Friday, April 19, 2024
06:29 PM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > Off Topic Section > Islam

Islam Invite to the Way of your Lord with wisdom and fair preaching, and argue with them in a way that is better. Truly, your Lord knows best who has gone astray from His Path, and He is the Best Aware of those who are guided." Holy Qur'an 16:125

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #21  
Old Tuesday, April 02, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default سخاوت

یک آدمی نے حاتم طائی سے پوچھا: ”اے حاتم! کیا سخاوت میں کوئی تجھ سے آگے بڑھا ہے”

حاتم نے جواب دیا: ہاں!… قبیلہ طے کا ایک یتیم بچہ مجھ سے زیادہ سخی نکلا جس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ دوران سفر میں شب بسری کے لیۓ ان کے گھر گیا، اس کے پاس دس بکریاں تھیں، اس نے ایک ذبح کی، اس کا گوشت تیار کیا اور کھانے کیلئے مجھے پیش کر دیا- اس نے کھانے کے لیۓ مجھے جو چیزیں دیں ان میں مغز بھی تھا- میں نے اسے کھایا تو مجھے پسند آیا- میں نے کہا: “واہ سبحان اللہ! کیا خوب ذائقہ ہے”

یتیم بچہ فوراً باہر نکل گیا اور ایک ایک کر کے تمام بکریاں میری لا علمی میں اس نے ذبح کر ڈالیں اور سب کے مغز مجھے پیش کیے- جب میں کوچ کرنے لگا تو کیا دیکھا کہ گھر کے ارد گرد ہر طرف خون ہی خون بکھرا پڑا ہے- میں نے اس سے کہا: “آپ نے تمام بکریاں کیوں ذبح کیں؟”

اس نے کہا: “واہ، سبحان اللہ! … آپ کو میری کوئی چیز اچھی لگے اور میں اس پر بخل کروں، یہ عربوں کیلئے بدترین گالی ہے-”

حاتم سے پوچھا گیا: ” بدلے میں آپ نے اسے کیا دیا؟…”

انہوں نے کہا: “تین سو سرخ اونٹھنیاں اور پانچ سو بکریاں-”

ان سے کہا گیا: “تو پھر آپ اس سے بڑے سخی ہوئے-”

انہوں نے جواب دیا: “نہیں وہ مجھ سے زیادہ سخی ہے، کیونکہ اس نے اپنا سب کچھ لٹا کر سخاوت کی جبکہ میں نے تو اپنے بہت سے مال میں سے تھوڑا سا خرچ کر کے سخاوت کی ہے-
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
  #22  
Old Saturday, April 27, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default

حجام سے سیکھا اخلاص

حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اخلاص ایک حجام سے سیکھا - وہ اس وقت مکہ معظمہ میں کسی رئیس شخص کے بال بنارہا تھا میرے مالی حالات نہایت شکستہ تھے میں نے حجام سے کہا
" میں اجرت کے طور پر تمھیں ایک پیسا نہیں دے سکتا بس تم الله کے لئے میرے بال بنا دو "
میری بات سنتے ہی اس حجام نے رئیس کو چھوڑ دیا اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولا - تم بیٹھ جاؤ ! مکے کے رئیس نے حجام کے طرز عمل پر اعتراض کیا تو وہ معذرت کرتے ہوئے بولا -
" جب الله کا نام اور واسطہ درمیان میں آجاتا ہے ، تومیں پھر سارے کام چھوڑ دیتا ہوں "
حجام کا جواب سن کر مجھے بڑا تعجب ہوا اور پھر قریب آ کر اس نے میرے سر پر بوسہ دیا اور بال بنانے لگا اپنے کام سے فارغ ہو کے حجام نے مجھے ایک پڑیا دی جس میں کچھ رقم تھی -
" اسے بھی اپنے استمعال میں لائیے " حجام کے لہجے میں بڑا خلوص تھا - میں نے رقم قبول کر لی اور اس کے ساتھ نیت کی کہ مجھے جو پہلی آمدنی ہوگی وہ حجام کی نظر کروں گا - پھر چند روز بعد جب میرے پاس کچھ روپیہ آیا تو میں سیدھا اس حجام کے پاس پہنچا اور وہ رقم اسے پیش کر دی -
یہ کیا ہے ؟ حجام نے حیران ہو کر پوچھا میں نے اس کے سامنے پورا واقعہ بیان کر دیا میری نیت کا حال سن کر حجام کے چہرے پر ناگواری کا رنگابھر آیا -
" اے شخص ! تجھے شرم نہیں آتی ! تو نے الله کی راہ میں بال بنانے کو کہا تھا اور اب کہتا ہے کہ یہ اس کا معاوضہ ہے - تو نے کسی بھی مسلمان کو دیکھا ہے الله کی راہ میں کام کرے اور پھر اس کی مزدوری لے "
حضرت جنید بغدادی رحمتہ اللہ علیہ اکثر فرماتے تھے ، میں نے اخلاص کا مفہوم اسی حجام سے سیکھا ہے
نگاہ..........!!
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to Red Flower For This Useful Post:
Glaring (Monday, June 03, 2013), Muhammad T S Awan (Sunday, April 28, 2013)
  #23  
Old Monday, June 03, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default

ایک کھجور کا حساب


حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جن دنوں میں بیت المقدس میں تھا ان دنوں کا واقعہ ہے کہ ایک رات جب ہم لوگ عشاء کی نماز پڑھ کر فارغ ہوئے اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو کچھ رات بیتنے کے بعد آسمان سے دو فرشتے اترے اور مسجد کی محراب کے پاس آکر ٹھہرگئے۔ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ مجھے یہاں سے کسی انسان کی خوشبو آرہی ہے‘ دوسرے نے کہاں ہاں! یہ ابراہیم بن ادھم ( رحمۃ اللہ علیہ)ہیں۔ پہلے نے پوچھا‘ ابراہیم بن ادھم (رحمۃ اللہ علیہ) بلخ کے رہنے والے ہیں؟ دوسرے نے کہا ہاں! وہی۔ پہلے نے کہا: افسوس! انہوں نے رب کی رضا حاصل کرنے کیلئے بڑی مشقتیں برداشت کیں‘ مصیبتوں اور مشکلوں کے باوجود صبر سے کام لیا حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو مرتبہ ولایت عطا کردیا لیکن صرف ایک چھوٹی سی غلطی کی وجہ سے انہوں نے وہ مرتبہ کھودیا۔ دوسرے نے پوچھا: ان سے کیا غلطی سرزد ہوئی ہے؟ پہلے فرشتے نے کہا: جب وہ بصرہ میں تھے تو ایک بار انہوں نے ایک کھجور فروش سےکھجوریں خریدیں‘ کھجوریں لیکر جب وہ واپس پلٹنے لگے تو دیکھا کہ زمین پر کھجور کا ایک دانہ گرا پڑا تھا انہوں نے سمجھا شاید یہ ان کے ہاتھ سے گرا ہے۔ لہٰذا انہوں نے اسے اٹھایا‘ صاف کیا اور کھالیا۔ دراصل کھجور کا دانہ ان کے ہاتھ سے نہیں گرا تھا بلکہ کھجور کے ٹوکرے سے گرا تھا‘ جونہی وہ کھجور ان کے پیٹ میں پہنچی ان سے مرتبہ ولایت واپس لے لیا گیا۔حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد کے دروازے کی اوٹ سے جب ان کی یہ باتیں سنیں تو روتے ہوئے
مسجد سے باہر نکلے اور اس پریشانی اور بے چینی کے عالم میں بیت المقدس سے بصرہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ وہاں جاکر ایک کھجور فروش سے کھجوریں خریدیں اور پھر اس کھجور فروش کے پاس گئے جس سے پہلے کھجوریں خریدی تھیں‘ اسے کھجور واپس کی اور ساتھ ہی سارا واقعہ بیان کیا اور آخر میں اس سے معافی بھی مانگی کہ غلطی سے تمہاری ایک کھجور کھالی تھی لہٰذا مجھے معاف کردینا۔اس کھجور فروش نے کھلے دل سے معاف کردیا اور پھر روپڑا کہ حضرت کو ایک کھجور کی وجہ سے اتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ مختصر یہ کہ حضرت ابراہیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ بصرہ سے پھر بیت المقدس روانہ ہوگئے اور بیت المقدس پہنچ کر رات کے وقت اس مسجد میں جاکر بیٹھ گئے۔ جب رات کافی بیت گئی تو آپ نے دیکھا کہ دو فرشتے آسمان سے اترے‘ ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ مجھے یہاں سے انسان کی خوشبو آرہی ہے دوسرے فرشتے نے کہا ہاں یہاں ابراہیم بن ادھم موجود ہیں جو ولایت کے مرتبے سے گرگئے تھے لیکن اب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل و کرم کے صدقے پھر وہی مقام ومرتبہ عطا فرمادیا۔
کبھی سوچا ہے کہ ہم انجانے میں اور جان بوجھ کر لوگوں کا کتنا حق کھا جاتے ہیں اور کبھی سوچا ہی نہیں کہ روز محشر حساب دینا پڑے گا
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Red Flower For This Useful Post:
Glaring (Monday, June 03, 2013)
  #24  
Old Monday, June 03, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default


بوڑھی عورت، ڈاکٹر اور وسیلہ


اس کا نام ڈاکٹر احمد تھا اور وہ سعودی عرب کا معروف طبیب تھا۔ لوگ اس سے مشورہ لینے کے لیے کئی کئی دن تک انتظار کرتے۔ اس کی شہرت بڑھتی چلی گئی۔دارالحکومت میں ایک انٹر نیشنل میڈیکل کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں اسے بھی دعوت دی گئی۔ اس کی خدمات کے پیش نظر فیصلہ ہوا کہ وہ اس کانفرنس میں نہ صرف کلیدی مقالہ پڑھے گا بلکہ اس موقع پر اسے اعزازی شیلڈ اور سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے۔ڈاکٹر احمداپنے گھر سے ائیرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔

وہ بڑا خوش اور پُرسکون تھا۔ آج شام اس کی تکریم اور عزت کی جانے والی تھی۔ اس کا سوچ کر وہ اور بھی زیادہ آسودہ ہوگیا۔ ائیر پورٹ پر وہ معمول کی چیکنگ کے بعد فوراً ہی ہوائی جہاز میں سوار ہوگیا۔ اس کی فلائٹ وقت کے مطابق پرواز کر گئی۔ کوئی آدھ پون گھنٹے کے بعد ائیر ہوسٹس نے اعلان کیا ہم معذرت خواہ ہیں کہ طیارے میں فنی خرابی کے باعث ہم قریبی ائیر پورٹ پر اتر رہے ہیں۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ کار نہیں ہے۔

فلائٹ بغیر کسی رکاوٹ اور حادثے کے قریبی ائیر پورٹ پر اتر گئی۔ مسافر جہاز سے اتر کر لاؤنج میں چلے گئے۔ ڈاکٹر احمد بھی دیگر مسافروں کے ساتھ طیارے کی فنی خرابی کے درست ہونے کا انتظار کرنے لگے۔تھوڑی دیر کے بعد ائیر پورٹ اتھارٹی نے اعلان کیا:خواتین وحضرات! انجینئر نے بتایا ہے کہ فنی خرابی کے درست ہونے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے۔ لہٰذا مسافروں کے لیے متبادل طیارہ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ یہ طیارہ کب آئے گا ؟کسی کو علم نہ تھا۔ تھوڑی دیر بعد نیا اعلان ہوا کہ متبادل طیارہ کل ہی آسکتا ہے۔ ہم اس زحمت کے لیے معذرت خواہ ہیں۔ اب آپ کو ہوٹل پہنچا دیا جائے گا۔

ڈاکٹر احمدکے لیے یہ اعلان نہایت تکلیف دہ اور پریشان کر دینے والا تھا۔ آج رات تو اس کی زندگی کی نہایت اہم رات تھی۔ وہ کتنے ہفتوں سے اس رات کا منتظر تھا کہ جب اس کی تکریم ہونی تھی۔ وہ کرسی سے اٹھا اور ائیر پورٹ کے اعلی افسر کے پاس جا پہنچا، اپنا تعارف کرایا اور کہا کہ میں انٹر نیشنل لیول کا ڈاکٹر ہوں۔ میرا ایک ایک منٹ قیمتی ہے ۔ مجھے آج رات دارالحکومت میں مقالہ پڑھنا ہے۔ پوری دنیا سے مندوبین اس سیمینار میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں اور آپ لوگ ہمیں یہ خبر سنا رہے ہیں کہ متبادل طیارہ ۱۶ گھنٹے بعد آئے گا۔متعلقہ افسر نے اسے جواب دیا: محترم ڈاکٹر صاحب ہم آپ کی عزت اور قدر کرتے ہیں ۔

ہمیں آپ کی اور دیگر مسافروں کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ لیکن یہ ہمارے بس کی بات نہیں اور نیا طیارہ فوری طور پر فراہم کرنا میرے بس میں نہیں ہے۔البتہ وہ شہر جہاں آپ کو کانفرنس میں شرکت کے لیے جانا ہے، یہاں سے بذریعہ کار سے صرف تین چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ اگر آپ کو بہت جلدی ہے تو ائیر پورٹ سے کرایہ پر گاڑی حاصل کریں اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے متعلقہ شہر پہنچ جائیں۔ ‘‘

ڈاکٹر احمدلمبی ڈرائیونگ کرنا پسند نہ کرتا تھا۔ مگر اب یہ مجبوری تھی اس کے پاس کوئی متبادل راستہ تھا ہی نہیں۔اس نے متعلقہ آفیسرکے مشورے کوپسند کیا اور ایئر پورٹ سے کار کرایہ پر لے کر متعلقہ شہر کی جانب روانہ ہو گیا۔ ابھی کچھ ہی فاصلہ طے کیاتھا کہ اچانک موسم خراب ہو نا شروع ہو گیا۔آسمان پر گہرے بادل نمو دار ہوئے۔تیز آندھی اس پر مستزادتھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے زور دار بارش شروع ہوگئی اور ہر طرف اندھیر ا چھا گیا۔ موسم کی خرابی کی و جہ سے اسے اندازہ ہی نہ ہوا کہ وہ کس سمت جارہا ہے۔ دو گھنٹے تک وہ مسلسل چلتا گیا،بالآخر اسے یقین ہو گیاکہ وہ راستے سے بھٹک چکا ہے۔

اب اسے بھوک اور تھکاوٹ کااحساس بھی بڑی شدت سے ہونے لگا۔اس نے سوچا تھا : تین چار گھنٹے ہی کا سفر تو ہے ، ا س لیے اس نے اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز بھی نہ لی تھی۔اب اسے کسی ایسے ٹھکانے کی تلاش تھی جہاں سے اسے کھانے پینے کی کوئی چیز مل سکے۔وقت تیزی سے گزرتا رہا تھا۔ چاروں طرف رات کا اندھیرا بھی چھا چکا تھا۔ ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس سے گزرتے ہوئے اس نے غیر شعوری طور پراپنی گاڑی ایک چھوٹے سے گھر کے سامنے روک دی۔

اس کا ہاتھ گھر کے دروازے پر دستک دے رہا تھا جب اندر سے ایک بوڑھی عورت کی نحیف و ناتواں آوازاس کے کانوں میں پڑی جو کہہ رہی تھی:جو بھی ہو اندر آجاؤ دروازہ کھلا ہے۔ ڈاکٹراحمدگھر میں داخل ہو اتو دیکھا کہ ایک بوڑھی عورت متحرک کرسی پر بیٹھی ہے۔ اس نے خاتون سے کہا: اماں! میرے موبائل کی بیٹری ختم ہو چکی ہے، کیا میں اپنا موبائل چارج کر سکتا ہوں؟

بوڑھی عورت مسکرا کر کہنے لگی: میرے بیٹے کون سے فون کی بات کررہے ہو؟ تمھیں معلوم نہیں اس وقت تم کہاں ہو؟ ہما رے ہاں نہ تو بجلی ہے نہ ٹیلی فون،یہ تو ایک چھوٹا سا گائوں ہے، جہاں شہری سہولتوں کاکوئی تصور نہیں ہے پھر اس نے مزید کہا! میرے بیٹے وہ سامنے میز پر چائے اور کھانا رکھاہے۔لگتا ہے کہ تم بھوکے اور پیاسے ہو۔راستہ بھٹک گئے ہو۔تم پہلے کھانا لو پھر بات کریںگے۔ لگتا ہے تم خاصا طویل فاصلہ طے کر کے آئے ہو۔ ڈاکٹر احمدنے اس بوڑھی خاتون کا شکریہ ادا کیا اور کھانے پر ٹوٹ پڑا ۔سفر کی تھکاوٹ سے اسے شدید بھوک لگ رہی تھی ۔اچانک خاتون کی کرسی کے ساتھ والی چارپائی پر حرکت ہوئی اور ایک معصوم نے رونا شروع کر دیا۔خا تون نے اس بچے کوتھپک کر سلایا اور اسے دعائیں دینا شروع کیں۔وہ اس بچے کی صحت اور سلامتی کے لیے لمبی لمبی دعائیں کر رہی تھی۔

ڈاکٹراحمدنے کھانا کھایا اور بوڑھی اماں سے کہنے لگا: اماں جان! آپ نے اپنے اخلاق ‘کرم اور میز بانی سے میرا دل جیت لیا ہے۔آ پ لمبی لمبی دعائیں مانگ رہی ہیں ۔ امید ہے کہ اللہ تعالی آپ کی دعائیں ضرور قبول کرے گا۔ ’’میرے بیٹے! وہ بوڑھی گویا ہوئی۔‘‘ میرے اللہ نے میری تمام دعائیں سنی اور قبول کی ہیں۔ہا ں بس ایک دعا باقی ہے جو میرے ضعفِ ایمان کی وجہ سے پور ی نہیں ہوئی ۔تم تو مسافرہو، دعا کرو کہ وہ بھی قبول ہو جائے۔

ڈاکٹر احمدکہنے لگا: اماں جان وہ کونسی دعا ہے جو قبول نہیں ہوئی۔آپ مجھے اپنا کام بتائیں میں آ پ کے بیٹے کی طرح ہوں ۔اللہ نے چاہا تو میں اسے ضرورکروں گا۔آپ کی جو مدد میرے بس میں ہو گی ضرور کروں گا۔ خاتون کہنے لگی: میرے عزیز بیٹے !وہ دعا اور خواہش میرے اپنے لیے نہیںبلکہ اس یتیم بچے کے لیے ہے جو میرا پوتا ہے۔اس کے ما ں باپ کچھ عرصہ پہلے فوت ہو چکے ہیں۔ اسے ہڈیوں کی ایک بیما ری ہے جس کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذو ر ہے۔میں نے قریبی حکیموں، مہمانوں سے اس کے بڑے علاج کرائے ہیں مگر تمام اطباء اس کے علاج سے عاجز آ گئے ہیں ۔

لوگو ں نے مشورہ دیا ہے کہ اس ملک میں ایک ہی ڈا کٹر ہے جو اس ہڈیوں کے علاج کا ما ہر ہے، اس کی شہرت دور دور تک ہے ۔ وہ بڑا مانا ہوا سرجن ہے۔ وہی اس کا علاج کر سکتاہے، مگر وہ تو یہاں سے بہت دو ر رہتا ہے پھر سنا ہے بہت مہنگا بھی ہے۔ اس تک پہنچنا کوئی آسان کام تو نہیں ہے۔ تم میری حالت تو دیکھ ہی رہے ہو،میں بوڑھی جان ہوں۔کسی وقت بھی بلاوا آ سکتا ہے۔مجھے ڈر ہے کہ میرے بعد اس بچے کی نگہداشت کرنے والا کوئی نہیں ہو گا۔میں ہر وقت اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ کوئی سبب پیدا کر دے کہ اس بچے کا اس ڈاکٹر سے علاج ہو سکے۔ عین ممکن ہے کہ اس یتیم بچے کو شفاء اسی ڈاکٹر کے ہاتھوں مل جائے۔

ڈاکٹر احمداپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا، اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا: اماں جان! میرا طیارہ خراب ہوا، راستے میں اُترنا پڑا کار کرائے پر لی، خوب طوفان آیا‘ آندھی او ر بارش آئی، راستہ بھول گیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے آپ کے گھر زبر دستی بھجوا دیا۔اما ں آپ کی آخری دعا بھی قبول ہو چکی ہے۔اللہ رب العزت نے ایسے اسباب مہیا کر دیے ہیں کہ وہ ہڈیوں کا بڑا ڈاکٹر خود چل کر آپ کے گھر آگیا ہے۔ اب میں آپ کے پوتے کا علاج کروں گا۔‘‘

جب اللہ تعالی اپنے کسی بندے کی سنتا ہے تو پھر اس کوپورا کرنے کے لیے اسباب بھی خود ہی مہیا فرما دیتا ہے۔کائنات کی ساری مخلوق چاہے وہ جاندار ہو یا بے جان، اللہ کے حکم اور اس کی مشیّت کی پابند ہے۔ اس واقعے میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح اللہ تعالی نے زمین وآسمان کی مختلف قوتوں کو کام میں لا کر بوڑھی اماں کی دعا کو پورا

کرنے میں لگا دیا۔ارشاد باری تعالی ہے:
{ اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَ یَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَ یَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْن}

’’ بے کس کی پکار کو جب کہ وہ پکارے،کون قبول کرکے سختی کو دور کردیتا ہے، اورتمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے۔ کیااللہ تعالی کے ساتھ کوئی اور بھی معبود ہے۔ تم بہت کم نصیحت وعبرت حاصل کرتے ہو‘‘۔(النمل: ۶۲)
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
  #25  
Old Monday, June 03, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default


وقت مقرر ہے


۔"اس نے ایک اور واقعہ سنایا ، سات گڈرئیے طوفان میں گِھر گئے ، دوپہر سے شام ہو گئی ، لیکن طوفان کی تیزی کم نہ ہوئی ، بجلی بار بار کڑکتی لیکن بادلوں ہی میں رہ جاتی- آخر ایک معمر گڈرئیے نے کہا کہ آج ہم میں سے کسی کی جان لے کر ٹلے گی ، چھپ کر انتظار
کرنے سے بہتر ہے کہ باری باری باہر نکل کر وادی عبور کریں ۔ جو نکل گیا بچ جائے گا ۔ قرعہ اندازی ہوئی ، پہلا گڈریا ڈرتا ہوا نکلا کانپتے کانپتے وادی طے کی ، دوسری طرف پہنچ کر خوشی کا نعرہ لگایا ۔دوسرا گزر گیا ، لیکن بجلی نہیں گری ۔ تیسرا ، چوتھا ، پانچواں ، پھر چھٹا لرزتا ہوا نکلا ۔ بجلی پھر بھی نہ گری ۔ جب دوسری طرف چھ کے چھ ہنس رہے تھے تو ساتواں جھونپڑی میں کھڑا موت کا انتظار کر رہا تھا ۔ یکلخت بجلی کڑکی ، زور کا دھماکا ہوا ۔ دوسرے کنارے پر چھ گڈرئیے مرے پڑے تھے ۔
جو قسمت میں لکھا جا چکا ہے وہ نہ ایک دن پہلے ہوتا ہے نہ ایک دن بعد میں ۔ یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا ۔!! ،۔

دجلہ / شفیق الرحمٰن
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
  #26  
Old Saturday, June 15, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default

قبر کے چار گھنٹے


یہ1967ء کا واقعہ ہے میرا ایک بہت اچھا دوست میاں نذیرچشتی ہے‘ بہت ہی امانت دار مستری تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے شرط لگائی کہ قبر میں چار گھنٹے گزارنے ہیں۔ رات 12 بجے سے صبح 4 بجے تک۔ میاں نذیرچشتی مان گیا اور ایک قبر کھودی گئی اس میں 13 انچ کے سوراخ والے پائپ لگائے ہوا کیلئے۔۔۔۔ پھر میاں نذیرچشتی صاحب رات بارہ بجے اس میں لیٹ گئے اور ہم نے اوپر سے قبر بندکردی۔۔۔۔صبح چار بجے تک ہم نے بڑی بے چینی سے انتظار کیا اور صبح چار بجے ہم نے جب قبر کھودی تو دیکھا کہ میاں نذیرچشتی بے ہوش تھا اور اس کا رنگ جو کہ پہلے سرخ گولڈن سیب کی طرح تھا اب بالکل کالا سیاہ ہوچکا ہے۔
ہم نے جلدی سے اس کو نکالا اور ایک سائیڈ پر لے جاکر اس کے منہ میں پانی وغیرہ ڈالا کچھ دیر بعد اس کو ہوش آگیا‘ وہ بالکل بوکھلایا ہوا تھا‘ پھر ہم اس کو اس کے گھر چھوڑ آئے اس کے گھر والوں نے اس کو پہچاننے سے انکار کردیا دوست وغیرہ کے بتانے پر گھر والے اسے پہچان گئے۔ تین چار دن گزرنے کے بعد جب اس کی حالت سنبھلی تو ہم نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ قبر میں تمہارے ساتھ کیا ہوا۔ میاں نذیر کہنے لگا:۔جب آپ لوگوں نے قبر بند کی تو میں اپنے ساتھ سگریٹ لے کر گیا تھا میں نے سگریٹ نکالا اور جیسے ہی جلانے لگا کہ اچانک ایک طرف سے بہت تیز آگ میری طرف آئی تو دوسری طرف سے ایک روٹی آئی اور اس روٹی نے اس آگ کو ایک طرف دھکیل دیا‘ ابھی یہ واقعہ ختم بھی نہ ہوا تھا کہ ایک اور طرف سے آگ آئی اور اسی روٹی نے اس آگ کو بھی دھکیل کر ختم کردیا اس کے بعد میں بیہوش ہوگیا اور جب ہوش آیا تو آپ لوگوں کے پاس تھا۔پھر اس نے بتایا کہ ایک مرتبہ میں نے کسی مسافر کو کھانا کھلایا تھا اسی روٹی نے مجھے اس آگ سے بچالیا۔ اس کے بعد میاں نذیر اپنی آمدن کا سترفیصد سے بھی زائد اللہ کی راہ میں خرچ کردیتا اور لوگوں کو کھانا کھلاتا
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Red Flower For This Useful Post:
Faisaljd (Saturday, June 15, 2013)
  #27  
Old Friday, December 13, 2013
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی' عنہ



ایک دن امیر المومنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی' عنہ کھانا کھا رہے تھے کھانے کے بعد آپ کا دل کسی میٹھی چیز کھانے کو چاہا.. آپ نے اپنی زوجہ صاحبہ سے پوچھا.. " کیا کوئی میٹھی چیز نہیں ہے..؟ "
انہوں نے جواب دیا.. "بیت المال سے جو راشن آتا ہے اس میں میٹھی کوئی چیز نہیں ہوتی.."
آپ سن کر چپ ہو گئے..
چند دن بعد آپ رضی اللہ تعالی' عنہ نے دیکھا کہ دسترخوان پر کھانے کے ساتھ حلوہ بھی موجود ہے.. آپ نے اپنی زوجہ صاحبہ سے فرمایا.. " تم نے تو کہا تھا کہ ہمارے راشن میں میٹھی کوئی چیز نہیں آتی تو پھر آج یہ حلوہ کیسے بن گیا..؟ "
آپ کی زوجہ محترمہ نے جواب میں فرمایا.. " میں نے جو اس دن محسوس کیا کہ آپ کو میٹھی چیز کی خواھش ھے تو میں نے یوں کیا کہ راشن میں جتنا آٹا روزانہ آتا تھا اس میں سے مٹھی بھر آٹا الگ رکھتی تھی.. آج اتنا آٹا جمع ھو گیا کہ اس کے بدلے میں نے بازار سے کجھور کا شیرہ منگوایا اور اس طرح یہ حلوہ تیار کیا.. "
آپ نے حلوہ تناول فرمایا اور زوجہ صاحبہ کا شکریہ ادا کیا.. کھانے کے بعد آپ رضی اللہ تعالی' عنہ سیدھے بیت المال کے مہتمم کے پاس پہنچے اور فرمایا.. " ھمارے ھاں راشن میں جس قدر آٹا جاتا ھے آج سے اس میں سے ایک مٹھی کم کردینا.. کیونکہ ھفتہ بھر کے تجربے نے بتایا ھے کہ ھمارا گزارہ مٹھی بھر کم آٹے میں بھی ھو جاتا ھے.. "


( حیاتہ الصحابہ )
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Red Flower For This Useful Post:
Faisaljd (Friday, December 27, 2013)
  #28  
Old Monday, November 10, 2014
Red Flower's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Apr 2009
Location: In The Garden
Posts: 1,050
Thanks: 337
Thanked 957 Times in 527 Posts
Red Flower has a spectacular aura aboutRed Flower has a spectacular aura about
Default


ایک پردیسی کی داستان



ہوس زر انسانی فطر ت ہے اور اس فطر ت نے انسانی رشتوں کے تقدس کو ختم کر کے رکھ دیا ہے ۔ زر کے عفریت نے آج کے انسان کو نگل لیا ہے۔ پیدل، سائیکل پر سوار ہونے کی کو شش میں ہے ، سائیکل سوار سکوٹر لینے کے جتن کر رہا ہے ، سکوٹر والا کار کے خواب دیکھتا ہے اور کار والا ہوائی قلعوں کی تعمیر میں لگا رہتاہے۔ جب سے خلیج کی ریاستوں سے دولت کے انبار آئے ہیں ، دوبئی چلو کا نعرہ ہر کسی کی زبان پر ہے ۔ لکھ پتیوں کی تعداد لاکھوں ہوئی ہے تو دوسرے لا کھوں بھی لکھ پتی بننے کے شوق میں ان ریاستوں کی طر ف بھاگنے لگے ہیں ۔ کوئی گھر کا اثاثہ بیچ رہا ہے، کو ئی بہو بیٹیوں کے زیورات کے سہارے دوبئی کا ویزا حاصل کرنے کے چکر میں ہے اور کوئی باپ دادا کی جائیداد کو داﺅ پر لگارہا ہے ۔ جو لوگ ویزا حاصل کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں وہ نا جائز طریقے سے ملک سے بھاگنے کی کو شش میں لگ جا تے ہیں۔ اس طر ح انسانی سمگلنگ کا کاروبار بھی شروع ہو گیا ۔ صدیوں پرانی غلا می کے آثار دوبارہ نمایاں ہو گئے۔ انسان انسان کا مالک اور آدمی آدمی کا غلام ہونے لگا ۔ مزدوری کے نام پر بیگار کیمپ کھل گئے ہیں۔ انسانیت کا کاروبار زوروں پر شروع ہو گیا ۔ غیر قانونی طریقوں سے لانچوں کے ذریعے آنا جا نا معمول بن گیا ۔ کئی دفعہ یہ لا نچیں غرقاب ہوئیں ۔ اپنی گم گشتہ جنت کی تلاش میں آنے والوں کونہ ساحل ملا نہ کفن دفن نصیب ہوا اور وہ مچھلیوں کی خوراک بن گئے ۔ دولت جمع کر نے کی ہوس اور اپنا معیا ر زندگی بہتر کرنے کی خواہش نے مجھے بھی اپنے ملک سے دور جا پھینکا اور میں دیار غیر میں ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے گیا۔ یہ دیا ر غیر مقدس جگہ ہے جہاں روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے جہاں خدا کے محبو ب محوِ استراحت ہیں ، جہاں ہر وقت رحمتوں کی بارش ہوتی ہے۔ جہاں ہر لمحے عقیدت و محبت کے پھول نچھاور ہوتے ہیں ، جہاں کروڑوں فرشتوں کے ساتھ لاکھوں انسان درود و سلام کے گجرے پیش کرتے ہیں، جہاں بڑے بڑے بادشاہوں ، سرداروں کے سر جھک جا تے ہیں، جہاں دنیا بھر کے مسلمان اپنی آنکھوں کی پیاس اور دل کی تشنگی کو مٹاتے اور روح کو سیراب کرنے آتے ہیں۔ میں یہاں صر ف دولت کمانے آیا تھا۔ لا کھوں ڈالر بنانے اور کروڑوں ریا ل کمانے۔ مجھے اس شہر کے تقدس سے زیادہ دولت سے پیا رتھا ۔ صبح سرکا ری اسپتال میں کام کرنے کے بعد غیر قانونی طریقے سے اپنے گھر میں کلینک چلاتا ۔ اسپتال سے زیادہ گھر کے مریضوں پر توجہ دیتا ۔ قیمتی اور نایا ب ادویہ اسپتال سے ہی ہتھیا کر لے آتا۔ اس طر ح غیر قانونی پریکٹس کے علا وہ دواﺅں کی چوری سے اپنا بنک بیلنس بڑھانے لگا ۔ خوابوں میں بھی مجھے ڈالر اور ریال نظر آتے تھے ۔ ایک دن اسپتال سے لوٹا تو درجنوں مریضوں کو اپنا منتظر پایا ۔ مریضوں کو گن کر اپنی دولت میں اضافہ کر نے کا حساب جو ڑنے لگا۔ اسپتا ل میں آٹھ گھنٹے کام کے بعد تھک جانے کے با وجود آرام میں سکون نہیں مل رہا تھا۔ ان مریضوں کو جلدی جلدی نپٹانے لگا۔ اس افراتفری میں اکثر تشخیص میں گڑ بڑ ہو جاتی یا دوائی کے انتخاب میں کوئی گڑبڑ ہو جاتی ہے ۔ اس روز ایک بچے کو انجکشن غلط لگ گیا اور انجکشن نے فوری اثر دکھایا۔ بچہ تڑپنے لگا۔ اس انجکشن کے اثر کو ختم کر نے کے لیے میرے پا س دوسرا انجکشن موجود نہیں تھا۔ شام کا وقت ہو نے لگا ۔ تمام میڈیکل سٹور بند ہو چکے تھے ۔ دوسرے اتنے فاصلے پر تھے کہ وہاں پہنچتے پہنچتے بچے کے دم توڑنے کا خطرہ تھا ۔ بچے کے والدین اس کی حالت سے سخت پریشان و مشتعل ہوئے اور انہوں نے سرکاری اسپتال میں لے جا نے اور ہمارے غلط علا ج کی شکایت کی دھمکی دی۔ وہ با اثر شیخ تھا جس کا بچہ میرے زیر علاج تھا اور میرے غلط انجکشن کی وجہ سے زندگی اور مو ت کی کشمکش میں تھا۔ سعودی عرب میں غیر قانونی طور پر پریکٹس کرنا جرم ہے ۔ انسانی جانوں سے کھیلنے والوں کی سزا موت ہے۔ اب بچے کی مو ت کے ساتھ مجھے اپنی مو ت بھی نظر آنے لگی۔ دولت کے انبار میرا منہ چڑانے لگے۔ ڈالر اور ریا ل میری جان بچانے میں بے بس نظر آنے لگے اور میں اب انسان کی عظمت اور حقیقت سے روشناس ہونے لگا کہ انسان انمول ہے دولت کچھ نہیں ہے ۔ ” آپ میراانتظار کریں “ …….. میں نے شیخ سے کہا …….. میں ابھی اس ٹیکے کے توڑ کا انتظام کر تا ہوں ۔“ میں بھا گا بھاگا بازار گیا ۔ مغر ب کا وقت ہونے لگا تھا ۔ تمام دوکاندار نماز کی ادائیگی کے لیے دکانیں بند کرنے لگے تھے ۔ ایک آدھ میڈیکل سٹور کھلا تھا مگر بدقسمتی سے وہاں پرمطلوبہ انجکشن نہ مل سکا۔ پاگلوں کی طر ح ادھر ادھر بہت دوڑا بہت ہا تھ پا ﺅں مارے، مگر نا کامی مقدر بن چکی تھی بچاﺅ کے تمام در بند ہو چکے تھے اور میں سزا و قضا کی گر فت میں تھا ۔ جب ہر طر ح سے ناکام و نا مراد ہوا تو اچانک میری نظر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طر ف اٹھ گئی۔ گنبد خضریٰ، سبحان اللہ۔ مجھے آج اس روضہ اقدس کی عظمت کا خیال آیا جس پر زمین ناز کر تی ہے کائنا ت فخر کر تی ہے ، انسانیت کو قرار اور سکون ملتا ہے ، زمانے کے ٹھکرائے ہوﺅں کو پناہ ملتی ہے ۔ مجھے آج احساس ہوا کہ دنیا کی ہر پریشانی کا حل تمام مصائب کی دوا، تمام دکھوں کا علاج کالی کملی والے صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ کی چھاﺅں میں ہے. دھڑکتے دل کے ساتھ روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جالیوں سے لپٹ پڑا ۔ شرمندہ اور ندامت کے آنسوﺅںسے ان مقدس جالیوں کو بھگونے لگا ۔ اپنے کئے پر پچھتانے اور فریاد کرنے لگا ۔ ” یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم “ مجھے معاف کر دو، میں بھول گیا تھا۔ تیرے مقدس شہر میں میں نے لالچ کا کاربار شروع کیا ۔ دنیا بناتے ہوئے اپنی عاقبت بھول گیا تھا۔ میں گناہ گار ہوں۔ روسیا ہ ہوں، مگر شکر ہے کہ تیری امت سے ہوں …. مجھے تیر ی رحمت پر بھر وسہ ہے ۔ تیرے کرم کا آسرا ہے ۔ خدا را کرم کی اک نظر ادھر فرمائیے ۔ وطن سے بے وطن پردیس میں مارا جاﺅں گا۔ میرے بچے یتیم ہو جائیں گے۔ میری بیوی بیوہ اور بھائی لاوارث ہو جائیں گے ۔ بد نامی سے رشتہ دار دور اور والدین زندہ درگور ہو جائیں گے ۔ مجھے اپنے کئے پر ندامت ہے ۔ شرمندگی سے سر نہیں اٹھا سکتا ۔ ندامت سے بات نہیں کر سکتا ۔ میں دولت کی ہوس سے تو بہ کرتا ہوں تیرا دربار گناہ گاروں کے لے کھلا رہتا ہے۔ سیا ہ کا روں کو معاف کرنا تیری فطر ت ہے۔ میرے مولا میں نے حقیقت کو دیکھ لیا ہے ۔ تیری عظمت کو پہچان لیا ہے ۔ میں اپنے گنا ہوں سے تائب ہو تا ہوں۔ میرے مولا…. میرے آقا میں آنسو بہا تا بوجھل قدموں سے اپنے کلینک کی طرف چل پڑا ۔ جب کلینک پہنچا تو وہاں میری نظر بچے پڑی جو اپنے والد سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہا تھا اور اس کا باپ بھی مسکرا کر میری طر ف دیکھ رہا تھا ۔ میں سکتے کی سی کیفیت میں انہیںدیکھ رہا تھا۔ حقیقت کو خواب سمجھ رہا تھا ۔ وہ شیخ دوڑتا ہوا میرے پا س آیا۔ ’’ ڈاکٹر !“ ……..وہ میرے ساتھ لپٹ کر بولا ” میرا بر سوں سے مریض بچہ بالکل ٹھیک ہو رہا ہے ۔ خدانے میری سن لی ہے ڈاکٹر ! تمہاری دوا میں بڑا اثر ہے ۔ “ …. اور اس نے نہ جانے کتنے ریال میرے آگے رکھ دئیے۔ میں اس دولت سے لا تعلق اس سو چ میں تھا کہ دوا میں اثر تھا یا دعا میں جو زندگی میں پہلی دفعہ دل کی گہرائیوں سے مانگی تھی اور جس نے زہریلی دوا کو شفا میں بدل دیا اور ساتھ ہی میری دنیا بھی بدل گئی …. اور مجھے آدمی سے انسان بنا دیا ۔ کچھ عرصہ بعد جب روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو نے لگا تو ایسا معلو م ہوا جیسے اپنی تمام دولت یہاں چھوڑ کر جا رہا ہوں۔ میں وطن پہنچ کر انسانیت کی خدمت میں مصروف رہنے لگا اور اپنے اندر سکون کی ایک ایسی لذت اور مٹھاس محسوس کرنے لگا جو دولت کے انباروں میں بھی نہیں ملتی اور جو بڑے بڑے محلوں ، بنگلوں اور کاروں میں نصیب نہیں ہو تی …. اس حقیقی تو بہ نے مجھے حقیقی سکون عطا کیا اور اب میں پر سکون زندگی بسر کر رہا ہوں
__________________
Defeat is not when you fall down, it is when you refuse to get up. So keep getting up when you have a fall.
Reply With Quote
  #29  
Old Monday, November 10, 2014
Junior Member
 
Join Date: Oct 2014
Posts: 16
Thanks: 5
Thanked 0 Times in 0 Posts
ali ahmed is on a distinguished road
Default

thanks for sharing
Reply With Quote
Reply


Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On


Similar Threads
Thread Thread Starter Forum Replies Last Post
Ahmad Shah Patras Bukhari(PMS) Farrah Zafar Urdu Literature 15 Saturday, November 18, 2017 06:35 PM
Majeed Amjad: Fikr o Funn siddiqui88 Urdu Literature 2 Thursday, June 19, 2014 08:35 PM
Islam Main Mehngai Ka Ilaaj (اسلام میں مہنگائی کا علاج) Fassi Islamiat 0 Sunday, June 03, 2012 01:38 PM
Urdu Essay For PMS Amna PCS / PMS 8 Sunday, May 06, 2012 06:28 PM


CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.