|
News & Articles Here you can share News and Articles that you consider important for the exam |
Share Thread: Facebook Twitter Google+ |
|
LinkBack | Thread Tools | Search this Thread |
#1
|
||||
|
||||
Flood Affected Areas Map and Statistics
|
The Following 6 Users Say Thank You to DEADLYDOCTOR For This Useful Post: | ||
H. R. Akhunzada (Sunday, August 22, 2010), Maroof Hussain Chishty (Thursday, August 12, 2010), marshal453 (Friday, August 13, 2010), Perhar (Sunday, August 22, 2010), Silent.Volcano (Thursday, August 12, 2010), Slazenger (Friday, August 13, 2010) |
#2
|
||||
|
||||
Anticipated
Anticipated areas in Sindh are now considered as Severe
Pray for victims and kindly donate as much as you can for them. Regards,
__________________
'Never think that God's delays are God's denials. Hold on; hold fast; hold out. Patience is genius! |
#3
|
||||
|
||||
صرف چار چیزیں!
اصناف: ماحولیات, پاکستان, پنجاب وسعت اللہ خان | 2010-08-13 ، 45 اب تک حکومتِ پاکستان نے جو تخمیہ لگایا ہے اسکے حساب سے ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں اور پچیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پانی تلے آئی ہے۔ پانچ لاکھ ٹن گندم کے ذخائر برباد ہوئے ہیں اور گنے کی بیشتر فصل ڈوب گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کہتی ہے کہ بحالی کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں۔ جب میں یہ اعداد و شمار کروڑ لعل عیسن کے ایک سیلاب زدہ ایف اے پاس کسان یوسف علی کو بتا رہا تھا تو اس نے کہا ہمیں اربوں ڈالر نہیں چاہیئیں۔ ہمیں تو بس حکومت ہر شخص کے متاثرہ رقبے کے حساب سے گندم کی اگلی فصل کے لیے مفت بیج ، کھاد ، ڈیزل اور ٹیوب ویل کا انجن دے دے۔ جیسے جیسے فصل کھڑی ہوتی جائے گی ہم بھی کھڑے ہوتے چلے جائیں گے۔ ان چار چیزوں کی بنیاد پر حاصل ہونے والی پیداوار کی آمدنی سے ہم سال بھر میں دو کچے کمرے تعمیر کرلیں گے۔ایک دو بھینسیں خرید لیں گے اور اگلے برس کی کاشت بھی اپنے بل بوتے پر کرلیں گے۔ جس سیلاب نے برباد کیا ہے وہی سیلاب نئی مٹی کی شکل میں پیدا ہونے والی زرخیزی کا مرہم ہمارے زخموں پر رکھ دے گا ۔ جو لوگ اربوں ڈالر کی بات کر رہے ہیں وہ ہمارے لیے نہیں ہیں۔ وہ تو اسلام آباد کے ای اور ایف سیکٹرز ، پشاور کے حیات آباد ، کراچی کے ڈیفنس اور کلفٹن ، لاہور کے گلبرگ، ماڈل ٹاؤن اور ڈیفنس کے لیے ہیں۔ ہمیں بس ایک فصل کا بیج، کھاد، ڈیزل اور ٹیوب ویل انجن دے دو ۔باقی خود رکھ لو۔یوسف علی نے اپنے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔ source:http://www.bbc.co.uk/blogs/urdu/2010/08/post_659.html
__________________
Reality is something you rise above. |
#4
|
||||
|
||||
دریا سے پہلے اپنی حماقتوں پر پشتہ باندھنے کی ضرورت ہے
وسعت اللہ خان اگر میں روزانہ آپ کےمنہ پر زور کا چانٹا جڑتا رہوں۔ آپ کے جسم کے کسی بھی حصے پر چٹکی بھر کر نیل چھوڑ دوں۔آتے جاتے تشریف پر ٹھڈا رسید کرتا رہوں۔کبھی کبھی گلے میں رسی ڈال کر منہ کالا کرکے گدھے پر الٹا بٹھا کر گلیوں میں گھماتا رہوں اور تماشائیوں سے کہوں کہ آپ کے منہ پر تھوکتے رہیں۔ آپ کو نیند آنے لگے تو سر پر پانی کی بالٹی ڈال دوں۔جی چاہے تو سر کے بل کھڑا کردوں، دل چاہے تو پنکھے سے لٹکا کر چھتر مار مار کر تلوے سوجھا دوں۔ آپ کچھ کہنے کے لیے ذرا سا بھی منہ کھولیں تو آپ کی ماں بہن ایک کردوں۔ یہ سب کچھ چالیس برس تک چوبیس گھنٹے بلا فردِ جرم آپ کے ساتھ ہوتا رہے تو کیا کریں گے؟ کیا آپ مجھے معاف کردیں گے، عدالتی چارہ جوئی کریں گے یا پھر موقع پاتے ہی مجھے، تماشا دیکھنے والے میرے اہلِ خانہ اور شریکِ جرم حالی موالیوں کو قتل کرکے لاشیں ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے بعد فرار ہونے کی کوشش کریں گے؟ آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان حالات میں آپ کا فطری ردِ عمل کیا ہوسکتا ہے۔ لہٰذا انسانیت و تہذیبی اقدار کی عظمت پر مبنی دانشوری بگھارے بغیر سیدھا سیدھا جواب چاہیے۔ کئی عشروں سے دریائے سندھ اور اس کے نائبین کے ساتھ ہم کیا کررہے ہیں۔وہ اپنے جامےمیں بہتے رہےتوہم اسے شریفانہ کمزوری سمجھ کر انکی گذرگاہوں کو ہر طرح کی الائشوں سے آلودہ کرتے رہے ، کنارے پر لگے گھنے جنگلات اور نباتات کاٹ کاٹ کر انکے سر کی سبز چادر تار تار کرتے رہے۔ لالچ کے بلڈوزروں سے پیچھے دھکیل دھکیل کرانہی کی ریت کھود کھود کر بستیاں، اینٹوں کے بھٹے، سڑکیں اور زرعی زمینیں بساتے رہے۔ کئی عشروں سے دریائے سندھ اور اس کے نائبین کے ساتھ ہم کیا کررہے ہیں۔وہ اپنے جامےمیں بہتے رہے تو ہم اسے شریفانہ کمزوری سمجھ کر ان کی گذرگاہوں کو ہر طرح کی الائشوں سے آلودہ کرتے رہے، کنارے پر لگے گھنے جنگلات اور نباتات کاٹ کاٹ کر ان کے سر کی سبز چادر تار تار کرتے رہے۔ لالچ کے بلڈوزروں سے پیچھے دھکیل دھکیل کرانہی کی ریت کھود کھود کر بستیاں، اینٹوں کے بھٹے، سڑکیں اور زرعی زمینیں بساتے رہے۔ اتنے ظلم پر بھی دریا آپے سے باہر نہیں ہوئے۔کبھی کبھی صرف طغیانی کی صورت میں سرزنش کرتے رہے، غصے سے بل کھا کر راستے بدلتے رہے۔اپنے ہی سینے پر بہتے پانی سے محروم رہے مگر اف نہ کی۔پیاس بجھانے کے لئے اپنے ہی خون کےگھونٹ پیتے رہے۔ لیکن ہم انکے پیچ و تاب کو غلام کا غصہ سمجھتے رہے اور سر پر موتنے سے باز نا آئے۔ ہم نے سوچا کہ دریا تو ناخواندہ ہوتے ہیں کیونکہ وہ ازخود نوٹس لینے والی کسی عدالت کا راستہ نہیں جانتے۔انہیں تو رشوت دینا بھی نہیں آتا۔ وہ تو جانوروں کی طرح بے زبان ہیں۔زیادہ سے زیادہ چیخ سکتے ہیں۔ لہٰذا ان سے جانوروں جیسا سلوک عین تہذیبی ہے۔نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ بات بات پر غصہ گنوار کو آتا ہے شریف آدمی کو بہت کم غصہ آتا ہے۔ خبردار ! کوئی دریا کی طرف انگلی نہ اٹھائےکیونکہ اسی ہاتھ کی تین انگلیاں ہماری جانب بھی اشارہ کررہی ہیں ہم چند دریاؤں کو عارضی بےوقوف ضرور بنا سکتے ہیں لیکن سب دریاؤں کو مستقل بے وقوف نہیں بنا سکتے؟ دریا سے پہلے اپنی حماقتوں پر پشتہ باندھنے کی ضرورت ہے۔ یہ سیلاب نہیں بلکہ شرافت غیض وغضب میں ہے۔جسے آپ بارہ لاکھ کیوسک پانی سمجھ رہے ہیں یہ دراصل ہماری بارہ لاکھ کیوسک مائع جہالت ہے۔ جسے ہم ریلہ سمجھ رہے ہیں یہ ان آزاد منش غلام دریاؤں کے منہ سے نکلنے والا غصیلہ تھوک ہے۔ جن بندوں اور پشتوں کے ٹوٹنے پر ہم اتنے غمزدہ ہیں یہ پشتے نہیں ہماری آنکھوں پر بندھی پٹیاں ہیں جنہیں سندھو اور اس کے باغی معاونین اب کھینچ کھینچ کر اتار رہے ہیں۔ جسے ہم اپنی فصلوں اور املاک کا نقصان سمجھ رہے ہیں یہ دراصل وہ تجاوزات ہیں جنہیں دریا خود صاف کرنے پر مجبور کردیا گیا ہے۔ خبردار! کوئی دریا کی طرف انگلی نہ اٹھائے کیونکہ اسی ہاتھ کی تین انگلیاں ہماری جانب بھی اشارہ کررہی ہیں ہم چند دریاؤں کو عارضی بےوقوف ضرور بنا سکتے ہیں لیکن سب دریاؤں کو مستقل بے وقوف نہیں بنا سکتے؟ دریا سے پہلے اپنی حماقتوں پر پشتہ باندھنے کی ضرورت ہے۔ http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/08/100815_baat_se_baat.shtml ___________________ احسان اللہ شیخ لیہ کی ایک مخیر کاروباری شخصیت ہیں جو ہر روز سیلاب سے متاثر ہونے والے ایک ہزار افراد کو دو وقت کا کھانا مہیا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے پانچ اگست سے یہ کام شروع کیا تھا اور وہ اسے جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنے دو بھائیوں اور دو بیٹوں کے ساتھ روزانہ چھ سے سات گھنٹے اس کام میں لگاتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کام میں ان کے روزانہ پچیس سے تیس ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ http://www.bbc.co.uk/urdu/multimedia/2010/08/100811_wusat_hero3.shtml
__________________
No matter how fast i run or how far i go it wont escape me, pain, misery, emptiness. |
#5
|
||||
|
||||
Population Affected: 14,571,885
Area Affected:132,000 (Sq Km) http://ndma.gov.pk/Documents/flood_2...ust%202010.xls this is updated data from national disaster management.it is an excel file opens in microsoft excel. for daily updates check out this link: http://ndma.gov.pk/flood-2010.html
__________________
Reality is something you rise above. |
The Following User Says Thank You to DEADLYDOCTOR For This Useful Post: | ||
xenia (Monday, August 16, 2010) |
#6
|
||||
|
||||
__________________
Reality is something you rise above. |
#7
|
||||
|
||||
The above image was taken on August 15, 2010, while the one below was snapped one year ago. The blue patches show the extend of the flooding, which have left 20 million people homeless The extend of the flooding is particularly obvious in these images, taken on August 14, 2009 and August 15, 2010 which show visible swelling of the Indus and Jhelum Rivers.
__________________
Reality is something you rise above. |
#8
|
||||
|
||||
دریائے سندھ ایک برس قبل
دریائے سندھ حالیہ سیلاب کے بعد سیلاب سے کم تباہی اور زیادہ تباہی والے اضلاع اور مختلف بیراج
__________________
I know who am I but here is still need to know what am I ? (A.N) |
The Following User Says Thank You to Noor_2009 For This Useful Post: | ||
haroon javed (Wednesday, August 25, 2010) |
#9
|
||||
|
||||
Dawn special,Pakistan 2010: the neverending flood
__________________
I find that the harder I work, the more luck I seem to have |
|
|