Friday, April 19, 2024
06:42 PM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > CSS Optional subjects > Group V > Urdu Literature

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #1  
Old Wednesday, April 07, 2010
Preshan Gul's Avatar
Member
 
Join Date: Mar 2009
Location: Dream Land
Posts: 45
Thanks: 3
Thanked 46 Times in 19 Posts
Preshan Gul is on a distinguished road
Default اردو کا نوحہ

زبانِ اردو جو کبھی سارے ہندوستان کی ملکہ تھی اور چہار دانگ عالم میں جس کی سطوت کا ڈنکا بجتا تھا آج بے توقیری کے کنجِ عزلت میں پڑی اپنی کسمپر سی پہ آٹھ آٹھ آنسو روتی ہے پر کوئی اس کی اشک شوئی کرنے والا نہیں۔وہ جنہوں نے اِس کو سرآنکھوں پے بٹھانا تھا اور اس کی عظمت کو سارے عالم سے منوانا تھا خود ہی اس سے مو نہہ موڑ بیٹھے اور ترقی کے جنون میں زبانِ غیر سے رشتہ جوڑ بیٹھے۔اب اردو اپنوں کو غیر زبانوں کی غلامی کرتے ہوئے دیکھتی ہے اوران کی کم سمجھی کا ماتم کرتی ہے۔چاہتی ہے کہ اپنی اُس حلاوت سے ،جس نے ایک زمانے کو اس کا اسیر کیے رکھا تھا ،اب پھر اِن قدر ناشناسوں کو روشناس کرے پر مادیت کی مسموم فضاؤں میں جب ہر طرف ترقی ترقی کا اِک بے ھنگم شور مچاہے اِس کی آواز بھلا کون سنے گا۔پس دم سادھے اچھے دنوں کی امید میں برے بھلے دن کاٹتی ہے اور اپنوں کی بے وفائی کا تماشا دیکھ دیکھ کڑُتی ہے۔
آج کی یہ خستہ حال اردو وہ حسیں شہزادی تھی جس نے سلطنتِ مغلیہ کے پرشکوہ محلوں میں آنکھ کھولی، دلی کے گلی کوچوں میں پروان چڑھی اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے ہندوستان کی رانی بن بیٹھی۔یہاں تک کے ہر کوئی اِسے سر آنکھوں پے بٹھانے لگااور اس کے تاج کوفخریہ اپنے سر پہ سجانے لگا۔ہر سمت سے اِس کو اپنانے کے دعویدار اٹھے۔کسی نے دلی، کسی نے دکن، کسی نے پنجاب، کسی نے سندھ کو اس کا مولد و مسکن قرار دیا۔ہر ایک کی خواہش تھی کہ اردو سے نسبت کا فخر اسے حاصل ہو ۔ہرایک اس کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر تھا ۔یہ وہ دور تھا جب اردو کسی شوخ ہرنی کی مانند ترقی کی قلانچیں بھرتی تھی اور اپنی حریفوں ہندی و فارسی کو ہزیمت زدہ دیکھ دیکھ ہنستی تھی۔یہ خیال بھی اس کے دل میں نہ گزرتا تھا کہ کبھی اُس پر برا وقت بھی آ سکتا ہے ۔
الغرض یہ زریں دوراردو کے فخرکو چار چاند لگاتا تھا اور دور و نزدیک اس کی کامرانی کا ڈنکا بجاتا تھا۔ ہرکوچے سے دیوانوں کی جماعتیں اس کی مشاطگی کو دن رات حا ضر رہتی تھیں اور اس کی دلفریبی اور نزاکت پے خواص وعوام ہر دو نثار ہو ہو جاتے تھے ۔ کوئی اِس کی غزل پہ فدا تھا تو کسی کو اس کی مثنوی نے اپنا دیوانہ بنا رکھا تھا ۔ کوئی اس کے مرثیوں پر سر دھنتا توکسی کو اس کے قصیدوں میں ایک جہانِ نو نظر آتا ۔ ہر کوئی اس کی کسی نہ کسی ادا کی دلفریبی کا شیدا تھا۔اردو جو بوجوہ اپنی کم عمری کے اب تک فارسی کے سامنے نکو بن کر رہی تھی اب اپنے آگے کسی کو درخورِ اعتنا نہ سمجھتی تھی اور ایک فاتحانہ غرور سے سارے ہندوستان پر راج کرتی تھی۔جیسا کہ قاعدہ ہے جس کے سر تاج ہو ہر کوئی اس کی قربت حاصل کرنا اپنا فخر جانتا ہے پس اس دورِ بیمثال میں اردو کے گرد بھی پرستاروں اور ممدوحوں کا ایک مجمع تھا کہ ہر روز بڑھتا جاتا تھا اور دیکھنے والوں کوششدر کرتا تھا کہ کیونکر ایک نوخیز زبان نے وہ دلربائی حاصل کر لی کہ آج ہر کوئی اس کا پروانہ ہے ۔ وہ پرانے مشاق شاعربھی جو اب تک مےءِ فارس سے لذتِ کام و دہن کرتے آئے تھے عمر بھر کی ریاضتیں چھوڑ چھاڑ اب اِس بادہِ نو کے اسیر ہوئے جاتے تھے اور اپنی ترنگ میں اس کی محفل کو صد رنگ کیے جاتے تھے۔کسی گلی سے کوئی میر اٹھتا اور دامنِ اردو کو تغزل اور ترنم کی شیرینی سے بھر دیتا۔کسی کوچے سے کوئی درد آواز لگاتا اور اس کے قلب کو سوز و گدازکی روشنی سے بقہءِ نور کر دیتا۔ کسی شکستہ مکان سے کوئی غالب نکلتا اوراس عروسِ نو کومعنی آفرینی اور جدت کے لازوال زیورسے آراستہ کر دیتا۔ سرزمینِ ہندنے باوجود اس کے کہ قحط الرجال کے لیے مشہورہے ، اس دور میں اردو کو اس فراوانی سے قدر دان مہیا کیے کہ اس کی کم مایگی جاتی رہی اور اردو سخن دانوں اور سخن سنجوں کے جھرمٹ میں شاداں و فرحاں دنیا کی دوسری بڑی زبانوں کی ہمسری کا دعوٰی کرنے لگی۔اردو کے عروج کا یہ دور چند سالوںیا چند دہائیوں پر محیط نہ تھا بلکہ کامل دو صدیوں تک اردو نے اہل ہند کو اپنی جادو گوئی سے مسحور کیے رکھا۔مغلوں کے زوال اور انگریز سامراج کی حکومت نے ہندوستان والوں میں وطنیت کے احساس کو شدید کر دیا تھاپس وہ اپنی زبان کو سینے سے لگاتے تھے اور دن رات اس کی ترقی کے منصوبے باند ھتے تھے اور چاہتے تھے کہ اُن کی زبان ترقی کے بامِ عروج تک پہنچ جائے اور دنیا کی کسی زبان سے کسی طرح ہیٹی نہ رہے۔ حریف اردو کی اِس آن بان سے جل جل جاتے تھے اور طرح طرح سے اِسے زک پہچانے کے درپے رہتے تھے ۔کبھی ہندی جیسی کم رو کو اس کے سامنے لا کھڑا کرتے کبھی مقامی زبانوں کو اردو کا حریف بنا لاتے پر اردو کے دیوانوں کے سامنے اُن کی ایک نہ چلتی تھی اور اردو دن دگنی رات چگنی ترقی کی منزلیں طے کرتی جاتی تھی۔ اردو نے اس دورِ خوش بخت میں فکرو فلسفے، جذب وشوق ، سیا ست و مذہب غرض ہر میدان میں کامرانی کے جھنڈے اسُ سرعت سے گاڑھے کہ دوست و دشمن سب حیران رہ گئے۔
کیادور تھا اور کیسے لوگ تھے وہ جنہوں نے اپنی ساری ساری زندگیاں اردو کی آبیاری کرتے ہوئے گزار دیں۔ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا کی بس اسی دھن میں اپنے شب و روز بتا دیے کہ کسی طرح اردو کا بول بال ہو۔ہمارے آج کے اردو دانوں کی طرح ہوتے تو کانفرنسیں کرتے، ادبی انجمنوں کی سر پرستی فرماتے اور اخباروں میں بیان چھپوا کر اپنے تیءں سمجھتے کہ اردو پہ بڑا احسان دھر دیا ہے اور اس کی محبت کا حق ادا کر دیا ہے۔پر وہ دوسرے لوگ تھے جو نام ونمود کی دنیوی آلائشوں سے یکسر پاک تھے اور اُن کی رگوں میں اردو کی محبت مانندِ خون دوڑ رہی تھی۔ہمارے اِس مادیت زدو دورمیں ایسے دیوانے اب کہاں سے آئیں گے۔وہ دیوانے تو اٹھ گئے اب توہم ایسے فر زانوں کا دور ہے۔
قاعدہ ہے کہ جب زوال کی سیاہ گھٹائیں کسی قوم پر سایہ کرتی ہیں تو اسے اپنی ہر چیز بری لگنے لگتی ہے اور بد بختی و نکبہت غیروں کی ہر چیز کو اچھا بنا کراس کے سامنے پیش کرتی ہے پس وہ غیروں کی نقالی کو کمالِ فن سمجھ کر اپنے تئیں اتراتی ہے اور اپنی چیزوں کو کم تر جان کر بہ نگاہِ حقارت دیکھتی ہے۔ہم کہ خوئے غلامی میں پختہ ہو چکے تھے ہم نے زبانِ فرنگ کو مغر ب کی ترقی کا ذریعہ جانا اور اپنی پیاری اردو کو پسِ پشت ڈال کے انگریزی کی معیت میں بہ یک کورس ترقی ترقی کا راگ الاپنے لگے اور یہ کلیہ فراموش کر بیٹھے کہ جس قوم کی اپنی کوئی زبان ہی نہ و ہ کبھی ترقی نہیں کر سکتی۔ وہ دن اور آج کا دن ہے فرنگیوں کی نقالی میں مونہہ ٹیڑھے کر کر کے ہمارے جبڑے تشنج زدہ ہو گئے ہماری آنکھیں پتھرا گئیں اور ہمارے اعصاب جواب دے گئے پر ترقی کا محمل ہے کہ کہیں دور دور تک نظر نہیں آتا اور ہر گزرتے دن کے ساتھ زوال کے سائے گہرے ہوہو کر ہماری عقلوں کا مو نہہ چڑا رہے ہیں۔
آج اردو مضمحل ہے اور اس کے تنِ نازک پر جابجا زخموں کے نشان ہیں۔اردو شکستہ دل ہے کہ ہم پاکستانیوں نے اسے عزت وتکریم کی اس کرسی پر بٹھایا کہ اپنی قومی زبان قرار دیا پر اس کے ساتھ وہ سلوک کیا جو کوئی اپنی کسی قومی شے سے نہیں کر سکتا۔ہم نے اردو سے عہدو پیماں کیے کہ اسے اپنے دیس میں رائج کریں گے پر رائج کرنا تو دور کی بات ہم تو اسے دیس نکالا دینے کے درپے ہو بیٹھے۔زبانِ افرنگ کہ ہمارے مزاج سے کچھ لگا نہ کھاتی تھی ہمارے اعصاب پریوں سوار ہوئی کہ ہمیں عقل و خرد سے بیگانہ کر دیااور ہم اس بد نسب کی محبت میں اپنی پھولوں ایسی شہزادی سے مونہہ موڑ بیٹھے۔
ہماری انہی بے اعتنائیوں سے گلستانِ اردو جو کبھی ایک مہکتا ہو ا باغ تھا آج کسی اجڑے پجڑے ویرانے کا منظر پیش کر رہا ہے۔جن پیڑوں پر کبھی کوئلیں کوکتی تھیں اور بلبلیں نغمہ سرائی کرتی تھیںآج الو بولتے ہیں اور چیلیں چیختی ہیں ۔ جن گلوں کی مہک سارے ہندوستاں کے مشامِ جاں کو معطر کیے رکھتی تھی آج وہ ریزہ ریزہ کلیاں لیے اپنی بربادی پر نوحہ کناں ہیں۔وہ گل
بوٹے جن کی آبیاری ہمارے بزرگوں نے اپنے خون سی کی تھی ہمار ی بے اعتنائی کی سرد ہواؤں نے انہیں گہناکر رکھ دیا اور اب وہ چراغِ سحری کا منظر پیش کر رہے ہیں۔ و ہی باغِ اردو جو کل تک دل خوش کن نغموں اور مترنم گیتوں سے چہچہا رہا تھا آج اس پر یوں شہرِ خموشاں سا سکوت طاری ہے کہ دل کٹ کٹ جاتا ہے ۔یقین نہیں آتا کہ یہی وہ چمن ہے جس میں کبھی میرو غالب اور حالی و اقبال سے خوش الحاں نغمہ سنجی کیا کرتے تھے اور عبدالحق سے باغباں اس کی چمن بندی میں دن رات ایک کیا کرتے تھے۔اردو کا وہ عروج اور یہ زوال دیکھ کر کس کا دل ہو گا جو خون کے آنسو نہ روئے گا۔اردو کی اس ویراں بستی کو دیکھنے کیلئے بھی پتھر کا دل چاہیے ۔
پر ابھی امید کے چراغ مکمل گُل نہیں ہو ئے ۔ چند دیوانے ہیں جو با وصف اپنی خستہ حالی کے امید کی شمع اپنے خون سے روشن کر کے با غِ اردو کے تنِ مضمحل میں جان ڈالے جا رہے ہیں۔مادہ پرستوں کے ترقی کے راگ سنتے ہیں اور ان کی استہزا آمیز نظروں کے تیر برداشت کرتے ہیں پر ان کے حوصلے پست نہیں ہوتے اور ہوں بھی کیسے اُن کی نگاہوں میں اردو کا درخشاں ماضی اپنی کل تابانیوں کے ساتھ جلوہ آمیز ہے اور یہ عزم کہ اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام واپس دلوانا ہے ان کے ڈھئے ہوئے حوصلوں کے لیے مہمیز کا کام کرتا ہے پس زمانے کی تضحیک ان کے جنوں کو جلا بخشتی ہے اور وہ ایک کیفیتِ جذب میں اردو کی چمن بندی کیے جاتے ہیں۔
پر افسوس صد افسوس کہ ایسے دیوانے روز بہ روز گھٹتے جاتے ہیں اور گلستانِ اردو جو کبھی ایسے سعیدوں سے بھرا پڑا تھا اب خال خال ہی اس کے گوشے کسی ایسے مجنوں سے جلوہ افروز نظر آتے ہیں ۔زمانے کی چمک سینکڑوں کو لبھا لے گئی اورکتنے ہی تھے جنہوں نے غیروں کے سحر میں اپنی اردو سے بے وفائی کی ۔ اردو نے غیروں کی مخالفتیں اور مخاصمتیں توہنس ہنس کے برداشت کیں پر اپنوں کے ستم سہنے کے لیے جس پتھر کا جگر چاہیے وہ یہ سیم تن کہاں سے لائے۔
اب اردو شکستہ تن ، شکستہ پا صحرائے امید میں کسی مسیحا کی منتظر ہے جو اس کے مضمحل وجود میں نئی زندگی کی لہردوڑا دے ۔جو مخالفتوں کی تمام آندھیوں کے رخ موڑ کر اسے اس کے کھوئے ہوئے تختِ طاؤس پر دوبارہ متمکن کر سکے۔ تو آؤ اے اردو کے دیوانو اپنی اس بے حال شہزادی کی تلاش میں اس کے دست وبازو بنیں اور اسے کوئی مولوی عبد الحق ڈھونڈ کر لادیں جو اس کی محبت کے ترانے گا گا کر ہمارے حوصلے اور اس کے مقام کو بلند کرے۔
__________________
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
یا بندہ صحراءی یا مرد کہستانی
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Preshan Gul For This Useful Post:
rao saadia (Thursday, November 22, 2012)
Reply


Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
Iblees ke Majlese Shora- ابليس کي مجلس شوري Argus Urdu Poetry 2 Sunday, August 22, 2010 03:00 AM
پاکستان کا دکھ Preshan Gul News & Articles 0 Monday, April 05, 2010 10:53 PM
Khushal baba & his poetry Mr.Nationalist Pushto 0 Tuesday, December 01, 2009 05:46 PM
خراج ہے یہ محبتوں کا sara soomro Urdu Poetry 0 Sunday, September 20, 2009 02:22 AM


CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.