CSS Forums

CSS Forums (http://www.cssforum.com.pk/)
-   Urdu Literature (http://www.cssforum.com.pk/css-optional-subjects/group-v/urdu-literature/)
-   -   Faiz Ahmed Faiz: Fikr o Fun (http://www.cssforum.com.pk/css-optional-subjects/group-v/urdu-literature/64144-faiz-ahmed-faiz-fikr-o-fun.html)

siddiqui88 Thursday, June 07, 2012 10:10 AM

Faiz Ahmed Faiz: Fikr o Fun
 
[CENTER][SIZE=6][COLOR=DarkGreen][B]فیض کی غزل کی خصوصیات[/B][/COLOR][/SIZE]
[/CENTER]
[RIGHT][SIZE=5]کلامِ فیض کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں[/SIZE]
[SIZE=5]:[/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][COLOR=DarkGreen][U]مقصدیت[/U][/COLOR]
فیض کی مقصدیت ان کی غزل کے اشعار سے پوری طرح محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً[/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک غرض تمنا ہے جو ہم کرتے رہیں گے[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]یہ حسین کھیت، پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا
کس لئے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے؟[/I][/SIZE]
[/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][COLOR=DarkGreen][U]اشتراکیت نوازی[/U][/COLOR]
وہ اشاروں کنایوں میں اپنا اشترا کی فلسفہ بیان کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر[/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]اے خاک نشینو، اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]جابجا نور نے اک جال سا بن رکھا ہے
دور سے صبح کی دھڑکن کی صدا آتی ہے[/I][/SIZE]
[/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][COLOR=DarkGreen][U]حسنِ اظہار[/U][/COLOR]
ان کی زبان عام فہم اور سادہ ہونے کے باوجود پختہ اور غزل گوئی میں رچی بسی معلوم ہوتی ہے۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے[/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی، شبِ غم گزار کے[/I]
[I] رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آئی[/I][/SIZE]
[/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][COLOR=DarkGreen][U]سوزو گداز[/U][/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5] وہ عام سوزو گداز، جو غزل کے ساتھ مخصوص ہے، انہوں نے پوری طرح برقرار رکھا ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہیں[/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے مصفی چاہیں[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربند اصول وفا نہ تھے[/I][/SIZE]
[/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][COLOR=DarkGreen][U]نئی تراکیب وعلامتیں[/U][/COLOR][/SIZE]
[SIZE=5]
فیض کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے غزل کے قدیم مضامین اور اشعاروں اور علامتوں سے نئے معانی اور نئے مضمون پیدا کئے ہیں۔ مثلاً آزادی کا جو تصور ان کے ذہن مین تھا اور جو خوان انہوں نے دیکھے تھے وہ پورے نہیں ہوئے تو انہوں نے اس آزادی کی صبح کو شب گذیدہ سحر اور داغ داغ اجالے سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح ان کے یہاں دستِ صبا، سلگتی ہوئی شام اورخوابیدہ چراغ وغیرہ جیسی تراکیب ملتی ہیں۔ نمونہ کلام پیش ہے[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]یہ داغ داغ اجالے یہ شب گذیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس یہ وہ سحر تو نہیں[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]یہی تاریکی تو ہے غازئہ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دستِ صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردنِ مہتاب میں باہیں[/I][/SIZE]
[/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][COLOR=DarkGreen][U]محاکات[/U][/COLOR]
فیض کی شاعری کی ایک اور خصوصیت محاکات ہے۔ محبوب کے سراپا کے ساتھ ساتھ انہوں نے فطرت کی منظر کشی کی ہے۔ مثال کے طور پر[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]سیاہ زلفوں مین وارفتہ نکہتوں کا ہجوم
طویل راتوں میں خوابیدہ راحتوں کا ہجوم[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]گداز جسم قبا جس پہ سج کے ناز کرے
عکسِ جاناں کو وداع کرکے اٹھی میری نظر[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]چاند کی ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر
ڈوبتے تیرتے کہ مرجھاتے رہے کھلتے رہے[/I][/SIZE]
[/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][COLOR=DarkGreen][U]رقیب کا تصور[/U][/COLOR]
اردو شاعری میں رقیب کا کردار ہمیشہ سے باعثِ ملامت رہا ہے۔ اور شاعر نے اس کو اپنا دشمن گردانا ہے۔ اوراس کے وجود کو حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔ لیکن فیض نے اردو شاعری میں ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی ہے اور رقیب کو بھی معاملاتِ محبت میں اپنا دوست اور غم گسار بناکر گلے لگایا ہے۔ اور اس سے راز و نیاز کئے ہیں۔ عکسِ کلام درج ذیل ہیں[/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ لب
زندگی جن کے تصور میں لٹادی ہم نے[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوادی ہم نے[/I][/SIZE][/RIGHT]
[RIGHT][SIZE=5][I]ہم نے اس عشق میں کیا کھویا کیا پایا ہے
جز تیرے اور کو سمجھاوں تو سمجھا نہ سکوں[/I][/SIZE]
[SIZE=5][I][COLOR=DarkGreen]Source:[URL="http://www.guesspapers.net/6167/%D9%81%DB%8C%D8%B6-%D8%A7%D8%AD%D9%85%D8%AF-%D9%81%DB%8C%D8%B6/"]www.guesspapers.net[/URL][/COLOR]
[/I][/SIZE][/RIGHT]

siddiqui88 Thursday, June 07, 2012 10:15 AM

[CENTER][SIZE=6][COLOR=DarkGreen][B]فیض کی شاعری[/B][/COLOR][/SIZE][/CENTER]
[CENTER][SIZE=4][COLOR=Navy][B]محمدفیصل مقبول عجز[/B][/COLOR][/SIZE]
[/CENTER]
[RIGHT][SIZE=5]فیض احمد فیض ترقی پسند تحریک کے بانیان میں سے تھے لیکن ترقی پسند شعرا میں جو شدت اور ذہنی انتشار پایا جاتا ہے‘ فیض اس انتہا پسندی سے گریز کرتے ہوئے اعتدال کی راہ اختیار کر تے ہیں یہی وجہ ہے کہ دیگر ترقی پسند شعرا میں ان کا مقا م منفرد ہے[/SIZE]
[SIZE=5]:
ہم نے جو طرزِ فغاں کی ہے قفس میں ایجاد
فیضؔ گلشن میں وہی طرزِ بیاں ٹھہری ہے
تمھاری یاد کے جب زخم بھرنے لگتے ہیں
کسی بہانے تمھیں یاد کرنے لگتے ہیں[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] ترقی پسند ادب پرواپیگنڈے اور نعرے بازی میں تبدیل ہو گیا لیکن فیض کی نظر انسان پر ہونے والے مظالم اور بہیمانہ استبداد پرہے جس سے وہ دورِ حاضر کے انسان کو نجات دلوانا چاہتے ہیں۔ فیض جس معاشرے کا حصہ ہے اس میں عام انسان کو زندگی کے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں اور ان کے گرد آمریت کا گھیرا تنگ سے تنگ ہو تا جا رہا تھا۔ فیض اپنی نظم ’’رقیب سے‘‘میں عام انسان کے ہم زبان و ہم کلام ہو کر کہتے ہیں[/SIZE]
[SIZE=5]:
عاجزی سیکھی‘ غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرماں کے‘ دکھ درد کے معنی سیکھے
زیر دستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے ‘ رُخ زرد کے معنی سیکھے[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] فیض کی شاعری معاشرے کے پسے ہوئے انسان کی پکار بن کر پھیلی اور ملک سے باہر بھی فیض کے جذبہ حُب الوطنی کو سراہا گیا۔ ترقی پسند تحریک نے رومانوی تحریک کی بے اعتدالیوں اور زنانہ پن کلچر کی تصحیح اورملک میں ہونے والے سیاسی انتشار سے نبرد آزما ہونے کا بیڑا اُٹھایا۔ فیض اسی تحریک سے منسلک تھے لیکن ان کے جذبہ حب الوطنی دیر پا اور تغیر پیدا کرنے والاتھا ۔ ان کے شعری تجربے کی جڑیں رومانوی شاعری میں پیوست ہیں۔ان کی شعری عظمت ان کی سیاسی یا اشتراکی شاعر ی میں نہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ انھوں نے کلاسیکی شعری روایات و اصطلاحاتی نظام کو پھر سے شعری آہنگ عطا کیا۔[/SIZE]
[SIZE=5]
فیض کی شاعری نے شعری اختراع سے کلام لیتے ہوئے روایتی شاعری میں رومانونیت اور اشتراکیت کے عناصر کو یک جا کر دیا ہے۔ فیض نے روایتی شاعری کے مضامین و اسالیب کو ذوق و ترجیحات کی روشنی میں نہ صر ف دوبارہ نظم کیا بلکہ ان میں روایت پسندی ‘ کلاسیکی ‘ روایات و لفظیات کو استعمال کیا اس کی بہترین مثال ان کے ابتدائی مجموعہِ کلام ’’نقشِ فریادی‘‘میں موجود نظم’’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘‘میں نظر آتی ہے۔ یہی وہ نقطہِ انحراف ہے جہاں فیض نے اپنے شعری رجحانات اورملّی افکار کو قوم وملت کے مسائل کی نمائندگی کے لیے مختص کر دیا تھا[/SIZE]
[SIZE=5]:
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سراُٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چُرا کے چلے ‘ جسم و جاں بچا کے چلے[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] ابتدائی کلام میں کئی نظمیں اسی حوالے سے ملتی ہیں جن میں ’’سوچ‘‘۔’’رقیب سے‘‘۔’’چند روز اور میری جان‘‘۔ ’’کتے‘‘۔ ’’سیاسی لیڈر کے نام‘‘۔’’اے دلِ بے تاب ٹھہر‘‘۔’’مرے ہم دم مرے دوست‘‘موضوع کے اعتبار سے عوامی مسائل کی نشان دہی اور ان کے حل کے لیے شاعر کے جذبات کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں۔حکومتِ وقت کو فیض کے نظریات سے اختلاف ہوا تو فیض نے جیل بھی کاٹی۔وہ ۹ مارچ ۱۹۵۱ء سے ۲۰اپریل ۱۹۵۵ ء تک قید میں رہے ۔ پھر دسمبر ۱۹۵۸ء سے لے کر اپریل ۱۹۵۹ء تک اسیر رہے۔ محترم محمد اسحاق صاحب (سابق میجر)فیض کی شاعری کوچار ادوار میں تقسیم کرتے ہیں جن کا تفصیلاً ذکر انھوں نے فیض کے کلام ’’زندان نامہ‘‘میں مضمون بہ عنوان ’’رودادِ قفس‘‘میں کیا ہے۔[/SIZE]
[U][SIZE=5][COLOR=DarkGreen]
[/COLOR][/SIZE][/U]
[SIZE=5][U][COLOR=DarkGreen]فیض صاحب کی جیل کی شاعری کے چار رنگ[/COLOR][/U][/SIZE]
[SIZE=5]:
پہلا رنگ: سرگودھا اور لائل پور کی جیلوں میں ا ن کی تین مہینوں کی قیدِ تنہائی کا ہے[/SIZE]
[SIZE=5]:
متاحِ لوح و قلم چِھن گئی تو کیا غم ہے
کہ خونِ دل میں ڈبو لی ہیں انگلیاں میں نے
زباں پہ مہر لگی ہے تو کیا کہ رکھ دی ہے
ہر ایک حلقۂ زنجیر میں زباں میں نے[/SIZE]
[SIZE=5]
دوسرا رنگ: حیدر آباد کا ہے جہاں انھیں ہرطرح کا جسمانی آرام جو جیل میں ممکن ہو سکتا تھا ‘ میسر تھا[/SIZE]
[SIZE=5]:
یہی جنوں کا یہی طوق و دار کا موسم
یہی ہے جبر‘ یہی اختیار کا موسم
قفس ہے بس میں تمھارے‘ تمھارے بس میں نہیں
چمن میں آتشِ گل کے نکھار کا موسم
بلا سے ہم نے نہ دیکھا تو اور دیکھیں گے
فروغِ گلشن و صوتِ ہزار کا موسم[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] تیسرا رنگ: کراچی کا ہے جہاں فیض صاحب دو ماہ مقیم رہے۔ دراصل یہ رنگ دوسرے اور چوتھے رنگ کی درمیانی کڑی ہے۔کراچی اورمنٹگمری میں لکھی ہوئی غزلوں اور نظموں کے مجموعے کا نام ’’زندان نامہ‘‘رکھا گیا[/SIZE]
[SIZE=5]:
ستم کی رسمیں بہت تھیں لیکن‘ نہ تھی تری انجمن سے پہلے
سزا ‘ خطائے نظر سے پہلے‘ عتاب جرمِ سخن سے پہلے
جو چل سکو تو چلو کہ راہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے
مقام ہے اب کوئی نہ منزل‘ فرازِ دار و رسن سے پہلے[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] چوتھا رنگ: منٹگمری جیل کی شاعری کاہے:
ہم اہل قفس تنہا ہی نہیں‘ ہر روز نسیم صبحِ وطن
یادوں سے معطر آتی ہے‘ اشکوں سے منور جاتی ہے
۔۔۔
ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہو اندھیرے کی فصیلوں سے اُدھر
ان کو شعلوں کے رجز اپنا پتا تو دیں گے
خیر ہم تک وہ پہنچیں بھی‘ صدا تو دیں گے
دور کتنی ہے ابھی صبح‘ بتا تو دیں گے[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] ان ادوارمیں لکھی گئی نظموں میں فیض کے سیاسی نظریات اور شعری آہنگ کاحسین امتزاج موجود ہے جو اہل علم و ادب سے خراجِ تحسین پاتا ہے[/SIZE]
[SIZE=5] :
چند روز اور مری جان! فقط چند ہی روز
ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پہ مجبور ہیں ہم
اورکچھ دیر ستم سہہ لیں ‘ تڑپ لیں‘ رو لیں
اپنے اجداد کی میراث ہے معذور ہیں ہم[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] فیض اپنے اجداد کی میراث سے انحراف کرتے ہوئے پر امید نظر آتے ہیں:
لیکن اب ظلم کی میعاد کے دن تھوڑے ہیں
اک ذرا صبر‘ کہ فریاد کے دن تھوڑے ہیں
۔۔۔۔۔۔
یہ داغ داغ اُجالا‘ یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا‘ یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تو نہیں جس کی آرزو لے کر
چلے تھے یار کہ مل جائے گی کہیں نہ کہیں
فلک کے دشت میں تاروں کی آخری منزل
کہیں تو ہو گا شبِ سست موج کا ساحل
کہیں تو جا کے رُکے گا سفینۂ غمِ دل[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] نظم ’’موضوعِ سخن‘‘بھی رومانیت ‘اشتراکی خیالات اور جذبہ حب الوطنی کے جذبات کا بہترین اظہار ہے۔ موجودہ نظام میں انسان پر ہونے والے استبداد اور مظالم کے حوالے سے لکھتے ہیں[/SIZE]
[SIZE=5]:
آج تک سرخ و سیہ صدیوں کے سایے کے تلے
آدم و حوا کی اولاد پہ کیا گزری ہے؟
موت اور زیست کی روزانہ صف آرائی میں
ہم پہ کیا گزرے گی اجداد پہ کیا گزری ہے
روایت پسندی کا عنصر بھی نظم میں کچھ یوں بیان ہوا ہے:
یہ بھی ہیں ایسے کئی اور بھی مضموں ہوں گے
لیکن اس شوخ کے آہستہ سے کھلتے ہوئے ہونٹ
ہائے اس جسم کے کم بخت دلآویز خطوط
آپ بھی کہیے کہیں ایسے بھی افسوں ہوں گے[/SIZE]
[SIZE=5]
[/SIZE]
[SIZE=5] فیض نے شاعری میں عصری تقاضوں ‘ فکری رجحانات عوام پر بڑھتے ہوئے مظالم ‘بہیمانہ استبداد او رغیر یقینی ملکی حالات و انتشار قلبی کوبڑی خوش اسلوبی سے بیان کیا ہے۔ فیض کی شاعری کی معراج یہ ہے کہ انھوں نے اُردو روایتی شاعری سے اپنا تعلق بھی قائم رکھا اور عصری تقاضوں کو بھی نظرانداز نہیں کیا۔ ان کی شاعری صحیح معنوں میں اپنے اسلاف کی شعری روایات کی امین ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی فیض کی شاعری اپنے مخصوص لب و لہجے کی مانوسیت کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں زندہ ہے۔[/SIZE][/RIGHT]
[CENTER][SIZE=5][COLOR=DarkGreen]بشکریہ:[URL="http://www.nla.gov.pk/uakhbareurdu/august2011/5.html"]اخباراردو[/URL][/COLOR]
[/SIZE][/CENTER]


06:36 PM (GMT +5)

vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.