Friday, April 19, 2024
04:07 AM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > CSS Optional subjects > Group V > Urdu Literature

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #1  
Old Saturday, April 21, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Allama Iqbal: Fikr o Fun

سُورج کو چراغ ۔۔ علامہ اقبال (فکر و فن) کی تفہیم

محمد یعقوب آسی
حکیم الامّت، شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے فن اور مقصد کو یوں یک جان کر دیا جیسا ان سے پہلے کسی سے نہ ہوا تھا۔ علامہ کی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ عمیق افکار کا وہ رچاؤ پایا جاتا ہے جس کی مثال اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے کلام کی خاص بات عالمانہ سلاست ہے۔فنِ شعر کی عمومی اصطلاح ’’سلاست‘‘ اقبال کے کلام پر یوں موزوں نہیں بیٹھتی کہ ان کے ہاں سادہ اور آسان فہم الفاظ کی بجائے فارسی کی بھاری بھرکم تراکیب زیادہ مستعمل ہیں۔ سحرطرازی کی بات یہ ہے قاری کو ان تراکیب کی ثقالت کا احساس تک نہیں ہوتا، اور وہ انہیں سلاست کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کی تلمیحات ان کی دقیق بصیرت کا پتہ دیتی ہیں، بلکہ بہت سے مقامات پر یہ تلمیحات استعارے بن جاتی ہیں۔ کلامِ اقبال کے اسی وصفِ خاص کو ہم نے ’’عالمانہ سلاست‘‘ کا نام دیا ہے۔

اقبال کا عرصۂ حیات وہ تھاجب پوری دنیا کی سیاسی بساط تغیر پذیر تھی اور بڑی بڑی عالمی سیاسی قوتوں پر تبدیلیوں کے سائے منڈلا رہے تھے۔ برطانوی سامراج، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں سورج غروب نہیں ہوتا، نوآبادیات پر اس کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے اثرات ابھی زوال پذیر بھی نہ ہوئے تھے کہ دوسری عالمی جنگ کے سائے لرزنے لگے۔ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے ایک عرصہ بعد ہندوستان میں مغلیہ دور کا خاتمہ، پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریاں اور دوسری عالمی جنگ کے آثار،اسلامی دنیا کی بے حسی، چین میں سیاسی بیداری اور یورپی حکومتوں کا خلفشار، الغرض پوری دنیا بے چینی کا شکار تھی۔ ہندوستان کے اندر بھی سیاسی بیداری پیدا ہو رہی تھی اور یہاں کے دونوں بڑے مذہبی گروہ ہندو اور مسلمان بدیسی تسلط کے خلاف نہ صرف متحرک ہو چکے تھے بلکہ گاندھی اور محمد علی جناح جیسی شخصیات میدانِ عمل میں آ چکی تھیں۔ ان کی کوششوں کا رخ اگرچہ مختلف تھا، تاہم ایک قدرِ مشترک یعنی انگریزی تسلط سے نجات کی کوشش ضرور موجود تھی۔ سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ بہت سے سماجی عوامل ایسے تھے جو کسی بھی صاحبِ دل کو بے چین کر دینے کے لئے کافی تھے۔

اقبال کی دور بین نگاہوں نے وہ مناظر بھی دیکھ لئے تھے جو عام ہندوستانی مسلمان کی نظر کی رسائی میں نہیں تھے۔ جستجو کا وہ مادہ جو ایک مردِ فقیر کی شخصیت کا خاصہ ہو سکتا ہے، ان کی تمام شاعری میں نمایاں ہے۔ اسی عنصر کی کارفرمائی تھی کہ علامہ نے فارس کی تہذیب پر مابعدالطبیعیات کا مطالعہ کیا اور مذہبی افکار کی تہذیبِ نو پر کام کیا۔ انہوں نے مولانا روم سے لے کر ابن عربی اور نطشے تک کے افکار کو دیکھا پرکھا۔ اور نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی تہذیبی اور سیاسی زندگی کا مطالعہ کیا تو امتِ مسلمہ کی حالتِ زار پر تڑپ اٹھے۔ اقبال نے اسلامی دنیا کے مسائل کا عملی حل وہی پیش کیا جو قرونِ اولیٰ میں کامیاب ثابت ہو چکا تھا۔ اقبال کے پیغام کا خلاصہ اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ یوں ہو گا کہ ’’مسلمانوں کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا!‘‘۔

اس پیغام کی ترسیل کے لئے فطرت نے اقبال کو نہ صرف حکیمانہ نظر عطا کی تھی بلکہ نوائے سروش سے بھی نوازا تھا۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں اقبال کی شاعری بلا مبالغہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے پیرائے کا تتبع بھی کسی سے نہ ہو سکا، اور اگر کہیں کسی نے کوئی ایک آدھ شعر اس ڈھنگ میں کہہ بھی لیا تو عوام الناس نے اس شعر کو بھی اقبال کے حساب میں ڈال دیا۔

آج بھی ناقدین کی اکثر محفلوں میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ: شاعری میں فن کو اولیت حاصل ہے یا مقصد کو؟ جب کہ کلامِ اقبال کی صورت میں اس سوال کا شافی جواب ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے، جہاں فن اور مقصد دونوں ایک دوسرے کو نکھارتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں کلامِ اقبال ایک سرمدی پیغام بن جاتا ہے۔

اقبال کی دوسری بہت بڑی خصوصیت ان کے ہاں روایت سے ایسا مضبوط رابطہ ہے جس سے جدتیں پھوٹتی ہیں۔ ان کے بہت سے معاصرین اور متقدمین کے ہاں یہ عمومی مسئلہ رہا ہے کہ بہتوں کی روایت نے جمود کی صورت اختیار کر لی اور اگر کہیں جدید تجربے ہوئے بھی تو ان میں ادبی چاشنی بری طرح متاثر ہوئی۔ موضوعات کے حوالے سے اقبال سے پہلے گنتی کے چند شعراء ایسے ہیں جنہوں نے گل و بلبل اور لب و عارض سے ہٹ کر موثر لہجے میں بات کی ہو۔ اقبال کا اعجازِ بیان یہ بھی ہے کہ انہوں نے پہلے سے رائج معروف تراکیب کو نئے معانی عطا کئے اور یہ کارنامہ محض نئے الفاظ یا افکار متعارف کرا دینے سے کہیں آگے ہے۔ ان کے ہاں ’’گل و بلبل‘‘ روایتی محب اور محبوب کے قالب سے نکل کر مابعدالطبعیاتی سطح پر پہنچ جاتے ہیں، ’’جنوں‘‘ منفی معانی کی گرفت سے آزاد ہو کر ایک نصب العین بن جاتا ہے، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔

کلامِ اقبال کا خاصہ یہ ہے کہ دقیق موضوعات پر بات کرتے ہوئے ان کا انداز عالمانہ ہوتا ہے اور تعلقِ خاطر کے سادہ مضامین میں ان کے الفاظ نرم اور ملائم ہوتے ہیں۔ ان کا لہجہ مجموعی طور پر ’’دبنگ‘‘ ہونے کے باوجود، ان کے ہاں غزل کی نرماہٹ متاثر نہیں ہوتی اور نہ نظم کے بہاؤ میں کو رکاوٹ آتی ہے۔ ایسی کتنی ہی خصوصیات ہیں جو اقبال کے کلام کو اوروں سے ممتاز بناتی ہیں۔
http://www.urduweb.org/mehfil/thread...C%D9%85.31526/
Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
aristotlekhan (Saturday, November 24, 2018), kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), Robina Qadeer (Monday, April 23, 2012), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012)
  #2  
Old Saturday, April 21, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

علامہ اقبال (رح) اردو شاعری کے لامثال مجّدد

بقلم: فدا حسین بالہامہ سرینگر

انسان کی رقیق القلبی،نزاکتِ احساس اورتخلیقی تجسس کی بدولت فنونِ لطیفہ وجود میں آئے۔ لطیف خیالات ان نوزائید فنہائے دقیق کے واسطے شیرِمادرکی مانند ابتدائی غذاءکے طور استعمال ہوئے۔اہل فن نے الفاظ کا دلکش وباریک اور رنگین لباس پہناکر غنائیت کے جھولے میں جھلایا۔ نیز اپنے تمام جوہر، فن شاعری پر نثار کردیئے۔ غرض ایک شفیق ماں کی طرحپالا پوسا۔ نتیجتاً اسکی محبت میں مبتلاءہوئے۔ فن کو جو چیز بھی اچھی لگی، ا سکی خدمت میں پیش کردی۔وارفتگانِ شعروشاعری، اپنے ہی پروردہ فن کے عشق میں اس قدرمبتلاءہوئے۔ کہ اپنے اس محبوب کی ہر پسند کے سامنے وجدانی شعور خوب وذشت کو بالائےطاق رکھا۔" شراب و شباب" کی دو لفظی معجون فنِ شاعری کی وارفتہ مزاجی کو بھاگئی۔شعراءنے بھی اس معجون کا خوب استعمال کیا۔ کسی بھی روایتی شاعر کا دیوان کھولنے پرقاری محسوس کرتا ہے کہ گویا وہ میخانے میں داخل ہوگیا۔

اکثرشعراحضرات بھی اس عجیب
احساس کمتری کے شکار ہو گئے کہ روایتی ڈگر کو چھوڑنا دنیائے شعر میں خود کشی کےمترادف ہے۔ اور اس دنیا میںابدی زندگی سے ہمکنار ہونے کے لئے لازم ہے کہ شاعر مے کوآب ِ حیات کا درجہ دے اس کی تعریف میں الفاظ کے دریا بہا دے ۔ یہی وجہ ہے کہ علامہجوادی کا یہ کہنا حقیقت پر مبنی معلوم ہوتا ہے کہ"بہترین شعروہی مانا جاتا تھا جوشراب کے مٹکے سے نکالا گیا ہو"۔ حسن پرستی کا رحجان بھی اردو ادب میں باقی تمام اہم موضوعات کے لئے سم قاتل ثابت ہوا دن رات حسن کی تعریف میں مشغول شاعر کو فرصت کہاں،کہ وہ دیگر مضامین کی طرف دھیان دے سکے۔ اکثر شعراءنے غم دوراں پر غمِ جاناںکو ترجیح دی۔ اور شراب کو آب حیات سے اولیٰ جانا۔ پیمانہ شراب، شاعری کاپیمانہ قرارپایا۔ روایت شکن غالب نے بھی پیمانے کی اس بندش کو بارہامحسوس کیاہے۔

ہر چندکہ ہو مشاہدہ حق کی گفتگو بنتی نہیں ہے، بادہ و ساغر کہے بغیر


ادب کی معروف صنف یعنی غزل حسن اور معشوق پرستی کے لئے وقف ہوئی۔ "حسن زن" کے متعلق جس قدر ہمارےیہاں ادب میں مدح سرائی ملتی ہے اُس کے مقابلے میں" خالقِ زَن " کے حمد کا حصہعشر ِعشیر بھی نہیں۔ اہل ہنر نے اس صنفِ نازک کے ہر منفی و مثبت پہلو کو ابھارا۔ صرف شاعری ہی میں نہیں تقریباً ہر فنِ لطیف میں یہ بات مشترک ہے کہ اہل ہنر کے تخیل کےشیش محل میں عورت کی جلوہ گری تمام موزوعات پر چھائی رہتی ہے۔ بقولِ اقبال


ہندکے شاعرو صورت گر و افسانہ نویس آہ!
بیچاروں کے اعصاب پہ عورت ہے سوار

اس بات کوتسلیم کرنے میں اہل ِفن پس و پیش کرتے تھے کہ شاعر انسانی فکر کی اصلاح کا فریضہ اثرانگیز طریقے سے انجام دے سکتاہے۔ بقول علامہ اقبال شاعر سماجی جسم میں دیدہ بینا کیحیثیت رکھتا ہے۔ جب بھی اس سماج میں سے کوئی عضو درد میں مبتلاءہو جائے۔ یعنی مفاسدکاشکار ہوجائے تو شاعرجذبہ و فن کا استعمال کرکے اپنے ہم نفس بشر کو نفسیاتی کمک فراہم کرسکتا ہے۔ لیکن اب اگر شاعر خود ہی مفاسد اور خرابیوں کے ہتھے چڑھ جائے۔ توپھر عام افراد کا خدا ہی حافظ۔! اہل فن کا بگڑنا گویا پورے سماج کا بگڑنا ہے۔ اسبات کی تصدیق علامہ اقبال کے اس قول سے بھی ہوتی ہے "کہ کسی قوم کی معنوی صحت زیادہتر اس روح کی نوعیت پر منحصر ہے جو اسکے اندر اسکے شعراءاور صاحبانِ فن پیدا کرتےہیں۔

لھٰذا کسی اہل ہنر کا مائل بہ اغلاط ضمیر اور تصور ایک قوم کے لئے ایٹ لااور چنگیز کے لشکروں سے زیادہ تباہ کن ہو سکتا ہے بشرطیکہ اسکی تصویریں یا اسکےنغمے جذب و کشش کی طاقت رکھتے ہوں۔" مندرجہ بالا قول کے حوالے سے بطورِ دلیل اردوادب سے یہ مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ اردو شاعری کی معشوق نوازی کے منفی اثرات سےخودی،عزتِ نفس ،معرفتِ ذات اور تسخیرِ کائنات جیسے حیات بخش انسانی پہلوؤں پر بھیمردنی چھائی ہوئی تھی ۔فرضی محبوب کے سامنے خود کو حقیر گرداناایک شاعر کا شیوئہناگزیر بن گیا تھا اوروہ اس فرضی محبوب کو خد اسے بھی بڑا درجہ دینے میں نہیں کوئیعار محسوس نہیں کرتا تھا۔ اس معشوق پرستی نے ایک فرد کی خودداری کو لتاڑنے میں جوکثر اُٹھا رکھی تھی اسے پورا کرنے کے لیئے تصوف کا "فلسفہ نیستی"کام آیا۔ باالفاظ دیگر شعراءکی معشوق پرستی اور صوفیاءکے فلسفۂ نیستی نے جب فرد کی ہستی اور خودیکے خلاف ایک مشترکہ محاذ کھولا۔ تو انسانی وجود کی عزت و توقیراورسربلندی کی روح موت کی دہلیز پر دہائی دینے لگی۔ یہی وجہ ہے کہ گاہے بگاہے غالب جیسا معشوق فریب عاشق اپنی خودداری کو چھوڑ کر عدم کو وجود پر فوقیت دیتا ہے۔
ڈبویا مجھ کو ہونےنے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

بڑی مدت سے اردو ادب کی روح چندمخصوص شعری مضامین کے قید میں تڑپ رہی تھی۔ اور ایک نجات دہندہ کی تلاش میں تھی۔ جو اسے ایک وسیع وعریض کائیناتِ فکر و خیال سے آشنااورایک پر وقار نظریہ ¿ حیات کےروبروکردیتا۔چنانچہ اردو شاعری کو وہ مطلوب نجات دہندہ علامہ اقبال کے روپ میں نصیب ہوا جس نے شاعری کے تمام ناقص معیارات پر سوالیہ نشاں لگا دیا۔علامہ اقبال سے قبل بھی" ادب برائے زندگی "کے تصور کی لہر تو اٹھی تھی۔ مگروہ لہر ساحل ِ مراد تک آتےآتے ہی دم توڑ بیٹھی۔ جس شان سے اس فن کے مقصد کی آبیاری علامہ نے کی اُس کی نظیرپوری ادبی تاریخ میں ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل پائے گی۔


علامہ اقبال نے فنِ شاعری کو ایک عظیم مقصد کے حصول کا ذریعہ قرار دیا۔ اُ نہیں اس بات کاشدید احساس تھا کہفن کار کی قربانی کے بغیر فن کا زندہ رہنامحال ہے گویا فنکار اپنی زندگی کو فن کےلئے وقف کردیتا ہے تب جاکر اسکی جاذبیت اور دلکشی برقرار رہ پاتی ہے۔

رنگ ہو یاخشت و سنگ، چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود

علامہ اقبال جیسے غائتی شاعر کے دل میں یہ بات کیونکر نہ کھٹکتی کہ اہل فن کا یہ خونِ جگرمحض صنفِ نازک کے ہونٹوں کی لالی بن جائے۔ یا مئے آتشیں کی قوتِ خمار کو مزیدتقویت دینے کے کام آجائے اورصرف گلوں کی رنگت کو بڑھانے کے لئے استعمال میں لایا جائےتاکہ بلبل کی رنگین نوائی میں کچھ اور مٹھاس پیداہو۔ علامہ اقبال چاہتے تھے کہ یہ وہبی نعمت یعنی فن و ہنر کی صلاحیت جو مخصوص افراد کے حصے میں آتی ہے بامقصدو ہدف ہو۔ اسکا استعمال انسانیت کی روحانی بقاءکی خاطر ہو۔ کیونکہ فن کا تعلق براہِ راست انسانی روح سے ہوتا ہے۔ اور سب سے زیادہ اسی روح کو متاثر کرتا ہے۔ اسے حیات بخش کام لیئے جاسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اہلِ نظر کو فن کی مقصدیت سمجھاتے ہوئے کہتےہیں۔
اے اہل نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن


جوشے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا


مقصود ِہنر سوزِحیاتِ ابدی ہے


یہ ایک نفس یا دونفس مثلِ شرارکیا


شاعر کی نواہو کہ مغنی کا نفس ہو


جس سے چمن افسردہ ہووہ بادِ سحر کیا

!
محض ذاتی ذوق ِطبع کی خاطر فن و ہنر میں جولانی طبع دکھانااقبا ل کی نظر میں فعلِ لا حاصل ہے کیونکہ صاحب ِہنرغایت درجے کا تجرد پسند ہی کیوں نہ ہو وہ اپنے گردو پیش سے فرار اختیار نہیں کر سکتا ہے اور اس کے فنی نگارشات کےمنفی و مثبت اثرات اسے مربوط معاشرہ پر لابدی طور مرتب ہوں گے اس لئے شاعر ہو یاکوئی اور فن کار اُسے ہمیشہ اجتماعیت کی فلاح کا خیال ذہن میں ہونا چاہیئے شاعرخوابیدہ ذہنوں کوجھنجھوڑ کر بیدار بھی کرسکتا ہے اور اپنی فنی ساحری سے ہوشیار مغزافراد کو بھی مسحور کرسکتا ہے۔یعنی اسکی منفی طرزِ فکر بہت حد تک انسانی معاشرےمیں منفی خیالات پیدا کرسکتی ہے۔اپنے ہنر میں اعلی پایہ جاذبیت رکھنے والے ہنر مندافراد قومی بیداری کی عظیم ذمہ داری بطریقِ احسن نبھاسکتے ہیں ان کے پاس ایک ایسااثر انگیز آلہ ہوتا ہے جو ان کو عام افرادسے ممتاز بناتا ہے۔ اجتماعی فرض یا قومیذمہ داری سے دامن کش شاعر اپنی شاعری کے اعلیٰ نمونے پیش کرے تو کرے۔ لیکن علامہ اسطرح فن پاروں کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ جنمیں پیغام ِبیداری کے بجائے حشیش وافیون کی تاثیر پائی جاتی ہو۔ اسی اصول کی بنیاد پر علامہ نے حافظِ شیرازی پر سخت الفاظ میں تنقید کی۔ اور اسکی شاعری کو افیون آلود قرار دیا۔


ہوشیار ازحافظِ صہبا گسار


جامش از زہرِ اجل سرمایہ دار


رہن ساقی خرقہپرہیز او


مے علاجِ ہولِ رستاخیز او


علامہ اقبالؒ نے اپنی شاعری کو ہمیشہ مقصد کے تابع رکھا۔ انہوں نے ان تمام روایات سےانحراف کیا جن سے قومی ضمیر میں غلامی و تقلیدکی خوپیداہوجاتی ہے۔ وہ اپنی راہ آپطے کرنے کے قائل تھے انہوں نے دامنِ شاعری کوفنی و فکری جوہر پاروں سے مالامال کردیا۔ غالب کے بعداقبال ہی وہ شاعر ہے جس نے غزل کے دامن کو دقیق اور رنگارنگ فلسفی اور مذہبی افکار سے بھر دیا۔انہوں


نے نیا اندازاور سوز و سازکو وجود بخشا کیوںکہ وہ اپنے تئیں دوسروں کی تقلید کو حرام تصور کر تے تھے بلکہ اوروں کو بھی ایک الگ راہ وروش اپنانے کی تلقین کر تے رہے


ہیئت کے اعتبارسے اقبا ل کسی نئی صنف ِ سخن کے موجد تونہیں بنے ،البتہ مو ضوع کے حوالے سے انہوں نے جدت و ندرت سے ضرور کام لیا ۔ گویا ظاہری تبدیلی کے بجائے اسکے جو ہر کو بدل ڈالا اور یوں شاعری کے جسد ِقدیم میں ایک نئی روح پھونک دی۔ اقبال کے یہاں بھی غزل ونظم کا وہی روایتی قا لب ہمیں نظر آتامگر اسمیں جو فکر و خیال کا مواد ڈھلا ہوا ہے وہ یقینا اچھوتا اورغیر روایتی ہے ۔ ذوق وشوق، نیا شوالہ، مسجدِقرطبہ، ساقی نامہ، ابلیس کی مجلس شوری، خضرِراہ، شکوہ، جوابِشکوہ، شمع اور شاعر، والدہ مرحومہ کی یاد میں، امامت، وغیرہ جیسی نظموں میں حیات وکائنات، موت، ملی زبوں حالی، عصری شعور، جیسے مسائل کو فنی مہارت کے ساتھ سمو دیا۔ اسپر مستزاد یہ کہ نازک پیکر غزل کو بھی کچھ اس انداز سے فکر و فلسفہ کے بھاری بھرکم موضوعات سے مالا مال کر دیا کہ اس کی نازک مزاجی بوجھل نہ ہوئی



میری نوائے شوق سے شور حریمِ ذات میں
غلغلہ ہائے الاماں بتکدہ صفات میں
حور و فرشتہ ہیں اسیر میرےتخیلات میں
میری نگاہ سے خلل تیری تجلّیات میں

وہی غزل جو اب تک محض قلبی واردات کے اظہار کا خوبصورت ذریعہ تھی اقبال کے ذہنِ رسا کی جولان گاہ بن گئی۔اور اس میں الٰہیات، قضاوقدر،نظریہ خودی ،موت و حیات کے تعلق سے مختلف اسرارمنکشف ہوئے


اگرکج رو ہے انجم آسمان تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِجہاں کیوں جہاں تیرا ہے یامیرا


اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدمِ خاکی زیاں تیرا ہے یامیرا


اسے صبحِ ازل انکار کی جرا ت ہوئی کیوں کر
مجھے معلوم کیا! وہ راز داں تیرا ہے یامیرا

نئی تراکیب کے ساتھ ساتھ علامہ اقبال نے اردو شاعری میں سالہا سال سے
مستعمل ناگزیرتراکیب و اصطلاحا ت کابھی استعمال کیا۔ لیکن انہوں نے ان کی معنویتاثیر ہی بدل دی۔ مثال کے طور پر لفظ "عشق"کو ہی لیجئے۔ اکثر شعراءکے یہاں عشق کی نوعیت مجازی دکھائی دیتی ہے۔ مگر اقبال کے یہاں یہ لفظ حقیقی معنوں میں نہ صرف جمالی بلکہ جلالی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر دکھائی دیتا ہے۔


مرد خدا کا عمل عشق سے صاحبِ فروغ


عشق ہے اصلِ حیات موت ہے اس پر حرام


عشق دمجبرئیل، عشق دلِ مصطفیٰ


عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام


عشق کی تقویم میں عصرِ رواں کے سوا


اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام

اقبال نے کسی خیالی معشوق کے فراق میں آنسو نہیں بہائے بلکہ شاعرانہ سوز و گداز کی توسط سے دلِمسلم میں حرارت و حرکت پیدا کرنے کی پیہم سعی کی۔ اورشاعری کو خواب و خیال کی دنیاسے نکال کر جہانِ حقیقی سے روشناس کرانے میںایک اہم رول نبھایا۔ اُن کی شاعرانہ خطابت کا مدعا "عنقا" نہیں، جو دام ِو ہم و گماں میں بھی نہ آسکے،اُنہوں نے اپنےخیال کی بلند پروازی کے دوران ہمیں ایک مانوس وجود یعنی شاہین خوددارسے متعارفکرایا۔ علامہ چاہتے تو فکر و خیال کا ایک ایسا جہاں آباد کرتے جو سراسر حقیقی دنیاسے مختلف ہوتا۔لیکن ان کی ہمدردانہ اور مصلحانہ سوچ نے انہیں حقیقت کی دنیا میں رہرہے انسان سے قطع تعلق کرنے کی ہرگز اجازت نہ دی۔ یہی وجہ ہے وہ انسان کے بارے میں ہمیشہ متفکر رہے کہ کیسے اُسے کھوئی ہوئی عظمت پھر سے ہاتھ آجائے۔ اور یہ "ٹوٹاہواتارہ ماہِ کامل" بن جائے۔ اقبال عارفوں کے عالم باطن کی معرفت بھی رکھتے تھے۔ اورخارجی اور سیاسی حالت سے بھی باخبر تھے۔ ہمیشہ اسی کوشش میں لگے رہے کہ عالم باطن اور عالم ظاہر کے مابین پیداشدہ خلیج کو کم کیا جائے۔ وہ ایک زاہد کی "ذکروفکرِ صبحگاہی" کی مخموری کیفیت کو ابلیس کی تیار کردہ "شراب طہور"کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔اگر یہ زاہد اپنے عصری حالات سے نابلد ہو۔


مست رکھو ذکروفکر صبحگاہی میں اسے


پختہ ترکردو مزاجِ خانقاہی میں اسے

اقبال ظاہرپرست انسان کی نارسائی پر بھی نالاں ہے کہ اُس نے عالمِ بیرون کو ہی اپنا قبلہ و کعبہ بنا دیا۔ اور درون ِ خانہ ہنگاموں سے بے خبررہا۔ نتیجتاًروز نت نئے ستاروں پر کمند ڈالنے کے باوجود اپنے باطنیعالم اکبر کو دریافت کرنے میں ناکام رہا



ڈھونڈنے والا ستاروں کیگزرگاہوں کا


اپنے افکار کی دنیا میں سفر کرنہ سکا

مابعد الطبیاتی نظریات کو تسلیم کرنے والا اقبال ہرگز عالم حقیقی کو سنوارنے کے عمل سے دست کش نہیںہوتے۔ اور بحثیت شاعر رات اُسے اُسکی بے قراری کا سبب پوچھتی ہے۔
خاموش ہوگیا ہے تاررباب ہستی


ہے میرے آئینے مین تصویر خواب ہستی


بستی زمین کی کیسی ہنگامہ آفریں ہے


یوں سوگئی ہے جیسے آباد نہیں ہے


شاعر کا دل لیکن ناآشناسکوں سے


آزاد رہ گیا تو کیونکر میرے فسوں سے


اور شاعر راتوں کوچھپ چھپ رونے کا سبب یوں بیاں کرتا ہے۔


میں ترے چاند کی کھیتی میں گہر بوتاہوں


چھپ کے انسانوںسے مانند سحر روتا ہوں


مجھ میں فریاد جو پنہاں ہےسناﺅں کس کو


تپش شوقِ نظارہ دکھاﺅں کس کو


ضبطِ پیغامِ محبت سے جو گھبراتاہوں


تیرے تابندہ ستاروں کو سناجاتاہوں

الغرض اقبال کی شاعری اصل میں عالمگیر مشینری ہے جسمیں اسلام کا پیغام ِحرارت و حرکت مضمر ہے۔ یہ درماندہ کارواںکے لئے صدائے جرس ہے۔
اقبال کا ترانہ بانگِ درا ہے گویا


http://abna.ir/data.asp?lang=6&Id=279523



Reply With Quote
The Following 7 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Arain007 (Saturday, April 21, 2012), aristotlekhan (Saturday, November 24, 2018), Hamidullah Gul (Saturday, April 21, 2012), kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), Robina Qadeer (Monday, April 23, 2012), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012), silza (Thursday, September 19, 2013)
  #3  
Old Sunday, April 22, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Iqbal ka fikri irtqa

اقبال کا ذہنی و فکری ارتقاء

شاعری کی ابتداء

اقبال کی شاعری پر اظہار خیال کرنے والے مفکرین اس بات پر متفق ہیں کہ ان کی شاعری کا آغاز اسی وقت وہ گیا جب وہ ابھی سکول کے طالب علم تھے اس سلسلے میں شیخ عبدالقادر کہتے ہیں،
” جب وہ سکول میں پڑھتے تھے اس وقت سے ہی ان کی زبان سے کلام موزوں نکلنے لگا تھا۔
عبدالقادر سہروردی کا کہنا ہے کہ،
” جب وہ سکول کی تعلیم ختم کر کے اسکاچ مشن کالج میں داخل ہوئے تو ان کی شاعری شروع ہوئی۔“

ان دونوں آراءمیں اگرچہ معمولی سا اختلاف ہے لیکن یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ علامہ اقبال کی شاعری کا آغاز انہی دنوں ہوگیا تھا جب وہ اپنے آبائی شہر سیالکوٹ کے چھوٹے موٹے مشاعروں میں بھی شرکت کیا کرتے تھے۔ لیکن ان کی اس زمانہ کی شاعری کا نمونہ دستیاب نہیں ہو سکا ہے۔ کچھ عرصہ کے بعد علامہ اقبال جب اعلیٰ تعلیم کے لئے لاہور پہنچے تو اس علمی ادبی مرکز میں ان کی شاعرانہ صلاحیتوں کو ابھرنے اور تربیت پانے کا سنہر ی موقعہ ہاتھ آیا ، یہاں جگہ جگہ شعر و شاعری کی محفلوں کا چرچا تھا۔ مرزا رشد گورگانی دہلوی اور میر ناظم لکھنوی جیسے پختہ کلام اور استادی کا مرتبہ رکھنے والے شاعر ےہاں موجود تھے اور ان اساتذہ شعر نے ایک مشاعرے کا سلسلہ شروع کیاتھا۔ جو ہر ماہ بازارِ حکیماں میں منعقد ہوتا رہا۔ اقبال بھی اپنے شاعرانہ ذوق کی تسکین کی خاطر اس مشاعر ے میں شریک ہونے لگے۔ اس طرح مرزا ارشد گورگانی سے وہ بحیثیت شاعر کے متعارف ہوئے اور رفتہ رفتہ انہوں نے مرزا صاحب سے اپنے شعروں پر اصلاح بھی لینی شروع کر دی۔ اس زمانہ میں وہ نہ صرف غزلیں کہا کرتے تھے۔ اور یہ غزلیں چھوٹی بحروں میں سادہ ، خیالات کا اظہار لئے ہوئی تھیں۔ البتہ شوخی اور بے ساختہ پن سے اقبال کی شاعرانہ صلاحیتوں کا اظہار ضرور ہو جاتا تھا۔ بازار حکیماں کے ایک مشاعرے میں انہی دنوں اقبال نے ایک غزل پڑھی جس کا ایک شعر یہ تھا۔

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لئے
قطرے جو تھے مرے عرق انفعال کے


اس شعر کا سننا تھا کہ محفل مشاعرہ میں موجود سخن سنج اصحاب پھڑک اُٹھے اور مرزا ارشد گورگانی نے اسی وقت پیشن گوئی کی کہ اقبال مستقبل کے عظیم شعراءمیں سے ہوگا۔
شاعری کی شہرت

اقبا ل کی شاعری کا چرچا شروع شروع میں بازار حکیماں کے مشاعروں تک محدود تھا۔ یا پھر لاہور کے کالجوں کی ادبی مجالس میں انہیں شاعر کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔ لیکن زیادہ عرصہ نہیں گذرا تھا کہ شہر کی ادبی مجالس میں انہیں ایک خوش گو اور خوش فکر نوجوان شاعر کی حیثیت سے پہنچانا جانے لگا۔ انہی دنوں انہوں نے غزل کے ساتھ ساتھ نظم پر بھی توجہ کی۔ ایک ادبی مجلس میں انہوں نے اپنی اولین نظم ”ہمالہ “ سنائی تو اسے بہت پسند کیاگیا۔ چنانچہ اقبال کی یہ پہلی تخلیق تھی جو اشاعت پذیر ہوئی۔ شیخ عبدالقادر نے اسی زمانہ میں اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لئے اپنا پہلا مشہور رسالہ ”مخزن “ جاری کیاتھا۔ اس کے پہلے شمارے میں اپریل ١٠٩١ءمیں اقبال کی یہ نظم شائع ہوئی یہ گویا ان کی باقاعدہ شاعری کا آغاز تھا۔ ان کے پہلے مجموعہ کلام ”بانگ درا“ کی اولین نظم یہی ہے۔ اور اسی نظم کے چھپنے کے بعد ان کی شہرت روز بروز پھیلتی چلی گئی۔
شاعری کے مختلف ادوار

اقبال کے ذہنی و فکری ارتقاءکی منازل کا تعین اس کی شاعری کو مختلف ادوار میں تقسیم کرکے کیا جاتا رہا ہے کیونکہ اقبال نے اپنے افکار و خیالات کے اظہار کا ذریعہ شاعری کو ہی بنایا ہے۔ یہ طریقہ سب سے پہلے شیخ عبدالقادر نے اختیار کیاتھا۔ انہوں نے ”بانگ درا“ کا دیباچہ لکھتے وقت اقبال کی شاعری پر تبصرہ کیا ہے۔ اور اسے تین ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ لیکن یہ تقسیم بعد میں اس لئے قابل قبول نہیں رہی کہ شیخ عبدالقادر کے پیش نظر اقبال کا وہ کلام تھاجو ”بانگ درا“ میں شامل ہے۔ بعد کے نقادوں کے ان کے پورے کلام کو پیش نظر رکھ کر شیخ عبدالقادر کی پیروی کرتے ہوئے اُسے مختلف ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالسلام ندوی اور طاہر فاروقی نے اقبال کی شاعری کے چار ادوار قائم کئے ہیں۔ ان دونوں کے ہاں ادوار کا تعین تقریباً یکساں ہے۔ طاہر فاروقی نے اپنی کتاب ”سیرت اقبال“ اور عبدالسلام ندوی نے اپنی کتاب” اقبال کامل“ میں ان ادوار کا تعین کیاہے۔ان دونوں کے نزدیک اقبال کی شاعری کے مندرجہ ذیل چار ادوار ہیں۔

1۔ پہلا دور از ابتداء1905ءیعنی اقبال کے بغرضِ تعلیم یورپ جانے تک کی شاعری

2۔دوسرا دور 1905ءتا 1908ءیعنی اقبال کے قیامِ یورپ کے زمانہ کی شاعری

3۔ تیسرا دور 1908ءتا 1924ءیعنی یورپ سے واپس آنے کے بعد ”بانگ درا “ کی اشاعت تک کی شاعری

4۔ چوتھا دور 1924ءتا 1938ء”بانگ درا “ کی اشاعت سے اقبال کے وفات تک کی شاعری

بعد میں ڈاکٹر سید عبداللہ نے اپنی کتاب ”طیف اقبال“ میں یہی طریقہ استعمال کرتے ہوئے صرف ایک دور کا اضافہ کرتے ہوئے اقبال کی شاعری کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا ہے۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے دراصل اقبال کی شاعری کو ان سیاسی واقعات کی روشنی میں تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے جن سے ہندوستان کے مسلمان متاثر ہوتے رہے۔ اس لئے ان کی شاعری کی تقسیم ان چار ادوار میں ہی درست ہے جو مولانا عبدالسلام ندوی اور طاہر فاروقی نے متعین کئے ہیں۔
شاعری کا پہلا دور

اقبال کی شاعری کا پہلا دوران کی شاعری کی ابتداءسے ٥٠٩١ءتک یا بالفاظِ دیگر اس وقت تک شمار کیا جاسکتا ہے جب وہ اعلیٰ تعلیم کے حصول کی خاطر یورپ روانہ ہوئے ۔ اس دور کی خصوصیات ذیل ہیں۔

روایتی غزل گوئی

اپنی شاعری کے بالکل ابتدائی زمانہ میں اقبال کی توجہ غزل گوئی کی جانب تھی اور ان غزلوں میں رسمی اور روایتی مضامین ہی باندھے جاتے تھے۔ واپس آنے کے بعد انہوں نے مرزا ارشد گورگانی سے اصلاح لینی شروع کی تب بھی ان کی غزلوں کا روایتی مزاج برقرار رہا ۔ البتہ ان کی طبیعت کی جدت طرازی کبھی کبھی ان سے کوئی ایسا شعر ضرور کہلوا دیتی تھی جو عام ڈگر سے ہٹ کر ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب استاد داغ کی زبان دانی اور شاعری کا چرچا تمام ہندوستان میں پھیلا تھا۔ اقبال نے اصلاح ِ سخن کی خاطر داغ سے رابطہ پیدا کیا۔ وہ نہ صرف اپنی غزلوں پر داغ سے اصلاح لیتے رہے بلکہ داغ کا لب و لہجہ اور رنگ اپنانے کی کوشش بھی کی۔اور داغ کی طرز میں بہت سی غزلیں کہیں ۔ چند غزلیں جو اس دور کی یادگار کے طور پر باقی رہ گئی ہیں وہ واضح طور پر داغ کے رنگ نمایاں کرتی ہیں انہی میں سے وہ مشہور غزل بھی ہے جس کے چند اشعار یہ ہیں۔

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیاتھی
تمہارے پیامی نے سب راز کھولا
خطا اس میں بندے کی سرکار کیاتھی
نظم نگاری

اقبال نے جلد ہی اندازہ کر لیاتھا کہ روایتی قسم کی غزل گوئی ان کے مزاج اور طبیعت سے مناسبت نہیں رکھتی اور انہیں اپنے خیالات کے اظہار کے لئے زیادہ وسیع میدان کی ضرورت ہے چنانچہ انہوں نے نظم نگاری کی جانب توجہ کی اور اس کا آغاز” ہمالہ “ جیسی خوبصورت نظم لکھ کر کیا جسے فوراً ہی قبول عام کی سند حاصل ہوگئی۔ اس سی ان کا حوصلہ بندھا اور انہوں نے پے درپے نظمیں لکھنی شروع کر دیں ۔ انہی نظموں میں ان کی وہ مشہور نظمیں شامل ہیں جو ”نالہ یتیم “ ”ہلال عید سے خطاب“ اور ”ابر گہر بار“ کے عنوان سے انجمنِ حمایت اسلام کے جلسوں میں پڑھی گئیں۔
مغربی اثرات

اقبال کو شروع ہی سے مغربی ادب کے ساتھ شغف رہاتھا چنانچہ اپنی شاعری کے ابتدائی زمانہ میں انہوں نے بہت سی انگریزی نظموں کے خوبصورت ترجمے کئے ہیں۔ ”پیام صبح “ ”عشق اور موت“اور ” رخصت اے بزم جہاں“ جیسی نظمیں ایسے تراجم کی واضح مثالیں ہیں۔ اس زمانہ میں انہوں نے بچوں کے لئے بھی بہت سی نظمیں لکھی ہیں۔ مثلاً مکڑاور مکھی، ایک پہاڑ اور گلہری، ایک گائے اور بکری ، بچے کی دعا، ماں کا خواب ، ہمدردی وغیرہ یہ تمام نظمیں مغربی شعراءکے کلام سے ماخوذ ہیں۔
فلسفہ خودی

اقبال کے ابتدائی دور کی کئی نظمیں اس لحاظ سے بہت اہمیت کی حامل ہیں کہ ان میں اقبال کی فلسفہ خودی کے کئی عناصر اپنی ابتدائی اور خام شکل میں موجود ہیں۔ یہی عناصر ہیں جنہیں آگے چل کر اپنی صورت واضح کی اور مربوط و منظم ہو کر اقبال کے نظام فکر میں بنیادی حیثیت اختیار کر لی اور اس کا نام فلسفہ خودی قرار پایا۔اس فلسفہ خودی کے درج ذیل عناصر ہیں۔

1 اقبال کے فلسفہ خودی میں انسان کی فضیلت ، استعداد اور صلاحیتو ں کابڑا زور دیا گیا ہے۔

2 فلسفہ خودی کا دوسرا بڑا عنصر عشق اور عقل کی معرکہ آرائی میں عشق کی برتری کا اظہار ہے۔

3 فلسفہ خودی کا ایک اور عنصر خیر و شر کی کشمکش ہے جو کائنات میں ہر آن جاری ہے۔

4 فلسفہ خودی کا ایک بہت قوی عنصر حیاتِ جاودانی اور بقائے دوام کا تصور ہے۔

5 اقبال کے فلسفہ خودی کا ایک اہم عنصر یہ ہے کہ زندگی کی جہد مسلسل خیال کرتے ہیں۔

اقبال کے اس ابتدائی دور کی شاعری کا مجموعی طور پر جائزہ لیا جائے تو ڈاکٹر سید عبداللہ کے بقول ،
یہ ایک طرح کا جستجو، کوشش، اظہار اور تعمیر کا دور ہے اقبال کی آنے والی شاعری کے بیشتر رجحانات اور شاعرانہ افکار کے ابتدائی نقوش و آثار اس شاعری میں مل جاتے ہیں۔
جبکہ ڈاکٹر عبداللہ رومانی کا کہنا ہے۔

” اس دور کا اقبال نیچر پر ست ہے اور جو چیز اس دور کی نظموں میں نمایاں نظر آتی ہے وہ تنہائی کا احساس ہے اس بھری انجمن میں اپنے آپ کو تنہا سمجھنے کا احساس اور زادگانِ فطرت سے استعفار اور ہم کلامی اقبال کی رومانیت کی واضح دلیل ہے۔

شاعری کا دوسرا دور

اقبال کی شاعری کا دوسرا دور 1905ءمیں ان کی یورپ کے لئے روانگی سے لےکر 1908ءمیں ان کے یورپ سے واپسی تک کے عرصہ پر محیط ہے۔ گویا اس دور میں ان کا وہ کلام شامل ہے جو انہوں نے اپنے قیام یورپ کے دوران لکھا اس تمام عرصہ میں انہیں شعری مشغلہ کے لئے بہت کم وقت ملا کیونکہ ان کا زیادہ وقت اعلیٰ تعلیم کے حصول پی ۔ ایچ ۔ ڈی کے لئے تحقیقی مصرفیات اور مغربی افکار کے مطالعہ میں صرف ہوتا رہا۔ شائد ان ٹھوس علمی مصروفیات کا یہی اثر تھا کہ ایک مرحلہ پر وہ شاعری کو بیکار محض تصور کرنے لگے اور اس مشغلہ کو ترک کرنے کا ارادہ کر لیا۔ شیخ عبدالقادر جو اُن دنوں انگلستان میں تھے لکھتے ہیں کہ
،
” ایک دن شیخ محمد اقبال نے مجھ سے کہا کہ ان کا مصمم ارادہ ہو گیا ہے کہ وہ شاعری کو ترک کر دیں اور قسم کھا لیں کہ شعر نہیں کہیں گے۔ میں نے ان سے کہاکہ ان کی شاعری ایسی شاعری نہیں جسے ترک کرنا چاہیے ۔ شیخ صاحب کچھ قائل ہوئے کچھ نہ ہوئے آخر یہ قرار پایا کہ آخری فیصلہ آرنلڈ صاحب کی رائے پر چھوڑا جائے ۔ آرنلڈ صاحب نے مجھ سے اتفاق رائے کیا اور فیصلہ یہی ہوا کہ اقبال کے لئے شاعری چھوڑنا جائز نہیں۔
اس زمانہ کی شاعری کی خصوصیات درجِ ذیل ہیں،
پیامبری

اقبال کی اس دور کی شاعری میں یورپ کے مشاہدات کا عکس واضح نظر آتا ہے یورپ کی ترقی کے مشاہدہ نے ان پر یہ راز کھولا کہ زندگی مسلسل جدوجہد ، مسلسل حرکت ، مسلسل تگ و دو اور مسلسل آگے بڑھتے رہنے سے عبارت ہے۔ اس لئے مولانا عبدالسلام ندوی کہتے ہیں
،
” اسی زمانہ میں ان کا زاویہ نگاہ تبدیل ہوگیا اور انہوں نے شاعر کی بجائے پیامبر کی حیثیت اختیار کر لی۔
چنانچہ انہوں نے ”طلبہ علی گڑھ کالج کے نام“ کے عنوان سے جو نظم لکھی اس میں کہتے ہیں
،
اور روں کا ہے پیام اور ، میرا پیام اور ہے
عشق کے دردمند کا طرز کلام اور ہے
شمع سحر کہہ گئی، سوز ہے زندگی کا راز
غمکدہ نمود میں ، شرط دوام اور ہے


اس طرح چاند اور تارے اور کوشش ناتمام بھی اسی پیغام کی حامل ہیں۔
یورپی تہذیب سے بیزاری

اقبال یورپ کی ترقی سے متاثر ہوئے تھے لیکن ترقی کی چکا چوند انہیں مرغوب نہیں کرسکتی ہے۔ وہ صحیح اسلامی اصول و قوانین اور قرآنی احکام پر عمل کرنے اور بری باتوں سے پرہیز کرنے کے قائل ہیں۔ مغربی تہذیب کا کھوکھلا پن ان پر ظاہر ہوتا ہے وہ اس سے بےزاری کا اظہار و اشگاف الفاظ میں کرتے ہیں۔

دیار ِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ زر اب کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پر بنے گا آشیانہ ناپا ئیدا
ر ہوگا
اسلامی شاعری

مغربی تہذیب کے کھوکھلے پن اور ناپائیداری کا ادراک کرنے کے بعد اورجس فن افکار نے اس تہذیب کو جنم دیا تھا ان کی بے مائیگی کو سمجھ لینے کے بعد اقبال آخر کار اسلامی نظریہ فکر کی جانب راغب ہوئے۔اسی تغیر فکر نے ان کے اندر ملتِ اسلامیہ کی خدمت کا جذبہ بیدار کیا۔ اس جذبے کی عکاسی ان کی نظم ”شیخ عبدالقادر کے نام “ میں ہوتی ہے۔ جہاں وہ لکھتے ہیں۔

اُٹھ کہ ظلمت ہوئی پیدا افق ِ خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کردیں
شمع کی طرح جئیں بزم گہ عالم میں
خود جلیں دیدہ اغیار کو بینا کر دیں
فارسی شاعری کا آغاز

اس دور میں اقبال نے اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں طبع آزمائی شروع کی ۔ فارسی زبان کی وسعت اور اس کے پیرایہ اظہار و بیان کی ہمہ گیری کے ساتھ اقبال کو اپنی شاعری کے وسیع امکانات کی بڑی مطابقت نظر آئی۔

اس دور تک پہنچتے پہنچتے اقبال کے افکار و خیالات کسی قدر واضح اور متعین شکل اختیار کرنے لگتے ہیں۔ یورپی تہذیب کی ملمع کاری اور کھوکھلے پن کا ان پر اظہار ہوگیا ہے اور وہ ملک کی نجات مشرقی افکار و نظریات میں پانے لگے ہیں۔ اس ملت کے لئے ان کے پاس اب یہ پیغام ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں پر سختی سے کار بند ہوں۔
شاعری کا تیسرا دور

اقبال کی شاعری کا تےسرا دور 1908ءمیں یورپ سے ان کی واپسی کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔ اور 1924ءمیں ”بانگ درا“ کی اشاعت تک شمار کیا جاتا ہے یہ دور ان کے افکار و خیالات کی تکمیل اور تعین کا دور ہے اس دور کی خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں۔

وطنیت و قومیت

اقبال نے قیام یورپ کے دوران اُن اسباب کا بھی تجزیہ کیا تھا جو مغربی اقوام کی ترقی اور عروج ممدو معاون ہونے اور ان حالات کا بی گہرا مشاہدہ کیاتھا جو مشرقی اور خاص طور پر اسلامی ممالک کے زوال اور پسماندگی کا باعث بنے۔ ان کی تیز بین نظروں کے سامنے اب وہ تمام حربے بے نقاب تھے جو مغربی اقوام نے مشرق کو غلام بنائے رکھنے کے لئے وضع کر لئے تھے۔ ان سب حربوں میں زیادہ خطرناک حربہ وطنیت اور قومیت کا نظریہ تھا۔ اس تصور کو ملتِ اسلامیہ کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ سمجھنے لگے اِ سی لئے انہوں نے کہا کہ
،
ان تازہ خدائوں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اقوام میں مخلوق ِ خدا بٹتی ہے اس سے
قومیت اسلام کی جڑ کٹتی ہے اس سے

اسلامی شاعری

اس دور میں اقبال صرف وطنیت اور قومیت کے مغربی نظریہ کو مسترد کرکے اس کے مقابلے میں ملت کے اسلامی نظریہ کی تبلیغ ہی نہیں کرتے۔ بلکہ اب ان کی پوری شاعری کا مرکز و محور ہی اسلامی نظریات و تعلیمات بن گئے۔ اگرچہ اس زمانہ میں انہوں نے دوسرے مذہبی پیشوائوں مثلاً رام اور گورونانک وغیرہ کی تعریف میں بھی نظمیں لکھیں ہیں۔ لیکن بحیثیت مجموعی ان کی پوری توجہ اسلام اور ملت اسلامیہ کی جانب ہے۔ ”شمع و شاعر“ اور ”خضر راہ“ اس زمانے کے حالات کا بھرپور جائزہ لیتی ہوئی نظمیں ہیں۔
فلسفہ خودی

اس دور میں اقبال کا فلسفہ خودی پوری طرح متشکل ہو کر سامنے آیا۔ ان کی اس دور کی شاعری تمام کی تمام اسی فلسفہ کی تشریح و توضیح ہے۔ چنانچہ اردو شاعری میں بھی اس فلسفہ کا اظہار اکثر جگہ موجود ہے اسی زمانہ میں انہوں نے کہا
،
تور از کن فکاں ہے اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا!
خودی کا راز داں ہو جا ، خدا کا ترجماں ہوجا
خودی میں ڈوب جا غافل ، یہ عین زندگانی ہے
نکل کر حلقہ شام و سحر سے جاوداں ہوجا
شاعری کا چوتھا دور

یہ دور 1924ءسے لے کران کے وفات تک ہے اس کی خصوصیات درج ذیل ہیں۔
طویل نظمیں

”بانگ درا“ میں اقبال کی کئی نظمیں شامل ہیں جن میں سے اکثر خارجی اور سیاسی محرکات کے زیر اثر ہیں۔ یہ محرکات چونکہ بہت ہیجان خیز تھے اس لئے نظموں میں جوش و جذبہ کی فضا پوری طرح قائم رہی ہے۔ مثال کے طور پر ”شکوہ“ ”جواب شکوہ“ ، ”شمع و شاعر“ ، طلوع اسلام“ وغیرہ نظموں کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔ کئی طویل نظمیں ”بال جبریل “ میں ہیں جیسے ”ساقی نامہ“ وغیرہ۔

نئے تصورات

اس دور کے کلام میں کچھ نئے تصورات سامنے آئے مثلاً شیطان کے متعلق نظم ” جبریل ابلیس
ہے مری جرات سے مشت خاک میں ذوق نمود
میرے فتنے جامہ عقل و خرد کا تاروپو
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصہ آدم کو رنگیں کر گیا کسِ کا لہو
گزشتہ ادوار کی تکمیل

بیشتر اعتبار سے یہ گزشتہ ادوار کی تکمیل کرتا ہے۔ مثلاً پہلے ادوار میں وہ یورپی تہذیب سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں جبکہ اس دور میں وہ اس کے خلاف نعرہ بغاوت بلندکرتے ہیں اور اس کے کھوکھلے پن کو واشگاف کرتے ہیں۔
افکار و نظریات میں تغیر و تضاد

اقبال کی شاعری کے مندرجہ بالا تفصیلی جائزہ سے یہ بات پوری عیاں ہو جاتی ہے کہ وہ فکری ارتقاءکی مختلف منازل سے ضرور گزرے ہیں۔ لیکن فکری اور نظریاتی تضاد کا شکار کبھی نہیں ہوئے ۔ ابتدائی دور میں وہ وطن پرست تھے تو آخر وقت تک محب وطن رہے ہیں لیکن وطن کی حیثیت انہوں نے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا جو انسان کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرکے آپس میں برسرِ پیکار رہتی ہے۔
کچھ عرصہ بعد انہیں یہ شعور حاصل ہوکہ وہ ایسی ملت کے فرد ہیں جو جغرافیائی حدود میں سمونا نہیں جانتی اس کا نتیجہ یہ نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنے ہم وطن دیگر مذاہب کے پیرووں کے لئے نفرت کا اظہار کیا ہو۔بلکہ صرف یہ ہوا کہ انہوں نے اپنا تشخص اس ملت کے حوالہ سے کیا جس کا وہ حصہ تھے۔ یہ ان کی فکری ارتقاءکے مختلف مراحل کے نشانات ہیں اور وہ بہت جلد وطن اور ملت کے متعلق ایک واضح نکتہ نظر کو اپنا چکے تھے ۔ اس کے بعد وہ آخر وقت تک اسی نکتہ نظر کی وضاحت اور تبلیغ میں مصروف رہے اور کسی مقام پر کوئی الجھائو محسوس نہیں کیا۔
Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
aristotlekhan (Wednesday, November 28, 2018), kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), Robina Qadeer (Monday, April 23, 2012), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012)
  #4  
Old Sunday, April 22, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default iqbal ka tasawur e khudi

اقبال کا تصورِ خودی

اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ”خودی“ کہہ سکتے ہیں اس لئے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے اور انہوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے۔ اس محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے۔ انسان کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیاہے؟ اس طرح کے اور جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے سرگرداں رہا ہے۔اس طرح کے سوالات جن سے انسان کے وجود کا اثبات ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں اقبال سے پہلے غالب نے بھی اُٹھائے تھے۔

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے
سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں
ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے


لیکن اقبا ل کے سوالات و جوابات کی نوعیت اس سلسلے میں غالب سے بہت مختلف ہے، یہ غالب نے
”عالم تمام حلقہ دامِ خیال ہے“
اور ہر چند کہیں کہ ہے نہیں ہے۔“

کے عقیدے سے قطع نظر کرکے ، وجدانی طور پر ایک لمحے کے لئے محسوس کیا ہے اسے بیان کر دیا ہے اقبال نے ان سوالوں کے جواب میں دلائل و برہان سے کام لیا ہے۔ اور اسے ایک مستقل فلسفہ حیات میں ڈھال دیا ہے۔

یہی فلسفہ حیات ہے جو بعض عناصرِخاص سے ترکیب پا کر اقبال کے یہاں مغرب و مشرق کے حکمائے جدید سے بالکل الگ ہوگیا ہے اس کا نام فلسفہ خودی ہے اور اقبال اسی کے مفسر و پیغامبر ہیں ۔ اس فلسفے میں خدابینی و خودبینی لازم و ملزوم ہیں۔ خود بینی ، خدابینی میں سے خارج نہیں بلکہ معاون ہے۔ خودی کا احساس ذات خداوند ی کا ادراک اور ذات ِ خداوندی کا ادراک خودی کے احساس کا اثبات و اقرار ہے خدا کو فاش تر دیکھنے کے لئے خود کو فاش تر دیکھنا از بس ضروری ہے۔


اگر خواہی خُدارا فاش دیدن
خودی رافاش تر دیدن بیا موز

اقبال کا تصورخودی

تصو ر خودی کو اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جائے تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے اقبالیات کے ہر نقاد نے خودی پر کسی نہ کسی شکل میں اظہار خیال کیا ہے۔ڈاکٹر سےد عبداللہ اس سلسلے میں لکھتے ہیں۔

خودی خود حیات کا دوسرا نام ہے۔ خودی عشق کے مترادف ہے۔ خودی ذوق تسخیر کا نام ہے۔ خودی سے مراد خود آگاہی ہے۔ خودی ذوق طلب ہے ۔ خودی ایمان کے مترادف ہے۔ خودی سرچشمہ جدت و ندرت ہے۔ خودی یقین کی گہرائی ہے۔ خودی سوز حیات کا سرچشمہ ہے اور ذوق تخلیق کا ماخذ ہے۔
اقبال کے ہاں خودی سے مراد

خودی فارسی زبان کا لفظ ہے جو لغوی اعتبار سے درج ذےل معانی رکھتا ہے
١) انانیت، خود پرستی ، خود مختاری ، خود سری ، خود رائی
ب) خود غرضی
ج) غرور ، نخوت ، تکبر

”خودی“ کا لفظ اقبال کے پیغا م یا فلسفہ حیات میں تکبر و غروریا اردو فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا۔ خودی اقبال کے نزدیک نا م ہے احساسِ غیرت مندی کا ،جذبہ خوداری کا اپنی ذات و صفات کا پاس و احساس کا، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کا ضامن سمجھنے کا، مظاہراتِ فطرت سے برسر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے ”خودی“ زندگی کا آغاز ، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد وملت کی ترقی و تنزل ، خود ی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام ، زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔ اس کی کامرانیاں اور کار کشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں۔اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے۔

خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حداس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر
ہوئی خاک آدم میں صورت پذیر
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے


کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لاالہ الا اللہ کا اصل راز خودی ہے توحید ، خودی کی تلوارکو آب دار بناتی ہے اور خودی ، توحید کی محافظ ہے۔

خودی کا سرِ نہاں لاالہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لاالہ الا اللہ


کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے۔ قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشائی کی شان پیدا ہو جاتی ہے۔ اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی تصرف میں آجاتا ہے۔

خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی
ہے سنجرل و طغرل سے کم شکوہِ فقیر
خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر


ڈاکٹر افتخار صدیقی” فروغِ اقبال “ میں اقبال کے نظریہ خودی کے بارے میں رقمطراز ہیں۔

” نظریہ خودی ، حضرت علامہ اقبال کی فکر کا موضوع بنا رہا ۔ جس کے تما م پہلوئوں پر انہوں نے بڑی شرح و بسط کے ساتھ روشنی ڈالی ہے ۔ اقبال نے ابتداءہی میں اس بات کو واضح کر دیا کہ خودی سے ان کی مراد غرور و نخوت ہر گز نہیں بلکہ اس سے عرفان ِ نفس اور خود شناسی مراد ہے۔
چنانچہ ”اسرار خودی“ کے پہلے ایڈیشن کے دیباچے میں لکھتے ہیں
،
” ہاں لفظ”خودی “ کے متعلق ناظرین کو آگاہ کردینا ضروری ہے کہ یہ لفظ اس نظم میں بمعنی ”غرور “استعمال نہیں کیا گیا جیسا کہ عام طور پر اُردو میں مستعمل ہے اس کا مفہوم محض احساس نفس یا تعینِ ذات ہے۔



تقریباً یہی مفہوم اقبال کے اس شعر میں ادا ہوا ہے۔

خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں


اقبال کے تصور ِ خودی میں صوفیانہ فکر کے بیشتر عناصر ملتے ہیں لیکن صوفیوں کی خودی کا تصور روحانی ہوتا ہے ان کی روحانی انا اس درجہ محکم ہے کہ وہ مادی خودی کو وجود مطلق کا جز قرار دیتے ہیں۔ جبکہ اقبال خودی کے مادی لوازم کو نظر انداز نہیں کرتے اور اس مادی خودی کو بھی بر حق اگرچہ تغیر پذیر جانتے ہیں، صوفی وجود اور خودی کو تسلیم کرلینے کے بعد فنائے خودی میں اپنی نجات سمجھتا ہے۔ اُس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اس خودی کو بے خودی میں بد ل دے تاکہ وہ اپنی اصل سے مل جائے ۔ صوفی اسے ترکِ خود یا نفی خود کے نام سے یاد کرتے ہیں جبکہ اقبال عارضی خودی کی اہمیت تسلیم کرتے ہیں اور بے خودی تک پہنچنے کے لئے خودی کو ہی ذریعہ اور وسیلہ بناتے ہیں۔
اقبال کے تصور خودی کے ماخذ

اقبال کے تصور خودی کا ماخذ ڈھونڈنے کے لئے نقادوں نے طرح طرح کی قیاس آرائیاں کیں ۔ اس سلسلے میں نطشے، برگساں ، ہیگل، اور لائڈ ماتھر وغیر ہ کا نام لیا گیا ۔ جبکہ خود اقبال نے اس قسم کے استفادے سے انکار کیا۔ خلیفہ عبد الحکیم کے خیال میں اقبال نطشے سے نہیں فشٹے سے متاثر تھے۔ کیونکہ نطشے تو منکر خدا ہے۔ اقبال کو نطشے کی تعلیم کا وہی پہلو پسند ہے جو اسلام کی تعلیم کا ایک امتیازی عنصر ہے۔ اگرچہ ”اسرار خودی“ کے اکثر اجزاءفلسفہ مغرب سے ماخوذ ہیں اور یہاں مسلمان فلسفیوں کے خیالات بہت کم ہیں لیکن اسلامی تصوف میں عشق کا نظریہ اقبال نے مولانا روم سے لیا ہے۔ اور اقبال کی شاعری کا انقلاب انگیز پیغام دراصل رومی کے فیض کا نتیجہ ہے۔ اس بارے میں عبدا لسلام ندوی لکھتے ہیں کہ
،
” خودی کا تصور ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ کی اساس ہے اور اسی پر ان تما م فلسفیانہ خیالات کی بنیاد ہے بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ یورپین فلسفہ بالخصوص نطشے سے ماخوذ ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس تخیل کو ڈاکٹر صاحب نے مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔
بقول خلیفہ عبدالحکیم
،
رومی انفرادی بقا ءکا قائل ہے اور کہتا ہے کہ خدا میں انسان اس طرح محو نہیں ہو جاتا جس طرح کہ قطرہ سمندر میں محو ہو جاتا ہے۔ بلکہ ایسا ہوتا ہے جیسے کہ سورج کی روشنی میں چراغ جل رہا ہے جیسے لوہا آگ میں پڑ کر آگ ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اس کی انفرادیت باقی رہتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے فلسفہ خودی کے لئے بھی یہی نظریہ مناسب تھا اس لئے انہوں نے اس کو مولانا روم سے اخذ کیا ہے۔“



اس سے یہ مطلب نہیں سمجھنا چاہیے کہ ڈاکٹر صاحب کے فلسفے کی اپنی کوئی حیثیت نہیں بلکہ اُن کے فلسفہ خودی کے تمام اساسی مضامین درحقیقت قرآن سے ماخوذ ہیں۔
خودی اور فطرت

اقبال کے نزدیک خودی اپنی تکمیل اور استحکام کے لئے غیر خودی سے ٹکراتی ہے جس نسبت سے کوئی شے خودی میں مستحکم اور غیر خو د پر غالب ہے اُسی نسبت سے اُس کا درجہ مدارج حیات میں نفیس ہوتا ہے۔مخلوقات میں انسان اس لئے برتر ہے کہ اس کی ذات میں خودی ہے ۔ اور اس خودی سے فطرت ِ انسانی مشاہدہ کی پابند ہے۔ اقبال کہتا ہے کہ خودی کی منزل زمان و مکاں کی تسخیر پر ختم نہیں ہوتی شاعر کا چشمِ تخیل انسان کی جدوجہد و عمل کے لئے نئے نئے میدان دکھاتا ہے۔

خودی کی یہ ہے منزل اولیں
مسافر یہ تیرا نشیمن نہیں
تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے تو جہاں سے نہیں

خودی اور عشق

خودی کو آگے بڑھانے میں ایک چیز بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اقبال نے اسے کبھی آرزو اور کبھی عشق کا نام دیا ہے۔ ارتقائے خودی میں عشق سب سے بڑا محرک ثابت ہوتا ہے۔

عشق سے پیدا نوائے زندگی میں زیر و بم
عشق سے مٹی کی تصویروں میں سوزِ دم بدم
اقبال نے عشق کے کئی مدارج بیان کئے ہیں،
عشق فقیہہ حرم ، عشق امیر جنود
عشق ہے ابن اسبیل ، اس کے ہزاروں مقام


چنانچہ کہیں عشق جمالی صورت اختیار کر لیتا ہے اور کہیں جلالی رنگ میں جھلک دکھاتا ہے۔

عشق کے مضراب سے نغمہ تارِ حیات
عشق سے نورِ حیات عشق سے نارِ حیات


ڈاکٹر عابد حسین ”خودی اور عشق کا راستہ واضح کرتے ہوئے اپنے مضمون’ ’ اقبال کا تصور خودی میں لکھتے ہیں
،
” اس راہ میں ایک رہنما کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اور وہ رہنما عشق ہے عشق اُس مرد ِکامل کی محبت کو کہتے ہیں جو معرفت نفس کے مدارج سے گزر کر خودی کی معراج پر پہنچ چکا ہے۔
مردِ خدا کاعمل ، عشق سے صاحب فرو غ
عشق ہے اصلِ حیات ، موت ہے اس پر حرام


خودی اور فقر

طلب و ہدایت کے لئے کسی مرد ِ کامل کے آگے سرِ نیاز جھکانا توخودی کو مستحکم کرتا ہے۔ لیکن مال و دولت و منصب کے لئے دست نگر ہونا اس ضعیف بناتا ہے۔ گدائی صرف اِ سی کا نام نہیں کہ مفلس دولت مند کا طفیلی بن جائے بلکہ دولت جمع کرنے کا ہروہ طریقہ جس میں انسان محنت نہ کرے بلکہ دوسروں کی محنت سے فائدہ اُٹھائے اقبال کے نزدیک گداگری ہے۔ حتیٰ کہ بادشا ہ جو غریبوں کی کمائی پر بسر کرتا ہے سوال و گداگر ی کا مجرم ہے

میکدے میں ایک دن ایک مرد زیرک نے کہا
ہے ہمارے شہر کا سلطان گدائے بے نوا
اس کے نعمت خانے کی ہر چیز ہے مانگی ہوئی
دینے والا کون ہے مرد ِ غریب و بے نوا


گدائی اور فقر میں زمین و آسمان کا فرق ہے گدائی مال کی حاجت میں دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا تا ہے جبکہ فقر مادی لذتوں سے بے نیاز کائنات کی تسخیر کرنا، فطرت پر حکمرانی اور مظلوموں کو ظالموں کے پنجے سے نجات دلانا ہے۔

ایک فقر سکھاتا ہے صیاد کو نخچھری
اک فقر سے کھلتے ہیں اسرارِ جہانگیری
اک فقر سے قوموں میں مسکینی و دلگیری
اک فقر سے مٹی میں خاصیت ِ اکسیری

تربیت خودی کے تین مراحل

خودی سے تعمیری کام لینے کے لئے اس کی تربیت ضروری ہے بے قید و بے ترتیب خودی کی مثال شیطان ہے۔ اقبال بھی گوئٹے کی طرح اسے تخلیق کی عظیم الشان قوت سمجھتے ہیں جو صراط ِ مستقیم سے بھٹک گئی ہے۔خودی کی منازل کے علاوہ تربیت خودی کے مراحل انتہائی اہم ہیں یہ مراحل تین ہیں ۔
1) اطاعت الہٰی:۔ اقبال کے نزدیک خودی کا پہلا درجہ اطاعت ہے یعنی کہ اللہ کے قانون ِ حیات کی پابندی کرنا

2) ضبط نفس:۔ دوسرا درجہ ضبط نفس ہے انسان نفس کو جس کی سرکشی کی کوئی حد نہیں قابو میں لائے

3) نیابت الہٰی:۔ ان دونوں مدار ج سے گزرنے کے بعد انسان اس درجے پر فائز ہو جائے گا

۔
جسے انسانیت کا اوج کمال سمجھنا چاہیے ۔ یہ نیابت الہٰی کا درجہ ارتقائے خودی کا بلند ترین نصب العین ہے۔
خودی اور خدا کا تعلق

طالب خودی ”مرد خدا“ کی محبت اس قدر برتر اور سرشار ہوتی ہے اور کیف و سرور کی وجہ سے خدا کی اتنی محبت اس کے دل میں پیدا ہوجاتی ہے کہ وہ خودی کے کل مراحل طے کرنے کے باوجود اپنے آپ کو ناتمام محسوس کرتا ہے اسی کشش کا نام عشق ِ حقیقی ہے۔

عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو، یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیطِ بیکراں ، میں ہوں ذرا سی آب جو
یا مجھے ہم کنار کر ، یا مجھے بے کنا ر کر


متاع بے بہا ہے درد و سوز آرزو مندی
مقام ِ بندگی دے کر نہ لوں شانِ خداوندی


بندگی میں انسان کو سکون ملتا ہے بحرحال یہ جدائی انسان کے لئے مبارک ہے کیونکہ یہی خودی وجہ حیات ہے۔
بے خودی

اقبال کے فلسفہ خودی کی تفصیلات اور جزئیات کے مطالعہ سے اس قانون کا علم ہوتا ہے جس پر عمل کرکے انسان اس درجہ کو پالینے کے قابل ہو جاتا ہے جو اسے حقیقتاً خلیفتہ اللہ کے منصب کا اہل بنا دیتا ہے۔ اس قانون کی پابندی خودی کی تکمیل کے لئے لازمی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ انسان تنہائی کی زندگی نہیں گزارتا وہ لازماً کسی معاشرہ ، کسی قوم اور کسی ملت کا فرد ہوتا ہے۔ فرد اور ملت کے درمیان رابطہ کے بھی کچھ اصول اور قوانین ہوتے ہیں اسی رابطے اور قوانین و اصولوں کواقبال نے بے خودی سے تعبیر کیا ہے

اس رابطہ کو واضح کرنے کے لئے اقبال نے تصوف کی ایک مشہور اصطلاح استعمال کی ہے۔ فارسی اور اردو کے صوفی شعرا نفس انسانی کو قطرے سے اور ذات ایزدی کو دریا سے تشبیہ دیتے آئے ہیں اور ان کا عقیدہ ہے کہ

” عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا“
لیکن اقبال نے اس تمثیل کو فرد اور ملت کے درمیان ربط و تعلق ظاہر کرنے کے لئے استعما ل کیا ہے۔ فرد کی مثال ایک قطرہ کی ہے اور ملت دریا کی طرح ہے۔ مگر اقبال کی نظر میں یہ قطرہ ، دریا میں مل جانے کے بعد اپنی ہستی کو فنا نہیں کر ڈالتا بلکہ اس طریقہ سے اس کی ہستی مزید استحکام حاصل کر لیتی ہے۔ وہ بلند اور دائمی مقاصد سے آشنا ہو جاتا ہے ۔ اس کی قوتیں منظم اور منضبط ہو جاتی ہیں اور اس کی خودی پائیدار اور لازوال بن جاتی ہے۔

فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں

موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

دراصل ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ بے خودی سے اقبال کی مراد اجتماعی خودی ہے۔
انفرادی خودی اور اجتماعی خودی کا تعلق

ڈاکٹر سید عبداللہ ”طیف اقبال ‘ ‘ میں اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں
”خودی کی ایسی صورت جو اپنے علاوہ دوسرے انسانوں کو نظر انداز کر ے وہ تخریب اور بگاڑ کی ایک شکل ہے۔ لہٰذا انسانی تجربے نے بتا یا کہ خودی کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ہم رنگ قسم کی خودی ، شعور، سے متحد ہو جاتی ہے۔ یہاں سے ایک اجتماعی خودی کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ جس طرح افراد کا شعور ایک جزو ہوتا ہے، اسی طرح اجتماعی خودی کا شعور بھی انفرادی خودی کے مانند ہم رنگ کے ساتھ شیرازہ بند ہوتا ہے۔

گویا انفرادی خودی اور اجتماعی خودی ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم نہیں ہیں ۔ بلکہ ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں۔ فرد اپنی خودی کے ارتقاءاو ر استحکام کے بعد ملت کا ایک بیش قیمت سرمایہ بنتا ہے۔ اور ملت اپنے آئین اور قوانین کو فرد پر لاگو کرکے اُس کی خودی کو تعمیری اور تخلیقی حدود کی پابند رکھتی ہے۔ یہی وہ حقیقی ربط ہے جو فرد اور ملت کے درمیان لازماً موجود ہونا چاہیے۔یعنی اقبال کی بے خودی دراصل ملت اسلامیہ یا اسلامی ریاست کا قیام ہے۔ جس کے قانون کے اندر رہتے ہوئے خودی کے مکمل اور بہترین تربیت ہو سکتی ہے۔
تکمیل خودی کے لئے ملت اسلامیہ کی ضرورت

مندرجہ بالا بحث سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ خالص فلسفیانہ نظریے کی حد تک انسانیت کا ایک عالمگیر تصور ممکن ہے۔ لیکن جب اس تصور کو ایک معین اور زندہ نصب العین کی صورت دی جائے تو وسیع سے وسیع نظر رکھنے والا شخص بھی اس بات پر مجبور ہو جاتا ہے کہ انسانیت کی تکمیل کا معیار کسی خاص ملت کو بنائے۔ اقبال کے نزدیک ملت بیضائے اسلام اس معیار پر پوری اترتی ہے۔ ان کی نظر میں انسان کی خودی کی حقیقی تکمیل اور فرد و ملت کا متوازن ربط صرف اسلام ہی کی ذریعہ ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرد ملت کا متوازن ربط صرف اسلام ہی کے ذریعہ ممکن ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسلام میں فرد اور ملت کا رشتہ نسل یا وطن کے روابط کی بنیاد پر استوار نہیں ہوتا بلکہ توحید اور رسالت کا وسیع اور ہمہ گیر عقیدہ اس کی بنیاد بنتا ہے۔
جہاں تک فرد کا تعلق ہے اسے حقیقی آزادی ملت اسلامیہ کے اندر ہی حاصل ہوئی کیونکہ اسی ملت نے نوع انسان کو حقیقی معنوں میں حریت، مساوات، اور اخوات کا نمونہ دکھایا ۔ توحید کے عقیدہ نے نسل و انسب کے امتیاز کو مٹا دیا ۔ غریبوں کو امیروں اور زیر دستوں کو زبردستوں کے تسلط سے آزاد کرکے عدل و انصاف کے اعلیٰ ترین معیار کو قائم کئے اور اسلام کے رشتوں سے انسانوں کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا ۔ دوسری جانب جماعت کے بارے میں بھی یہی ملت اعلیٰ ترین معیار قائم کرتی ہے۔ڈاکٹر سید عبداللہ اس سلسلہ میں فرماتے ہیں
ملت محمد کوانسانی اجتماعی خودی کے لئے ایک مثالی جماعت کہا جاسکتا ہے۔
بے خودی سے خودی کا استحکام

آخر ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ فرد کے لئے جس طرح اپنی خودی کی تربیت ، ارتقاءاور استحکام ضروری ہے اسی طرح اس خودی کو ایک آئین اور قانون کی حدود میں لانا بھی ضروری ہے۔ یہ آئین اور قانون وہ ملت مہیا کرتی ہے۔ جس میں وہ فرد رکن ہوتا ہے۔ اس آئین کی حدود میں آنے کے بعد وہ تمام افراد جن کی انفرادی خودی تربیت کے مراحل سے گزر چکی ہے، ایک اجتماعی خودی کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ اجتماعی خودی مربوط ہو جانے کے بعد ایک جگہ پھر افراد کی انفرادی خودی کے تحفظ اور استحکام کے وسائل پیدا کرتی ہے۔

لیکن ایسی ملت جو انفرادی اور اجتماعی طور پر خودی کی تربیت اور استحکام کے وسائل پیدا کر سکے اور دنیا میں منشائے خداوندی کو پورا کرنے کا باعث بن سکے۔ وہ صرف ملتِ اسلامیہ ہی ہو سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ اور کسی قوم میں وہ خصوصیات موجود نہیں جو ایک عالمگیر انسانی برادری کی تشکیل کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ صرف ملت اسلامیہ ہی وہ قوم ہے جو رنگ ، نسل ، زبان ، ملک ، علاقہ اور قبیلہ جیسے محدود امتیازات کو ختم کرکے ایک وسیع انسانی برادری کا تصور دیتی ہے۔ ایسا ہمہ گیر اور وسیع تصور دنیا کی اور کسی قوم کے پاس موجود نہیں ہے۔
احساسِ خودی کی توسیع

بے خودی یا اجتماعی خودی کی تشکیل کے بعد ملت کے احساس خودی کی تو سیع کے لئے جن ذرائع کی ضرورت ہے وہ علم ِ کائنات اور تسخیر کائنات ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ ملت اپنی تاریخ اور روایات کی حفاظت کرے ۔ تاریخ اقوام کی زندگی کے لئے قوتِ حافظہ کا درجہ رکھتی ہے۔ اور حافظہ ہی وہ چیز ہے جس سے مختلف ادراکات کے درمیان ربط اور تسلسل پیداہوتا ہے۔ خارجی حیات کے ہجوم میں ”میں “ یا ”ان “ کا مرکز حافظہ کے ذریعے ہی ہاتھ آٹا ہے ۔ گویا حافظہ کے ذریعے فرد اپنے احساس ِ خودی کی حفاظت کرتا ہے اس طرح تاریخ کے ذریعہ ملت کی زندگی کے مختلف ادوار میں ربط اور تسلسل پیدا ہوتا ہے۔ یہی شیرازہ بندی ہے اس کے شعورِ خودی کی کفیل اور اس کے بقائے دوام کی ضامن بنتی ہے۔ دنیا میں وہی قومیں زندہ رہتی ہیں جو اپنے حال کا رشتہ ایک طرف ماضی سے اور دوسری طرف مستقبل سے استوار رکھتی ہے۔

تمام بحث سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ اقبال بے خودی یا اجتماعی خودی کی صورت میں ایک ایسی ملت یا ریاست کا تصور پیش کرتے ہیں جس کے زیر اثر رہتے ہوئے انفرادی خودی کو استحکام اور دوام حاصل ہو سکے۔
مجموعی جائزہ

الغرض خودی کا تصور اقبال کی شاعری کا بنیادی تصور ہے جس کے بغیر ہم اقبال کی شاعری کا تصور بھی نہیں کرسکتے یہ اقبال کے فلسفہ حیات کی بنیادی اینٹ ہے خودی کا لفظ اقبال نے غرور کے معنی میں استعمال نہیں کیا بلکہ اس کا مفہوم احساسِ نفس یا اپنی ذات کا تعین ہے یہ ایک چیز ہے ، جس کے بارے میں احادیث میں بھی موجود ہے۔

ترجمہ:۔ ”یعنی جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا
یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال ہمیں اپنی ذات کے عرفان کا جو درس دے رہے ہیں وہ دراصل اپنے رب کو پہچاننے کی تلقین کا دوسرا نام ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

http://ur.wikipedia.org/wiki/
Reply With Quote
The Following 3 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), Robina Qadeer (Monday, April 23, 2012), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012)
  #5  
Old Sunday, April 22, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default iqbal aur khudi

اقبال کا تصورِ خودی

پروفیسر محمد اقبال خان
علامہ اقبال نے فرمایا ہے:

خودی وہ بحر ہے جس کوئی کنارہ نہیں
تو آبِ جُو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں

حقیقت یہ ہے کہ خودی ایک بحر بے کنار ہے لیکن بدقسمتی سے ہم نے اسے ایک چھوٹی سی ندی سے زیادہ نہیں سمجھا۔ خودی کیا چیز ہے؟ اس کی وضاحت ایک مرتبہ علامہ اقبال نے ڈاکٹر نکلسن کی خواہش پر کی تھی۔ علامہ صاحب کی وضاحت کا خلاصہ یہ تھا:

”حیات تمام و کمال انفرادی حیثیت رکھتی ہے ۔ ہر موجود میں انفرادیت پائی جاتی ہے ایسی کوئی شے موجود نہیں جسے حیات ِکلّی کہہ سکیں۔ خود خدا بھی ایک فرد ہی ہے لیکن ایسا فرد جس کا عدیل و نظیر نہیں۔ کائنات افراد کے مجموعے کا نام ہے مگر اس مجموعے میں جو نظم و ترتیب ہم دیکھتے ہیں وہ کامل و دائم نہیں ۔ ہمارا قدیم تدریجی طور پر بد نظمی اور انتشار سے نظم و ترتیب کی طرف بڑھ رہا ہے اور کائنات مراتبِ تکمیل طے کر رہی ہے۔ ہنوز مکمل نہیں ہوئی۔فعلِ تخلیق بھی برابر جاری ہے اور جس حد تک انسان کائنات کے اندر ربط و ترتیب پیدا کرنے میں مدد دیتا ہے اس حد تک گویا وہ خود بھی فعلِ تخلیق میں حصہ لیتا ہے ۔ حیات دراصل ایک آگے بڑھنے والی اور کائنات کو اپنے اندر جذب کرلینے والی حرکت کانام ہے۔ انسان کا اخلاقی اور مذہبی منتہائے مقصود اپنی انفرادی ہستی کو فنا کر دینا نہیں بلکہ اسے قائم رکھنا ہے۔ اور اس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اپنے اندر زیادہ سے زیادہ انفرادیت پیدا کرے اور زیادہ سے زیادہ بے عدیل بنے۔ پس فرد کا دوسرا نام حیات ہے اور فرد کی اعلیٰ ترین صورت جو اس وقت تک معلوم ہو سکی ہے وہ خودی ہے۔

اقبال کے نزدیک خودی اپنی تمام جلوہ آرائیوں کے ساتھ اس کائنات میں اپنا اظہار چاہتی ہے اس کی اصل روح روحانی ہے اقبال فرد کی ترقی کے لیے خودی کی تربیت پر بہت زور دیتے ہیں کیونکہ اس کی تربیت انسان کی زندگی کا حقیقی نصب العین ہے۔

جس دور میں اقبال نے آنکھ کھولی وہ مسلمانوں کے لیے ابتلاءاور تکالیف کا دور تھا ۔ دنیا میں مسلمان جہاں کہیں بھی تھے غلامی کی زنجیر پہنے ہوئے تھے۔ مسلمانوں کے علاقوں کو یورپی اقوام نے کالونیاں بنا رکھا تھا۔ مسلمان حوصلہ ہا ر چکے تھے اور حالات سے ناامید ہوگئے تھے ۔ لیکن شاعرِ مشرق قطعاً ناامید نہیں تھے ۔ آپ کے خیال میں مسلمانوں کی پستی اور زوال کا سبب خودی کو بھولنا تھا۔ شاعرِ مشرق کے نزدیک خودی کا مطلب غرور تکبر کرنا نہیں نہ ہی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا خود ی ہے بلکہ خودی کامطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پہچان سکے ۔ دوسرے لفظوں میں خودی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر جو صلاحیتیں اور قابلیتیں موجود ہیں اُن کو پہچاننا اور ان کا صحیح استعمال ہے۔

انسان اشرف المخلوقات ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے جبکہ باقی ساری کائنات کو انسان کے لیے پیدا کیا ۔ یہ انسان کا کام ہے کہ اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو استعمال کرکے تسخیرِ کائنات کا کردار ادا کرے ۔ علامہ اقبال مسلمانوں سے فرماتے ہیں کہ آپ نے اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو استعمال کرنا چھوڑ دیا ہے جبکہ خودی اس کو استعمال کرنے کا نام ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

خودی کے ارتقاءکے لیے اقبال کے نزدیک دو چیزیں ازبس ضروری ہیں ایک استحکامِ خودی اور دوسرے اس کا اجتماعی مقصد سے ہم آہنگ ہونا۔ چنانچہ اقبال نے ”اسرار خودی“ اور ”رموز بے خودی“ میں ان دونوں مقاصد پر بحث کی ہے۔ آپ کے نزدیک فرد کو اپنی امکانی صلاحیتوں کو اس طرح نشوونما دینی چاہیے کہ جماعت بھی زیادہ سے زیادہ ارتقاءکر سکے۔ آپ کے نزدیک شانِ یکتائی پیدا کرنے کے لیے خودی کو تین منزلوں سے گزرنا پڑتا ہے ان میں اتباع شریعت ، ضبطِ نفس اور نیابت الہٰی شامل ہیں۔


آپ کے مطابق نیابتِ الٰہی دنیا میں انسانی ارتقاءکی آخری منزل ہے جو شخص اس منزل پرپہنچ جاتا ہے اس دنیا میں خلیفہ اللہ ہوتا ہے ۔ اگر انسان کا اپنے اللہ پر ایمان مضبوط ہو تو اس کی خود مضبوط ہوتی ہے۔ اگرانسان کا اللہ کے ساتھ رشتہ مضبوط ہو تو وہ ہر کام کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔

بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی

حکیم الامت بہادری کو بھی خودی کی ترقی کے لیے ضروری گردانتے ہیں۔ اگر انسان بہادر ہو ۔ حق بات کہنے کی صلاحیت رکھتا ہو تو اس کی خودی ترقی کے منازل طے کرتی ہے۔ فرماتے ہیں:

آئینِ جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں رُوباہی

اقبال نے ان فلسفیانہ مذاہب کی تردید کی ہے جو بقا کے بجائے فنا کو انسان کا نصب العین قرار دیتے ہیں ۔ یہ مذاہب انسان کو بزدلی سکھاتے ہیں کیونک حیات کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ ہے یعنی مادّہ وہ اس کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ اور مادّہ کا مقابلہ کرکے اُسے جذب کرلینے کے بجائے اس سے گریز کرنے کی تعلیم دیتے ہیں۔ علامہ اقبال کے خیال میں خوف کی بجائے بہادری اور جرات کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ انسان میںصرف خوفِ خدا ہونا چاہیے۔ تب انسان میں خودی کا مادہ پیدا ہوجاتا ہے۔

وہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات

شاعرِ مشرق کے نزدیک خودی مسلسل جدوجہد کی حالت کا نام ہے شخصیت کی بقاءاسی حالت کے باقی رہنے پر منحصر ہے اگرچہ یہ حالت قائم نہ رہے تو لازمی طور پر تعطل یا ضعف دستی کی حالت طاری ہوجاتی ہے اور یہ چیز علامہ کے نزدیک خودی کے لیے زہر ہے۔ جبکہ جدوجہد ہی دراصل زندگی ہے۔ فرماتے ہیں۔

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

رومی کی طرح اقبال بھی نظریہ ارتقا کا حامی ہے اس کے عقیدے کے مطابق انسان جمادی نباتی اور حیوانی مدارج سے گزر کر انساینیت کے موجودہ مرتبے پر فائز ہوا ہے۔ مگر یہ اس کی آخری منزل نہیں ہے ابھی اسے اور آگے بڑھنا اور ملکوتی درجے پر پہنچنا ہے انسان ملکوتی اور حیوانی عناصر کا مجموعہ ہے ملکوتی عنصرکا دوسرا نام خودی ہے اور اسی کی تربیت انسان کی زندگی کا حقیقی نصب العین ہے۔ اقبال نے عرفانِ خودی اور تعمیر خودی پر بہت زور دیا ہے اور درحقیقت ان کی ساری شاعری کا لُبّ لبُاب عرفانِ خودی اور تعمیر خودی ہے۔

بشکریہ : "آہنگ"
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), Robina Qadeer (Monday, April 23, 2012)
  #6  
Old Sunday, April 22, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default falsafa e khudi

علامہ اقبال اور فلسفہ خودی

جاوید عباس رضوی

علامہ اقبال ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ فقط ایک شاعر ہی نہیں، مفکر اور فلسفی بھی ہیں۔ ایک ایسے مفکر جنہوں نے حیات و کائنات کے مختلف اور متنوع مسائل پر غور و فکر کیا اور برسوں کی سوچ و فکر کے بعد شاعری اور نثر کے ذریعے حکیمانہ اور بصیرت افروز خیالات پیش کئے۔ انھیں اقبال کی ندرت فکر کا شاہکار کہا جاسکتا ہے، علامہ اقبال نے انسان کو خودی کا درس دیا ہے، علامہ اقبال کی خودی، خود پرستی نہیں ہے، خود سوزی نہیں ہے بلکہ خود شناسی ہے یعنی خود کو پہچانا، یعنی خود کی معرفت حاصل کرنا، یعنی انسان کو اﷲ نے اس دنیا میں کیوں بھیجا ہے کہاں جانا ہے کس لئے آیا ہے، اقبال کی خودی خانقاہی نہیں ہے اقبال کی خودی خود شناسی ہے، معرفت نفس ہے۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن


اقبال کے نزدیک خودی کے اثبات، پرورش اور استحکام ہی سے اسے غیر فانی بنایا جاسکتا ہے، خودی اپنی پختگی ہی سے حیات جاوداں حاصل کر سکتی ہے یعنی بے مثل انفرادیت کو اس طرح قائم و بر قرار رکھے کہ موت کا دھچکا بھی اس کا شیرازہ نہ بکھیر سکے، خودی کا جوہر ہے یکتائی، وہ کسی دوسری خودی میں مدغم نہیں ہوسکتی، نہ اس کا ظہور کسی دوسری خودی کے طور پر ہو سکتا ہے، نہ وہ کسی کمتر خودی میں منتقل ہوسکتی ہے اگر خودی کی تربیت نہیں کی گئی تو اس کا مستقبل مخدوش ہے وہ فنا بھی ہوسکتی ہے۔

خودی کی پرورش و تربیت یہ ہے موقوف
کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز


اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لفظ ’خودی‘ کہہ سکتے ہیں۔ اس لئے کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا محور ہے۔ اور انھوں نے اپنے پیغام یا فلسفہ حیات کو اسی نام سے موسوم کیا ہے اور محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض اہم سوالوں کے جوابات کی تلاش میں ہوئی ہے، انسان کیا ہے؟ انسانی زندگی کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اسکے پس پردہ کیا ہے؟ اس طرح کے اور نہ جانے کتنے سوالات ہیں جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے ہی سرگرداں رہا ہے۔

اقبال کے فلسفہ خودی یا پیغام کی تخلیق کا خاص پس منظر ہے، قیام یورپ کے زمانے میں انھوں نے فلسفے کا گہرا مطالعہ کیا تھا۔ ایران کی مختلف ادبی اور لسانی تحریکوں اور لٹریچر کو غور کی نظر سے دیکھا تھا اور اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ اسلامی تہذیب کی ابتری خصوصیت سے جنوبی ایشیاء میں مسلمانوں کی تباہی کی ذمہ دار وہ فارسی شاعری بھی ہے جس نے افلاطونی فلسفے کی موشگافیوں میں پھنس کر حیات کے سر چشموں کو خشک کر دیا، اس کے بعد سکون بے عملی کو زندگی کا عین تصور کیا جانے لگا، افراد میں خودی اور خودداری کی بُو نہ رہی اور ذلت و نکبت موجب فجر سمجھی جانے لگی اور روگ آہستہ آہستہ پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کرتا گیا۔ اردو ادب بھی اس سے مستثنٰی نہ تھا۔

”خودی“ کا لفظ اقبال کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غرور یا اردو، فارسی کے مروجہ معنوں میں استعمال نہیں ہوا، خودی اقبال کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی کا، جذبہ خودداری کا، اپنی ذات و صفات کے پاس و احساس کا، اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا، حرکت و توانائی کو زندگی کی ضامن سمجھنے کا مظاہرات فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تلاش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا، یوں سمجھ لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے”خودی“زندگی کا آغاز وسط اور انجام سبھی کچھ ہے فرد و ملت کی ترقی و پستی خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔

خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ، خودی کا استحکام زندگی کا استحکام، ازل سے ابد تک خودی ہی کی کار فرمائی ہے اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں، اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نت نئے انداز سے کیا ہے۔
خودی کیا ہے راز درون حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات

ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے

زمانے کے دھار میں بہتی ہوئی
ستم اسکی موجوں کی سہتی ہوئی

ازل سے ہے یہ کشمکش میں اسیر ہوئی
خاک آدم میں صورت پزیر

خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے



کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ لااِلٰہ اِﷲ کا اصل راز خودی ہے، توحید خودی کی تلوار کو آب دار بناتی ہے اور خودی توحید کی محافظت کرتی ہے۔
خودی کا ستر ِنہاں لااِلٰہ اِﷲ
خودی ہے تیغ فساں لااِلٰہ اِﷲ


کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے، قوت اور تربیت یافتہ خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی ہی زندہ اور پائندہ ہو تو فقر میں شہنشاہی کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصرف میں آجاتا ہے۔
خودی ہے زندہ تو ہے فقر میں شہنشاہی
نہیں ہے سنجر وطغرل سے کم شکوہ فقیر
خودی ہو زندہ تو ہے دریائے بیکراں نایاب
خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیاں و حریر


بعض جگہ خودی کو فرد اور ملت کی زندگی کا مرکز خاص قرار دیا۔ اس مرکز کا قرب سارے جہاں کا حاصل اور اس سے دوری موت کا پیغام ہے۔
قوموں کے لئے موت ہے مرکز سے جدائی
ہو صاحب مرکز تو خودی کیا ہے خدائی
ہر چیز ہے محو خود نمائی ہر ذرہ شہید کبریائی
بے ذوق نمود زندگی موت تعمیر خودی میں ہے خدائی


خودی کے اوصاف میں اقبال کے بے شمار بیانات، ان کی تصانیف میں بکھرے پڑے ہیں اور بے شمار ایسے اشعار ہیں جن میں خودی کا والہانہ تذکرہ آیا ہے۔ اقبال کا یہ فلسفہ حیات یا پیغام خودی جس پر انہوں نے اتنا زور دیا ہے اور فرد و قوم کی بقا و ترقی کی اساس ٹھہرایا ہے، جذبات کے لمحائی جوش کا نہیں بلکہ انسان کے نفس اور اس کی تہذیبی زندگی پر کامل غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ بعض مقامات پر خودی اور خدا کے وجود کو لازم و ملزوم بتا کر وجود کی تعریف یہ کی ہے کہ جوہر خودی کی نمود کا دوسرا نام وجود ہے۔ اس لئے انسان کو اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے خودی کی نمود سے غافل نہیں رہنا چاہئے، خودی کی بھر پور نمود انسان کو امر بنا دیتی ہے۔

خودی کو زندہ و پائندہ رکھنے اور اسے توانا و طاقتور بنانے کے عوامل کا تذکرہ تھا۔ اس کے بعد خودی کی تربیت کی ارتقائی منزلیں زیر بحث آتی ہیں یہ تین ہیں، اطاعت، ضبط نفس اور نیابت اِلٰہی، اطاعت سے مراد فرائض کی ادائیگی اور شریعت الٰہیہ کی عملی تائید ہے۔ جو شخص ان سے بھاگتا ہے وہ گویا دینِ محمدی ص کے آئین کے خلاف ورزی کرتا ہے اور اس کی حدود سے باہر قدم رکھتا ہے، ضبط نفس سے مراد، نفسانی خواہشوں اور ذاتی اغراض پر قابو پانا ہے چونکہ انسان کے نفس میں خوف اور محبت کے دو عنصر ایسے ہیں جو اسے راہ راست سے اکثر ہٹا دیتے ہیں اسلئے ضروری ہے کہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے ،نفس کو مغلوب ہونے سے بچایا جائے۔

جب اطاعت و ضبط نفس کی منزلوں سے کسی فرد کی خودی کامیاب گزر جاتی ہے تو وہ اعلیِ منصب پر فائز ہوجاتا ہے جو تخلیق انسانی کا مقصدِ خاص ہے، نیابت اور جس حصول کے لئے انسان روز اول سے سرگرم عمل اور مزاحمتوں سے بر سر پیکار ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
(اقبال)

علامہ اقبال کے فلسفہ حیات یا پیغام کی تخلیق اس طور پر کرسکتے ہیں کہ فرد کی طرح ملت کی بھی خودی ہوتی ہے، چنانچہ فرد کی خودی کی تربیت و استحکام کے ساتھ ساتھ لازم ہے کہ ملت کی خودی کو بھی مرتب و مستحکم بنایا جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ فرد اپنی خودی کو ملت کی خودی میں اس طرح خم کر دے یا اس کا تابع بنا دے کہ ملت کی خودی کو فرد کی خودی پر فضیلت حاصل ہو جائے کہ ذاتی اغراض و مفادات پر ملت کے اغراض و مفادات کو ترجیح دی جائے اور مقدم سمجھا جائے، ایسا کرنے سے فرد کی خودی مجروح نہیں ہوتی، تقویت حاصل کر لیتی ہے، اس میں جماعت کی سی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور جماعت میں مزید پختگی آجاتی ہے۔

در جماعت خود شکن گردو خودی
نارِ گل ،برگ چمن گردو خودی
کثرت ہم مدعا وحدت شود
پختہ چوں وحدت شود ملت شود

انفرادی اور اجتمائی خودی کی تربیت و تنظیم اور استحکام و استقلال کے لئے عہد حاضر کی ساری ملتوں میں ملت اسلامیہ ہی موزوں ترین ہے اور اس وقت دنیا میں جتنے آئین مروج ہیں ان سب میں آئین اسلامی یعنی قرآن مجید ہی ایک ایسا آئین ہے جس کے تحت فرد اور جماعت کی خودی اطاعت اور ضبط نفس کی منزلوں سے کامیاب گزر کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے، فرد قوم کی خودی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مسلمان اور ملت اسلامیہ کی خودی کی شرائط اور فتوحات دوسروں کی خودی سے بہت مختلف ہیں اور اس اختلاف کا سبب یہ ہے کہ اس کا مزاج دوسری قوموں کے مزاج سے مختلف ہے۔

اپنی ملّت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اگر مسلمانوں نے ترکیب رسول ہاشمی اپنائی ہوتی تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی، مسلمانوں نے اپنی خودی کو نہیں پہچانا اس لئے دوسروں کی تقلید کی اور مسلمان اس حالت پر پہنچے کہ آج مسلمان مظلوم ہے، ہمارا قُدس مُبارک امریکی پِٹھو اسرائیل کے ہاتھوں پائمال ہوتا جا رہا ہے اور مسلمان ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں، مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے، مسلمان ممالک ویران کئے جارہے ہیں اور ہم ذاتی اغراض میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کسی کو اقتدار کی بھوک، کسی کو گھر کی بھوک، جب تک مسلمانوں کا صفایا ہوجائے گا تب تک ہم سوئے رہیں گے، کب تک ہم مغرب کی غلامی کریں گے اور یہی مغرب والے مسلمان کومسلمان سے لڑاتے ہیں۔

اگر مسلمان خود شناس اور متحد ہوتے تو اہل مغرب کی مجال نہ ہوتی کہ پیغمبر اسلام ص کی شان میں توہین کرتے، اے کاش اقبال کی آرزو پوری ہوتی کہ ملت اسلامیہ میں خودی کا مقام حاصل ہوجائے اور ہم مسلمان آباد، خوشحال اور امن امان میں رہتے اور روحِ اقبال خوش ہو جاتی، اقبال کسی خاص علاقے یا ملت کا شاعر نہیں ہے وہ پورے عالم انسانیت کا شاعر ہے اور اس کا پیغام صرف مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ سب کے لئے ہے۔
ہر درد مند دل کو رونا میرا رولا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
بشکریہ : اسلام ٹائمز
Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Sunday, April 22, 2012), kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), Robina Qadeer (Monday, April 23, 2012), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012)
  #7  
Old Tuesday, April 24, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Iqbal ka tasawur e Aql o Ishq

اقبال کا تصور عقل و عشق

اقبال کے یہاں عشق اور ان کے مترادفات و لوازمات یعنی وجدان ، خود آگہی، باطنی شعور ، جذب ، جنون ، دل ، محبت ، شوق ، آرزو مندی ، درد ، سوز ، جستجو، مستی اور سرمستی کا ذکر جس تکرار، تواتر، انہماک سے ملتا ہے ۔اُس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقبال کے تصورات میں عشق کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اقبال کے نزدیک عشق ایک عطیہ الہٰی اور نعمت ازلی ہے۔ انسانوں میں پیغمبروں کا مرتبہ دوسروں سے اس لیے بلند تر ہے کہ ان کا سینہ محبت کی روشنی سے یکسر معمور اور ان کا دل بادہ عشق سے یکسر سرشار ہے۔محبت جسے بعض نے فطرت ِ انسانی کے لطیف ترین حسی پہلو کا نام دیا ہے۔ اور بعض نے روح ِ انسانی پر الہام و وجدان کی بارش یا نورِ معرفت سے تعبیر کیا ہے۔اس کے متعلق اقبال کیا کہتے ہیں اقبال ہی کی زبان سے سنتے چلیے ، یہ ان کی نظم ”محبت “ سے ماخوذ ہے۔

تڑپ بجلی سے پائی ، حور سے پاکیزگی پائی
حرارت لی نفس ہائے مسیح ِ ابن مریم سے
ذرا سی پھر ربو بیت سے شانِ بے نیازی لی
ملک سے عاجزی ، افتادگی تقدیر ِ شبنم سے
پھر ان اجزاءکو گھولا چشمہ حیوان کے پانی میں
مرکب نے محبت نام پایا عرشِ اعظم سے


یہ ہے وہ محبت کا جذبہ عشق جو اقبال کے دائرہ فکر و فن کا مرکزی نقطہ ہے۔ یہی تخلیق کا ئنات سے لے کر ارتقائے کائنات تک رموزِ فطرت کا آشنا اور کارزارِ حیات میں انسان کا رہنما و کار کُشا ہے۔ بقول اقبال کائنات کی ساری رونق اسی کے دم سے ہے۔ ورنہ اس سے پہلے ، اس کی فضا بے جان اور بے کیف تھی۔


عقل اور عشق

ڈاکٹر عابد حسین اپنے مضمون ”عقل و عشق۔۔۔اقبال کی شاعری میں“ میں لکھتے ہیں کہ
،
” عقل اور عشق کی کشمکش اردو اور فارسی شاعری کا پرانا مضمون ہے عشقیہ شاعری میں عقل ،مصلحت اندیشی اور احتیاط کے معانی میں آتا ہے۔ اور عشق اس والہانہ محبت کے معانی میں جو آدابِ مصلحت سے ناآشنا اور وضع احتیاط سے بیگانہ ہے ظاہر ہے کہ یہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔
متصوفانہ شاعری میں عقل سے مراد منطقی استدلال ہے جس کے ذریعے ظن ظاہر کا دھندلا تصور قائم ہوتا ہے۔ جبکہ عشق سے مراد جذبِ باطن جس کی بدولت طالب ِ تعینات کے پردوں کو ہٹا کر حقیقت کی بلاواسطہ معرفت حاصل کرنا ہے۔ اقبال نے عقل اور عشق کے تصورات صوفی شاعروں سے لے کر ان پر جدید فلسفہ وجدانیت کا رنگ چڑھایا۔ صوفی شعراء”ہمہ اوست“ کے قائل ہیں ان کے نزدیک کائنات کا وجود ہمارے حواس ظاہری کا فریب ہے۔ جبکہ جدید فلسفہ وجدانیت کے سب سے ممتاز فلسفی برگساں کے خیال میں انسان کے زہن کاکام یہ ہے کہ حسی وظیفہ کو حرکتی وظیفہ میں منتقل کر دے اقبال بھی برگساں سے متاثر تھے۔
بقول اقبال
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں مفسر کتا ب ِ ہستی کی
مظہر شان کبریا ہوں میں
جواب میں دل کہتا ہے کہ،
علم تجھ سے تو معرفت مجھ سے
تو خدا جو خدا نما ہوں میں


عقل راز کو سمجھ کر اس کا ادراک کرتی ہے۔ جبکہ عشق اسے آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ یعنی حقیقت ہستی کا بلاِ واسطہ مشاہدہ کرتا ہے۔
عقل زمان و مکان کی پابند جبکہ عشق زمان و مکاں کی حدود سے نکل کر اُ س عالم نا محدود میں پہنچ جاتا ہے۔ جہاں حقیقت بے حجاب ہوتی ہے۔ اور یہ معرفت کا مقام ہے۔عقل کی منزل مقصود ہستی مطلق کی معرفت وہ خدا جو ہے لیکن اس کی جستجو ناتمام ہے عشق خدانما ہے جو راہ طلب میں عقل کی رہبری کرتا ہے۔گویا اقبال کے نزدیک عقل اور عشق میں بنیادی تضاد اتنا زیادہ نہیں بلکہ ابتدائی مراحل پر تو عقل کی ہی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

فطرت کو خر د کے روبر کر
تسخیر مقامِ رنگ و بو کر؟


عقل میں بہت سی صفات موجود ہیں البتہ اس میں وہ جوش و خروش ، تڑپ ، حرکت اور وہ جرات نہیں جو عشق کا شیوہ ہے۔ عقل اگرچہ آستانِ حقیقت سے دور نہیں لیکن اکیلی اس تک پہنچ نہیں سکتی

۔
عقل گو آستا ںسے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
علم میں بھی سرور ہے لیکن
یہ وہ جنت ہے جس میں حور نہیں
دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور دل کا نور نہیں

اقبال کے ہاں عشق سے مراد

اقبال کے ہاں عشق سے مراد ایمان ہے ایمان کا پہلا جُز حق تعالیٰ کی الوہیت کا اقرار ہے اور اس پر شدت سے یقین ، اس شدت کو صوفیاءکرام نے عشق سے تعبیر کیا ہے۔ عقل ہمیں زندگی کی راہ میں پیش آنے والی مشکلات کا حل سمجھاتی ہے لیکن جو شے عمل پر آمادہ کرتی ہے وہ ہے عشق ۔ عشق و ایمان سے زیادہ قوی کوئی جذبہ نہیں، اس کی نگاہوں سے تقدیریں بد ل جاتی ہیں۔

کوئی اندازہ کر سکتا ہے اس کے زورِ بازو کا
نگاہ ِ مرد مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں


بقول مولانا روم،
” عقل جُزئی قبر سے آگے نہیں دیکھ سکتی ۔۔۔۔ قبر سے آگے عشق کا قدم اُٹھتا ہے اور عشق ایک جست میں زمان و مکان والی کائنات سے آگے نکل جاتا ہے۔

عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں


اقبال کے نزدیک عقل و علم کی سب سے بڑی کوتاہی یہ ہے کہ اس کی بنیاد شک پر قائم ہے۔ اس وجہ سے عقل و علم میں وہ خواص موجود نہیں جو تربیت خودی کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے مقابلے میں عشق بے خوفی ، جرات اور یقین و ایمان پیدا کرتی ہے۔ اس لیے وہ خدا سے صاحبِ جنوں ہونے کی آرزو کرتے ہیں۔

بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لبِ بام ابھی


خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحب جنوں کر



عقل پر اقبال کا اعتراض

ڈاکٹر سید عبداللہ ”عقل و خودی“ کے عنوان سے ”طیف اقبال“ میں اس امر پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں
،
” اقبال کے خیال میں عقل ایک ناتمام چیز ہے یعنی عقل حقیقت کی کلیت کا ادراک نہیں کر سکتی۔۔۔۔ عقل جو حواس پر مبنی ہے حقیقت تک پہنچنے کے لئے یقینی راستہ نہیں ہے۔
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے منزل نہیں ہے


عقل کے خلاف اقبال کا اعتراض ہے کہ عقل میں گرمی، جذب ، سرور و جنوں نہیں ۔ خودی کی تقویت کے لیے جس سرگرمی جذب و سرور کی ضرورت ہوتی ہے۔ عقل اس سے محروم ہے۔ خودی کی تسخیر کے لیے آگے بڑھنے کی جدوجہد کے لیے یقین کی ضرورت ہے مگر وہ یقین عقل کے ذریعے حاصل نہیں ہو سکتا ۔ عقل کی باتیں یقینی نہیں ہوتیں۔ عقل کی ایک بڑی کمزوری یہ بھی ہے کہ وہ شک میں گرفتار رہتی ہے اس لیے خودی میں و ہ حرکت اس سے پیدا نہیں ہوتی جو عشق یعنی یقین سے پیدا ہوتی ہے۔ بحرکیف عقل ایسی چیز نہیں جس سے نفرت ہو، اقبال نے عملی اور جزوی امور میں اس کی مخالفت نہیں کی انہوں نے عقل سے اختلاف اس لیے کیا ہے کہ کلی امور میں یہ فوراً انکار کر دیتی ہے۔

اک دانش ِنورانی ، اک دانش برہانی
ہے دانش ِ برہانی، حیرت کی فراوانی

عشق اور خودی

اقبال کے تصورِ خودی کو ان کے تصورِ عشق سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا تربیت خودی کے لیے سب سے بڑا وسیلہ اقبال کے نزدیک عشق ہے جس کے بغیر خودی نہ ترقی کر سکتی ہے اور نہ پختہ ہو سکتی ہے۔ صوفیوں کے نزدیک نصب العین تک پہنچنے کے لیے خودی کو مٹانا ضروری ہے۔ ان کے نزدیک عشق کے کمال کی علامت یہ ہے کہ مادی وجود کو خود مٹایا جائے اقبال کے نزدیک خودی کی تربیت ضروری ہے نہ کہ مٹا دینا۔ اقبا ل نے بار بار کہا ہے کہ خودی عشق سے استوار ہوتی ہے۔ اور یہ عشق نہ تو وہ صوفیانہ عشق ہے جو خود کو فنا کرکے کمال حاصل کرتا ہے اور نہ وہ مجازی عشق جو معمولی آرزوں کے لیے تڑپنا ہے۔ اقبال کے نزدیک اس کا مفہوم بہت وسیع ہے۔

مرد خدا کا عمل ، عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل ِ حیات ، موت ہے اس پر حرام
عشق دمِ جبرئیل ، عشق دل ِ مصطفی
عشق خدا کا رسول ، عشق خدا کا کلام
عشق کی تقویم میں، عصرِ رواں کے سوا
اور زمانے بھی ہیں جن کا نہیں کوئی نام


ڈاکٹر سید عبداللہ ”طیف اقبال “ میں لکھتے ہیں۔

” اقبال کے نزدیک عشق اورخودی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔ عشق پا لینے مسخر کرنے کی صلاحیت اور آرزو رکھتا ہے اور خودی کا خاصہ بھی یہی ہے کہ وہ غیر خودی کو مسخر کرنے یا پانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ عشق کا خاصہ ہے۔۔۔۔۔ کہ اس کا یقین اٹل اور محکم ہوتا ہے اور خود ی بھی یقین محکم کے پہیوں پر چلتی ہے۔ عشق پریشانیوں ، رنگا رنگیوں اور بد نظمی میں ترتیب ِحیات کرتا ہے۔ خودی کا بھی یہ وصف ہے کہ تنظیم حیات کرتی ہے۔
الغرض اقبال کے نزدیک خودی نہ صرف عشق سے استوار ہوئی ہے بلکہ عشق خودی کا دوسرا نام ہے مولانا عبدالسلام ندوی”اقبال ِ کامل “ میں لکھتے ہیں کہ
،
”ڈاکٹر صاحب کے نزدیک عقل و عشق دونوں خودی کا جزو ترکیبی ہیں۔
عشق کو عقل پر ترجیح دینے کے اسباب

اقبال اگرچہ عقل کے مقابلے میں عشق کی برتری کے قائل ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ عقل کے مخالف ہیں بلکہ وہ ایک حد تک اس کی اہمیت کے قائل ہیں تاہم یہ درست ہے کہ اقبال عشق کو عقل پر ترجیح دیتے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک عشق سے ہی حقائق اشیا کا مکمل علمِ بصیرت حاصل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے خیال میں زندگی کی ساری رونق عشق سے ہے علم و عقل انسان کو منزل کے قریب تو پہنچا سکتے ہیں لیکن عشق کی مدد کے بغیر منزل کو طے نہیں کر سکتے۔


عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں


اگر چہ عام طور پر عقل سے رہنمائی کا کام لیا جاتا ہے لیکن عشق عقل سے زیادہ صاحبِ ادراک ہے

زمانہ عقل کو سمجھا ہوا ہے مشعل راہ
کسے خبر کہ جنوں بھی ہے صاحب ادراک


اقبال کو اپنے ہم مشربوں سے شکایت ہے کہ وہ اس جنوں سے محروم ہیں ، جو عقل کو کارسازی کی راہ و رسم سکھا سکے۔

ترے دشت و در میں مجھ کو وہ جنوں نظر نہ آیا
کہ سکھا سکے خرد کو راہ و رسم کارسازی


بغیر نورِ عشق کے علم و عقل کی مدد سے دین و تمدن کی جو توجیہ کی جائے گی۔ وہ حقیقت پر کبھی بھی حاوی نہیں ہو سکتی ۔ عقل تصورات کا بت کدہ بنا سکتی ہے ۔ لیکن زندگی کی صحیح رہبری نہیں کر سکتی۔

عقل و دل و نگاہ کا مرشد اولیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بُت کدہ تصورات


اقبال کے نزدیک عقل کی کمزوری یہ ہے کہ اس میں جرات رندانہ کی کمی ہے۔ جب تک عشق اس کی پشت پناہ نہ ہو آگے نہیں بڑھتی ۔ عقل اسباب کی بھول بھلیوں میں گم ہو کر اصل حقیقت سے دور رہتی ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ اقبال سراسر عقل کا مخالف نہیں۔ چنانچہ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ وہ تمام امور جن سے قوموں کی زندگی بدل گئی کسی نہ کسی جذبہ کے تحت انجام پاتے ہیں اسی خیال کو اقبال اس طرح ادا کرتے ہیں۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی


زندگی کے جس چاک کو عقل نہیں سی سکتی اس کو عشق اپنی کرامات سے بے سوزن اور بغیر تارِ رفو سی سکتا ہے۔

وہ پرانے چاک جن کو عقل سی سکتی نہیں
عشق سیتا ہے انہیں بے سوزن و تارِ رفو


عقل کی عیاری اور عشق کی سادگی اور اخلاص کو اس طرح ظاہر کیا ہے۔

عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بے چارہ نہ مُلا ہے نہ زاہد نہ حکیم


روحانی ترقی ، جسے اقبال حیات ِ انسانی کا اصل مقصود گردانتے ہیں۔ عشق کی رہبری کی محتاج ہے اور اس میں اقبال عقل و علم کو بے دست و پا خیال کرتے ہیں ، خود انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے۔

خرد نے مجھ کو عطا کی نظر حکیمانہ
سکھائی عشق نے مجھ کو حدیث رندانہ


کبھی کبھی پاسبان ِ عقل کی موجودگی انسان کو تنگ کرنے لگتی ہے خاص طور پر جب وہ تنقید ہی کو مطمع نظر بنا لے ایسے موقعوں پر اقبال اعمال کی بنیاد عقل کے بجائے عشق پر رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں۔

عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ


کبھی کبھی اقبال کے ضمیر میں معرکہ ہونے لگتا ہے۔ اور انہیں احساس ہوتا ہے کہ عشق ہی حق ہے اور عقل اس کے مقابلے میں وہی درجہ رکھتی ہے جو رسول ِ پاک کے مقابلے میں ابولہب کا تھا۔

تازہ میر ے ضمیر پر معرکہ کہن ہوا
عشق تمام مصطفی، عقل تمام بولہب


ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں عقل سے کسی قسم کی رہنمائی کی توقع رکھنا بے جا ہی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اقبال عشق کو عقل سے برتر و بلند قرار دیتے ہیں ۔ اگر اقبال کے تصور عشق کے بارے میں ایک فقرے میں بات کی جائے تو حضرت علامہ کے شعر کے صرف ایک مصرعے میں ہی بات مکمل کی جاسکتی ہے۔
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام

یہی وجہ ہے کہ اقبال عقل کے بجائے عشق سے کام لینے کا مشورہ دیتے ہیں جس کی ایک جست سے سارا قصہ تمام ہو جاتا ہے جس فاصلے کو انسان بیکراں سمجھتا ہے ، عشق ایک چھلانگ میں اُسے عبور کرا دیتی ہے۔

ان تفصیلات سے اقبال کے تصور عشق کا پتہ چلتا ہے۔ وہ اگر چہ عشق کو عقل پر فوقیت دیتے ہیں ، تاہم عقل کی اہمیت سے انکار نہیں ہے۔ درج بالا تفصیلات سے یہ بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اقبال کا تصور عشق اردو فارسی کے دوسرے شعرا سے کتنا مختلف ہے ۔ اقبال کے نزدیک عشق ، محض اضطراری کیفیت ، ہیجان جنسی ہوس باختہ از خود رفتگی ، فنا آمادگی ، یا محدود کو لامحدود میں گم کر دینے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ ان کے یہاں عشق نام ہے ایک عالمگیر قوتِ حیات کا ، جذبہ عمل سے سرشاری کا۔
Reply With Quote
The Following 3 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Friday, April 27, 2012), kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012)
  #8  
Old Thursday, April 26, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

فلسفی شاعر:تصور ِعشق کی جہتیں
ڈاکٹر ریاض توحیدی
عشق کی اصطلاح ایک تشریح طلب موضوع کا اقتضا کرتی ہے جس کے لئے ایک مبسوط مقالے کی ضرورت ہے چونکہ زیر نظر مضمون ایک مخصوص موضوع پر منحصر ہے اس لئے عشق کے تعلق سے چند بنیادی باتوں پر ہی توجہ دی جاسکتی ہے تاکہ عشق کے ضمن میں جن لوگوں کے اذہان ایک مخصوص تصور کے اسیر ہو چکے ہیں، وہ بھی اس اصطلاح کے متفرق پہلوئوں کی طرف ذہنی طور پر مائل ہوسکیں۔
عشق کی ایک سمت، نظریہ وجدانیت (Intuition-ism) سے سروکار رکھتی ہے۔ یہاں یہ باطنی یا ظاہری وجدان کے روپ میں اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ عشق، ایک جذبے، ایک قوت محرکہ، ایک روحانی کیفیت کا نام ہے جو انسانی نفسیات میں سمایا ہوا ہے اور مختلف صورتوں میں نمودار ہوتا رہتا ہے۔ دولت کمانے کا جنون، مذہب سے لگائو، کتب بینی کا شوق، تخلیقی کام کی رغبت، اقتدار کا نشہ، حسن پرستی، وطن یا قوم پرستی، اولاد کی محبت وغیرہ عناصر عشق کے مختلف پہلو ہیں۔ اب کسی انسان کا ذہنی میلان عشق کے کس پہلو کی طرف زیادہ ہے اس کا تجزیہ بھی اسی حیثیت سے کیا جاسکتا ہے۔ دراصل عشق کا تعلق وجدانی سوچ سے ہے۔ ادب میں عشق کے تعلق سے دواصطلاحیں زیادہ معروف ہیں، ایک عشق حقیقی اوردوسری عشق مجازی، عشق مجازی کے زمرے میں عشق کے وہ عناصر آتے ہیں جو انسانی ذات سے ہی مطابقت رکھتے ہیں اور عشق حقیقی سے مراد عموماً وہ عشق ہے جس کا تعلق عابد کا اپنے معبود سے ہوتا ہے یا دوسرے لفظوں میں، جس کا تعلق ہماری آنکھوں سے مستور، ذاتِ خداوندی یا اللہ سے ہو۔

شاعری کے حوالے سے اگر عشق کا جائزہ لیں تو دوسرے شعراء کے برعکس علامہ اقبالؔ کا نظریہ انفرادیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال کے نزدیک عشق،اضطراری، چھا جانے والا، محو کر دینے والا جذبہ نہیں، جس کا جادو انسان اور ان کی پوری ہستی کو محصور کر دے بلکہ عشق ان کے نزدیک ایک مستقل اور عظیم الشان حقیقت کا تصور ہے۔ انہوں نے لفظ عشق میں اتنی رفعت اور بلندی پیدا کر دی کہ اس کو قوم کے لئے لائحہ عمل بنا کر پیش کیا۔ پروفیسراسلوب احمد انصاری نے علامہ اقبالؔ کے تصور عشق کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے
:
’’…اقبال کے لئے عشق ارتقاء کی قوتِ نامیہ ہے جو حیاتیاتی سطح پر حسن اور اکملیت کی طرف راجع ہے اور اس پر منتج ہوتی ہے۔یہی حیات کی ابتداء اور یہی اس کا انجام ہے۔ عشق کو ’’صہبائے خام‘‘ اور ’’کاس الکرام‘‘ سے ہم رشتہ کرنا گویا اس امر کا اعادہ کرنا ہے کہ یہ بیک وقت اس کی تکونی قوت بھی ہے اور اس کی تتزیہی شکل بھی ‘‘۔

؎
عشق کی مستی سے ہے پیکر گل تابناک
عشق ہے صہبائے خام، عشق ہے کاس الکرام

علامہ اقبال کے کلام میں بعض نئی اصطلاحیں بھی نظر آتی ہیں اور انہوں نے مروجہ الفاظ کو اپنے ڈکشن کے مطابق نئے معنی بھی عطا کئے۔ لفظ ’’عشق‘‘ اس کی ایک مثال ہے۔ اقبالؔ نے اس لفظ کو نئی معنوی وسعت سے آشنا کیا اور اپنی فکر کو اس میں سمویا۔ڈاکٹر یوسف حسین خان کے الفاظ میں ’’اقبال کا تصور عشق، دوسرے شعراء کے متصوفانہ یارسمی عشق سے بالکل مختلف ہے۔ عشق ان کے یہاں زندگی کا ایک زبردست حرکی عمل ہے جو ایک طرف تسخیر فطرت میں انسان کی مدد کرتا ہے، دوسری طرف اسے کائنات کے ساتھ متحد رکھتا ہے‘‘۔

علامہ اقبال، جملہ کمالات کا منہج اور تمام فیوض و برکات کا سرچشمہ عشق کو ہی قرار دیتے ہیں ۔اس تعلق سے دیکھیں تو ان کے یہاں ’’عشق‘‘ اور ان کے مترادفات اور لوازمات یعنی ’’وجدان، خود آگہی، باطنی شعور، جذبہ، جنون، دل، شوق، آرزو مندی، جستجو، مستی اور سرمستی کا ذکر جس تکرار،تواتر، انہماک اور شدتِ احساس کے ساتھ ملتا ہے کسی اور موضوع کا نہیں ملتا‘‘۔ اقبال کا تصور عشق انسان کے اندر حرکی قوت پیدا کرتا ہے۔ وہ اس عشق سے سخت نفرت کرتے ہیں جو انسان کو خوابیدہ کرے اور اس کے اخلاق کو بگاڑے۔ زیادہ تر شعراء کے کلام میں عشق اور عورت کا ذکر ساتھ ساتھ نظر آتا ہے جس کی وجہ سے سنجیدہ قسم کے لوگ ان شعراء کا کلام پڑھنے یا سننے سے دور ہی رہتے ہیں،لیکن علامہ اقبال نے معنوی وسعت دے کر عشق کے لفظ کو وقار اوراثرعطا کیا۔ ماہر القادری اپنے ایک مضمون میں علامہ اقبالؔ کے تصور عشق کی مناسبت سے لکھتے ہیں
:
’’اقبال کے عشق میں نہ کوچۂ رقیب ہے نہ دنیوی محبوب کے نقش پا پر سجدے کی ذلتیں ہیں۔ اقبال کا عشق خیبر کشا ہے جہاں پازیب کی نہیں،تلوار کی جھنکار سنائی دیتی ہے…عشق اقبالؔ کے ہیروقیس و فرہاد نہیں،صدیقؓ و فاروقؓ اور علی مرتضی رضی اللہ عنہم ہیں جنہوں نے خوبصورت عورتوں کے رخسار و گیسو کا نہیں آیات الٰہی کا مشاہدہ کیا

اور اللہ تعالیٰ کے عشق میں محو ہوگئے
…‘‘
مردِ خدا کا عمل، عشق سے صاحب فروغ
عشق ہے اصل حیات، موت ہے اس پر حرام

رسول اللہؐ کی ذات اقدس سے محبت رکھنا، ایک مسلمان کے ایمان کا جزو ہے ۔علامہ اقبال نے اپنے فلسفۂ عشق میں جس عقیدت و احترام کے ساتھ رسول اللہؐ کی ذات اقدس سے محبت کا اظہار کیا ہے وہ مثالی حیثیت کا حامل ہے۔ علامہ کے نزدیک عشقِ رسولؐ کی بدولت ہی ایک مسلمان میں صفات رسولؐ کا رنگ پیدا ہوسکتا ہے۔ ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم اس مناسبت سے لکھتے ہیں
:
’’اقبال کے نزدیک عشق کی بہترین مثال رسول کریمؐ کی حیاتِ مبارک ہے جس میں خلوت اور جلوت کا توازن پایا جاتا ہے۔ عقل جلوت کی طرف کھینچتی ہے اور عشق خلوت کی جانب،لیکن زندگی کی تکمیل دونوں کے توازن سے ہوتی ہے‘‘۔

وہ دانائے سُبل، ختم الرسل، مولائے کل جس نے
غبارِ راہ کو بخشا فروغِ وادی سینا


بشکریہ:روزنامہ کشمیر عظمی'

Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), SANA Sgd (Friday, April 27, 2012)
  #9  
Old Friday, April 27, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Iqbal aur Azmat e Insaan

علامہ اقبال (شاعرِ عظمتِ انسان)۔

پروفیسر محمد علی عثمان


قبال شاعر مشرق ہے ، اقبال فلسفی شاعر ہے ، اقبال شاعر قرآن ہے ، اقبال مفکر پاکستان ہے وغیرہ وغیرہ ۔ یہ وہ خطابات ہیں جو اقبال کے چاہنے والوں نے ان کو دئیے ہیں۔ کسی نے اقبال کی شاعری میںفلسفے کو پایا تو اُس نے فلسفی شاعر کا خطاب دیا۔ کسی نے آ پ کے اشعار میں قرآن عظیم الشان کے آیات کی تفسیر پائی تو اُس نے اقبال کو شاعر قرآن کے عظیم خطاب سے نوازا۔ کسی اور کو آپ کے خطبات میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ ریاست کا تصور نظر آیا تو اُس نے آپ کو مفکر پاکستان کہا۔ علامہ کو خود ہی اپنی اہمیت کا اور اپنی شاعری کا تا ابد زندہ رہنے کا احساس تھا۔ آپ جانتے تھے کہ اگر نطشے ، گوئٹے ، ملٹن اور شیکسپیئر مغرب کے نمائندہ شعراءتھے اور ان کو مغرب میں ایک بلند مقام حاصل تھا تو وہی رتبہ علامہ اقبالؒ کو مشرق میں ملا تھا۔ اگر مغرب میں کوئی نطشے اور شیکسپیئر کو پرستش کی حد تک چاہتا تھا تو مشرق میں ایسے لوگ تھے اور ہیں جو اقبال کا پوجا کی حد تک احترام کرتے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اقبال نے اپنے آپ کو”شاعرِ مشرق“ گردانا:

تہذیبِ نوی کارگہ شیشہ گراں ہے !
آدابِ جنوں شاعرِ مشرق کو سکھا دو

بلا شبہ اقبال کی شاعری کے پرتو اتنے ہمہ جہت ہیں کہ ہر پڑھنے والے کو اس میں بسا اوقات اپنے افتاد طبع کے طفیل ، کوئی نہ کوئی پہلو ایسا نظرآ جاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ حضرت علامہ نے فلاں بات پر سب سے زیادہ زور دیا ہے اور پھر اُس سے رہا نہیں جاتا بلکہ وہ ان کو ایک نئے خطاب سے نواز جاتا ہے ۔ اقبال کی شاعر کا ایک رُخ یہ ہے کہ وہ عزت کے ساتھ جینے ، اپنے حقوق کو دوسروں کے ہاتھوں غضب ہو نے سے بچانے اور دنیا کی رہبری کا حق ادا کرنے کے لیے ایمان کے ساتھ ساتھ بے پناہ مادی ، مالی اور حربی طاقت کاحصول لازمی قرار دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ دنیا میں قوموں کو زندہ رہنے کے لیے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر قوت کا حصول ازبس ضروری بلکہ ناگزیر ہے ۔ محض فلسفہ اور بحث و تکرار سے کام نہیں چلتا:

میرے لیے ہے فقط زور حیدری کافی !
تیرے نصیب فلاطوں کی تیزی ادراک
میری نظر میں یہی ہے جمال زیبائی !
کہ سر بسجدہ ہیں قوت کے سامنے افلاک
نہ جلال تو حسن و جمال بے تاثیر
ترا نفس اگر نغمہ ہو نہ آتش ناک !

اس طرح کی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جنہیں حضرت اقبال طاقت کے حصول کی وکالت کرتے ہیں۔
لیکن یہاں پر راقم اقبال کی شاعری بلکہ فلسفہ کے جس پہلو کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہے اُس پر شاید بہت کم لکھا گیاہے ۔ وہ ہے نظام ہست بود میں انسانی عظمت اور اُس کا مقام ۔ بدقسمتی سے ہمارے عام لوگ بالعموم اور مولوی حضرات بالخصوص انسان کو کبھی نطفہ غلیظ کی پیداوار قرار دیتے ہیں تو کبھی اس کا منبع و ماخذ پیشاب کو ٹھہراتے ہیں ۔ کبھی اس کو گندگی کے ڈھیر سے تعبیر کرتے ہیں تو کبھی اس کو کائنات میں ایک حقیر کیڑے سے زیادہ بلند حیثیت دینے پر آمادہ نہیں ہوتے ۔ یہ سب کچھ اُس ہستی کے بارے میں کہا جاتا ہے جسے اللہ نے اپنے کمال قدرت سے مٹی سے بنایا ہے اور پھر اُس کے قالب میں ”اپنی “ روح پھونک کر کارخانہ قدرت میں سب سے خوبصورت اور سب سے عظیم الشان ہستی کا اضافہ کیا ۔ پھر اُس کو سب کچھ سے نوازا جن پر خود اللہ کو ناز ہے ۔ مثلاً اللہ سراپا علم ہے ۔ اُس نے انسان کو ، اور یاد رہے صرف انسان کو ، علم کی دولت سے مالامال فرمایا ۔ اللہ سراپا حسن ہے اوراُس نے انسان کو خوبصورت ترین سانچے میں ڈھالا ۔ اللہ سجدہ کے لائق ہے اور اُس نے انسان کو مسجود ملائک بنایا۔ اللہ خالق ہے۔ اُس نے انسان کو ایجاد کی خوبی سے سرفرار فرمایا ۔ کیا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو محروم رکھا ہو ۔ اس دنیا کو اور جوکچھ اس میں ہے کو انسان کی خاطر پیدا فرمایا اور خود انسان کو اپنے لیے:

نہ تو زمیں کے لیے ہے نہ آسماں کے لیے
جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

پھر انسان کو اللہ نے اپنا خلیفہ نامزد کرکے بلند ترین مقام پر فائز کیا ۔ ایک اوسط درجے کا قاری بھی اس حقیقت سے آشنا ہے کہ خلیفہ کا کام اپنے پیرو مرشد کے سبھی افعال کو سرانجام دینا ہوتا ہے جو اُس کا مرشد اُس سے دور کہیں اور بیٹھا سر انجام دے رہا ہوتا ہے ۔ اقبال انسان کے اس مقام سے بخوبی واقف ہے ۔ اپنی نظم ”مسجد قرطبہ “ میں اقبالاسی حقیقت سے پردہ اُٹھاتا ہے:

ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب و کار آفریں ، کار کشا ، کار ساز
خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات
ہر دو جہاں سے غنی ، اس کا دل ِ بے نیاز

انسان کی خوبصورتی کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”بے شک ہم نے انسان کو نہایت خوبصورت سانچے میں ڈھالا“۔ انسان کا خوبصورت سراپا بھی اُس کے عظیم ہونے پردا ل ہے۔ اقبال اپنی کتاب ”بالِ جبریل“ کی نظم ”فرشتے آدم کو جنت سے رخصت کرتے ہیں“ میں فرشتوں کے اُس رشک کا بہت حسین پیرائے میں ذکر کرتے ہوئے ان کی زبان میں انسان سے مخاطب ہے:

سنا ہے خاک سے تیری نمود ہے ، لیکن
تری سرشت میں ہے کوکبی و مہتابی!
جمال اپنا اگر خواب میں بھی تو دیکھے
ہزار ہوش سے خوشتر تری شکر خوابی

دنیا کے تقریباً تمام الہامی مذاہب کے پیروکار اس بات پر متفق ہیں کہ جب آدمؑ کو جنت سے بے دخل کرکے زمین پر اتارا گیا تو وہ بہت رنجیدہ اور پژمردہ ہوا تھا۔ اوراُس نے بہت آہ و بکا کی تھی۔ لیکن اقبال کی نظر فلک رسا اور حیران کن بلندی تخیل کچھ اور ہی دیکھ رہی ہے۔ اُنہیں آدم کی اس افتاد میں اُس کی شہنشاہیت اور لامحدود خود مختاری نظرآرہی ہے ۔ اقبال کی ولولہ انگیز نظم ”روح ارضی آدم کا استقبال کرتی ہے“ میں دنیا کی روح انسان سے مخاطب ہے:

ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل ، یہ گھٹائیں
یہ گنبد افلاک ، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ ، یہ صحرا ، یہ سمندر ، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ !
سمجھے گا زمانہ تیری آنکھوں کے اشارے !
دیکھیں گے تجھے دور سے گردوں کے ستارے !
ناپید تیرے بحرِ تخیل کے کنارے !
پہنچیں گے فلک تک تیری آہوں کے شرارے
تعمیرِ خودی کر ، اثرِ آہِ رسا دیکھ !

اقبا ل انسان کی خودی اوراس خودی کی تعمیر و پرورش کی بدولت انسان عظمت کی جو بلندیاں حاصل کرتا ہے اُن سے بخوبی آگاہ بھی ہے اور اُن کا قائل بھی ۔ آپ انسان کو خودی اور جہد مسلسل کے توسط سے اس دنیا کواپنے لیے جنت نظیر بنانے کی تعلیم دیتے ہوئے اسی نظم میں انسان سے مخاطب ہے:

خورشید جہاں تاب کی ضو تیرے شرر میں
آباد ہے ایک تازہ جہاں تیرے ہنر میں
جچتے نہیں بخشے ہوئے فردوس نظر میں
جنت تیری پہناں ہے تیرے خونِ جگر میں
اے پیکرِ گل کوششِ پیہم کی جزا دیکھ !

یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ انسان کا پیوند مٹی سے ہے اورمٹی ہی میں اُسے اُترنا ہے ۔ اسلام اور عسائیت ہر دو مذاہب کے پیشوا انسان کو اسی نسبت سے عاجزی وانکساری اختیار کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔ مزید یہ کہ سیاسی رہنما وطن سے محبت اور اپنی مٹی سے وفاداری برتنے کی تبلیغ کرتے ہوئے نہیں تھکتے ۔ اقبال اس حقیقت سے انکاری نہیں ہے لیکن اُن کے پاس اس برعکس یہ دلیل ہے کہ مانا کہ انسان کا خمیر مٹی سے اُٹھایا گیا ہے لیکن اس کا جوہر ، اس کی روح جو خداوند عظیم سے اُس کو ملی ہے ، وہ اُس کو ایسی عظیم ہستی میں تبدیل کرتی ہے جس کا تعلق مٹی سے ہونے کے باوجود خدائی صفات سے متصف کرتی ہے۔ اگر وہ اپنی اس عظمت کا ادراک کرے ، باالفاظ ِ دیگر وہ اپنی خودی کی پرورش کرے تو عجب نہ ہوگا کہ وہ زمان و مکان کی قیود کو توڑ کر حدود پھلانگ کر امر بن جائے:

خاکی ہے مگر اس کے انداز ہیں افلاکی
رومی ہے نہ شامی ہے کاشی ، نہ سمرقندی
سکھلائی فرشتوں کو آدم کی تڑپ اُس نے
آدم کو سکھاتا ہے آدابِ خداوندی

اس موضوع کو تھوڑے سے مختلف الفاظ میں بیان کرتے ہوئے اقبال اس حقیقت کا اظہار کرتا ہے کہ یہ مسلّم ہے کہ انسان کی تخلیق مٹی سے کی گئی ہے لیکن اللہ نے اُس کو ایسے عظیم جوہر عطا کیے ہیں جن کی بناءپر اُس کا تعلق زمین سے کم اورسماوی چیزوں سے زیادہ ہے۔

فطرت نے مجھے بخشے ہیں جوہر ملکوتی !
خاکی ہوں مگر خاک سے رکھتا نہیں پیوند

اقبال فرماتے ہیں کہ انسان کا مقام ستاروں ، سیاروں ، چاند اور سورج سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہے۔ انسان ایک زندہ حقیقت ہے جسے قدرت نے لازوال و لامتناہیخوبیوں سے مالامال کیا ہے۔ زمین سے نسبت رکھنے کے باوجود وہ کارہائے نمایاں سرانجام دے رہا ہے کہ عقل حیران اور خرد پریشان ۔ ایک انسان جو زندہ جاوید ہستی ہے اور جو اتنا عظیم کہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے قطعاً ستاروں کی گردش کا تابع ہو ہی نہیں سکتا:

ستارہ کیا میری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں

اور:

تیرے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاک زندہ ہے تو تابع ستارہ نہیں

اسی دلیل کو تھوڑا آگے بڑھاتے ہوئے اقبال اپنی مشہور نظم ”ساقی نامہ “ میں فرماتے ہیں کہ انسان کے اندر آگ کی مانند روح اور اس روح کے طفیل جوشیلے جذبے کا تعلق آب و گل سے عبارت اس کرّہ سے ہو ہی نہیں سکتا۔ یہ دنیا اگر دنیا ہے تو اس کی اہمیت اس بناءپہ ہے کہ یہ انسان جیسی عظیم ہستی کا مسکن ہے اور انسان کو اس حقیقت کا ادارک کرنا چاہیے ۔ سنگ و خشت کی یہ دنیا اُس کے پاﺅں کی زنجیر نہیں بننی چاہیے بلکہ انسان کو چاہیے کہ وہ اس کو ٹھوکرمار کر لافانی و لازوال بلندیوں کی جانب پرواز کرے:

تری آگ اس خاکداں سے نہیں
جہاں تجھ سے ہے ، تو جہاں سے نہیں
بڑھے جا یہ کوہِ گراں توڑ کر
طلسمِ زمان و مکاں توڑ کر !

اقبال سمجھتا ہے کہ بالآخر جب انسان اپنی شناخت پالیتا ہے اور وہ اپنے اندر خدا کی ودیعت کردہ ملکوتی صفات سے روشناس ہوجاتا ہے تو اُس کا مسکن یہ دنیا ہونے کے باجود اس کا رشتہ ناطہ اس سے کٹ جاتا ہے اور وہ روحانی طور پر اتنا پاکیزہ اور ذہنی لحاظ سے اتنا بلند آہنگ رتبہ حاصل کرلیتا ہے کہ وہ اپنی خودی کی بدولت خدا تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ تب مکان و لامکان میں فاصلے مٹ جاتے ہیں اور اُسے احساس ہونے لگتا ہے کہ :

اگر یک سرِ موے برتر پرم
فروغ تجلی بسو زد پرم

اور:

تو اے اسیر مکاں! لامکاں سے دور نہیں
وہ جلوہ گاہ ترے خاکداں سے دور نہیں

پھر وہ چاند ، سورج ، ستاروں اور سیاروں کو پیچھے چھوڑ کر اُن سے کہیں آگے نکل جاتا ہے:

فضا تری مہ و پرویں سے ہے ذرا آگے!
قدم اُٹھا یہ مقام آسماں سے دور نہیں

اس مقام پر پہنچنے کے بعد خالق اور مخلوق کے درمیان نہ صرف تمام پرد ے ہٹ جاتے ہیں بلکہ یہی انسان جس کو ناسمجھ لوگ تقدیر کی زنجیروں میں جھکڑا ہوا سمجھتے ہیں بذات خود اللہ تعالیٰ کی تقدیر بن جاتا ہے ۔ وہ حقیقی معنوں میں ید اللہ بن جاتا ہے اور یہ دنیا و مافیہا اس کے تصرف میں آجاتے ہیں اور اُس میں وہ طاقت آجاتی ہے کہ کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اُس کا تابع فرمان بن جاتا ہے اور اس کی آنکھوں کے اشارے پر چلتا ہے:

لوح بھی تو قلم بھی تو ، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حَباب !
عالمِ آب و خاک میں تیرے ظہور سے فروغ
ذرہ ریگ کو دیا تو نے طلوعِِ آفتاب !

اقبال کا انسان جو پہلے بھی ملائک کا ہمرکاب تھا اپنی جائے سکونت تبدیل کرنے اور آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں میں جاگزیں ہونے کے باوجود اپنی عظمت سے ہاتھ نہیں بیٹھا بلکہ اُسی طرح ان کی ہمسری بلکہ برتری برت رہا ہے ۔ خطہ ہائے زمین اُس کو پابند اور اُس عظمت سے محروم نہیں کرسکتے جو روز اوّل سے اس کو میسر ہے:

ہمسایہ جبریلِ امیں بندہ خاکی
ہے اس کا نشیمن نہ بخارا نہ بدخشاں

اور تو اور اقبال جبرئیل ؑ کو بھی اپنا ہمسر نہیں گردانتا ۔ وہ سمجھتا ہے کہ جبریل کو اور کچھ سکھایا ہی نہیں گیا سوائے تسبیح و مناجات کے اور نہ اس کو آدم کی طرح نفس و خواہش ، جاہ جلال کی بھوک ، جنس و شہوت اور لالچ و حرص میں مبتلا کیا گیا ہے ۔ جبرئیل ؑ کی اصلی عظمت تو تب ہوتی اگر اس کو انسان کی طرح ان آزمائشوں میں ڈالا جاتا اور وہ پھر بھی اپنا سارا وقت ذکر و تسبیحات میں گزارتا ۔ اقبال جبرائیل ؑسے مخاطب ہے :

نہ کر تقلید اے جبریلؑ میرے جذب و مستی کی
تن آساں عرشیوں کو ذکر و تسبیح و طواف اولیٰ

اب رہ جاتا ہے یہ سوال کہ آیا سانس کھینچنے والا ہر آدمی اُس اعلیٰ معیار پر پورا اترتا ہے اور وہ عظمت کی اُن بلندیوں کا دعویٰ کرنے کا حقدار ہے جن کے بارے میں اقبال کبھی اُس کو ہمسایہ جبریلؑ امیں ٹھہراتا ہے تو کبھی اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اُس کا مقام ماہ و ستارہ سے بھی آگے ہے ۔ کبھی اُس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :

وہ بحر ہے آدمی کہ جس کا
ہر قطرہ ہے بحرِ بے کرانہ

تو کبھی اُس کو لوح و قلم اور کبھی اللہ کا ہاتھ قرار دیتے ہیں۔ بنی نوع انسان پر ایک اجمالی نظر ڈالنے سے اس سوال کا جواب ہمیں نفی میں ملتا ہے ۔ وہ انسان جس کا مقام انتہائی ارفع ہے ابھی تک پوری استعداد و استطاعت کے مطابق نتائج دینے میں کامیاب نہیں ہوا۔ وہ مسلسل تگ و دو میں ہے کہ اللہ نے اس کو جن خوبیوں سے نوازا ہے اُن سب کو بروئے کار لا کر اپنے آ پ کو حقیقی معنوں میں خدا کا خلیفہ ثابت کرے :

مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا !
وہ مشت خاک ابھی آوارگانِ راہ میں ہے !

آئیے ذرا غور کریں کہ اقبال کی نظر میں وہ کونسے عوامل اور اعمال ہیںجن کو اختیار کرنے سے انسان ”ہمسایہ جبریلِ امین ‘ ‘ اور اللہ کا ہاتھ بن جاتا ہے۔ شاعر کی نظر میں انسان کا مقام سوائے اللہ کے ہر چیز سے بلند ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انسان کوزمینی زندگی بہت مختصر عطا کی گئی ہے ۔ اس مختصر زندگی میں وہ عملِ پیہم کے ذریعے آگے ہی آگے بڑھتا جارہا ہے۔ اقبال انسان کو یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ اللہ نے انسان کے لیے جو اعلیٰ ترین معیار اور بلند ترین مقام پسند فرمایا ہے وہاں اللہ تک پہنچنے کے لیے سعی مسلسل کی ضرورت ہے اور انسان کو چاہیے کہ وہ مہد سے لحد تک اس مقام تک پہنچنے کے لیے انتھک جدوجہد اور سفر کرتا رہے:

ہر ایک مقام سے آگے مقام ہے تیرا
حیات ذوقِ سفر کے سوا کچھ اور نہیں

رہی یہ بات کہ انسان کو اس مشکل اور پُر خار سفر کے دوران کیا سامان کرنا چاہیے اور کیا زادِ راہ اپنے پاس رکھنا چاہیے تاکہ وہ اس بلند مقام تک رسائی حاصل کر سکے جو خداوند تعالیٰ نے اس کے لیے مقرر کیا ہے۔ اقبال کی نظر میں اولین شرط یہ ہے کہ آدمی کو سب سے پہلے اپنے آپ کو پہچاننا چاہیے کہ وہ کون ہے ، کیا ہے ، اُس کا مقصد ِ تخلیق کیا ہے ، وہ کیا مقاصد ہیں جن کو پورا کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اس کو زمین پر بھیجا ، کائنات میں اس کا مقام کیا ہے اور خدا کی دیگر مخلوقات کے ساتھ اس کی نسبت کیا بنتی ہے ۔ ان تمام تفاصیل کا اجمالی نام ”خودی“ ہے ۔ا گر انسان اس خودی کی پرورش کر سکا تو خاک و خون کا یہ چھوٹا سا جاندار جسے عرف عام میں انسان کہتے ہیں ایک ایسے لافانی شعلے کی حیثیت حاصل کر لے گا جو اپنے اردگرد باطل کی تمام خس و خاشاک کو جلا کر راکھ کر دینے کی صلاحیت کا متحمل ہوگا اور خود کندن بن کر لازوال ہو جائے گا:

خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف
کہ مشت ِ خاک میں پیدا ہو آتشِ ہمہ سوز !

اقبال ایک جگہ فرماتے ہیں کہ اگر انسان واقعی قیمتی بننا چاہتا ہے اور بلند مقام پر فائز ہونے کی آرزو رکھتا ہے تو اُس کو اپنی خودی کی حفاظت کرنی ہوگی ورنہ ا س کا مقام بھی دوسرے جانداروں سے مختلف نہیں ہوگا:

گراں بہا ہے تو حفظِ خودی سے ہے ، ورنہ
گہر میں آبِ گہر کے سوا کچھ اور نہیں

عظیم بننے اور خدا کے متعین کردہ مقام پر متمکن ہونے کے لیے اقبال ہمیں ایک اور گُر سے روشناس کراتا ہے ۔ وہ ہے گریہ نیم شبی اوراپنے خالق ، مقصد تخلیق کائنات، مقصدِ زیست اور ان تمام چیزوں کے ساتھ اپنے تعلق و نسبت کے بارے میں عمیق غور و فکر ۔ اگر انسان یہ سب کرسکا اور پھر حاصل کردہ افکار کی روشنی میں سفر حیات پر چل پڑا تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ اُس مقام پر کمند نہ ڈال سکے جو اُس کے لیے متعین شدہ ہے۔ دھیرے دھیرے یہی خاک سے عبارت انسان وہ رفعت حاصل کر لے گا کہ بلند آسمان کے بلند ستارے زمین کے بظاہر پست انسان کی بلند پروازی سے خائف ہو جائیں گے:

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا ماہِ کامل نہ بن جائے

لیکن یہ تب ممکن ہوگا اگر:

واقف ہو اگر لذتِ بیداری شب سے
اونچی ہے ثریا سے بھی یہ خاکِ پُراسرار !
آغوش میں اس کی وہ تجلی ہے کہ جس میں
کھو جائیں گے افلاک کے سب ثابت و سیار !

حاصل ِ کلام یہ کہ اگر انسان اپنی خودی کی حفاظت و پرورش کر سکا ، اپنی زندگی کو جہد مسلسل سے تعبیر کرسکا ، اپنے اندر عقابی روح بیدار کر سکا جو ہمیشہ بلند پروازی پر اُکساتی ہے اور اپنے آپ کو شب بیداری کی لذت سے آشنا کر سکا تو وہ ایک انسانِ کامل کا روپ دھار لے گا اور اُس کی فکر و نظر میں وہ وسعت اور گہرائی آ جائے گی کہ مستور کا ئنات میں تمام پردے اُس کے لیے اُٹھ جائیں گے اور زمین و آسمان ، چاند اور سورج ، پہاڑ و دریا الغرض کہ فطرت بذات خود اس کی چمک دمک سے خیرہ و مسحور ہو جائے گی ۔ اقبال انسان سے مخاطت ہے:

دیکھے تو زمانے کو اگر اپنی نظر سے
افلاک منور ہوں تیرے نورِ سحر سے
خورشید کرے کسبِ ضیاءترے شرر سے
ظاہر تری تقدیر ہو سیمائے قمر سے
دریا متلاطم ہوں تری موجِ گرہ سے
شرمندہ ہو فطرت تیرے اعجازِ ہنر سے

اقبا ل کی نظر میں انسان وہ عظیم ہستی ہے جسے اللہ نے کائنات کی ظاہر و باطن تمام چیزوں کی خلافت و قیادت کے لیے پیدا کیا ۔ نظام ہستی میں انسان کا وجود ایک لپکتے اور تابناک شعلے کی مانند ہے جو باقی مخلوقات کی قید میں آہی نہیں سکتا۔ خداوند قدس نے اسی شعلے کے مصداق آزاد پیدا کیااور یہی وجہ ہے کہ وہ آزادی کا دلداہ اور غلامی سے متنفر ہے ۔ علاوہ ازیں یہ کائنات و مافیہا اللہ نے انسان کے تصرف کے لیے پیدا کیے ہیں۔ انسان کو ان چیزوں سے اعلیٰ اور افضل تخلیق کیا اور اُسے ان تمام چیزوں کارہبر بنا کر بھیجا ۔ لیکن اقبال حیران ہے کہ انسان اپنی پوری استعداد کے مطابق حقِ رہبری ادا کرنے سے قاصر کیوں ہے اور وہ ان چیزوں کا غلام کیوں بنا جو اُس کے غلام ہونے چاہیے تھے۔ اقبال انسان سے فرماتا ہے :

تو ظاہر و باطن کی خلافت کا سزاوار
کیا شعلہ بھی ہوتا ہے غلامِ خس و خاشاک؟
مہر و مہ و انجم نہیں محکوم تیرے کیوں ؟
کیوں تیری نگاہوں سے لرزتے نہیں افلاک؟

انسان کی تمام ترعظمت اور دوسری تمام مخلوقات پر اُس کی فضیلت بیان کرنے اور اُ س کی ہمہ جہت صفات و اشگاف الفاظ میں آشکارا کرنے کے باوجود اقبال کو شکوہ ہے کہ دنیا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو انسان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ انسان کو زمین پر بھیجنے کے الٰہی منصوبے کی اکثر لوگ غلط توضیح کرتے ہوئے آدمی کو پیدائشی گناہگار اور پتہ نہیں کیا کیا سمجھتے ہیں۔ ان کم فہم لوگوں سے اقبال گلہ کرنے کے انداز میں فرماتے ہیں کہ انہوں نے تمام اسرار و رموز سے پردے ہٹادئیے اگر پھر بھی آپ کو انسان کی عظمت سمجھ میں نہیں آتی تو یہ تیری نظر کا فتوراور لاعلاج مرض ہے:

میں نے توکیا پردہ اسرار کو بھی چاک
دیرینہ ہے تیرا مرضِ کور نگاہی

بشکریہ: آہنگ ادب

Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Arain007 (Friday, April 27, 2012), Hamidullah Gul (Friday, April 27, 2012), kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), silza (Thursday, September 19, 2013)
  #10  
Old Friday, April 27, 2012
siddiqui88's Avatar
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default

اقبال کا تصور عورت


عورت کے بارے میں اقبال کا نظریہ بالکل اسلامی تعلیمات کے مطابق ہے وہ عورت کے ليے وہی طرز زندگی پسند کرتے ہیں جو اسلام کے ابتدائی دور میں تھا کہ مروجہ برقعے کے بغیر بھی وہ شرعی پردے کے اہتمام اور شرم و حیا اور عفت و عصمت کے پورے احساس کے ساتھ زندگی کی تما م سرگرمیوں میں پوری طرح حصہ لیتی ہیں۔ اس ليے طرابلس کی جنگ میں ایک لڑکی فاطمہ بنت عبداللہ غازیوں کو پانی پلاتے ہوئے شہید ہوگئی تو اس واقعہ سے وہ اتنے متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسی لڑکی کے نام کوہی عنوان بنا کر اپنی مشہو ر نظم لکھی ۔

فاطمہ! تو آبرو ئے ملت مرحوم ہے
ذرہ ذرہ تیری مشتِ خاک کا معصوم ہے
یہ جہاد اللہ کے رستے میں بے تیغ و سپر!
ہے جسارت آفریں شوق شہادت کس قدر!
یہ کلی بھی اس گلستانِ خزاں منظر میں تھی
ایسی چنگاری بھی یا رب اپنی خاکستر میں تھی

اقبال کی نظر میں عورت کا ایک مخصوص دائرہ کار ہے۔ اور اسی کے باہر نکل کر اگر وہ ٹائپسٹ، کلرک اور اسی قسم کے کاموں میں مصروف ہو گی تو اپنے فرائض کو ادا نہیں کرسکے گی۔ اور اسی طرح انسانی معاشرہ درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ البتہ اپنے دائرہ کار میں اسے شرعی پردہ کے اہتمام کے ساتھ بھی اسی طریقہ سے زندگی گزارنی چاہیے کہ معاشرہ پر اس کے نیک اثرات مرتب ہوں اور اس کے پرتو سے حریم ِ کائنات اس طرح روشن ہو جس طرح ذاتِ باری تعالی کی تجلی حجاب کے باوجود کائنات پر پڑ رہی ہے۔
مرد کی برتری

اس سلسلہ میں ڈاکٹر یوسف حسین خان”روح اقبال “ میں لکھتے ہیں ۔

”اقبال کہتا ہے کہ عورت کو بھی وہی انسانی حقوق حاصل ہیں جو مرد کو لیکن دونوں کا دائرہ عمل الگ الگ ہے دونوں اپنی اپنی استعدادوں کے مطابق ایک دوسرے کے ساتھ تعاون عمل کرکے تمدن کی خدمت انجام دے سکتے ہیں۔ وہ (اقبال ) مرد اور عورت کی مکمل مساوات کا قائل نہ تھا۔
عورت پر مرد کی برتری کی وجہ اقبال کی نظر میں وہی ہے جو اسلام نے بتائی ہے کہ عورت کا دائرہ کار مرد کی نسبت مختلف ہے اس لحاظ سے ان کے درمیان مکمل مساوات کا نظریہ درست نہیں۔ اس عدم مساوات کا فائدہ بھی بالواسطہ طور پر عورت کو ہی پہنچتا ہے اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری مرد پر آتی ہے۔

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگو ں میں ہے لہو سرد
نے پردہ ، نہ تعلیم ، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد
جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد

یہی احتیاج اور کمزوری و ہ نکتہ ہے جس کے باعث مر د کو عورت پر کسی قدر برتری حاصل ہے اور یہ تقاضائے فطرت ہے۔ اس کے خلاف عمل کرنے سے معاشرے میں انتشار لازم آتا ہے۔
پردہ

اقبال عورت کے ليے پردہ کے حامی ہیں کیونکہ شرعی پردہ عورت کے کسی سرگرمی میں حائل نہیں ہوتا۔ بلکہ اس میں ایک عورت زندگی کی ہر سرگرمی میں حصہ لے سکتی ہے اور لیتی رہی ہے اسلام میں پردہ کا معیار مروجہ برقعہ ہر گز نہیں ہے اسی برقعہ کے بارے میں کسی شاعر نے بڑ ا اچھا شعر کہا ہے۔

بے حجابی یہ کہ ہر شے سے ہے جلوہ آشکار
اس پہ پردہ یہ کہ صورت آج تک نادید ہے

بلکہ اصل پردہ وہ بے حجابی اور نمود و نمائش سے پرہیز اور شرم و حیا کے مکمل احساس کا نام ہے اور یہ پردہ عورت کے ليے اپنے دائرہ کا ر میں کسی سرگرمی کی رکاوٹ نہیں بنتا ۔ اقبال کی نظر میں اصل بات یہ ہے کہ آدمی کی شخصیت اور حقیقت ذات پر پردہ نہ پڑا ہو اور اس کی خودی آشکار ہو چکی ہو۔

بہت رنگ بدلے سپہر بریں نے
خُدایا یہ دنیا جہاں تھی وہیں ہے
تفاوت نہ دیکھا زن و شو میں ، میں نے
وہ خلوت نشیں ہے! یہ خلوت نشیں ہے!
ابھی تک ہے پردے میں اولاد آدم
کسی کی خودی آشکارا نہیں ہے

اس بارے میں پروفیسر عزیز احمد اپنی کتاب ”اقبال نئی تشکیل “ میں لکھتے ہیں
:
” اقبال کے نزدیک عورت اور مرد دونوں مل کر کائنات عشق کی تخلیق کرتے ہیں عورت زندگی کی آگ کی خازن ہے وہ انسانیت کی آگ میں اپنے آپ کو جھونکتی ہے۔ اور اس آگ کی تپش سے ارتقاءپزیر انسان پیدا ہوتے ہیں۔۔۔۔ اقبال کے نزدیک عورت کو خلوت کی ضرورت ہے اور مرد کو جلوت کی۔
یہی وجہ ہے کہ اقبال ، عورت کی بے پردگی کے خلاف ہیں ان کے خیال میں پرد ہ میں رہ کر ہی عورت کو اپنی ذات کے امکانات کو سمجھنے کا موقعہ ملتا ہے۔ گھر کے ماحول میں وہ سماجی خرابیوں سے محفوظ رہ کر خاندان کی تعمیر کا فرض ادا کرتی ہے ۔ جو معاشرہ کی بنیادی اکائی ہے۔ اور سب سے بڑی بات یہ کہ اپنے گھر میں وہ یکسوئی کے ساتھ آئند ہ نسل کی تربیت کا اہم فریضہ انجام دیتی ہے اس کے برخلاف جب پردے سے باہر آجاتی ہے تو زیب و زینت ، نمائش ، بے باکی، بے حیائی اور ذہنی پراگندگی کا شکار ہو جاتی ہے چنانچہ یہ فطری اصول ہے کہ عورت کے ذاتی جوہر خلوت میں کھلتے ہیں جلوت میں نہیں۔
”خلوت“ کے عنوان سے ایک نظم میں اقبال نے کہا ہے۔


رسوا کیا اس دور کو جلوت کی ہوس نے
روشن ہے نگہ آئنہ دل ہے مکدر
بڑھ جاتا ہے جب ذوق نظر اپنی حدوں سے
ہو جاتے ہیں افکار پراگندہ و ابتر
آغوش صدف جس کے نصیبوں میں نہیں ہے
وہ قطرہ نیساں کبھی بنتا نہیں گوہر
خلوت میں خودی ہوتی ہے خود گیر و لیکن
خلوت نہیں اب دیر و حرم میں بھی میسر!
عورتوں کی تعلیم

اقبال عورت کے ليے تعلیم کو ضروری سمجھتے ہیں لیکن اس تعلیم کا نصاب ایسا ہونا چاہیے جو عورت کو اس کے فرائض اور اس کی صلاحیتوں سے آگاہ کرے اور اس کی بنیاد دین کے عالمگیر اُصولوں پر ہونی چاہیے۔ صرف دنیاوی تعلیم اور اسی قسم کی تعلیم جو عورت کو نام نہاد آزادی کی جانب راغت کرتی ہو۔ بھیانک نتائج کی حامل ہوگی۔

تہذیب فرنگی ہے اگر مرگ امومت
ہے حضرت انسان کے ليے اس کا ثمرموت
جس علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت
بیگانہ رہے دیں سے اگر مدرسہ زن
ہے عشق و محبت کے ليے علم و ہنر موت

اقبال کے خیال میں اگر علم و ہنر کے میدان میں کوئی بڑا کارنامہ انجام دے سکے تو اس کا مرتبہ کم نہیں ہو جاتا ۔ اس کے ليے یہ شرف ہی بہت بڑا ہے کہ زندگی کے ہر میدان میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے مشاہیر اس کی گود میں پروان چڑھتے ہیں اور دنیا کا کوئی انسان نہیں جو اس کا ممنونِ احسان نہ ہو۔


وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِ دروں
شرف میں بڑھ کر ثریا سے مشت خا ک اس کی
کہ ہر شرف ہے اسی درج کادر مکنوں!
مکالمات فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن!
اسی کے شعلے سے ٹوٹا شرار افلاطوں
آزادی نسواں

اقبال اگرچہ عورتوں کے ليے صحیح تعلیم ، ان کی حقیقی آزادی اور ان کی ترقی کے خواہاں ہیں۔ لیکن آزادی نسواں کے مغربی تصور کو قبول کرنے کے ليے وہ تیار نہیں ہیں اس آزادی سے ان کی نظر میں عورتوں کی مشکلات آسان نہیں بلکہ اور پیچیدہ ہو جائیں گی ۔ اور اس طرح یہ تحریک عورت کو آزاد نہیں بلکہ بے شمار مسائل کا غلام بنا دے گی۔ ثبوت کے طور پر مغربی معاشرہ کی مثال کو وہ سامنے رکھتے ہےں جس نے عورت کو بے بنیاد آزادی دے دی تھی تو اب وہ اس کے ليے درد ِ سر کا باعث بنی ہوئی ہے۔ کہ مرد و زن کا رشتہ بھی کٹ کر رہ گیا ہے۔

ہزار بار حکیموں نے اس کو سلجھایا!
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں
قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ پرویں
فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور!
کہ مرد سادہ ہے بےچارہ زن شناس نہیں

اقبال کی نظر میں آزادی نسواں یا آزادی رجال کے نعرے کوئی معنی نہیں رکھتے بلکہ انتہائی گمراہ کن ہیں۔ کیونکہ عورت اور مرد دونوں کو مل کر زندگی کا بوجھ اُٹھانا ہوتا ہے۔ اور زندگی کو آگے بڑھانے اور سنوارنے کے ليے دونوں کے باہمی تعاون ربط اور ہم آہنگی کی ضرورت ہوتی ہے دونوں کے کامل تعاون کے بغیر زندگی کاکام ادھورا اور اس کی رونق پھیکی رہ جاتی ہے۔ اس ليے ان دونوں کو اپنے فطری حدود میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے زندگی کو بنانے سنوارنے کا کام کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کا ساتھی ثابت ہونا چاہیے۔ نہ کہ مدمقابل چنانچہ آزادی نسواں کے بارے میں وہ فیصلہ عورت پر ہی چھوڑ تے ہیں کہ وہ خود سوچے کہ اس کے ليے بہتر کیا ہے۔


اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں کر سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہر ہے ، وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش و قیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلوبند!
امومیت

اقبال کی نظر میں عورت کی عظمت کا راز اس کے فرض امومیت میں پوشیدہ ہے معاشرتی اور سماجی زندگی میں ماں کو مرکز ی حیثیت حاصل ہے۔ اور خاندانوں کی زندگی اسی جذبہ امومیت سے ہی وابستہ ہے۔ ماں کی گود پہلا دبستان ہے جو انسان کو اخلاق اور شرافت کا سبق سکھاتا ہے۔ جس قوم کی مائیں بلند خیال عالی ہمت اور شائستہ و مہذب ہو گی اس قوم کے بچے یقینا اچھا معاشرہ تعمیر کرنے کے قابل بن سکیں گے۔ گھر سے باہر کی زندگی میں مرد کو فوقیت حاصل ہوتی ہے۔ لیکن گھر کے اندر کی زندگی میں عورت کو فوقیت حاصل ہے ۔ کیونکہ اس کے ذمہ نئی نسل کی پرورش ہوتی ہے۔ اور اس نئی نسل کی صحیح پرورش و پرداخت پر قوم کے مسقبل کا دارمدار ہوتا ہے۔ اس ليے عورت کا شرف و امتیاز اس کی ماں ہونے کی وجہ سے ہے۔ جس قوم کی عورتیں فرائض ِ امومت ادا کرنے سے کترانے لگتی ہے اس کا معاشرتی نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔ اس کا عائلی نظام انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔ افراد خاندان کے درمیان رشتہ عورت کمزور پڑ جاتا ہے۔ اور اخلاقی خوبیاں دم توڑ دیتی ہیں ۔ مغربی تمد ن کی اقدار عالیہ کو اس ليے زوال آگیاہے کہ وہاں کی عورت آزادی کے نام جذبہ امومت سے بھی محروم ہوتی چلی جا رہی ہے۔

کوئی پوچھے حکیم یورپ سے
ہند و یونان ہیں جس کے حلقہ بگوش!
کیا یہی ہے معاشرت کا کمال
مرد بےکار و زن تہی آغوش!

عورتوں کے ليے مغربی تعلیم کی بھی اقبال اسی ليے مخالفت کرتے ہیں کہ اس سے ماں کی مامتا کی روایت کمزور پڑتی ہے اور عورت اپنی فطری خصوصیات سے محروم ہو جاتی ہے۔


اقبال کی نظر میں دنیا کی تمام سرگرمیوں کی اصل ماں کی ذات ہے ، ماں کی ذات امین ممکنات ہوتی ہے اور دنیا کے انقلابات مائوں کی گود میں ہی پرور ش پاتے ہیں۔ اسی ليے ماں کی ہستی کسی قوم کے ليے سب سے زیادہ قیمتی متاع ہوتی ہے۔ جو قوم اپنی مائوں کی قدر نہیں کرتی اس کا نظام ہستی بہت جلد بکھر جاتا ہے۔

جہاں رامحکمی از اُمیات ست
نہاد شان امین ممکنا ت ست
اگر ایں نکتہ را قومی نداند
نظام کروبارش بے ثبات ست

ماں کی ہستی اس قدر بلند مرتبت ہے کہ قوم کہ حال و مسقبل انہی کے فیض سے ترتیب پاتا ہے۔ قوم کی تقدیر بنانے میں ماں کا کردار بنیادی ہے اس ليے عورت کو چاہیے کہ فرض امومیت کی ادائیگی میں اپنی پوری صلاحیتیں صرف کر دی کہ اس کی خودی کا استحکام اسی ذریعہ سے ہوتا ہے۔
مثالی کردار

اقبال نے حضرت فاطمہ کے کردار کو عورتوں کے ليے مثال اور نصب العین قرار دیا ہے بےٹی ، بیوی اور ماں کی حیثیت سے حضرت فاطمہ نے جو زندگی بسر کی وہ دنیا کے تما م عورتوں کے ليے نمونہ ہے۔

فررع تسلیم را حاصل بتول
مادراں راسوہ کامل بتول
فطرت تو جذبہ ہا دارد بلند
چشم ہوش از اُسوہ زُ ہرا مند

اقبال کے نزدیک انسانی خودی کے بنیادی اوصاف فقر، قوت ، حریت اور سادگی سے عبارت ہیں اور یہ تمام حضرت فاطمہ کی زندگی میں بدرجہ اتم جمع ہوگئے تھے۔ انہی اوصاف نے ان کے اُسوہ کو عورتوں کے ليے رہتی دنیا تک مثالی بنا دیا ہے۔ اور ان کی ہستی کی سب سے بڑھ کریہ دلیل ہے کہ حضرت امام حسین جیسی عظیم و مدبر شخصیت کو انہوں نے اپنی آغوش میں پروان چڑھایا ۔ اقبال کی نظر میں عورت کے بطن سے اگر ایک ایسا آدمی پیدا ہوجائے جو حق پرستی اور حق کی خدمت کو اپنی زندگی کا نصب العین اور مقصد قرار دے تو اس عورت نے گویا اپنی زندگی کے منشاءکو پورا کر دیا۔ اسی ليے وہ مسلمان عورتوں سے مخاطب ہو کرکہتے ہیں۔


اگر پندے ز درد پشے پذیری
ہزار اُمت بمیرد تو نہ میری!
بتو ے باش و پنہاں شواز یں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیری!
حاصل کلام

عورت کے بارے میں اقبال کے خیالات کا ہر پہلو جائزہ لینے کے بعد یہ الزام قطعاً بے بنیاد ثابت ہو جاتا ہے کہ انہوں نے عورت کے متعلق تنگ نظری اور تعصب سے کا م لیا ہے دراصل ان کے افکار کی بنیاد اسلامی تعلیمات پر ہے اور عورت کے متعلق بھی وہ انہی حدود و قیود کے حامی ہیں جو اسلام نے مقرر کی ہیں۔ ےہ حدود و قیود عورت کو نہ تو اس قدر پابند بناتی ہیں جو پردہ کے مروجہ تصور نے سمجھ لیا ہے۔ اور نہ اس قدر آزادی دیتی ہیں جو مغرب نے عورت کو دے دی ہے۔ نہ یہ پردہ اسلام کا مقصد ہے اور نہ یہ آزادی اسلام دیتا ہے۔ اسلام عورت کے ليے ایسے ماحول اور مقام کا حامی ہے جس میں وہ اپنی تمام تر صلاحیتیں بہتر طور پر استعمال کرسکے اور یہی بات اقبال نے کہی ہے یہ فطرت کے بھی عین مطابق ہے اس کی خلاف ورزی معاشرت میں لازماً بگاڑ اور نتشار کا باعث بنتی ہے۔
Reply With Quote
The Following 3 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Arain007 (Friday, April 27, 2012), kainateeq (Wednesday, September 03, 2014), silza (Thursday, September 19, 2013)
Reply

Tags
allama iqbal, urdu shaairi, urdu zuban aur adab

Thread Tools Search this Thread
Search this Thread:

Advanced Search

Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
PCS lectureship exams 2011 result date is announced famfai PPSC Lecturer Jobs 60 Thursday, December 08, 2011 07:18 PM
Events in the life of Allama Iqbal cngfitted77777 General Knowledge, Quizzes, IQ Tests 0 Saturday, September 25, 2010 01:18 PM
Quotes from Key Figures: Thanks to Shaitaan Bhaiya Babban Miyan Ding Dong Discussion 16 Saturday, April 07, 2007 03:40 AM


CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.