CSS Forums

CSS Forums (http://www.cssforum.com.pk/)
-   Urdu Literature (http://www.cssforum.com.pk/css-optional-subjects/group-v/urdu-literature/)
-   -   Allama Iqbal: Fikr o Fun (http://www.cssforum.com.pk/css-optional-subjects/group-v/urdu-literature/62521-allama-iqbal-fikr-o-fun.html)

siddiqui88 Friday, April 27, 2012 08:21 PM

taleem e niswaan aur Iqbaal
 
[CENTER][B][SIZE=6][COLOR=DarkGreen]تعلیم نسواںا ور اقبال[/COLOR][/SIZE][/B]
[/CENTER]

[CENTER][SIZE=4][COLOR=#FF0000][B][COLOR=DarkGreen]پروفیسر مظفر حنفی[/COLOR][/B][/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5][COLOR=#FF0000][/COLOR][/SIZE][/CENTER]
[RIGHT][SIZE=5]کلام اقبال‘ کی پہلو داری اور ہمہ جہتی کا زمانہ قائل۔ اس طرح ان کے افکارو نظریات میں بھی بڑی رنگارنگی ہے۔ ان خیالات سے ہرشخص کا صدفی صد متفق الرائے ہونا ضروری نہیں ہے لیکن یہ بھی مناسب نہیں ہے کہ اقبال کی شاعری یاان کے جن افکار سے ہمیں اتفاق نہ ہو ان کو بالکل رد کردیں یا پھر انہیں اپنی پسند کے مطابق ڈھالنے کے لئے غلط تاویلیں اور دوراز کا ردلیلیں پیش کرنے لگیں۔ مثلاً مذہب اور سیاست کی وحدت پر علامہ کا اصرار، جمہوریت قوم اور وطن کے بارے میں عام مروجہ نظریات سے بالکل مختلف ان کا انداز فکر نیز عورت اور تعلیم نسواں سے متعلق اقبال کا منفرد تصور اگر عہد حاضر کے بعض ناقدین کی ذاتی پسند اور معیارات کاساتھ نہیں دیتے تو ان سے اقبال کے کلام اور افکار کی اہمیت و افادیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5]سائنسی ترقیوں کے اس دور میں اکیسویں صدی کے روشن خیال طالبان ادب کو عورت کے تعلق سے علامہ اقبال کے ایسے اشعار و افکار اگر ناقابل قبول محسوس ہوتے ہیں تو یہ ایک فطری عمل ہے۔ مثلاًعورت کی حفاظت کے ذیل میں رقم طراز ہیں[/SIZE]
[SIZE=5]:[COLOR=DarkGreen]
اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور[/COLOR][COLOR=DarkGreen]
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد
نے پردہ نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہباں ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] بہ ظاہر محسوس ہوتاہے کہ علامہ اقبال کے خیال میں عورت کی سلامتی اور تحفظ مرد کی نگہبانی کے بغیر ممکن نہیں ہے اور وہ تعلیم نسواں کے خلاف ہیں لیکن عورت اور تعلیم کے ضمن میں اقبال نے یہ بھی تو کہا ہے کہ[/SIZE]
[SIZE=5]:
[COLOR=DarkGreen]جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن[/COLOR][COLOR=DarkGreen]
کہتے ہیں اسی علم کو ارباب نظر موت[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] یعنی اقبال کو تعلیم نسواں کی اہمیت سے انکار نہیں البتہ ایسی تعلیم جو زن کو نازن بناتی ہے ان کی نگاہ میں لائق مذمت ہے۔
دراصل سرسید تحریک کے زیر اثراوران کے رفقاء کی کاوشوں کے نیتجے میں پیروی مغرب کا جو تیز و تند سیلاب آیاتھا اس میں فائدے کے ساتھ قوم کے بہک جانے کا سامان بھی موجود تھا چنانچہ اس اندھی تقلید کے مغربی اثرات سے ملت کو آگاہ کرنے کے لئے اکبر الہ آبادی کی طرح اقبال نے بھی تصویر کے دوسرے رخ کو اجاگر کرنے کی کوشش کی اوراس میں انہوںنے اکبر کے مزاحیہ اسلوب شعر کی تقلید کو بھی برا نہیں سمجھا۔ ایک جگہ کہتے ہیں[/SIZE]
[SIZE=5] :[COLOR=DarkGreen]
لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی[/COLOR][COLOR=DarkGreen]
ڈھونڈھ لی قوم نے فلاح کی راہ
یہ ڈراما دکھائے گا کیا سین
پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] اس نوع کے بہت سے مزاحیہ اورسنجیدہ اشعار تھوڑی سی کاوش سے اقبال کے مجموعوں میں دیکھے جاسکتے ہیں لیکن یہ تصور کا محض ایک رخ ہے اور محض اس رخ پر نظرڈال کر ہم حقیقت کا نظارہ نہیں کرسکتے۔ حق تو یہ ہے کہ اقبال اپنے زمانے کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ تھے اور تعلیم نسواں کے دور رس نتائج بھی ان کی نگاہ رمز شناس سے اوجھل نہیں تھے۔ چنانچہ موصوف نے نہ صرف عورتوں کی تعلیم و تربیت پر خاطرخواہ زور دیا بلکہ علم کو عورت کو بیش بہازیور قراردیا۔ اپنے ایک مضمون بعنوان ’قومی زندگی‘ میں جو ماہنامہ ’مخزن‘ (لاہور) کے 1904کی فائل میں شامل ہے تحریرفرمایاتھا[/SIZE]
[SIZE=5]:
’’[U][COLOR=Navy]پس ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ عورتوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں۔ مرد کی تعلیم ایک فرد واحد کی تعلیم ہے مگر عورت کو تعلیم دینا حقیقت میں تمام خاندان کو تعلیم دیناہے۔[/COLOR][/U][/SIZE]
[SIZE=5]‘‘
میں سمجھتاہوں علامہ اقبال کے تعلیم نسواں سے متعلق اشعار کے افکار میں صحیح سیاق وسباق کو ملحوظ رکھاجائے تو کہیں کوئی تضاد نظر نہیں آیا۔ دراصل موصوف اس باب میں نظم و ضبط اور توازن و احتیاط برتنے کی تلقین کررہے تھے۔ عورت سے متعلق اپنے سیاق و سباق سے علیحدہ کرکے اقبال کاایک شعر بطور ضرب المثل اکثر پیش کیاجاتاہے حالانکہ موصوف نے ہنروران ہند کے عمومی سہل پسند رویے اور تقلید پرستی کو ہدف ملامت بناتے ہوئے فرمایاتھا[/SIZE]
[SIZE=5]:
[COLOR=DarkGreen]عشق و مستی کا جنازہ ہے تخیل ان کا[/COLOR][COLOR=DarkGreen]
ان کے اندیشۂ تاریک میں قوموں کے مزار
موت کی نقش گری ان کے صنم خانوں میں
زندگی سے ہنر ان برہمنوں کا بیزار[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] یہاں اقبال نے عورت کی تقدیس کو پامال کرنے والے ایسے تخلیق کاروں کو مطعون کیاہے جو رومانی بلندیوں کو نظرانداز کرتے ہیں اور عورت کے جسم کا بیان لذت کو شی اور جنسی تلذذ کے لئے کرتے ہیں۔ فی الواقعی عورت کے ذکر کو شعری ادب سے جلاوطن کرنے کا ارادہ اقبال ہرگز نہیں رکھتے تھے۔ وہ تو عورت کو زندگی کا سوزدروں اور اس عظیم کائنات کا حسین ترین رنگ قرار دیتے ہیںملاحظہ فرمائیے[/SIZE]
[SIZE=5]:
[COLOR=DarkGreen]وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ[/COLOR][COLOR=DarkGreen]
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
شرف میں بڑھ کے ثریا سے مشت خاک اس کی
کہ ہر شرف سے اسی درج کا در مکنوں
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] اقبال کے نزدیک عورت ایک ایسی مقدس اور پاکیزہ، ہستی کے مترادف ہے جسے بوالہوسوں کی نظر بد سے بچائے رکھنے کی ضرورت ہے اسی لئے وہ بھی اکبر الہ آبادی اوراس عہد کے دیگر کئی دانشوروں کی طرح اسے شمع محفل کی بجائے ’چراغ خانہ‘ کی حیثیت سے زیادہ قابل قدر سمجھتے تھے۔ مغربی تہذیب کی رو میں بہہ کر مشرقی عورت کا جلوت پسند ہوجانا اقبال کو ناپسند تھا۔ عورتوں کی تعلیم و ترقی کے دوش بدوش ان کی اخلاقی تربیت کو بھی اقبال اتنا ہی ضروری سمجھتے تھے۔ فرماتے ہیں[/SIZE]
[SIZE=5]:
[COLOR=DarkGreen]رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے[/COLOR][COLOR=DarkGreen]
روشن ہے نگہہ آئینۂ دل ہے مکدر
بڑھ جاتاہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہوجاتے ہیں افکار پر اگندہ و ابتر[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] مغر ب پرست پردے کو عورت کی ترقی کے راستے کا سب سے بڑا روڑا سمجھتے ہیں لیکن اقبال کا خیال ہے کہ:
’’[COLOR=Navy][U]عورت فاطرالسمٰوات والارض کی مقدس ترین مخلوق ہے اوراس کا جنسی وجود اس امرکا متقاضی ہے کہ اجنبی نگاہوں سے بہر نوع محفوظ رکھاجائے۔‘‘[/U] (لیورپول پوسٹ، مطبوعہ
[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5][COLOR=Navy]1933[/COLOR])
[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5]اقبال کے نزدیک بے پردگی عورتوں میں اخلاقی زوال کا سبب بنتی ہے اور وہ ترقی ترقی نہیں جس سے عورت کی تقدیس خطرے میں پڑجائے، اسی احساس کے تحت علامہ نے فرمایاتھا۔[/SIZE]

[SIZE=5] د[COLOR=DarkGreen]یار مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
[/COLOR][COLOR=DarkGreen] کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہوگا[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
بے پردگی کے مضراثرات سے عوام کو آگاہ کرنے کے لئے اقبال نے کہیں کہیں طنز ومزاح کے حربے بھی استعمال کئے ہیں۔ مثالیں ملاحظہ ہوں۔[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] [COLOR=DarkGreen]یہ کوئی دن کی بات ہے اے مرد ہوشمند
[/COLOR][COLOR=DarkGreen] غیرت نہ تجھ میں ہوگی نہ زن اوٹ چاہے گی
آتاہے اب وہ دور کہ اولاد کے عوض
کونسل کی ممبری کے لئے ووٹ چاہے گی[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] آپ اور ہم اب اسی دور میں سانس لے رہیں۔ ایسا ہی ایک اور قطعہ ہے[/SIZE]
[SIZE=5]:
[COLOR=DarkGreen]شیخ صاحب بھی تو پردے کے کوئی حامی نہیں[/COLOR][COLOR=DarkGreen]
مفت میں کالج کے لڑکے ان سے بدظن ہوگئے
وعظ میں فرمادیا کل آپ نے یہ صاف صاف
پردہ آخر کس سے ہوجب مرد ہی زن ہوگئے[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] الغرض پردے سے متعلق علامہ اقبال کے نظریات و تصورات میں کوئی تضاد نہیں ہے اور وہ ان خیالات کا اظہار بڑی بیباکی اور جرأت کے ساتھ کرتے رہے۔ یہ خوف یا مصلحت ان کے آڑے کبھی نہیں آئی کہ یوروپ میں رہنے اور مغربی تعلیم سے آراستہ ہونے کے باوصف ان کے ایسے اشعار سے زمانہ موصوف کو تنگ نظریا قدامت پسند قرار دے گا۔ البتہ میں اس بات پر اصرار بھی نہیں کرتا کہ اقبال کے ان تصورات کو صدفی صد درست سمجھ لیاجائے۔ آزادی نسواں کے تئیں اقبال کا رویہ بھی دعوت فکر دیتاہے۔ ایک نظم میں فرماتے ہیں[/SIZE]
[SIZE=5]:
[COLOR=DarkGreen]جوہر مرد عیاں ہوتاہے بے منت غیر[/COLOR][COLOR=DarkGreen]
غیر کے ہاتھ میں ہے جوہر عورت کی نمود
راز ہے اس کے تپ غم کا یہی نکتہ شوق
آتشیں لذت تخلیق سے ہے اس کا وجود
کھلتے جاتے ہیں اسی آگ سے اسرار حیات
گرم اسی آگ سے ہے معرکۂ بودو نبود
میں بھی مظلومی نسواں سے ہوں غمناک بہت
نہیں ممکن مگر اس عقدۂ مشکل کی کشود[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] اس میں شبہ نہیں کہ مرد کو اپنے جو ہر ذات کی نمود کے لئے کسی دوسرے کی اعانت درکار نہیں ہوتی جب کہ عورت کو جس کا سب سے بڑا جوہر اس کی تخلیقی صلاحیت ہے جسے بروئے کارلانے کے لئے دوسرے ساتھی کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ماں بننے کے اس وصف کو عورت کی مظلومی کیوں سمجھاجائے شاید اقبال اس طرح ان لوگوں پر طنز کررہے ہیں جو اس مقدس عمل کو عورت پر ظلم سے تعبیر کرتے ہیں۔ بہ ایں ہمہ عورت میں دوسری صفات بھی توہوسکتی ہیں اوروہ بھی مرد کی طرح اپنی خودی کو بلند کرسکتی ہے پھر یہ تفریق کیسی؟ اس طرح علامہ اپنی نظم ’’آزادی نسواں‘‘ میں کہتے ہیں۔[/SIZE]
[SIZE=5][COLOR=DarkGreen]
[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5][COLOR=DarkGreen] اس بحث کا کچھ فیصلہ میںکرنہیں سکتا[/COLOR][COLOR=DarkGreen]
گوخوب سمجھتاہوں کہ یہ زہر ہے وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں معذور ہیں مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند[/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
بے شک اقبال کے زمانے تو کیا ہمارے عہد تک میں ایسی خواتین بھی مل جائیں گی جنہیں آزادی نسواں کے مقابلے میں زیورات سے زیادہ دلچسپی ہوتی ہے اگر تاویل کرنی ہوتو کہہ سکتے ہیں کہ علامہ اقبال نے ایسی ہی عورتوں کو طنز ملیح کا نشانہ بنایاہے لیکن عورت اور مرد کی مساوات سے متعلق مغربی نظریات کو رد کرتے ہوئے اقبال نے ایک لکچر میں واضح طورپر کہاتھا۔[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] ’’[U][COLOR=Navy]میں مرداور عورت کی مساوات مطلق کا حامی نہیں ہوں۔ قدرت نے ان کو جداجدا خدمتیں تفویض کی ہیں۔‘‘[/COLOR][/U][COLOR=Blue](روح اقبال، یوسف حسین خاں، ص 334[/COLOR])
[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5]مذکورہ بالاقول میں ’مساوات مطلق‘ کی حدتک بات بالکل درست ہے کیونکہ صنفی تقاضوں کے پیش نظرآزادی، آزادی میں فرق کیا جاسکتاہے۔ البتہ اس نظریے کے بحیثیت مجموعی نفاذ سے بڑی الجھنیں پیداہوسکتی ہیں[/SIZE]
[SIZE=5]۔
علامہ اقبال کے ان تصورات کو ان کے عہد اس زمانے کے سیاسی وسماجی حالات کے تناظر میںدیکھناچاہئے۔ جب ہندوستان کی تحریک آزادی نے تقریباً انگریز دشمنی کی روش اختیار کرلی تھی۔ نان کو اپریشن، کی تحریک، بدیسی مال کا بائیکاٹ، انگریز کی ملازمت سے کنارہ کشی، حتیٰ کہ انگریزی تعلیم کے اداروں سے اجتناب کا سلسلہ چل پڑاتھا۔ والدہ محمدعلی جوہر قومی جلسوں میں نقاب پہن کر شریک ہوتی تھیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے نکل کر قوم پرست طلبہ نے جامعہ ملیہ اسلامیہ کا اجراء کیا تھا ان حالات اور ماحول میں اقبال پردے کی حمایت اورآزادی نسواں کی مخالفت کرتے نظر آئیں تو کوئی تعجب کی بات نہیں۔ یہ بھی ہے کہ سماج کے ساتھ فنکار کی خانگی زندگی بھی اس کے فن پر اثراندازہوتی ہے۔ ہمیں معلوم ہے اقبال اور ان کی پہلی بیوی کریم بی بی کے درمیان عمر بھر ناچاتی رہی۔ علامہ اپنی دوسری اہلیہ سرداربیگم سے بھی مدتوں ناخوش رہے اور کہیں برسوں بعد ان دونوں کے درمیان تعلقات استوار ہوئے اور تیسری بیوی سے ان کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی۔ ان باتوں کا اثر ان کی شاعری اور تصورات پر ضرور مرتسم ہوگا اور کے نظریات و عقائد نے گھریلو زندگی کو بھی متاثر کیاہوگا چنانچہ کلام اقبال اور اقبال کی فکرپر غورکرتے ہوئے ان امور کو بھی ملحوظ رکھناچاہئے۔ بطور خاص علامہ کی نظمیں ’پردہ‘ ’خلوت‘ ’آزادی نسواں‘ عورت کی حفاظت اور’عورت‘ جیسی نظمیں اس تناظر میں پڑھی جائیں تو بہت سی پرتیں کھلیں گی۔ بقول ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی ’’ایک بڑے شاعر کو جو مفکرانہ لہجہ رکھتاہو اور ہزارشیوہ بھی ہو، سمجھنے سمجھانے کے لیے کوئی ایک نظریہ کار آمدوکافی نہیں ہوسکتا۔ اقبال کے ہاں فکرونظر اور جذبہ و احساس کی ایسی بوقلمونی، رنگارنگی اور تنوع موجود ہے کہ ہرشخص اقبال کو اپنی نگاہ اوراپنے زاویے سے دیکھتا ہے۔ پھر جہاں مسائل کو انفرادی احساس و تاثر سے قطع نظر مذہبی اورسیاسی وسماجی نظریات اوراجتماعی و قومی محسوسات کی سطح سے دیکھنے اور برتنے کارجحان کارفرماہو، وہاں اقبال جیسے کثیرالجہات شاعر کی گوناگوں تعبیریں فطری ہیں۔[/SIZE][SIZE=5]
[/SIZE]
[CENTER][SIZE=5][COLOR=DarkGreen]بشکریہ:[URL="http://urdu.chauthiduniya.com/2011/04/taleem-niswan"] ہفت روزہ چوتھی دنیا[/URL][/COLOR] [/SIZE]
[/CENTER]
[SIZE=5] [/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE][/RIGHT]


06:48 AM (GMT +5)

vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.