Thursday, April 25, 2024
12:56 PM (GMT +5)

Go Back   CSS Forums > Off Topic Section > Poetry & Literature

Poetry & Literature Post QUOTATIONS and POETRY here that can be used while preparing notes.

Reply Share Thread: Submit Thread to Facebook Facebook     Submit Thread to Twitter Twitter     Submit Thread to Google+ Google+    
 
LinkBack Thread Tools Search this Thread
  #71  
Old Friday, December 28, 2012
Astute Accountant's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Mar 2007
Location: ǺČĆŐŨŃŤÁŇŦŚ’ ĂVĒŇŬĘ
Posts: 595
Thanks: 198
Thanked 633 Times in 344 Posts
Astute Accountant has a spectacular aura aboutAstute Accountant has a spectacular aura about
Default

ایک کپ کافی دیوار پر


ہم دونوں دوست ، پانیوں اور روشنیوں کے شہر وینس کےایک نواحی قصبے کی مشہور کافی شاپ پر بیٹھے ہوئے کافی سے لظف اندوز ہو رہے تھے کہ اس کافی شاپ میں ایک گاہک داخل ہوا جو ہمارے ساتھ والی میز کو خالی پا کر یہاں آ کر بیٹھ گیا۔ اس نے بیٹھتے ہی بیرے کو آواز دیکر بلایا اور اپنا آرڈر یوں دیا؛ دو کپ کافی لاؤ، اور اس میں سے ایک وہاں دیوار پر۔
ہم نے اس شخص کےاس انوکھے آرڈر کو دلچپسی سے سنا۔ بیرے نے آرڈر کی تعمیل کرتے ہوئے محض ایک کافی کا کپ اس کے سامنے لا کر رکھ دیا۔ اس صاحب نے کافی کا وہ ایک کپ نوش کیا مگر پیسے دو کے ادا کئے۔ اس گاہک کے جاتے ہی بیرے نے دیوار پر جا کر ایک ورقہ چسپاں کر دیا جس پر لکھا تھا؛ ایک کپ کافی۔
ہمارے وہاں بیٹھے بیٹھے دو اور گاہک آئے جنہوں نے تین کپ کافی کا آرڈر دیا، دو ان کی میز پر اور ایک دیوار پر، پیئے تو انہوں نے دو ہی کپ، مگر ادائیگی تین کپ کی اور چلتے بنے۔ ان کے جانے کے بعد بھی بیرے نے ویسا ہی کیا، جا کر دیوار پر ایک اور ورقہ چسپاں کردیا جس پر لکھا تھا؛ ایک کپ کافی۔
ایسا لگتا تھا یہاں ایسا ہونا معمول کی بات ہے مگر ہمارے لئے انوکھا اور ناقابل فہم تھا۔ خیر، ہمیں کونسا اس معاملے سے کچھ لینا دیا تھا، ہم نے اپنی کافی ختم کی، پیسے ادا کیئے اور چلتے بنے۔
چند دنوں کے بعد ہمیں ایک بار پھر اس کافی شاپ پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم بیٹھے کافی سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ یہاں ایک ایسا شخص داخل ہوا جس کے کپڑے اس کافی شاپ کی حیثیت اور یہاں کے ماحول سے قطعی میل نہیں کھا رہے تھے۔ غربت اس شخص کے چہرے سے عیاں تھی۔ اس شخص نے بیٹھتے ہی پہلے دیوار کی طرف دیکھا اور پھر بیرے کو بلایا اور کہا؛ ایک کپ کافی دیوار سے لاؤ۔ بیرے نے اپنے روایتی احترام اور عزت کے ساتھ اس شخص کو کافی پیش کی جسے پی کر یہ شخص بغیر پیسے دیئے چلتا بنا۔ ہم یہ سب کچھ حیرت سے دیکھ رہے تھے کہ بیرے نے دیوار پر لگے ہوئے ورقوں میں سے ایک ورقہ اتار کر کوڑے دان میں پھینک دیا۔ اب ہمارے لئے اس بات میں کچھ چھپا نہیں رہ گیا تھا، ہمیں سارے معاملے کا پتہ چل گیا تھا۔اس قصبے کے باسیوں کی اس عظیم الشان اور اعلیٰ انسانی قدر نے ہماری آنکھوں کو آنسووں سے بھگو کر رکھ دیا تھا۔
کافی نا تو ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے اور نا ہی ہمارے لئے واجبات زندگی طرح کی اہم کوئی کوئی چیز۔ بات تو صرف اس سوچ کی ہے کہ کسی بھی نعمت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے آپ ان لوگوں کا تصور ہی کرلیں جو اس نعمت کو اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا کہ آپ مگر وہ اس کے حصول سے محروم ہیں۔
اس بیرے کے کردار کو دیکھیئے جو صاحب حیثیت لوگوں اور ضرورتمندوں کے درمیان رابطے کا کردار نہایت خندہ پیشانی اور کھلے دل کے ساتھ لبوں پر مسکراہٹ سجائے کر رہا ہے۔
اس ضرورتمند کو دیکھیئے جو اس کافی شاپ میں اپنی عزت نفس کو مجروح کیئے بغیر ہی داخل ہوتا ہے، اور اسے یہ پوچھنے کی قطعی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آیا اس کو ایک کپ کافی مفت میں مل سکتا ہے یا نہیں۔ اس نے دیوار پر دیکھا، کافی کا آرڈر موجود پا کر، یہ پوچھے اور جانے بغیر ہی، کہ یہ کپ کس کی طرف سے اس کو دیئے جانے کیلئے موجود ہے، اپنے لئے ایک کپ کا آرڈر دیا، کافی کو سرور کے ساتھ پیا اورخاموشی سے چلتا بنا۔
جب ہم اس مذکورہ بالا کہانی کی جزئیات کو جانیں گے تو ہمیں اس کہانی کے کرداروں کے ساتھ ساتھ اس دیوار کے کردار کو بھی یاد رکھنا پڑے گا جو اس قصبے کے درد دل رکھنے والے باسیوں کی عکاس بنی ہوئی ہے۔
__________________
I don't give anyone a reason to HATE ME. They create their own drama out of PURE JEALOUSY...!!!
Reply With Quote
The Following 4 Users Say Thank You to Astute Accountant For This Useful Post:
bl chughtai (Friday, December 28, 2012), mudasr (Monday, April 15, 2013), Saira Nadeem (Sunday, April 14, 2013), The sky watcher (Sunday, April 07, 2013)
  #72  
Old Thursday, February 28, 2013
Astute Accountant's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Mar 2007
Location: ǺČĆŐŨŃŤÁŇŦŚ’ ĂVĒŇŬĘ
Posts: 595
Thanks: 198
Thanked 633 Times in 344 Posts
Astute Accountant has a spectacular aura aboutAstute Accountant has a spectacular aura about
Default ٭٭٭ قومیں ٭٭٭

نہایت ہی پر اثر غفلت کی نیند سےجگا دینے والی تحریر!
آپ سب ممبرز سے گزارش ہے کہ اسے ضرور پڑھئیے گا اور اپنے دوستوں سے بھی شئیر کریں اور انہیں ٹیگ بھی کریں۔ جزاک اللہ خیر

٭٭٭ قومیں ٭٭٭

یہ جرمنی کا واقعہ ہے‘ میرے ایک دوست اسّی کی دہائی میں جرمنی میں کام کرتے تھے‘ یہ زرعی آلات کی فیکٹری تھی ‘ میرا دوست صبح سات بجے فیکٹری جاتا تھا اور شام پانچ بجے واپس آ جاتا تھا‘ یہ روز کا معمول تھا‘ ایک رات یہ گھر میں بیٹھا تھا‘ فیکٹری سے اس کے جرمن کولیگ کا فون آ گیا‘ کولیگ کو ڈیزائن کی فائل نہیں مل رہی تھی‘ میرا دوست رات کو کولیگ کا فون سن کر حیران رہ گیا‘ وہ جرمن کولیگ اس کے ساتھ دفتر سے گھر گیا تھا چنانچہ اس کا دوبارہ دفتر جانااوررات دس بجے اسے فون کرنا اچنبھے کی بات تھی ‘ میرا دوست گھر سے فیکٹری چلا گیا‘ وہ فیکٹری پہنچا تو وہ وہاں کا ماحول دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ فیکٹری کی تمام لائٹس آن تھیں‘ مشینیں چل رہی تھیں‘ دفتر کھلا تھا اور جرمن مزدور دھڑا دھڑ کام کر رہے تھے۔

میرے دوست نے فائل نکالی‘ اپنے کولیگ کو دی اور اس سے پوچھا ’’تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو‘‘ جرمن کولیگ نے حیرت سے کہا ’’کیا تم نہیں جانتے ہم جرمن شام کے کھانے کے بعد دوبارہ فیکٹری آتے ہیں اور رات بارہ بجے تک کام کرتے ہیں‘‘ میرے دوست کو یہ معلوم نہیں تھا‘ اس نے معذرت کر لی‘ جرمن کولیگ بولا ’’ہم جرمن پورے ملک میں رات کے وقت بھی دو‘ تین گھنٹے کام کرتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’کیا یہ اوور ٹائم ہوتا ہے؟‘‘ اس نے جوا ب دیا ’’نہیں‘ہم یہ کام مفت کرتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’اور کیا یہ تمام جرمنوں کی عادت ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’ہاں یہ پورے جرمنی میں‘ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں ہوتا ہے‘ ہم لوگ شام کے وقت گھر جاتے ہیں‘ بچوں سے ملتے ہیں‘ کھانا کھاتے ہیں‘ چائے کافی پیتے ہیں اور دوبارہ دفتر آ جاتے ہیں‘ کام کرتے ہیں اور رات گئے واپس گھر چلے جاتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’تمہیں اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’ہم یہ کام مالی فائدے کے لیے نہیں کرتے‘ یہ نیشنل سروس ہے ‘ اس کا فائدہ پوری قوم کو ہوتا ہے‘ دوسرا ایکسٹرا کام کی وجہ سے ہماری مہارت میں بھی اضافہ ہوجاتا ہے‘ ہم اپنے کام میں زیادہ ماہر ہو جاتے ہیں‘‘ میرے دوست نے پوچھا ’’لیکن آپ لوگ ہم غیر ملکیوں کو اس سروس میں شامل کیوں نہیں کرتے‘‘ اس نے جواب دیا ’’آپ ہمارے مہمان ہیں‘ آپ پیسے کمانے کے لیے جرمنی آئے ہیں‘ ہم آپ پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتے ‘ہم جرمن بھی اس کے پابند نہیں ہیں‘ ہم اگر رات کی شفٹ میں فیکٹری نہیں آتے تو ہمیں کوئی پوچھ نہیں سکتا مگرہم میں سے اکثریت اسے اپنی ذمے داری سمجھ کر یہاں آ جاتی ہے‘‘
میرے دوست نے اس سے آخری سوال پوچھا ’’لیکن تمہارے ایکسٹرا کام کا فائدہ فیکٹری مالک کو ہوتا ہے‘ اس کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے‘ تم فائدے میں شیئرز طلب کیوں نہیں کرتے؟‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’میں کمائوں یا میرا مالک کمائے فائدہ بہرحال جرمن قوم کو ہوگا‘ میرے کام سے میرے مالک کو زیادہ بچت ہو گی‘ یہ اس بچت سے دوسری فیکٹری لگا ئے گا‘ اس فیکٹری میں نئی جابز نکلیں گی اوران جابز سے میرے کسی بھانجے‘ بھتیجے‘ بھائی‘ بہن یا بچی کو فائدہ ہو گا لہٰذا مجھے اس معاملے میں بخل سے کام نہیں لینا چاہیے‘‘ یہ دلائل سن کر میرے دوست کے ماتھے پر پسینہ آ گیا۔

میرے دوست کے لیے حیرانی کی دوسری بات ڈیوٹی کی پابندی تھی‘ وہ بار بار دیکھتا تھا اس کے جرمن کولیگز رات دو بجے تک شراب پیتے ہیں‘ ڈسکو کلبز میں ڈانس کرتے ہیں‘ بڑی مشکل سے گرتے پڑتے‘ ٹیکسیوں اور بسوں پر گھر پہنچتے ہیں لیکن صبح آٹھ بجے وقت مقررہ پر دفتر ہوتے ہیں۔میرا دوست انھیں جب بھی نشے میں دیکھتا تھا یہ سمجھتا تھا یہ صبح وقت پر نہیں اٹھ سکیں گے لیکن یہ نہ صرف وقت پر اٹھتے تھے بلکہ یہ کام پر بھی پہنچتے تھے اور معمول کے مطابق کام بھی کرتے تھے‘ میرے دوست نے جرمنوں کی یہ دونوں عادتیں بتائیں تو مجھے اس کے ساتھ ہی جاپانی قوم یاد آ گئی۔ جاپانی قوم بھی کام کے معاملے میں ان تھک ہے‘ جاپانی کمپنیوں کے ساتھ کام کرنے والے پاکستانی تاجر بتاتے ہیں ہم جس وقت جاپان فون کرتے ہیں ہمیں ان کے دفتر کھلے ملتے ہیں اور دوسری طرف سے باقاعدہ رسپانس بھی ملتا ہے۔

مجھے چند دن قبل لاہور کے ایک دوست نے دلچسپ بات بتائی‘ یہ دوست جاپان سے کاغذ امپورٹ کرتا ہے‘ دوست نے بتایا‘ مجھے جاپان سے اکثر رات کے وقت فون آ جاتا ہے ‘ وہ لوگ مال کے بارے میں پوچھتے ہیں یا پھر بتاتے ہیں‘ میں نے ایک دن ان سے پوچھ لیا’’آپ لوگ کام کس وقت اسٹارٹ کرتے ہیں‘‘ انھوں نے جواب دیا’’ ہم صبح ساڑھے چھ بجے دفتر آ جاتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’واپس کب جاتے ہیں‘‘ انھوں نے جواب دیا ’’عموماً رات کے سات آٹھ بج جاتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا دفتر کے تمام لوگ اسی وقت آتے ہیں‘‘ اس نے جواب دیا ’’نہیں‘ بعض لوگ صبح پانچ ‘ساڑھے پانچ بجے آ جاتے ہیں اور ہمارے بعد گھر جاتے ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا ان لوگوں کو اوور ٹائم ملتا ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’نہیں‘ ہم اوور ٹائم نہیں لیتے‘ ہم کام ختم کرنا اپنی ذمے داری سمجھتے ہیں‘ ہم میں سے جو شخص کوئی کام شروع کرتا ہے وہ اس وقت تک گھر نہیں جاتا جب تک وہ کام مکمل نہیں ہو جاتا‘‘ میں نے پوچھا ’’لیکن تمہیں اس مشقت سے کیا ملتا ہے‘‘ اس نے جواب دیا ’’تسکین‘ اطمینان اور خوشی‘‘۔

یہ جرمنی اور جاپان دو ایسے ملکوں کی مثالیں ہیں جو دوسری جنگ عظیم میں مکمل طور پر تباہ ہو گئے‘ برطانیہ اور اس کے اتحادیوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی کو آپس میں تقسیم کر لیا‘ کساد بازاری اور افراط زر کی حالت یہ تھی چائے کیتلی سے کپ میں گرتے گرتے مہنگی ہو جاتی تھی‘ لوگ بوریوں میں نوٹ بھر کر لے جاتے تھے اور بڑی مشکل سے ایک کلو آلو ملتے تھے‘ جرمنی کا ہر دوسرا مرد قبرستان میں تھا اور پہلا زخمی اور جنگ کے دس سال بعد تک خواتین کو شادی کے لیے مرد نہیں ملتے تھے‘ جاپان کی حالت اس سے بھی پتلی تھی‘ جاپان کے دو جدید اور صنعتی شہر ناگا ساکی اور ہیروشیما ایٹم بم سے تباہ ہو گئے۔

جنگ میں ناکامی کی وجہ سے پوری قوم ڈی مورلائزڈ تھی‘ امریکیوں نے جاپان کے تمام وسائل پر قبضہ کر لیا‘ فوج ختم کر دی ‘ ہتھیار ضبط کر لیے اور شہریوں کو جبری مشقت پر لگا دیا لیکن صرف دس برسوں میں جاپان اور جرمنی نہ صرف اپنے قدموں پر کھڑے تھے بلکہ یہ ترقی کی دوڑ میں سر پٹ بھاگتے ملکوں کی فہرست میں بھی شامل تھے‘ ہم آج جرمنی اور جاپان کی ترقی کو دیکھتے ہیں تو ہماری ٹوپیاں فرش پر آ جاتی ہیں اور ہم اپنے آپ سے پوچھتے ہیں ’’کیا کبھی ہم بھی جاپان یا جرمنی بن سکیں گے‘‘ اور اس کے ساتھ ہی ہمارے ذہن میں ہمالیہ جتنا بڑا’’نہیں‘‘ جگمگانے لگتا ہے‘ ہم جرمنی اور جاپان کیوں نہیں بن سکتے اس کی واحد وجہ ہمارا رویہ ہے‘ ہم کام نہیں کرتے ‘ ہم اٹھارہ کروڑ لوگوں میں سے نوے فیصد لوگ کام کو توہین سمجھتے ہیں اور باقی جو دس فیصد کام کرتے ہیں یہ بھی کام کو بوجھ سمجھ کر سر سے پٹختے رہتے ہیں‘ آپ صبح دفتروں کا چکر لگا کر دیکھ لیجیے‘ ہمارے سرکاری اور غیر سرکاری دفتروں میں دس ساڑھے دس بجے تک حاضری پوری نہیں ہوتی اور لوگ چار بجے سے پہلے گھروں کو رخصت ہو چکے ہوتے ہیں اور ان چار ‘ساڑھے چار گھنٹوں کے درمیان چائے‘ لنچ اور دو نمازوں کے وقفے بھی آتے ہیں‘ ہم مسلمان ہیں‘ ہم پر نماز فرض ہے لیکن کیا ڈیوٹی چھوڑ کر‘ کام چھوڑ کر اور سائلوں کو سخت سردی اور گرمی میں بیٹھا کر ڈیوٹی ٹائم کے دوران نماز پڑھنا ٹھیک ہے؟‘

آپ کو دنیا کے کسی ملک میں دفتروں‘ فیکٹریوں یا ورک پلیسز پر مندر‘ چرچ یا سینا گوگا نہیں ملے گا کیونکہ لوگ ڈیوٹی کے دوران عبادت کو اچھا نہیں سمجھتے‘ ہمیں نماز ضرور پڑھنی چاہیے لیکن ہمیں نماز کے وقت کے برابر اپنی ڈیوٹی بڑھا لینی چاہیے ‘ ہمیں پانچ کے بجائے ساڑھے پانچ یا چھ بجے تک ڈیوٹی کرنی چاہیے تا کہ ہم اپنا وہ وقت پورا کر سکیں جس کا ہم معاوضہ لے رہے ہیں‘ اسی طرح ہم لوگ صرف ڈیوٹی پر آنے کا معاوضہ لیتے ہیں‘ ہم کام‘ کام کی تکمیل اور کام کی نفاست کا معاوضہ نہیں لیتے چنانچہ ہم دفتروں اور فیکٹریوں سے یوں بھاگ کر باہر نکلتے ہیں جیسے وہاں آگ لگ گئی ہو‘ہم اپنے کام کو دوسرے کا کام سمجھتے ہیں اور ہمارا یہ رویہ بھی ملک کو معاشی قدموں پر کھڑا نہیں ہونے دے رہا‘ ہم اگر اس ملک کو جرمنی یا جاپان دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں جاپانیوں اور جرمنوں کی طرح کام کرنا ہوگا ورنہ ہم اسی طرح بھیک مانگتے رہیں گے۔

از جاوید چوہدری، زیرو پوائینٹ

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت بدلنے کا
__________________
I don't give anyone a reason to HATE ME. They create their own drama out of PURE JEALOUSY...!!!
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Astute Accountant For This Useful Post:
The sky watcher (Sunday, April 07, 2013)
  #73  
Old Sunday, April 07, 2013
Astute Accountant's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Mar 2007
Location: ǺČĆŐŨŃŤÁŇŦŚ’ ĂVĒŇŬĘ
Posts: 595
Thanks: 198
Thanked 633 Times in 344 Posts
Astute Accountant has a spectacular aura aboutAstute Accountant has a spectacular aura about
Default

"بیان کیا جاتا ہے کہ بغداد پر تاتاری فتح کے بعد، ہلاکو خان کی بیٹی بغداد میں گشت کررہی تھی کہ ایک ہجوم پر اس کی نظر پڑی۔ پوچھا لوگ یہاں کیوں اکٹھے ہیں؟ جواب آیا: ایک عالم کے پاس کھڑے ہیں۔ دخترِ ہلاکو نے عالم کو اپنے سامنے پیش ہونے کا حکم دیا۔ عالم کو تاتاری شہزادی کے سامنے لا حاضر کیا گیا۔
شہزادی مسلمان عالم سے سوال کرنے لگی: کیا تم لوگ اللہ پر ایمان نہیں رکھتے؟
عالم: یقیناً ہم ایمان رکھتے ہیں
شہزادی: کیا تمہارا ایمان نہیں کہ اللہ جسے چاہے غالب کرتا ہے؟
عالم: یقیناً ہمارا اس پر ایمان ہے۔
شہزادی: تو کیا اللہ نے آچ ہمیں تم لوگوں پر غالب نہیں کردیا ہے؟
عالم: یقیناً کردیا ہے۔
شہزادی: تو کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں کہ خدا ہمیں تم سے زیادہ چاہتا ہے؟
عالم: نہیں
شہزادی: کیسے؟
عالم: تم نے کبھی چرواہے کو دیکھا ہے؟
شہزادی: ہاں دیکھا ہے
عالم: کیا اس کے ریوڑ کے پیچھے چرواہے نے اپنے کچھ کتے بھی رکھ چھوڑے ہوتے ہیں؟
شہزادی: ہاں رکھے ہوتے ہیں۔
عالم: اچھا تو اگر کچھ بھیڑیں چرواہے کو چھوڑ کو کسی طرف کو نکل کھڑی ہوں، اور چرواہے کی سن کر دینے کو تیار ہی نہ ہوں، تو چرواہا کیا کرتا ہے؟
شہزادی: وہ ان کے پیچھے اپنے کتے دوڑاتا ہے تاکہ وہ ان کو واپس اس کی کمان میں لے آئیں۔
عالم: وہ کتے کب تک ان بھیڑوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں؟
شہزادی: جب تک وہ فرار رہیں اور چرواہے کے اقتدار میں واپس نہ آجائیں۔
عالم: تو آپ تاتاری لوگ زمین میں ہم مسلمانوں کے حق میں خدا کے چھوڑے ہوئے کتے ہیں؛ جب تک ہم خدا کے در سے بھاگے رہیں گے اور اس کی اطاعت اور اس کے منہج پر نہیں آجائیں گے، تب تک خدا تمہیں ہمارے پیچھے دوڑائے رکھے گا، تب تک ہمارا امن چین تم ہم پر حرام کیے رکھوگے؛ ہاں جب ہم خدا کے در پر واپس آجائیں گے اُس دن تمہارا کام ختم ہوجائے گا۔
*****
مسلمان عالم کے اس جواب میں آج ہمارے غوروفکر کےلیے بہت کچھ پوشیدہ ہے!
۔
خدایا ہمارے اس بھٹکے ہوئے گلے کو اپنے در پر واپس آنے کی توفیق دے؛ عبادتِ طاغوت کی یہ اندھیری طویل رات ہم سے دور کردے۔!
’’بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے چل’’!"
__________________
I don't give anyone a reason to HATE ME. They create their own drama out of PURE JEALOUSY...!!!
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Astute Accountant For This Useful Post:
The sky watcher (Sunday, April 07, 2013)
  #74  
Old Monday, April 08, 2013
Senior Member
 
Join Date: Sep 2008
Posts: 351
Thanks: 119
Thanked 134 Times in 99 Posts
new_horizons is on a distinguished road
Default

میں نے انتظار کرنے والوں کو دیکھا. انتظار کرتے کرتے سو جانے والوں کو بھی اور مر جانے والوں کو بھی. میں نے مضطرب نگاہوں اور بے چین بدنوں کو دیکھا ہے. آہٹ پر لگے ہوے کانوں کے زخموں کو دیکھا ہے. انتظار میں کانپتے ہوے ہاتھوں کو دیکھا ہے. منتظر آدمی کے دو وجود ہوتے ہیں. ایک وہ جو جگہ مقرّرہ پر انتظار کرتا ہے. دوسرا وہ جو جسد خاکی سے جدا ہو کر پذیرائی کے لئے بہت دور نِقَل جاتا ہے. جب انتظار کی گھڑیاں دنوں، مہینوں اور سالوں پر پھیل جاتی ہیں، تو کبھی کبھی دوسرا وجود واپس نہیں اتا اور انتظار کرنے والے کا وجود اس خالی ڈبے کی طرح رہ جاتا ہے جسے لوگ خوبصورت سمجھ کر سینت کے رکھ لیتے ہیں اور کبھی اپنے درمیان سے جدا نہی کرتے. یہ خالی ڈبہ کی بار بھرتا ہے. قسم قسم کی چیزیں اپنے اندر سمیٹتا ہے، لیکن اس میں 'وہ' لوٹ کر نہی آتا جو پزیرائی کے لئے آگے نکل گیا تھا. ایسے لوگ بڑے مطمئن اور پورے طور پر شانت ہو جاتے ہیں. ان مطمئن، پرسکون اور شانت لوگوں کی پرسنیلٹی میں بڑا چارم ہوتا ہے اور انھیں اپنی باقی ماندہ زندگی اسی چارم کے سہارے گزارنی پڑتی ہے. یہی چارم آپ کو صوفیا کی شخصیتوں میں نظر آے گا. یہی چارم عمر قیدیوں کے چہروں پر دکھائی دے گا. اور اسی چارم کی جھلک آپ کو عمر رسیدہ پروفیسروں کی آنکھوں میں نظر آے گی.
[سفر در سفر ـ اشفاق احمد]
__________________
Khaak ho jaen gay hum tum ko khabar honay tak ...
Reply With Quote
  #75  
Old Monday, April 08, 2013
Senior Member
 
Join Date: Sep 2008
Posts: 351
Thanks: 119
Thanked 134 Times in 99 Posts
new_horizons is on a distinguished road
Default

زندگی میں انسانوں کے شر سے بڑھ کر خوفناک چیز کوِئی نہیں،کوئی بھوت،بلا یا بونا برائی میں انسانوں کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور زندگی میں انسانوں کی ہمت اور دلیری کے سامنے کوِئی آسیب نہیں ٹھہر سکتا۔وہ لوگ بیوقوف اور بزدل ہوتے ہیں جو گھروں اور جگہوں میں جن،بھوت ڈھونڈتے رہتے ہیں اور پھر ان کے ہونے یا نہ ہونے پر اپنی زندگی کی خوشقسمتی یا بدقسمتی کو طے کرتے ہیں۔

:ماخوذ از
عکس (Umera Ahmed)
__________________
Khaak ho jaen gay hum tum ko khabar honay tak ...
Reply With Quote
  #76  
Old Thursday, April 11, 2013
stranger498's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Sep 2011
Location: lahore
Posts: 176
Thanks: 69
Thanked 143 Times in 79 Posts
stranger498 is on a distinguished road
Default

اشفاق احمد اور بانو قدسیہ کی پہلی ملاقات اور آخری ملاقات۔ ۔ ۔ بانو آپا کی زبانی از "راہ رواں"

گورا چٹا خوبصورت لڑکا جس نے کھڑکھی کے ساتھ کہنی ٹیک رکھی تھی۔ جس وقت میں وھاں پہنچی وہ فورا مودب اندازمیں ایک طرف ھوگیا۔ نظریں نیچی رکھیں اور مجھ سے بات کرنے کی کوشش نہ کی۔ جب میں فیس دے چکی تو برسر صاحب نے تعارف کے انداز میں کہا بی بی یہ اشفاق احمد ھیں۔ یہ ٓاپ کے ساتھ ایم اے اردو کریں گے۔ان کی فیس میں نے ابھی جمع کی ھے
یہ میرا خان صاحب سے پھلا تعارف تھا

وہ ھمیشہ کی طرح ٓنکھیں موندھے لیٹے تھے۔ مجھے خاں صاحب کی حاشیہ نشیینی سے چھٹی مل گئی تھی۔ انہوں نے مجھے برطرف کر دیا تھا اور کوئی سفارشی خط بھی لکھ کر نی دیا تھا کہ میں کسی اور جگہ اسامی ڈھونڈ لیتی
یوں لگتا تھا واپسی کہ جہاز میںوہ اس وقت اپنی سیٹ بیلٹ باندھ رھے تھے۔لاھورکا منظر دھندلا رھا تھا،ائیر ھوسٹس نے بڑی توجہ سے پوچھا ھوگا اشفاق صاحب شراب طھورہ کہ کوئی زمینی مشروب۔اشفاق صاحب نہ نظریں اٹھا کر دیکھا ھوگا۔ایسی لڑکیوں کے متعلق انھوں نے سنا تھا کہ وہ خیموں میں مستور ھیں۔ان کو نہ کسی جن نے ھاتھ لگایا ھے نہ کسی انسان نے
__________________
Tainu Kafar Kafar aanday,,,,tou aho aho aakh (Bullhay Shah)
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to stranger498 For This Useful Post:
Seemab (Sunday, February 16, 2014)
  #77  
Old Friday, April 12, 2013
stranger498's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Sep 2011
Location: lahore
Posts: 176
Thanks: 69
Thanked 143 Times in 79 Posts
stranger498 is on a distinguished road
Default

HASIL GHAAT by BANO QUDSIYA


میں ٓا ج تک یہ راز نہ جان سکا کہ بعض کو بعض پر سبقت کیوں حاصل ھو جاتی ھے؟کسی ایک وصف سے بیڑا پار کیسی ھو جاتا ھے؟بعض کو بعض پر تر جیح کیا کسی خوبی،محنت،منطقی چناو کے باعث ھے کہ یہ اوپر والے کی مرضی کی مرھون منت ھو اور جس کی لاجک تک بھی تک انسان پہنچ نہیں پایا
__________________
Tainu Kafar Kafar aanday,,,,tou aho aho aakh (Bullhay Shah)
Reply With Quote
  #78  
Old Saturday, April 13, 2013
stranger498's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Sep 2011
Location: lahore
Posts: 176
Thanks: 69
Thanked 143 Times in 79 Posts
stranger498 is on a distinguished road
Default

MAAN CHALAAY ka SOUDA-ASHFAQ AHMAD


جب ٓدمی اللہ سے جھگڑنے لگتا ھے نا سربہت زور کے ساتھ تو پھر اس کی قسمت سنوار جاتی ھے اور جب وہ سر جھکا دیتا ھے تو بگڑنے لگتی ھے
نسخہ تو اچھا ھے لیکن بار بار نہ ٓازمانہ،اس کی رسی لمبی ضرور ھے لیکن کبھی کبھی جھگڑے کےخطرناک نتائج بھی نکل ٓتے ھیں
__________________
Tainu Kafar Kafar aanday,,,,tou aho aho aakh (Bullhay Shah)
Reply With Quote
  #79  
Old Sunday, April 14, 2013
stranger498's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Sep 2011
Location: lahore
Posts: 176
Thanks: 69
Thanked 143 Times in 79 Posts
stranger498 is on a distinguished road
Default

shahabnama


کبھی نماز میں دل لگتا ہے، کبھی نہیں لگتا، کبھی ذہن میں سکون ہوتا ہے کبھی انتشار، کبھی وساوس کا ہجوم ہوتا ہے، کبھی پریشان خیالیاں حملہ آور ہوتی ہیں۔ نماز کے وقت یکسوئی شازونادر ہی نصیب ہوتی ہے۔ اس سے دل میں یہ کھٹک رہتی ہے کہ ایسی ناقص نماز کا کیا فائدہ جو صرف اٹھک بیٹھک پر مشتمل ہو۔ رفتہ رفتہ ایک بات سمجھ میں آئی کہ عمارت کی تعمیرکے لیے ابتداء میں تو صرف بنیاد مضبوط کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسے کے خوشنما ہونے کے پیچھے نہیں پڑتے۔ اس میں روڑے پتھر وغیرہ بھر دیتے ہیں اور بعد میں اس پر عالیشان محل اور بنگلے تعمیر ہوتے ہیں۔ اسی طرح ناقص عمل کی مثال بھی کامل عمل کی بنیاد کے مترادف ہے۔ بُنیاد کی خوبصورتی اور بدصورتی پر نظر نہ کی جائے۔ جو کچھ جس طرح بھی ہو، کرتا رہ، جیسے نماز گویا ناقص ہی ہو مگر ہو حدود میں، وہ ہو جاتی ہے۔ اسی پر عمل کرنے سے نمازِ کامل کا دروازہ بھی اپنے پر کھولنا شروع ہو جاتا ہے“۔

__________________
Tainu Kafar Kafar aanday,,,,tou aho aho aakh (Bullhay Shah)
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to stranger498 For This Useful Post:
anum balouch (Monday, December 23, 2013)
  #80  
Old Monday, April 15, 2013
stranger498's Avatar
Senior Member
 
Join Date: Sep 2011
Location: lahore
Posts: 176
Thanks: 69
Thanked 143 Times in 79 Posts
stranger498 is on a distinguished road
Default

shahab nama


میں نے سن رکھا تھا جو شخص حرم شریف میں داخل ہوتا ہے ، وہ اپنا جوتا ، اپنے گناہوں کی گٹھڑی ، یا اس کی فضیلت کی دستار اور اپنی بزرگی کا عمامہ دروازے کے باہر چھوڑ جاتا ہے -
اور کوئی نہیں کہ سکتا کہ جب وہ باہر آئیگا تو اس کا جوتا ، یا اس کی …گناہوں کی گٹھڑی ، یا اس کی فضیلت کی دستار ، یا اس کی بزرگی کا عمامہ اس کو واپس بھی ملے گا یا نہیں -
بعض لوگوں کے جوتے گم ہو جاتے ہیں -
…
بعض لوگوں کی گناہوں کی گٹ
ھڑیاں غائب ہو جاتی ہیں -
بعض لوگ اپنی فضیلت و بزرگی سے محروم ہو جاتے ہیں -
میرے پاس حرم شریف کے باہر چھوڑنے کے لیے اپنے پاؤں میں ربڑ کے چپل اور سر پر گناہوں کی گٹھڑی کے علاوہ اور کچھ نہ تھا -
میں نے دل و جان سے دونوں کو اٹھا کر باہر پھینک مارا ، اور باب الاسلام کے راستے حرم شریف میں داخل ہو گیا
__________________
Tainu Kafar Kafar aanday,,,,tou aho aho aakh (Bullhay Shah)
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to stranger498 For This Useful Post:
anum balouch (Monday, December 23, 2013)
Reply


Posting Rules
You may not post new threads
You may not post replies
You may not post attachments
You may not edit your posts

BB code is On
Smilies are On
[IMG] code is On
HTML code is Off
Trackbacks are On
Pingbacks are On
Refbacks are On



CSS Forum on Facebook Follow CSS Forum on Twitter

Disclaimer: All messages made available as part of this discussion group (including any bulletin boards and chat rooms) and any opinions, advice, statements or other information contained in any messages posted or transmitted by any third party are the responsibility of the author of that message and not of CSSForum.com.pk (unless CSSForum.com.pk is specifically identified as the author of the message). The fact that a particular message is posted on or transmitted using this web site does not mean that CSSForum has endorsed that message in any way or verified the accuracy, completeness or usefulness of any message. We encourage visitors to the forum to report any objectionable message in site feedback. This forum is not monitored 24/7.

Sponsors: ArgusVision   vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.