CSS Forums

CSS Forums (http://www.cssforum.com.pk/)
-   Poetry & Literature (http://www.cssforum.com.pk/off-topic-section/poetry-literature/)
-   -   Iqtibasat (http://www.cssforum.com.pk/off-topic-section/poetry-literature/46740-iqtibasat.html)

Astute Accountant Friday, April 19, 2013 03:13 PM

[right][b][size="4"]ہروقت خدا کے احسانات یاد کر۔۔غور کر کہ ہر سانس خدا کی عنایت ہے یوں دل میں شکر گزاری پیدا ہوگی۔۔ پھر تو بے بسی محسوس کرے گا کہ اتنے احسانات کا شکر کیسے ادا کیا جاسکتا ہے۔۔ وہ بے بسی تیرے دل میں محبت پیدا کرے گی۔۔ تو سوچے گا کہ مالک نے بغیر کسی غرض کے تجھے نوازا، تجھ سے محبت کی۔۔ تو غور کر کہ اتنی بڑی دنیا میں تو کتنا حقیر ہے ۔ سینکڑوں کے مجمع میں بھی تیری کوئی پہچان نہیں ہے۔۔ کوئی تجھ پر دوسری نظر بھی نہیں ڈالے گا۔۔کسی کو پروا نہیں ہوگی کہ الہٰی بخش بھی ہے۔۔ لیکن تیرا رب کروڑوں انسانوں کے بیچ بھی تجھے یاد رکھتا ہے۔۔ تیری ضروریات پوری کرتا ہے۔۔ تیری بہتری سوچتا ہے تجھے اہمیت دیتا ہے۔۔ ان سب باتوں پر غور کرتا رہے گا تو تیرے دل میں خدا کی محبت پیدا ہوگی۔۔ اس محبت کے ساتھ بھی یہ سوچتا رہے گا تو محبت میں گہرائی پیدا ہوگی۔۔ اور پھر تجھے خدا سے عشق ہو جائے گا۔۔


عشق کا عین از علیم الحق حقی۔[/size][/b][/right]

bl chughtai Sunday, October 20, 2013 12:23 AM

)حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ(
 
[size="4"]کشتی ہچکولے کھا رہی ہو تو اللہ کی رحمت کو پکارا جاتا ہے ، جب کشتی کنارے لگ جاۓ تو اپنے زور بازو کے قصیدے پڑھے جاتے ہیں۔بہت کم انسان ایسے ہیں جو اپنے حاصل کو رحمت پروردگار کی عطا سمجھتے ہیں۔


۔

)حضرت واصف علی واصف رحمتہ اللہ علیہ([/size]

bl chughtai Sunday, October 27, 2013 07:37 PM

)حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ(
 
[size="4"]دوست کے ساتھ صرف ایک ہی سلوک روا ہےٰ اور وہ وفا ہے۔[/size][size="4"]
وفا کرنے والے کسی کی بے وفاءی کا گلہ نہیں کرتے۔
اپنی وفا کا تذکرہ بھی وفا کے باب میں ابتداءے جفا ہے۔

)حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللہ علیہ([/size]

bl chughtai Sunday, October 27, 2013 08:38 PM

کبھی ہم خوبصورت تھے مستنصر حسین تارڑ
 
[size="4"]انگمار برگمین سویڈن کا ایک ایسا ہدایت کار ہے جس کا شمار دنیا کے عظیم ترین ہدایت کاروں میں ہوتا ہے۔ میں نے آج سے تقریباً پچپن برس پیشتر اس کی لازوال فلم ’’دے سیونتھ سِیل‘‘ دیکھی تھی اور میں آج تک اس کے اثر سے آزاد نہیں ہوا۔ فرید الدین عطار کی ’’منطق الطیر ‘‘ کے بعد یہ ’’دے سیونتھ سیل‘‘ ہے جس کی جھلکیاں بار بار میری تحریروں میں سے ظاہر ہوتی ہیں لیکن آج مجھے برگمین کی ایک اور فلم ’’شیم‘‘ یعنی ’’شرمندگی‘‘ کے بارے میں کچھ کہنا ہے۔۔۔ اس کی کہانی کچھ یوں ہے کہ کہیں آبادیوں سے دور ایک کسان گھرانہ ایک پر سکون اور مطمئن زندگی بسر کر رہا ہے۔ کسان دن بھر کھیتوں میں مشقت کرتا ہے اور اس کے بیوی بچے اس کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ وہ کتابیں پڑھنے کا بھی شوقین ہے۔۔۔ فارغ وقت میں وہ ریڈیو سنتا ہے اور کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے۔۔۔ وہ بے حد حساس طبیعت ہے۔ جانوروں اور پرندوں سے پیار کرتا ہے۔۔۔ اپنے بچوں سے محبت کرتا ہے، بیوی پر جان دیتا ہے۔البتہ بیوی اس کی حساس طبیعت سے بے حد تنگ ہے کیونکہ وہ خوراک کے لیے بھی کسی جانور کو ہلاک نہیں کر سکتا۔ ایک مرتبہ اس کی بیوی اس کے ہاتھ میں چھروں والی بندوق تھما دیتی ہے کہ تم اگر مرغی کی گردن پر چھری نہیں پھیر سکتے تو اس بندوق سے فائر کر کے دو تین مرغیاں مار ڈالو۔ ہمیں گوشت کی ضرورت ہے اور وہ کسان لبلبی بھی نہیں دبا سکتا۔ مرغیوں کو مار نہیں سکتا اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ ایک شب دور سے دھماکوں کی آواز آنے لگتی ہے، گولیاں چلنے لگتی ہیں۔ ریڈیو پر خبر آتی ہے کہ جنگ شروع ہو گئی ہے۔ دو تین روز بعد دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں نزدیک آ جاتی ہیں۔ جنگ اُن کی دہلیز تک آنے والی ہے۔ اس کی بیوی کہتی ہے کہ ہمیں یہاں سے منتقل ہو جانا چاہیے لیکن وہ کہتا ہے کہ ہمارا اس جنگ سے کیسا رابطہ۔ ہم تو یہ بھی نہیں جانتے کہ یہ کون لوگ ہیں جو تباہی پھیلا رہے ہیں اور کیوں جنگ کر رہے ہیں۔۔۔ میں اپنا گھر چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ قصہ مختصر توپوں کے گولے اُن کے کھیتوں میں گرنے لگتے ہیں پھر فوجی اُن کے گھر پر یلغار کرتے ہیں۔۔۔ اُس کی بیوی کو بے آبرو کرتے ہیں۔۔۔ وہ لاشیں دیکھتا ہے۔ انسانوں کو ایک دوسرے کو ہلاک کرتے دیکھتا ہے۔۔۔ ذبح کرتے دیکھتا ہے۔۔۔ اس
کے سامنے انسانوں کے پرخچے اڑتے ہیں اور پھر اس میں ایک تبدیلی آنے لگتی ہے۔۔۔ وہ ایک مرے ہوئے سپاہی کی بندوق اٹھا کر بے دریغ یہ جانے بغیر کہ وہ کون ہیں، دشمن ہیں بھی کہ نہیں لوگوں کو بے دردی سے ہلاک کرنے لگتا ہے۔ اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھاتا ہے، بچوں کو پیٹتا ہے۔۔۔ وہ خون دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ وہ کسان جو ایک مرغی کو بھی ہلاک نہیں کر سکتا تھا جنگ نے اسے بھی ایک وحشی درندے میں بدل دیا ہے۔۔۔ اس کی انسانی خصلت تبدیل ہو گئی ہے۔
کیا آپ کو محسوس ہوا کہ برگمین کی فلم ’’شرمندگی‘‘ کی کہانی ہماری آج کی کہانی ہے۔۔۔ کبھی ہم خوبصورت تھے، پُر امن اور حساس تھے، کسی کو ہلاک کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے
’کبھی ہم خوبصورت تھے
کتابوں میں بسی خوشبو کی صورت
سانس ساکن تھی!
بہت سے ان کہے لفظوں سے تصویریں بناتے تھے
پرندوں کے پروں پر نظم لکھ کر
دور کی جھیلوں میں بسنے والے لوگوں کو سناتے تھے
جو ہم سے دور تھے
لیکن ہمارے پاس رہتے تھے
نئے دن کی مسافت
جب کرن کے ساتھ آنگن میں اترتی تھی
تو ہم کہتے تھ۔۔۔ امی
تتلیوں کے پر بہت ہی خوبصورت ہیں
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو
کہ ہم کو تتلیوں کے، جگنوؤں کے دیس جانا ہے
ہمیں رنگوں کے جگنو، روشنی کی تتلیاں آواز دیتی ہیں
نئے دن کی ساخت رنگ میں ڈوبی ہوا کے ساتھ
کھڑکی سے بلاتی ہے
ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو!‘
(احمد شمیم)
اور پھر یہ دن بیت گئے۔ افغان ’’جہاد‘‘ کے ثمرات میں سے مختلف ثمر ہمارے صحن میں آ کر گرنے لگے اور یہ خود کش ثمر ہوتے ہیں جو ہمیں ہمارے بچوں اور بوڑھوں سمیت ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ ضیاء الحق کے تاریک زمانوں میں زبان و بیاں پر جو پابندیاں عائد تھیں، اُن سے ہم واقف تھے، ہم جانتے تھے کہ خلاف ورزی کی پاداش میں کم از کم کوڑے اور زیادہ سے زیادہ موت منتظر ہو گی اور اس کے باوجود اس سیاہ دور میں دائیں اور بائیں بازو کی تخصیص کے بارے میں شاندار مزاحمتی ادب تخلیق کیا گیا۔ شاعروں کو سہولت تھی اور کہ وہ اشاروں کنایوں میں استعاروں کی مدد سے جبر کی صورت حال کا اظہار کر ڈالتے تھے جب کہ نثر میں آپ کو عیاں ہونا پڑتا ہے۔۔۔ نثر دراصل ایک ایف آئی آر ہوتی ہے جو آپ خود لکھتے ہیں اور گواہ کے طور پر اپنے دستخط ثبت کرتے ہیں۔۔۔ میں تفصیل میں نہیں جاتا لیکن میرے کم از کم ایک افسانے ’’بابا بگلوس‘‘ کی پاداش میں ایک برس تک ٹیلی ویژن کے دروازے مجھ پر بند کر دیے گئے جو ان دنوں میرا واحد ذریعہ روزگار تھا۔۔۔ ایک سرکاری اخبار نے یہاں تک لکھا کہ یہ افسانہ لکھنے کے جرم میں مجھے پھانسی دینی چاہیے۔ بعد میں اس افسانے سے متاثر ہو کر گلزار نے دو نظمیں لکھیں جو اُن کے ایک شعری مجموعے میں شامل ہیں۔۔۔ لیکن اس کے باوجود ہمیں قلق نہ ہوتا تھا کیونکہ ہم نے اپنے ضمیر کی آواز پر یہ اظہار کیا تھا لیکن ان دنوں صورت حال مختلف ہو چکی ہے۔۔۔ اُن زمانوں میں ریاست کی جانب سے پابندیاں عائد ہوتی تھیں، کوڑے لگائے جاتے تھے اور پھانسیاں دی جاتی تھیں جب کہ معاشرہ ہماری مزاحمتی ادبی کاوشوں کی تحسین کرتا تھا اور ان زمانوں میں ریاست کی جانب سے کوئی پابندی نہیں، میڈیا آزاد ہے، آپ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، لکھ سکتے ہیں لیکن اب معاشرے نے جبر اور ظلم اختیار کر لیا ہے۔۔۔ معاشرے میں ایسے افراد ہیں جنہوں نے جبر اور تعصب کے پرچم اٹھائے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کبھی ایک مرغی بھی ہلاک نہیں کر سکتے تھے۔ اتنے پر امن تھے لیکن جب سے ’’جنگ‘‘ کا آغاز ہوا ہے اس کی ہولناکیوں اور سفاکیوں نے آہستہ آہستہ انہیں بھی بے حس کر دیا ہے۔۔۔ اور وہ کیا کہتے ہیں کہ ’دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف۔۔۔اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی‘۔۔۔ ایک ہی شمارے میں ملالہ کے بارے میں تنقیدی کالموں کے ردعمل میں عارف نظامی نے ’’ملالہ کو معاف کر دیجیے‘‘ لکھا۔۔۔ شکریہ نظامی صاحب۔۔۔ میری بھی یہی درخواست ہے کہ۔۔۔ ملالہ کو معاف کر دیجیے اگرچہ وہ ملکی سلامتی کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے اور اس نے ہزاروں لوگوں کو بموں سے اڑا دیا ہے پھر بھی معاف کر دیجیے۔
ریاستی جبر ہمیشہ ایک مخصوص مدت کے لیے ہوتا ہے اور پھر اللہ تعالیٰ کسی سی ون تھرٹی کی صورت میں فضل کر دیتا ہے لیکن معاشرے کے جبر کی کوئی طے شدہ مدت نہیں ہوتی۔۔۔ یہ طویل مدت کے لیے آتا ہے اور پھر جاتے جاتے جاتا ہے، اگر جاتا ہے تو!
......[/size]

Predator Monday, December 23, 2013 10:34 AM

[CENTER][URL=http://s295.photobucket.com/user/adeesaha/media/iq1.jpg.html][IMG]http://i295.photobucket.com/albums/mm136/adeesaha/iq1.jpg[/IMG][/URL][/CENTER]

Predator Monday, January 27, 2014 11:13 AM

[CENTER][URL=http://s295.photobucket.com/user/adeesaha/media/tt.jpg.html][IMG]http://i295.photobucket.com/albums/mm136/adeesaha/tt.jpg[/IMG][/URL][/CENTER]

bl chughtai Friday, January 31, 2014 05:03 PM

‫معافی اور توبہ کی توفیق بھی مقدر والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔۔۔۔۔ ورنہ آنکھوں پر لوہے کے پردے اور کانوں میں سیسہ پگھلا دیا جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ انسان کی سوچنے سمجھنے کی ہر صلاحیت سلب کر لی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔‬

new_horizons Wednesday, April 30, 2014 03:40 AM

[SIZE="2"][SIZE="4"]دنیا میں کچھ رشتے ایسے بھی تو ہوتے ہیں کہ جنہیں بات یا ملاقات کی مجبوری نہیں ہوتی _ وہ انسان کی ہر بات اور اس کی ہر ملاقات میں ہمیشہ شامل رہتے ہیں ...مانتے ہو نہ کہ لفظ اور تصویر ہی سب کچھ نہیں ہوتے ...جہاں یہ سب کچھ ختم ہوتا ہے وہاں سے تصور کا رشتہ شروع ہوتا ہے

بچپن کا دسمبر -- Hashim nadeem[/SIZE][/SIZE]

new_horizons Wednesday, April 30, 2014 03:59 AM

[size="4"]میں نے غور کیا اور دیکها تو وہی لوگ زیادہ بدقسمت دکهائی دیے جو کسی کو نہیں چاہتے اور دنیا کو چمٹنے والے یہی لوگ دکهائی دیے. میں نے کان لگا کر سنا ...... کسی کو چاہنے والے ...... کسی کی تمنّا دل میں لیے ہوے ...... انسان کی آہیں مجهے گانے کے سُروں سے زیادہ میٹهی معلوم ہوئیں. اس لئے میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کے ہرگوشے میں حُسن و محبّت کے لئے ایک تڑپ ہو.
(خلیل جبران)[/size]

new_horizons Wednesday, April 30, 2014 04:03 AM

[size="4"]زندگی میں سائن بورڈز اور روڈ سائنز کو بھولنا مشکل هوتا هے
پھر زندگی میں آنے والے انسانوں کو کیسے بهلایا جاسکتا هے.. جس راستے سے ایک بار گزر هو جاۓ وهاں کی نشانیاں ذهن میں بیٹھ جاتی هیں اور سالوں بعد بھی دوباره اسی راستے پر گزرتے هوۓانسان پهچان ،شناخت، تلاش اور دریافت کے جذباتی مراحل سے گزرتا هے تو زندگی میں ساتھ چلنے والے انسان کیسے همارے ذهن پر اپنے نقوش اور یادیں نه چھوڑ جائیں..آواز،انداز،نقل،نظر، لفظ،لمس،عادت،آهٹ یه کیسے ممکن هے انسان کوبھولنے کے ساتھ ساتھ یه سب بھی بھول جاۓ....کبھی وهم نه هو، کبھی شائبه سا نه گزرے، کبھی یادوں کی پرچھائیاں فریب نه دیں

(عمیره احمد کے ناول عکس سے اقتباس)[/size]


08:58 PM (GMT +5)

vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.