CSS Forums

CSS Forums (http://www.cssforum.com.pk/)
-   Urdu Poetry (http://www.cssforum.com.pk/off-topic-section/poetry-literature/urdu-poetry/)
-   -   Aao keh hum ghareeb lain, qismat ko haath main (http://www.cssforum.com.pk/off-topic-section/poetry-literature/urdu-poetry/40308-aao-keh-hum-ghareeb-lain-qismat-ko-haath-main.html)

tx_ned Friday, October 22, 2010 06:28 PM

Aao keh hum ghareeb lain, qismat ko haath main
 
[b][size="4"][color="navy"]آؤ کہ ہم غریب لیں، قسمت کو ہاتھ میں
گَر من میں ٹھان لیں، تو ھے سب ممکنات میں

بَن کے اُجالا پھاڑ دیں، تاریک رات کو
جگنو اگر یہ جان لیں، کیا ھے بساط میں

آؤ کہ کوئی خواب بُنیں، کل کے واسطے
سوچوں کے مقتلوں کو، دفن کر کے رات میں

سوچیں کہ ہم سے کیوں ھے گریزاں، اُمیدِ صبح
اُلجھے امیرِ قافلہ، بس اپنی ذات میں

مَسند باوصفِ قامت و کردار ہو فرخ
جھوٹے بتوں کو غرق کریں، آ فرات میں[/color][/size]



[/b]

tx_ned Saturday, October 23, 2010 07:51 AM

آخر ہم کب تلک غریب رہیں؟
 
[b][i][size="4"][color="navy"]آس دامن میں باندھ کر خواہش
جس سفر پہ بزرگ تھے نکلے
عمر تک رات کا سفر کاٹا
پھر بھی لیکن صبح نہیں آئی
آؤ سب مل کے ہمسفر سارے
خوابِ غفلت سے جاگ کر سوچیں
میر جعفر کو، میر صادق کو
مسندِ میر کِس نے دے چھوڑی؟

اپنے قائد کے قاتلوں پیچھے
آخر ہم کب تلک نماز پڑھیں؟
ڈھونگیوں کی دعاوں پہ کب تک
ہم فقط" آمین" کا یہ ورد کریں
یہ تو ناو ڈبو کے چھوڑیں گے
آؤ خود ہی سامانِ زیست کریں

تکیہ کب تک مہا جنوں پہ کریں
آخر ہم کب تلک غریب رہیں؟
کب تلک آنسووں کو بو کے ہم
فصلِ امید میں خوشی دیکھیں
آؤ اِس کارواں کا رخ موڑیں
ڈھونڈ لائیں کہیں سے صبح کو
ایسی ہی باغیانہ سوچوں سے
خوشبوئے اِنقلاب آتی ھے

کیوں روایت کو تھام کر بیٹھیں؟
فصلِ خواہش کے انتظار میں ہم
چل کے منزل کبھی نہیں آتی
خوش گمانی سے جھاڑ کر دامن
منزلوں کو سفر بھی لازم ھے
مل کے جب سب چلیں گے جگنو تو
راہ روشن بھی ہو ہی جائے گی
رات آخر تو سو ہی جائے گی
صبح اک دن تو ہو ہی جائے گی[/color][/size]


[/i][/b]

tx_ned Tuesday, October 26, 2010 12:19 AM

اِک سامراجی کھیل کا، ایندھن بنا دیا
 
[b][i][size="4"][color="navy"]

[i][color="darkgreen"]اِک سامراجی کھیل کا، ایندھن بنا دیا
سردار تیرا سر بھی سرِدار چاہیئے
[/color][/i]
منزلیں نہیں آئیں، ہمسفر زمانوں پر
پھر قدم کیوں پڑتے ہیں، جا اُنہی نشانوں پر؟

سازشی یہ پنجرہ گر، کہتے ہیں کہ اُڑ جاﺅ
مسکرائیں زیرِ لب ، پَر کٹی اُڑانوں پر
...
خواب بکتے دیکھے ہیں، خالی جیب والوں کے
نان کے تندروں پہ، شہر کی دکانوں پر

محفلِ مدہوشاں میں، کل جو بات تھی میری
آج اگتے دیکھی ھے، خلق کی زبانوں پر[/color][/size][/i]



[/b]

tx_ned Wednesday, October 27, 2010 08:29 AM

عوام سے سردار اُٹھائے نہیں جاتے
 
[b][i][size="4"][color="navy"]یہ سانسوں کے رشتے بھی نبھائے نہیں جاتے
اب ناز یہ لاشے کے اُٹھائے نہیں جاتے

کچھ لوگ زمانے میں، موزوں ہی نہیں ہوتے
اندازِ جہاں اُن کو سکھائے نہیں جاتے

زَردار ہی آدابِ حکومت سے ہیں واقف
عوام سے سردار اُٹھائے نہیں جاتے

کرِدار تو حالات کے گرداب سے اُبھریں
مٹی سے تو افکار بنائے نہیں جاتے

مسافر کی لگن آنچ کو جانچنے خاطر
کچھ رستے منازل سے ملائے نہیں جاتے

لفظوں سے مرے کرب کی آتش کو چھُوﺅ ناں
دل کھول کے وائے کہ دکھائے نہیں جاتے

[/color][/size][/i][/b]

tx_ned Wednesday, October 27, 2010 09:08 AM

یہی نویدِ سفر ھے شاید
 
[b][i][size="4"][color="navy"]رُکے ہیں پر یہ گذر رہی ھے
یہ زندگی کھیل کر رہی ھے

یہ سانس جس سے بنی کبھی نہ
بدن میں میرے ٹھٹھر رہی ھے

یہی نویدِ سفر ھے شاید
اِک آس گھٹ گھٹ کے مر رہی ھے

خزاں میں جس نے کئے تھے پیماں
وہ تتلی گل سے مکر رہی ھے

نصیب اس اک دعا کا دیکھو
ازل سے محوِ سفر رہی ھے

کب بد نصیبی کسی نے دیکھی
یہ مدتوں میرے گھر رہی ھے[/color][/size][/i]


[/b]

tx_ned Friday, October 29, 2010 04:12 AM

فیض صاحب کی نظر
 
[b][i][size="4"][color="navy"] دارِ شوکت سبھی، پابجولاں چلو
کوئے رحمت چلو، سوئے درماں چلو

لے کے زندان سے، شمعِ حرمت چلو
سر پہ باندھے کفن، تہی داماں چلو

فکری سرحد پہ یلغارِ غیراں سہی
سائے اقدار کے، بن کے درباں چلو

ہم نے مانا کہ شب ھے اندھیری بہت
قافلے فکر کے، تھامے قرآں چلو

جذبہ حریت کے خزینے چلو
زخمی روحوں کے پندار سینے چلو

حسِ محرومی و شوقِ ارماں چلو
جذبہ آتشی، لے کے ساماں چلو

علمِ عشاقِ آشیانہ چلو
لینے جاہ و حشم جاودانہ چلو

رب کے دربار میں اشک بو لے چلو
مانندِ بدر کے ، معجزانہ چلو

کندھا مظلوم سے تم ملائے رکھو
بن کے ظالم پہ تم تازیانہ چلو

چھوڑ سر خوشی و سہل جادہ چلو
برقِ مومن بنو، خاک زادہ چلو

بُتِ فسطائیت کو گرانے چلو
ظلمتِ ازمنہ کو مٹانے چلو

منبرِ قوم پہ، بیٹھے غدار ہیں
ایسے رہبر لگانے ٹھکانے چلو

قرضِ مٹی ھے جو، وہ چکانے چلو
آج جینے کو مرنے بہانے چلو

تہمتِ زندگی، خوں سے دھونے چلو
فصلِ ابدی کوئی، آج بونے چلو

خوابِ غفلت سے جاگو، سفر کو چلو
سب ہی اپنے تئیں، آؤ گھر کو چلو
[/color][/size][/i]


[/b]

tx_ned Saturday, October 30, 2010 08:41 AM

ہم اپنے گھر میں ہی کب تک آخر
 
[b][i][size="4"][color="navy"]جو ہم ہی سادہ وضع رہیں گے
تو بندے بن کے خُدا رہیں گے

گر ہم نے اپنی نہ آنکھ کھولی
یہ گھپ اندھیرے سدا رہیں گے

یوں ایک دوجے سے شاکی رہ کے
غریب بے آسرا رہیں گے

ہم کب تلک ان عطائیوں سے
اُمیدوارِ شفا رہیں گے؟

ہم اپنے گھر میں ہی کب تک آخر
یوں بن کے نا آشنا رہیں گے؟[/color][/size][/i]


[/b]

tx_ned Sunday, October 31, 2010 08:43 AM

[b][i][size="4"][color="navy"]کتنے سادہ ہیں طبیعت میں ہموطن میرے
جنکو لیڈر بھی سدھائے ہوئے مل جاتے ہیں

اب تو چپ چاپ، یوں زنجیر پہن لیتے ہیں
گویا احساس کے لاشے ہیں یہ چلتے پھرتے

خونِ غیرت تو کئی بار ہوا ھے لیکن
اِن کا ایمان یذیدوں پہ ابھی قائم ھے

میر جعفر کے عزیزوں میں گھری قوم مری
مدتیں گزریں، کرشموں کی تمنا کرتے

جانے کب ہوش میں آؤ گے ہمقدم میرے
یہ گِدیں نوچ کے اُڑ جائیں نہ سانسیں اپنی[/color][/size][/i]


[/b]

tx_ned Monday, November 01, 2010 02:56 PM

ایک شے پر ضمیر ہوتا ھے
 
[b][i][size="4"][color="navy"]بھاگ سے ہی فقیر ہوتا ھے
خاص اس کا خمیر ہوتا ھے

جانے کتنے غریب مرتے ہیں
تب کہیں اک امیر ہوتا ھے

ہم بھی شاید امیر ہو جاتے
ایک شے پر ضمیر ہوتا ھے

لحد تنہائی بھی مقدر کب
واں پہ مُنکر نکیر ہوتا ھے

سارا کاغذ پہ کب پلٹتا ھے
سوچ لاوہ خطیر ہوتا ھے
[/color][/size][/i]


[/b]

tx_ned Friday, November 05, 2010 09:31 PM

مَیں نسلوں کی گواہی ہوں
 
[color="navy"][b][i][size="4"]مَیں نسلوں کی گواہی ہوں
کہ جن کی را ئے کو تم نے
یہاں وعدوں سے روندا ھے
کہ جن کو حقِ گوےائی
دیا سنگینوں کے سائے
کہ جن کو سچ مسخ کر تم
نصابوں میں پڑھاتے ہو

مَیں نسلوں کی گواہی ہوں
جہاں جمہور کو تم لوگ
فقط حشرات گنتے ہو
جہاں قانون مکڑی کے
فقط جالے کی مانند ھے
جو ہم جےسے نحیفوں کو
جکڑ لےتا ہے بے وجہ
اور جِسے تم چِیر کر ہر روز
یونہی آذاد پھرتے ہو

مَیں نسلوں کی گواہی ہوں
جہاں میں سوچ سکتا ہوں
مگر بس سوچ کی حد تک
وگرنہ سوچنے کے کچھ
یہاں آداب ہوتے ہیں
مگر مَیں بے ادب سا ہوں
ہمیشہ بِن اِرادے کے
حدوں کو توڑ دیتا ہوں
مَیں بیزارِ ہدایت ہوں
شروع سے بے روایت ہوں

یہاں جھوٹ اور ڈِھٹائی کا
رواج ایسے پڑا دیکھا
کہ سچ خود کے گریباں میں
شرم سے تار دیکھا ھے
یہاں پر باضمیروں کو
سدا لاچار ہے پایا
مگر موقع شناسوں کو
بَنا اوتار دیکھا ھے[/size][/i][/b]


[/color]


05:03 AM (GMT +5)

vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.