CSS Forums

CSS Forums (http://www.cssforum.com.pk/)
-   Urdu Poetry (http://www.cssforum.com.pk/off-topic-section/poetry-literature/urdu-poetry/)
-   -   لفظ میرے گواہی (http://www.cssforum.com.pk/off-topic-section/poetry-literature/urdu-poetry/89147-1604-1601-1592-1605-1740-1585-1746-1711-1608-1575-1729-1740-a.html)

SADIA SHAFIQ Sunday, January 12, 2014 03:23 PM

لفظ میرے گواہی
 
[b][i][color="darkred"][font="palatino linotype"][size="3"]
میرے مجھے ضبط پہ ناز تھا۔
یہ کیا ہوا کی نم ہے آئینہ دل۔
مجھے گلہ کسی سے نہیں۔
کہ میری فصل میں بہار کہاں۔
میں تو نقطہ ہو ازل سے زیست کا۔
میری مجا ل لفظوں میں کہاں۔۔
میں نہ خانماں برباد ، نہ حسرت بچی کوئی
کہ جلا کہ سب کشتیاں پوچھتے ہو میرا حال ہے کیا۔
مجھے بے وفائی سے غر ض کہاں۔
میرے رگ رگ میں شرار ہے۔
مجھے جستجو تھی آسمانوں کا۔
زمیں کے لئے اب ترس ہے بہت۔
میں تو ازل سے دل جلا رہی ۔
میرے حاؒ ل پر ہنسوں مت۔
کہ دھمال ڈالنا میرا کام تھا۔
جو بھول ہوئی کہ چھوڑ کر ۔۔
تلاش خوشی میں نکل پڑی ۔
نہ تھی میری دسترس میں یہ کہاں۔
میرا شریک تو درد تھا ۔
جو ازل سے دل میں مقیم تھا۔
خطا ہوئی کہ بھول کر اک دیا جلا لیا۔
سزا ملی کہ سب راستے بند ہوۓ۔
نہ غئنچہ دل میں کو آرزو پلے ۔
نہ خواب کو اب آرزو بھرے ۔
مہری کہ جنگ جرچہ بماند ہار ہے
مہرا حو صلہ ابھی جواں ہے ۔
کہ جلا کہ سب کشتیاں میں طارق بن زیاد ہوں
آزاد ہو کہ موسی سے اندلس کو پا لیا۔
میرا نغمہ سالوں پہ محیط ہے ۔
اور جلتا ہوا دل میرا آخری ہتھیار ہے
چلوں تو جلے میرا بدن ،
رکوں تو سانسیں ہی رکیں سی ہیں۔
مجھے جل جل کر ہو چلنا۔۔
یہی میرا پل صراط پے
[/size][/font][/color][/i][/b]

SADIA SHAFIQ Saturday, March 15, 2014 03:35 PM

!اجنبی شہر
 
[i][font="franklin gothic medium"]
اے جستجوۓدل ! طویل سفر ٍحیات۔
مت پوچھ! بتی زندگی کا ملال ہے کیا۔

مہرباں لوگ ،پرخلوس تھے چہرے
مت پوچھ ! گۓ دنوں کا حساب ہے کیا۔

تنہا زندگی ، داغدار دامن ٍدل
مت پوچھ! شہرٍ دل کا زوال ہے کیا۔

ناشناس چہرے،دوست اجنبی۔
مت پوچھ! بجز انکے میرا حال ہے کیا۔

روشن چہرے ، مہکتا گلشن ۔برستا ابر۔
مت پوچھ! اندیروں کا کمال ہے کیا۔

اے سنگٍ تراش ! مہرو ماہ کے مستانے۔
مت پوچھ! زخمٍ دل کی خوںچاں کہانی۔

برستے سنگ ،چشمٍ تر سے جاں سوز دل
مت پوچھ ! تری میربانی کہ رسے خوں کا کرب کیا ہے

از نور ایمان
[/font][/i]

SADIA SHAFIQ Saturday, March 29, 2014 12:06 AM

SoochA key Ek HAmd KAahooN!
 
[b][size="3"][i][font="palatino linotype"]


کئی روز سے سوچا تھا اک حمد کہوں۔
گزر گۓ کئی روز کہ میں اک حمد کہوں۔

محوٍ سوچ میں صبح گزر ری میرے ایام تلخی
کہ لکھوں نالہٍ فریادٍ دل یا ٌپھر کہ حمد کہوں۔

لکھا جب پہلا حرفٍ دل اک کیف کے عالم میں
رو دیا دلٍ خستہ کہ مٰیں نے اک حمد کہی۔

وہ دن تھا ہا مخملٍٍ ٍبدن پہ ماندٍ موم سلگتا میرا دل۔
کہا حرف حرف اس کے حضور کہ جلتا ہے میرا دل،

تشنہ مہ ہوں کیا اب میں حرف لکھوں ۔
کیا سوختہ جاں ہے تو کیا حرف لکھوں۔

روشن میرا سینہٍ دل تھا ، نور کا احوال لکھوں۔
اہام گزرتے تھے یاد میں تری کیا یہ حال لکھوں۔

دل وجدٍخوشی ملں مٰیں تھا بے قرار
کیا مست دن تھے ان کا احوال لکوں۔

ارے جانے دو کچھ نہ کہو کہ وہ شادی مرگ
آذاں کرتا تھا دل نمازٍ عشق سے پہلے۔

اب حال ہے یہ کہ نامہ بر آپہنچا میرے اعمال ہے کیا۔
جھک گیا شرم سے جی کی میرا حال ہے کیا۔

کرم تھا میرے حال پر وہ کرم اب تو نہیں ۔
ہاں میں بے وفا ! مگر شرہکٍ زات تو نہیں۔

میرے عصییاں ہے جو گنو تو بے شمار۔
کہ اب جو ہے میرا دل تو بے قرار تو کیا۔

میں گروں بھی تو مجھے زخم ہے کہاں۔
میرا مسہحا ہے آن آں مجے میں پسا ہوا۔

کہاں مالک نے ہوں قریب شہ رگ سے قریب تر۔
جو سمجھ گئے اس زاز کو وہ ہیں خوش نصیب تر۔

گر ڈھوبڈو مجھے تو کرو جو تم یہ اسطرح
مٹا کر آئینہٍ دل پہ پڑی گرد کے تلے جلوہٍ دید کر۔

میں نہیں ،میری ذات نہیں تجھ سے عزیز تر
میں پھر بھی ہوں کہاں تجھ سے قریب تر۔

میرا رنگ تو اک رنگ ہے جو ہے تو اک عکس پر
چمکا اسطرح اسکو کی شبیہ ہو قزح سے قریب تر۔

رو چکے میرے عصیاں اے نور بے ضمیر ہے تو۔
ہے تو بہت بے وفا پھر بھی قریب ہے تو ۔
[/font][/i][/size][/b]

SADIA SHAFIQ Monday, March 31, 2014 11:57 AM

Naat-e-rasool-e maqbool (S.A.W)
 
[B][SIZE="3"][FONT="Palatino Linotype"][COLOR="DarkGreen"][I]
میری جزو جاں یا محمدؤﷺ۔
میری ذات کا بیاں ہا محمدﷺ۔

۔(ﷺ)Swore to love is thee
۔(ﷺ)When shook my heart thee
یسﷺ بھی، طہٰﷺ بھی، مزمل و مدثر ﷺ بھی۔
بشر و جن کے وہ بشیرو نظیر بھی ﷺ۔

!Light is and was and will remain
!Light is Islam and an alive Quran

مسکیں و لاچار ،بے کس و بے آسرا تھے محمدﷺ
بنے والی بے کس و لاچار و بے آسرا کے محمدﷺ

.Dwelt in the hearts of Arab and Ajaam
. Chieftain of prophets was like a common man

شبِ معراج کی امامتِ انبیاٰء و دیدارِ یار کا۔
عیسیٰؐ نے کہا بنا ہا الہی امتی آپﷺ کا۔

.Ummati am I is a fortune of mine.
. My fate in the end will shine

حالتِ طائفﷺ پہ آپ کہ دہکھ کر رو دیا میرا خدا۔
احدَ میں احدَ نے اتارا پوداِ خاص محبِ یار میں ۔

.Forgave the assassins of Hamza-the martyr
.Made safety latch the house of Abu -sufian

موم کی مانند گھلا دل دشمنِ مسلماں سفیاں کو۔
لے آۓ اسلام چچا ،بھانجےﷺ کی نرم دلی پر۔

Father of Hussain (R.A), martyr the great
.who perfected the sacrifice of Abraham

والدِ سیدہ خاتونِ جنت , بچھائی کملی آپ نے آمدِ فاتمہ پر۔
شوہرِعایشہ بنتِ بو بکر،ہیں جو والی محمدﷺوزیرِدو جہاں۔

Frighted from the scenery of hell during his visit of Meeraj
An angel came to give comfort in form of Bo-Bakar

اے خدا میری لکنتِ زباں کو کھول دے
مدحتِ محمدﷺ کو میری ذات رول دے۔

نہیں آتی مجھے سناۓ ِ محمدﷺ مگر
کرتی رے گے[U] نور[/U] آخرِ دمِ زندگی تک۔
Sadia Sheikh
[/I][/COLOR][/FONT][/SIZE][/B]

SADIA SHAFIQ Monday, March 31, 2014 12:09 PM

[color="darkgreen"][size="4"][font="palatino linotype"][center]الف کے واسطے دل بھی ہے
الف کے لیے یہ جہاں بھی ہے۔
الف نے رنگ سجایا ایہہ دنیا دا
الف نے م دے واسطے سوانگ رچایا۔

م ساڈے دل دی ہستی وچ سمایا ہے۔
م ساڈے انگ انگ وچ ،ذات نو مست بنایا۔
م دی ہستی مستی اجی ویکھی کوئی نا۔
م نے فر وی دل وچ وسیب بنایا ہے۔
sadia sheikh ..Noor Iman[/center][/font][/size][/color]

SADIA SHAFIQ Tuesday, April 01, 2014 10:15 PM

My Ghazal !
 
[FONT="Palatino Linotype"][SIZE="4"][COLOR="DarkGreen"][SIZE="4"]
جامِ درد ہم پی کے نکلے .
پینے کو غم ہی مے نکلے.

مزاح پرجگ ہی آ کے ُاترے۔
تماش کو سب ہی آ کے نکلے۔

جگر کے سو ٹکروں کے بعد۔
کوئی مسیحا ہی ہوکے نکلے۔

دم ِسادگی فریب کے روبرو۔
تری چال سے بچ ہی کے نکلے۔

ُبہار میں خزاں کا ہے عالم ۔
جامہِ بدن ُگھل ُگھل ہی کےنکلے۔

َمری محبت بسمل کے مانند
دارِ فنا سے یوں بچ ہی کے نکلے

آگئے فاصلے مرے دنیا سے نور۔
سانس ُخوشیِ مرگ ہی کر کے نکلے۔
[/SIZE][/COLOR][/SIZE]

@Mods kindly delete previous post[/FONT]

RekhtaUrdu Monday, April 21, 2014 12:56 PM

[center][size="3"][b]چراغ_کشتہ سے قندیل کر رہا ہے مجھے
وہ دست_غیب جو تبدیل کر رہا ہے مجھے

یہ میرے مٹتے ہوئے لفظ جو دمک اٹھے ہیں
ضرور وہ کہیں ترتیل کر رہا ہے مجھے

میں جاگتے میں کہیں بن رہا ہوں از_سر_نو
وہ اپنے خواب میں تشکیل کر رہا ہے مجھے

حریم_ناز اور اک عمر بعد میں لیکن
یہ اختصار جو تفصیل کر رہا ہے مجھے

بدن پہ تازہ نشاں بن رہے ہیں جیسے کوئی
مرے غیاب میں تحویل کر رہا ہے مجھے

بدل رہے ہیں مرے خد_و_خال ترکؔ ابھی
مسلسل آئینہ تاویل کر رہا ہے مجھے[/b][/size][/center]

SADIA SHAFIQ Tuesday, April 22, 2014 01:04 PM

[font="palatino linotype"][size="3"] ہماری سوچ کا محور اکثر دنیا ہو تی ہے ۔ دنیا میں لوگ بہت خوش ہیں اور کیوں خوش ہیں ۔ اسکو میری بد دعا لگی اسکے ساتھ برا ہوا ۔ ہم برا ہونے پر خوش اور کسی کے اچھا ہونے پر نا خوش ہو تے ہیں ۔ ہمارے ہونٹ کی جنبش میں مناجات بھی مطلب کی ہوتی ۔ اللہ سائیں اچھا کرنا ۔ بلکہ اس بندے سے زیادہ دینا۔ مجھے ترقی دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بات سے مجھے سفرِ خضر یاد آتا ہے ۔ روانگی سے قبل انہوں نے منع کیا سوال نہ کرنا اور یہ ساتھ جانے کی شرط تھی ۔ جب حضرت موسیٰ (ع) نے پوچھا مالک کائنات سے کہ اللہ اس دنیا میں مجھ سے زیادہ کسی کے پاس علم نہیں ۔ پروردگار ِ عالم نے کہا۔۔ ایک ایسا بندہ ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اسے تجھ پر فو قیت ہے ۔ پوچھا کون ہے وہ ؟ جواب ملا کہ وہ خضر (ع) ہیں ۔

موسیٰ (ع) سمندر پر آپ کے ساتھ تھے ۔ جس کشتی پر سوار تھتے اسکے کچھ حصوں کو توڑ دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ حیران ہوۓ سوال کیا ۔ آپ ؑ کو خضر ؑ نے ٹوک دیا ۔ کہ سوال منع کیا تھا ۔اب کہ سوال کیا تو سفر آپ ؑ کے ساتھ نہ ہو گا۔پھر جب آپ ساحل پر آۓ تو ایک بچہ کو مار ڈالا۔ اب تو حضرت مو سیٰ حیران ہوۓ ۔۔ لب رک نہ سکے کہ سوال ہونٹ پر در آی۔۔ پوچھا یہ کیا کیا۔ حضرت خضر ؑ نے کہا میں نے منع کیا تھا سوال نہ کرنا۔ مجھے اجازت دیں ۔ اب آپ کی اور میری راہ علیحدہ ۔۔۔ مگر حضرت موسیٰ ؑ نے منت سما جت کی ۔ مجھے آخری موقع دیں ۔اب کہ سوال کیا تو مجھ سے آپ علیحدہ ہوجائیں بے شک ۔۔

حضرت خضر ؑ مان گئے۔ جہاں پر یہ دونوں ہستیاں تھیں وہ ایک گاؤں تھا وہاں ایک گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ خضر ؑ نے اس گھر کی دیوار کو مسمار کر دیا ۔ حضرت موسیؑ پھر سوال کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ پوچھا یہ کیا آپ نے ۔۔ مکان کی دیوار کیوں ڈھا دی۔

اب کی بار حضرت خضر ؑ نے کہا کہ اب میرا تمہارا سفر ختم۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ سوال نہ کرنا ۔ جاتے جاتے وہ سوالات کا جواب دے گئے ۔ کہا جس کشتی کو خراب کیا تھا وہ بہت حسیں اور اکمل تھی ۔ ساحل کے پار ایک بادشاہ ہے اسے جو اچھی کشتی لگتی ہے وہ اس پر قابض پو جاتا ہے ۔ اس کشتی میں نقص کی وجہ سے وہ اسے اپنی ملکیت نہیں بناۓ گا ۔ اور غریب کا بھلا ہو جاۓ گا۔ جس بچے کو میں نے قتل کیا اس نے
بڑا ہو کر ماں باپ کے لئے ملامت و تذلیل کا باعث بننا تھا ۔ اسکے بدلے اللہ تعالیٰ ان کو نیک اولاد عطا کرے گا۔ جس مکان کی دیوار کو میں نے ڈھایا تھا ۔اسکے نیچے خزانہ دفن ہے جو یتیم بچوں کا ہے اور اب وہ بچے بالغ ہو گئے ۔ وہ سونا دیوار کے نیچے دفن رہا ۔ کیوںکہ حریص رشتہ دار ان کا سونا غضب کر لیتے تھے ۔ دیوار کے ڈھانے سے انکو انکا حق مل گیا۔

حضرت موسی ؑ جو نبی دلال ہیں ، لاڈلے نبی تسلیم کیا کہ خضرؑ کا علم ان سے زیادہ ہے ۔ اور رخصت ہوۓ ۔ اس سارے واقعے میں ''سوال '' حکمت ہے ۔ ہم سوال کہیں یا شکوہ کہ لیں ۔۔ مالک سے سوال کرتے اللہ میں کیوں سول سروس میں کامیاب نہیں ہوا۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اس تم میں کمی ہے بس اللہ کی مرضی اور ہے اور اس پوشیدہ بھلا ہے جو وہ ہی جانتا ہے اسکے سوا کوئی نہیں ۔ اللہ تعالی بندہ کو ڈھیل دیتا ہے کسی حد تک کہ وہ شکوہ یا سوال کرے ۔ جب وہ حدود پار کردے تو اسکے ساتھ چل نہیں سکتا ۔ ہم کیتے ہیں اللہ اس کا بیٹا لائق ہے میرا نالائق یا کہ میرے ہم نوا مجھ سے اچھا پیش کیوں نہیں آتے میں بھلا چاہتا ہوں ۔ نو سال کا بچہ عالمی ریکارڈ بناتا ہے ۔ مگر 20 -22 سال میں وہ ریکارڈ نہیں با سکے ۔ایسا کیوں ۔ عاشق بناتا ہے اللہ خاص خاص کو ،،، اور معشوق تو اس سے بھی زیادہ چنیدہ ہوتے ہیں ۔ ہم فٹ سے کہتے پیں اللہ میں معشوق کیوں نہیں ۔َ کیوں بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔ سوال پہ سوال وہ خاموش ، وہ ساتھ نہیں چھوڑتا چاہے ہمارا یار شیطان ہی کیوں نہ ہو۔۔




کبھی کسی نے اللہ سے کہا اللہ مجھے نبی اکرم ﷺ کا امتی بنایا کسی اور نبی کا بنا دیتے ۔ کوئی نہٰن کہے گا ۔ ہم کو اللہ خاص بناتا ہے امتی بنا کر اور آدم کی خصلت ہے کہ وہ خود کو عام نہیں ہونے دیتا ۔خوب سے خوب تر کا جنون ہوتا ہے ۔ ہم بازار جاتے ہیں لینا اک سوٹ یا شرٹ ہوتی ہے یا پرفیوم ۔۔ پورا شہر یا ملک اور کوئی تو باہر کے ممالک بھی چھان مارتے ہیں پھر جا کر انہیں کچھ پسند آتا ہے ۔ اللہ نے ہمیں پسند کیا ہے ہیارے محمد ﷺ مجتبیٰ مرتضیٰ کا امتی ہونا ۔ اللہ نے چھانٹی کی ہے ہماری ۔ساری امتوں میں سے چنا ہے ۔ خاص خاص بندوں کو نبیﷺ کی امت میں ڈالتا گیا۔ پم چنے ہوۓ ، گنے ہوۓ لوگ ہیں ۔ اللہ کی پسند ہیں ۔ جتنا شکر کرین تو کم ہیں ۔

اگر شکایت کرنے پر آئیں تو ہم نمرود و فرعوں اور شداد کی مثال لیتے ہیں ۔ شداد نے آسمان اور زمیں کے درمیاں معلق جنت بنائی ۔ جو دنیا کے عجوبوں میں سے تھی ۔ اور جنت اپنی نذیر آپ تھی ۔ مگر شداد اس جنت میں پاؤں نہ رکھ سکا کہ اجل نے آتھاما۔ سارا زمانے کا سب سے کامیاب شخص خود اپنی کامیابی نہ دیکھ سکا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے پوچھا موت کے اجل سے کہ تمہیں جاں قبض کرتے ہوۓ کبھی رحم آیا ۔ موت کے اجل نے جواب دیا ہاں ایک دفعہ جب طوفان نے لشتی کو گھیرا ہو تھا ۔ آپ کا حکم تھا سب کی جان لے لو مگر ایک بچہ جو ماں کی گود میں تھا اسکی رہنے دو مجھے تب ماں کی جان قبض کرتے ہوۓ دکھ ہوا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو میں نے اسکے ساتھ کیا معاملہ کیا

موت کے اجل نے کہا کہ نہیں میں نہیں جانتا ۔ فرمایا میں نے سمندر کی موجوں کو کہا اسکو ماں کی مامتا دو لوری دو ، ہوا کو کہا اسکا جھولا بن جاؤ ، سورج کو کہا اسکو روشنی دو ، درختوں کو کہا اسکو سایہ دو ، پھلوں کا کہا اسکو توانا کرو ۔۔۔۔ تم جانتے ہو وہ کون تھا۔۔۔ وہ نمرود تھا جس نے بڑے ہو کر خدائی کا دعوا کیا تھا ۔

مجھے رہ رہ کر قرانِ پاک کی نشانی /آیت یاد آرہی ہے جسکو سورہ رحمان میں بار بار دیرایا گیا ہے ۔ /فبا ای۔۔۔۔۔ اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ سوال کرنا بھی اسکی نعمت کو جھٹلانا ہے ۔ ہم بہت خاص ہیں اللہ کے۔۔ وہ اپنے لاڈلے بندوں کو ڈھیل دیتا ہے ۔ہم پھر بھی شریک کرتے ہیں اسکو ۔ وہ ہمیں سب کچھ دیتا ہے مگر ایک مطالبہ کرتا ہے کہ مومن ہو جا ، محبت کا مومن بن جا ، محبت سیکھ ۔۔۔ بس تو محبت کرنا سیکھ اسکے بعد وہ جو آسمانوں ہر مقیم کبھی تری دعا رد نہیں کرے گا۔عاشق ایک تو حکمتوں کو جانتا ہے نہ بھی جانے تو ہوتا تو وہ دیوانہ ہے ۔ اسکا ہوش رہتا ہے اسے بس ۔ ذات باری تعالیٰ کے بعد وہ سب بھول جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جو ''میں'' ہوتی ہے / انا کہ لوں خاک تلے روند دیتا ہے


از نور ؔ


[/size][/font]

SADIA SHAFIQ Tuesday, April 22, 2014 01:09 PM

[FONT="Palatino Linotype"][SIZE="3"]
محبت اور مادیت


دنیا میں سب سے لازوال جذبہ محبت ہے۔مگر اس کو
پائمال نفرت کی حد سے کیا گیا ہے۔کدورت، انتقام، غصہ، حسد اور جلن سب محبت کا سر چشمہ ہے۔ محبت کی بیماری گھٹی میں ملتی ہے ۔ کہیں یہ موروثی وبا کی ما نند مٹی کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیتی ہے۔مات ہو با زی میں تو شہ ما ت بن جا تی ہے۔ اس کا اسیر دیوانہ ' رشتوں سے بیگانہ اور حوث کا پروانہ بن جاتا ہے۔ لوگ محبت پر شاعری کرتے ہیں ' محبوب کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں۔ در پردہ ' دلوں میں مخفی مقا صد مکڑی کے جال کی مانند پر فریب ہوتے ہیں ؛ دھوکہ کھا نے والا بادشاہ وقت ہی کیوں نہ ہو بچ نہیں پاتا جب تک برباد نہ ہو جاۓ۔
شیکیسپئر نے محبت کے موزوں پر درجنوں ڈرامے تشکیل کیۓ۔ کنگ لیئر اس کی واضح مثال ہے۔محبت پہلے اعتبار کرواتی ہے پھر اس کاقتل۔۔۔
مقتول مرنے کے بعد بھی جان نہیں پاتا ۔ اور جان بھی جاۓ تو اس معصوم سی پہیلی کے جواب پر ششدر و پریشاں ہو جاتا ہے۔درحقیقیت محبت کی بقاء تمام برائیوں کی انتہا ہے۔ معتزرین نقتہ اٹھا ئیں گے کہ محبت مالک بندوں سے کرتا ہے اور کائنات میں محبوب ترین ہستی تومحمدﷺ
کی ذات ہے۔محبت نور سے ہو تو جل کر بھی جہاں منور ہے۔روح میں نور کا بصیرا محب کو جلا کے کندن بنا دیتا ہے۔ یہاں پر الفاظ کا زیاں نہیں ہوتا۔ شیلے اسطرح کی محبت کو ایک مقصد کی طرح چاہتا تھا ۔اس لیۓ کہا جاتا ہے کہ محبت میں زباں کی کیا اہمیت۔۔۔۔ کنگ لیئر اگر کارڈیلا کی محبت کا یقین کر لیتا بجاۓ محبت کی مادیت جو باقی دو بیٹییؤوں نے بصورت الفاظ اظہار کی ، اپنی شان نہ سمجھتا تو وہ کبھی پاگل نہ ہوتا۔نہ ہی بے بسی کی موت مرتا۔ محبت یا خود پسندی تھی جو اس نے صاف گو بیٹی کا یقین نہ کیا۔اپنے مجسم سے محبت اس کا ٹریجک فلا بنا۔
جان ڈن نے محبت کو مادیت کے اتنے قریب کر دیا کہ وہ خدا کی محبت میں بھی مٹی تلاش کرتا تھا۔اس میں اتنی حد پار کر دی کہ دائرہ احترام سے نکل گیا۔محبت میں چور ہو کر اس نے ڈیوائن پوئٹری تشکیل دی۔
اسکی خدا سے محبت بماند مٹی کے تعلقات کی سی تھے جو عالم ہجر میں بربادی کی طرف کا راستہ ہے۔ احساس محبت ہے جو چھونے سے ہی عیاں ہو پاۓ۔ نہ کے ان دیکھا احساس جو روح میں سرائیت ہو کر دل کو باغباں بنا
دیتا ہے۔دنیا نے آج محبت کا کاروبار شروع کر دیا ہے

3 October 2013 at 00:32[/SIZE][/FONT]

Sabir Basheer Tuesday, April 22, 2014 06:38 PM

[QUOTE=SADIA SHAFIQ;714874][font="palatino linotype"][size="3"] ہماری سوچ کا محور اکثر دنیا ہو تی ہے ۔ دنیا میں لوگ بہت خوش ہیں اور کیوں خوش ہیں ۔ اسکو میری بد دعا لگی اسکے ساتھ برا ہوا ۔ ہم برا ہونے پر خوش اور کسی کے اچھا ہونے پر نا خوش ہو تے ہیں ۔ ہمارے ہونٹ کی جنبش میں مناجات بھی مطلب کی ہوتی ۔ اللہ سائیں اچھا کرنا ۔ بلکہ اس بندے سے زیادہ دینا۔ مجھے ترقی دینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس بات سے مجھے سفرِ خضر یاد آتا ہے ۔ روانگی سے قبل انہوں نے منع کیا سوال نہ کرنا اور یہ ساتھ جانے کی شرط تھی ۔ جب حضرت موسیٰ (ع) نے پوچھا مالک کائنات سے کہ اللہ اس دنیا میں مجھ سے زیادہ کسی کے پاس علم نہیں ۔ پروردگار ِ عالم نے کہا۔۔ ایک ایسا بندہ ہے جو تجھ سے زیادہ علم رکھتا ہے۔ اسے تجھ پر فو قیت ہے ۔ پوچھا کون ہے وہ ؟ جواب ملا کہ وہ خضر (ع) ہیں ۔

موسیٰ (ع) سمندر پر آپ کے ساتھ تھے ۔ جس کشتی پر سوار تھتے اسکے کچھ حصوں کو توڑ دیا۔ حضرت موسیٰ ؑ حیران ہوۓ سوال کیا ۔ آپ ؑ کو خضر ؑ نے ٹوک دیا ۔ کہ سوال منع کیا تھا ۔اب کہ سوال کیا تو سفر آپ ؑ کے ساتھ نہ ہو گا۔پھر جب آپ ساحل پر آۓ تو ایک بچہ کو مار ڈالا۔ اب تو حضرت مو سیٰ حیران ہوۓ ۔۔ لب رک نہ سکے کہ سوال ہونٹ پر در آی۔۔ پوچھا یہ کیا کیا۔ حضرت خضر ؑ نے کہا میں نے منع کیا تھا سوال نہ کرنا۔ مجھے اجازت دیں ۔ اب آپ کی اور میری راہ علیحدہ ۔۔۔ مگر حضرت موسیٰ ؑ نے منت سما جت کی ۔ مجھے آخری موقع دیں ۔اب کہ سوال کیا تو مجھ سے آپ علیحدہ ہوجائیں بے شک ۔۔

حضرت خضر ؑ مان گئے۔ جہاں پر یہ دونوں ہستیاں تھیں وہ ایک گاؤں تھا وہاں ایک گھر میں رہائش پذیر تھے ۔ خضر ؑ نے اس گھر کی دیوار کو مسمار کر دیا ۔ حضرت موسیؑ پھر سوال کرنے پر مجبور ہو گئے ۔ پوچھا یہ کیا آپ نے ۔۔ مکان کی دیوار کیوں ڈھا دی۔

اب کی بار حضرت خضر ؑ نے کہا کہ اب میرا تمہارا سفر ختم۔ میں نے تم سے کہا تھا کہ سوال نہ کرنا ۔ جاتے جاتے وہ سوالات کا جواب دے گئے ۔ کہا جس کشتی کو خراب کیا تھا وہ بہت حسیں اور اکمل تھی ۔ ساحل کے پار ایک بادشاہ ہے اسے جو اچھی کشتی لگتی ہے وہ اس پر قابض پو جاتا ہے ۔ اس کشتی میں نقص کی وجہ سے وہ اسے اپنی ملکیت نہیں بناۓ گا ۔ اور غریب کا بھلا ہو جاۓ گا۔ جس بچے کو میں نے قتل کیا اس نے
بڑا ہو کر ماں باپ کے لئے ملامت و تذلیل کا باعث بننا تھا ۔ اسکے بدلے اللہ تعالیٰ ان کو نیک اولاد عطا کرے گا۔ جس مکان کی دیوار کو میں نے ڈھایا تھا ۔اسکے نیچے خزانہ دفن ہے جو یتیم بچوں کا ہے اور اب وہ بچے بالغ ہو گئے ۔ وہ سونا دیوار کے نیچے دفن رہا ۔ کیوںکہ حریص رشتہ دار ان کا سونا غضب کر لیتے تھے ۔ دیوار کے ڈھانے سے انکو انکا حق مل گیا۔

حضرت موسی ؑ جو نبی دلال ہیں ، لاڈلے نبی تسلیم کیا کہ خضرؑ کا علم ان سے زیادہ ہے ۔ اور رخصت ہوۓ ۔ اس سارے واقعے میں ''سوال '' حکمت ہے ۔ ہم سوال کہیں یا شکوہ کہ لیں ۔۔ مالک سے سوال کرتے اللہ میں کیوں سول سروس میں کامیاب نہیں ہوا۔ اسکا مطلب یہ نہیں کہ اس تم میں کمی ہے بس اللہ کی مرضی اور ہے اور اس پوشیدہ بھلا ہے جو وہ ہی جانتا ہے اسکے سوا کوئی نہیں ۔ اللہ تعالی بندہ کو ڈھیل دیتا ہے کسی حد تک کہ وہ شکوہ یا سوال کرے ۔ جب وہ حدود پار کردے تو اسکے ساتھ چل نہیں سکتا ۔ ہم کیتے ہیں اللہ اس کا بیٹا لائق ہے میرا نالائق یا کہ میرے ہم نوا مجھ سے اچھا پیش کیوں نہیں آتے میں بھلا چاہتا ہوں ۔ نو سال کا بچہ عالمی ریکارڈ بناتا ہے ۔ مگر 20 -22 سال میں وہ ریکارڈ نہیں با سکے ۔ایسا کیوں ۔ عاشق بناتا ہے اللہ خاص خاص کو ،،، اور معشوق تو اس سے بھی زیادہ چنیدہ ہوتے ہیں ۔ ہم فٹ سے کہتے پیں اللہ میں معشوق کیوں نہیں ۔َ کیوں بڑا خطرناک ہوتا ہے ۔ سوال پہ سوال وہ خاموش ، وہ ساتھ نہیں چھوڑتا چاہے ہمارا یار شیطان ہی کیوں نہ ہو۔۔




کبھی کسی نے اللہ سے کہا اللہ مجھے نبی اکرم ﷺ کا امتی بنایا کسی اور نبی کا بنا دیتے ۔ کوئی نہٰن کہے گا ۔ ہم کو اللہ خاص بناتا ہے امتی بنا کر اور آدم کی خصلت ہے کہ وہ خود کو عام نہیں ہونے دیتا ۔خوب سے خوب تر کا جنون ہوتا ہے ۔ ہم بازار جاتے ہیں لینا اک سوٹ یا شرٹ ہوتی ہے یا پرفیوم ۔۔ پورا شہر یا ملک اور کوئی تو باہر کے ممالک بھی چھان مارتے ہیں پھر جا کر انہیں کچھ پسند آتا ہے ۔ اللہ نے ہمیں پسند کیا ہے ہیارے محمد ﷺ مجتبیٰ مرتضیٰ کا امتی ہونا ۔ اللہ نے چھانٹی کی ہے ہماری ۔ساری امتوں میں سے چنا ہے ۔ خاص خاص بندوں کو نبیﷺ کی امت میں ڈالتا گیا۔ پم چنے ہوۓ ، گنے ہوۓ لوگ ہیں ۔ اللہ کی پسند ہیں ۔ جتنا شکر کرین تو کم ہیں ۔

اگر شکایت کرنے پر آئیں تو ہم نمرود و فرعوں اور شداد کی مثال لیتے ہیں ۔ شداد نے آسمان اور زمیں کے درمیاں معلق جنت بنائی ۔ جو دنیا کے عجوبوں میں سے تھی ۔ اور جنت اپنی نذیر آپ تھی ۔ مگر شداد اس جنت میں پاؤں نہ رکھ سکا کہ اجل نے آتھاما۔ سارا زمانے کا سب سے کامیاب شخص خود اپنی کامیابی نہ دیکھ سکا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے پوچھا موت کے اجل سے کہ تمہیں جاں قبض کرتے ہوۓ کبھی رحم آیا ۔ موت کے اجل نے جواب دیا ہاں ایک دفعہ جب طوفان نے لشتی کو گھیرا ہو تھا ۔ آپ کا حکم تھا سب کی جان لے لو مگر ایک بچہ جو ماں کی گود میں تھا اسکی رہنے دو مجھے تب ماں کی جان قبض کرتے ہوۓ دکھ ہوا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا کہ تم جانتے ہو میں نے اسکے ساتھ کیا معاملہ کیا

موت کے اجل نے کہا کہ نہیں میں نہیں جانتا ۔ فرمایا میں نے سمندر کی موجوں کو کہا اسکو ماں کی مامتا دو لوری دو ، ہوا کو کہا اسکا جھولا بن جاؤ ، سورج کو کہا اسکو روشنی دو ، درختوں کو کہا اسکو سایہ دو ، پھلوں کا کہا اسکو توانا کرو ۔۔۔۔ تم جانتے ہو وہ کون تھا۔۔۔ وہ نمرود تھا جس نے بڑے ہو کر خدائی کا دعوا کیا تھا ۔

مجھے رہ رہ کر قرانِ پاک کی نشانی /آیت یاد آرہی ہے جسکو سورہ رحمان میں بار بار دیرایا گیا ہے ۔ /فبا ای۔۔۔۔۔ اور تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ۔ سوال کرنا بھی اسکی نعمت کو جھٹلانا ہے ۔ ہم بہت خاص ہیں اللہ کے۔۔ وہ اپنے لاڈلے بندوں کو ڈھیل دیتا ہے ۔ہم پھر بھی شریک کرتے ہیں اسکو ۔ وہ ہمیں سب کچھ دیتا ہے مگر ایک مطالبہ کرتا ہے کہ مومن ہو جا ، محبت کا مومن بن جا ، محبت سیکھ ۔۔۔ بس تو محبت کرنا سیکھ اسکے بعد وہ جو آسمانوں ہر مقیم کبھی تری دعا رد نہیں کرے گا۔عاشق ایک تو حکمتوں کو جانتا ہے نہ بھی جانے تو ہوتا تو وہ دیوانہ ہے ۔ اسکا ہوش رہتا ہے اسے بس ۔ ذات باری تعالیٰ کے بعد وہ سب بھول جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ جو ''میں'' ہوتی ہے / انا کہ لوں خاک تلے روند دیتا ہے


از نور ؔ


[/size][/font][/QUOTE]

Avoid moulding the Qur'anic ayaat. Do read the story of Musa (A.S.) and Khizar (A.S.) again in Sura Kahf.


09:14 AM (GMT +5)

vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.