Friday, March 29, 2024
01:34 AM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > CSS Optional subjects > Group V > Urdu Literature

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #11  
Old Sunday, April 01, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Tehreek e Ali Garh

علی گڑھ تحریک

مقاصد

اس تحریک کے مقاصد کے بارے میں سب اہل الرائے حضرات متفق ہیں اور ان کی آراءمیں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا مثلاً احتشام حسین اس تحریک کے مقاصدکا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس تحریک کےکئی پہلوئوں میں نئے علوم کا حصول ، مذہب کی عقل سے تفہیم ، سماجی اصلاح اور زبان و ادب کی ترقی اور سربلندی شامل ہیں ۔ جبکہ رشید احمد صدیقی لکھتے ہیں کہ اس تحریک کے مقاصد میں مذہب ، اردو ہندو مسلم تعلقات ، انگریز اور انگریزی حکومت ،انگریزی زبان ، مغرب کا اثر اور تقاضے وغیرہ چند پہلو شامل ہیں
ادبی زاویہ

علی گڑھ تحریک کا فعال زوایہ ادبی ہے اور اس کے تحت نہ صرف اردو زبان کو وسعت ملی بلکہ اردو ادب کے اسالیب ِ بیان اور روح معانی بھی متاثر ہوئے ۔ اور اس کے موضوعات کا دائرہ وسیع تر ہو گیا۔سرسید سے پہلے اردو ادبیات کا دائرہ تصوف ، تاریخ اور تذکرہ نگاری تک محدود تھا ۔ طبعی علوم ، ریاضیات اور فنون لطیفہ کی طرف توجہ بہت کم دی جاتی تھی۔ سرسید کااثر اسلوب بیان پر بھی ہوا اور موضوع پر بھی ۔ اگرچہ سرسید سے پہلے فورٹ ولیم کالج کی سلیس افسانوی نثر ، دہلی کی علمی نثر اور مرزا غالب کی نجی نثر جس میں ادبیت اعلی درجے کی ہے۔ نظر انداز نہیں کی جا سکتی ۔ لیکن ان سب کوششوں کا دائرہ بہت زیادہ وسیع نہیں تھا۔ سرسید احمد خان کی بدولت نثر میں موضوعات کا تنوع اور سادگی پید اہوئی ۔آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ سرسید تحریک نے اردو ادب کے کون کون سے شعبوں کو متاثر کیا۔
اردو نثر

چونکہ علی گڑھ تحریک نے قومی مقاصد کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور ان کا روئے سخن خواص سے کہیں زیادہ عوام کی طرف تھا اس لئے صرف شاعری اس تحریک کی ضرورت کی کفیل نہیں ہو سکتی تھی۔ اس لئے علی گڑھ تحریک نے سستی جذباتیت کو فروغ دینے کے بجائے گہرے تعقل تدبر اور شعور کو پروان چڑھانے کا عہد کیا تھا اور صرف اردو نثر ان مقاصد میں زیادہ معاونت کر سکتی تھی۔ چنانچہ ادبی سطح پر علی گڑھ تحریک نے اردو نثر کا ایک باوقار ، سنجیدہ اور متوازن معیار قائم کیا اور اُسے شاعری کے مقفٰی اور مسجع اسلوب سے نجات دلا کر سادگی اور متانت کی کشادہ ڈگر پر ڈال دیا اور یوں ادب کی افادی اور مقصدی حیثیت اُبھر کر سامنے آئی۔


سوانح اور سیرت نگاری

علی گڑھ تحریک نے سائنسی نقطہ نظر اور اظہار کی صداقت کو اہمیت دی تھی اور اس کا سب سے زیادہ اثر سوانح اور سیرت نگاری کی صنف پر پڑا ۔ اٹھارویں صدی میں عیسائی مبلغین نے ہادی اسلام حضرت محمد اور دیگر نامور مسلمانوں کے غلط سوانحی کوائف شائع کرکے اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلانے کی کوشش کی تھی۔ عیسائی مبلغین کی ان کوششوں میں کبھی کبھی ہندو مورخ بھی شامل ہو جاتے تھے۔ علی گڑھ تحریک چونکہ مسلمانوں کی نشاة ثانیہ کو فروغ دے رہی تھی اس لئے اسلام اور بانی اسلام کے بارے میں پھیلائی گئی غلط فہمیوں کے ازالہ کی کوشش کی گئی۔ چنانچہ سرسید کی ”خطبات احمدیہ “ مولوی چراغ علی کے دورسالے ”بی بی حاجرہ“ ، اور ”ماریہ قبطیہ“ڈپٹی نذیر احمد کی ”امہات الا“ میں تاریخی صداقتوں کو پیش کیا گیا۔

لیکن اس دور کے سب سے بڑے سوانح نگار شبلی نعمانی اور الطاف حسین حالی تھے۔ مولانا شبلی نے نامور ان اسلام کوسوانح نگاری کا موضوع بنایا اور ان کی زندگی اور کارناموں کو تاریخ کے تناظر میں پیش کرکے عوام کو اسلام کی مثالی شخصیتوں سے روشناس کرایا جبکہ مولانا حالی نے اپنے عہد کی عظیم شخصیات کا سوانحی خاکہ مرتب کیا۔ چنانچہ ”یادگار غالب“ ”حیات جاوید“ اور ”حیات سعدی“ اس سلسلے کی کڑیا ں ہیں۔ اس عہد کے دیگر لوگ جنہوں نے سوانح عمریا ں لکھیں ان میں ڈپٹی نذیر احمد ، مولوی چراغ علی اور عبدالحلیم شرر شامل ہیں۔


تاریخ نگاری

سرسید احمد خان نئی تعلیم کے حامی اور جدیدیت کے علمبردار تھے انہوں نے حضور نبی کریم کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کے لئے اخلاقیات کی خالص قدروں کو فروغ دینے کی کوشش کی۔ علی گڑھ تحریک نے قومی زندگی میں جو ولولہ پیدا کیا تھا اسے بیدار رکھنے کے لئے ملی تاریخ سے بھی فائدہ اٹھانے کی کوشش کی گئی ۔ لیکن اس تحریک نے تاریخ کو سپاٹ بیانیہ نہیں بنایا بلکہ اس فلسفے کو جنم دیا کہ تاریخ کے اوراق میں قوم اور معاشرے کا دھڑکتا ہوا دل محفوظ ہوتا ہے۔ جس کا آہنگ دریافت کرلینے سے مستقبل کو سنوارا اور ارتقاءکے تسلسل کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اسی نقطہ نظر سے سرسید احمد خان نے ”آئین اکبری“ ”تزک جہانگیری“ اور تاریخ فیروز شاہی دوبارہ مرتب کیں۔ شبلی نعمانی نے ”الفاروق“ ، ”المامون“ اور اورنگزیب عالمگیر پر ایک نظر لکھیں۔ جبکہ مولوی ذکا اللہ نے ”تاریخ ہندوستان “ مرتب کی۔

علی گڑھ تحریک نے مسلمانوں کے شاندار ماضی کی قصیدہ خوانی نہیں کی اور نہ ہی اسلاف کی عظمت سے قوم کو مسحور کیا بلکہ سرسید احمد خان کا ایمان تھا کہ بزرگوں کے یادگار کارناموں کو یاد رکھنا اچھی اور برا دونوں طرح کا پھل دیتا ہے۔ چنانچہ اس تحریک نے تاریخ کے برے پھل سے عوام کو بچانے کی کوشش کی اور ماضی کے تذکرہ جمیل سے صرف اتنی توانائی حاصل کی کہ قوم مستقبل کی مایوسی ختم کرنے کے لئے ایک معیار مقرر کر سکے۔ علی گڑھ تحریک نے تاریخ نگاری کے ایک الگ اسلوب کی بنیاد رکھی بقول سرسید

” ہر فن کے لئے زبان کا طرز بیان جداگانہ ہے۔ تاریخ کی کتابوں میں ناول اور ناول میں تاریخانہ طرز کو کیسی ہی فصاحت و بلاغت سے برتا گیا ہو دونوں کو برباد کر دیتا ہے۔“
اس لئے علی گڑھ تحرےک نے تاریخ نگاری میں غیر شخصی اسلوب کو مروج کیا اور اسے غیر جانبداری سے تاریخ نگاری میں استعمال کیا ۔ اس میں شک نہیں کہ تاریخ کا بیانیہ انداز نثر کی بیشتر رعنائیوں کو زائل کر دیتا ہے۔ تاہم سرسید احمد خان تاریخ کو افسانہ یا ناول بنانے کے حق میں ہرگز نہیں تھے اور وہ شخصی تعصبات سے الگ رہ کر واقعات کی سچی شیرازہ بندی کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے تاریخ کے لئے سادہ اور بیانیہ نثر استعمال کرنے پر زور دیا۔ اور اس نقطہ نظر کے تحت آثار الصنادید کی بوجھل نثر کو سادہ بنایا۔


علی گڑھ تحریک اور تنقید

علی گڑھ تحریک نے زندگی کے جمال کو اجاگر کرنے کے بجائے مادی قدروں کو اہمیت دی۔ چنانچہ ادب کو بے غرضانہ مسرت کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے ایک ایسا مفید وسیلہ قرار دیا گیا جو مادی زندگی کو بدلنے اور اسے مائل بہ ارتقاءرکھنے کی صلاحیت رکھتاتھا۔ ادب کا یہ افادی پہلو بیسویں صدی میں ترقی پسند تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ تاہم یہ اعزاز علی گڑھ تحریک کو حاصل ہے کہ اردو زبان کے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس ی عملی حیثیت کو اس تحریک نے قبول کیا اور ادب کو عین زندگی بنا دیا۔ اس اعتبار سے بقول سید عبداللہ سرسید سب پہلے ترقی پسند ادیب اور نقاد تھے۔ اول الذکر حیثیت سے سرسید احمد خان نے ادب کو تنقید حیات کا فریضہ سرانجام دینے پر آمادہ کیا اور موخر الذکر حیثیت سے ادب کی تنقید کے موقر اصول وضع کرکے اپنے رفقاءکو ان پر عمل کرنے کی تلقین کی۔

اگرچہ سرسید احمد خان نے خودفن تنقید کی کوئی باقاعدہ کتاب نہیں لکھی لیکن اُن کے خیالات نے تنقیدی رجحانا ت پر بڑا اثر ڈالا۔ ان کا یہ بنیادی تصور کہ اعلیٰ تحریر وہی ہے جس میں سچائی ہو، جو دل سے نکلے اور دل پر اثر کرے بعد میں آنے والے تمام تنقیدی تصورات کی اساس ہے۔ سرسید احمد خان نے قبل عبا ت آرائی اور قافیہ پیمائی کو اعلیٰ نثر کی ضروری شرط خیا ل کیا جاتاتھا لیکن سرسید احمد خان نے مضمون کا ایک صاف اور سیدھا طریقہ اختیار کیا ۔ انہوں نے انداز بیان کے بجائے مضمون کو مرکزی اہمیت دی اور طریق ادا کو اس کے تابع کر دیا ۔ سرسید احمد خان کے یہ تنقیدی نظریات ان کے متعدد مضامین میں جابجا بکھرے ہوئے ہیں اور ان سے سرسید احمد خان کا جامع نقطہ نظر مرتب کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ علی گڑھ تحریک نے ایک ان لکھی کتاب پر عمل کیا۔

علی گڑھ تحریک سے اگر پہلے کی تنقیدی پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ علی گڑھ تحریک سے قبل کی تنقید صرف ذاتی تاثرات کے اظہار تک محدود تھی ۔ لیکن سرسید احمد خان نے ادب کو بھی زندگی کے مماثل قرار دیا۔ اور اس پر نظری اور عملی زاویوں سے تنقیدی کی ۔ گو کہ سرسید احمد خان نے خود تنقید کی کوئی باضابطہ کتاب نہیں لکھی ۔ تاہم ان کے رفقاءمیں سے الطاف حسین حالی نے ”مقدمہ شعر و شاعری“ جیسی اردو تنقید کی باقاعدہ کتاب لکھی اور اس کا عملی اطلاق ”یادگار غالب “ میں کیا۔ مولانا حالی کے علاوہ شبلی نعمانی کے تنقیدی نظریات ان کی متعدد کتابوں میں موجود ہیں۔ ان نظریات کی عملی تقلید ”شعر العجم “ ہے۔
سرسید نے صرف ادب اور اس کی تخلیق کو ہی اہمیت نہیں دی بلکہ انہوں نے قار ی کو اساسی حیثیت کو بھی تسلیم کیا۔ انہوں نے مضمون کو طرزادا پر فوقیت دی ۔ لیکن انشاءکے بنیادی تقاضوں کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ بلکہ طرز ادا میں مناسب لطف پیدا کرکے قاری کو سحر اسلوب میں لینے کی تلقین بھی کی۔ چنانچہ ان کے رفقاءمیں سے مولانا شبلی اور ڈپٹی نذیر احمد کے ہاں مضمون اور اسلوب کی ہم آہنگی فطری طور پرعمل میں آتی ہے اور اثر و تاثیر کی ضامن بن جاتی ہے۔ اگرچہ ان کے مقابلے میں حالی کے ہاں تشبیہ اور استعارے کی شیرینی کم ہے تاہم وہ موضوع کا فکری زاویہ ابھارتے ہیں او ر قاری ان کے دلائل میں کھو جاتا ہے۔ اس طرح مولوی ذکاءاللہ کا بیانیہ سادہ ہے لیکن خلوص سے عاری نہیں جبکہ نواب محسن الملک کا اسلوب تمثیلی ہے اور ان کی سادگی میں بھی حلاوت موجود ہے۔


علی گڑھ تحریک اور مضمون نویسی

اصناف نثر میں علی گڑھ تحریک کا ایک اور اہم کارنامہ مضمون نویسی یا مقالہ نگاری ہے۔ اردو نثر میں مضمون نویسی کے اولین نمونے بھی علی گڑھ تحریک نے ہی فراہم کئے ۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ سفر یورپ کے دوران سرسید احمد خان وہاں کے بعض اخبارات مثلاً سپکٹیڑ، ٹیٹلر ، اور گارڈین وغیر ہ کی خدمات سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے اور سرسید احمد خان نے انہی اخباروں کے انداز میں ہندوستان سے بھی ایک اخبار کا اجراءکا پروگرام بنایا تھا۔ چنانچہ وطن واپسی کے بعد سرسید احمد خان نے ”رسالہ تہذیب الاخلاق“ جاری کیا۔ اس رسالے میں سرسید احمد خان نے مسائل زندگی کو اُسی فرحت بخش انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی جو مذکورہ بالا رسائل کا تھا۔

سرسید احمد خان کے پیش نظر چونکہ ایک اصلاحی مقصد تھا اس لئے ان کے مضامین اگرچہ انگریزی Essayکی پوری روح بیدار نہ ہو سکی تاہم علی گڑھ تحریک اور تہذیب الاخلاق کی بدولت اردو ادب کا تعارف ایک ایسی صنف سے ہوگیا جس کی جہتیں بے شمار تھیں اور جس میں اظہار کے رنگا رنگ قرینے موجود تھے۔

تہذیب الاخلاق کے مضمون نگاروں میں سرسید احمد خان ، محسن الملک ، اور مولوی پیر بخش کے علاوہ دیگر کئی حضرات شامل تھے۔ ان بزرگوں کے زیر اثر کچھ مدت بعد اردو میں مقالہ نگاری کے فن نے ہمارے ہاں بڑے فنون ادبی کا درجہ حاصل کر لیا ۔ چنانچہ محسن الملک ، وقار الملک ، مولوی چراغ علی ، مولانا شبلی اور حالی کے مقالے ادب میں بلند مقام رکھتے ہیں۔


علی گڑھ تحریک اور ناول نگاری

علی گڑھ تحریک میں اصلاحی اور منطقی نقطہ نظر کو تمثیل میں بیان کرنے کا رجحان سرسید احمد خان ، مولانا حالی اور محسن الملک کے ہاں نمایاں ہے۔ تاہم مولوی نذیر احمد نے اسے فن کا درجہ دیا اور تحریک کے عقلی زاویے اور فکری نظریے کے گرد جیتے جاگتے اور سوچتے ہوئے کرداروں کاجمگھٹاکھڑا کردیا۔ چنانچہ وہ تما م باتیں جنہیں سرسید احمد خان نسبتاً بے رنگ ناصحانہ لہجے میں کہتے ہیں۔ ڈپٹی نذیر احمد نے انہیں کرداروں کی زبا ن میں کہلوایا ہے اور ان میں زندگی کی حقیقی رمق پیدا کر دی ہے۔

اگرچہ زندگی کی یہ تصویریں بلاشبہ یک رخی ہیں اور نذیر احمد نے اپنا سارا زور بیان کرداروں کے مثالی نمونے کی تخلیق میں صرف کیا ۔ لیکن یہ حقیقت بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ سکوت دہلی کے بعد مسلمانوں کی زبوں حالی کے پیش نظر اس وقت مثالی کرداروں کو پیش کرنے کی ضرورت تھی ۔ چنانچہ صاف اور واضح نظرآتا ہے کہ مولانا شبلی اور مولانا حالی نے جو قوت اسلاف کے تذکروں سے حاصل کی تھی وہی قوت نذیر احمد مثالی کرداروں کی تخلیق سے حاصل کرنے کے آرزو مند ہیں۔ مولوی نذیر احمد کے ناول چونکہ داستانوں کے تخیلی اسلوب سے ہٹ کر لکھے گئے تھے اور ان میں حقیقی زندگی کی جھلکیاں بھی موجود تھیں اس لئے انہیں وسیع طبقے میں قبولیت حاصل ہوئی اور ان ناولوں کے ذریعے علی گڑھ تحریک کی معتدل اور متوازن عقلیت کو زیادہ فروغ حاصل ہوا اس طرح نذیر احمد کی کاوشوں سے نہ صرف تحریک کے مقاصد حاصل ہوئے بلکہ ناول کی صنف کو بے پایاں ترقی ملی۔


علی گڑھ تحریک اور نظم

علی گڑھ تحریک نے غزل کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی کوشش کی ۔ اس کا سبب خود سرسید احمد خان یہ بتاتے ہیں کہ
” ہماری زبان کے علم و ادب میں بڑا نقصان یہ تھا کہ نظم پوری نہ تھی۔ شاعروں نے اپنی ہمت عاشقانہ غزلوں اور واسوختوں اور مدحیہ قصوں اور ہجر کے قطعوں اور قصہ کہانی کی مثنویوں میں صرف کی تھی۔“
اس بناءپر سرسید احمد خان نے غزل کی ریزہ خیالی کے برعکس نظم کو رائج کرنے کی سعی کی۔ نظم کے فروغ میں ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے مولانا الطاف حسین حالی سے ”مسدس حالی“ لکھوائی اور پھر اُسے اپنے اعمال حسنہ میں شمار کیا۔

سرسید احمد خان شاعری کے مخالف نہ تھے لیکن وہ شاعری کو نیچرل شاعری کے قریب لانا چاہتے تھے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے محمد حسین آزاد کے نےچر مشاعرے کی داد دی اور ان کی مثنوی ”خواب امن“ کو دل کھول کر سراہا۔ سرسید احمد خان کی جدیدیت نے اس حقیقت کو بھی پالیا تھا کہ قافیہ اور ردیف کی پابندی خیالات کے فطری بہائو میں رکاوٹ ہے۔ چنانچہ انہوں نے بے قافیہ نظم کی حمایت کی اور لکھا کہ

”ردیف اور قافیہ کی پابندی گویا ذات شعر میں داخل تھی ۔ رجز اور بے قافیہ شعر گوئی کا رواج نہیں تھا اور اب بھی شروع نہیں ہوا۔ ان باتوں کے نہ ہونے سے ہماری نظم صرف ناقص ہی نہ تھی بلکہ غیر مفید بھی تھی۔“
چنانچہ سرسیداحمد خان کے ان نظریات کااثر یہ ہو ا کہ اردو نظم میں فطرت نگاری کی ایک موثر تحریک پیداہوئی ۔ نظم جدید کے تشکیلی دور میں علی گڑھ تحریک کے ایک رکن عبدالحلیم شرر نے سرگرم حصہ لیا اور ”رسالہ دلگداز“ میں کئی ایسی نظمیں شائع کیں جن میں جامد قواعد و ضوابط سے انحراف برت کر تخلیقی رو کو اظہار کی آزادی عطا کی گئی تھی۔
مجموعی جائزہ

مختصر یہ کہ علی گڑھ تحریک ایک بہت بڑی فکری اور ادبی تحریک تھی ۔ خصوصا ادبی لحاظ سے اس کے اثرات کا دائرہ بہت وسیع ثابت ہوا۔ اس تحریک کی بدولت نہ صرف اسلوب بیان اور روح مضمون میں بلکہ ادبی انواع کے معاملے میں بھی نامور ان علی گڑھ کی توسیعی کوششوں نے بڑا کام کیا۔ اور بعض ایسی اصناف ادب کو رواج دیا جو مغرب سے حاصل کردہ تھیں۔ ان میں سے بعض رجحانات خاص توجہ کے لائق ہیں۔ مثلاً نیچرل شاعری کی تحریک جس میں محمد حسین آزاد کے علاوہ مولانا الطاف حسین حالی بھی برابر کے شریک تھے۔ قدیم طرز شاعری سے انحراف بھی اسی تحریک کا ایک جزو ہے۔ اردو تنقید جدید کا آغاز بھی سرسید احمد خان اور اُن کے رفقاءسے ہوتا ہے۔ سوانح نگار ، سیرت نگاری ، ناول اردو نظم اور مضمون نگاری سب کچھ ہی سرسید تحریک کے زیر اثر پروان چڑھا۔
Reply With Quote
The Following 3 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Farrah Zafar (Friday, April 06, 2012), Hamidullah Gul (Monday, April 16, 2012), Raniabck (Monday, December 23, 2013)
  #12  
Old Friday, April 06, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default taraqi pasand tehreek

ترقی پسند تحریک

(Progressive Literary Movement)


آج سے کوئی سات دہے قبل 1936ء میں لندن میں مقیم کچھ ہندوستانی ادیبوں نے جن میں سجاد ظہیر اور ڈاکٹر ملک راج آنند وغیرہ شامل تھے ، ایک ادبی انجمن کا خاکہ مرتب کیا اور '' انجمن ترقی پسند مصنفین'' کی بنیاد ڈالی ۔ انگریزی میں اس کا نام رکھا گیا :
Progressive Writers Association ۔
اس کی پہلی سالانہ کانفرنس 1936ء میں ہی بمقام لکھنؤ منعقد ہوئی ۔ اُس وقت کے صفِ اوّل کے ادیب منشی پریم چند نے اس کی صدارت کی اور اپنے خطبہ میں وہ یادگار جملہ ادا کیا :
'' ہمیں اپنے حسن کا معیار بدلنا ہوگا ! ''

انجمن کے مقاصد میں ... مزدوروں اور کسانوں کے مسائل کو ادب میں پیش کرنا ، ہندوستان کی جدوجہد ِ آزادی میں ادیبوں کو اپنے قلم کے ذریعے شریک ہونے کی تلقین ، اور سب سے بڑا بنیادی مقصد سامراج اور سرمایہ داری کے خلاف بغاوت اور دولت کی مساویانہ تقسیم کی حمایت ... شامل تھے ۔


اِس طرح یہ ادبی تحریک جو ''ترقی پسند ادبی تحریک '' Progressive Literary Movement کے نام سے مشہور ہوئی ، دراصل کمیونسٹوں کی تحریک سے وابستہ تھی ۔ اس تحریک کے تقریباً نوے (90) فیصد ادیب و شاعر کمیونسٹ ہوا کرتے تھے (اور اب بھی انہی کے ہاتھ میں یہ تحریک ہے )۔ کارل مارکس ، جو علوم ِ معاشیات میں ''مارکسزم'' کا بانی تھا ، اِن کا 'امام' تسلیم کیا گیا ۔ اُس وقت کے غیر منقسم شدہ ہندوستان کی تقریباً سبھی زبانوں میں یہ تحریک پھیلی ۔


روس اور چین جیسے کمیونسٹ ملک اِن ادیبوں کے حامی تھے ۔ اُردو میں اسے ''اشتراکی ادیب'' بھی کہا جاتا ہے ۔کیونکہ کمیونزم کا ترجمہ ''اشتراکیت'' کیا گیا ۔



اِس میں شک نہیں کہ اِس تحریک نے عشق و عاشقی کی فرسودہ روایات کو توڑا اور '' ادب برائے زندگی '' کا نعرہ دیا ۔ اپنی تحریروں میں حسن و عشق کے موضوعات کو چھوڑ کر زندگی کے مسائل کو سمویا اور '' غمِ جاناں'' کے مقابلے میں '' غمِ دوراں'' کی بات کی ۔ نثر میں ''افسانہ'' کو اس تحریک نے نیا خون ، نیا آہنگ بخشا ۔ صفِ اوّل کے افسانہ نگار اِسی تحریک کی دین ہیں ۔

تقسیمِ ہند کے بعد یہ تحریک اپنی انتہا پسندی کا شکار ہو گئی ۔ یہ کہا گیا کہ ایک ادیب / شاعر کو کسی 'ازم' یا کسی سیاسی پرچار کا ایجنٹ نہ رہنا چاہئے ۔ سماج کی فرسودہ روایات کے خلاف بغاوت کرتے کرتے یہ تحریک چند بندھی ٹکی روایات کی علمبردار بن کر رہ گئی ۔ ادبی اقدار کو پسِ پشت ڈال دیا گیا ۔ پروپگنڈہ بازی اور نعرہ بازی کی گونج اِن قلمکاروں کی تحریروں میں سنائی دینے لگی ۔


چنانچہ 1953ء کی'' بھیونڈی کانفرنس'' میں یہ تحریک سخت تنقیدوں کا نشانہ بنی اور بہت سے ادیب و شاعر اِس تحریک سے علحٰدہ ہو گئے اور یہ کہا کہ : اب اِس تحریک کی ضرورت نہیں ۔ ادیب کو اپنے مشاہدے اور تجربے کی اساس پر ادب کی تخلیق کرنا چاہئے ، نہ کہ کسی اشتراکی ہدایت ناموں کا اشتہار بن کر ڈھنڈورچی بن جائے ۔
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Farrah Zafar (Friday, April 06, 2012)
  #13  
Old Friday, April 06, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

رومانوی تحریک

رومانوی تحریک کو عام طور پر سرسید احمد خان کی علی گڑھ تحریک کا ردعمل قرار دیا جاتا ہے۔ کیونکہ سرسید احمد خان کی تحریک ایک اصلاحی تحریک تھی۔ کیونکہ یہ دور تہذیب الاخلاق کا دور تھا اور تہذیب الاخلاق کی نثر عقلیت ، منطقیت ، استدالیت اور معنویت سے بوجھل تھی۔ مزید برآں تہذیب الاخلاق کا ادب مذہبی ،اخلاقی ، تہذیبی اور تمدنی اقدار سے گراں بار تا۔اس جذبے اور احسا س کے خلاف رومانی نوعیت کا ردعمل شروع ہوا اور جذبے اور تخیل کی وہ رو جسے علی گڑھ تحریک نے روکنے کی کوشش کی تھی۔ ابھرے بغیر نہ رہ سکی۔ لیکن اس سے قبل کی رومانیت یا رومانوی تحریک کے بارے میں بحث کریں ، ضروری ہے کہ ہم یہ دیکھ لیں کہ رومانیت سے کیا مراد ہے۔
رومانیت کا مفہوم

رومانیت پر بحث کرتے ہوئے ڈاکٹر سید عبداللہ صاحب فرماتے ہیں کہ لفظ جتنا دل خوش کن ہے تشریح کے لحاظ سے اتنا سہل نہیں۔ لغات اور فرہنگ ، اصطلاحات کے سائیکلو پیڈیا اور تنقید کی کتابیں اس سلسلے میں سب الگ الگ کہانی سنا رہی ہیں۔ اس لئے رومانیت کے متعلق کوئی معین بات کہنا چاہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ رومانیت کے معنی رومانیت ہیں۔ بہر حال سید عبداللہ رومانیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ رومانیت کا ایک ڈھیلا سا مطلب یہ ہے کہ یہ ایک ایسے اسلوب اظہار یا انداز احساس کا اظہار کرتی ہے جس میں فکر کے مقابلے میں تخیل کی گرفت مضبوط ہو۔ رسم و روایت کی تقلید سے آزادی خیالات کو سیلاب کی طرح جدھر ان کا رخ ہو آزادی سے بہنے دیا جائے۔


مختصر یہ کہ رومانی ادیب اپنے جذبے اور وجدان کو ہر دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہے۔ اسلوب اور خیالات دونوں میں اس کی روش تقلید کے مقابلے میں آزادی اور روایت کی پیروی سے بغاوت اور جدت کا میلان رکھتی ہے۔ رومانی ادیب حال سے زیادہ ماضی یا مستقبل سے دلچسپی رکھتا ہے۔ حقائق واقعی سے زیادہ خوش آئند تخیلات اور خوابوں کی اور عجائبات و طلسمات سے بھری ہوئی فضائوں کی مصوری کرتا ہے۔ دوپہر کی چمک اور ہرچیز کو صاف دکھانے والی روشنی کے مقابلے میں دھندلے افق چاندنی اور اندھیرے کی ملی جلی کیفیت اسے زیادہ خوش آئند معلوم ہوتی ہے۔ڈاکٹر محمد حسن رومانیت کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”رومانیت“ کا لفظ رومانس سے نکلا ہے۔ اور رومانس زبانوں میں اس کا طلاق اس قسم کی نثری منظوم کہانیوں پر ہوتا ہے جن میں انتہائی آراستہ و پرشکوہ پس منظر کے ساتھ عشق و محبت کی ایسی داستانیں سنائی جاتی تھیں جو عام طور پر دور وسطی کے جنگجو اور خطر پسند نوجوانوں کی مہات سے متعلق ہوتی تھیں۔ اس طرح اس لفظ کے تین خاص مفہوم ہیں۔
١)
عشق و محبت سے متعلق تمام چیزوں کو رمانی کہا جانے لگا

٢) زبان کی بناوٹ ، سجاوٹ ، آراستگی اور محاکاتی تفصیل پسندی کو رومانی کہا جانے لگا۔
٣)

عہد وسطی سے وابستہ تمام چیزوں سے لگائو ، قدامت پسندی اور ماضی پرستی کو رومانی کا لقب دیا گیا۔
مغرب میں رومانیت

یورپ میں یہ تحریک کب اُبھری اس سلسلے میں کوئی حتمی بات کہنا مشکل ہے۔ تاہم یہ بات وثوق سے کہی جاتی ہے کہ یورپ میں اس تحریک کا دور عروج اٹھارویں صدی کے وسط تک محیط ہے۔ اس تحریک کو سب سے زیادہ مقبولیت فرانس ، انگلستان اور جرمنی میں حاصل ہوئی۔

ادبیات کے سلسلے میں اس لفظ کو سب سے پہلے 1781ءمیں وارٹن اور برڈ نے استعمال کیا۔ اس کے بعد 1820ءمیں گوئٹے اور شلر نے ادبیات کے سلسلے میں رومانیت کا اطلاق کرنا شروع کیا۔ لیکن بطور اصطلاح اسے مادام ڈی سٹائل اور شیگل نے رائج کیا۔ یورپ میں رومانیت کا سب سے بڑا علمبردار روسو کو تسلیم کیا جاتا ہے کیونکہ سب سے پہلے روسونے فردکی آزادی پر زور دیا۔ چنانچہ روسو کی اس بات کو رومانیت کا مطلع کہاجاتا ہے۔



” انسان آزاد پیدا ہوا ہے ، مگر جہاں دیکھو وہ پابہ زنجیر ہے۔“
روسو
کے خیال میں انسان کی ناخوشی کا سب سے بڑا سبب تصنع اور بناوٹ ہے ، اور اس چیز کو وجود میں لانے کا سبب تہذیب و تمدن ہے۔ روسو کے خیالات نے اہل یورپ کو بہت زیادہ متاثر کیا۔ لیکن روسو کا میدان سیاست اور عمرانیات سے آگے نہیں بڑھا۔ جس کی وجہ سے ادب میں ان جدید رجحانات کی ابتداءبعد کے ادیبوں نے کی اور دھیرے دھیر اصول و ضوابط سے سرتابی کی روایت پیدا کی۔
اردو میں رومانیت

اردو میں رومانیت کی ابتداءاگرچہ انیسویں صدی کے آخری حصے میں ہو چکی تھی تاہم اسے فروغ بےسویں صدی کے پہلی جنگ عظیم کے بعد حاصل ہوا۔ اردو میں اس کاآغاز سرسید تحریک کے ردعمل کے طور پر ہوا۔ سرسید عقلیت ، مادیت اور حقائق نگاری پربہت زیادہ زور دیا اور فرد کی زندگی کی جذباتی اور رومانی پہلوئوں کو یکسر نظرانداز کر دیا۔ کچھ عرصہ تک یہ سکہ چلتا رہا لیکن بالآخر سرسید کے عقلی اور مقصدی ادب کے خلاف رومانوی ادیبوں نے شدید احتجاج کیا اور اس طرح شعر و ادب کی دنیا میں نئی راہوں کی نشاندہی کی۔اور اُس وقت کے حالات اور مغربی علوم کی آمد نے اس تحریک کو آگے بڑھنے میں مزید مدد دی۔


علی گڑھ تحریک کی عقلیت اور مادیت کے خلاف ردعمل میں سر فہرست محمد حسین آزاد ، میر ناصر علی دہلوی اور عبدالحلیم شرر تھے۔ ان لوگوں نے ان اسالیب کو فروغ دینے کی کوشش کی جن میں ادیب کا تخیل جذبے کی جوئے تیز کے ساتھ چلتا رہے۔ لیکن آزاد کی رومانیت کسی ردعمل کا نتیجہ نہیں تھی بلکہ ان کی افتاد طبع کی نقیب ہے۔ جبکہ اس کے برعکس میر ناصر علی کا رومانی عمل شعوری نظرآتا ہے۔ میر ناصر علی نے سرسید احمد کان کے علمی و ادبی کارناموں پر نہ صرف تنقیدکی ہے بلکہ انہوں نے سرسید کی سنجیدہ نثر کا جامد خول توڑنے کے لئے انشاءپردازی کا شگفتہ اسلوب بھی مروج کرنے کی کوشش کی۔ اور انہوں نے سرسید کے مقابلے میں ”فسانہ ایام“، ”صدائے عام جسے رسالے نکالے۔ عہد سرسید میں شدید جذباتی رویے اور رومانی طرز احساس کی ایک اور مثال عبدالحلیم شرر ہیں۔ شرر نے مسلمانوں کے اجتماعی اضمحلال کے خلاف ردعمل پیش کیا اور اس شاندار ماضی میں آسودگی تلاش کی جس میں مسلمانوں کے جاہ و جلال اور ہیبت و جبروت نے مشرق و مغرب کی طنابیں کھینچ رکھی تھیں۔
رسالہ مخزن

سرعبدالقادر نے بیسویں صدی کے آغاز کے ساتھ ہی یعنی 1901 میں لاہور سے ماہنامہ مخزن جاری کیا۔ جسے اردو کی عملی و ادبی رسائل میں نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس رسالے کی اشاعت سے نہ صرف یہ کہ رومانیت کی تحریک کو تقویت ملی بلکہ بعد میں آنے والی تحریکوں کی راہ بھی ہموار ہوئی۔ اس رسالے میں اپنے دور کے تمام رومانیت پسندوں نے لکھا اور اس رسالے نے بہت سے ادبیوں کو اردو دان طبقے سے روشناس کرایا۔
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Farrah Zafar (Friday, April 06, 2012), Hamidullah Gul (Friday, April 06, 2012)
  #14  
Old Tuesday, April 10, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default halqa e arbab e zauq

حلقہ ارباب ذوق

حلقہ ارباب ذوق اردو ادب کی سب سے فعال تحریکوں میں سے ایک ہے جو کہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔
بقول یونس جاوید:

” حلقہ اربابِ ذوق ایک آزاد ادبی جمہوری ادارہ ہے اور بحیثیت تنظیم اس کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہیں۔“
بقول سجاد باقر رضوی:
” حلقہ اربابِ ذوق ایک مدت مدید سے ادبی خدمات کرتا چلا آیا ہے۔ ادیبوں کی یہ جماعت ملک کی وہ جماعت ہے جو ادب اور ثقافت کو پروان چڑھاتی رہی ہے۔“
ترقی پسند تحریک
اردو ادب کی ایک طوفانی تحریک تھی اس تحریک نے بلاشبہ خارجی زندگی کا عمل تیز کر دیا تھا چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک ایسی تحریک بھی مائل بہ عمل نظرآتی ہے جس نے نہ صرف خارج کو بلکہ انسان کے داخل میں بھی جھانک کر دیکھا جس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق “ ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بلعموم ایک دوسرے ی ضد قرار دیا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ داخلیت اور مادیت و روحانیت کی بناءپر ان دونوں میں واضح اختلاف موجود ہے۔ ترقی پسندوں نے اجتماعیت پر زور دیا جبکہ حلقے والوں نے انسان کو اپنے شخصیت کی طرف متوجہ کیا ، ایک کا عمل بلاواسطہ خارجی اور ہنگامی تھا جبکہ دوسری کا بلاواسطہ داخلی اور آہستہ ہے۔
آغاز

29 اپریل 1939ءکو سید نصیر احمد جامعی نے اپنے دوستوں کو جمع کیا جن میں نسیم حجازی ، تابش صدیقی ، محمد فاضل وغیرہ شامل ہیں اور ایک ادبی محفل منعقد کی نسیم حجازی نے اس میں ایک افسانہ پڑھا اور اس پر باتیں ہوئیں اس کے بعد اس محفل کو جاری رکھنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا اور رسمی طور پر اس کا نام ” مجلس داستان گویاں‘’ رکھ دیا گیا بعد میں اس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق “ رکھ دیا گیا۔
اغراض و مقاصد

قیوم نظر نے اپنے انٹرویو میں اس تحریک کے جو اغراض و مقاصد بیان کئے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
*1 اردو زبان کی ترویج و اشاعت
*2 نوجوان لکھنے والوں کی تعلیم و تفریح
*3 اردو لکھنے والوں کے حقوق کی حفاظت
*4 اردو ادب و صحافت کے ناسازگار ماحول کو صاف کرنا
ادوار:۔

*1 ابتداءسے میراجی کی شمولیت تک ( اپریل 1939ءسے اگست 1930ءتک
*2 میراجی کی شمولیت سے اردو شاعری پر تنقید کے اجراءتک (اگست 1940ءسے دسمبر 1940ءتک
*3 دسمبر 1940ءسے 1947ءمیں قیام پاکستان تک *4 1948ءسے مارچ 1967ءمیں حلقے کی تقسیم تک *5 مارچ 1967ءسے زمانہ حال 1976ءتک

پہلا دور

پہلے دور کی حیثیت محض ایک تعارفی دور کی ہے
دوسرا دور

دوسرا دور تشکیلی نوعیت کا ہے اس میں مضامین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور حلقے کی مجالس میں تخلیقات کے لیے نئے تجربے پیش کرنے کا آغاز ہوا
تیسرادور

تیسرا دور خاصا طویل ہے اس دور میں حلقے نے ایک منظم اور فعال تحریک کی صورت اختیار کی حلقے کا نظریہ یہ تھا کہ ادب زندگی سے گہراتاثر لیتا ہے۔ اس دور میں حلقے نے زندگی کی ان قدروں کو اہمیت دی جن کی صداقت دوامی تھی اس کے علاوہ ادیب کو تخلیقی آزادی دی گئی حلقے نے زندگی کے ساتھ بلواستہ تعلق قائم کیا اس دور میں جس بحث نے سب سے زیادہ اہمیت حاصل کی وہ ”ادب برائے ادب “ اور ”ادب برائے زندگی “ کی بحث تھی اس دور میں نہ صرف شاعری نے ترقی کی بلکہ افسانے کی صنف میں بھی واضح تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔ تحریک کی تاثریت ، علامت نگاری ، وجودیت ، وغیرہ کو جن سے ترقی پسند تحریک گریزاں تھی حلقہ اربابِ ذوق کے ادباءنے ہی اردو سے روشناس کرایا ۔ اس کے علاوہ تنقید کو اہمیت دی گئی اور نئی نظم کی تحریک پروان چڑھایا۔
چوتھا دور

چوتھا دور 1947ءسے 1967ءتک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں میراجی کی وفات ایک ایسا واقعہ ہے جس نے حلقہ ارباب ذوق کو شدت سے متاثر کیا حلقہ اس مرکزی فعال شخصیت سے محروم ہو گیا اب حلقے پر روایت کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ ہفتہ وار مجالس میں تنقید کا رخ ذاتیات کی طرف مڑنے لگا اس لیے جب ادباءکے احتساب ،جواب طلبی اور خراج کا سلسلہ شروع ہوا تو حلقے کی تحریک بلاواسبہ طور پر متاثر ہونے لگی ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سیاسی پابندی نے بھی حلقے کو براہ راست متاثر کیا اس کے علاوہ نظریاتی تنقید کے برعکس عملی تنقید کا دور دورہ شروع ہونے لگا۔ ترقی پسند تحریک پر پابندی کے بعد ایک مرتبہ پھر ترقی پسند ادباءکی توجہ حلقے کی طرف مبذول ہوئی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے پر ترقی پسند ادباءکا سیاسی تسلط آہستہ آہستہ مستحکم ہونے لگا نتیجہ یہ ہوا کہ ادب کا فریم آہستہ آہستہ شکستہ ہوگیا اور اس کے بجائے سیاست کا فریم روز بروز مضبوط ہونے لگا۔ چنانچہ جب ادب پر سیاست غالب آگئی تو حلقہ دو الگ الگ حصوں میں بٹ گیا چنانچہ حلقے پر قابض انقلابی گروہ کو ”حلقہ اربابِ ذوق سیاسی “ کا نام دیا گیا اور دوسرا ”حلقہ اربابِ ذوق ادبی “ کہلانے لگا۔
حلقہ اربابِ ذوق سیاسی

1967ءسے 1975ءتک
حلقہ اربابِ ذوق سیاسی نے تین سالوں میں حلقے کی قدیم روایت کو توڑنے اور نئی اقدار کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ۔ ان کا نقطہ نظر مارکسی نظریات سے ماخوذ تھا اس لیے بدلے ہوئے حالات میں اس خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور حلقہ اربابِ ذوق میں ایک ایسی تحریک پیداہوئی جسے نو ترقی پسندی سے موسوم کرنا درست ہے۔ چنانچہ بہت سے نوجوان ادباءجو ابھی تک اپنے نظریات کی جہت متعین نہیں کر سکے تھے اس نئی تحریک میں شامل ہو گئے ان میں افتخار جالب کو اہمیت حاصل ہے۔ نو ترقی پسند ی کی تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے نہ صرف اس تحریک میں شرکت اختیار کی بلکہ اپنے پرانے نظریات اور تخلیقات سے دست برداری کا اعلان بھی کردیا۔ حلقے نے ترقی پسندی کو بالخصوص فروغ دیا چنانچہ اس دور میں حلقے نے قومی اور بین الاقوامی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی ۔ مباحثوں میں چونکہ سیاست کو بالخصوص توجہ حاصل ہوئی اس لیے اکثر اوقات تنقید نے ہنگامی حالات اختیار کرلی ۔ سیاسی حلقہ اربابِ ذوق کا کارنامہ ہے کہ اس نے بن لکھے دستور پر عمل کی روایت کو ختم کر دی اور حلقے کے لیے ایک تحریری آئین منظور کر وایا۔ اس دور میں سیاسی حلقے کا ایک اور کارنامہ وسیع المقاصد کا انعقاد بھی ہے۔ مندرجہ بالا بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق سیاسی کا کردار بنیادی طور پر انقلابی ہے اور اس کے نظریات میں مادی خارجیت کواہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ اب اس تخلیقی عمل سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے سیاست کے عمل کا تابع ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں (٢٧۔ ٥٧) میں حلقہ ارباب ِ ذوق سیاسی نے نئے انقلابی اقدامات سے قدیم حلقے کی بیشتر روایات توڑ دی لیکن تاحال کسی نئی روایت کو جنم نہیں دیا۔
حلقہ اربابِ ذوق ادبی

1967ءسے 1975ءتک
متذکرہ بالا تین سالوں میں ادبی حلقے نے پرانی روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کی تاہم ایک بڑے ”کل “ سے کٹ جانے کے بعد ذاتی رنجشوں کا جو سلسلہ شروع ہواتھا ادبی حلقہ ان سے اپنا دامن نہیں بچا سکا ۔ اس کوئی شک نہیں کہ ادبی حلقے کے ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوئی چنانچہ ایک حلقے کے ادباءدوسرے حلقے میں بالعموم شریک ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ ادیب ایک حلقے میں غزل پڑھتا ہے اور اسی روز دوسرے حلقے میں نظم سنا آتا ہے شرکاءمحفل کے وقت کا نصف اول اےک حلقے میں اور نصف ثانی دورے حلقے میں صرف ہوتا ہے اور سربرآوردہ ادباءبلا تحصیص دونوں حلقوں کی صدارتیں قبول کر لیتے ہیں۔چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود اختلاف کہ باوجود دونوں حلقے ایک دوسرے کے ادبی حریف نہیں بن پائے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ادب میں آگے بڑھنے اور نیا نقطہ پیدا کرنے کا رجحان فروغ نہیں پاسکا۔ اس لیے ادبی حلقے کو سیاسی حلقے میں ممیز کرنا ممکن نہیں رہا اور اب یہ کہنا درست ہے کہ حلقے کی تقسیم سے ادب کوفائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچایا۔ اور ادباءنہ صرف اپنی ذاتی پہچان سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ اس گرد آلود فضامیں ان کا ادب بھی گدلا ہو رہا ہے۔ بلاشبہ حلقہ اربابِ ذوق میں ضابطے کی کاروائی تو اب بھی مکمل ہورہی ہے لیکن مجموعی اعتبار سے اس فعال تحریک پر جمود اور یکسانیت کی کیفیت طاری ہے اور اب یہ کسی نئے مردراہ کی تلاش میں ہے۔
حلقہ اربا بِ ذوق کی شاعری

شاعری کے حوالے سے حلقہ اربابِ ذوق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بلاشبہ حلقے نے نئی نظم کو فروغ دینے میں قابل قدر خدمات سرانجام دی ۔ حلقہ اربابِ ذوق کی ابتداءافسانہ خوانی سے ہوئی تھی میراجی نے اس کا رخ تنقید کی طرف موڑا ۔ حلقے کے رفقاءمیں یوسف ظفر ، قیوم نظر، تابش صدیقی اور حلقے کی مرکزی شخصیت میراجی کا شمار نئے شعراءمیں ہوتا ہے۔ اس لیے بہت جلد حلقے کا رخ شاعری کی طرف ہو گیا۔ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں بنیادی اہمیت اس حقیقت کو حاصل ہے کہ شاعر خارج اور باطن دو دنیائوںمیں آہنگ اور توازن کس طرح پیدا کرتا ہے ۔ حلقے نے داخل کے اس نغمے کو جگانے کی کوشش کی اس لیے اس شاعری میں مشاہدے کی جہت خارج سے داخل کی طرف سفر کرتی ہے۔ چنانچہ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری درحقیقت دھندلے اجالے سے حسن ، نغمہ اور سحر پیدا کرنے کی شاعری ہے۔
حلقہ اربابِ ذوق کا افسانہ

حلقے کی تخلیقی جہتنے ارد و افسانے کو بھی متاثر کیا اور بیشتر ان جذبوں کی نشاندہی کو جو اظہار کی راہ نہیں پاتے اس ضمن میں حلقے کے افسانہ نگاروں نے نفسیات کے علم سے کما حقہ فائدہ اُٹھایا اور کہانی بیان کرنے کے بنیادی فریضے سے بالمعموم کوتاہی برتے بغیر پلاٹ کردار اور فضاءسے جدید افسانے کا تارو پود مرتب کیا۔ حلقے کے افسانہ نگاروں نے معاشرے کے داغ نمایاں کرنے کی بجائے ان غیر مرئی جذبات کو افسانے میں شا مل کیا ۔ جن سے احتراز ِ خیال پیدا ہوتی تھی ۔ اور بوقلمو فطرت کا کوئی نہ کوئی ذریعہ سامنے آجاتا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ حلقے میں داستان اور افسانے کو ہی اہمیت حاصل تھی ۔ تنقید کا اولین نشتر بھی افسانے پر ہی آزمایا گیا ۔ میراجی کی شمولیت سے اگرچہ شاعری کو زیادہ تقویت ملی تاہم افسانے کی صنف بھی محرومی توجہ نہیں ہوئی۔
حلقہ اربا ب ِذو ق کی تنقید

حلقہ اربابِ ذوق نے تنقید میں یکسر مختلف رویہ قبول کیا۔ اور ابہام کے برعکس فن پارے کے بے رحم تجزیے کا رجحان پیدا کیا۔ حلقہ اربابِ ذوق کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے فن پارے کے حسن قبح کے فیصلے کو محض ذاتی تاثر کی میزان پر نہیں تولا فیصلے کے لیے جواز مہیا کرنا ضرور ی قرار دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب حلقے کی تاسیس عمل میں آئی تو ترقی پسند تحریک نے مقصدیت اور افادیت کو اتنی اہمیت دے دی تھی ، کہ فن پارے کی تنقید میں سب سے پہلے یہی معیار آزمایا جاتا ۔ یوں تنقید کے فنی اور جمالیاتی زاویوں سے یا تو اغماض برتا جاتا یاانھیں بالکل نظرانداز کر دیا جاتا۔ حلقے نے فن میں حسن کی دائمی قدروں کو اجاگر کرنے کی سعی کی تھی چنانچہ تنقید فن میں بھی یہی زاویہ حلقہ اربابِ ذوق کا امتیازی نشان بن گیا۔ اور اس دور میں جب ”ادب برائے زندگی “ کا نعرہ بلند ہوا تو حلقے نے ”ادب برائے ادب “کے نظریے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے کی تنقید میں فن کا جمالیاتی پہلو زیادہ نمایاں ہوا۔ اور تخلیقات سے ان زاویوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جن سے عالمگیر انسانیت سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ اور روح احتراض اور بالیدگی کی کیفیت محسوس کرتی تھی ۔
مجموعی جائزہ

حلقے نے اپنے عہد کی مضبوط ترقی پسند تحریک کے خلاف نظریاتی محاربے کی شدید فضا بھی پیدا کی تاہم حلقے نے سیاست گری کے بجائے سیاست کے اثرات کو ادب کا موضوع بنایا ۔ اور کئی ایسی تخلیقات پیش کیں جن کی پیش قدمی مستقبل کی طرف تھی اور ان میں اپنے عہد کا سماجی شعور بھی موجود تھا۔ ان زاویوں سے دیکھیے تو حلقہ اربابِ ذوق کی تخلیقی جہت نیم کلاسیکی اور نیم رومانی ہے اور یہ اتنی لچک دار ہے کہ اس میں مختلف نظریات باآسانی سما جاتے ہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق تاحال ایک زندہ تحریک ہے اس کی تقسیم نے اس کے مرکزی کردار مزاج اور تخلیقی رفتار کو متاثر کیا ہے۔ تاہم ایک مضبوط پلیٹ فارم کی موجوگی نے اس کی عملی زندگی کو ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ ابھی یہ فیصلے کرنا ممکن نہیں کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔
بقولاحمد ندیم قاسمی
” حلقہ ارباب ذوق آغاز میں تو صرف ایک شہر اوروہاں کے چند اہل فہم تک محدود تھا ۔ مگر آہستہ آہستہ اس نے ایک ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لی۔“
بقول ڈاکٹر تاثیر :
”حلقہ اربابِ ذوق نے برسوں مسلسل انتھک کام سے ثابت کر دیا ہے کہ ادبی دائرہ میں ادبی اقدار کا احترام یہیں کیا جاتا ہے۔“
بقول قیوم نظر:
” ابتداءمیں اس انجمن کی روش عام ادبی انجمنوں کی سی تھی لیکن جب اس میں باقاعدہ ”نقد و نظر“ کا آغاز ہوا اور تنقید کے جدید اصول حلقے کی ادبی محفلوں کے سامعین کے سامنے آئے تو حلقہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرنے لگا۔“


Reply With Quote
The Following User Says Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Monday, April 16, 2012)
  #15  
Old Tuesday, April 10, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default jadidiyat

جدیدیت کی تحریک یا رحجان

(Modernism)
بیسویں صدی کی تیسری دہائی میں جب کہ ترقی پسند تحریک اپنے عروج پر تھی ، اس کے محاذی ایک اور تحریک پروان چڑھی ۔ اس کا نام توخیر بہت بعد میں '' جدیدیت '' یعنی (Modernism) پڑا ۔ لیکن ترقی پسندی کی مخالفت میں لاہور کے ''حلقہ ئ ارباب ِ ذوق '' والے اس میں پیش پیش تھے ۔

حلقہ ئ اربابِ ذوق میں ... میرا جی ، ن.م.راشد ، مختار صدیقی ، تصدق حسین خالد ، قیوم نظر وغیرہ شامل تھے ۔ اُن شعراء / ادباء کا یہ نظریہ تھا کہ ... ادب کو کسی نظریے کا پابند نہیں ہونا چاہئے ، بلکہ انکشافِ ذات اور اپنی داخلی کیفیات کے اظہار کو نمایاں کرنا چاہئے۔
یہ لوگ علامت پسندی اور اشاریت پسندی کے قائل تھے ۔ جب تک ترقی پسندوں کا بول بالا تھا ، یہ تحریک پروان نہیں چڑھی ۔ لیکن 1960ء سے اِس رحجان کا احیاء (Revival) ہوا ۔ شمس الرحمٰن فاروقی (مدیر ، ماہنامہ ''شب خون '' الہ آباد) نے اِس رحجان کو ''جدیدیت '' کا نام دیا ۔
ایک لحاظ سے یہ تحریک یا رحجان ، ترقی پسندوں کے ردّ عمل کا نتیجہ تھا ۔ بہت سے ترقی پسند ادیب و شاعر بھی منحرف ہو کر '' جدیدیت'' سے وابستہ ہو گئے ۔
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Tuesday, April 10, 2012)
  #16  
Old Saturday, April 14, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default anjuman taraqi e Urdu

انجمن ترقی اردو


جنوری 1902ء میں آل انڈیا محمڈن ایجوکیشن کانفرنس علی گڑھ کےتحت ایک علمی شعبہ قائم کیاگیا ۔ جس کانام انجمن ترقی اردو تھا۔ مولانا شبلی نعمانی اس کے سیکرٹری رہےتھے۔ 1905ء میں نواب حبیب الرحمن خان شیروانی اور 1909ء میں عزیز مرزا اس عہدے پر فائز ہوئے۔ عزیز مرزا کے بعد 1912ء میں مولوی عبدالحق سیکرٹری منتخب ہوئے۔ مولوی صاحب اورنگ آباد (دکن ) میں ملازم تھے وہ انجمن کو اپنے ساتھ لے گئے اور اس طرھ حیدر آباد دکن اس کا مرکز بن گیا۔ انجمن کے زیر اہتمام لاکھ سے زائد جدیدعلمی ، فنی اور سائنسی اصطلاحات کا اردو ترجمہ کیاگیا۔ نیز اردو کے نادر نسخے تلاش کرکے چھاپے گئے۔ دوسہ ماہی رسائل، اردو اور سائنس جاری کیے گئے ۔ایک عظیم الشان کتب خانہ قائم کیاگیا۔ حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی انجمن ہی کی کوششوں کی مرہون منت ہے۔ اس یونیورسٹی میں ذریعہ تعلیم اردو تھا۔ انجمن نے ایک دارالترجمہ بھی قائم کیا جہاں سینکڑوں علمی کتابیں تصنیف و ترجمہ ہوئیں۔
1936ء میں انجمن کو دلی منتقل کرنے کا فیصلہ ہوا۔ اور 1938ء میں انجمن مع مولوی عبدالحق دلی آگئی۔ تقسیم ہند کے ہنگاموں میں انجمن کے کتب خانے کی بیشتر کتابیں ضائع ہوگئیں۔ مولوی صاحب کراچی آگئے اور اکتوبر 1948ء سے انجمن کا مرکز کراچی بن گیا۔ سر شیخ عبدالقادر انجمن کے صدر اور مولوی صاحب سیکرٹری تھے۔ 1950ء میں*مولوی صاحب صدر منتخب ہوئے۔ 1949ء میں انجمن نے اردو کالج قائم کیا۔ جہاں ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ مولوی صاحب کے انتقال (1961) کے بعد جناب اختر حسین صدر اور جمیل الدین عالی اعزازی سیکرٹری بنائےگئے۔ انجمن کی شاخیں پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں قائم ہیں۔ ہندوستان میں بھی یہ ابھی تک زندہ ہے

ہندی اردو تنازع اور انجمن

برطانوی اقتدار قائم ہونے کے بعد برصغیر کے بیشتر کھلے طور پر متعصب اور بعض متعصب نہ ظاہر ہونے والے ہندو رہنماؤں نے اس بات پر پورا زور صرف کیا تھا کہ دیوناگری رسم الخط الفاظ اور ہندی زبان کو سرکاری حیثیت حاصل ہو جائے اور ہندی کو برّصغیر کی واحد مشترک زبان تسلیم کرلیا جائے۔ ”اردو کو جو قرآنی حروف میں لکھی جاتی ہے۔“ یک قلم خارج کردیا جائے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے بااثر عناصر اور دوسری ہندو جماعتوں نے ہندی کو رواج دینے کی بڑی کوشش کی اور اس سلسلے میں بڑی پیچیدہ، چالاک سیاست سے کام لیا لیکن انجمن اور بابائے اردو کی اَن تھک محنت، حوصلے اور مقابلے کی وجہ سے انھیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ انجمن نے ہندی اردو تنازعے میں اردو زبان کی سلامتی اور تحفّظ کے لیے بڑی گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔ انجمن کے یہ کارنامے تحریکِ پاکستان اور قومی تاریخ کا اہم حصّہ ہیں۔
اردو زبان کی ترویج و اشاعت۔ مخالفتوں اور مشکلات کا دَور

انجمن نے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت جنوبی ایشیا کے اُن علاقوں میں جہاں اردو کا رواج برائے نام تھا، اردو کو رواج دیا۔ اس مقصد کے لیے اسکول اور شبینہ مدارس قائم کیے، تعلیم بالغان کا انتظام کیا، چھوٹا ناگپور کے علاقے میں جو مراکز قائم کیے گئے تھے انھیں بڑی کامیابی ہوئی۔ جن علاقوں کے اسکولوں میں اردو اساتذہ کی کمی تھی وہاں انجمن نے اردو اساتذہ کے تقرّر کا بندوبست کیا، درسی کتابیں شائع کیں، ناقص درسی کتابوں کی درستی کے لیے بھرپور جدّوجہد کی۔ بابائے اردو نے سارے ملک کے متعدد دورے کیے۔ انجمن کے معاونوں اور حامیانِ اردو کا ایک بہت بڑا حلقہ مرتّب کیا جس میں ملک کے تمام مقتدر اہلِ علم شامل تھے۔ بے شمار رضاکاروں نے شہر شہر قریہ قریہ شاخیں اور ذیلی شاخیں کھولیں، باقاعدگی اور تواتر کے ساتھ بڑے چھوٹے مذاکرے، جلسے اور منصوبے منعقد و مرتّب ہونے لگے.
اصطلاحاتِ علمیہ اور انگریزی اردو ڈکشنری

اردو زبان کو ہر سطح پر ذریعہ تعلیم بنانے اور علوم و فنون کے جدید سرمائے کو اردو زبان میں منتقل کرنے کے لیے انجمن نے اصطلاحاتِ علمیہ کے ترجموں کا کام کیا اور ترجموں میں سہولت پیدا کرنے کی غرض سے ایک’ اسٹینڈرڈ انگریزی اردو ڈکشنری‘ مرتّب کی۔ یہ کام بابائے اردو کی سرکردگی میں ماہرین کی ایک جماعت نے انجام دیا۔ انجمن کی یہ ڈکشنری اب تک متعدد بار شائع ہوچکی ہے۔ بعض علوم کی اصطلاحات کی فرہنگیں علاحدہ سے بھی شائع کی گئیں۔ انجمن کے اس کام سے اصطلاحات کے ترجموں کی طرف توجہ عام ہوئی۔ اسی ذخیرے سے اسّی ہزار اصطلاحات اردو بورڈ (اب اردو سائنس بورڈ لاہور) کو ہدیہ کی گئیں جو اس کے منصوبے میں شامل ہیں۔
علمی و ادبی کتابوں کے تراجم

انجمن نے دنیا کی اہم علمی اور ادبی کتابوں کو اردو میں منتقل کرنے کے لیے ایک مرحلہ وار پروگرام کے تحت کام شروع کیا اور ایسی بے شمار کتابوں کے ترجمے شائع کیے۔ جنھیں اُمہات الکتب میں شمار کیا جاتا ہے۔


انجمن کے رسائل


انجمن نے ۱۹۲۱ء میں جنوبی ایشیا کا وقیع سہ ماہی ”اردو“ ، ۱۹۲۸ء میں رسالہ ”سائنس“ اور ۱۹۳۹ء میں اخبار ”ہماری زبان“ جاری کیا۔ اردو کا مقصد و منشا اردو ادب،اور اعلیٰ تحقیق کو فروغ دینا تھا۔ ”سائنس“ کے ذریعے سے اردو میں جدید دَور کے سائنسی افکار کی اشاعت ہوئی۔ ”ہماری زبان“ ”اردو زبان“ کے بارے میں تازہ ترین خبروں کا مجموعہ ہوتا تھا۔
املا کے قاعدے

انجمن نے اعراب، اوقاف اور املا کے قواعد مرتّب کیے اور اصلاحِ زبان کی کوشش کی۔ یہ ایک بڑا اہم اور کامیاب ترجمان ثابت ہوا۔
قدیم کتابوں کی اشاعت

انجمن نے اردو کی قدیم کتابوں کو جو مخطوطوں کی شکل میں مختلف افراد کے ذاتی اور عام کتب خانوں میں بکھری ہوئی تھیں مرتّب کرکے شائع کیا اور ان پر مستند اہلِ علم سے مقدمے لکھوائے۔ دکن کے قدیم اردو ادیبوں اور شاعروں کو منظرعام پر لانا انجمن کا بہت بڑا عملی کارنامہ ہے۔
شعرائے اردو کے تذکروں کی اشاعت

انجمن نے شعرائے اردو کے قدیم تذکروں کو جنھیں اردو کی ادبی تاریخ کے ابتدائی نقوش کی حیثیت حاصل ہے بڑی کوشش اور تلاش سے شائع کیا اور اردو کی ادبی تاریخ کو مکمل کیا۔
اردو زبان کے سلسلے میں انجمن کی تندہی

انجمن نے اردو کے خلاف اُٹھنے والی ہر تحریک کا پامردی سے مقابلہ کیا اور مخالفین اردو کے عزائم کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔ مسلمانوں میں قومی یک جہتی بذریعہ اردو کی طویل کامیاب تحریک تاریخ کے ریکارڈ پر ہے۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی کتاب ”اُردو قومی یکجہتی اور پاکستان“ اسی موضوع پر، پوری کہانی سناتی ہے


۱۹۳۸ء میں انجمن کا دفتر اورنگ آباد سے دلّی منتقل ہوگیا مگر ۱۹۴۷ء کے فسادات میں انجمن کا سارا اثاثہ برباد ہوگیا۔ عمارت پر ایک بیمہ کمپنی نے قبضہ کرلیا۔ انجمن کا نادر اور قیمتی کتب خانہ لُٹ گیا۔ مطبوعات ردّی میں فروخت کردی گئیں اور کام کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی گئی۔ دلّی میں انجمن کی تباہی اور بربادی کے بعد بابائے اردو کراچی چلے آئے۔ یہاں ازسرِنو انجمن کے کاموں کا آغاز ہوا۔ بے سروسامانی کے باوجود انجمن نے پاکستان میں نئے عزم اور حوصلے سے کام شروع کیا۔ مشہور ادیب اور ادیب گر سر شیخ عبدالقادر صدر منتخب ہوئے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو انجمن کے افتتاح کی دعوت دی گئی۔ قائد اعظم نے یہ دعوت منظور کرلی اور لکھا کہ میں اپریل کے بعد کسی دن بخوشی انجمن کا افتتاح کروں گا لیکن اُن کی مصروفیت اور پھر وفات کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہوسکا۔ شہید ملّت نوابزادہ لیاقت علی خاں، سردار عبدالرّب نشتراور دوسرے اکابرین وقت نے انجمن سے تعلق جاری رکھا... سر شیخ عبدالقادر بھی جلد ہی انتقال فرماگئے۔ اب بابائے اردو انجمن کے صدر منتخب ہوئے اور اپنی وفات تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔ بابائے اردو کے بعد اختر حسین نے صدارت کی ذمے داری قبول کی اور اپنی وفات تک صدر رہے اُن کے بعد قدرت اللہ شہاب صدر منتخب ہوئے، اُن کے انتقال کے بعد جناب نورالحسن جعفری انجمن کے صدررہے اور ان کے انتقال کے بعدجناب آفتاب احمد خان انجمن کے صدر ہیں اور خدمات انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں انجمن کے معتمدین میں بھی بڑے نام شامل ہیں۔ ڈاکٹر محمود حسین، ڈاکٹر معین الحق! جمیل الدّین عالی بابائے اردو کی حیات ہی میں رکن منتظمہ تھے۔ ان کے انتقال کے بعد معتمدِاعزازی مقرر ہوئے۔ وہ یہ خدمت تاحال اعزازی طور پر انجام دے رہے ہیں۔
Source: Wikipedia
Reply With Quote
  #17  
Old Monday, April 16, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

دبستان دہلی


اورنگزیب کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا معظم تخت نشین ہوا لیکن اس کے بعد معظم کے بیٹے معز الدین نے اپنے بھائی کو شکست دے کر حکومت بنائی۔ معز الدین کے بھتیجے ”فرخ سیر “ نے سید بردران کی مدد سے حکومت حاصل کی لیکن سید بردران نے فرخ سیر کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اس طرح 1707ءسے لے کر 1819ءتک دہلی کی تخت پر کئی بادشاہ تبدیل ہوئے۔ محمد شاہ رنگیلا عیاشی کے دور میں نادرشاہ درانی نے دہلی پر حملہ کردیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ۔ پھر احمد شاہ ابدالی کے حملے نے مزید کسر بھی پوری کر دی ۔ دوسری طرف مرہٹے ، جاٹ اور روہیلے آئے دن دہلی پر حملہ آور ہوتے اور قتل عام کرتے اس دور میں کئی بادشاہ بدلے اور مغل سلطنت محدود ہوتے ہوتے صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی ۔اور آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے معزول کر کے رنگوں بھیج دیا۔ یہ تھی دہلی کی مختصر تاریخ جس میں ہماری اردو شاعری پروان چڑھی ۔ یہ ایک ایسا پرآشوب دور تھا جس میں ہر طرف بدنظمی ، انتشاراور پستی کا دور دورہ تھا۔ ملک میں ہر طرف بے چینی تھی۔

خصوصیات

زبان میں فارسیت:۔

دبستا ن دہلی کے شعراءکے ہاں فارسیت کا بہت غلبہ تھا کیونکہ شعرائے دہلی فارسی کی شعری روایت سے متاثر تھے اور ان پر فارسی شعراءکا گہرا اثر تھا۔ ایران سے جو شعراءآتے تھے ان میں سے اکثر یہاں ہی رہ جاتے تھے۔ چنانچہ ، خسرو ، حسن ، عرفی ،نظیری ، طالب ، صائب اور بیدل وغیرہ مختلف ادوار میں یہاں رہے۔ اس کے علاوہ یہاں فارسی شعراءکی زبا ن تھی ۔ نیز یہاں کے شعرا ءاردو اور فارسی زبانوں میں دسترس رکھتے تھے۔ اس کا نتیجہ یہ ہو ا کہ فارسی اسالیب و موضوعات وغیر ہ دہلی کے دبستان شاعری میں شامل ہو گئے۔ اس طرح بہت سے شعراء نے فارسی شعراءسعدی ، وحافظ کا ترجمہ کیا۔ اور خزانہ اردو کو مالا مال کیا۔ اس طرح دبستان دہلی کی شاعری میں فارسیت کا غلبہ ہے۔


جذبات عشق کا اظہار:۔

ٍ دبستان دہلی کے شعراءکے ہاں جذبات و احساسات کے اظہار پر زیادہ زور ہے۔ دبستان دہلی کے شعراءنے عشق کے جذبے کو اولیت دی ۔ بقول ڈاکٹر نور الحسن شعرائے دہلی کو اس بات کی پروا نہیں تھی کہ ان کا اسلوب بیان اور طرز ادا خوب تر ہو بلکہ ان کی کوشش تھی کہ شاعری میں جذبات و احساس کا اظہار ہو جائے ۔ اس لئے بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا شاعر کو عشق سے عشق ہو گیا ہے۔ دہلی کے کچھ شعراءعشق مجازی سے گزر کر عشق حقیقی سے سرشار ہوئے ۔ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے لو لگائی اور فیضان عشق کی بدولت ان میں ایسی بصیرت پیدا ہوئی کہ وہ تمام بنی نوع انسان سے محبت کرنے لگے ۔ جبکہ کچھ لوگ عشق مجازی کی منزل پر رک گئے۔ چنانچہ ان کی شاعر ی میں محبت کا سوز اور تڑ پ موجود ہے۔ جبکہ کچھ لوگ نفس پر قابو نہ پا سکے اور وہ ابولہوسی میں مبتلا ہو کر رہ گئے۔ چنانچہ دہلی میں عشق کے یہ تینوں مدارج موجود ہیں۔مثلاً درد جیسے شاعروں نے صوفی شاعری کی اور عشق حقیقی کو اپنی شاعر ی کا موضوع بنایا ۔

قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے


جب وہ جمال دلفروز صورت مہر نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز پردے میں منہ چھپائے کیوں

عشق مجازی:۔

عشق کا دوسرا انداز جو دہلی میں بہت مقبول ہوا اس میں عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی کے جذبات بھی شامل ہوگئے ۔ یہ رنگ میرتقی میر نے بہت خوبی سے نبھایا ۔ ان کے جذبہ عشق میں وہ خلوص اور گہرائی تھی جس نے ان کی شاعری کوحیات جاوداں عطا کی۔ عشق کا یہ تیکھا انداز دبستان دہلی سے مخصوص ہے۔ عشق مجازی کے چند اشعار ملاحظہ ہوں ۔ جن میں دہلی کے تمام شعراءنے بڑی خوبصورتی سے ان جذبات کو شاعری کا روپ دیا ہے۔
پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
حزن و یاس :۔

دبستان دہلی کی شاعری کی ایک اور نمایاں خصوصیت رنج و الم اور حزن و یاس کا بیان ہے۔ دبستان دہلی کی شاعری کا اگر بحیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ دبستان دہلی کی شاعری میں یاس و ناامیدی کے جذبات بکثرت موجود ہیں۔ شاعرخواہ کسی موضوع پر بات کرے رنج و الم کا ذکرضرور آجاتا ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس سارے دور میں کسی کو اطمینان و سکون نصیب نہ تھا۔ زندگی ایک خواب پریشاں بن کر رہ گئی تھی۔ ہر طرف نفسانفسی کا عالم تھا۔ کسی شے کو ثبات نہ تھا۔ ان حالات کا شاعری پر بھی گہرا عکس نظرآتا ہے۔ خارج میں تباہی و بربادی پھیلی ہوئی تھی اور تباہی و بربادی کے تاریک سائے شاعری میں بھی راہ پاتے ہیں۔ چنانچہ فنا کا احساس بہت تیز ہے۔ اس کے ساتھ اجڑے ہوئے شہر ، لٹے ہوئے نگر اور ویران گزر گاہیں جا بجا موجود ہیں۔ خصوصاً میر و سودا کے دور میں زندگی کی ناپائیداری کا احساس بہت شدت سے اظہار کی راہ پاتا ہے۔ چنانچہ حزن و یاس کے چند شعر ملاحظہ ہوں:
کہا میں نے کتنا ہے گل کا ثبات
کلی نے یہ سن کر تبسم کیا
دل کی ویرانی کا کیا مذکور
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا


اس حزن و یاس کی فضاءکے بارے میں نیاز فتح پوری لکھتے ہیں کہ

” ظاہر ہے دہلی کی شاعری یک سر جذبات کی زبان و گفتگو ہے اور جذبات بھی وہی ہیں جن کا تعلق زیادہ تر حرماں و مہجوری و ناکامی سے ہے۔“
تصوف:۔

واردات قلبی کے اظہار کے بعد دبستان دہلی کے شعراءکا دوسرا محبوب ترین موضوع تصوف ہے۔ چونکہ ابتداءمیں اردو شاعری پر فارسی شاعری کی شعری روایت کا بہت زیادہ غلبہ رہا ہے جس کی وجہ سے اردو شعراءنے غیرشعوری طور پر فارسی شاعری کے اسالیب، سانچے ، اور موضوعات قبول کر لئے۔ دوسری طرف اس موضوع کو اس لئے بھی مقبولیت ملی کہ کہ تصوف میں بھی قناعت ، صبر و توکل اور نفی ذات کے نظریات نے زیادہ زور پکڑا کیونکہ اس زمانے کے حالات ہی ایسے تھے جن کی بناءپر لوگ ترک دنیا کی طرف مائل ہو رہتے تھے ۔ اس زمانے میں یہ خیال عام تھا کہ تصوف برائے شعر گفتن خوب است
ان میں کچھ تو صوفی شعراءتھے لیکن زیادہ تر شعراءنے محض رسمی طور پر تصوف کے مضامین کو نظم کیا۔ چنانچہ ذوق اور غالب کے زمانے تک تقریباً ہر شاعر کے کلام میں تصوف کے مضامین نظرآتے ہیں۔ تصوف کی مقبولیت کا دوسرا سبب یہ تصورات و اقدار تھے جو ہندوستان کی فضاءمیں رچے بسے ہوئے تھے ۔ جن کی بدولت انہوں نے تصوف کو موضوع بنایا۔
مسافر اٹھ تجھے چلنا ہے جانب منزل
بجے ہیں کوچ کا ہر دم نقارہ شاہ حاتم

اسے کو ن دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

رمزیت اور اشاریت:۔

تصوف کی بدولت اردو شاعری میں بڑی وسعت پیدا ہوئی چنانچہ بقول ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی ،
” دہلی میں تصوف کی تعلیم اور درویشی کی روایت نے خیالات میں بلندی اور گہرائی پیدا کی اور اسلوب میں متانت و سنجیدگی کو برقرار رکھا۔ تصوف کے روایات نے شاعری کو ایک اخلاقی لب و لہجہ دیا اور ابتذال سے دور رکھا۔ “
مسائل تصوف نے اردو غزل کو رمز و کنایہ کی زبان دی، پیر مغاں ، گل ، بلبل ، چمن ، شمع ، پروانہ ، میکدہ ، اسی طرح کی اور بہت سی علامتیں تصوف کے راستے اردو شاعری میں داخل ہوئیں ۔ تصوف نے اردو شاعری کو فکری پہلو بھی دیا اور استغنا کا درس دے کر دربارداری سے الگ رکھا۔ مزاجوں میں خوداری اور بے نیازی پیدا کی ۔ تصوف کی بدولت اردو شاعری میں جو رمزیت اور اشاریت آئی اس سے شعراءنے بہت فائدہ اٹھایا اور چند لفظوں میں معنی کی دنیائیں آباد کیں۔ ذیل کے اشعار دیکھئے کہ پردوں میں کتنے جہاں آباد دکھائی دیتے ہیں۔
ساقی ہے اک تبسم گل ، فرصت بہار
ظالم بھرے ہے جام تو جلدی سے بھر کہیں
دام ہر موج میں ہے حلقہ صد کام نہنگ
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے کو گہر ہونے تک

داخلیت:۔

دبستان دہلی کی شاعری کا ایک اور نمایاں پہلو داخلیت ہے۔ داخلیت سے مراد یہ ہے کہ شاعر باہر کی دنیا سے غرض نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنے دل کی واردات کا اظہار کرتا ہے۔ اگر باہر کی دنیا کے متعلق کچھ کہتا ہے تو اُسے بھی شدید داخلیت میں ڈبو کر پیش کرتا ہے۔ یہ داخلیت دہلی کے ہر شاعر کے یہاں ملتی ہے۔ لیکن اس سے یہ نہ سمجھ لیں کہ شعرائے دہلی کے ہاں خارجیت بالکل نہیں ہے۔ خارجیت بھی ہے۔ لیکن داخلیت میں واردات قلبی یعنی عشق و محبت کے مضامین اور ان مصائب کا بیان شعرائے دہلی نے نہایت خوش اسلوبی سے کیاہے۔
پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے
عشق سے طبیعت نے زیست کا مزہ پایا
درد کی دوا پائی درد لا دوا پایا

واقعیت و صداقت:۔

دبستان دہلی کی ایک خصوصیت واقعیت و صداقت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان شعراءکے ہاں مبالغہ وغیرہ کم ہے۔ ان شعراءنے مبالغہ سے زیادہ کام نہیں لیا اگرچہ مبالغہ کا استعمال شاعری میں برا نہیں ہے لیکن جس بھی کسی چیز کا استعمال حد سے تجاوز کر جائے تو پھر اُسے مناسب و موزوں نہیں سمجھا جاتا ۔ اسی طرح حد سے زیادہ مبالغہ شاعری کو مضحکہ خیز بنا دیتا ہے۔ شعراءدہلی کے ہاں اعتدال پایا جاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ صداقت کے اظہار کے لئے پر تکلف زبان کو بھی موزوں سمجھا جاتا ہے۔
ہر گھڑی کان میں و ہ کہتا ہے
کوئی اس بات سے آگاہ نہ ہو
سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مذہب عشق اختیار کیا

لائی حیات آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے

سادگی:۔

شعرائے دہلی کے ہاں زبان میں بھی سادگی ، صفائی اور شستگی پائی جاتی ہے۔ شعرائے دہلی نے جس طرح مضامین میں واقعیت و صداقت کو مدنظر رکھا ہے۔ اسی طرح زبان بھی سادہ اور عام فہم استعمال کی ہے۔ اگرچہ ان شعراءنے صنعتوں کا استعمال کیا ہے لیکن وہ صنعت برائے صنعت کے لئے نہیں ہے۔ اس کے بجائے ان شعراءنے معنوی حسن کی طرف زیادہ توجہ دی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں تشبیہ اور استعارے کا استعمال حد سے آگے نہیں بڑھتا۔
میراُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے

اختصار:۔

شعرائے دہلی کے کلام میں جہاں زبان میں سلاست و روانی کا عنصر نمایاں ہے وہاں اختصار بھی ہے۔ اس دور میں دوسری اصناف کے مقابلے میں غزل سب سے زیادہ نمایاں رہی ہے۔ اور غزل کی شاعری اختصار کی متقاضی ہوتی ہے۔ اس میں نظم کی طرح تفصیل نہیں ہوتی بلکہ بات اشاروں کنایوں میں کی جاتی ہے۔ اس لئے ان شعراءکے ہاں اختصار ملتا ہے۔ نیز غزل کا مخصوص ایمائی رنگ بھی موجود ہے۔ یہاں کے شعراءاپنے دلی جذبات و احساسات کو جو ں کا توں بڑی فنکاری سے پردے ہی پردے میں پیش کر دیتے ہیں۔ اسی با ت کا ذکر کرتے ہوئے محمد حسن آزاد لکھتے ہیں کہ : ان بزرگوں کے کلام میں تکلف نہیں جو کچھ سامنے آنکھوں کے دیکھتے ہیں اور اس سے خیالات دل پر گزرتے ہیں وہی زبان سے کہہ دیتے ہیں۔ اس واسطے اشعار صاف اور بے تکلف ہیں۔ “
ہم نشیں ذکر یار کر کچھ آج
اس حکایت سے جی بہلتا ہے

دل مجھے اس گلی میں لے جا کر
اور بھی خاک میں ملا لایا بے

مجموعی جائزہ:۔

دہلویت کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر نور الحسن ہاشمی لکھے ہیں کہ” دہلویت کا ایک خاص افتاد ذہنی یا مزاج شعری کا نام نہیں ہے جس کا اظہار مخصوص تمدن و شہری اثرات کی وجہ سے ہوا۔ دہلی کا شاعر غم ِ روزگار کا ستایا ہوا غم عشق کا مارا ہواہے۔ اسی لئے اس کے کلام میں دونوں کی کسک اور کھٹک پائی جاتی ہے۔ سیاسی حالات نے اسے قنوطی بنایا، تصوف نے اس میں روحانیت پیدا کی اور اس کے ساتھ ساتھ ایک اخلاقی نصب العین اور تصور عطا کیا ۔ اسی نے اس کی آنکھیں اندر کی طرف کھولیں۔
“
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Monday, April 16, 2012)
  #18  
Old Monday, April 16, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default dabistan lakhnau

دبستان لکھنو


لکھنویت سے مراد شعرو ادب میں وہ رنگ ہے جو لکھنو کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا۔ اور اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو شاعری اور دہلوی شاعری سے مختلف ہے۔ جب لکھنو مرجع اہل دانش و حکمت بنا تو اس سے پہلے علم وادب کے دو بڑے مرکز شہرت حاصل کر چکے تھے۔ اور وہ دکن اور دہلی تھے۔ لیکن جب دہلی کا سہاگ لٹا ۔ دہلی میں قتل و غارت گری کا بازار گر م ہوا تو دہلی کے اہل علم فضل نے دہلی کی گلیوں کو چھوڑنا شروع کیا جس کی وجہ سے فیض آباد اور لکھنو میں علم و ادب کی محفلوں نے فروغ پایا۔



پس منظر:۔

سال1707 اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اُن کے جانشین اپنے تخت کے لئے خود لڑنے لگے ۔ ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے مرکز مزید کمزور ہوا۔ اور باقی کسر مرہٹوں ، جاٹوں اور نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے پوری کر دی۔
سال1722ءمیں بادشاہ دہلی نے سعادت علی خان کو اودھ کا صوبیدار مقر ر کیا ۔ مرکز کی کمزوری سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے جلد ہی سعادت علی خان نے خود مختاری حاصل کر لی۔ اور اودھ کی خوشحالی کے لئے بھر پور جدوجہد کی جس کی بنا پر اودھ میں مال و دولت کی فروانی ہوئی ۔
صفدر جنگ اور شجاع الدولہ نے اودھ کی آمدنی میں مزید اضافہ کیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کوششیں کیں ۔ آصف الدولہ نے مزید اس کام کو آگے بڑھایا۔ لیکن دوسری طرف دہلی میں حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ امن و سکون ختم ہو گیا۔ تو وہاں کے ادباءو شعراءنے دہلی چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اور بہت سے شاعر لکھنو میں جا کر آبا د ہوئے۔ جن میں میرتقی میر بھی شامل تھے۔
دولت کی فروانی ، امن و امان اور سلطنت کے استحکام کی وجہ سے اودھ کے حکمران عیش و نشاط اور رنگ رلیوں کے دلدادہ ہوگئے ۔ شجاع الدولہ کو عورتوں سے خصوصی رغبت تھی جس کی بناءپر اس نے محل میں بے شمار عورتوں کو داخل کیا۔ حکمرانوں کی پیروی امراءنے بھی کی اور وہ بھی اسی رنگ میں رنگتے گئے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بازاری عورتیں ہر گلی کوچے میں پھیل گئیں۔ غازی الدین حیدر اور نصیر اور نصیر الدین حیدر نے آبائو اجداد کی پیروی جاری رکھی اور واجد علی شاہ نے تو اس میدان میں سب کو مات دے دی۔
سلاطین کی عیش پسندی اور پست مذاقی نے طوائف کو معاشرے کا اہم جز بنا دیا۔ طوائفوں کے کوٹھے تہذیب و معاشرت کے نمونے قرار پائے جہاں بچوں کو شائستگی اور آداب محفل سکھانے کے لئے بھیجا جانے لگا۔

شعرو ادب پر اثرات:۔

عیش و نشاط ، امن و امان اور شان و شوکت کے اس ماحول میں فنون نے بہت ترقی کی۔ راگ رنگ اور رقص و سرور کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ دہلی کی بدامنی اور انتشار پر اہل علم و فن اودھ اورخاص کر لکھنو میں اکھٹا ہونا شروع ہوگئے۔ یوں شاعری کا مرکز دہلی کے بجائے لکھنو میں قائم ہوا۔ دربار کی سرپرستی نے شاعری کا ایک عام ماحول پیدا کر دیا۔ جس کی وجہ سے شعر و شاعری کا چرچا اتنا پھیلا کہ جابجا مشاعرے ہونے لگے ۔ امرا ءروساءاور عوام سب مشاعروں کے دیوانے تھے۔ابتداءمیں شعرائے دہلی کے اثر کی وجہ سے زبان کا اثر نمایاں رہا لیکن، آہستہ آہستہ اس میں کمی آنے لگی ۔ مصحفی اور انشاءکے عہد تک تو دہلی کی داخلیت اور جذبات نگاری اور لکھنو کی خارجیت اور رعایت لفظی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ لکھنو کی اپنی خاص زبان اور لب و لہجہ بھی نمایاں ہوتا گیا۔ اور یوں ایک نئے دبستان کی بنیاد پڑی جس نے اردو ادب کی تاریخ میں دبستان لکھنو کے نام سے ایک مستقل باب کی حیثیت اختیار کر لی۔
خصوصیات:۔

اکثر و بیشتر نقادوں نے دبستان لکھنوکی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دلی کے مقابلے میں لکھنو کی شاعر ی میںخارجیت کا عنصر نمایاں ہے۔ واردات قلبی اور جذبات و احساسات کی ترجمانی اور بیان کے بجائے شعرائے لکھنوکا زیادہ زور محبوب کے لوازم ظاہری اور متعلقات خارجی کے بیان پر ہے۔ دوسری بات یہ کہ لکھنوی شاعری کا دوسرا اہم عنصر نسائیت ہے۔ اس کے علاوہ معاملہ بندی، رعائیت لفظی ، صنعت گری اور تکلفات پر زیادہ زور ہے ذیل میں ہم اس کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔


خارجیت اور بیروں بینی:۔

دلی کی شاعری کے مقابلے میں لکھنو کی شاعری فکر اور فلسفے سے بالکل خالی ہے۔ نتیجتاً اس میں گہرائی مفقود ہے۔ اور ظاہرداری پر زور ہے۔ دروں بینی موجود نہیں۔ سوز و گداز کی شدید کمی ہے۔ خارجیت اور بیروں بینی کے مختلف مظاہر البتہ نمایاں ہیں لکھنو کی شاعری میں واردات قلبی کے بجائے سراپا نگاری پر زور ہے۔ ان کی شعری خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے سید وقار عظیم لکھتے ہیں،
” لکھنویت تکلف اور تصنع کا دوسرا نام ہے۔ جہاں شاعر محسوسات اور واردات کی سچی دنیا کو چھوڑ کر خیال کی بنی ہوئی رنگین فکر کی پیدا کی ہوئی پر پیج راہوں پر چل کر خوش ہوتا ہے۔
اس کاسبب یہ بتایا گیا ہے۔ کہ لکھنو کی ساری زندگی میں ظاہر پر اس قدر زور تھا کہ شعراءکو دروں بینی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ ان کی نظروں کے سامنے اتنے مناظر تھے کہ ان کے دیکھنے سے انہیں فرصت ہی نہیں ملی تھی۔
ایسے میں دل کی کھڑی کھول کرمیر کی طرح اپنی ذات کے اندر کون جھانکتا۔ جب انھوں عیش و عشرت اور آرائش و زیبائش کی محفلوں سے فرصت نہیں تھی
مضمون آفرینی:۔

دبستان لکھنو کی شاعری کی دوسری نمایاں خصوصیت مضمون آفرینی ہے۔ مضمون آفرینی کا مطلب یہ ہے کہ شاعر روایتی مضامین میں سے نئے مبالغہ آمیز اور عجیب و غریب پہلو تلا ش کر لیتا ہے۔ ایسے مضامین کی بنیاد جذبے کے بجائے تخیل یا واہمے پر ہوتی ہے۔ شعراءلکھنو نے اس میدا ن میں بھی اپنی مہارت اور کمال دکھانے کا بھر پور مظاہر ہ کیا ہے۔ اس کی چند مثالیں مندرجہ زیل ہیں۔
گلبرگ تر سمجھ کے لگا بیٹھی ایک چونچ
بلبل ہمارے زخم جگر کے کھرنڈ پر

معاملہ بندی:۔

سراپا نگاری اور مضمون آفرینی کے علاوہ دبستان لکھنو کی شاعری کی ایک اور خصوصیت جس کی نشان دہی نقادوں نے کی ہے وہ معاملہ بندی ہے۔ چونکہ دلی کی تباہی کے وقت لکھنو پر امن تھا۔ دولت کی ریل پیل تھی۔ لوگ خوشحال اور فارغ البال تھے۔ بادشاہ وقت امراء، وزراءاور عوام الناس تک سب عیش و عشرت میں مبتلا تھے۔ خصوصاً طوائف کو اس ماحول میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ چنانچہ ماحول کے اثرات شاعری پر بھی پڑے جس کی وجہ سے بقول ڈاکٹر ابوللیث صدیقی جذبات کی پاکیزگی اور بیان کی متانت جو دہلوی شاعری کا امتیازی نشان تھی یہاں عنقا ہوگئی۔ اس کی جگہ ایک نئے فن نے لے لی جس کا نام معاملہ بندی ہے۔ جس میں عاشق اور معشوق کے درمیان پیش آنے والے واقعات پردہ دروں، کو کھول کر بیان کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ایسے اشعار خال خال دہلوی شعراءکے ہاں بھی موجود ہیں اور یہ بات بھی درست ہے کہ اس فن میں جرات پیش پیش تھے جو دلی سے آئے تھے۔ لیکن لکھنو کا ماحول ان کو بہت راس آیا۔ چنانچہ ان کے ساتھ لکھنو کے دیگر شعراءنے جی بھر کر اپنے پست جذبات کو نظم کیا۔ ان کی گل افشانی کے چند نمونے ملاحظہ ہوں،
کچھ اشارہ جوکیا ہم نے ملاقات کے وقت
ٹال کر کہنے لگا دن ہے ابھی رات کے وقت

رعایت لفظی:۔

دبستان لکھنو کی ایک اور خصوصیت رعایت لفظی بتائی جاتی ہے اس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا لکھتے ہیں۔
” لکھنو کا معاشرہ خوش مزاج، مجلس آراءاور فارغ البال لوگوں کا معاشرہ تھا۔ مجلس زندگی کی جان لفظی رعایتیں ہوتی ہیں۔ مجلوں میں مقبول وہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں زبان پر پوری قدرت ہو اور لفظ کا لفظ سے تعلق ، اور لفظ کا معنی سے رشتہ پوری طرح سمجھتے ہوں ۔ لفظی رعایتیں محفل میں تفریح کا ذریعہ ہوتی ہیں، اور طنز کو گوارا بناتی ہیں۔
لکھنو میں لفظی رعایتوں کا از حد شوق تھا۔ خواص و عوام دونوں اس کے بہت شائق تھے ۔ روساءاور امراءتک بندیاں کرنے والوں کو باقاعدہ ملازم رکھا کرتے تھے۔ ان ہی اسباب کی بناءپر لکھنوی شاعری میں رعایت لفظی کی بہتات ہے اور لفظی رعایتیں اکثر مفہو م پر غالب آجاتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات محض لفظی رعایت کو منظوم کرنے کے لئے شعر کہا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر

قبر کے اوپر لگایا نیم کا اس نے درخت
بعد مرنے کے میری توقیر آدھی رہ گئی


طویل غزلیں:۔

لکھنوی شاعری کی ایک اور نمایاں بات طویل غزلیں ہیں۔ اگرچہ اس میں شبہ نہیں کہ ابتداءجرات مصحفی نے کی جو دلی دبستا ن سے تعلق رکھتے تھے۔ جو دلی کی تباہی کے بعد لکھنو جا بسے تھے۔ لیکن لکھنوی شعراءنے اس کو زیادہ پھیلایا اور بڑھایا اور اکثر لکھنوی شعراءکے ہاں طویل غزلیں بلکہ دو غزلہ ، اور سہ غزلہ کے نمونے ملتے ہیں۔اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے۔ کہ لکھنو کے اس دور میں پرگوئی اور بدیہہ گوئی کو فن قرار دے دیا گیا تھا۔ نیز لوگ قافیہ پیمائی کو عیب نہیں سمجھتے تھے۔ اس لئے طویل غزلیںبھی لکھی جانے لگیں چنانچہ ٥٢۔٠٣١ اشعار پر مشتمل غزلیں تو اکثر ملتی ہیں۔ بلکہ بقول ڈاکٹر خواجہ زکریا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ طویل غزلیں بھی لکھی جاتی تھیں۔
قافیہ پیمائی:۔

طویل غزل سے غزل کو فائدے کے بجائے یہ نقصان ہوا کہ بھرتی کے اشعار غزل میں کثرت سے شامل ہونے لگے۔ شعراءنے زور کلام دکھانے کے لئے لمبی ردیفیں اختیار کرنی شروع کر دیں جس سے اردو غزل میں غیر مستعمل قافیوں اور بے میل ردیفوں کا رواج شروع ہوا۔ معمولی قافیوں اور ردیفوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا نے لگا ۔ اس نے قافیہ پیمائی کا رواج شروع ہوا۔ ذیل میں بے میل ردیفوں سے قافیوں کی چند مثالیں درج ہیں۔

انتہائی لاغری سے جب نظرآیا نہ میں
ہنس کر کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیے



بات طویل غزلوں اور ، بے میل ردیفوں اور قافیوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ شعراءلکھنو نے اپنی قادر الکلامی اور استادی کا ثبوت دینے کے لئے سنگلاخ زمینوں میں بھی طبع آزمائی کی۔
پیچ دار تشبیہ اور استعارے کا استعمال:۔

اگرچہ تشبیہ اور استعارے کا استعمال ہر شاعر کرتا ہے لیکن یہ چیز اس وقت اچھی معلوم ہوتی ہے جب حد اعتدال کے اندر ہو۔ شعراءدلی کے ہاں بھی اس کا استعمال ہوا لیکن لکھنو والوں نے اپنی رنگین مزاجی کی بدولت تشبیہوں کا خوب استعمال کیا اور اور ان میں بہت اضافہ کیا۔ محسن کاکوروی ، میرانیس ، نسیم ، دبیر ، نے پرکیف ، عالمانہ اور خوبصورت تشبیہیں برتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی شعراءصرف تشبیہ برائے تشبیہ بھی لے آئے ہیں جس سے کلام بے لطف اور بے مزہ ہو جاتا ہے۔
سبزہ ہے کنارے آب جو پر
یاخضر ہے مستعد وضو پر


محو تکبر فاختہ ہے
قد و قامت سر و دلربا ہے

نسائیت:۔

ڈاکٹر ابوللیث صدیقی نے لکھنوی دبستان کی شاعری کاایک اہم عنصر نسائیت بتایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہر زمامے ہر قصہ اور ہر زبان میں عورت شاعری کا بڑا اہم موضوع رہا ہے۔ لیکن لکھنو کی سوسائٹی میں عورت کو اہم مقام حاصل ہو گیا تھا۔ اس نے ادب پر بھی گہرا اثرا ڈالا۔ اگر یہ عورتیں پاک دامن اور عفت ماب ہوتیں تو سوسائٹی اور ادب دنوں پر ان کا صحت مند اثر پڑتا لیکن یہ عورتیں بازاری تھیں ۔ جو صرف نفس حیوانی کو مسسل کرتی تھیں ۔ جبکہ دوسری طرف عیش و عشرت اور فراغت نے مردوں کو مردانہ خصائل سے محروم کرکے ان کے مردانہ جذبات و خیالات کو کمزور کر دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مردوں کے جذبات خیالات اور زبان پر نسائیت غالب آگئی ۔ چنانچہ ریختہ کے جواب میں ریختی تصنیف ہوئی۔ اس کا سہرا عام طور پر سعادت یا ر خان رنگین کے سر باندھا جاتا ہے۔ رنگین کے بعد انشاءاور دوسرے شعراءنے بھی اسے پروان چڑھایا ۔ ان شعراءکے ہاں ریختی کے جو نمونے ملتے ہیں ان میں عورتوں کے فاحشانہ جذبات کو ان کے خاص محاوروں میں جس طرح ان لوگوں نے نظم کیا ہے وہ لکھنو کی شاعری اور سوسائٹی کے دامن پر نہ مٹنے والا داغ بن کر رہ گیا ہے۔
سوز و گداز:۔

اس ساری بحث سے ہر گز یہ مقصود نہیں کہ لکھنوی شعراءکے ہاں اعلی درجے کی ایسی شاعری موجود نہیں جو ان کے سوز و گداز جذبات اور احساسات اور واردات قلبیہ کی ترجمان ہو ۔ تمام نقادوں نے اس بات کی تائید کی ہے بلکہ عذلیب شادنی جنہوں نے لکھنوی شاعری کے خراب پہلوئوں کو تفصیل کے ساتھ نمایاںکرکے پیش کیا ہے وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شعرائے لکھنوکے ہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو پڑھنے والے کے دل پر گہرااثر چھوڑتے ہیں۔ ایسے نمونے ناسخ اور آتش کے علاوہ امانت اور رند وغیرہ کے ہاں سب سے زیادہ ملتے ہیں۔ یہاں اس بات کے ثبوت میں مختلف شعراءکا کلام سے کچھ مثالیں
رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے نہ کوئی
دل ہی دل میں اسے ہم یاد کیا کرتے ہیں



آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل

مجموعی جائزہ:۔

اردو ادب میں دونوں دبستانوں کی اپنے حوالے سے ایک خاص اہمیت ہے۔ دبستان لکھنو نے موضوعات کے بجائے زبان کے حوالے سے اردو ادب کی بہت خدمت کی اور ناسخ کی اصلاح زبان کی تحریک نے اردو زبان کو قواعد و ضوابط کے حوالے سے بہت زیادہ ترقی دی ۔ جبکہ دبستان ِ لکھنو کا اثر دہلی کے آخری دور کے شعراءغالب ، مومن ، ذوق پر بھی نمایاں ہے۔
Reply With Quote
  #19  
Old Monday, April 16, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

”اردو ادب کی نئی تاریخ کی ضرورت“
شمس الرحمٰن فاروقی

معروف نقاد اور محقق شمس الرحمن فاروقی نے خدا بخش لائبریری میں ”اردو ادب کی نئی تاریخ کی ضرورت“ کے موضوع پر اپنا عالمانہ خطبہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ بد قسمتی سے اردو میں ادبی تاریخ کی ترتیب کی کوئی اعلیٰ اور صالح روایت موجود نہیں رہی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ جوشخص ڈیڑھ سو برس کی ذہنی غلامی سے آزاد ہو، وہی اردو ادب کی غیر جانب درانہ تاریخ لکھ سکتا ہے -انہوں نے اپنے لکچر کے آغاز میں کہا کہ پروفیسر رالف رسل نے ادب کی تاریخ لکھنے کے لیے تین نکات کی ضرورت بتائی ہے۔ پہلا انتخاب دوسرا اختصار اور تیسرا تاریخی اور سماجی پس منظر۔ لیکن وہ ان تینوں نکات کو رد کرتے ہیں کیوں کہ یہ کسی طرح بھی ادبی تاریخ لکھنے میں معاون نہیں ہو سکتے۔ اس لحاظ سے رسل صاحب نے جو قاعدے کلیے وضح کیے ہیں ان کا اردو ادب کی تاریخ تحریر کرنے پر اطلاق نہیں ہو تا۔

انہوں نے کہا کہ سب سے بدقسمتی کی بات تو یہ ہے کہ ہم فورٹ و لیم کی کتابوں کو فخر سے سر پر اٹھائے پھرتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کتابیں انگریز افسروں کو اردو سکھانے کے لیے لکھوائی گئی تھیں۔ میر امن کی باغ و بہار کا ناقدین بار بار ذکر کرتے ہیں لیکن اس کی ادبی حیثیت مشکو ک ہے۔ انہوں نے کہا کہ شاہ رفیع الدین نے سنہ 1800ءمیں اردو میں قرآن کا ترجمہ کیا تھا اور اس میں لکھا تھا کہ میں قرآن کا ہندی میں ترجمہ کر رہا ہوں تو در اصل حقیقت بھی یہی ہے کہ اردو کا اولین نام ہندی، ہندوی یا ریختہ تھا۔ ہندی زبان کا اس وقت تک کوئی وجود ہی نہیں تھا اور اردو کی بہت ہی پختہ ادبی روایات قائم ہو چکی تھیں جسے ہندی کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ لیکن افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگوں نے اس نام کو ترک کر دیا اس کے ساتھ ساتھ اس ورثے کو بھی چھوڑ دیاگیا۔ اس زمانے میں بنارس سے لے کر مرشد آباد تک ہندی یا ہندوی میں لکھنے والوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ سورت میں تو چودھویں صدی میں اسی زبان یعنی ہندی، ہندوی یا اردو کا بول بالا تھا۔

شمس الرحمن فاروقی نے اس بات کی بھی سختی سے تردید کی کہ اردو کبھی بھی سرکاری زبان رہی ہے یا سرکار دربار سے اس کی سرپرستی ہو تی رہی ہے کیوں کہ اس زمانے کے جتنے بھی دربار تھے سب کی زبان فارسی تھی۔ صرف ٹیپو سلطان نے اردو کو سرکاری زبان بنایا تھا لیکن اس کا عرصہ 8-9سال سے زیادہ نہیں رہا۔

جناب فاروقی نے کہا کہ سب سے بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ اردو میں ادبی تاریخ لکھنے کی روایت کی جو بنیاد رکھی گئی وہی کج تھی۔ اس سلسلہ کی پہلی کتاب محمد حسین آزاد کی ”آب حیات“ ہے لیکن ان کے ذہن میں یہ واضح ہی نہیں تھا کہ و ہ تذکرہ لکھ رہے ہیں یا تاریخ۔جب انہوں نے خود ہی لکھ دیا کہ وہ نام ور شعرا کے حالات لکھ رہے ہیں توا س سے ان کے ذہنی تعصبات صاف ظاہر ہو رہے ہیں کہ وہ جنہیں نام ور مان رہے ہیں وہی بڑے شاعر ہیں، باقی شعرا کسی شمار قطار میں نہیں ہیں۔ انہوں نے ایسا ہی کیا بھی ہے۔ قائم چاند پوری جیسے باکمال شاعر کا ذکر ایک سطر میں حاشیہ میں کیا گیا ہے۔

” آب حیات “ کی اس خامی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ محمد حسین آزاد کے سامنے ایک ایجنڈا تھا اور انہوں نے اسی ایجنڈے کے تحت وہ کتاب لکھی، اس طرح سے غلط روایت کی بنیاد پڑ گئی۔ آب حیات کی اس خامی نے اردو ادب کی تاریخ کو مسخ کر دیا۔ آزاد کے ذہن میں تعصبات بہت ہیں، انہوں نے اردو کے ہندو شعرا کا ذکر نہیں کیا۔ اس کے علاوہ شاعرات کی بھی اردو میں بڑی مضبوط بنیاد تھی، مگر آزاد نے کسی شاعرہ کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھا۔

فاروقی نے پروفیسر شارب ردولوی کی ادبی تاریخ کے اصول و نظریات کا بھی ذکر کیا۔ لیکن اس کے بارے میں بھی انہوں نے بتایا کہ ایک طرح کی تدریسی کتاب ہے اور اس میں ادب کی تاریخ لکھنے کے اصول واضح نہیں کیے گئے ہیں اور یہ اس کتاب کی بڑی خامی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر رام بابو سکسینہ کی کتاب بھی صرف تدریسی کتاب ہے اور اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ التبہ انہوں نے ڈاکٹر گیان چندر جین کی کتاب اردو کی ادبی تاریخیں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر جین نے اردو کی ادبی تاریخوں کا تفصیل سے جائزہ تو لیا ہے اور ان کی خامیاں بھی بیان کی ہیں لیکن اس کے ساتھ انہوں نے اس بات کا کوئی ذکر ہی نہیں کیا ہے کہ ادبی تاریخ لکھنے کا فلسفہ کیا ہے۔ اس کے واضح نکات کیا ہیں اور اس کی سائنسی تشکیل کس طرح سے کی جانی چاہیئے۔

شمس الرحمٰن فاروقی نے ڈاکٹر جمیل جالبی کی ادبی تاریخ کی ستائش کرتے ہوئے کہا کہ اس میں تاریخی حوالے اور اصل مواد بھی پیش کیا گیا ہے، اس لیے اس کی ادبی اور تاریخی حیثیت ہے لیکن جمیل جالبی بھی اپنے ذہنی تحفظات کو بالائے طاق نہیں رکھ سکے ہیں۔ ہمارے ادبا اور ناقدین کی سب سے بڑی دشواری یہ ہے کہ وہ ذہن میں یہ مفروضہ رکھ کر چلتے ہیں کہ اردو میں بس دو ہی دبستان تھے، ایک لکھنئو اور دوسرا دہلی۔ حالانکہ جس زمانے کے ان دو دبستانوں کا ذکر کیا جاتا ہے اس وقت دکن میں ادب کی تخلیق ہو رہی تھی، بنگال کے مرشدآباد میں بھی اردو لکھنے پڑھنے والے تھے، عظیم آباد میں بھی اور گجرات کے سورت میں بھی اور ان سب کا کتابوں میں تفصیل سے ذکر ملتا ہے۔ اس کے باوجود صرف دبستان دہلی اور دبستان لکھنو کا ذکر کرنا بہت بڑی زیادتی ہے۔

بد قسمتی سے ادبی تاریخیں لکھنے والوں کے ذہن پر آج بھی لکھنویت یا دہلویت سوار ہے، اسی لیے وہ منصفانہ اور غیر جانب دارانہ تاریخ نہیں لکھ پاتے۔ اس کے لیے انہوں نے جامعات کے اردو اساتذہ کو ذمہ دار قرار دیا جو درسیات کی کتابوں تک محدود رہتے ہیں اور یہ درسی کتابیں اردو ادب کی تاریخ کو مسخ کر تی رہی ہیں اور اب بھی کر رہی ہیں۔

آخر میں انہوں نے کہا کہ اب تک ہمارے یہاں ادبی تاریخ لکھنے کی صالح روایت نہیں بن سکی ہے، جو ایک بڑا المیہ ہے۔
Reply With Quote
  #20  
Old Wednesday, September 11, 2013
Junior Member
 
Join Date: Sep 2013
Posts: 12
Thanks: 0
Thanked 0 Times in 0 Posts
asmaslam is on a distinguished road
Default

i have gone through all the stuff u have pasted above. i have query to ask. is this all covering question 4 mentioned in the syllabus only ??
Reply With Quote
Reply

Tags
tareekh urdu adab, urdu ka aaghaz, urdu zuban aur adab

Thread Tools Search this Thread
Search this Thread:

Advanced Search

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
Important urdu mcqs for lecturers naveed143smile PPSC Lecturer Jobs 0 Thursday, September 29, 2011 08:50 AM
History of Urdu Literature sara soomro General Knowledge, Quizzes, IQ Tests 0 Monday, September 28, 2009 06:44 PM
Urdu Newspapers Qurratulain Journalism & Mass Communication 0 Sunday, April 23, 2006 10:26 PM
*`~Urdu Language*`~ sibgakhan Urdu Literature 0 Wednesday, February 08, 2006 05:13 PM


CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.