتی ہے۔ خدا بخش اور سلطانہ کا آپس میں کیسے سمبندھ ہُوا یہ ایک لمبی کہانی ہے۔ خدا بخش راولپنڈی کا تھا۔ انٹرنٹس پاس کرنے کے بعد اس نے لاری چلانا سیکھا، چنانچہ چار برس تک وہ راولپنڈی اور کشمیر کے درمیان لاری چلانے کا کام کرتا رہا۔ اس کے بعد کشمیر میں اس کی دوستی ایک عورت سے ہوگئی۔ اس کو بھگا کر وہ لاہور لے آیا۔ لاہور میں چونکہ اس کو کوئی کام نہ ملا۔ اس لیے اس نے عورت کو پیشے بٹھا دیا۔ دو تین برس تک یہ سلسلہ جاری رہا اور وہ عورت کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی۔ خدا بخش کو معلوم ہوا کہ وہ ابنالہ میں ہے۔ وہ اس کی تلاش میں ابنالہ آیا جہاں اس کو سلطانہ مل گئی۔ سلطانہ نے اس کو پسند کیا، چنانچہ دونوں کا سمبندھ ہوگیا۔ خدا بخش کے آنے سے ایک دم سلطانہ کا کاروبار چمک اٹھا۔ عورت چوں کہ ضعیف الاعتقاد تھی۔ اس لیے اس نے سمجھا کہ خدا بخش بڑا بھاگوان ہے جس کے آنے سے اتنی ترقی ہوگئی، چنانچہ اس خوش اعتقادی نے خدا بخش کی وقعت اس کی نظروں میں اور بھی بڑھا دی۔ خدا بخش آدمی محنتی تھا۔ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافرسے دوستی پیدا کی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھینچا کرتا تھا۔ اس لیے اس نے فوٹو کھینچنا سیکھ لیا۔ پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بنوایا، دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس نے علیحدہ اپنا کام شروع کردیا۔ کام چل نکلا، چنانچہ اس نے تھوڑی ہی دیر کے بعد اپنا اڈا ابنالے چھاؤنی میں قائم کردیا۔ یہاں وہ گوروں کے فوٹو کھینچتا رہتا۔ ایک مہینے کے اندر اندر اس کی چھاؤنی کے متعدد گوروں سے واقفیت ہوگئی، چنانچہ وہ سلطانہ کو وہیں لے گیا۔ یہاں چھاؤنی میں خدا بخش کے ذریعہ سے کئی گورے سلطانہ کے مستقل گاہک بن گئے اور اس کی آمدنی پہلے سے دوگنی ہوگئی۔ سلطانہ نے کانوں کے لیے بُندے خریدے۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں بھی بنوالیں۔ دس پندرہ اچھی اچھی ساڑھیاں بھی جمع کرلیں، گھرمیں فرنیچر وغیرہ بھی آگیا۔ قصہ مختصر یہ کہ ابنالہ چھاؤنی میں وہ بڑی خوش حال تھی مگر ایکا ایکی نہ جانے خدا بخش کے دل میں کیا سمائی کہ اس نے دہلی جانے کی ٹھان لی۔ سطانہ انکار کیسے کرتی جبکہ خدا بخش کو اپنے لیے بہت مبارک خیال کرتی تھی۔ اس نے خوشی خوشی دہلی جانا قبول کرلیا۔ بلکہ اس نے یہ بھی سوچا کہ اتنے بڑے شہر میں جہاں لاٹ صاحب رہتے ہیں اس کا دھندا اور بھی اچھا چلے گا۔ اپنی سہیلیوں سے وہ دہلی کی تعریف سُن چکی تھی۔ پھر وہاں حضرت نظام الدین اولیاء کی خانقاہ تھی۔ جس سے اسے بے حد عقیدت تھی، چنانچہ جلدی جلدی گھر کا بھاری سامان بیچ باچ کر وہ خدا بخش کے ساتھ دہلی آگئی۔ یہاں پہنچ کر خدا بخش نے بیس روپے ماہوار پر ایک چھوٹا سا فلیٹ لے لیا جس میں وہ دونوں رہنے لگے۔ ایک ہی قسم کے نئے مکانوں کی لمبی سی قطار سڑک کے ساتھ ساتھ چلی گئی تھی۔ میونسپل کمیٹی نے شہر کا یہ حصہ خاص کسبیوں کے لیے مقرر کردیا تھا تاکہ وہ شہر میں جگہ جگہ اپنے اڈے نہ بنائیں۔ نیچے دکانیں تھیں اور اوپر دومنزلہ رہائشی فلیٹ۔ چونکہ سب عمارتیں ایک ہی ڈیزائن کی تھیں اس لیے شروع شروع میں سلطانہ کو اپنا فلیٹ تلاش کرنے میں بہت دِقت محسوس ہوئی تھی پر جب نیچے لانڈری والے نے اپنا بورڈ گھر کی پیشانی پر لگا دیا تو اس کو ایک پکی نشانی مل گئی۔’’یہاں میلے کپڑوں کی دھلائی کی جاتی ہے۔‘‘ یہ بورڈ پڑھتے ہی وہ اپنا فلیٹ تلاش کرلیا کرتی تھی۔ اسی طرح اس نے اور بہت سی نشانیاں قائم کرلی تھیں، مثلاً بڑے بڑے حروف میں جہاں’’کوئلوں کی دوکان‘‘ لکھا تھا وہاں اس کی سہیلی ہیرا بائی رہتی تھی جو کبھی کبھی ریڈیو گھر میں گانے جایا کرتی تھی۔ جہاں’’ شرفا کے کھانے کا اعلیٰ انتظام ہے۔‘‘ لکھا تھا وہاں اس کی دوسری سہیلی مختار رہتی تھی۔ نواڑ کے کارخانہ کے اوپر انوری رہتی تھی جو اسی کارخانہ کے سیٹھ کے پاس ملازم تھی۔ چونکہ سیٹھ صاحب کو رات کے وقت اپنے کارخانہ کی دیکھ بھال کرنا ہوتی تھی اس لیے وہ انوری کے پاس ہی رہتے تھے۔ دوکان کھولتے ہی گاہک تھوڑے ہی آتے ہیں۔ چنانچہ جب ایک مہینے تک سلطانہ بیکار رہی تو اس نے یہی سوچ کر اپنے دل کو تسلی دی، پر جب دو مہینے گزر گئے اور کوئی آدمی اس کے کوٹھے پر نہ آیا تو اسے بہت تشویش ہوئی۔ اس نے خدا بخش سے کہا۔’’ کیا بات ہے خدا بخش، دو مہینے آج پورے ہوگئے ہیں ہمیں یہاں آئے ہوئے، کسی نے ادھر کا رخ بھی نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ مانتی ہوں آج کل بازار بہت مندا ہے، پر اتنا مندا بھی تو نہیں کہ مہینے بھر میں کوئی شکل دیکھنے ہی میں نہ آئے۔‘‘خدا بخش کو بھی یہ بات بہت عرصہ سے کھٹک رہی تھی مگر وہ خاموش تھا، پر جب سلطانہ نے خود بات چھیڑی تو اس نے کہا۔’’ میں کئی دنوں سے اس کی بابت سوچ رہا ہوں۔ ایک بات سمجھ میں آتی ہے، وہ یہ کہ جنگ کی وجہ سے لوگ باگ دوسرے دھندوں میں پڑ کر ادھر کا رستہ بھول گئے ہیں۔۔۔۔۔۔ یا پھر یہ ہو سکتا ہے کہ۔۔۔‘‘ وہ اس کے آگے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ سیڑھیوں پر کسی کے چڑھنے کی آواز آئی۔ خدا بخش اور سلطانہ دونوں اس آواز کی طرف متوجہ ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دستک ہوئی۔ خدا بخش نے لپک کر دروازہ کھولا۔ ایک آدمی اندر داخل ہوا۔ یہ پہلا گاہک تھا جس سے تین روپے میں سودا طے ہوا۔ اس کے بعد پانچ اور آئے یعنی تین مہینے میں چھ، جن سے سلطانہ نے صرف ساڑھے اٹھارہ روپے وصول کیے۔ بیس روپے ماہوار تو فلیٹ کے کرایہ میں چلے جاتے تھے، پانی کا ٹیکس اور بجلی کا بل جدا تھا۔ اس کے علاوہ گھر کے دوسرے خرچ تھے۔ کھانا پینا، کپڑے لتے، دوا دارو اور آمدن کچھ بھی نہیں تھی۔ ساڑھے اٹھارہ روپے تین مہینے میں آئے تو اسے آمدن تو نہیں کہہ سکتے۔ سلطانہ پریشان ہوگئی۔ ساڑھے پانچ تولے کی آٹھ کنگنیاں جو اس نے انبالے میں بنوائی تھیں آہستہ آہستہ بک گئیں۔ آخری کنگنی کی جب باری آئی تو اس نے خدا بخش سے کہا۔’’ تم میری سنو اور چلو واپس انبالے میں یہاں کیا دھرا ہے؟۔۔۔ بھئی ہوگا، پر ہمیں تو یہ شہر راس نہیں آیا۔ تمہارا کام بھی وہاں خوب چلتا تھا، چلو، وہیں چلتے ہیں۔ جو نقصان ہوا ہے اس کو اپنا سر صدقہ سمجھو۔ اس کنگنی کو بیچ کر آؤ، میں اسباب وغیرہ باندھ کر تیار رکھتی ہوں۔ آج رات کی گاڑی سے یہاں سے چل دیں گے۔‘‘ خدا بخش نے کنگنی سلطانہ کے ہاتھ سے لے لی اور کہا۔’’ نہیں جانِ من، انبالہ اب نہیں جائیں گے، یہیں دہلی میں رہ کر کمائیں گے۔ یہ تمہاری چوڑیاں سب کی سب یہیں واپس آئیں گی۔ اللہ پر بھروسہ رکھو۔ وہ بڑا کارساز ہے۔ یہاں بھی وہ کوئی نہ کوئی اسباب بنا ہی دے گا۔‘‘ سلطانہ چُپ ہورہی، چنانچہ آخری کنگنی ہاتھ سے اتر گئی۔ بُچے ہاتھ دیکھ کر اس کو بہت دُکھ ہوتا تھا، پر کیا کرتی، پیٹ بھی تو آخر کسی حیلے سے بھرنا تھا۔ جب پانچ مہینے گزر گئے اور آمدن خرچ کے مقابلے میں چوتھائی سے بھی کچھ کم رہی تو سلطانہ کی پریشانی اور زیادہ بڑھ گئی۔ خدا بخش بھی سارا دن اب گھر سے غائب رہنے لگا تھا۔ سلطانہ کو اس کا بھی دُکھ تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پڑوس میں اس کی دو تین ملنے والیاں موجود تھیں جن کے ساتھ وہ اپنا وقت کاٹ سکتی تھی پر ہر روز ان کے یہاں جانا اور گھنٹوں بیٹھے رہنا اس کو بہت بُرا لگتا تھا۔ چنانچہ آہستہ آہستہ اس نے ان سہیلیوں سے ملنا جلنا بالکل ترک کردیا۔ سارا دن وہ اپنے سنسنان مکان میں بیٹھی رہتی۔ کبھی چھالیا کاٹتی رہتی، کبھی اپنے پرانے اور پھٹے ہوئے کپڑوں کو سیتی رہتی اور کبھی باہر بالکونی میں آ کر جنگلے کے ساتھ کھڑی ہو جاتی اور سامنے ریلوے شیڈ میں ساکت اور متحرک انجنوں کی طرف گھنٹوں بے مطلب دیکھتی رہتی۔ سڑک کی دوسری طرف مال گودام تھا جو اس کونے سے اس کونے تک پھیلا ہوا تھا۔ داہنے ہاتھ کو لوہے کی چھت کے نیچے بڑی بڑی گانٹھیں پڑی رہتی تھیں اور ہر قسم کے مال اسباب کے ڈھیر سے لگے رہتے تھے۔ بائیں ہاتھ کو کھلا میدان تھا جس میں بے شمار ریل کی پٹڑیاں بچھی ہُوئی تھیں۔ دُھوپ میں لوہے کی یہ پٹڑیاں چمکتیں تو سلطانہ اپنے ہاتھوں کی طرف دیکھتی جن پر نیلی نیلی رگیں بالکل ان پٹڑیوں کی طرح اُبھری رہتی تھیں، اس لمبے اور کھلے میدان میں ہر وقت انجن اور گاڑیاں چلتی رہتی تھیں۔ کبھی ادھر کبھی اُدھر۔ ان انجنوں اور گاڑیوں کی چِھک چِھک پَھک پَھک سدا گونجتی رہتی تھی۔ صبح سویرے جب وہ اٹھ کر بالکونی میں آتی تو ایک عجیب سماں نظر آتا۔ دُھندلکے میں انجنوں کے منہ سے گاڑھا گاڑھا دُھواں نکلتا تھا اور گدلے آسمان کی جانب موٹے اور بھاری آدمیوں کی طرح اُٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ بھاپ کے بڑے بڑے بادل بھی ایک شور کے ساتھ پٹڑیوں سے اُٹھتے تھے اور آنکھ جھپکنے کی دیر میں ہوا کے اندر گُھل مل جاتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ گاڑی کے کسی ڈبے کو جسے انجن نے دھکا دے کر چھوڑ دیا ہو اکیلے پٹڑیوں پر چلتا دیکھتی تو اسے اپنا خیال آتا۔وہ سوچتی کہ اسے بھی کسی نے زندگی کی پٹڑی پر دھکا دے کر چھوڑ دیا ہے اور وہ خود بخود جارہی ہے۔دوسرے لوگ کانٹے بدل رہے ہیں اور وہ چلی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔ نہ جانے کہاں۔ پھر ایک روز ایسا آئے گا جب اس دھکے کا زور آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گا اور وہ کہیں رک جائیگی۔ کسی ایسے مقام پر جو اس کا دیکھا بھالا نہ ہوگا۔ یوں تو وہ بے مطلب گھنٹوں ریل کی ان ٹیڑھی بانکی پٹڑیوں اور ٹھہرے اور چلتے ہُوئے انجنوں کی طرف دیکھتی رہتی تھی پر طرح طرح کے خیال اس کے دماغ میں آتے رہتے تھے۔ ابنالہ چھاؤنی میں جب وہ رہتی تھی تو اسٹیشن کے پاس ہی اس کا مکان تھا مگروہاں اس نے کبھی ان چیزوں کو ایسی نظروں سے نہیں دیکھا تھا۔ اب تو کبھی کبھی اس کے دماغ میں یہ بھی خیال آتا کہ یہ جو سامنے ریل کی پٹڑیوں کا جال سا بچھا ہے اور جگہ جگہ سے بھاپ اور دھواں اٹھ رہا ہے ایک بہت بڑا چکلہ ہے۔ بہت سی گاڑیاں ہیں جن کو چند موٹے موٹے انجن ادھر ادھر دھکیلتے رہتے ہیں۔ سلطانہ کو تو بعض اوقات یہ انجن سیٹھ معلوم ہوتے ہیں جو کبھی کبھی انبالہ میں اس کے ہاں آیا کرتے تھے۔ پھر کبھی کبھی جب وہ کسی انجن کو آہستہ آہستہ گاڑیوں کی قطار کے پاس سے گزرتا دیکھتی تو اسے ایسا محسوس ہوتا کہ کوئی آدمی چکلے کے کسی بازار میں سے اوپر کوٹھوں کی طرف دیکھتا جارہاہے۔ سلطانہ سمجھتی تھی کہ ایسی باتیں سوچنا دماغ کی خرابی کا باعث ہے، چنانچہ جب اس قسم کے خیال اس کو آنے لگے تو اس نے بالکونی میں جانا چھوڑ دیا۔ خدا بخش سے اس نے بارہا کہا۔’’ دیکھو، میرے حال پر رحم کرو۔ یہاں گھر میں رہا کرو۔ میں سارا دن یہاں بیماروں کی طرح پڑی رہتی ہوں۔‘‘ مگر اُس نے ہر بار سلطانہ سے یہ کہہ کر اُس کی تشفی کردی۔’’ جانِ من۔۔۔ میں باہر کچھ کمانیکی فکر کررہا ہوں۔ اللہ نے چاہا تو چند دنوں ہی میں بیڑا پار ہو جائے گا۔‘‘ پورے پانچ مہینے ہوگئے تھے مگر ابھی تک نہ سلطانہ کا بیڑا پار ہوا تھا نہ خدا بخش کا۔ محرم کا مہینہ سر پر آرہا تھا مگر سلطانہ کے پاس کالے کپڑے بنوانے کے لیے کچھ بھی نہ تھا۔ مختار نے لیڈی ہیملٹن کی ایک نئی وضع کی قمیض بنوائی تھی جس کی آستینیں کالی جارجٹ کی تھیں۔ اس کے ساتھ میچ کرنے کے لیے اس کے پاس کالی ساٹن کی شلوار تھی جو کاجل کی طرح چمکتی تھی۔ انوری نے ریشمی جارجٹ کی ایک بڑی نفیس ساڑھی خریدی تھی۔ اس نے سلطانہ سے کہا تھا کہ وہ اس ساڑھی کے نیچے سفید بوسکی کا پیٹی کوٹ پہنے گی کیونکہ یہ نیا فیشن ہے۔ اس ساڑھی کے ساتھ پہننے کو انوری کالی مخمل کا ایک جوتا لائی تھی جو بڑا نازک تھا۔ سلطانہ نے جب یہ تمام چیزیں دیکھیں تو اُس کو اس احساس نے بہت دکھ دیا کہ وہ محرم منانے کے لیے ایسا لباس خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ انوری اور مختار کے پاس یہ لباس دیکھ کر جب وہ گھر آئی تو اس کا دل بہت مغموم تھا۔ اسے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پھوڑا سا اس کے اندر پیدا ہوگیا ہے۔ گھر بالکل خالی تھا۔ خدا بخش حسبِ معمول باہر تھا۔ دیر تک وہ دری پر گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹی رہی، پرجب اس کی گردن اونچائی کے باعث اکڑ سی گئی تو اٹھ کر باہر بالکونی میں چلی گئی تاکہ غم افزا خیالات کو اپنے دماغ میں سے نکال دے۔ سامنے پٹڑیوں پر گاڑیوں کے ڈبے کھڑے تھے پر انجن کوئی بھی نہ تھا۔ شام کا وقت تھا۔ چھڑکاؤ ہو چکا تھا اس لیے گرد و غبار دب گیا تھا۔ بازار میں ایسے آدمی چلنے شروع ہوگئے تھے جو تاک جھانک کرنے کے بعد چپ چاپ گھروں کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے ہی ایک آدمی نے گردن اونچی کرکے سطانہ کی طرف دیکھا۔ سلطانہ مسکرا دی اور اس کوبھول گئی کیونکہ اب سامنے پٹڑیوں پر ایک انجن نمودار ہوگیا تھا۔ سلطانہ نے غورسے اس کی طرف دیکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ یہ خیال اس کے دماغ میں آیا کہ انجن نے بھی کالا لباس پہن رکھا ہے۔ یہ عجیب و غریب خیال دماغ سے نکالنے کی خاطر جب اس نے سڑک کی جانب دیکھا تو اسے وہی آدمی بیل گاڑی کے پاس کھڑا نظر آیا جس نے اس کی طرف للچائی نظروں سے دیکھا تھا۔ سلطانہ نے ہاتھ سے اُسے اشارہ کیا۔ اس آدمی نے اِدھر اُدھر دیکھ کر ایک لطیف اشارے سے پوچھا، کدھر سے آؤں، سلطانہ نے اسے راستہ بتا دیا۔ وہ آدمی تھوڑی دیر کھڑا رہا مگر پھر بڑی پُھرتی سے اوپر چلا آیا۔ سلطانہ نے اسے دری پر بٹھایا۔ جب وہ بیٹھ گیا تو اس نے سلسلہ گفتگو شروع کرنے کے لیے کہا۔ ’’آپ اوپر آتے ڈر رہے تھے۔‘‘ وہ آدمی یہ سن کر مسکرایا۔’’ تمہیں کیسے معلوم ہُوا۔۔۔۔۔۔ ڈرنے کی بات ہی کیا تھی؟‘‘ اس پر سلطانہ نے کہا۔ ’’یہ میں نے اس لیے کہا کہ آپ دیر تک وہیں کھڑے رہے اور پھر کچھ سوچ کر ادھر آئے۔‘‘ وہ یہ سُن کر پھر مسکرایا۔’’ تمہیں غلط فہمی ہُوئی۔ میں تمہارے اوپر والے فلیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہاں کوئی عورت کھڑی ایک مرد کو ٹھینگا دکھا رہی تھی۔ مجھے یہ منظر پسند آیا۔ پھر بالکونی میں سبز بلب روشن ہُوا تو میں کچھ دیر کے لیے ٹھہر گیا۔ سبز روشنی مجھے پسند ہے۔ آنکھوں کو بہت اچھی لگتی ہے۔‘‘ یہ کہہ اس نے کمرے کا جائزہ لینا شروع کردیا۔ پھر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ سلطانہ نے پوچھا۔’’ آپ جارہے ہیں؟‘‘ اس آدمی نے جواب دیا۔’’ نہیں، میں تمہارے اس مکان کو دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ چلو مجھے تمام کمرے دکھاؤ۔‘‘ سلطانہ نے اس کو تینوں کمرے ایک ایک کرکے دکھا دیے۔ اس آدمی نے بالکل خاموشی سے ان کمروں کا معائنہ کیا۔ جب وہ دونوں پھر اُسی کمرے میں آگئے جہاں پہلے بیٹھے تو اس آدمی نے کہا۔’’ میرا نام شنکر ہے۔‘‘ سلطانہ نے پہلی بار غور سے شنکر کی طرف دیکھا۔ وہ متوسط قد کا معمولی شکل و صورت کا آدمی تھا مگر اس کی آنکھیں غیرمعمولی طور پر صاف اور شفاف تھیں۔ کبھی کبھی ان میں ایک عجیب قسم کی چمک بھی پیدا ہوتی تھی۔ گٹھیلا اور کسرتی بدن تھا۔ کنپٹیوں پر اس کے بال سفید ہورہے تھے۔ خاکستری رنگ کی گرم پتلون پہنے تھا۔ سفید قمیض تھی جس کا کالر گردن پر سے اوپر کو اُٹھا ہوا تھا۔ شنکر کچھ اس طرح دری پر بیٹھا تھا کہ معلوم ہوتا تھا شنکر کے بجائے سلطانہ گاہک ہے۔ اس احساس نے سلطانہ کو قدرے پریشان کردیا۔ چنانچہ اس نے شنکر سے کہا۔’’فرمائیے۔۔۔۔۔۔‘‘ شنکر بیٹھا تھا، یہ سُن کر لیٹ گیا۔’’ میں کیا فرماؤں، کچھ تم ہی فرماؤ۔ بلایا تمہیں نے ہے مجھے۔‘‘ جب سلطانہ کچھ نہ بولی تو وہ اُٹھ بیٹھا۔’’ میں سمجھا، لو اب مجھ سے سُنو، جو کچھ تم نے سمجھا، غلط ہے، میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو کچھ دیکر جاتے ہیں۔ ڈاکٹروں کی طرح میری بھی فیس ہے۔ مجھے جب بلایا جائے تو فیس دینا ہی پڑتی ہے۔‘‘ سلطانہ یہ سُن کر چکرا گئی مگر اس کے باوجود اسے بے اختیار ہنسی آگئی۔ ’’آپ کام کیا کرتے ہیں؟‘‘ شنکر نے جواب دیا۔’’ یہی جو تم لوگ کرتے ہو۔‘‘ ’’کیا؟‘‘ ’’ تم کیا کرتی ہو؟‘‘ ’’ میں۔۔۔ میں۔۔۔ میں کچھ بھی نہیں کرتی۔‘‘ ’’میں بھی کچھ نہیں کرتا۔‘‘ سلطانہ نے بھنا کر کہا۔’’ یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔۔۔۔۔۔ آپ کچھ نہ کچھ تو ضرور کرتے ہوں گے۔‘‘ شنکر نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔’’ تم بھی کچھ نہ کچھ ضرور کرتی ہوگی۔‘‘ ’’جھک مارتی ہوں۔‘‘ ’’ میں بھی جھک مارتا ہوں۔‘‘ ’’ تو آؤ دونوں جھک ماریں۔‘‘ ’’ میں حاضر ہوں مگر جھک مارنے کے لیے دام میں کبھی نہیں دیا کرتا۔‘‘ ’’ ہوش کی دوا کرو۔۔۔۔۔۔ یہ لنگر خانہ نہیں۔‘‘ ’’ اور میں بھی والنٹیر نہیں ہوں۔‘‘ سلطانہ یہاں رک گئی۔ اس نے پوچھا۔’’ یہ والنٹیر کون ہوتے ہیں۔‘‘ شنکر نے جواب دیا۔ ’’اُلو کے پٹھے۔‘‘ ’’ میں بھی الو کی پٹھی نہیں۔‘‘ ’’ مگر وہ آدمی خدا بخش جو تمہارے ساتھ رہتا ہے ضرور اُلو کا پٹھا ہے۔‘‘ ’’کیوں؟‘‘ اس لیے کہ وہ کئی دنوں سے ایک ایسے خدا رسیدہ فقیر کے پاس اپنی قسمت کھلوانے کی خاطر جارہا ہے جس کی اپنی قسمت زنگ لگے تالے کی طرح بند ہے۔‘‘ یہ کہہ کر شنکر ہنسا۔ اس پر سلطانہ نے کہا۔’’ تم ہندو ہو، اسی لیے ہمارے ان بزرگوں کا مذاق اُڑاتے ہو۔‘‘ شنکر مسکرایا۔’’ایسی جگہوں پر ہندو مسلم سوال پیدا نہیں ہُوا کرتے۔ پنڈت مالویہ اور مسٹر جناح اگر یہاں آئیں تو وہ بھی شریف آدمی بن جائیں۔‘‘ ’’جانے تم کیا اوٹ پٹانگ باتیں کرتے ہو۔۔۔۔۔۔ بولو رہو گے؟‘‘ ’’ اسی شرط پر جو پہلے بتا چکا ہُوں۔‘‘ سلطانہ اُٹھ کھڑی ہُوئی۔’’ تو جاؤ رستہ پکڑو۔‘‘ شنکر آرام سے اُٹھا۔ پتلون کی جیبوں میں اس نے اپنے دونوں ہاتھ ٹھونسے اور جاتے ہوئے کہا۔’’ میں کبھی کبھی اس بازار سے گزرا کرتا ہُوں۔ جب بھی تمہیں میری ضرورت ہو بلا لینا۔۔۔۔۔۔ میں بہت کام کا آدمی ہوں۔‘‘ شنکر چلا گیا اور سلطانہ کالے لباس کو بھول کر دیر تک اس کے متعلق سوچتی رہی۔ اس آدمی کی باتوں نے اس کے دکھ کو بہت ہلکا کردیا تھا۔ اگر وہ انبالے میں آیا ہوتا جہاں کہ وہ خوشحال تھی تو اُس نے کسی اور ہی رنگ میں اس آدمی کو دیکھا ہوتا اور بہت ممکن ہے کہ اسے دھکے دیکر باہر نکال دیا ہوتا مگر یہاں چونکہ وہ بہت اداس رہتی تھی،اس لیے شنکر کی باتیں اسے پسند آئیں۔ شام کو جب خدا بخش آیا تو سلطانہ نے اُس سے پوچھا۔’’ تم آج سارا دن کدھر غائب رہے ہو؟‘‘ خدا بخش تھک کر چُور چُور ہورہا تھا، کہنے لگا۔’’ پرانے قلعہ کے پاس سے آرہا ہوں۔ وہاں ایک بزرگ کچھ دنوں سے ٹھہرے ہُوئے ہیں، انہی کے پاس ہر روز جاتا ہُوں کہ ہمارے دن پھر جائیں۔۔۔‘‘ ’’ کچھ انھوں نے تم سے کہا؟‘‘ ’’ نہیں، ابھی وہ مہربان نہیں ہُوئے۔۔۔ پر سلطانہ، میں جو ان کی خدمت کررہا ہوں وہ اکارت کبھی نہیں جائے گی۔ اللہ کا فضل شامل حال رہا تو ضرور وارے نیارے ہو جائیں گے۔‘‘ سلطانہ کے دماغ میں محرم منانے کا خیال سمایا ہوا تھا، خدا بخش سے رونی آواز میں کہنے لگی۔’’ سارا سارا دن باہر غائب رہتے ہو۔۔۔ میں یہاں پنجرے میں قید رہتی ہوں، نہ کہیں جاسکتی ہوں نہ آسکتی ہوں۔ محرم سر پر آگیا ہے، کچھ تم نے اسکی بھی فکر کی کہ مجھے کالے کپڑے چاہئیں، گھر میں پھوٹی کوڑی تک نہیں۔ کنگنیاں تھیں سو وہ ایک ایک کرکے بِک گئیں، اب تم ہی بتاؤ کیا ہوگا؟۔۔۔ یوں فقیروں کے پیچھے کب تک مارے مارے پھرا کرو گے۔ مجھے تو ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یہاں دہلی میں خدا نے بھی ہم سے منہ موڑ لیا ہے۔ میری سنو تو اپنا کام شروع کردو۔ کچھ تو سہارا ہو ہی جائے گا۔‘‘ خدا بخش دری پر لیٹ گیا اور کہنے لگا۔’’ پر یہ کام شروع کرنے کے لیے بھی تو تھوڑا بہت سرمایہ چاہیے۔۔۔۔۔۔ خدا کے لیے اب ایسی دُکھ بھری باتیں نہ کرو۔ مجھ سے اب برداشت نہیں ہوسکتیں۔ میں نے سچ مچ انبالہ چھوڑنے میں سخت غلطی کی، پر جو کرتا ہے اللہ ہی کرتا ہے اور ہماری بہتری ہی کے لیے کرتا ہے، کیا پتا ہے کہ کچھ دیر اور تکلیفیں برداشت کرنے کے بعد ہم۔۔۔۔۔۔‘‘ سلطانہ نے بات کاٹ کر کہا۔’’ تم خدا کے لیے کچھ کرو۔ چوری کرو یا ڈاکہ مارو پر مجھے ایک شلوار کا کپڑا ضرور لادو۔ میرے پاس سفید بوسکی کی قمیض پڑی ہے، اس کو میں کالا رنگوالوں گی۔ سفید نینوں کا ایک نیا دوپٹہ بھی میرے پاس موجود ہے، وہی جو تم نے مجھے دیوالی پر لا کر دیا تھا، یہ بھی قیض کیساتھ ہی کالا رنگوا لیا جائے گا۔ ایک صرف شلوار کی کسر ہے، سووہ تم کسی نہ کسی طرح پیدا کردو۔۔۔۔۔۔ دیکھو تمہیں میری جان کی قسم کسی نہ کسی طرح ضرور لادو۔۔۔۔۔۔ میری بھتی کھاؤ اگر نہ لاؤ۔‘‘ خدا بخش اُٹھ بیٹھا۔’’ اب تم خواہ مخواہ زور دیئے چلی جارہی ہو۔۔۔۔۔۔ میں کہاں سے لاؤں گا۔۔۔۔۔۔ افیم کھانے کے لیے تو میرے پاس پیسہ نہیں۔‘‘ ’’ کچھ بھی کرو مگر مجھے ساڑھے چار گز کالی ساٹن لادو۔‘‘ ’’ دعا کرو کہ آج رات ہی اللہ دو تین آدمی بھیج دے۔‘‘ ’’ لیکن تم کچھ نہیں کرو گے۔۔۔۔۔۔ تم اگر چاہو تو ضرور اتنے پیسے پیدا کرسکتے ہو۔ جنگ سے پہلے یہ ساٹن بارہ چودہ آنہ گز مل جاتی تھی، اب سوا روپے گز کے حساب سے ملتی ہے۔ ساڑھے چار گزوں پرکتنے روپے خرچ ہو جائیں گے؟‘‘ ’’اب تم کہتی ہو تو میں کوئی حیلہ کروں گا۔‘‘ یہ کہہ کر خدا بخش اُٹھا۔’’ لو اب ان باتوں کو بھول جاؤ، میں ہوٹل سے کھانا لے آؤں۔‘‘ ہوٹل سے کھانا آیا دونوں نے مل کر زہر مار کیا اور سو گئے۔ صبح ہوئی۔ خدا بخش پرانے قلعے والے فقیر کے پاس چلا گیا اور سلطانہ اکیلی رہ گئی۔ کچھ دیر لیٹی رہی، کچھ دیر سوئی رہی۔ اِدھر اُدھر کمروں میں ٹہلتی رہی، دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد اس نے اپنا سفید نینوں کا دوپٹہ اور سفید بوسکی کی قمیض نکالی اور نیچے لانڈری والے کو رنگنے کے لیے دے آئی۔ کپڑے دھونے کے علاوہ وہاں رنگنے کا کام بھی ہوتا تھا۔ یہ کام کرنے کے بعد اس نے واپس آکر فلموں کی کتابیں پڑھیں جن میں اس کی دیکھی ہوئی فلموں کی کہانی اور گیت چھپے ہُوئے تھے۔ یہ کتابیں پڑھتے پڑھتے وہ سو گئی، جب اٹھی تو چار بج چکے تھے کیونکہ دھوپ آنگن میں سے موری کے پاس پہنچ چکی تھی۔ نہا دھو کر فارغ ہُوئی تو گرم چادر اوڑھ کر بالکونی میں آکھڑی ہُوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ سلطانہ بالکونی میں کھڑی رہی۔ اب شام ہوگئی تھی۔ بتیاں روشن ہورہی تھیں۔ نیچے سڑک میں رونق کے آثار نظر آنے لگے۔ سردی میں تھوڑی سی شدت ہوگئی تھی مگر سلطانہ کو یہ ناگوار معلوم نہ ہُوئی۔ وہ سڑک پر آتے جاتے ٹانگوں اور موٹروں کی طرف ایک عرصہ سے دیکھ رہی تھی۔ دفعتہ اسے شنکر نظر آیا۔ مکان کے نیچے پہنچ کر اس نے گردن اونچی کی اور سلطانہ کی طرف دیکھ کر مسکرا دیا۔سلطانہ نے غیر ارادی طور پر ہاتھ کا اشارہ کیا اور اسے اوپر بلا لیا۔ جب شنکر اوپر آگیا تو سلطانہ بہت پریشان ہُوئی کہ اس سے کیا کہے۔ دراصل اس نے ایسے ہی بلا سوچے سمجھے اسے اشارہ کردیا تھا۔ شنکر بے حد مطمئن تھا جیسے اسکا اپنا گھر ہے، چنانچہ بڑی بے تکلفی سے پہلے روز کی طرح وہ گاؤ تکیہ سر کے نیچے رکھ کر لیٹ گیا۔ جب سلطانہ نے دیر تک اس سے کوئی بات نہ کی تو اس سے کہا۔’’ تم مجھے سو دفعہ بُلا سکتی ہو اور سو دفعہ ہی کہہ سکتی ہو کہ چلے جاؤ۔۔۔۔۔۔ میں ایسی باتوں پر کبھی ناراض نہیں ہُوا کرتا۔‘‘ سلطانہ شش و پنج میں گرفتار ہوگئی، کہنے لگی۔’’ نہیں بیٹھو، تمہیں جانے کو کون کہتا ہے۔‘‘ شنکر اس پر مسکرا دیا۔’’ تو میری شرطیں تمہیں منظور ہیں۔‘‘ ’’کیسی شرطیں؟‘‘ سلطانہ نے ہنس کر کہا۔’’ کیا نکاح کررہے ہو مجھ سے؟‘‘ ’’نکاح اور شادی کیسی؟۔۔۔۔۔۔ نہ تم عمر بھر میں کسی سے نکاح کرو گی نہ میں۔ یہ رسمیں ہم لوگوں کے لیے نہیں۔۔۔۔۔۔ چھوڑو ان فضولیات کو۔ کوئی کام کی بات کرو۔‘‘ ’’بولو کیا بات کروں؟‘‘ ’’تم عورت ہو۔۔۔۔۔۔ کوئی ایسی بات شروع کرو جس سے دو گھڑی دل بہل جائے۔ اس دنیا میں صرف دوکانداری ہی دوکانداری نہیں، اور کچھ بھی ہے۔‘‘ سلطانہ ذہنی طور پر اب شنکر کو قبول کرچکی تھی۔ کہنے لگی۔’’ صاف صاف کہو، تم مجھ سے کیا چاہتے ہو۔‘‘ ’’ جو دوسرے چاہتے ہیں۔‘‘ شنکر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ ’’ تم میں اور دوسروں میں پھر فرق ہی کیا رہا۔‘‘ ’’ تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں۔ان میں اور مجھ میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ایسی بہت سی باتیں ہوتی ہیں جو پوچھنا نہیں چاہئیں خود سمجھنا چاہئیں۔‘‘ سلطانہ نے تھوڑی دیر تک شنکر کی اس بات کو سمجھنے کی کوشش کی پھر کہا۔’’ میں سمجھ گئی ہوں۔‘‘ ’’تو کہو، کیا ارادہ ہے۔‘‘ ’’ تم جیتے، میں ہاری۔ پر میں کہتی ہُوں، آج تک کسی نے ایسی بات قبول نہ کی ہوگی۔‘‘ ’’تم غلط کہتی ہو۔۔۔۔۔۔ اسی محلے میں تمہیں ایسی سادہ لوح عورتیں بھی مل جائینگی جو کبھی یقین نہیں کریں گی کہ عورت ایسی ذلت قبول کرسکتی ہے جو تم بغیر کسی احساس کے قبول کرتی رہی ہو۔ لیکن ان کے نہ یقین کرنے کے باوجود تم ہزاروں کی تعداد میں موجود ہو۔۔۔۔۔۔ تمہارا نام سلطانہ ہے نا؟‘‘ ’’سلطانہ ہی ہے۔‘‘ شنکر اُٹھ کھڑا ہوا اور ہنسنے لگا۔’’میرا نام شکر ہے۔۔۔۔۔۔ یہ نام بھی عجب اوٹ پٹانگ ہوتے ہیں، چلو آؤ اندر چلیں۔‘‘ شنکر اور سلطانہ دری والے کمرے میں واپس آئے تو دونوں ہنس رہے تھے، نہ جانے کس بات پر۔ جب شنکر جانے لگا تو سلطانہ نے کہا۔’’ شنکر میری ایک بات مانو گے؟‘‘ شنکر نے جواباً کہا۔’’ پہلے بات بتاؤ۔‘‘ سلطانہ کچھ جھینپ سی گئی۔’’تم کہو گے کہ میں دام وصول کرنا چاہتی ہوں مگر۔‘‘ ’’کہو کہو۔۔۔ رُک کیوں گئی ہو۔‘‘ سلطانہ نے جرأت سے کام لے کر کہا۔ ’’بات یہ ہے کہ محرم آرہا ہے اور میرے پاس اتنے پیسے نہیں کہ میں کالی شلوار بنوا سکوں۔۔۔۔۔۔ یہاں کے سارے دکھڑے تو تم مجھ سے سُن ہی چکے ہو۔ قمیض اور دوپٹہ میرے پاس موجود تھا جو میں نے آج رنگوانے کے لیے دیدیا ہے۔‘‘ شنکر نے یہ سن کرکہا۔ ’’ تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں کچھ روپے دے دوں جو تم یہ کالی شلوار بنوا سکو۔‘‘ سلطانہ نے فوراً ہی کہا۔’’ نہیں، میرا مطلب یہ ہے کہ اگر ہو سکے تو تم مجھے ایک کالی شلوار بنوا دو۔‘‘ شنکر مسکرایا۔ ’’میری جیب میں تو اتفاق ہی سے کبھی کچھ ہوتا ہے، بہر حال میں کوشش کروں گا۔ محرم کی پہلی تاریخ کو تمہیں یہ شلوار مل جائے گی۔ لے بس اب خوش ہو گئیں۔‘‘ سلطانہ کے بُندوں کی طرف دیکھ کر شنکر نے پوچھا۔’’ کیا یہ بُندے تم مجھے دے سکتی ہو؟‘‘ سلطانہ نے ہنس کر کہا۔’’ تم انھیں کیا کرو گے۔ چاندی کے معمولی بُندے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ پانچ روپے کے ہوں گے۔‘‘ اس پر شنکر نے کہا۔’’ میں نے تم سے بندے مانگے ہیں۔ ان کی قیمت نہیں پوچھی، بولو، دیتی ہو۔‘‘ ’’لے لو۔‘‘ یہ کہہ کر سلطانہ نے بُندے اتار کر شنکر کو دے دیے۔ اس کے بعد افسوس ہوا مگر شنکر جا چکا تھا۔ سلطانہ کو قطعاً یقین نہیں تھا کہ شنکر اپنا وعدہ پورا کرے گا مگر آٹھ روز کے بعد محرم کی پہلی تاریخ کو صبح نو بجے دروازے پر دستک ہُوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو شنکر کھڑا تھا۔ اخبار میں لپٹی ہوئی چیز اس نے سلطانہ کو دی اور کہا۔’’ ساٹن کی کالی شلوار ہے ۔۔۔۔۔۔ دیکھ لینا، شاید لمبی ہو۔۔۔۔۔۔ اب میں چلتا ہوں۔‘‘ شنکر شلوار دے کر چلا گیا اورکوئی بات اس نے سلطانہ سے نہ کی۔ اس کی پتلون میں شکنیں پڑی ہوئی تھیں۔ بال بکھرے ہُوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ابھی ابھی سو کر اٹھا ہے اور سیدھا ادھر ہی چلا آیا ہے۔ سلطانہ نے کاغذ کھولا۔ ساٹن کی کالی شلوار تھی ایسی ہی جیسی کہ وہ انوری کے پاس دیکھ کر آئی تھی۔ سلطانہ بہت خوش ہُوئی۔ بندوں اور اُس سودے کا جو افسوس اسے ہُوا تھا اس شلوار نے اور شنکر کی وعدہ ایفائی نے دور کردیا۔ دوپہر کو وہ نیچے لانڈری والے سے اپنی رنگی ہوئی قمیض اور دوپٹہ لے کر آئی۔ تینوں کالے کپڑے اس نے جب پہن لیے تو دروازے پر دستک ہُوئی۔ سلطانہ نے دروازہ کھولا تو انوری اندر داخل ہوئی۔ اس نے سلطانہ کے تینوں کپڑوں کی طرف دیکھا اور کہا۔ ’’قمیض اور دوپٹہ تو رنگا ہُوا معلوم ہوتا ہے، پر یہ شلوار نئی ہے ۔۔۔۔۔۔ کب بنوائی؟‘‘ سلطانہ نے جواب دیا۔ ’’آج ہی درزی لایا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی نظریں انوری کے کانوں پر پڑیں۔ ’’یہ بُندے تم نے کہاں سے لیے؟‘‘ انوری نے جواب دیا۔’’ آج ہی منگوائے ہیں۔‘‘ اس کے بعد دونوں کو تھوڑی دیر تک خاموش رہنا پڑا۔[/size]

Amna Tuesday, July 28, 2015 01:45 PM

9.Babu Ghopinath
 
[size="5"]بابو گوپی ناتھ سے میری ملاقات سن چالیس میں ہُوئی۔ ان دنوں میں بمبئی کا ایک ہفتہ وار پرچہ ایڈٹ کیا کرتا تھا۔ دفتر میں عبدالرحیم سینڈو ایک ناٹے قد کے آدمی کے ساتھ داخل ہُوا۔ میں اس وقت لیڈ لکھ رہا تھا۔ سنیڈو نے اپنے مخصوص انداز میں بآواز بلند مجھے آداب کیا اور اپنے ساتھی سے متعارف کرایا۔’’ منٹو صاحب! بابو گوپی ناتھ سے ملیے۔‘‘ میں نے اُٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ سینڈو نے حسبِ عادت میری تعریفوں کے پُل باندھنے شروع کردیے۔ بابو گوپی ناتھ تم ہندوستان کے نمبر ون رائٹر سے ہاتھ ملا رہے ہو۔ لکھتا ہے تو دھڑن تختہ ہو جاتا ہے لوگوں کا۔ ایسی ایسی کنٹی نیوٹلی ملاتا ہے کہ طبیعت صاف ہو جاتی ہے۔ پچھلے دنوں وہ کیا چٹکلا لکھا تھا آپ نے منٹو صاحب؟ مس خورشید نے کار خریدی۔ اللہ بڑا کارساز ہے۔ کیوں بابو گوپی ناتھ، ہے اینٹی کی پینٹی پو؟‘‘ عبدالرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا اندازہ بالکل نرالا تھا۔ کنٹی نیوٹلی۔ دھڑن تختہ اور اینٹی کی پینٹی پو ایسے الفاظ اس کی اپنی اختراع تھے جن کو وہ گفتگو میں بے تکلف استعمال کرتا تھا۔ میرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابو گوپی ناتھ کی طرف متوجہ ہُوا جو بہت مرعوب نظر آتا تھا۔’’ آپ ہیں بابو گوپی ناتھ۔ بڑے خانہ خراب۔ لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبئی تشریف لائے ہیں۔ ساتھ کشمیر کی ایک کبوتری ہے۔‘‘ بابو گوپی ناتھ مسکرایا۔ عبدالرحیم سینڈو نے تعارف کو ناکافی سمجھ کرکہا۔’’نمبر ون بے وقوف ہوسکتا ہے تو وہ آپ ہیں۔ لوگ ان کے مسکا لگا کر روپیہ بٹورتے ہیں۔ میں صرف باتیں کرکے ان سے ہر روز پولسن بٹر کے دو پیکٹ وصول کرتا ہوں۔ بس منٹو صاحب یہ سمجھ لیجیے کہ بڑے انٹی فلو جسٹین قسم کے آدمی ہیں۔ آپ آج شام کو ان کے فلیٹ پر ضرور تشریف لائیے۔‘‘ بابو گوپی ناتھ نے جو خدا معلوم کیا سوچ رہا تھا، چونک کرکہا۔’’ ہاں ہاں، ضرورتشریف لائیے منٹو صاحب۔‘‘ پھر سینڈو سے پوچھا۔ ’’کیوں سینڈو کیا آپ کچھ اس کا شغل کرتے ہیں؟‘‘ عبدالرحیم سینڈو نے زور سے قہقہہ لگایا۔’’ اجی ہر قسم کا شغل کرتے ہیں۔ تو منٹو صاحب آج شام کو ضرور آئیے گا۔ میں نے بھی پینی شروع کردی ہے، اس لیے کہ مفت ملتی ہے۔‘‘ سینڈو نے مجھے فلیٹ کا پتا لکھا دیا جہاں میں حسب وعدہ شام کو چھ بجے کے قریب پہنچ گیا۔ تین کمرے کا صاف ستھرا فلیٹ تھا جس میں بالکل نیا فرنیچر سجا ہوا تھا۔ سینڈو اور بابو گوپی ناتھ کے علاوہ بیٹھنے والے کمرے میں دو مرد اور دو عورتیں موجود تھیں جن سے سینڈو نے مجھے متعارف کرایا۔ ایک تھا غفار سائیں، تہمد پوش۔ پنجاب کا ٹھیٹ سائیں۔ گلے میں موٹے موٹے دانوں کی مالا۔ سینڈو نے اس کے بارے میں کہا۔’’ آپ بابو گوپی ناتھ کے لیگل ایڈوائزر ہیں۔ میرا مطلب سمجھ جائیے۔ جس آدمی کی ناک بہتی ہو یا جس کے منہ میں سے لعاب نکلتا ہو، پنجاب میں خدا کو پہنچا ہوا درویش بن جاتا ہے یہ بھی بس پہنچے ہُوئے ہیں یا پہنچنے والے ہیں۔ لاہور سے بابو گوپی ناتھ کے ساتھ آئے ہیں کیونکہ انھیں وہاں کوئی اور بے وقوف ملنے کی امید نہیں تھی۔ یہاں آپ بابو صاحب سے کریون اے کے سگریٹ اور سکاچ وسکی کے پیگ پی کر دُعا کرتے رہتے ہیں کہ انجام نیک ہو۔۔۔۔۔۔‘‘ غفار سائیں یہ سُن کر مسکراتا رہا۔ دوسرے مرد کا نام تھا غلام علی۔ لمبا تڑنگا جوان، کسرتی بدن، منہ پر چیچک کے داغ۔ اس کے متعلق سینڈو نے کہا۔’’ یہ میرا شاگرد ہے۔ اپنے استاد کے نقش قدم پر چل رہا۔ لاہور کی ایک نامی طوائف کی کنواری لڑکی اس پر عاشق ہوگئی۔ بڑی بڑی کنٹی نیوٹلیاں ملائی گئیں اس کو پھانسنے کے لیے، مگر اس نے کہا ڈو اور ڈائی، میں لنگوٹ کا پکا رہوں گا۔ ایک تکیے میں بات چیت پیتے کرتے بابو گوپی ناتھ سے ملاقات ہوگئی۔ بس اس دن سے ان کے ساتھ چمٹا ہوا ہے۔ ہر روز کریون اے کا ڈبہ اور کھانا پینا مقرر ہے۔‘‘ یہ سن کر غلام علی بھی مسکراتا رہا۔ گول چہرے والی ایک سرخ و سفید عورت تھی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں سمجھ گیا تھا کہ وہی کشمیر کی کبوتری ہے جس کے متعلق سینڈو نے دفتر میں ذکر کیا تھا۔ بہت صاف ستھری عورت تھی۔ بال چھوٹے تھے۔ ایسا لگتا تھا کٹے ہوئے ہیں مگر درحقیقت ایسا نہیں تھا۔ آنکھیں شفاف اور چمکیلی تھیں۔ چہرے کے خطوط سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ بے حد الہڑ اور ناتجربہ کار ہے۔ سینڈو نے اس سے تعارف کراتے ہوئے کہا۔’’ زینت بیگم۔ بابو صاحب پیار سے زینو کہتے ہیں۔ ایک بڑی خرانٹ نائکہ کشمیر سے یہ سیب توڑ کر لاہور لے آئی۔بابو گوپی ناتھ کو اپنی سی آئی ڈی سے پتہ چلا اور ایک رات لے اڑے۔ مقدمے بازی ہوئی۔ تقریباً دو مہینے تک پولیس عیش کرتی رہی۔ آخر بابو صاحب نے مقدمہ جیت لیا اور اسے یہاں لے آئے۔۔۔۔۔۔ دھڑن تختہ!‘‘ اب گہرے سانولے رنگ کی عورت باقی رہ گئی تھی جو خاموش بیٹھی سگریٹ پی رہی تھی۔آنکھیں سرخ تھیں جن سے کافی بے حیائی مترشح تھی۔ بابو گوپی ناتھ نے اس کی طرف اشارہ کیا۔ اور سینڈو سے کہا۔’’ اس کے متعلق بھی کچھ ہو جائے۔‘‘ سینڈو نے اس عورت کی ران پرہاتھ مارا اور کہا۔’’ جناب یہ ہے ٹین پوٹی، فل فوٹی۔ مسز عبدالرحیم سینڈو عرف سردار بیگم۔۔۔۔۔۔ آپ بھی لاہور کی پیداوار ہیں۔ سن چھتیس میں مجھ سے عشق ہوا۔ دو برسوں ہی میں میرا دھڑن تختہ کر کے رکھ دیا۔ میں لاہور چھوڑ کر بھاگا۔ بابو گوپی ناتھ نے اسے یہاں بلوا لیا ہے تاکہ میرا دل لگا رہے۔ اس کو بھی ایک ڈبہ کریون اے کا راشن میں ملتا ہے ہر روز شام کو ڈھائی روپے کا مورفیا کا انجیکشن لیتی ہے۔ رنگ کالا ہے۔ مگر ویسے بڑی ٹٹ فورٹیٹ قسم کی عورت ہے۔‘‘ سردار نے ایک ادا سے صرف اتنا کہا۔’’ بکواس نہ کر!‘‘ اس ادا میں پیشہ ور عورت کی بناوٹ تھی۔ سب سے متعارف کرانے کے بعد سینڈو نے حسب عادت میری تعریفوں کے پل باندھنے شروع کردیے۔ میں نے کہا۔’’ چھوڑو یار۔ آؤ کچھ باتیں کریں۔‘‘ سینڈو چلایا۔’’بوائے۔۔۔۔۔۔وسکی اینڈ سوڈا۔۔۔۔۔۔ بابو گوپی ناتھ لگاؤ ہوا ایک سبزے کو۔‘‘ بابو گوپی ناتھ نے جیب میں ہاتھ ڈال کر سو سو کے نوٹوں کا ایک پلندا نکالا اور ایک نوٹ سینڈو کے حوالے کردیا۔ سینڈو نے نوٹ لے کر اس کی طرف غور سے دیکھا اور کھڑکھڑا کر کہا۔’’ او گوڈ۔۔۔۔۔۔ او میرے رب العالمین۔۔۔۔۔۔ وہ دن کب آئے گا جب میں بھی لب لگا کر یوں نوٹ نکالا کروں گا۔۔۔۔۔۔ جاؤ بھئی غلام علی۔ دو بوتلیں جانی واکر سٹل گوئنگ سٹرانگ کی لے آؤ۔‘‘ بوتلیں آئیں تو سب نے پینا شروع کی۔ یہ شغل دو تین گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران میں سب سے زیادہ باتیں حسب معمول عبدالرحیم نے کیں۔ پہلا گلاس ایک ہی سانس میں ختم کرکے وہ چلایا۔’’ دھڑن تختہ!منٹو صاحب، وسکی ہو تو ایسی۔ حلق سے اُتر کر پیٹ میں ’’انقلاب، زندہ باد‘‘ لکھتی چلی گئی ہے۔۔۔۔۔۔جیو بابو گوپی ناتھ! جیو۔‘‘ بابو گوپی ناتھ بے چارہ خاموش رہا۔ کبھی کبھی البتہ وہ سینڈو کی ہاں میں ہاں ملا دیتا تھا۔ میں نے سوچا اس شخص کی اپنی رائے کوئی نہیں ہے۔ دوسرا جو بھی کہے، مان لیتا ہے۔ ضعیف الاعتقادی کا ثبوت غفار سائیں موجود تھا جسے وہ بقول سینڈو اپنا لیگل ایڈوائزر بنا کر لایا تھا۔ سینڈو کا اس سے دراصل یہ مطلب تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس سے عقیدت تھی۔ یوں بھی مجھے دوران گفتگو میں معلوم ہوا کہ لاہور میں اس کا اکثر وقت فقیروں اور درویشوں کی صحبت میں کٹتا تھا۔ یہ چیز میں نے خاص طور پر نوٹ کی کہ وہ کھویا کھویا سا تھا، جیسے کچھ سوچ رہا تھا۔ میں نے چنانچہ اس سے ایک بار کہا۔ ’’بابو گوپی ناتھ کیا سوچ رہے ہیں آپ؟‘‘ وہ چونک پڑا۔’’جی میں۔۔۔۔۔۔ میں۔۔۔۔۔۔ کچھ نہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ مسکرایا اور زینت کی طرف ایک عاشقانہ نگاہ ڈالی۔’’ ان حسینوں کے متعلق سوچ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ اور ہمیں کیا سوچ ہوگی۔‘‘ سینڈو نے کہا۔’’ بڑے خانہ خراب ہیں، یہ منٹو صاحب۔ بڑے خانہ خراب ہیں۔۔۔۔۔۔ لاہور کی کوئی ایسی طوائف نہیں جس کے ساتھ بابو صاحب کی کنٹی نیوٹلی نہ رہ چکی ہو۔‘‘ بابو گوپی ناتھ نے یہ سُن کر بڑے بھونڈے انکسار کے ساتھ کہا۔’’ اب کمر میں وہ دم نہیں منٹو صاحب۔‘‘ اس کے بعد واہیات گفتگو شروع ہوگئی۔ لاہور کی طوائفوں کے سب گھرانے گنے گئے۔ کون ڈیرہ دار تھی، کون نٹنی تھی، کون کس کی نوچی تھی، نتھنی اُتارنے کا بابو گوپی ناتھ نے کیا دیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ یہ گفتگو سردار، سینڈو، غفار سائیں اور غلام علی کے درمیان ہوتی رہی، ٹھیٹ لاہور کے کوٹھوں کی زبان میں۔ مطلب تو میں سمجھتا رہا مگر بعض اصطلاحیں سمجھ میں نہ آئیں۔ زینت بالکل خاموش بیٹھی رہی۔ کبھی کبھی کسی بات پر مسکرا دیتی۔ مگر مجھے ایسا محسوس ہوا کہ اسے اس گفتگو سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ہلکی وسکی کا ایک گلاس بھی نہیں پیا۔ بغیر کسی دلچسپی کے سگریٹ بھی پیتی تھی تو معلوم ہوتا تھا اسے تمباکو اور اس کے دھویں سے کوئی رغبت نہیں لیکن لطف یہ ہے کہ سب سے زیادہ سگریٹ اسی نے پیے۔ بابو گوپی ناتھ سے اسے محبت تھی، اس کا پتا مجھے کسی بات سے نہ ملا۔ اتنا البتہ ظاہر تھا کہ بابو گوپی ناتھ کو اس کا کافی خیال تھا کیونکہ زینت کی آسائش کے لیے ہر سامان مہیا تھا۔ لیکن ایک بات مجھے محسوس ہوئی کہ ان دونوں میں کچھ عجیب سا کھنچاؤ تھا۔ میرا مطلب ہے وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب ہونے کے بجائے کچھ ہٹے ہوئے سے معلوم ہوتے تھے۔ آٹھ بجے کے قریب سردار، ڈاکٹر مجید کے ہاں چلی گئی کیونکہ اسے مورفیا کا انجکشن لینا تھا۔ غفارسائیں تین پیگ پینے کے بعد اپنی تسبیح اُٹھا کر قالین پر سو گیا۔ غلام علی کو ہوٹل سے کھانا لینے کے لیے بھیج دیا گیا۔ سینڈو نے اپنی دلچسپ بکواس جب کچھ عرصے کے لیے بند کی تو بابو گوپی ناتھ نے جو اب نشے میں تھا، زینت کی طرف وہی عاشقانہ نگاہ ڈال کر کہا: منٹو! میری زینت کے متعلق آپ کا خیال کیا ہے؟ میں نے سوچا کیا کہوں۔ زینت کی طرف دیکھا تو وہ جھینپ گئی۔ میں نے ایسے ہی کہہ دیا:’’ بڑا نیک خیال ہے۔‘‘ بابو گوپی ناتھ ہوگیا۔’’ منٹو صاحب! ہے بھی بڑی نیک لوگ۔ خدا کی قسم نہ زیور کا شوق ہے نہ کسی اور چیز کا۔ میں نے کئی بار کہاجان من مکان بنوادوں؟ جواب کیا دیا، معلوم ہے آپ کو؟ کیا کروں گی مکان لے کر۔ میرا کون ہے۔۔۔۔۔۔ منٹو صاحب موٹر کتنے میں آجائے گی۔‘‘ میں نے کہا’’ مجھے معلوم نہیں۔‘‘ بابو گوپی ناتھ نے تعجب سے کہا۔ ’’کیا بات کرتے ہیں آپ منٹو صاحب۔۔۔۔۔۔ آپ کو، اور کاروں کی قیمت معلوم نہ ہو۔ کل چلیے میرے ساتھ، زینو کے لیے ایک موٹر لیں گے۔ میں نے اب دیکھا ہے کہ بمبئی میں موٹر ہونی ہی چاہیے۔‘‘ زینت کا چہرہ رد عمل سے خالی رہا۔ بابو گوپی ناتھ کا نشہ تھوڑی دیرکے بعد بہت تیز ہوگیا۔ ہمہ تن جذبات ہوکر اس نے مجھ سے کہا:’’ منٹو صاحب! آپ بڑے لائق آدمی ہیں۔ میں تو بالکل گدھا ہوں۔۔۔۔۔۔ لیکن آپ مجھے بتائیے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں۔ کل باتوں باتوں میں سینڈو نے آپ کا ذکرکیا۔ میں نے اسی وقت ٹیکسی منگوائی اور اس سے کہا مجھے لے چلو منٹو صاحب کے پاس۔ مجھ سے کوئی گستاخی ہوگئی ہوتومعاف کردیجیے گا۔۔۔۔۔۔ بہت گنہ گار آدمی ہوں۔۔۔۔۔۔ وسکی منگاؤں آپ کے لیے اور؟‘‘ میں نے کہا۔’’ نہیں نہیں۔۔۔۔۔۔ بہت پی چکے ہیں۔‘‘ وہ اور زیادہ جذباتی ہوگیا:’’ اور پیجیے منٹو صاحب!‘‘ یہ کہہ کر جیب سے سو سو کے نوٹوں کا پلندا نکالا اور ایک نوٹ جدا کرنے لگا۔ لیکن میں نے سب نوٹ اس کے ہاتھ سے لیے اور واپس اس کی جیب میں ٹھونس دیے:’’ سو روپے کا ایک نوٹ آپ نے غلام علی کو دیا تھا۔ اس کا کیا ہوا؟‘‘ مجھے دراصل کچھ ہمدردی سی ہو گئی تھی بابو گوپی ناتھ سے۔ کتنے آدمی اس غریب کے ساتھ جونک کی طرح چمٹے ہوئے تھے۔ میرا خیال تھا بابو گوپی ناتھ بالکل گدھا ہے۔ لیکن وہ میرا اشارہ سمجھ گیا اور مسکرا کرکہنے لگا۔’’ منٹو صاحب! اس نوٹ میں سے جو کچھ باقی بچا، وہ یا تو غلام کی جیب سے گرپڑے گا یا۔۔۔۔۔۔‘‘ بابو گوپی ناتھ نے پورا جملہ بھی ادا نہیں کیا تھا کہ غلام علی نے کمرے میں داخل ہوکر بڑے دکھ کے ساتھ یہ اطلاع دی کہ ہوٹل میں کسی حرام زادے نے اس کی جیب سے سارے روپے نکال لیے۔بابو گوپی ناتھ میری طرف دیکھ کر مسکرایا۔ پھر سو روپے کا ایک نوٹ جیب سے نکال کرغلام علی کو دے کر کہا۔’’جلدی کھانا لے آؤ۔‘‘ پانچ چھ ملاقاتوں کے بعد مجھے بابو گوپی ناتھ کی صحیح شخصیت کا علم ہوا۔ پوری طرح توخیر انسان کسی کو بھی نہیں جان سکتا لیکن مجھے اس کے بہت سے حالات معلوم ہوئے جو بے حد دلچسپ تھے۔ پہلے تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ خیال کہ وہ پرلے درجے کا چغد ہے، غلط ثابت ہُوا۔ اس کواس امر کا پورا احساس تھا کہ سینڈو، غلام علی اور سردار وغیرہ جواس کے مصاحب بنے ہوئے تھے، مطلبی انسان ہیں۔ وہ ان سے جھڑکیاں، گالیاں سب سنتا تھا لیکن غصّے کا اظہار نہیں کرتا تھا۔ اس نے مجھ سے کہا:’’ منٹو صاحب! میں نے آج تک کسی کا مشورہ رد نہیں کیا۔ جب بھی کوئی مجھے رائے دیتا ہے، میں کہتاہوں سبحان اللہ۔ وہ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں۔ لیکن میں انھیں عقل مند سمجھتا ہوں اس لیے کہ ان میں کم از کم اتنی عقل تو تھی جومجھ میں ایسی بے وقوفی کو شناخت کرلیا جن سے ان کا اُلو سیدھا ہوسکتا ہے۔ بات دراصل یہ ہے کہ میں شروع سے فقیروں اور کنجروں کی صحبت میں رہا ہوں۔ مجھے ان سے کچھ محبت سی ہوگئی ہے۔ میں ان کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ میں نے سوچ رکھا ہے کہ جب میری دولت بالکل ختم ہو جائے گی تو کسی تکیے میں جا بیٹھوں گا۔ رنڈی کا کوٹھا اور پیر کا مزار بس یہ دو جگہیں ہیں جہاں میرے دل کو سکون ملتا ہے۔ رنڈی کا کوٹھا تو چھوٹ جائے گا اس لیے کہ جیب خالی ہونے والی ہے لیکن ہندوستان میں ہزاروں پیر ہیں۔ کسی ایک کے مزار میں چلا جاؤں گا۔‘‘ میں نے اس سے پوچھا۔’’ رنڈی کے کوٹھے اور تکیے آپ کوکیوں پسند ہیں؟‘‘ کچھ دیرسوچ کر اس نے جواب دیا۔’’ اس لیے کہ ان دونوں جگہوں پر فرش سے لے کر چھت تک دھوکہ ہی دھوکہ ہوتا ہے جو آدمی خود کو دھوکہ دینا چاہتا ہے اُس کے لیے ان سے اچھا مقام اور کیا ہو سکتا ہے۔‘‘ میں نے ایک اور سوال کیا۔’’ آپ کو طوائفوں کا گانا سُننے کا شوق ہے کیا آپ موسیقی کی سمجھ رکھتے ہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔’’ بالکل نہیں اور یہ ا چھا ہے کیونکہ میں کن سری سے کن سری طوائف کے ہاں جا کر بھی اپنا سر ہلاسکتا ہوں۔۔۔۔۔۔ منٹو صاحب مجھے گانے سے کوئی دلچسپی نہیں لیکن جیب سے دس یا سو روپے کا نوٹ نکال کر گانے والی کو دکھانے میں بہت مزا آتا ہے۔ نوٹ نکالا اور اس کو دکھایا۔ وہ اسے لینے کے لیے ایک ادا سے اُٹھی۔ پاس آئی تو نوٹ جراب میں اڑس لیا۔ اس نے جھک کر اسے باہر نکالا تو ہم خوش ہوگئے۔ ایسی بہت فضول فضول سی باتیں ہیں جو ہم ایسے تماش بینوں کو پسند ہیں، ورنہ کون نہیں جانتا کہ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔‘‘ بابو گوپی ناتھ کا شجرہ نسب تو میں نہیں جانتا لیکن اتنا معلوم ہوا کہ وہ ایک بہت بڑے کنجوس بنیے کا بیٹا ہے۔ باپ کے مرنے پر اسے دس لاکھ روپے کی جائیداد ملی جو اس نے اپنی خواہش کے مطابق اڑانا شروع کردی۔ بمبئی آتے وقت وہ اپنے ساتھ پچاس ہزارروپے لایا تھا۔ اس زمانے میں سب چیزیں سستی تھیں، لیکن پھربھی ہر روز تقریباً سو سوا سو روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ زینو کے لیے اس نے فئیٹ موٹر خریدی۔ یاد نہیں رہا، لیکن شاید تین ہزارروپے میں آئی تھی۔ ایک ڈرائیور رکھا لیکن وہ بھی لفنگے ٹائپ کا۔ بابو گوپی ناتھ کوکچھ ایسے ہی آدمی پسند تھے۔ ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ بڑھ گیا۔ بابو گوپی ناتھ سے مجھے تو صرف دلچسپی تھی، لیکن اسے مجھ سے کچھ عقیدت ہوگئی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دوسروں کی بہ نسبت میرا بہت زیادہ احترام کرتا تھا۔ ایک روز شام کے قریب جب میں فلیٹ پر گیا تو مجھے وہاں شفیق کو دیکھ کر سخت حیرانی ہوئی۔ محمد شفیق طوسی کہوں تو شاید آپ سمجھ لیں کہ میری مراد کس آدمی سے ہے۔ یوں تو شفیق کافی مشہور آدمی ہے۔ کچھ اپنی جدت طراز گائکی کے باعث اور کچھ اپنی بذلہ سنج طبیعت کی بدولت۔ لیکن اس کی زندگی کا ایک حصّہ اکثریت سے پوشیدہ ہے۔ بہت کم آدمی جانتے ہیں کہ تین سگی بہنوں کو یکے بعد دیگرے تین تین چار چار سال کے وقفے کے بعد داشتہ بنانے سے پہلے اس کا تعلق اس کی ماں سے بھی تھا۔ یہ بہت کم مشہور ہے کہ اس کو اپنی پہلی بیوی جو تھوڑے ہی عرصے میں مر گئی تھی، اس لیے پسند نہیں تھی کہ اس میں طوائفوں کے غمزے اور عشوے نہیں تھے۔ لیکن یہ تو خیر ہر آدمی جو شفیق طوسی سے تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہے، جانتا ہے کہ چالیس برس( یہ اس زمانے کی عمر ہے) کی عمر میں سینکڑوں طوائفوں نے اسے رکھا۔ اچھے سے اچھا کپڑا پہنا۔ عمدہ سے عمدہ کھانا کھایا۔ نفیس سے نفیس موٹر رکھی۔ مگر اس نے اپنی گرہ سے کسی طوائف پر ایک دمڑی بھی خرچ نہ کی۔ عورتوں کے لیے، خاص طور پر جو کہ پیشہ ور ہوں، اس کی بذلہ سنج طبیعت جس میں میراثیوں کے مزاح کی ایک جھلک تھی۔ بہت ہی جاذب نظر تھی وہ کوشش کے بغیر ان کو اپنی طرف کھینچ لیتا تھا۔ میں نے جب اسے زینت سے ہنس ہنس کر باتیں کرتے دیکھا تو مجھے اس لیے حیرت نہ ہوئی کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہو، میں نے صرف یہ سوچا کہ وہ دفعتہً یہاں پہنچا کیسے۔ ایک سینڈو اسے جانتا تھا مگر ان کی بول چال تو ایک عرصے سے بند تھی۔ لیکن بعد میں مجھے معلوم ہوا کہ سینڈو ہی اسے لایا تھا۔ ان دونوں میں صلح صفائی ہوگئی تھی۔ بابو گوپی ناتھ ایک طرف بیٹھا حقہ پی رہا تھا۔ میں نے شاید اس سے پہلے ذ کر نہیں کیا، وہ سگریٹ بالکل نہیں پیتا تھا۔ محمد شفیق طوسی میراثیوں کے لطیفے سنا رہا تھا، جس میں زینت کسی قدر کم اور سردار بہت زیادہ دلچسپی لے رہی تھی۔ شفیق نے مجھے دیکھا اور کہا:’’ او بسم اللہ۔ بسم اللہ۔ کیا آپ کا گزر بھی اس وادی میں ہوتا ہے؟‘‘ سینڈو نے کہا: ’’تشریف لے آئیے عزرائیل صاحب یہاں دھڑن تختہ‘‘ میں اس کا مطلب سمجھ گیا۔ تھوڑی دیر گپ بازی ہوتی رہی۔ میں نے نوٹ کیا کہ زینت اور محمد شفیق طوسی کی نگاہیں آپس میں ٹکرا کرکچھ اور بھی کہہ رہی ہیں۔ زینت اس فن میں بالکل کوری تھی لیکن شفیق کی مہارت زینت کی خامیوں کو چھپاتی رہی۔ سردار، دونوں کی نگاہ بازی کو کچھ اس انداز سے دیکھ رہی تھی جیسے خلیفے اکھاڑے سے باہر بیٹھ کر اپنے پٹھوں کے داؤ پیچ کو دیکھتے ہیں۔ اس دوران میں میں بھی زینت سے کافی بے تکلف ہوگیا تھا وہ مجھے بھائی کہتی تھی جس پر مجھے اعتراض نہیں تھا۔ اچھی ملنسار طبیعت کی عورت تھی۔ کم گو۔ سادہ لوح۔ صاف ستھری۔ شفیق سے مجھے اس کی نگاہ بازی پسند نہیں آئی تھی۔ اوّل تو اس میں بھونڈا پن تھا۔ اس کے علاوہ۔۔۔۔۔۔ کچھ یوں کہیے کہ اس بات کا بھی اس میں دخل تھا کہ وہ مجھے بھائی کہتی تھی۔ شفیق اور سینڈو اُٹھ کر باہر گئے تو میں نے شاید بڑی بے رحمی کے ساتھ اس سے نگاہ بازی کے متعلق استفسار کیا کیونکہ فوراً اس کی آنکھوں میں یہ موٹے موٹے آنسو آگئے اور روتی روتی وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ بابو گوپی ناتھ جو ایک کونے میں بیٹھا حقہ پی رہا تھا، اُٹھ کر تیزی سے اس کے پیچھے گیا۔ سردار نے آنکھوں ہی آنکھوں میں اس سے کچھ کہا لیکن میں مطلب نہ سمجھا۔ تھوڑی دیر کے بعد بابو گوپی ناتھ کمرے سے باہر نکلا اور ’’آئیے منٹو صاحب‘‘ کہہ کر مجھے اپنے ساتھ اندر لے گیا۔ زینت پلنگ پر بیٹھی تھی۔ میں اندر داخل ہوا تو وہ دونوں ہاتھوں سے منہ ڈھانپ کر لیٹ گئی۔ میں اور بابو گوپی ناتھ، دونوں پلنگ کے پاس کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ بابو گوپی ناتھ نے بڑی سنجیدگی کے ساتھ کہنا شروع کیا۔’’ منٹو صاحب! مجھے اس عورت سے بہت محبت ہے۔ دو برس سے یہ میرے پاس ہے میں حضرت غوث اعظم جیلانی کی قسم کھا کر کہتا ہُوں کہ اس نے مجھے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ اس کی دوسری بہنیں، میرا مطلب ہے اس پیشے کی دوسری عورتیں دونوں ہاتھوں سے مجھے لُوٹ کر کھاتی رہیں مگر اس نے کبھی ایک زائد پیسہ مجھ سے نہیں لیا۔ میں اگر کسی دوسری عورت کے ہاں ہفتوں پڑا رہا تو اس غریب نے اپنا کوئی زیور گروی رکھ کرگزارا کیا میں جیسا کہ آپ سے ایک دفعہ کہہ چکا ہوں بہت جلد اس دنیا سے کنارہ کش ہونے والا ہوں۔ میری دولت اب کچھ دن کی مہمان ہے میں نہیں چاہتا اس کی زندگی خراب ہو۔ میں نے لاہور میں اس کو بہت سمجھایا کہ تم دوسری طوائفوں کی طرف دیکھو جو کچھ وہ کرتی ہیں، سیکھو۔ میں آج دولت مند ہوں۔ کل مجھے بھکاری ہونا ہی ہے۔ تم لوگوں کی زندگی میں صرف ایک دولت کافی نہیں۔ میرے بعد تم کسی اور کو نہیں پھانسو گی تو کام نہیں چلے گا۔ لیکن منٹو صاحب اس نے میری ایک نہ سنی۔ سارا دن شریف زادیوں کی طرح گھر میں بیٹھی رہتی۔ میں نے غفار سائیں سے مشورہ کیا۔ اس نے کہا بمبئی لے جاؤ اسے۔ مجھے معلوم تھا کہ اس نے ایسا کیوں کہا۔ بمبئی میں اس کی دو جاننے والی طوائفیں ایکٹرسیں بنی ہوئی ہیں۔ لیکن میں نے سوچا بمبئی ٹھیک ہے دو مہینے ہوگئے ہیں اسے یہاں لائے ہوئے۔ سردار کو لاہور سے بُلایا ہے کہ اس کو سب گُر سکھائے غفار سائیں سے بھی یہ بہت کچھ سیکھ سکتی ہے۔ یہاں مجھے کوئی نہیں جانتا۔ اس کو یہ خیال تھا کہ بابو تمہاری بے عزتی ہوگی۔ میں نے کہا تم چھوڑو اس کو ۔بمبئی بہت بڑا شہر ہے۔ لاکھوں رئیس ہیں۔ میں نے تمہیں موٹر لے دی ہے۔ کوئی اچھا آدمی تلاش کرلو۔۔۔۔۔۔ منٹو صاحب! میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں میری دلی خواہش ہے کہ یہ اپنے پیروں پر کھڑی ہو جائے، اچھی طرح ہوشیار ہو جائے۔ میں اس کے نام آج ہی بنک میں دس ہزار روپیہ جمع کرانے کو تیار ہوں۔ مگر مجھے معلوم ہے دس دن کے اندر اندر یہ باہر بیٹھی ہو گی سردار اس کی ایک ایک پائی اپنی جیب میں ڈال لے گی۔۔۔۔۔۔ آپ بھی اسے سمجھائیے کہ چالاک بننے کی کوشش کرے۔ جب سے موٹر خریدی ہے، سردار اسے ہر روز شام کو اپولو بندر لے جاتی ہے لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ہوئی۔ سینڈو آج بڑی مشکلوں سے محمد شفیق کو یہاں لایا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے اس کے متعلق؟‘‘ میں نے اپنا خیال ظاہر کرنا مناسب خیال نہ کیا، لیکن بابو گوپی ناتھ نے خود ہی کہا۔’’ اچھا کھاتا پیتا آدمی معلوم ہوتا ہے اور خوبصورت بھی ہے۔۔۔۔۔۔کیوں زینو جانی۔۔۔۔۔۔ پسند ہے تمہیں؟‘‘ زینو خاموش رہی۔ بابو گوپی ناتھ سے جب مجھے زینت کو بمبئی لانے کی غرض و غایت معلوم ہُوئی تو میرا دماغ چکرا گیا۔ مجھے یقین نہ آیا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن بعد میں مشاہدے نے میری حیرت دُور کردی۔ بابو گوپی ناتھ کی دلی آرزو تھی کہ زینت بمبئی میں کسی اچھے مال دار آدمی کی داشتہ بن جائے یا ایسے طریقے سیکھ جائے جس سے وہ مختلف آدمیوں سے روپیہ وصول کرتے رہنے میں کامیاب ہوسکے۔ زینت سے اگر صرف چھٹکارا ہی حاصل کرنا ہوتا تو یہ کوئی اتنی مشکل چیز نہیں تھی۔بابو گوپی ناتھ ایک ہی دن میں یہ کام کرسکتا تھا چونکہ اس کی نیت نیک تھی، اس لیے اس نے زینت کے مستقبل کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔ اس کو ایکٹرس بنانے کے لیے اس نے کئی جعلی ڈائریکٹروں کی دعوتیں کیں۔ گھر میں ٹیلی فون لگوایا۔ لیکن اونٹ کسی کروٹ نہ بیٹھا۔ محمد شفیق طوسی تقریباً ڈیڑھ مہینہ آتارہا۔ کئی راتیں بھی اس نے زینت کے ساتھ بسر کیں لیکن وہ ایسا آدمی نہیں تھا جو کسی عورت کا سہارا بن سکے۔ بابو گوپی ناتھ نے ایک روز افسوس اور رنج کے ساتھ کہا۔’’ شفیق صاحب تو خالی خالی جنٹلمین ہی نکلے۔ ٹھسّہ دیکھیے، بے چاری زینت سے چار چادریں، چھ تکیے کے غلاف اور دو سو روپے نقد ہتھیا کر لے گئے۔ سنا ہے آج کل ایک لڑکی الماس سے عشق لڑا رہے ہیں۔‘‘ یہ درست تھا۔ الماس، نذیر جان پٹیالے والی کی سب سے چھوٹی اور آخری لڑکی تھی۔ اس سے پہلے تین بہنیں شفیق کی داشتہ رہ چکی تھیں۔ دو سو روپے جو اس نے زینت سے لیے تھے مجھے معلوم ہے الماس پر خرچ ہوئے تھے۔ بہنوں کے ساتھ لڑ جھگڑ کر الماس نے زہر کھا لیا تھا۔ محمد شفیق طوسی نے جب آنا جانا بند کردیا تو زینت نے کئی بار مجھے ٹیلی فون کیا اور کہا اسے ڈھونڈ کر میرے پاس لائیے۔ میں نے اسے تلاش کیا، لیکن کسی کو اس کا پتہ ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں رہتا ہے۔ ایک روز اتفاقیہ ریڈیو اسٹیشن پر ملاقات ہوئی۔ سخت پریشانی کے عالم میں تھا۔ جب میں نے اس سے کہا کہ تمہیں زینت بلاتی ہے تو اس نے جواب دیا۔’’ مجھے یہ پیغام اور ذریعوں سے بھی مل چکا ہے۔ افسوس ہے، آج کل مجھے بالکل فرصت نہیں۔ زینت بہت اچھی عورت ہے لیکن افسوس ہے کہ بے حد شریف ہے۔۔۔۔۔۔ ایسی عورتوں سے جو بیویوں جیسی لگیں مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔‘‘ شفیق سے مایوسی ہوئی تو زینت نے سردار کے ساتھ اپولو بندر جانا شروع کیا۔ پندرہ دنوں میں بڑی مشکلوں سے کئی گیلن پٹرول پھونکنے کے بعد سردار نے دو آدمی پھانسے۔ ان سے زینت کو چار سو روپے ملے۔ بابو گوپی ناتھ نے سمجھا کہ حالات امید افزا ہیں کیونکہ ان میں سے ایک نے جو ریشمی کپڑوں کی مل کا مالک تھا، زینت سے کہا تھا کہ میں تم سے شادی کروں گا۔ ایک مہینہ گزر گیا لیکن یہ آدمی پھر زینت کے پاس نہ آیا۔ ایک روز میں جانے کس کام سے ہاربنی روڈ پر جارہا تھا کہ مجھے فٹ پاتھ کے پاس زینت کی موٹر کھڑی نظر آئی۔ پچھلی نشست پر محمد یاسین بیٹھا تھا۔ نگینہ ہوٹل کا مالک۔ میں نے اس سے پوچھا۔’’ یہ موٹر تم نے کہاں سے لی؟‘‘ یاسین مسکرایا۔’’ تم جانتے ہو موٹر والی کو۔‘‘ میں نے کہا۔’’ جانتا ہوں۔‘‘ ’’ تو بس سمجھ لو میرے پاس کیسے آئی۔۔۔۔۔۔ اچھی لڑکی ہے یار!‘‘ یاسین نے مجھے آنکھ ماری۔ میں مسکرادیا۔ اس کے چوتھے روز بابو گوپی ناتھ ٹیکسی پر میرے دفتر میں آیا۔ اس سے مجھے معلوم ہوا کہ زینت سے یاسین کی ملاقات کیسے ہوئی۔ ایک شام اپولوبندر سے ایک آدمی لے کر سردار اور زینت نگینہ ہوٹل گئیں۔ وہ آدمی تو کسی بات پر جھگڑا کرچلا گیا لیکن ہوٹل کے مالک سے زینت کی دوستی ہوگئی۔ بابو گوپی ناتھ مطمئن تھا کیونکہ دس پندرہ روز کی دوستی کے دوران میں یاسین نے زینت کو چھ بہت ہی عمدہ اور قیمتی ساڑھیاں لے دی تھیں۔ بابو گوپی ناتھ اب یہ سوچ رہا تھا کچھ دن اورگزر جائیں، زینت اور یاسین کی دوستی اور مضبوط ہو جائے تو لاہور واپس چلا جائے۔۔۔۔۔۔ مگر ایسا نہ ہوا۔ نگینہ ہوٹل میں ایک کرسیچین عورت نے کمرہ کرائے پر لیا۔ اس کی جوان لڑکی میموریل سے یاسین کی آنکھ لڑ گئی۔ چنانچہ زینت بے چاری ہوٹل میں بیٹھی رہتی اور یاسین اس کی موٹر میں صبح شام اس لڑکی کو گھماتا رہا۔ بابو گوپی ناتھ کو اس کا علم ہونے پر دُکھ ہوا۔ اس نے مجھ سے کہا۔’’ منٹو صاحب یہ کیسے لوگ ہیں۔ بھئی دل اچاٹ ہوگیا ہے تو صاف کہہ دو۔ لیکن زینت بھی عجیب ہے۔‘‘ اچھی طرح معلوم ہے کیا ہورہا ہے مگر منہ سے اتنا بھی نہیں کہتی، میاں! اگر تم نے اس کرسٹان چھوکری سے عشق لڑانا ہے تو اپنی موٹر کار کا بندوبست کرو، میری موٹر کیوں استعمال کرتے ہو۔ میں کیاکروں منٹو صاحب! بڑی شریف اور نیک بخت عورت ہے۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔۔۔۔ تھوڑی سی چالاک تو بننا چاہیے۔‘‘ یاسین سے تعلق قطع ہونے پر زینت نے کوئی صدمہ محسوس نہ کیا۔ بہت دنوں تک کوئی نئی بات وقوع پذیر نہ ہوئی۔ ایک دن ٹیلی فون کیا تو معلوم ہوا بابو گوپی ناتھ، غلام علی اور غفار سائیں کے ساتھ لاہور چلا گیا، روپے کا بندوبست کرنے، کیونکہ پچاس ہزار ختم ہوگئے تھے۔ جاتے وقت وہ زینت سے کہہ گیا تھا کہ اسے لاہور میں زیادہ دن لگیں گے کیونکہ اسے چند مکان فروخت کرنے پڑیں گے۔ سردار کو مورفیا کے ٹیکوں کی ضرورت تھی۔ سینڈو کو پولسن مکھن کی۔ چنانچہ دونوں نے متحدہ کوشش کی اور ہر روز تین آدمی پھانس کر لے آتے۔ زینت سے کہا گیا کہ بابو گوپی ناتھ، واپس نہیں آئے گا، اس لیے اسے اپنی فکر کرنی چاہیے۔ سو سوا سو روپے روز کے ہو جاتے جن میں سے آدھے زینت کو ملتے باقی سینڈو اور سردار دبا لیتے۔ میں نے ایک دن زینت سے کہا یہ تم کیا کررہی ہو۔ اس نے بڑے الہڑ پن سے کہا۔’’ مجھے کچھ معلوم نہیں بھائی جان۔ یہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں مان لیتی ہوں۔‘‘ جی چاہا کہ بہت دیر پاس بیٹھ کر سمجھاؤں کہ جو کچھ تم کررہی ہو، ٹھیک نہیں، سینڈو اور سردار اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے تمہیں بیچ بھی ڈالیں گے مگر میں نے کچھ نہ کہا۔ زینت اُکتا دینے والی حد تک بے سمجھ، بے امنگ اور بے جان عورت تھی۔ اس کم بخت کو اپنی زندگی کی قدر قیمت ہی معلوم نہیں تھی۔ جسم بیچتی مگر اس میں بیچنے والوں کا کوئی انداز تو ہوتا۔ واللہ مجھے بہت کوفت ہوتی تھی اسے دیکھ کر سگریٹ سے، شراب سے، کھانے سے، گھر سے، ٹیلی فون سے، حتیٰ کہ اس صوفے سے بھی جس پر وہ اکثر لیٹی رہتی تھی، اسے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ بابو گوپی ناتھ پورے ایک مہینے کے بعد لوٹا۔ وہاں گیا تو وہاں فلیٹ میں کوئی اور ہی تھا۔ سینڈو اور سردار کے مشورے سے زینت نے باندرہ میں ایک بنگلے کا بالائی حصہ کرائے پر لے لیا تھا۔ بابو گوپی ناتھ میرے پاس آیا تو میں نے اسے پورا پتہ بتا دیا۔ اس نے مجھ سے زینت کے متعلق پوچھا۔ جوکچھ مجھے معلوم تھا، میں نے کہہ دیا لیکن یہ نہ کہا کہ سینڈو اور سردار اس سے پیشہ کرارہے ہیں۔ بابو گوپی ناتھ اب کہ دس ہزار روپیہ اپنے ساتھ لایا تھا جواس نے بڑی مشکلوں سے حاصل کیا تھا۔ غلام علی اور غفار سائیں کو وہ لاہور ہی چھوڑ آیا تھا ٹیکسی نیچے کھڑی تھی۔بابو گوپی ناتھ نے اصرار کیا میں بھی اس کے ساتھ چلوں۔ تقریباً ایک گھنٹے میں ہم باندرہ پہنچ گئے۔ بالی ہل پر ٹیکسی چڑھ رہی تھی کہ سامنے تنگ سڑک پر سینڈو دکھائی دیا۔ بابو گوپی ناتھ نے زور سے پکارا۔’’ سینڈو!‘‘ سینڈو نے جب بابو گوپی ناتھ کو دیکھا تو اس کے منہ سے صرف اتنا نکلا۔ دھڑن تختہ۔ بابو گوپی ناتھ نے اس سے کہا آؤ ٹیکسی میں بیٹھ جاؤ اور ساتھ چلو، لیکن سینڈو نے کہا ٹیکسی ایک طرف کھڑی کیجیے، مجھے آپ سے کچھ پرائیویٹ باتیں کرنی ہیں۔ ٹیکسی ایک طرف کھڑی کی گئی۔ بابو گوپی ناتھ باہر نکلا تو سینڈو اسے کچھ دور لے گیا دیر تک ان میں باتیں ہوتی رہیں جب ختم ہوئیں تو بابو گوپی ناتھ اکیلا ٹیکسی کی طرف آیا۔ ڈرائیور سے اس نے کہا’’ واپس لے چلو!‘‘ بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ہم دادر کے پاس پہنچے تو اس نے کہا۔’’ منٹو صاحب! زینو کی شادی ہونے والی ہے۔‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔’’ کس سے؟‘‘ بابو گوپی ناتھ نے جواب دیا۔’’ حیدر آباد سندھ کا ایک دولت مند زمیندار ہے۔ خدا کرے وہ خوش رہیں۔ یہ بھی اچھا ہوا جو میں عین وقت پر آپہنچا۔ جو روپے میرے پاس ہیں، ان سے زینو کا زیور بن جائے گا۔۔۔۔۔۔ کیوں، کیا خیال ہے آپ؟‘‘ میرے دماغ میں اس وقت کوئی خیال نہ تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ حیدرآباد سندھ کا دولت مند زمیندار کون ہے، سینڈو اور سردارکی کوئی جعلسازی تو نہیں، لیکن بعد میں اس کی تصدیق ہوگئی کہ وہ حقیقتاً حیدر آباد کا متمول زمیندار ہے جو حیدر آباد سندھ ہی کے ایک میوزک ٹیچر کی معرفت زینت سے متعارف ہوا۔ یہ میوزک ٹیچر زینت کو گانا سکھانے کی بے سود کوشش کیا کرتا تھا۔ ایک روز وہ اپنے مربی غلام حسین(یہ اس حیدرآباد سندھ کے رئیس کا نام تھا) کو ساتھ لے کر آیا۔ زینت نے خوب خاطر مدارات کی۔ غلام حسین کی پرزور فرمائش پر اس نے غالب کی غزل ؂ نکتہ چیں ہے غم دل اس کو سنائے نہ بنے گاکر سنائی۔ غلام حسین سو جان سے اس پر فریفتہ ہوگیا۔ اس کا ذکر میوزک ٹیچر نے زینت سے کیا۔ سردار اور سینڈو نے مل کرمعاملہ پکا کردیا اور شادی طے ہوگئی۔ بابو گوپی ناتھ خوش تھا۔ ایک دفعہ سینڈو کے دوست کی حیثیت سے وہ زینت کے ہاں گیا۔ غلام حسین سے اس کی ملاقات ہوئی۔ اس سے مل کر بابو گوپی ناتھ کی خوشی دگنی ہوگئی۔ مجھ سے اس نے کہا۔’’ منٹو صاحب! خوبصورت، نوجوان اور بڑا لائق آدمی ہے۔ میں نے یہاں آتے ہوئے داتا گنج بخشؒ کے حضور جا کر دعا مانگی تھی جو قبول ہوئی۔ بھگوان کرے دونوں خوش رہیں!‘‘ بابو گوپی ناتھ نے بڑے خلوص اور بڑی توجہ سے زینت کی شادی کا انتظام کیا۔ دو ہزار کے زیور اور دو ہزار کے کپڑے بنوا دیے اور پانچ ہزار نقد دیے۔ محمد شفیق طوسی، محمد یاسین پروپرائیٹر نگینہ ہوٹل، سینڈو، میوزک ٹیچر، میں اور گوپی ناتھ شادی میں شامل تھے دلہن کی طرف سے سینڈو وکیل تھے۔ ایجاب و قبول ہوا تو سینڈو نے آہستہ سے کہا’’ دھڑن تختہ۔‘‘ غلام حسین سرج کا نیلا سوٹ پہنے تھے۔ سب نے اس کو مبارک باد دی جو اس نے خندہ پیشانی سے قبول کی۔ کافی وجیہہ آدمی تھا۔ بابو گوپی ناتھ اس کے مقابلے میں اس کے سامنے چھوٹی سی بٹیر معلوم ہوتا تھا۔ شادی کی دعوتوں پر خورد و نوش کا جو سامان بھی ہوتا ہے، بابو گوپی ناتھ نے مہیا کیا تھا۔ دعوت سے جب لوگ فارغ ہوئے تو بابو گوپی ناتھ نے سب کے ہاتھ دھلوائے۔ میں جب ہاتھ دھونے کے لیے آیا تو اس نے مجھ سے بچوں کے انداز سے کہا۔’’ منٹو صاحب! ذرا اندر جائیے اور دیکھیے زینو دلہن کے لباس میں کیسی لگتی ہے۔‘‘ میں پردہ ہٹا کر اندر داخل ہوا۔ زینت سرخ زربفت کا شلوار کرتہ پہنے تھی۔۔۔۔۔۔ دوپٹہ بھی اسی رنگ کا تھا جس پر گوٹ لگی تھی چہرے پر ہلکا ہلکا میک اپ تھا حالانکہ مجھے ہونٹوں پر لپ اسٹک کی سرخی بہت بُری معلوم ہوتی ہے مگر زینت کے ہونٹ سجے ہوئے تھے۔ اس نے شرما کر مجھے آداب کیا توبہت پیاری لگی لیکن جب میں نے دوسرے کونے میں ایک مسہری دیکھی جس پر پھول ہی پھول تھے تو مجھے بے اختیار ہنسی آگئی۔ میں نے زینت سے کہا یہ کیا مسخرہ پن ہے۔ زینت نے میری طرف بالکل معصوم کبوتری کی طرح دیکھا۔ ’’آپ مذاق کرتے ہیں بھائی جان!‘‘ اس نے یہ کہا اور آنکھوں میں آنسو ڈبڈبا آئے۔ مجھے ابھی غلطی کا احساس بھی نہ ہوا تھا کہ بابو گوپی ناتھ اندر داخل ہوا۔ بڑے پیار کے ساتھ اس نے اپنے رومال کے ساتھ زینت کے آنسو پونچھے اور بڑے دکھ کے ساتھ مجھ سے کہا۔ ’’منٹو صاحب! میں سمجھا تھا کہ آپ بڑے سمجھ دار اور لائق آدمی ہیں۔۔۔۔۔۔ زینو کا مذاق اُڑانے سے پہلے آپ نے کچھ تو سوچ لیا ہوتا۔‘‘ بابو گوپی ناتھ کے لہجے میں وہ عقیدت جو اسے مجھ سے تھی، زخمی نظر آئی لیکن پیشتر اس کے کہ میں اس سے معافی مانگوں، اس نے زینت کے سر پر ہاتھ پھیرا اور بڑے خلوص کے ساتھ کہا۔ ’’خدا تمہیں خوش رکھے!‘‘ یہ کہہ کر بابو گوپی ناتھ نے بھیگی ہوئی آنکھوں سے میری طرف دیکھا۔ ان میں ملامت تھی۔۔۔ بہت ہی دُکھ بھری ملامت۔۔۔ اور چلا گیا۔[/size]


02:08 PM (GMT +5)

vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.