CSS Forums

CSS Forums (http://www.cssforum.com.pk/)
-   Urdu Literature (http://www.cssforum.com.pk/css-optional-subjects/group-v/urdu-literature/)
-   -   Urdu Shayiri ki Tashreeh (Past Papers) (http://www.cssforum.com.pk/css-optional-subjects/group-v/urdu-literature/63818-urdu-shayiri-ki-tashreeh-past-papers.html)

Farrah Zafar Wednesday, May 30, 2012 10:32 PM

Urdu Shayiri ki Tashreeh (Past Papers)
 
[size="5"][size="6"][u][center]2012[/center][/u][/size]
[center][b]
واحسرتا !کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریصٍ لذتٍ آزار دیکھ کر

ان آبلوں سے پاؤں کے ' گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے ' راہ کو پرخار دیکھ کر[/b]
[u]
شاعر :غا لب[/u]


واحسرتا : افسوس

ہاتھ کھینچنا : دستبردار ہونا

ستم: ظلم

حریص لذت آزار: ظلم سہنے کا خواہش مند
[b]
__________________________[/b]
[b]
واحسرتا !کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ

ہم کو حریصٍ لذتٍ آزار دیکھ کر[/b]

[/center]

غالب کی شاعری کی ساری آب و تاب محبوب کے دم قدم سے ہے ۔ کہیں اس پہ میٹھا میٹھا طنز کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں محبوب کے جوروجفا کا گلہ کرتے دکھائ دیتے ہیں ۔

اس شعر میں شاعر کا غم محض محبوب کی بے التفاتی نہیں بلکہ وہ اس کے ظلم کی انتہا کا رونا رو رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ محبوب کے ستم میرے لیے نئ بات نہیں ۔ اس کے اتنے ستم سہتے سہتے میں ان کا عادی ہو گیا ۔بلکہ اگر یہ کہا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا کہ شاعر اس مقام پہ پہنچ گیا ہے کہ ؛
[center][b]
اثر اب کچھ نہیں ہوتا ،جفا کر لو ،وفا کر لو[/b][/center]

پہلے مصرعے میں شاعر افسوس کا اظہار کر رہا ہے کہ میرے محبوب نے اب تو ظلم و ستم کرنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔ شاعر اس نقطے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے کہ نفرت اور ستم بھی ایک تعلق کو ظاہر کرتے ہیں اور جب یہ بھی نہ رہیں تو گویا محبوب سے مکمل ناتا ٹوٹ گیا ۔اس کی خاموشی ،اس کی بے نیازی اور اس کا نظر انداز کرنا چاہنے والے کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتا ہے ،
[center][b]
قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے

کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی[/b][/center]

شاعر کو اسی بات کا دکھ ہے کہ میرے محبوب نے مجھ سے وہ لذت بھی چھین لی جو اس کے ستم سے اسے نصیب ہوتی تھی ۔ اس کی سنگدلی سے بھی ایک لگاؤ کا احساس ہوتا تھا ۔ایک اور جگہ غالب کہتے ہیں ،
[center][b]
ہم کو ستم عزیز ،ستمگر کو ہم عزیز

نامہرباں نہیں ہے ، اگر مہرباں نہیں [/b][/center]


اب محبوب نے شاعرکو اس سرور سے بھی محروم کر دیا ہے جو اس کے ظلم کو سہہ سہہ کر شاعر کو حاصل ہونے لگا تھا۔


جاری ہے ۔ ۔ ۔

[/size]

Farrah Zafar Thursday, May 31, 2012 08:58 PM

[size="5"][center][size="6"]
ان آبلوں سے پاؤں کے ' گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے ' راہ کو پرخار دیکھ کر[/size][/center]



اس شعر سے شاعر کی اذیت پسندی جھلک رہی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ عشق کی راہ بڑی پرخطر ہے ۔ ان راستوں پر چل چل کر ،صعوبتیں برداشت کر کر کے اس کے پاؤں پر چھالے پڑ گۓ تھے۔
[center][b]
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے[/b][/center]

لیکن شاعر اک حیرت کا عالم طاری کر دیتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ اسے آبلے دیکھ کر تکلیف نہیں ہوئ ،کوئ غم کا احساس نہیں ہوا بلکہ اس پر گھبراہٹ طاری ہو گئ ۔
[center][b]
میں ہوں مشتاقٍ جفا ، مجھ پہ جفا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش ، اس سے سوا اور سہی[/b][/center]

اپنی گھبراہٹ کی مزید وہ یوں وضاحت کرتا ہے کہ اسے محسوس ہوا شائد عشق کی سختیوں کی انتہا بس یہیں تک ہے ۔ لیکن جونہی اس نے پر پیچ رستے پر نگاہ کی تو اس کے دل کو اطمینان ہوا۔ شاعر کا یہ اطمینان اپنے آپ میں اک اچنبھے کی بات ہے کیونکہ وہ اس مقام پر پہنچ
چکا ہے کہ اسے اذیت لطف دیتی ہے ۔مصائب اور تکالیف اسے سرور بخشتے ہیں ۔
[center][b]
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں[/b][/center]

غالب کی اذیت پسندی محض محبوب کو یہ احساس دلانے کے لیئے ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں جو عشق کی مشکلات دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔اس کا مقصد اپنی مستقل مزاجی اور اپنے جذبات و احساسات کی سچائ کو ثابت کرنا ہے ۔[/size]

Farrah Zafar Wednesday, June 06, 2012 09:18 PM

[size="5"][center][size="6"][u]2011[/u][/size]
[b]
ضبط کا عہد بھی ہے ، شوق کا پیماں بھی ہے

عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے

درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا

اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے


[u]فیض احمد فیض[/u][/b]

[b]

ضبط کا عہد بھی ہے ، شوق کا پیماں بھی ہے

عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
[/b][/center]

فیض کا شمار نہ صرف نامور شعراء میں ہوتا ہے بلکہ ان شعراء میں بھی جنہوں نے اپنی انفرادیت کو قائم و دائم رکھا اور اپنی شاعری پر کسی اور کی چھاپ نہیں پڑنے دی ۔ ان کے ہاں غم دنیا کی حیثیت غم محبوب کے برابر ہی ہے ۔ دکھ اور بے بسی ان کے لہجے میں ہلکورے لیتی دکھائ دیتی ہے ۔ ان کا درد سطحی نہیں ، وہ محض ہجر کی آگ میں نہیں جلتے بلکہ دنیا کی تکالیف پر کڑھتے اور بے بسی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں ۔

پہلے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ میں عشق کی وادی کا وہ مسافر نہیں جو مصائب کی شدت سے گھبرا جاتا ہے ، راہ کو پر خار دیکھ کر جس کے قدم لرزنے لگتے ہیں ۔ میں ان میں سے نہیں جو کہتے ہیں ،
[center][b]
مجھے اپنے ضبط پہ ناز تھا ، سر بزم رات یہ کیا ہوا؟
میری آنکھ کیسے چھلک اٹھی ، مجھے رنج ہے یہ برا ہوا[/b][/center]

گویا شاعر یہ و اضح کر دینا چاہتا ہے کہ وہ اپنے آنسوؤں اور دکھوں کی شدت پر قابو پانا جانتا ہے ۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاعر اپنے محبوب کو یہ باور کروا رہا ہے کہ اس نے خود سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ وہ غموں کی شدت سے گھبراۓ گا نہیں ۔ پھر مزید وہ کہتا ہے کہ اس نے عشق پہ قائم رہنے کا وعدہ بھی کر رکھا ہے ۔ یہاں شوق سے مراد عشق ،انسیت یا الفت لیا جا سکتا ہے ۔

پہلے مصرعے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کا مقصد تمہید باندھنا ہے ۔اصل بات کی طرف وہ اک دم نہیں بڑھنا چاہتا ۔ غالباً وہ محبوب کو اس بات کی یقین دہانی کروانا چاہتا ہے کہ اس میں بزدلی یا پست ہمتی نہیں ۔

دوسرے مصرعے میں شاعر آہستگی سے مدعا بیان کرتا ہے ۔ وہ کہتا ہے ، گو کہ وہ پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں پھر بھی نہ جانے کیوں اس کا دل چاہتا ہے کہ وہ عہدوپیماں کے اس پار جاۓ ۔ گویا کہ وہ ضبط کی حدوں سے گزرنا چاہتا ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر بزدلی کی بنا پہ نہیں بلکہ اکتاہٹ کی وجہ سے عشق کی وادی اور صبر کی ڈوری کو چھوڑنا چاہتا ہے ۔ شائد وہ اپنے آپ کو آزمانے کے لئے ایک انوکھی طرز کا اظہار کر رہا ہے۔

[size="6"]
جاری ہے ۔ ۔ ۔ [/size]
[/size]

Farrah Zafar Saturday, June 09, 2012 06:25 PM

[size="5"]
[size="5"][b][center]
درد اتنا ہے کہ ہر رگ میں ہے محشر برپا

اور سکوں ایسا کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے[/center][/b][/size]

اس شعر کے پہلے مصرعے میں شاعر نے غم کی شدت کو بیان کیا ہے ۔ "ہر رگ" کا ذکر اپنے آپ میں ایک
ندرت لئے ہوۓ ہے ۔ اس سے شاعر کی اضطرابی کیفیت کا بخوبی اندازہ ہو رہا ہے ۔ دکھ کی انتہا ہو تو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے جیسے جسم کا ایک ایک ریشہ تکلیف کی شدت سے کراہ رہا ہے ۔ ہر ہر عضو بے چینی و بے کلی کا اظہار کر رہا ہے ۔ گویا جسم و جاں میں ایک قیامت سی برپا ہے ۔
[center][b]
بقول مصطفیٰ زیدی

کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے،
غم دل مرے رفیقو! غم رائیگاں نہیں ہے
[/b][/center]

ایسا لگتا ہے کہ یہ درد ہجر کا درد ہے ، یہ عشق کی وادی میں جھیلے جانے والے مصائب کا درد ہے ، یہ درد لگن ،الفت اور انسیت کا خراج ہے ، یہ درد شاید محبوب نے شاعر کو تحفتاً عطا کیا ہے ۔یہ گمان ہوتا ہے کہ شاعر ضبط کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے ۔ جب ہی وہ بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ وہ ایسی کیفیت سے گزر رہا ہے جیسے اس کی رگوں میں فشارً خون نے تہلکہ مچا رکھا ہے ۔

[center][b]
بقول مجید امجد،

آخر کوئ کنارہ اس سیلٍ بے کراں کا

آخر کوئ مداوا اس دردٍ زندگی کا ؟
[/b][/center]

دوسرے مصرعے میں شاعر چونکا دیتا ہے ۔پہلے مصرعے کے برعکس وہ کہتا ہے کہ میں سکوں کی اس منزل پہ ہوں کہ اب تو مر جانے کو جی چاہتا ہے ۔ اس مصرعے کو دو رخوں پر پرکھا جا سکتا ہے ۔ پہلے کے مطابق ،شاعر شائد یہ کہنا چاہتا ہے کہ اس کی حالت کچھ عجیب سی ہو گئ ہے ۔ ایک طرف تو اسے لگتا ہے کہ ضبط کے سب بندھن اب ٹوٹا ہی چاہتے ہیں اور دوسرے طرف یہ کہتا ہے کہ سکون اس طرح طاری ہے کہ موت پر کشش لگ رہی ہے ۔


اگر اس مصرعے کا دوسرا رخ دیکھا جاۓ تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شاعر کو محسوس ہو رہا ہے کہ ضبط کی حد پار کرنے کے بعد اک بے حسی کی کیفیت نے اس کے جسم و جاں کا احاطہ کر لیا ہے ۔ جس سکون کی وہ بات کر رہا ہے ، وہ شائد وہ سکون ہے جو موت کے بعد ملتا ہے ۔ جب زندگی کے تکلیف دہ دائرے سے انسان نکل جاتا ہے تو اس کے بعد موت کی آغوش پرسکون ہی لگتی ہے ۔ زندگی کا شور و ہنگامہ ندارد ہوتا ہے تو موت کی خاموشی وجود کا گھیراؤ کر لیتی ہے ۔ غالباً شاعر اسی کی طرف اشارہ کر رہا ہے ۔ وہ سمجھتا ہے کہ اب اس میں زندگی کی کوئ رمق نہیں باقی ، کوئ ہلچل نہیں اس کے وجود کے قید خانے میں ۔ گویا اسے اپنی تمام کیفیات سے یہ لگ رہا ہے کہ جو سکوت اب چھایا ہوا ہے ، وہ اسی بات کا متمنی ہے کہ اب باضابطہ موت بھئ واقع ہو جانی چاہیے ۔ محض سانس کی امدورفت زندگی کا پتا نہیں دیتی ، سکون کی کیفیت موت کی پیشین گوئ کرتی ہے ۔[center][b]

بقول میر درد

زندگی ہے یا کوئی طوفان ہے
ہم تو اس جینے کے ہاتھوں مرچلے[/b][/center][/size]

Farrah Zafar Tuesday, June 12, 2012 03:51 PM

[size="6"][center]2010

میں اجنبی ، میں بے نشاں
میں پابہ گل
نہ رفعت مقام ہے ، نہ شہرت دوام ہے
یہ لوح دل ، یہ لوح دل
نہ اس پہ کوئ نقش ہے، نہ اس پہ کوئ نام ہے

مجید امجد[/center][/size][size="5"]

مجید امجد کا شمار ان شاعروں میں ہوتا ہے جن کی ذاتی زندگی ناہموار رہی اور اسی وجہ سے ان کی شاعری میں یاسیت کا احساس جھلکتا ہے ۔ سائیکل پر سفر کرنے والا اور اپنی زندگی میں اپنی شاعری کی قدر نہ دیکھنے والا یہ شاعر بلاشبہ صف اول کے شعراء میں شامل ہے ۔

یہ مصرعے مجید امجد کی نظم آٹو گراف سے لیے گئے ہیں ۔ نظم میں وہ ایک کھلاڑی کی مقبولیت کا تذکرہ کرتا ہے کہ لڑکیاں اس اسے آٹوگراف لینے کو بےتاب ہوئ جاتی ہیں ۔ ڈھلکتے آنچلوں اور مسکراتی آنکھوں کے ساتھ وہ کھلاڑی کو گھیرے کھڑی ہوتی ہیں ۔ اور اس منظر کو الفاظ میں مقید کرنے کے بعد شاعر اپنا موازنہ اس کھلاڑی سے کرتا ہے ۔

شائد یہ شاعر کے لاشعور میں چھپی شہرت کی خواہش تھی جو کھلاڑی کی مقبولیت دیکھ کر اسے بے چین کرنے لگی ۔ اس موقعے پی شاعر کو اپنی ناقدری کا شدت سے احساس ہوا اور وہ کہنے لگا ، کہ وہ تو محض اک انجان شخص ہے ، اس کا دنیاۓ شہرت میں کوئ نام نہیں ۔ کوئ اس کا پتا نہیں جانتا ۔ اس کا مقام مٹی کے برابر ہے ۔

پھر وہ مزید یوں گویا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں اس کا اونچا مرتبہ نہیں ۔ نہ ہی ایسی شہرت اس کا نصیب ہے جو دائمی ہو ، ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہو ۔ یعنی شاعر گمنام ہے ، اس کے مرنے کے بعد اس کا نام بھی فنا ہو جاۓ گا۔

آخری مصرعے میں شاعر دل کی بات کرتا ہے ۔ نازک خواہشات ہر لطیف احساسات رکھنے والے کے دل کو گدگداتی ہیں ۔ شاعر حسرت و یاس کی تصویر بنے کہتا ہے کہ میرے دل کی تختی ہہ کسی کا نام نہیں لکھا ہوا ۔ اور نہ ہی اس پہ ماضی کا کوئ نقش ہے۔ جیسا کہ کسی نے کیا خوب کہا ہے ،
[center][b]
میرا دل کورا کاغذ ، کورا ہی رہ گیا [/center]
[/b]
ان مصرعوں کے پیچھےشاعر کا درد اور ناآسودہ تمنائیں بلک رہی ہیں ۔ گمنامی کی زندگی ایک عظیم شاعر کے لئے بلاشبہ اذیت کا باعث تھی۔[/size]

Abdul Q Wednesday, June 13, 2012 10:06 AM

Urdu
 
Would you like to suggest any good book from where PMS poetry normally comes?

Also in 2009 PMS there was a question of translating English idioms into their counterparts in Urdu. Also need help in attempting this question also..:)

Farrah Zafar Thursday, June 14, 2012 08:41 PM

[QUOTE=Abdul Q;440834]Would you like to suggest any good book from where PMS poetry normally comes?

Also in 2009 PMS there was a question of translating English idioms into their counterparts in Urdu. Also need help in attempting this question also..:)[/QUOTE]

You can't rely on any specific book.In fact,you should do poetry of some famous poets,for example Iqbal,Ghalib,Faiz,Meer,Dard etc.You just need to practice tashreeh of verses given in matric & intermediate books.

For Idioms,see this thread,

[url]http://www.cssforum.com.pk/css-optional-subjects/group-i/urdu/47449-urdu-compulsory-pms.html[/url]

Farrah Zafar Thursday, June 14, 2012 08:44 PM

[center][size="6"][u]2009[/u]

کہیں تو کاروان درد کی منزل ٹھہر جاۓ
کنارے آ لگے عمرٍرواں یا دل ٹھہر جاۓ

اماں کیسی کہ موجٍ خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جاۓ تو شائد بازوۓ قاتل ٹھہر جاۓ
[/size]
[center][b]______________________
[/b][/center]
[size="5"][b]
کہیں تو کاروان درد کی منزل ٹھہر جاۓ
کنارے آ لگے عمرٍرواں یا دل ٹھہر جاۓ
[/b]
[/center]
شاعر کے درد بے انتہا ہیں ، مصائب اتنے کہ گویا اک قافلہ ہو ، تکلیفیں اتنی کہ جیسے جھرمٹ ہو۔ بقول میر ،
[center][b]
غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا[/b][/center]

درد کا کارواں کہنے سے شاعر کی مراد ہےکہ اس کے تمام دکھ درد اک دوسرے سے ایسے بندھے ہوۓ ہیں اور اس طرح منظم ہیں جیسے اک قافلہ ہو۔ قافلے کی حرکت تو قابلٍ تسلیم ہے مگر شاعر نے منزل کی حرکت کا بھی ذکر کیا ہے۔ یعنی شاعر کے رنج و غم اک قافلے کی صورت منزل کی جانب بڑھے جا رہے ہیں اور اذیت کی بات تو یہ ہے کہ منزل کا بھی کوئ ٹھکانہ نہیں اور یہ شاعر کی دسترس سے دور ہے۔


اگلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ یہ میری گزرتی ہوئ عمر بھی کہیں ٹھہر جاۓ ۔ گویا شاعر اپنی موت کی تمنا کر رہا ہے کیوں کہ یہ ہی اک طریقہ ہے مصائب و آلام سے چھٹکارہ پانے کا ۔ شاعر اس بے چینی میں یہ بھی آرزو کر رہا ہے کہ یا تو موت آ جاۓ یا پھر میرے دل کو صبر و قرار ۔ بقول غالب
[center][b]
قید حیات و بند غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پاۓ کیوں[/b][/center]

درد کا کارواں شاعر کے لئے ایک مسلسل اذیت کا باعث ہے ۔ یہ ہی وجہ ہے کہ وہ اس سے فرار کے لئے دعا
گو ہے ۔ شاعر کے الفاظ میں جو کسک ہے وہ اس کے درد کی ترجمان ہے۔
[size="6"][center]
جاری ہے۔ ۔ ۔[/center][/size]
[/size]

Farrah Zafar Friday, June 15, 2012 03:41 PM

[size="6"][center]
اماں کیسی کہ موجٍ خوں ابھی سر سے نہیں گزری
گزر جاۓ تو شائد بازوۓ قاتل ٹھہر جاۓ
[/center][/size][size="5"]

شاعر اپنی بے بسی کا رونا رو رہا ہے کہ ابھی اسے اپنے دکھوں سے پناہ کیسے ملے؟ کہ ابھی تو ظلم کی انتہا نہیں ہوئ ۔ موج خوں کی طرف اشارہ کرنے کا مقصد یہ احساس دلانا ہے کہ ابھی ظلم و ستم نے اس کی جان نہیں لی ۔ ابھی وہ زندہ ہے۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاعر کا اشارہ اپنے محبوب کی جانب ہے ، جس کا ستم اس وقت تک نہیں تھمے گا جب تک کہ شاعر کا خون نہیں بہتا ۔
[center][b]
بقول مسرور انور

اک ستم اور میری جاں ، ابھی جاں باقی ہے
دل میں اب تک تیری الفت کا نشاں باقی ہے

[/b][/center]
۔گویا شاعر کا محبوب سنگدلی میں اپنی مثال نہیں رکھتا ۔ جور و جفا اسے بے حد مرغوب ہیں ۔ اور شاعر اپنے محبوب کی فطرت سے بخوبی واقف ہے جب ہی وہ خود اعتراف کر رہا ہے کہ ابھی وہ ساعت نہیں آئ کہ محبوب اس پر ترس کھاۓ ۔

اگلے مصرعے میں شاعر کہتا ہے کہ جب اس کے جسم سے خون کا فوارا پھوٹے گا تب ہی اس کے محبوب کا وار کرنے والا بازو دم لے گا اور ظلم کا سلسلہ تھمے گا۔
[center][b]
بقول بسمل عظیم آبادی

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازوۓ قاتل میں ہے

[/b][/center]
اس شعر کو یوں بھی لیا جا سکتا ہے کہ شاعر کا اشارہ حکمرانوں کی جانب ہے ۔ ان کے ظلم و ستم نے عوام کو بے بسی و لا چاری کی اس انتہا تک پہنچا دیا ہے کہ اب وہ فقط اپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں ۔

یہ شعر شاعر کے دل کی آواز لگتا ہے کیونکہ اس میں درد اور بے بسی واضح طور پر جھلکتی نظر آتی ہے[/size] ۔

Ameer Hasan Tuesday, April 16, 2013 01:18 AM

[QUOTE=Abdul Q;440834]Would you like to suggest any good book from where PMS poetry normally comes?

Also in 2009 PMS there was a question of translating English idioms into their counterparts in Urdu. Also need help in attempting this question also..:)[/QUOTE]

Meer o Ghaalib ka Khusoosi mutaliyaa by Ilmi Publishers, and iqbal ka Khusoosi mutalia are must read books for both pms and css poetry.


03:19 PM (GMT +5)

vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.