CSS Forums

CSS Forums (http://www.cssforum.com.pk/)
-   PCS / PMS (http://www.cssforum.com.pk/punjab-public-service-commission/pcs-pms/)
-   -   Urdu Essay For PMS (http://www.cssforum.com.pk/punjab-public-service-commission/pcs-pms/62719-urdu-essay-pms.html)

Amna Friday, April 27, 2012 04:30 PM

Urdu Essay For PMS
 
Assalam o Alaikum ,

Here is a thread to share the some material regarding Urdu essay , will be helpful preparing Urdu essay ,InshaAllah.

Most of the Compitative exam aspirant focus on English , and somehow ignore importance of Urdu essay and suppose it a easy one. It is also an important subject in compitative exams and requires special skills in writing .

In PMS Urdu Essay comprises of 40 marks and of Tehsildar, it is of 50 marks.

[B]Tips for Urdu Essay writing
[/B]


1.Read all given topic carefully and I suggest spend atleast (5-10 )min to selecting the topic.(while reading a topic actually we are recalling what we know about this topic or judging your knowledge, if we done it correctly ,the remaining task become easy and smooth )

2.Select the topic about which you are sure that you have sufficient knowledge about it.

3. Make outline of all points, facts comes in your mind and after that rearrange these.

4. Essay should consists on three parts ( Introduction , explanation and conclusion)

5. Opening paragraph (Introduction ) should be flawless, eye-catching and should clearly depict the main theme and ones approach toward the selected topic.

6.In explanation (Body of essay ) write its importance ,facts, figures, scenarios(national , international , local ), causes , remedies,

7.Try to put facts in sequence and keep your self on track .

8. Try to avoid repetition .

9. Decorate the essay with relevant quotations, couplets, Ahadiths, where required (Try to avoid over -decoration :-)).

8.In the last paragraph summarize all your effort and try to enclose it with the positivism

Wish You all the best.





[CENTER][B][SIZE="6"]

مستقبل کے نازک مرحلے
الطاف حسن قریشی
[/SIZE][/B][/CENTER]

[SIZE="5"]ہم پر مشکل وقت آن پڑا ہے جسے حوصلے، دانش مندی اور ایثار سے عظیم امکانات میں تبدیل کیا جاسکتا ہے،بالکل اسی طرح جیسے اندھیری رات میں چمکنے والے اَن گنت ستارے اپنے خون سے سحر پیدا کرتے ہیں زندہ قومیں آفات اور مسائل سے گھبرانے کے بجائے اُن کے اسباب کے سائنٹیفک تجزیے اور اُن کے حل پر اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت برصغیر کے مسلمانوں کو آگ و خون کے دریا عبور کرنا پڑے تھے اور تبھی سے اس کے وجود کو طرح طرح کے خطرات لاحق ہیں۔ اس کا نظریاتی تشخص , اس کا اسٹریٹجک محلِ وقوع، اس کی ایٹمی صلاحیت، اس کی عظیم فوجی طاقت اور اس کی بیش بہا افرادی قوت اسے عالمی برادری میں ایک ممتاز مقام عطا کرتی ہیں جبکہ یہی اثاثے ہمارے لیے ایک چیلنج کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ نیا ملک جن علاقوں پر مشتمل تھا، وہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی اعتبار سے بے حد پس ماندہ اور جاگیر دارانہ نظام کے قبضے میں تھا جس نے جمہوری مزاج، جمہوری روایات اور جمہوری اداروں کو پنپنے اور مضبوط ہونے نہیں دیا بدقسمتی یہ کہ خاندانی موروثیت نے سیاسی جماعتوں پر بھی غلبہ حاصل کر لیا۔ وہ سیاسی قیادت جس نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، وہ ابتدائی چند برسوں ہی میں دنیا سے رخصت یا وڈیروں اور سرداروں کی ریشہ دوانیوں کے سامنے بے بس ہو گئی۔ اس قومی حادثے اور بھارت کے معاندانہ رویے کے باوجود ہمارا ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چلتا رہا جبکہ ہماری قوم دیانت دار قیادت سے محروم رہنے کے باعث بہت پیچھے رہ گئ ۔


آج ہمیں جن بڑے بحرانوں کا سامنا ہے اُن کا بڑا سبب عوام کی بدحالی بے چارگی اور تعلیم کی کمی جبکہ خواص کی بے حسی خود غرضی اور حد سے بڑھی ہوئی مفاد پرستی اور اخلاقی پستی ہے۔اَن گنت سیاسی اور نفسیاتی بیماریوں کے سبب ملکی معاملات پر سیاست دانوں کی گرفت کمزور ہونے سے فوج کو بار بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ فوجی سوچ سیاسی سوچ سے یکسر مختلف ہے کیونکہ سیاسی عمل مشاورت کو فروغ اور فوجی اقتدار آمریت اور مرکزیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ہماری ۶۵ سالہ تاریخ میں فوج کو براہِ راست تیس برس سے زائد حکومت کرنے کا موقع ملا ہے جبکہ پس پردہ فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کی مدت اور بھی طویل ہے جس میں زیادہ تر سنگین اور تاریخ شکن بحران آتے رہے۔ فوجی آمریت نے ہمارے معاشرے کا سیاسی اخلاقی اور سماجی تارپود بکھیر ڈالا طاقت کے استعمال کا چلن عام کیا اور اس چلن کا اس قدر غلبہ ہوا کہ ہماری سول بیوروکریسی اور ہماری سیاسی قیادتیں بھی آمرانہ طور و طریق سے فیصلے کرنے لگیں ۔ یہی ذہنیت آج بھی کارفرما ہے
جو مسائل کے الاؤ کو ہوا دے رہی ہے۔

آج بلوچستان ایک انتہائی گمبھیر مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کا دوسرا بڑا بحران پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی سے پیدا ہوا ہے جو خطرناک علاقائی اور عالمی مضمرات کا حامل ہے۔ سول اور فوج کے مابین تنے ہوئے روابط بھی داخلی اور خارجی چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ میمو ایشو بھی اسی چپقلش کا شاخسانہ ہے جس نے قومی سلامتی کے مسائل جنم دیے ہیں۔ لاپتا افراد کی تعداد میں روزافزوں اضافے سے جہاں پورے ملک میں ایک ہاہاکار مچی ہوئی ہے- وہاں بلوچستان کا زخم گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ ایگزیکٹو اور عدلیہ کے مابین بھی رسا کشی جاری ہے جس نے جناب وزیر اعظم کے مستقبل پر بڑے بڑے سوالات اُٹھا دیے ہیں۔مزیدبراں شدت پسندی اور دہشت گردی نے پاکستان کا چہرہ مسخ کر ڈالا ہے اور عالمی برادری میں اسے ملامتوں اور نفرتوں کا سامنا ہے۔ ملکی وسائل کا ایک بڑا حصہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اُٹھ رہا ہے اور امریکا نے سپورٹ فنڈ اور کیری لوگر بل کے تحت دی جانے والی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ کرپشن اور بدانتظامی نے گزشتہ چار برسوں میں آٹھ ہزار ارب سے زائد روپے چاٹ لیے ہیں جبکہ احتساب کے فقدان سے حکومت کی مشینری زنگ آلود ہو چکی ہے اور ڈلیوری سسٹم بدترین نااہلی اور بدانتظامی کا شکار ہے۔ توانائی کے بحران سے لوگ بیروزگار ہوتے جا رہے ہیں اور غربت عام آدمی سے جینے کا حق چھین لینے پر تُلی ہوئی ہے۔ عوام اپنے حکمرانوں سے شدید بیزار ہیں اور ایک مخلص اور دیانت دار قیادت کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔



مسائل اور مشکلات سے خوفزدہ ہمارے بعض دانش ور پاکستان کے بارے میںنااُمیدی پھیلانے والی کتابیں شائع کرتے رہتے ہیں۔ ان میں جناب روئیداد خان کی تصنیف ’’وہ خواب جو بے کیف ہو گیا‘‘ جناب طارق علی کی ’’ایک ریاست کی موت‘‘ جناب احمد رشید کی ’’انتشار کی طرف نزول‘‘ اور جناب شیر باز خاں مزاری کی ’’پاکستان: حقیقت بینی کی طرف سفر‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے برعکس ان دنوں کچھ ایسی کتابیں منظرِ عام پر آ ئی ہیں جو مسائل میں گھِرے ہوئے پاکستان کی جوہری قوت اور اس کی عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میں محترمہ فرزانہ شیخ کی تازہ تصنیف ’’پاکستان کی معنویت‘‘ اور اناطول لیون کی فکر انگیز کتاب ’’ایک سخت جان ملک‘‘ حقائق اور مسائل کا سامنا کرنے کا حوصلہ عطا کرتی اور قارئین کے اندر ٹھوس شہادتوں کے ساتھ یہ شعور اُبھارتی ہیں کہ پاکستان میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی معجزانہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔اناطول نے پاکستانی معاشرے کی سخت جانی کا راز اس کے مضبوط اور مستحکم خاندانی نظام کی یک جہتی میں دریافت کیا ہے جو ریاست کو ناکام ہونے سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔


بیشتر سیاسی زعما یہ کہنے میں قدرے حق بجانب ہیں کہ بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہی غلطیاں دہراتے چلے آ رہے ہیں جن کے باعث ہمارا ملک ۱۹۷۱ء میں دولخت ہوا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کی اصل وجہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں اعتماد کا فقدان تھا جو دشمنی کی حدوں کو چھونے لگا تھا۔ اس بے اعتمادی کا بیج مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان بیوروکریٹس نے بویا تھا جو مشرقی بنگال کو اپنی کالونی سمجھتے اور اس صوبے کے شہریوں سے غلاموں جیسا سلوک روا رکھتے تھے۔ دوسرا بڑا مسئلہ آئینی حقوق اور منصفانہ سیاسی نمائندگی کا حصول تھا۔ مشرقی بنگال کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی جو اُسے قومی اسمبلی میں اکثریت کا حق دیتی تھی۔ وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے غیر معمولی سیاسی بصیرت اور بامعنی گفت و شنید سے ایک ایسا آئینی فارمولا وضع کر لیا تھا جس کے مطابق ایوانِ زیریں میں مغربی بنگال اور ایوانِ بالا میں مغربی پاکستان کی اکثریت تھی اور اہم قومی امور کا فیصلہ دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں کیا جانا تھا۔ یہ آئین تیسری خواندگی کے بعد ۲ ۵ دسمبر ۱۹۵۴ء کو نافذ ہونا تھا مگر یہ ساری محنت ایک بہت بڑی سازش کی نذر ہو گئی۔-جنرل ایوب خاں پہلی دستور ساز اسمبلی میں دستور پر بحث کے وقت لندن کے ایک آرام دہ ہوٹل میں اپنے طور پر پاکستان کے دستور کے خدوخال مرتب کر رہے تھے۔ اس میں ون یونٹ کا قیام اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری (پیریٹی) کا اصول تجویز کیا گیا تھا۔ فوجی قیادت کی طرف سے اشارہ پا کر فالج زدہ گورنر جنرل غلام محمد ملک نے ۲ ۴اکتوبر کی شام دستور ساز اسمبلی توڑ ڈالی جو ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ثابت ہوا۔ مختلف مراحل طے کرنے کے بعد اسی بنیادپر دوسری دستور ساز اسمبلی نے نیا دستورمنظور کیا جو ایوب خاں کی آئینی اسکیم کے اندر فراہم کی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے قوم کے وسیع تر مفاد میں۸ سال کے شدید انتظار کے بعد دستور کے نفاذ پر بہت خوشی کا اظہار کیا مگر اُنہیں اپنی اکثریت چھن جانے کا ہمیشہ بہت قلق رہا تھا۔ دو سال بعد جب جنرل ایوب خاں کی حمایت سے صدر اسکندر مرزا نے ۱۹۵۶ء کا دستور ہی ختم کر ڈالا، تو وہ بنیاد بھی منہدم ہو گئی جس پر ایک ساتھ رہنے کا عمرانی معاہدہ وجود میں آیا تھا۔ اس حادثے کے بعد مشرقی پاکستان میں آئینی اور سیاسی حقوق کی پامالی کا احساس مختلف شکلیں اختیار کرتا اور علحٰدگی کے رجحانات تقویت پاتے رہے، دونوں بازوؤں کے درمیان جدائی کا فیصلہ کن مرحلہ اس وقت آیا جب ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج سے قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کو اکثریت حاصل ہو گئی تو یحییٰ خاں نے اس کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا اور اس اقدام کے خلاف عوام اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بغاوت فرو کرنے کے لیے طویل عرصے تک فوجی آپریشن جاری رہا جس میں فوج کو شکست ہوئی اور پاکستان دولخت ہو گیا۔


جنرل ایوب خاں کے دستوری نقشے پر عمل پیرا ہونے سے مغربی پاکستان میں بھی سنگین مسائل پیدا ہوئے۔ ون یونٹ کے قیام سے فائدے کم اور نقصانات بے حساب ہوئے۔ وسیع و عریض مغربی پاکستان کو ایک انتظامی یونٹ میں تبدیل کرنے اور لاہور کو اس کا صدر مقام بنا دینے سے عوام کی گونا گوں مشکلات اور پنجاب کے خلاف نفرتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پنجاب، جس کا مغربی پاکستان اسمبلی میں حصہ آبادی کے لحاظ سے باون فی صد بنتا تھا نے ایثار کا ثبوت دیتے ہوئے ۴۰ فیصد پر قناعت کی لیکن وہ چونکہ اختیارات کے منبع کی حیثیت اختیار کر گیا تھا اس لیے خیبر سے لے کر مکران کے ساحل تک اس کے خلاف شدید بے زاری اور عداوت کے جذبات پیدا ہوئے۔ صوبوں کو اپنی شناخت اور اپنے اختیارات کے چھن جانے کا بہت غم تھا - چنانچہ اُن کے اندر مزاحمتی تحریکیں زور پکڑتی گئیں۔ بلوچستان میں بار بار بغاوتیں ہوئیں اور فیلڈ مارشل صدر ایوب کی حکومت نے بغاوت کے بنیادی کردار نوروز خاں کے ساتھ قرآن حکیم پر حلف اُٹھانے کے باوجود اُس کے ساتھی سولی پر لٹکا دیے ۔ ون یونٹ کے زمانے ہی میں سندھ کے نوجوان اپنی تہذیبی شناخت اور سیاسی حقوق کی جنگ میں شامل ہوئے اور پنجاب کی بالادستی کے خلاف شعلے اُگلنے لگے۔ صوبہ سرحد میں پختون عصبیت میں غیر معمولی شدت آئی اور مرکز گریز رحجانات روز بروز طاقت ور ہوتے گئے۔ ۱۹۶۸ء میں جب ایوب خانی حکومت کے خلاف ایک بلا خیز طوفان اُٹھا تو اُس میں انہی عصبیتوں اور نفرتوں کے تمام عناصر کارفرما تھے۔ جنرل یحییٰ خاں جب ۱۹۶۲ء کا دستور روند کر برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے ون یونٹ توڑنے اور پیریٹی کا اصول ختم کرنےکا اعلان کیا جس پر پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی مگر پنجاب جسے ایک سامراج کے طور پر ۱۵؍ سال تک پیش کیا جاتا رہا تھا اس کے مضر اثرات آج بھی ہماری سیاسی نفسیات میں غالب ہیں اور بلوچستان کے بحران کو گہرا کرنے میں ایک بہت بڑا منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔


بادی النظر میں بلوچستان اور مشرقی پاکستان کے حالات میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے جو انتہائی سنجیدہ غور و فکر اور مؤثر اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ مشرقی پاکستان آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا جبکہ بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے یہی اعزاز حاصل ہے۔ مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان کے ساتھ بھی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھوں بڑی زیادتیاں اور ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں جن کے خلاف اب جذبات کا ایک آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ دونوں صوبوں کے حالات کے درمیان یہ مشابہت بھی پائی جاتی ہے کہ مشرقی پاکستان کی اسمبلی کی طرح بلوچستان کی اسمبلی بھی بے اختیار اور بڑی حد تک غیر مؤثر ہے۔اقتصادی لحاظ سے مشرقی پاکستان بھی پس ماندہ تھا اور بلوچستان بھی درماندگی کی تصویر بنا ہوا ہے حالانکہ وہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔وہاں مسائل کا فوجی حل تلاش کرنے کی ضد میں حالات قابو سے باہر ہو ئے تھے اور یہاں بھی طاقت کے بے جا اور ظالمانہ استعمال سے معاملات بگڑتے جا رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں ایک بیرونی طاقت نے مکتی با ہنی کو جنم دیا تھا جبکہ بلوچستان میں بھی بیرونی طاقتیں بلوچ گوریلوں کی پشت پر ہو سکتی ہیں۔ان چند مماثلتوں کے باوجود ۱۹۷۱ء اور آج کی صورتِ حال میں کئی اعتبار سے بہت زیادہ اختلاف پایا جاتاہے۔ سب سے بڑا فرق جغرافیائی وحدت اور علاقائی تسلسل کا ہے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مابین ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور ان کے درمیان بھارت واقع تھا۔ اس جغرافیائی دوری کی وجہ سے عوام کے مابین مضبوط رابطے قائم نہ ہو سکے۔ زبان کا اختلاف بھی راستے میں حائل رہا۔ دو اطراف سے بھارت میں گھِرے ہوئے مشرقی پاکستان کے لیے خود کفیل دفاعی انتظامات بھی بڑے دشوار تھے۔ اس کے برعکس بلوچستان پاکستان کے ساتھ جغرافیائی وحدت میں جکڑا ہوا ہے جدید ذرائعِ مواصلات نے فاصلے کم کر دیے ہیں اور لوگ آپس میں کاروبار بھی کر رہے ہیں اور وسیع تر سیاسی عمل میں بھی شریک ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے قومی یک جہتی کو بہت فروغ دیا ہے اور خدمتِ خلق کے متعدد ادارے باہمی رشتوں میں استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ بلوچستان میں بلوچوں کے علاوہ پشتون اور آباد کار بھی رہتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہونے کی بدولت خوشحال بھی ہیں اور اپنے صوبے کی معیشت میں زبردست کردار ادا کر رہے ہیں۔



ایک سروے کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی بہتر لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جس میں ۳۰ لاکھ بلوچ ۲۷ لاکھ پختون اور ۱۵ لاکھ آباد کار اور سندھی قبائل ہیں جن کا بڑا حصہ اپنا مستقبل پاکستان کے بندوبست محفوظ سمجھتا ہے اور اپنے حقوق سیاسی جدوجہد کے ذریعے حاصل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ زیادہ تر بے چینی ۳۰ اضلاع میں سے فقط چار پانچ اضلاع کوئٹہ سبّی ڈیرہ بگتی خضدار اور تربت کی چند تحصیلوں میں پائی جاتی ہے۔ ان پر بھر پور توجہ مرکوز کر دینے اور جائز مطالبات کسی حیل و حجت کے بغیر تسلیم کرنے سے مذاکرات کی راہ نکل سکتی ہے اور ناراض اور برگشتہ بھائیوں کو دلیل سے قائل کیا جا سکتا ہے۔ مشرقی پاکستان اور بلوچستان کی صورتِ حال میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان میں آئینی اور سیاسی حقوق کی جنگ لڑنے والوں کو شروع ہی سے عوام کی تائید حاصل تھی۔ وہاں ۱۹۵۴ء میں پہلے انتخابات ہوئے جن میں حکمران مسلم لیگ عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئی اور اُسے صرف۹ نشستیں مل سکیں۔ اس کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں عوامی لیگ کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے برعکس بلوچستان میں ۱۹۸۵ء سے لے کر اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں اِن میں نام نہاد قوم پرست جماعتوں کو
۵؍ فیصد نشستیں بھی نہیںملیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت مسلح جدوجہد اور علحٰدگی پسند رجحانات کے حق میں نہیں۔ آج زمینی حقائق یہ ہیں کہ شورش پسندوں کے سرغنہ اپنے علاقوں میں نہیں جاتے کہ انہوں نے اپنے لوگوں پر جبرواستبداد کی انتہا کر دی تھی۔


قیامِ پاکستان سے پہلے بلوچستان دو حصوں پر مشتمل تھا۔ ایک حصہ برٹش بلوچستان کہلاتا تھا جو برطانوی حکومت کے زیرِ نگیں تھا۔ اس میں پشتون کاکڑ قبیلے کے علاوہ مری اور بگتی قبائل کے علاقے بھی شامل تھے جن کے سیاسی امور کوئٹہ میونسپل کمیٹی اور پشتون اور بلوچ سرداروں کی نمائندہ تنظیم ’’شاہی جرگے‘‘ کی مشاورت سے چلائے جاتے تھے۔ دوسرا حصہ ۴ ریاستوں کی کنفیڈریشن پر مبنی تھا جس میں قلات لسبیلہ خاران اور مکران شامل تھے۔ تشکیلِ پاکستان کے وقت برٹش بلوچستان میں ۲۹ جون ۱۹۴۷ء کو ہونے والے ریفرنڈم میں کامل اتفاقِ رائے سے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے میں نواب اکبر بگتی کے چچا نے بھی حصہ لیا تھا۔ پاکستان بن جانے کے بعد ان ریاستوں کا معاملہ سامنے آیا جن کے برطانوی حکومت کے ساتھ نیم داخلی خود مختاری کے معاہدے تھے۔ خان آف قلات کے قائد اعظم سے اچھے مراسم تھے جسے انہوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ اُس نے سبّی دربار کے موقع پر فروری ۱۹۴۸ء میں پاکستان سے الحاق کے اعلان کا وعدہ کیا ٗ مگر وہ بیماری کا عذر کر کے غائب ہو گیا۔ لسبیلہ خاران اور مکران کے نوابین جو کنفیڈریشن میں شامل تھے ٗ وہ ریاست قلات کے وزیرِاعظم شمس الدین کی بدانتظامیوں اور دست درازیوں بے حد متنفر تھے اور اُن کے خلاف ’’شمس گردی‘‘ کے نام سے کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ یہ تینوں نواب بہت پہلے پاکستان سے الحاق کرنا چاہتے اور قائداعظم سے ملاقات کے خواہش مند تھے۔ قائداعظم کی یہ خواہش تھی کہ الحاق کا اعلان خان آف قلات کے ساتھ کیا جائے، لیکن جب خان آف قلات نے وعدہ خلافی کی، تو قائداعظم نے تینوں ریاستوں کے نوابین کو کراچی میں ملاقات کا وقت دیا جس میں اُنہوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا۔

بلوچستان کی ساحلی پٹی کے پاکستان سے الحاق کے بعد خان آف قلات کے لیے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ چنانچہ اُس نے ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ء کو پاکستان سے الحاق کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ قلات ۱۸۷۶ء کے معاہدے کے تحت برطانوی زیرِ حفاظت ایک باجگزارریاست تھی اور ویسی ریاستوں کے بارے میں ۱۸؍ جولائی ۱۹۴۷ء کو برطانوی سیکرٹری فار اسٹیٹ نے پالیسی بیان دیا کہ انہیں آزاد ممالک کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا اور وہ اپنی جغرافیائی اور مذہبی وابستگی کے حوالے سے پاکستان یا بھارت سے الحاق کرسکتی ہیں۔ اس قطعی اعلان کے بعد خان آف قلات کے لیے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنا اب ممکن نہیں رہا تھا اور پاکستان سے الحاق اس لیے ناگزیر ہوگیا تھا کہ ریاست کی ۹۸؍فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ الحاق کے دوسرے روز پرنس عبدالکریم ناراض ہو کر افغانستان چلا آیا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی رکنیت پر اعتراض کیا تھا۔ دراصل یہ بھائیوں کی تخت نشینی کا قضیہ تھا۔ پرنس عبدالکریم افغانستان سے ایک چھوٹے سے لشکر کے ساتھ واپس آیا اور شورش بپا کرنے کی اپنی سی کوشش کی جسے ایک مختصر سے فوجی آپریشن سے ناکام بنا دیا گیا۔ دراصل ریاست قلات کے حکمران پٹھان تھے اور اُن کی قلمرو میں بلوچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اور بڑے بڑے بلوچ قبائل اس ریاست سے باہر آباد تھے جن میں بگتی، مری اور ڈومکی قابلِ ذکر ہیں۔ پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خانِ قلات احمدیار خاں وزیرِاعظم بھٹو کے دور میں بلوچستان کے گورنر بھی رہے جو اس کا بیّن ثبوت تھا کہ ان کا وفاق کے ساتھ کوئی تنازع نہیں تھا اور وہ پاکستان کے ساتھ اپنی ریاست کے الحاق پر پوری طرح مطمئن تھے۔ اُن کے بیٹے سلیمان دائود نے گزشتہ چند سال سے یہ تنازع کھڑا کر دیا کہ پاکستان نے ریاست قلات پر زبردستی قبضہ کیا تھا اور و ہ اس کی آزادی کا اعلان کرنے میں حق بجانب ہیں۔ وفاق نے انہیں ایک معقول راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کی علانیہ اور درپردہ کوشش کی لیکن وہ سرکشی پر اُتر آئے اور ناراض ہو کر ملک سے باہر چلے گئے۔


بلاشبہ بلوچستان کی داستانِ الم بڑی دردناک اور بے حد اضطراب انگیز ہے مگر بحران کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے ہم ۱۹۷۰ء کے بعد کے چند اہم واقعات کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں جب اسے پہلی بار صوبے کا درجہ حاصل ہوا۔ انتخابات ہوئے تو اے این پی برسرِ اقتدار آئی سردار عطاء اﷲ مینگل نے حکومت بنائی اور بلوچ قیادت نے ۱۹۷۳ء کے آئین کی منظوری میں قابلِ قدر حصہ لیا، صرف جناب خیر بخش مری نے آئین پر دستخط نہیں کیے تھے۔شروع شروع میں وزیر اعلیٰ عطاء اﷲ مینگل نے آباد کاروں کے ساتھ معاندانہ طرزِعمل اپنایا مگر اُنہیں جلد احساس ہو گیا کہ ان کارروائیوں سے صوبے کو نقصان پہنچ رہا ہے تو اُنہوں نے آباد کاروں کو بے دخل کرنے کی پالیسی ختم کر دی۔ بدقسمتی سے مسٹر بھٹو جن کی سیاسی تربیت فوجی آمر جنرل ایوب خاں کی آغوش میں ہوئی تھی وہ اختلافِ رائے برداشت نہ کر سکے اور اُنہوں نے سردار عطاء اﷲ مینگل کی وزارت برطرف کر ڈالی اور نواب اکبر خاں بگتی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کر دیا۔ اس اقدام کے ردعمل میں بلوچ مزاحمت کار پہاڑوں پر چلے گئے اور حکومت کو ان کے خلاف بہت بڑا فوجی آپریشن کرنا پڑاجس میں ۲؍ ڈویژن حصہ لے رہے تھے۔ عالمی میڈیا میں اس آپریشن کے بارے میں سنسنی خیز خبروں کا سلسلہ کئی سال جاری رہا۔ انہی دنوں پاکستان میں عراقی سفارت خانے سے اسلحے کی پیٹیاں پکڑی گئیں اور حکومت نے الزام یہ لگایا کہ یہ اسلحہ روس کی طرف سے بلوچ باغیوں کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس پروپیگنڈے کے بعد بلوچ لیڈر شپ کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور اس کا حیدر آباد جیل میں ٹرائل شروع ہو گیا۔ اسی دوران ۱۹۷۴ء میں یہ المیہ بھی پیش آیا کہ عطاء اﷲ مینگل کے صاحبزادے اسدمینگل کراچی میں جناب سردار شیربازخان مزاری کے گھر سے گرفتار کیے گئے اور انہیں دلائی کیمپ میں بے حد تشدد سے موت کی نیند سلا دیاگیا۔ یہ تمام واقعات بلوچستان میں ایک تصادم کی فضا پیدا کر رہے تھے اور زخم گہرا ہوتا جا رہا تھا۔


جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے سارے مقدمات واپس لے لیے اور حیدرآباد ٹربیونل ختم کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان میں امن قائم ہو گیا اور زندگی معمول پر آ گئی۔ جنرل رحیم الدین خاں جو صوبے کے گورنر مقرر ہوئے تو اُنہوں نے ترقیاتی منصوبوں کا ایک جال بچھا دیا اور اُنہی کے زمانے میں پہلی بار کوئٹہ شہر کو گیس فراہم کی گئی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پر بھرپور توجہ دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے ۱۱؍ برسوں میں بلوچستان قومی یک جہتی کے فروغ میں بہت مثالی کردار ادا کرتا رہا جس کے نتیجے میں قوم پرست عناصر قومی دھارے میں آ گئے۔ ایک مرحلے پر نواب اکبر بگتی نے صدارت کے انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا۔ اس کے علاوہ ۱۹۹۰ء میں نواب خیربخش مزاری جو غالباً ۱۹۷۳ء میں کابل چلے گئے تھے اور سوویت یونین کی شکست کے بعد ان کے لیے وہاں قیام عذابِ جاں بن گیا تھا تو آئی ایس آئی نے انہیں طیارہ بھیج کر وطن واپس بلایا اور ان کی خاطرمدارات کا بہت خیال رکھا۔ مگر اُن کے ہوائی اڈے پر اُترتے ہی بی ایس او کے نوجوانوں نے پاکستان کا پرچم جلایا اور نواب نے اس رقم کی فوری ادائی کا مطالبہ کیا جو انہیں ’’معاش‘‘ کے نام پر بھارت سے فراہم کی جاتی تھی۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں سردار اختر مینگل مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے کامیاب ہوئے اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ سیاسی عمل سے پنجاب اور بلوچستان میں اس قدر قربت پیدا ہوئی کہ جب ۱۹۹۷ء میں موٹر وے کا افتتاح ہوا اور وزیر اعظم میاں نواز شریف اُس کے راستے لاہور روانہ ہوئے ٗ تو اُن کی کار سردار اختر مینگل چلا رہے تھے۔ جمہوریت کے فروغ سے فاصلے سمٹتے اور دل قریب آتے گئے ٗ مگر جنرل پرویز مشرف کی فوجی مہم جوئی نے پورا منظر نامہ ہی بدل ڈالا، جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ قومی وحدت پر کاری ضرب لگائی اور پاکستان کا وقار اور خود مختاری امریکا کے ہاتھ فروخت کر ڈالی۔ امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دینے سے پاکستان میدانِ کارزار بن گیا اور خود کش حملوں میں ہزاروں سویلین اور فوجی شہید ہوئے۔ان کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی اور خودسری کا سب سے بڑا نقصان بلوچستان کو پہنچا جس کی تلافی اب شاید آسانی سے نہ کی جاسکے گی۔


جنرل پرویز مشرف ہر مسئلے کا فوجی حل چاہتے تھے۔ اُن کا زعم تھا کہ بندوق کی طاقت سے بلوچستان کے سرداروں کا قلع قمع کر کے عوام کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے اس خبط کا برملا اظہار بھی کرتے۔ غالباً ۲۰۰۴ء کا ذکر ہے کہ کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز نے اُنہیں لاہور میں ظہرانے کی دعوت دی جس میں قومی مسائل زیرِبحث آئے۔ ڈیرہ بگتی میں بدامنی کا ذکر چھڑا تو اُنہوں نے کسی تامل کے بغیر کہا کہ ہم ان سرداروں کو اس طرح ہٹ کریں گے کہ اُنہیں کچھ پتا ہی نہیں چلے گا کہ اُن کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا۔ غالب گمان یہ ہے کہ اُن کی سوچ کے عین مطابق بیاسی سالہ نحیف و نزار بلوچ سردار نواب اکبر بگتی غار کے اندر بم سے اُڑا دیے گئے جہاں وہ اپنے حریف قبیلے کے علاقے میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ جنرل صاحب نے اسی رات اس ’عظیم‘ کارنامے پر فوجی افسروں کو مبارک باد پیش کی۔ ہم نے اس وقت لکھا تھا کہ بلوچ نوجوانوں کو آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے ایک بوڑھے سردار کی لاش میسر آ گئی ہے اور اس بار مزاحمت کا رنگ یکسر جدا ہو گا جو ملکی سا لمیت کے لیے ایک بڑے خطرے کی شکل اختیار کر جائے گا۔ اُنہی کے دور میں مزاحمت کار لاپتا ہونے لگے جن کی تعداد بعض تحقیقاتی اداروں کے مطابق سیکڑوں کی حد سے گزر کر ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ خفیہ ایجنسیوں کے کارندے ’ناپسندیدہ‘ شہریوں کو گھروں دکانوں اور دفتروں سے اُٹھالے جاتے اور انہیں غائب کر دیتے ہیں۔ معروف قانون دان جناب علی احمد کرد لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور انصاف کی بھیک مانگتے رہے مگر ظلم کا بازار گرم ہی رہا۔ صوبے کو سیاسی تباہی سے دوچار کرنے کے لیے پرویز مشرف نے یہ کیا کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں جعل سازی کے ذریعے بلوچستان اسمبلی میں ایسے افراد پہنچا دیے جو عوام کے حقیقی نمائندے نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اسمبلی وجود میں آئی اور جو حکومت قائم ہوئی اُسنے بلوچستان کے معاملات سدھارنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور اُن کی ساری توجہ لوٹ مار اور سالانہ ۲۵ کروڑ کی ترقیاتی گرانٹ پر لگی رہی۔ اس پر امن و امان تباہ و برباد ہوتا رہا قتل و غارت کا مکروہ کھیل جاری رہا ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی اور یوں بلوچستان پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک بن گیا ہے۔



بلوچستان میں خرابی اور تعمیر کے کام ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک طرف قتل اور غارت گری جاری ہے اور دوسری طرف چھاؤنیوں کے بجائے تعلیمی شہر آباد کیے جا رہے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہو نے لگے ہیں۔ قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے مری قبیلے کے علاقے چمالانگ میں سالہا سال سے کوئلے کی کانیں بند پڑی تھیں ٗ فوج کی مصالحانہ کوششوں سے اُن میں دوبارہ کام شروع ہو گیا ہے اور اُن کی آمدنی کے ایک حصے سے بلوچ طالب علم پاکستان بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ۱۶۰ ؍ارب کے وسائل فراہم کیے جا چکے ہیں اور سوئی گیس کی واجب الادا رائلٹی بھی ادا کی جا رہی ہے۔ صوبائی خود مختاری کا دیرینہ بنیادی مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے اور تمام زیرِزمین قدرتی وسائل پر صوبوں کا حق تسلم کرلیا گیا ہے۔ لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ بلوچ نوجوان پھر بھی بپھرے ہوئے ہیں اور عسکریت پسندی کی طرف مائل ہیں۔ اُن کی بنیادی شکایت یہ ہے کہ بلوچستان کے بارے میں فیصلے عوام سے مشورے اور منظوری کے بغیر کیے جا رہے ہیں فوج اور خفیہ ایجنسیاں اُن پر حکمرانی کر رہی ہیں اور اُن کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ ان شکایات کے ازالے میں ہمارے اربابِ اختیار نے مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے اور حالات میں بہتری لانے کے نہایت قیمتی مواقع ضائع کر دیے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا موڑ آیا تھا جب مذاکرات کے لیے فضا قدرے سازگار ہوچلی تھی ٗ مگر جنرل یحییٰ خاں نے مصالحت کا ہاتھ بڑھانے کے بجائے غراہٹ سے کام لیا جس کے بعد ملکی حالات پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچ گئے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کے آپریشن کے دوران قومی اسمبلی میں عوامی لیگ کی بھاری اکثریت بھارت فرار ہوگئی تھی اور جلاوطن حکومت قائم کرلی تھی، لیکن درپردہ مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں عوامی لیگ کی قیادت واپس مشرقی پاکستان میں آ جانے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے آمادہ ہو گئی تھی، لیکن جنرل یحییٰ خان کی جولائی ۱۹۷۱ء کی تقریر نے تمام کوششوں پر پانی ڈال دیاجس کے باعث بھارت کو فوجی مداخلت کا جوازحاصل ہو گیا تھا۔


پرویز مشرف نے بھی بلوچستان کی تاریخ کے ایک انتہائی نازک موڑ پر اُسی قسم کی خر دماغی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ۲۰۰۳ء کی بات ہے جب نواب اکبر بگتی اور وفاقی حکومت کے مابین تعلقات بڑے کشیدہ ہوگئے تھے ۔ چودھری شجاعت حسین چند ماہ کے لیے وزیر اعظم بنے تو اُنہوں نے بلوچستان پر پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا جس کا مینڈیٹ حالات کے سدھار کے لیے آئینی اور سیاسی سفارشات پیش کرنا تھا۔جناب وسیم سجاد اور جناب مشاہدحسین سید نے بڑی دماغ سوزی اور اپنی دقتِ نظر سے تجاویز مرتب کیں اور عمل درآمد کے لیے جنرل پرویز مشرف کو ارسال کر دیں۔ اسی دوران ڈیرہ بگتی میں امن و امان کی صورتِ حال بہت خراب ہو گئی۔ اس کڑے وقت میں چودھری شجاعت اور مشاہد حسین سید نواب اکبر بگتی سے ملنے گئے اور طویل گفت و شنید کے بعد معاملات طے پاگئے ٗاکبر بگتی اسلام آباد آنے کے لیے رضامند ہوگئے اور وہ کوئٹہ ہوائے اڈے پر کئی گھنٹے خصوصی طیارے کا انتظار کرتے رہے۔ طیارہ نہ آنے کی وجہ سے معاملات بہت بگڑ گئے اور جنرل مشرف نے طاقت استعمال کرنے کافیصلہ کرلیا اور نواب اکبر بگتی شہید کر دیے گئے۔ اس حادثے کے ردِ عمل میں بلوچ نوجوانوں نے علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ اس کے بعد ہی براہمداغ بگتی، ہربیارمری اور خان آف قلات نے سرکشی اختیار کی اور اُن کے حمایتیوں نے ایسی فضا پیدا کر دی جس میں پاکستان کا پرچم لہرانا اور پاکستان کا قومی ترانہ بجانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہوتا چلا گیا۔ مجھے وہ منظر آج بھی یادہے کہ میں ۱۴؍اگست ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں تھا اور یومِ پاکستان کے موقع پر پاکستان کا پرچم پورے شہر میں صرف دو چار مقامات پرلہراتا ہوا نظر آیا تھا۔


حالات کو آخری سطح تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ہمارے حکمرانوں کو غیر معمولی سنجیدگی اور دوربینی کا ثبوت دینا اور وقت کی نزاکت کا پورا احساس رکھنا ہو گا۔ مارچ ۲۰۰۸ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور ستمبر میں جناب آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے جنھوں نے بلوچ سردار ہونے کے حوالے سے ماضی کی غلطیوں پر بلوچستان کے عوام سے معافی مانگی تھی اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان ہوا تھا، مگر مسائل کی تہ تک پہنچنے اور بلوچ قیادت سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ان دونوں اعلیٰ شخصیتوں نے بلوچستان میں چند روزہ قیام بھی پسند نہیں کیا۔ پھر ایک شام بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر ’’آغازِ حقوق بلوچستان پیکج‘‘ کا اعلان کر دیا گیا جس کے ۲۹ نکات میں سے بیشتر روشن مستقبل کی نوید دیتے تھے مگر بلوچستان میں اُسے اپنانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر گروپ آمادہ نہیں تھا۔ سب سے بڑی خرابی اس کے نام کے اندر مضمر تھی۔ آغازِ حقوق بلوچستان کے نام سے یہی تاثرقائم ہوا کہ اس بدنصیب صوبے کو حقوق دینے کا پہلی بار آغاز ہوا اور اس سے پہلے وہ بے گوش اور بے اختیار علاقہ تھا۔ حکومت اگر اس پیکج پر عمل درآمد میں واقعی سنجیدہ ہوتی تو بلوچستان میں اس کام کے لیے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کرتی جو اسٹیک ہولڈرز کے تعاون سے ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرتا اور سیاسی مشاورت کو فروغ دیتا۔محض شعبدہ بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان کے عوام شدید احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ وفاق کی طرف سے جو بھی وسائل فراہم کیے گئے وہ ارکانِ اسمبلی، بیوروکریسی اور بڑے چھوٹے سرداروں کی جیبوں میں چلے گئے۔


بلوچستان کے مسئلے کی سنگینی سب سے پہلے جناب نواز شریف نے محسوس کی۔ وہ کراچی میں سردار عطاء اﷲ مینگل سے ملے اور اُن سے بگڑے ہوئے حالات میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی استدعا کی۔ سردار صاحب نے اعتراف کیا کہ ان کے ہاتھ سے معاملات نکل چکے ہیں اور اب مذاکرات پہاڑوں کا رُخ کرنے والے ناراض نوجوانوں سے کرنا ہوں گے۔ اسی کے بعد میاں صاحب کوئٹہ میں چند اور بلوچ زعما سے ملے اور پاکستان سے محبت کرنے والے عناصر سے تاریخ کے نازک موڑ پر استقامت سے کام لینے کی دعوت دی۔ وہ بلوچستان پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا عندیہ بھی دے چکے تھے ٗ مگر ۲۰؍ویں آئینی ترمیم کے جھمیلوں میں پھنس گئے۔ امریکی کانگرس میں بلوچستان کی آزادی اور عظیم بلوچستان کی قرارداد پیش ہونے پر ہمارے بلند قامت وزیر اعظم نے انگڑائی لی اور ۴؍ سال بعد آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی دوبارہ تجویز پیش کی ہے جسے قوم پرست قیادت نے مسترد کر دیا ہے اور جناب نواز شریف نے ۲؍ بنیادی شرائط عائد کی ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات ضروری ہیں جن میں نواب اکبر خاں بگتی کے قاتل جنرل پرویز مشرف کی گرفتاری اور لاپتا افراد کی بازیابی سرِ فہرست ہیں۔ ان دونوں مطالبات پر پورے بلوچستان کی سیاسی اور مذہبی قیادت کا اتفاق پایا جاتا ہے اور یوں نظرآتا ہے کہ دفاعِ پاکستان کونسل نے ۲۷؍ فروری کو بلوچستان میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا جو اعلان کیا ہے ٗ اس میں غالباً سبھی اسٹیک ہولڈرز شرکت کریں گے اور رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے کی تدبیر کریںگے۔


آزاد بلوچستان کی امریکی کانگرس میں قراردادپر ہمارے دفترِ خارجہ کے علاوہ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے تینوں صوبائی اسمبلیوں نے مذمت کی قراردادیں منظور کی ہیں مگر بلوچستان اسمبلی کی خاموشی پر قومی حلقے حیرت زدہ ہیں۔ ہمارے سبھی ٹی وی چینلز مختلف پہلوؤں سے بلوچستان کی صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور گمبھیر مسئلے کا حل زیرِ بحث لا رہے ہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ پنجاب کی طرف سے بلوچستان کے عوام کے ساتھ گہری وابستگی کا اظہار کیا جائے، وفاقی حکومت کی سطح پر نمائشی اعلانات کے بجائے عملی اقدامات کی ترجیحات طے کی جائیں اور تاریخ کی روشنی میں غلط مفروضوں کا پردہ چاک کیا جائے۔ معافی مانگنے، غیر سنجیدہ مکالموں اور سیاسی ڈراموں کا وقت گزر چکا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم بلوچستان کی ناراض قیادت کو دور بیٹھے مذاکرات کی دعوت دیتے رہے مگر اس کے ساتھ رابطوں کے لیے سرے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔شاید اب اُنہیں معاملات کی سنگینی کا احساس ہو ا ہے مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا اور اعتماد کے رشتے ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ہمارے داخلی معاملات میں غیر ملکی طاقتوں کے ملوث ہونے سے حالات ایک خطرناک رُخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جن پر قابو پانے کے لیے اجتماعی دانش اور مضبوط قوتِ ارادی برائے کار لانا ہوگی۔




وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مطالبات کا ایک انبار لگتا جا رہا ہے لیکن اصل بات باہمی اعتماد کو فروغ دینے کی ہے۔ اعتماد سازی کے لیے جنرل پرویز مشرف کے خلاف ریاست کی طرف سے ایف آئی آر کا اندراج اور اُن کی انٹر پول کے ذریعے گرفتاری ناگزیر معلوم ہوتی ہے۔ اسی ایک اقدام سے حکومت کی سنجیدگی اور کومٹ منٹ کا صحیح پیغام جائے گا۔ اسی طرح خفیہ ایجنسیوں کا سیاسی کردار یک قلم ختم کرنا اور سول اداروں کو آزادی اور ذمے داری سے اپنے فرائض ادا کرنے کے مواقع فراہم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ شکایت عام ہے کہ حکومتِ بلوچستان بالکل بے اختیار ہے جس پر غیر منتخب اداروں کی طرف سے فیصلے مسلط کیے جارہے ہیں۔ بلاشبہ سیاسی طور پر آفت زدہ صوبے میں فوج کا بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے،جسے سرحدوں کے تحفظ تک محدود کر دینے سے شہریوں کا اعتماد بحال ہوگا۔ خوش قسمتی سے جنرل کیانی ایک متوازن اور صحت مند سوچ کے مالک ہیں اور وہ ڈیڑھ سال پہلے ہی فوجی آپریشن ختم کرنے اور آیندہ نئی چھاؤنی کی تعمیر سے دست بردار ہوجانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ مژدہ بھی سُنایا تھا کہ جن علاقوں میں چھاؤنیاں بنانے کے منصوبے تیار تھے وہاں تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں گے۔ عسکری قیادت نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ فوج میں ہر صوبے کی آبادی کے تناسب سے جوان بھرتی کیے جائیں گے تاکہ صحیح معنوں میں وہ ایک قومی فوج بن جائے۔ بلوچستانکے حصے میں ۲۰ ؍ ہزار افراد آئے ہیں جن میں سے۱۵؍ ہزار جوان بھرتی کیے جا چکے ہیں اور مزید ۵؍ ہزار اسی سال ریکروٹ کیے جائیں گے۔ ان بڑے مثبت اقدامات سے ایک روشن مستقبل کی تعمیر عمل میں آ رہی ہے مگر حالات ہماری حکومتوں کی بے انصافی بے تدبیری اور طاقت آزمائی کے سبب جس نہج تک آ پہنچے ہیں وہ برق رفتار اور ایقان افروز حکمتِ عملی کے متقاضی ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے پوری دیانت داری سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا اور ماضی اور حال کے نقصانات کے ازالے کے لیے غیر معمولی ایثار اور سیاسی پیش قدمی سے کام لینا ہو گا۔ اسلام آباد کے تخت نشین حکمرانوں نے بلوچستان کے حقوق بُری طرح پامال کیے ہیں جن کا زمینی حساب دینا ہوگا اور اپنا مائنڈسیٹ بدلنا ہوگا۔ اس مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ہی سے باہمی اعتماد نشو و نما پا ئے گا۔ اعتماد کے رشتے فوری طور پر مضبوط کرنے کے لیے آئی ایس آئی کے علاوہ تمام خفیہ ایجنسیوں کو براہمداغ کی بہن اور بھانجی کے قاتلوں کا بڑی جانفشانی سے سراغ لگانا اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ بلوچ خواتین کی ہلاکت کا جو خونیں منظر سامنے آیا ہے، وہ شدید ترین مذمت کے علاوہ پاکستان دشمن اور سفاک درندوں کو کیفرِکردار تک پہنچانا بلوچ بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے بے حد مددگار ثابت ہوگا۔

بلوچستان میں پاکستان سے محبت کرنے اور اُس کا مستقبل سنوارنے کا عزم رکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ بگتی مری اور مینگل، رئیسانی، مگسی، جوگیزئی اور زہری قبائل میں ہزاروں نوجوان اپنے وطن کی قدروقیمت سے پوری طرح آگاہ ہیں اور بزنجو قبیلہ پاکستان کے ساتھ تعلق کی ایک روشن تاریخ رکھتا ہے۔ جناب محمود خاں اچکزئی مولانا عبدالغفور حیدری حافظ حسین احمد ڈاکٹر عبد المالک سردار ثناء اﷲ زہری پاکستان کی سوچ کو پروان چڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام ایک بہت بڑی سیاسی اور مذہبی طاقت ہے اور جماعتِ اسلامی کا بھی اپنا ایک مضبوط حلقہ موجود ہے۔ نیشنل پارٹی سرداروں کے خلاف اور عوام کے حقوق کے لیے بہت سرگرم ہے جبکہ پختونخواہ عوامی ملی پارٹی بڑے اثر و رسوخ کی مالک ہے۔ ان تمام قوتوں کو یکجا کرنے اور مشاورت کا دائرہ مزید بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ گوریلوں کی تعداد ایک ڈیڑھ ہزار بتائی جاتی ہے جنھیں حُسنِ تدبیر اور سٹرایجٹک منصوبہ بندی کے ذریعے راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شورش پسندوں کے ۵؍ بڑے لیڈر بلوچستان کے سب سے دولت مند افراد میں شمار ہوتے ہیں جن کو عوام کی غربت اور بدحالی کا غم کھایا جا رہا ہے۔ بلوچ عوام کے وہ حقوق جو ماضی میں چھینے جاتے رہے ہیں اُنہیں احساسِ ندامت اور فراخ دلی سے لوٹا دینا لازم آتا ہے۔ اس میدان میں سیاسی جماعتوں کووقت ضائع کیے بغیر پیش قدمی کرنا ہو گی اور فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو سیاسی معاملات سے بے دخل کر دینا ہو گا، البتہ انہیں قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے پوری طرح چوکس رہنا اور عوام کے اعتمادپورا اُترناہو گا ۔ بدلے ہوئے حالات میں دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی گرفتاری تفتیش پراسیکیوشن اور گواہوں کی شہادت کے مناسب قوانین پارلیمنٹ کو جلد منظور کرنے اور آرمی ایکٹ میں نئے تقاضوں کے مطابق ترامیم کرنی چاہئیں تاکہ خفیہ ایجنسیوں کو حدود میں رکھا جا سکے اور پولیس کو اپنی ذمے داریاں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ادا کرنے کا پابند بنایا جا سکے۔


بلوچستان میں انسانی ہلاکتوں کے مہیب سلسلے سے امریکی کانگرس میں ۳؍ ارکانِ پارلیمنٹ نے جو آزاد اور عظیم بلوچستان کے بارے میں قرارداد پیش کی ہے وہ ہمارے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور اپنے اندر بنیادی تبدیلی لانے کا نادر موقع بھی۔ چیلنج اس معنی میں کہ یہ ایک بہت کارآمد سیاسی حربہ ہو سکتا ہے جسے مسز اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے آزمایا تھا اور بڑی طاقتوں کے دارالحکومتوں میں جا کر پاک فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کی نسل کشی کی دہائی دی تھی۔ اس زہریلے پراپیگنڈے نے اس وقت عالمی برادری میں پاکستان کو تنہا کر دیا تھا، لیکن اب اصل حقائق سامنے آنے لگے ہیں اور بنگلہ دیش کے محقق اور مؤرخ کتابوں پر کتابیں شائع کر رہے ہیں کہ ۳۰؍ لاکھ انسانوں کا قتل اور لاکھوں خواتین کی بے حرمتی بہت بڑا مبالغہ اور ایک بے حقیقت تھا جبکہ بنگالیوں نے غیر بنگالیوں پر ناقابلِ بیان ظلم ڈھائے تھے۔ بدقسمتی سے پاکستان اُس وقت دنیا کو باور کرانے میں ناکام رہا تھا کہ فوجی آپریشن میں قانونی اور اخلاقی ضابطوں کا خیال رکھا گیا تھا۔ بلوچستان کے حوالے سے سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کو اپنی پوزیشن بلاتاخیر صاف کر دینی چاہیے تاکہ عالمی رائے عامہ گمراہ نہ ہونے پائے۔ اوباما انتظامیہ پاکستان کو تواتر کے ساتھ یقین دلا رہی ہے کہ اس کا قرارداد سے کوئی تعلق نہیں اور وہ بھاری اکثریت سے مسترد ہو جائے گی۔ یہی امریکی اعلیٰ عہدے دار بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سا لمیت کا بہت احترام کرتے اور اس کے ساتھ روابط ہمارے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ موجودہ حالات میں ان یقین دہانیوں کی بڑی قدروقیمت ہے۔ ان کا فائدہ ضرور اُٹھانا چاہیے مگر اُن پر مکمل اعتبار کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا ہوگا کہ یہ قرارداد اسی روز کیوں پیش کی گئی جس وقت اسلام آباد میں پاکستان ایران اور افغانستان کی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور پاکستان کی طرف سے یہ اعلان کیا جا رہا تھا کہ ایران پر حملے کے لیے وہ اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا اور گیس پائپ لائن کا منصوبہ ضرور مکمل کیا جائے گا۔



اس ضمن میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو مسئلے کی سنگینی کا احساس ہو گیا ہے اور بڑی سیاسی اور دینی جماعتیں بلوچ عوام کے ساتھ وسیع پیمانے پر یک جہتی کا اظہار کر رہی ہیں۔ اس ماحول میں علحٰدگی کے امکانات حددرجہ محدود ہو گئے ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ علحٰدگی پسند عناصر کو عوام کی حمایت حاصل نہیں جو نا انصافیوں کے گہرے زخم کھانے کے باوجود پاکستان کے بندوبست میں اپنا مستقبل محفوظ سمجھتے ہیں۔ بلوچ حلقوں میں یہ سوال بھی زیرِ بحث آ رہا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد اسے قائم بھی رکھا جاسکے گا یا کسی بڑی طاقت کی غلامی قبول کرنا پڑے گی۔بلوچوں کے بزرگ لیڈر سردار عطاء اﷲ مینگل نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے مسلح نوجوانوں سے بھی یہی سوال کیا تھا اور وارننگ دی تھی کہ تم کسی اور طاقت کے غلام بن جاؤ گے ۔تمام سنجیدہ بلوچ لیڈروں نے اس حقیقت کا ادراک کیا اور وہ اپنے باغی نوجوانوں سے اتفاق نہیں کر رہے۔ پاکستان کی ریاست اگر اپنی ذمے داریاں ٹھیک طور پرخیال کرتی اور اپنے شہریوں کی جان مال اور آبرو کے تحفظ میں کامیاب رہتی اور اپنی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول اور منصفانہ نظام فراہم کرتی ہے تو علیحدگی کی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکے گی اور عظیم تر بلوچستان کا واہمہ کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے گا کیونکہ ایرانی بلوچ مذہبی اعتبار سے بڑے انقلابی ہیں جبکہ پاکستانی بلوچ سیکولر مزاج نظریات کے حامل ہیں۔ پاکستان کو گمبھیر مسائل کے بھنور سے نکلنے کے لیے امریکا سےبرابری اور خودمختاری کی بنیاد پر ازسرِ نو تعلقات استوار کرنا سول ملٹری روابط کو ہموار اور متوازن بنانا ایگزیکٹو اورعدلیہ کے درمیان غیر ضروری چپقلش پر قابو پانا اور کرپشن اور بدترین بد انتظامی کے قلع قمع پر نہایت سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ سیاسی جماعتوں اور قومی سلامتی کے اداروں کو قانون اور اخلاق کی عملداری کے تحت لانا ہو گا۔ عدلیہ عوام کے مفاد میں بڑے دوررس فیصلے کر رہی ہے جن سے لاپتا افراد کے درپردہ معاملات بھی سامنے آ رہے ہیں اور انتخابات کے ذریعے عوام کی حقیقی نمائندگی کا حصول بھی ممکن دکھائی دیتا ہے۔ ہم یقینا بالغ نظری میانہ روی ایثار کیشی اور احترامِ باہمی کے ذریعے مشکل وقت کو نئے امکانات میں تبدیل کر سکتے ہیں اور ایک ایسا بندوبست وجود میں لا سکتے ہیں جس میں شہریوں کے لیے بے حد کشش پائی جاتی ہو۔ امریکا اور بھارت نے بلوچستان پر بہت کام کیا ہے اس لیے ہمیں کسی خوش فہمی میں رہنے کے بجائے جلد سے جلد معاشرتی عدل کا اہتمام اور جمہوری سیٹ اپ میں عوام کی فعال شراکت کی ضمانت دینا ہوگی۔ پاکستان کی ان حقیقی ضمانتوں کے ساتھ لیڈروں کا زور ٹوٹ جائے گا اور انہیں عالمی قانون اور عظیم ریاست کے سامنے سرنڈر کرنا پڑے گا کیونکہ ٹی وی چینلز پر اُن کا بھرم کھل چکا ہے اور یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ اُن کے مطالبات میں کوئی تاریخی حقیقت نہیں اور وہ باہر کی طاقتوں کا آلۂِ کار بنے ہوئے ہیں، تاہم شائستگی اور متانت کے ساتھ گفتگو کا درواز ہ نا صرف کھلا بلکہ اپنی حدود میں رکھنا ہوگا ورنہ یہ ڈر ہے کہ اُن کی بے سروپا باتوں سے ردِ عمل کے طور پر پختون حقوق کی نئی بحث بھی شروع ہو جائے گ
[/SIZE]


Source : Urdu Digest

ammar warraich Friday, April 27, 2012 05:33 PM

Amna@

kindly tell me about headings in urdu essay..in english essy headings are not recommanded ...in urdu essy do we use headings or bullets?

Amna Saturday, April 28, 2012 01:38 PM

You can , but not recommended.

Amna Saturday, April 28, 2012 02:55 PM

تعلیم نسواں
 
[IMG]http://www.urdumania.com/urdu-topics/education/women-education.php[/IMG]

-------------------------------------------------------------------


[B][CENTER][SIZE="6"]
تعلیمِ نسواں
انجم آراء،ناگپور
[/SIZE][/CENTER][/B]


[SIZE="5"][/SIZE]

[SIZE="6"]یوں تو تعلیم و تربیت کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی جاتی رہی ہے ۔ دورَ جدید کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی ضرور ت اہمیت اور افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ آج دنیا جس برق رفتاری سے ترقّی کی منزلیں طے کر رہی ہے اس سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں ۔ نئے نئے علوم کے ساتھ ہی تحقیق و تدوین کا کام بھی اس قدر تیز رفتاری سے جاری ہے کہ دنیا انگشت بدنداں ہے ۔

مسلمانوں پر تو علم کا حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ طلوعِ اسلام کے بعد مسلمانوں نے مختلف میدانوں میں جو کار ہائے نمایاں انجام دئے ہیں وہ تاریخ کے صفحات پر رقم ہیں ۔ اسلام نے دیگر شعبوں کی طرح حصولِ علم کے معاملہ میں مرد و زن کے مابین کوئی تفریق نہیں کی۔فرمانِ الٰہی ہے :

طلب العلم فریضۃُ علی کلِ مسلم و مسلمۃ
علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد اور عورت )پر فرض ہے۔

اس معاملہ میں دینی و دنیاوی علوم کی بھی تخصیص نہیں رکھی گئی ۔ مسلمان برائیوں سے بھی محفوظ رہے اس لئے مسلمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ برائیوں سے بھی آگاہ رہے ۔

ماں کی گود کو انسان کی پہلی درسگاہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں وارد ہوتے ہی اس کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ ماں کی آغوش سے شروع ہو جاتا ہے اور تا دمِ آخر جاری رہتا ہے ۔ بچّے کی صحیح تعلیم و تربیت کا فریضہ ماں ہی بخوبی انجام دے سکتی ہے ۔ یہاں ہمیں ایک نکتہ یہ بھی ملتا ہے کہ استاد کے اندر بھی اگر ماںکی سی شفقت ، محبّت اورطالبِ علم کی خیر خواہی کا جذبہ موجود ہو توتعلیم کے تمام مراحل آسان اور پر اثر ہو جاتے ہیں ۔ عام طور ہر کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے ۔ خواہ وہ سکندرِ اعظم کی ماں ہویا شیواجی کی جیجا ماتا ۔انگریزی زبان میں بھی اسی مفہوم کو ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے ،

The hands that rock the craddle,rule the world
جو ہاتھ جھولا جھلاتے ہیں، حقیقتاًوہی ہاتھ اس دنیا پر راج کرتے ہیں

تاریخ کے صفحات اس قول کی تصدیق کرتے ہیں۔ آج دنیا کے حالات پر نظر ڈالئے تو پتہ چلے گا کہ دنیا کیسے کیسے انقلابات سے دوچار ہے ۔ ان حالات میں خواتین کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں ۔ان کے لئے گھریلو فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ دنیا جہاں کے حالات سے با خبر رہنا بھی لازمی ہو گیا ہے ۔ یوں تو ہر مومن کے لئے لازمی ہے کہ وہ ہر خطرہ سے باخبر ہواور ایمان سمیت اپنی حفاظت خود کرے ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا ۔ایک انگریز کا قول ہے
:
An intelligent person is the one whose feet are planted in his
country and his eyes should survey the whole world.

یہ وقت کا تقاضا ہے کہ عورتیں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں، اسلئے کہ تعلیم انسان کو بہترین زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہے ۔ دنیا کی عظیم المرتبت شخصیات نے خواتین کے مرتبہ کو سمجھا اور ان کا احترام کیا نبی کریم کا ارشاد ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنّت ہے ۔ یہ سچ ہے کہ عورت کو دنیا میں مختلف کردار نبھانے ہوتے ہیں ۔ کبھی ماں بن کر تو کبھی بہن کی صورت میں ، کبھی بیوی کے روپ میں اور کبھی بیٹی بن کران تمام مدارج میں اس کے ذمّہ داریاں بھی بدلتی رہتی ہیں ۔ اسے نئے نئے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ ان تمام مدارج سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے لئے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ۔ اگر عورت علم اور انسانیت سے عاری ہو تو اس کی موجودگی اچھّے خاصے گھر کو جہنّم میں تبدیل کر سکتی ہے اور اس کا اعلیٰ کردار پورے خاندان کے لئے نعمت اور برکت ثابت ہو سکتا ہے اس معاملہ میں تعلیم موثر کردار ادا کرتی ہے ۔

ہمارے عہد میں جو سماجی مسائل اور بہروپ جنم لے رہے ہیں خواہ وہ کسی مذہب و ملّت سے تعلق رکھتے ہوں اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں کی تعلیم و تربیت میں کہیں نہ کہیں کوئی خامی ضرور رہ گئی تھی انسان صحیح تعلیم کے بعد ہی انسان بنتا ہے ورنہ تعلیم اس کے لئے الزام بن کر رہ جاتی ہے ۔

[/SIZE]
--------------------------------------------------

[CENTER][SIZE="6"]
تعلیم نسواں اور اسلام[/SIZE][/CENTER]

[CENTER][SIZE="6"]ڈاکٹر رحیق احمد عباسی[/SIZE][/CENTER]

[SIZE="5"]
علم دین اسلام کی بنیادوں میں سے ایک اہم بنیاد ہے۔ علم کی اس سے بڑھ کر کیا اہمیت بیان کی جا سکتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب اور آخری نبی ا پر جب نزول وحی کی ابتدا فرمائی تو پہلا حکم ہی پڑھنے کا نازل فرمایا۔ اس پر تمام ائمہ و مفسرین کا اتفاق ہے کہ نزول وحی کا آغاز سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات مبارکہ سے ہوا ہے:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْO (العلق، ۹۶: ۱۔۵)

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحم مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیاo پڑھیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاo‘‘

اب ان آیات مبارکہ میں جہاں پہلا حکم ہی حصول علم کے process کے پہلے مرحلے یعنی پڑھنے کے حکم سے ہوا، وہاں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے رب اور خالق ہونے کے بیان کے ساتھ ساتھ علوم کی دو اہم شاخوں ۔ عمرانیات اور تخلیقات ۔ کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ دوسری آیت میں علم حیاتیات؛ تیسری آیت میں علم اخلاقیات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ اسلام کا تصوّر علم بڑا وسیع ہے اور جب اسلام طلب و حصول علم کی بات کرتاہے تو وہ سارے علوم اس میں شامل ہوتے ہیں جو انسانیت کے لیے نفع مند ہیں؛ اور اس سے مراد صرف روایتی مذہبی علوم نہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں زمین و آسمان کی تخلیق میں تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی اور یہی تدبر و تفکر جدید سائنس کی بنیاد بنا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جدید سائنس، جس پر آج انسانیت ناز کرتی ہے، اس کی صرف بنیاد ہی مسلمانوں نے نہیں رکھی بلکہ وہ اصول و ضوابط اور ایجادات و دریافتیں بھی مسلمانوں نے ہی کی ہیں جنہوں نے سائنس کی ترقی میں اہم ترین کردار اداکیا ہے۔ (چونکہ یہ اصل مضمون نہیں لہٰذا اس کی تفصیل کے خواہش مند شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب ’’مقدمہ سیرت الرسول ا‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔) اسلام کے ایک ہزار سالہ عروج کے بعد اس کو درپیش آنے والے زوال کا ایک افسانہ یہ بھی ہے کہ بہت سے واضح اور بنیادی تصورات ۔ جن پر تاریخ میں کبھی ابہام نہ رہا تھا ۔ اس دور میں دھندلائے ہی نہیں بلکہ پراگندہ ہو گئے ہیں۔ ان میں ایک خواتین کا حصول علم ہے۔ آج کے دور میں بعض ایسے مذہبی ذہن موجود ہیں جو عورتوں کے حصول علم کے خلاف ہیں اور اگر خلاف نہیں تو ایسی پابندیوں کے قائل ضرور ہیں کہ جن کی وجہ سے خواتین اور بچیوں کا حصول علم ناممکن ہوجائے۔ حصول علم کے فرض ہونے پر کوئی اختلاف نہیں۔ قرآن مجید میں پانچ سو کے لگ بھگ مقامات پر بلا واسطہ یا بالواسطہ حصول علم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی۔ حضور نبی اکرم ا کے فرائض نبوت کا بیان کرتے وقت بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔:

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ O (البقرۃ، ۲: ۱۵۱)

’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفساً و قلباً) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرار معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھےo‘‘

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ O (الجمعہ، ۶۲: ۲)

’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (ا) کو بھیجا وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘

ان آیات کے بغور مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ آپ ا کے فرائض نبوت: تلاوت آیات، تزکیہ نفس، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور ابلاغ علم ہیں۔ ان پانچ میں سے چار براہ راست علم سے متعلق ہیں جبکہ پانچواں اور ترتیب میں دوسرا تزکیہ نفس بھی علم کی ایک خاص قسم ہے جسے علم تزکیہ و تصفیہ یا اصطلاحاً تصوف کہا جاتا ہے۔ اب اگر علم کے دروازے خواتین پر بند کر دیے جائیں یا ان کے حصول علم پر بے جا پابندیاں عائد کرنا شروع کر دی جائیں تو پھر وہ کس دین پر عمل کریں گی۔ یا ان کا دین مصطفوی سے کیارابطہ رہ جائے گا۔ کیونکہ جو دین حضور نبی اکرم ا لے کر آئے وہ تو سارے کا سارا علم سے عبارت ہے۔

اسلامی شریعت کا ایک بنیادی قائدہ ہے کہ جب بھی کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کے لیے صیغہ مذکر استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں صنف نازک بھی شامل ہوتی ہے۔ اگر اس حکم و اصول کو ترک کر دیاجائے تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جیسے بنیادی ارکان سمیت بے شمار احکام شریعت کی پابندی خواتین پر نہیں رہتی۔ چونکہ ان احکام کے بیان کے وقت عموماً مذکر کا صیغہ ہی استعمال کیاگیاہے، لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن آیات و احادیث کے ذریعے فرضیت و اہمیت علم مردوں کے لیے ثابت ہے، انہی کے ذریعے یہ حکم خواتین کے لیے بھی من و عن ثابت شدہ ہے۔

فرضیت علم کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ حضور نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا: ’’حصول علم تمام مسلمانوں پر(بلا تفریق مرد و زن) فرض ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، المقدمہ، ۱:۸۱، رقم: ۲۲۴)
اسی طرح ایک دوسرے موقع پرحضور نبی اکرم ا نے فرمایا: ’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ (ابن عبد البر، جامع بیان العلم، ۱: ۲۴، رقم: ۱۵) ایک اور مقام پر آپ ا فرمایا: ’’جو شخص طلب علم کے لئے کسی راستہ پر چلا، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الذکر، ۴: ۲۰۷۴، رقم: ۲۶۹۹)

لہٰذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن سے حصول علم خواتین کے لیے بھی اسی طرح فرض ہے جیسے مردوں کے لیے تو اب اسوۂ رسول ا اور سیرت نبوی ا کی روشنی میں جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ حضور ا نے خود خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا:

’’حضرت ابو سعید خدری ص سے روایت ہے کہ عورتیں حضور نبی اکرم ا کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئیں: آپ کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے، لہٰذا ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے۔ آپ ا نے ان کے لئے ایک دن مقرر فرما دیا۔ اس دن آپ ا ان سے ملتے انہیںنصیحت فرماتے اور انہیں اﷲ تعالیٰ کے احکام بتاتے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب العلم، ۱: ۵۰، رقم: ۱۰۱)

ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓعالمہ، محدثہ اور فقیہہ تھیں۔ آپ سے کتب احادیث میں ۲۱۰٬۲ مروی احادیث ملتی ہیں۔ مردوں میں صرف حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبد اﷲ بن عمر اور حضرت انس بن مالک ث ہی تعداد میں آپ سے زیادہ احادیث روایت کرنے والوں میں سے ہیں۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ضروری تقاضے پورے کرنے کی صورت میں عورتیں نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی پڑھا سکتی ہیں۔

’’حضرت عائشہ بنت طلحہ روایت کرتی ہیں: میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس رہتی تھیں، میرے پاس ہر شہر سے لوگ آتے (جو بغرض تعلیم سوالات کرتے تھے) اور بوڑھے لوگ بھی آتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میں ان کی خادمہ ہوں۔ اور جو طالب علم نوجوان تھے وہ میرے ساتھ بہنوں جیسا برتاؤ کرتے تھے اور (میرے واسطہ سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں) ہدایا پیش کرتے تھے۔ بہت سے مختلف شہروں سے مجھے بھی خط لکھتے تھے (تاکہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے معلوم کر کے جواب لکھ دوں)۔ میں عرض کرتی تھی: اے خالہ! فلاں کا خط آیا ہے اور اس کا ہدیہ ہے تو اس پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی تھیں کہ اے بیٹا! اس کو جواب دے دو اور اس کے ہدیہ کا بدلہ بھی دے دو۔ اگر تمہارے پاس دینے کو کچھ نہیں تو مجھے بتا دینا میں دے دوں گی۔ چنانچہ وہ دے دیا کرتی تھیں (اور میں خط کے ساتھ بھیج دیتی تھی)۔‘‘ (بخاری، الادب المفرد، ۱:۳۸۲، رقم: ۱۱۱۸)

ایک مغالطہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ عورتوں اور بچیوں کا مردوں سے پڑھنا ناجائز ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بچیوںکے لیے خواتین اساتذہ کاہی انتظام ہو مگر ایسا نظام نہ ہونے کی صورت میں مردوں کا باپردہ ماحول میں عورتوں کو پڑھانا بھی از روئے شرع منع نہیں ہے۔ چونکہ حضور ا خواتین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے تھے، مسجد نبوی میں ہفتے کا ایک دن خواتین کے لئے مخصوص کرنے کا ذکر بھی ملتاہے۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم، ۱: ۵۰، رقم: ۱۰۱)

بعض لوگ احکام پردہ کا بہانہ بنا کر عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کے مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ گھر سے باہر ہر طرف مرد ہوتے ہیں، لہٰذا پردہ قائم نہیں رہتا۔ سب سے پہلے تو یہ عذر انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اگر بچیاں تعلیم کے لیے باہر نہیں نکل سکتیں تو ان کا کسی مقصد کے لیے بھی باہر نکلنا جائز نہ ہوا۔ ایسے لوگوں کی نظر میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا ہی ممنوع ہے۔ حالاں کہ اسلامی شریعت و تاریخ میں اس کے اثبات میں کوئی حکم نہیں ملتا۔ خود آیت پردہ ہی اس بات پر دلیل ہے کہ اسلامی پردہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے ہی ہے۔ گھروں میں بیٹھے رہنے سے احکام پردہ لاگو نہیں ہوتے کیونکہ پردہ غیر محرموں سے ہوتاہے اور گھر میں تو عموماً محرم ہی ہوتے ہیں۔ آیت پردہ کا مطالعہ کریں:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا
(النور، ۲۴: ۳۱)

’’اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔‘‘

اس میں منع زینت کے اظہار سے کیا گیا ہے۔ اور زینت کے اظہار سے مراد ہے بناؤ سنگھار کا اظہار کرنا۔ دوسرا یہ کہاگیا کہ جب گھر سے نکلیں تو چادر اوڑھ لیاکریں تاکہ باہر دوسری فطرت کی عورتوں میں مومنات کا امتیاز نظر آئے۔ سورۃ الاحزاب میں امہات المومنین اور خانوادۂ نبوت کی خواتین کو خطاب کے ذریعے تعلیم امت کے لیے حکم فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا َّحِيمًا O

’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہےo‘‘

لہٰذا احکام پردہ خود خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ دوسرا اگر خواتین کا گھر سے نکلنا ممنوع ہوتا تو حضور ا کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات غزوہ بدر میں کیوں شریک ہوئیں۔ آپ درج ذیل احادیث کا مطالعہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ دور رسالت ا میں خواتین کن معمولات میں شریک ہوئیں۔

’’حضرت انس ص نے فرمایا: جب جنگ احد میں لوگ حضور نبی اکرم ا سے دور ہو گئے تو میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور حضرت ام سلیمؓ کو دیکھا کہ دونوں نے اپنے دامن سمیٹے ہوئے ہیں ۔ دونوں اپنی پیٹھ پر پانی کی مشکیں لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتی تھیں، پھر لوٹ جاتیں اور مشکیزے بھر کر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتیں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر، ۳: ۱۰۵۵، رقم: ۲۷۲۴)

’’حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں: میں نے رسول اﷲ ا کے ساتھ سات جہاد کیے، میں غازیوں کی منزلوں میں ان کے پیچھے رہتی تھی، ان کے لئے کھانا پکاتی اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور بیماروں کے علاج کا انتظام کرتی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر، ۳: ۱۴۴۷، رقم: ۱۸۱۲)

اور یہ معمول دور رسالت کے بعد خلافت راشدہ میں بھی جاری رہا جیسے دور فاروقی میں خواتین پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) کی رکن تھیں۔ (مصنف عبد الرزاق، ۶: ۱۸۰، رقم: ۱۰۴۲۰)۔ اور سیدنا عثمان غنی ص کے دور میں خواتین کو دوسرے ممالک میں سفیر نام زد کیا گیا۔ (تاریخ طبری، ۲: ۶۰۱)

اسی طرح تاریخ اسلام میں بے شمار ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے علم التفسیر، علم الحدیث ، علم الفقہ، علم لغت و نحو، علم طب، شاعری ، کتابت، وغیرہ میں منفرد مقام حاصل کیا۔ (بحوالہ ’’اسلام میں خواتین کے حقوق‘‘ از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)

لہٰذا عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی کا فلسفہ و فکر ہی مزاجاً اسلامی نہیں۔ یہ کسی علاقے کی روایت و رسم تو ہو سکتی ہے مگر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

اب اس اعتراض کا ایک اور انداز سے بھی جائزہ لیں۔ اگر بالفرض معاشرہ ایسا ہے کہ پردہ کے جملہ لوازمات پورے نہیں ہوتے اور اسلامی پردہ ممکن ہی نہ ہو تو پھر دو احکام کا تقابلی جائزہ لیاجائے گا۔ پردہ کا حکم قرآن حکیم میں دو مقامات پر آیا ہے اور حصول علم کا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کم و بیش پانچ سو بار آیا ہے۔ اب خدانخواستہ حالات ایسے ہیںکہ خواتین کو مکمل شرعی پردے اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو بھلا کس کا انتخاب کیاجائے گا؟ ظاہر ہے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کے تمام تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے اس حکم کا انتخاب کرنا پڑے گا جس کی اہمیت اللہ تعالیٰ نے زیادہ بیان کی ہے، نہ کہ اس کی جس کی اہمیت کسی نام نہاد ملا کے نزدیک زیادہ ہے۔

لہٰذا پردہ کا بہانہ بناکر خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانا خلاف اسلام ہے اور قرآن و سنت کی تعلیمات اس کی اجازت ہر گز نہیں دیتیں۔ فرضیت علم کے لیے مرد و خواتین میں کوئی امتیاز اسلام نے قائم نہیں کیا۔ آخر میں اسی اہم مسئلہ کی طرف میں اہل علم کی توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حصول علم فرض عین ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اس امر پر بھی اسلام کے جملہ مسالک و مذاہب متفق ہیں کہ کسی فرض کا صریح انکار کفر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص آج کے دور میں خواتین کی تعلیم کو حرام سمجھتاہے چاہے اس کی تاویل کوئی بھی کرے تو ایک فرض کا صریح انکار ہے۔ لہٰذا اس طرح کے بے بنیاد فتوے ، جس سے پوری دنیا میں اسلام کی جگ ہنسائی ہو، اسلام کے روشن چہرے کو داغ دار کیاجائے اور من گھڑت تصور اسلام عام کیا جاتا ہو، کی بھرپور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور تمام علماء کو اس کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کرنا چاہیے تاکہ اسلام کو بدنام کرنے والے اس طرح کے مذموم عناصر کو لگام دی جاسکے۔[/SIZE]


Source :[url]http://www.pat.com.pk/[/url]


____________________________________________________________

[CENTER][SIZE="5"]تعلیم نسواں کی اہمیت

بنت-فضل-بیگ-مہر
[/SIZE][/CENTER][SIZE="5"]

ہر قوم کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے۔ تعلیم ہی قوم کے احساس وشعور کو نکھارتی ہے اور نئی نسل کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کسی صفت و کمال سے وہ دل کی صفائی‘ فراخی اور وسعت حاصل نہیں کرسکتا جو علم کی بدولت حاصل کرنے میںکامیاب ہوجاتا ہے۔تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو تخلیق انسانی کے ظہور سے شروع ہوا۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کو تمام مفید انسانی علوم کی تعلیم فرمائی۔ پھر یہ علوم نسل انسانی میں منتقل ہوتے رہے اور آج علوم کی بے شمار اخیں ہیں۔ علم کی افادیت قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے۔ سورہ مجادلہ آیت نمبر ۱۱ میں اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر رمایا ہے جنہیں علم کی دولت سے نوازا گیا ہے۔

اﷲ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا (ترجمہ کنزالایمان)

سورہ زمر آیت ۹ میں علم والوں کی فضیلت کا کچھ اس طرح سے بیان ہے:
تم فرمائو کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان‘ نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں (ترجمہ کنزالایمان)

سرکار مدینہ نے فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو کوئی طالب علم کبھی عالم کے دروازے پر علم سیکھنے کے لئے آمدورفت رکھتا ہے اس کے ہر قدم پر ایک ایک سال کی عبادت لکھ دی جاتی ہے اور ہر ہر قدم کے بدلے میں جنت میں اس کے لئے ایک ایک شہر آباد کردیا جاتا ہے اور جس زمین پر چلتا ہے وہ زمین اس کے لئے استغفار کرتی ہے (نزہتہ المجالس)

مسلمان کے لئے علم ایک عظیم تر نعمت ہے بس مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنے علم میں اضافہ کرنے کی ہرممکن کوشش کرتا رہے۔ زندگی کے جس حصے میں چاہے بچپن کے ایام ہوں یا جوابی کاد ور ہو یا بڑھاپے کی سرحدیں عبور کررہا ہو‘ پس جہاں سے اور جب اسے علم دین ملے تو اسے اپنی گمشدہ نعمت سمجھ کر حاصل کرے کہ علم جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی اس کے درجات بڑھتے جائیں گے اور دنیا و آخرت میں اس کی فلاح و بہبود اور ترقی کے دروازے کھلتے جائیں گے۔

الغرض کہ علم ایسی چیز نہیں جس کی فضیلت اور خوبیوں کے بیان کرنے کی حاجت ہو۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ علم ایک بہت بہتر چیز ہے۔ ایک لازوال دولت ہے اور اﷲ عزوجل کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا حاصل کرنا وجہ امتیاز و فضیلت و شرف اور سعادت مندی ہے۔ یہی وہ چیز ہے کہ اس سے انسانی زندگی کامیاب اور خوشگوار ہوتی ہے اور اسی سے دنیا و آخرت سنورتی ہے۔

حضرت امام غزالی رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان ہے ’’تعلیم کا مقصد صرف نوجوان نسل کی پیاس بجھانا نہیں بلکہ ساتھ ہی ان میں اخلاقی کردار اور اجتماعی زندگی کے اوصاف نکھارنے کا احساس بھی پیدا کرنا ہے‘‘

آج ہم پستی کی طرف جارہے ہیں اور زوال کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل علم کی عطا کردہ بصیرت اور لذت سے محروم ہے۔ علم کے نتیجے میں نیک و بد اور خوب و ناخوبکی جو تمیز پیدا ہونی چاہئے‘ اس کا بھی فقدان ہے۔ اخلاق و کردار کے لحاظ سے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ میں فرق کرنا مشکل ہے۔ غرض یہ کہ علم جو اعتماد قوت عملی اور اخلاق پیدا کرتاہے اس سے ہماری نئی نسل عاری نظرآتی ہے۔ اس حقیقت کا احساس عام ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم اپنی افادیت کھو چکی ہے اور ہمارے معاشی اور معاشرتی تقاضوں سے تعلیم کا کوئی ربط و رشتہ باقی نہیں رہ گیا۔ اس طرح ہمارا سارا معاشرہ اپنی اقدار سمیت شکست کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

اس کے علاوہ آج ہمارے معاشرے میں عورت کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی جبکہ حدیث مبارک میں ہے کہ :
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ معلم کائنات سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا:طالب العلم فریضتہ علیکل مسلم یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردو عورت) پر فرض ہے۔

معلوم ہوا کہ مرد کی طرح عورت پر بھی علم کا حصول فرض ہے۔ خواتین پردے میں رہتے ہوئے کسی بھی سطح تک تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ اسلام نے انہیں تعلیم حاصل کرنے سے منع نہیں کیا۔ لیکن حدود توڑنے کی صورت میں بغاوت کے زمرے میں آئیں گی۔
معاشرے کو سنوارنے یا بگاڑنے میں عورت کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ اسلام نے دنیا کو بتایا کہ جس طرح مرد اپنا مقصد وجود رکھتا ہے اسی طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غائیت ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی تشکیل صرف مرد تک ہی محدود نہیں بلکہ عورت بھی اس میں برابر کی حقدار ہے۔

عورت پر گھریلو ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت کے لئے امور خانہ داری کے علاوہ دنیا کے باقی کام ممنوع ہیں۔ بلکہ خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد وہ اپنے ذوق اور رجحان کے لحاظ سے علمی‘ ادبی اور اصلاحی کاموں میںحصہ لے سکتی ہے۔ مسلمان عورت ڈاکٹر‘ پروفیسر‘ انجینئر‘ عالمہ‘ مورخ‘شاعرہ‘ ادیبہ اور محقق وغیرہ سب کچھ ہوسکتی ہے کیونکہ ایک خود مختار فرد کی حیثیت سے اس کا یہ پیدائشی ورثہ ہے۔

دین اسلام نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ مرد اور عورت کی تخلیقی بنیاد ایک ہے۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی فضیلت انسانی کا ذکر آیا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں برابر کے شریک ہیں۔ تقویٰ اور آخرت کی فلاح کا جو معیار مرد کے لئے مقرر کیا گیا ہے‘ وہی عورت کے لئے ہے۔ ہمارا دین عورت کو گھر کی چار دیواری میں اس طرح قید نہیں کرتا کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے دوسروں کی دست نگر رہے۔ نبی اکرم نے فرمایا:بے شک تمہیں اﷲ نے گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے اپنی ضروریات کے حصول کے لئےاسلام کے عظیم احسانات میں سے عورت کو جس قدر حصہ ملا ہے‘ اس کی مثال دنیائے تاریخ میں نہیں ملتی اور اسی طرح تعلیمات نبوی پر عمل کرتے ہوئے جو کارنامے معزز محترم خواتین نے انجام دیئے ان سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا۔

آیئے عورت کی تعلیم کے حوالے سے اس عظیم ہستی کا ذکر خیر کرتے ہیں کہ جنہوں نے شجاعت و بہادری جذبہ عبادت‘ بندگی‘ علمی خدمات میں اپنی مثال قائم کردی ہے۔ ہر میدان علم و عمل میں ان کی شہرت کے پرچم لہرا رہے ہیں۔ وہ عظیم ہستی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا ہیں۔ انہیں قرآن کریم کی پہلی حافظہ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بلند پایہ محدثہ تھیں ۔ تقریبا ۲۲۱۰ احادیث مبارکہ کی حافظہ بھی تھیں اور ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی استاد بھی تھیں۔ دین کا 1/3 حصہ انہیں کی بدولت ہم تک پہنچا۔ خلافت فاروقی میں اہم معاملات میں ان کی رائے کو فضیلت دی جاتی تھی۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر ہر قسم کے مسائل پوچھا رتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ الشعری فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کو کوئی مشکل ایسی نہیں نہ آئی جس کا علم حضرت ائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس نہ ہو۔ حضرت عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ میں نے قرآن‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔

کتب سیرت میں متعدد روایتیں ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو دینی علوم کے علاوہ طب‘ تاریخ اور شعر و ادب میں بھی دسترس حاصل تھی۔ مگر افسوس کہ آج مسلم خواتین میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ اسلام کا جوش ہے‘ نہ ایمان کا جذبہ ہے اور نہ ہی علم حاصل کرنے کی لگن ہے۔ انہیں تو بس نت نئے فیشن اپنانے کا شوق ہے۔ اور دنیا کی حرص و ہوس ہے۔ یہ سب علم سے دوری اور احکام شریعت سے لاعلمی کی وجہ سے ہے۔آج ہمارے معاشرے کے وہ والدین جو اپنے لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن لڑکیوں پر توجہ نہیں دیتے‘ انہیں چاہئے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی مقدس زندگی سے درس حاصل کرتے ہوئے لڑکیوں کو بھی علم کی راہوں سے روشناس کروائیں۔ یاد رہے کہ جس قوم کی بیٹی پڑھی لکھی ہوتی ہے اس قوم کی اخلاقی بنیادیں بھی مضبوط ہوتی ہے[/SIZE]۔

Source :[url]http://www.tahaffuz.com[/url]

Amna Saturday, April 28, 2012 03:26 PM

[IMG]http://www.urdumania.com/wp-content/uploads/2012/03/Women-Education.gif[/IMG]

[IMG]http://www.urdumania.com/wp-content/uploads/2012/03/Importance-of-Women-Education.gif[/IMG]

Amna Monday, April 30, 2012 01:46 AM

پاکستان میں توانائی کا بحران
 
[CENTER][B][SIZE="6"] توانائی کا بحران…فوری حل کا متقاضی۔۔۔۔۔اطہرعلی خا[/SIZE][/B][/CENTER][SIZE="6"]
جدیددور میںتوانائی کی عدم موجودگی میں ترقی کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا ۔توانائی معیشت کی ترقی کی اہم کنجی ہے۔بدقسمتی سے آج وطن عزیز بالخصوص ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ پورا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہےـ دن کو کاروبار زندگی جامد نظرآتا ہے تو رات کو اندھیروں کا راج ہوتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ہر ماہ بجلی کی قیمتوں میں غیرمنصفانہ اضافہ کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں عوام کے پاس احتجاج کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے؟۔پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اوران وسائل کو استعمال میں لا کر توانائی کے بحران پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہےـ گنے کے پھوگ’ کوئلے’ ہائیڈل اور شمسی توانائی کے وسائل سے توانائی حاصل کی جا سکتی ہےـگزشتہ چار برسوں کے دوران وفاقی حکومت نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں اٹھایا،البتہ رینٹل پاور جیسے منصوبوں سے قومی خزانے پر بوجھ ضرور ڈالا گیا،وفاقی حکومت کی اِسی ناقص پالیسی اور بد انتظامی کی بنا پر آج نہ صرف ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ غریب کا چولہا ٹھنڈا اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بھی بندہو گیا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ گیس کی فراہمی میں بھی پنجاب سے امتیازی سلوک برتا گیا، 20، 20 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگیاں اجیرن بنادی ہیں اور بلبلاتے عوام اور مزدور آج سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں ۔بجلی کا بحران ہر تین چار ماہ بعد دوبارہ سر اٹھاتا ہے۔ حکومت چند ماہ کیلئے عارضی اقدامات کرتی ہے لیکن اس بحران سے نمٹنے کیلئے کوئی بھی مستقل اور دیرپا حل تلاش نہیں کرتی ۔ وفاقی حکومت سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضہ) کی ادائیگی کے مسئلے کا حل بھی نہیں کر تی ،نتیجتاً حکومت کے ذمے بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کے اربوں روپے واجب الادا ہیں۔مرکز میں اقتدارپربراجمان حکمران یہ کہہ کراپنی جان چھڑا لیتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعدبجلی کی پیداوار کا اختیار صوبوں کو سونپ دیاگیا ہے تاہم بیرونی امداد اور قرضے وفاقی حکومت کی سوورن گارنٹی (Sovereign Guarantee)کے محتاج ہیں اور وفاقی حکومت صوبائی منصوبوں خصوصاً پنجاب کے منصوبوں کیلئے بھی گارنٹی دینے کوتیار نہیں ہے۔اس وقت ملک میں بجلی کی کل پیداواری استعداد 30ہزار میگاواٹ ہے ، جس میں سے صرف 17ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔17ہزار میگاواٹ میں سے 70فیصد تیل اور گیس کے پلانٹس سے حاصل ہوتی ہے اور اس میں سے 6500 میگاواٹ آئی پی پیز (IPPs)کا حصہ ہے ۔دونوں بڑے ڈیموں منگلا اور تربیلامیں پانی کا ذخیرہ ڈیڈ لیول پر ہے جس کی وجہ سے ہائیڈل بجلی پیدا نہیں ہو رہی اور تمام انحصار آئی پی پیز اور (Gencos)پر ہے اور ان کی کل استعداد 12ہزار میگاواٹ ہے اور اتنی ہی اس وقت سسٹم کی کل ضرورت ہے لیکن یہ پلانٹ اس وقت واپڈا کو 6500میگاواٹ فراہم کر رہے ہیں اور 6ہزار میگاواٹ کی کمی کا سامنا ہے کیونکہ پیپکو نے ان میں سے بہت سے پلانٹس کو ادائیگی نہیں کی جس کی وجہ سے وہ تیل نہیں خرید سکتے اور پلانٹ بند ہیں،بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے وفاقی حکومت کی پالیسی انتہائی ناقص رہی ، رینٹل پاور جیسے متنازعہ اور کرپٹ منصوبے شروع کئے گئے جن سے پیپکو کی حالت مزید خراب ہوئی اور سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہوا ۔نندی پور اور چیچو کی ملیاں (850میگاواٹ) جو کہ توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے ایک اچھا منصوبہ تھا ،اسے بھی وفاقی حکومت کی غیرسنجیدگی کی بھینٹ چڑھا کر ادھورا چھوڑدیا گیا ۔ وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف کی طرف سے بار بار آواز اٹھانے پریہ منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا اور یہ منصوبہ جو دو سال پہلے مکمل ہونا تھا اس کا آغازاب کیا گیا ہے جس سے وفاقی حکومت کے بجلی کے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہائیڈل پاور پراجیکٹس جو سستی بجلی کا بہترین ذریعہ ہیں انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کر کے آئی پی پیز اور رینٹل پاورمنصوبوں پر کرپشن کے لیے توجہ مرکوز رکھی گئی۔ اسی طرح تھرکول کے منصوبے کو نااہلی سے منسلک کر دیا گیا۔ وفاقی حکومت کے لئے صوبوں کو بجلی بنانے کا حق سب سے پہلے پنجاب نے مانگا اور یہ مطالبہ اسی وقت کیا گیا جب یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہوگئی کہ وفاقی حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے میں چنداں سنجیدہ نہیں ۔ صوبوں کو بجلی پیدا کرنے کا حق مئی 2011ء میں دیا گیا لیکن کوئی صوبہ جتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ 30ماہ سے پہلے مکمل نہیں کیا جاسکتاـالزام لگانے والوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آج توانائی کے بحران کی تمام تر ذمہ دار وفاقی حکومت ہی ہے ۔صوبے اگر بجلی بنا بھی لیں تو اسے بنانے ، ترسیل اور ٹیرف (Tarrif)طے کرناوفاقی ادارے (نیپرا) کا اختیار ہے ۔بجلی کی ترسیل اور تقسیم کیلئے(NTDC)اورڈسکو(Disco)کی اجازت درکار ہے ۔ پنجاب کو توانائی کے پراجیکٹس کیلئے ان اداروں نے تگنی کا ناچ نچایا ہے ۔ پنجاب نے تمام صوبوں سے پہلے انرجی ڈیپارٹمنٹ قائم کیا اور صوبائی کابینہ نے اکتوبر 2011ء میں آئندہ تین سالوں کے لیے مختلف منصوبوں کی منظوری دی جس کے تحت 3ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ان منصوبوں میںایشین ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے 10 نہروں پر 90میگاواٹ کا ہائیڈل پیداواری منصوبہ ،چین کے ادارےCWE کے تعاون سے تونسہ بیراج پر 120میگاواٹ ،چین کی کمپنیCMEC کے اشتراک سے مظفر گڑھ میں چما لانگ کوئلہ سے 300میگاواٹ کا منصوبہ،گنے کے پھوک اور فصلوں کی باقیات سے بجلی بنانے کے منصوبوں کا اجرا،ترکی کے ایگزم بنک سے پاور پراجیکٹس کی فنانسنگ کامعاہدہ اور دیگر منصوبے شامل ہیں ۔پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے مختصرالمدت اقدامات کئے جائیں۔لائن لاسز،بجلی چوری اور کنڈہ کلچر کا خاتمہ ضروری ہے ۔گنے کے پھوک سے بجلی بنانے کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دیا جائے اور پنجاب حکومت کی اس سلسلے میں تجاویز کو وفاقی ادارے منظور کریں۔ پانی اور مقامی کوئلے سے بجلی بنانے کیلئے مناسب سہولیات اور قرضے کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ تاہم ان تجاویز پر کان دھرنے کی بجائے پنجاب سے توانائی کی فراہمی میں سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے ۔ گزشتہ برس بھی وزیراعلی پنجاب نے صنعت کاروں، تاجروں اور مزدوروں کے ساتھ مل کر اس ظلم اور زیادتی پر آواز اٹھائی تھی اور وزیراعظم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی اور آج پھر وزیراعلی اپنے مزدور بھائیوں اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ۔پنجاب حکومت صوبے کے عوام کو بدترین حالات میں تنہا نہیں چھوڑ سکتی چنانچہ وزیراعلی نے گوجرانوالہ ، فیصل آباد میں بدترین لوڈ شیڈنگ کاجائزہ لینے اور صنعت کاروں ،مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے لیے خود دورے کئےـانہوں نے عوام سے پرزور اپیل کی کہ وہ احتجاج کے دوران پرامن رہیں اور قومی املاک کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔وزیراعلی محمد شہبازشریف نے بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیلئے جتنے بھی اقدامات کئے ،بجلی اور گیس کی عدم فراہمی نے ان پر پانی پھیردیا ہے۔ اگر حقائق کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ اس وقت 800 ارب سے تجاوز کرچکاہے اور ابھی تک وفاقی حکومت نے اس کے حل کی طرف ایک بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، گردشی قرضے کی بنیادی وجہ بجلی پیدا کرنے کے خرچ اور بجلی فروخت کرنے کی آمدن کے درمیان بڑا فرق ہے ـ اس فرق کی وجہ بجلی کی کم قیمت نہیں ، اس کی وجہ چوری، سسٹم کی خرابیاں اور غلط پالیسیاں ہیںـ بجلی کے اس نہ ختم ہونے والے بحران کو حل کرنے کے لئے سب سے زیادہ ضرورت نیک نیتی اور ارادے کی ہے ۔اگر وفاقی حکومت خود بجلی کے نئے منصوبے شروع نہیں کرسکتی تو کم ازکم صوبوں بالخصوص پنجاب حکومت کے منصوبوں کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔ہر معاملہ سیاسی بنانے کی بجائے ملک کو اس وقت سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔[/SIZE][/COLOR]
[/SIZE]

source :[url]http://www.dailyasas.com.pk[/url]


_________________________________________________________________


[SIZE="6"][B][CENTER]پاکستان میں توانائی کا شدید بحران[/CENTER][/B][/SIZE]

[SIZE="6"] پاکستان بدترین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے جبکہ عوام توانائی کے اذیت ناک بحران کا ڈائریکٹ نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی، دہشت گردی او ر عدم تحفظ کے شدید احساس نے پہلے ہی عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی مگر پٹرول، چینی، لوڈشیڈنگ ، اوور بلنگ اور بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے نے تو ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ پاکستان کو کئی برسوں سے توانائی کے بحران کا سامنا ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ شدید ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتیں دنیا بھر کی معیشتوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ بجلی اورگیس کی کمی ، پاکستان میں ایک بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ۔پاکستان منصوبہ بندی کمیشن نے اس امرکا بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں امن و امان کی خراب صورتحال، توانائی کے بحران اور معاہدوں پر ملدرآمد میں کوتاہیوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی ہے۔

غیر جانب دار مبصرین بھی معیشت کی سست رفتار کی بڑی وجہ توانائی کے بحران کو قرار دیتے ہیں جبکہ مقامی سرمایہ کار بھی بجلی اور قدرتی گیس کی فراہمی میں عدم استحکام کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ان میں سرفہرست ٹیکسٹائل کی صنعت ہے جو سردیوں میں گیس کی فراہمی کے حکومتی منصوبے کے خلاف ان دنوں سراپا احتجاج ہے۔ کالا باغ ڈیم کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تاکہ آنے والے سالوں میں توانائی سمیت زرعی بحران سے بچا جاسکے۔ پاکستان میں بجلی کی کمی کی سطح 6000 میگا واٹ تک جا پہنچی ہے تو اس کی وجہ کے طور پر موسم سرما کی بنا پر قدرتی گیس کی بڑھنے والی مانگ کو بتایا گیا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بعض علاقوں میں یومیہ 12 سے 18 گھنٹے تک جاری رہتی ہے جس نے روز مرہ کی زندگی کو بُری طرح متاثر کر رکھا ہے۔
حکومت کی طرف سے پاور اسٹیشنز کو ایندھن کی ترسیل کرنے والی فرموں کے قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں ایندھن سے چلنے والے پاور اسٹیشنز اپنا کام شروع کر دیں گے۔ پاکستان نے سن 2006 میں بجلی کے بحران کا حل تلاش کرنے کے زیرِ مقصد چین، ایران، تاجکستان اور ترکمانستان سے بعض معاہدے طے کیے تھے۔
تاہم ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ 180 ملین آبادی کے حامل ملک کے لیے قلیل مدت میں توانائی کے بحران کو دور کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

اس وقت قوم کو بجلی کی اشد ضرورت ہےتاکہ ہمارا ملک لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات حاصل کر سکے۔ ایک جانب بجلی کی کمی تو دوسری جانب گیس خصوصا سی این جی کا روز افزوں بحران انتہائی تشویشناک ہوگیا ہے۔ بجلی کی کمی پوری کرنے کے لئے ملک بھر میں ۱۸، ۱۸گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے تو سی این جی اسٹیشنز پر بھی رات بارہ بجے سے صبح چھ بجے تک گیس کی لوڈ شیڈنگ کرنے کا اعلان کیا گیاہے ۔بجلی فراہم کرنے والے ادارے پیپکو کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فی الوقت ملک بھر میں بجلی کی مجموعی پیداوار10ہزار790 جبکہ طلب 13 ہزار490 میگا واٹ ہے۔ یوں بجلی کا مجموعی شارٹ فال 2700 میگا واٹ ہوگیا ہے۔ اس کمی پر قابو پانے کے لئے پورے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ8 سے 10 گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں18 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ انرجی سیکٹر کا بحران ملکی سیکورٹی کو سنگین خطرہ ہے،خصوصی طور پر ایک اییسے وقت مین جبکہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ دہشت گردی کے بعد بجلی کا بحران دوسرا بڑا اور سنگین مسئلہ ہے ۔توانائی کے بحران نے پاکستان کو مزید عدم استحکام کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاور سیکٹر کے بغیر معیشت کبھی نہیں چل سکتی۔ توانائی کا بحران پاکستان کے چند کلیدی مسائل میں اولین مسئلہ بن گیا ہے۔ بجلی کی پیداوار اور طلب میں فرق بڑھتا جارہا ہے۔ یہ فرق اس کے باوجود ہے کہ ملک میں صنعتی ڈھانچہ وسیع ہونے کے بجائے سکڑ رہا ہے۔ پاکستان سے اکثر صنعتیں بیرون ملک منتقل ہوگئی ہیں ، توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے حکومت جتنے بھی اقدامات کررہی ہے اس سے نئے سے نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ پیٹرول کے متبادل کے طور پر حکومت نے قدرتی گیس پر بجلی گھروں کو منتقل کیا جس کے نتیجے میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بھی سامنے آگیا ہے۔ اس کا ایک اور اثر یہ ہے کہ قدرتی گیس کا سب سے بڑا استعمال پاکستان میں کیمیائی کھاد باالخصوص یوریا کھاد میں ہی، پاکستان میں یوریا اور کیمیائی کھاد میں خود کفالت کی وجہ سے زرعی پیداوار میں نمو موجود ہے۔ حکومت نے کیمیائی کھاد تیار کر نے والے کارخانوں کے لیے قدرتی گیس کے نرخوں میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے یوریا کی لاگت میں اضافہ ہوجائے گا۔ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ اس کا اثر زراعت پر پڑی، ابھی تک پاکستان میں غذائی بحران زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے نہیں ہوا ہے اور ملک ایک بڑے بحران سے بچا ہوا ہے۔ اس بات کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ توانائی کا بحران زراعت پر بھی منفی اثرات مرتب نہ کری، توانائی کا بحران صنعت و تجارت کو تو تباہ کرچکا ہے۔ ہے۔بجلی کی طویل بندش نے معمولات زندگی درہم برہم کر کے رکھ دیئے ہیں۔ بجلی نہ ہونے سے پانی کی فراہمی کا نظام بھی بری طرح متاثر ہے۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف شہروں مین ،بجلی کے بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والے عوامی پر تشدد مظاہرے و ہنگامے بڑے تشویشناک صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں۔بجلی کی عدم دستیابی پر گلیوں تک میں عوامی غصہ دیکھنے میں آیا ہےاور اس سے پھوٹنے والے فسادات سے کئی شہر مفلوج ہو گئے،پولیس اور عوام کے درمیان جھڑپیں دیکھنے میں آئی اور وسیع پیمانے پر سرکاری دفاتر و املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ بجلی کی فراہمی میں ناکامی نے ملک کو مزید عدم استحکام دیا ہے۔بجلی اور گیس میں کمی سے کئی ہفتوں سے کاروبار ٹھپ ہو گیا ہےاور توانائی کے بحران سے کئی کاروباری لوگ دیوالیہ ہوگئے ہین۔ بجلی کی کمی سے جی ڈی پی کو تین سے چار فی صد کمی کا سامنا ہے۔ اس وقت توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک کو سالانہ 230ملین روپے کا نقصان ہو رہا ہے، لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی و گروہی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی پالیسی تشکیل دیں،کیونکہ توانا ئی کے بحران پر قابو نہ پانے کی صورت میں ملکی سلامتی کوبھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔صنعتیں بند ہونے سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے 4لاکھ افراد بے روزگار ہو گئے ہیں ہمیں اس مسئلہ کا جلد کوئی حل نکالنا ہو گا ورنہ حکومت اس بحران کے سیلاب میں بہ جائے گی اور ملک عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی۔ ہمیں اس قومی مسئلہ پر سیاستدانوں کو اپنی سیاست چمکانے کی اجازت نہ دینی چاہئیے۔ہمیں ہنگامی سطح پر اپنے دوست ممالک اور گلوبل سطح پر امداد کی درخواست کرنی چاہئے کیونکہ اس بحران سے نمٹنا اکیلے پاکستان کے بس کی بات نہ ہے۔ توانائی کے حالیہ بحران کا حل نکالنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں شارٹ اور لانگ ٹرم پلاننگ کرکے فوری اقدامات کی ضرورت ہے اور صرف کھوکھلے نعروں سے یہ مسئلہ حل نہ ہو گا۔
[/SIZE]

Source :[url]http://awazepakistan.wordpress.com[/url]

_________________________________________________________________


[CENTER][SIZE="6"][B]پاکستان کا توانائی کا بحران، سنجیدہ اقدامات کی ضرورت[/B][/SIZE][/CENTER]

[SIZE="5"]
[SIZE="6"]
خطہ جنوبی ایشیاء کا انتہائی اہم ملک پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بجلی، قدرتی گیس، پٹرولیم ، کوئلے اور لکڑی پر انحصار کرتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے اور توانائی کی فراہمی کےبنیادی ڈھانچے کی موجودگی کے باوجود اس شعبے میں پاکستان کو درپیش مسائل کی وجہ گذشتہ چھ دہائیوں میں حکومتوں کی جانب سے مناسب منصوبہ بندی نہ کرناہے۔ اس وقت پاکستان کو درپیش ایک اہم مسئلہ بجلی کی طلب و رسد میں توازن نہ ہونا ہے۔ اریم زیم گوچین واشنگٹن میں توانائی کے مسائل پر کام کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو تقریبا چھ ہزار میگا واٹ کی کمی کا سامنا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انہیں پرائیویٹ سیکٹر کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا اور نجی اور عوامی پارٹنرشپ کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی ۔ ان کےخیال میں دوسرا حل پاکستان میں کم بجلی سے چلنے والے الیکٹرانک آلات کی فراہمی پر توجہ دینا ہے ۔

ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں پانی اور نیوکلیئر ذرائع سے بجلی کی پیداوار تقریبا ت13ا ہزار میگا واٹ جبکہ بجلی کی مجموعی طلب تقریبا19 ہزار میگا واٹ ہے ۔ پاکستان کی40فی صد آبادی کو بجلی میسر نہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات اگلے 20 برسوں میں 350 فیصد بڑھ جائیں گی ۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے اور پانی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ماہرین کے مطابق پاکستان میں نئے ڈیمز کی تعمیر اور بجلی کی تقسیم کے نظام میں موجودہ خرابیاں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمی کی وجہ سے پاکستان کا50 فیصد صنعتی شعبہ تباہ ہو چکا ہے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری دیگر مسائل کی وجہ بن رہی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کا 79 فی صد تیل اور گیس سے پورا کرتا ہے۔ اور چونکہ پاکستان اپنی تیل کی ضروریات کا محض20 فیصد ہی مقامی طور پر حاصل کر پاتا ہے اس لیے پٹرولیم مصنوعات کے سلسلے میں پاکستان کا زیادہ دارومدار دوسرے ممالک پر ہے۔ جس سےپاکستانی معیشت پر شدید دباؤ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام اور صنعتی شعبہ بھی اس سے براہ ِ راست متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں قدرتی گیس کے ذخائرکی موجودگی توانائی کے شعبے پر موجودہ دباؤ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔لیکن بلوچستان میں گیس پائپ لائنوں کو دھماکوں سے اڑائے جانے والے متعدد واقعات نے قدرتی گیس کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے۔

واشنگٹن کے وڈرو ولسن سنٹر سے منسلک مائیکل کوگل مین کے نزدیک توانائی کے مسائل حل کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کو قدرتی وسائل کے بہتر استعمال کو یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان میں کوئلے کے موجودہ اپنے ذخائرکے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہیں۔ پاکستانی حکومت 2018ءتک توانائی کے لیے کوئلے پر انحصار سات سے 18 فی صد تک بڑھانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ لیکن ایرم زیم گوچین کا کہنا ہے کہ کوئلے سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کرنا پاکستان کے لیے ایک پیچیدہ معاملہ ہے ۔ پچھلے پانچ برسوں میں دو بڑی قدرتی آفات کے نتیجے میں بھی توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو زبردست نقصان پہنچا ہے جبکہ دہشت گردی اورملک کی مجموعی غیر یقینی صورتحال بھی توانائی کے شعبے میں کسی بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل ہو رہی ہے۔ توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ توانائی کے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا۔ جن پر قابو پانے کے لئے فوری اور طویل المدتی منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے کیونکہ اب یہ پاکستان کے سیاسی استحکام کا معاملہ بھی بنتا جا رہا ہے ۔


پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک توانائی کے بحران کا شکار ہیں جس کے باعث انہیں معیشت کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ماہرین یہ جائزہ لینے میں مصروف ہیں کہ اس بحران کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ عالمی رخ اختیار کرسکتا ہے ؟ اور اس صورت حال پر بھارت اور چین جیسے ممالک کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتیں کیا اثر ڈال رہی ہیں؟ اس وقت دنیا کی مضبوط ترین معیشتیں بھی توانائی کے بحران سے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں ۔

پیٹر سن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس نامی تھنک ٹینک سے منسلک سینئیر تجزیہ کار ولیم کلائین کہتے ہیں کہ کئی ممالک کو توانائی کی شدید قلت کا سامنا ہونے کے باوجود اس بحران کی نوعیت ابھی عالمی سطح کی نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر تیل کی قیمت ڈیڑھ سو سے دو سو ڈالرز فی بیرل ہو جاتی ہے تو پھر عالمی بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔ انفرادی سطح پر دنیا کے کئی ممالک کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے ۔ جو کبھی بجلی ، کبھی تیل اور کبھی ایندھن کی کمی کی شکل میں عام لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کررہی ہے ۔ ماہرین کی اکثریت اس سے متفق ہے کہ توانائی کی کمی کے مسئلے کی بڑی وجہ دنیا کا تیل پر حد سے زیادہ انحصار ہے ۔
ابھرتی ہوئی معیشتں ، مثلاً چین ، بھارت اور برازیل جیسے ممالک ہیں جن کی تیز رفتار صنعتی ترقی کو کئی ماہرین توانائی کے بحران کے لیے مورد الزام ٹہرارہے ہیں ۔ ان معیشتوں میں ترقی کی رفتار دیگر صنعتی ممالک کے مقابلے میں سالانہ اندازً تین فیصد زیادہ ہے اس لیے توانائی اور دوسرے خام مال کا استعمال بھی یہاں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ تاہم ولیم کلائین کی رائے میں توانائی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسئلے کے لیے صرف ابھرتی ہوئی معیشتوں کو ذمے دار ٹہرانا منصفانہ نہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ توانائی کے وسائل میں اضافے اور متبادل ذرائع کی تلاش کے لیے مناسب منصوبہ بندی نہ کرناہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بحران توانائی کی کسی بھی قسم کا ہو اس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی عوام نسبتاً زیادہ متاثر ہوتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہو ۔ ولیم کلائین کہتے ہیں کہ میری رائے میں اس کا حل بین الاقوامی سطح پر ہنگامی صورت حال کے لیے تیل کے ذخائر میں اضافہ کرنا، طویل مدت کے لیے تیل کی ایک بہتر اور مستحکم قیمت برقرار رکھنا اور کاربن سے پاک توانائی کی اقسام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔ عالمی حدت میں اضافہ توانائی کی قلت کے مسئلے کی شدت میں مزید اضافہ کر رہا ہے ۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت اور چین سمیت کچھ ممالک میں توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور ان کا استعمال بڑھانے کی کوششوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ماہرین کوتوقع کہ یہ ممالک نہ صرف متبادل ذرائع سے اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے میں آگے بڑھ سکیں گے بلکہ آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے میں بھی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے[/SIZE]۔[/SIZE]

DILRUBA G Monday, April 30, 2012 12:00 PM

[COLOR="Black"][SIZE="7"][B]پاکستان میں دہشت گردی
[/B][/SIZE][/COLOR]
[B][SIZE="5"]پاکستان اس وقت بدامنی اور دہشت گردی کی ایک لہر کی لپیٹ میں ہے جس پر پاکستان سے محبت رکھنے والا ہر دل پاکستان اور مسلمانوں کی سلامتی سے متعلق غمزدہ ،پریشان اور متفکر ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی ایک ناسور بن چکی ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے اب خود پاکستان بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا ناسور پنپ رہا ہے اور اب وہ اسے سمجھنے بھی لگا ہے اور اس کا علاج بھی تلاش کر رہا ہے۔ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور خودکش حملوں نے ایک مرتبہ پھر ملک کی سلامتی اور بقاءکو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے صف اول کا کردار ادا کرکے اپنی فوج اور عوام کے خون کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان سیاسی, معاشرتی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا ہے اور اس جنگ میں پاکستان نےچالیس ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور پاکستان کی معیشت کو ۷۰ ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

دہشت گردی ایک ایسا فعل یا عمل ہےجس سے معاشرہ میں دہشت و بد امنی کا راج ہو اور لوگ خوف زدہ ہوں،وہ دہشت گردی کہلاتی ہے۔ دہشت گردی کو قرآن کریم کی زبان میں فساد فی الارض کہتے ہیں۔ دہشت گردی لوگ چھوٹے اور بڑےمقا صد کےلئے کرتے ہیں۔ اسے کوئی فرد واحد بھی انجام دے سکتا ہے اور کوئی گروہ اور تنظیم بھی۔

یہ حقیقت ا ظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں۔ جس طرح رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے، اسی طرح دہشت گردی اور اسلام کا ایک جگہ اور ایک ہونا، نا ممکنات میں سے ہے۔ لھذا جہاں دہشت گردی ہو گی وہاں اسلام نہیں ہو گا اور جہاں اسلام ہو گا وہاں دہشت گردی نہیں ہو گی۔اسلام امن کامذہب ہے،قتل وغارت گری سے منع کرتاہے، جوایمان والے کوجان بوجھ کرقتل کرتاہے اس کیلئے سنگین سزاہے۔

اسلام کے معنی ہیں سلامتی کے۔ چونکہ ہم مسلمان ہین اور امن اور سلامتی کی بات کرتے ہیں۔ ‘ ہمارا دین ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو امن اور سلامتی نصیب ہو اور امن اور چین کی بنسری بجے۔ آ نحضرت صلعم دنیا میں رحمت العالمین بن کر آ ئے۔ اسلام اور دہشت گردی دو متضاد نظریات ہیں ۔اسلام احترام انسانیت کا درس دیتاہے جب کہ دہشت گردی بے گناہ انسانیت کے قتل اور خوف وہراس پیدا کرتی ہے۔

یہ امر شک اور شبہے سے بالا ہےکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان عرصہ سے دہشت گردوں کا شکار بنا ہوا ہے‘ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے بہت سارے مالی و جانی نقصانات ہوئے ہیں‘ اور ترقی کے میدان میں ہم بہت پیچہے رہ گئے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق دہشت گردی کے عمل کو کسی بھی مذہب یا قوم کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے۔

اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور اس حد تک سلامتی کا داعی ہے کہ اپنے ماننے والے کو تو امن دیتا ہی ہے نہ ماننے والے کے لیے بھی ایسے حق حقوق رکھے ہیں کہ جن کے ساتھ اس کی جان ،مال اور عزت محفوظ رہتی ہے۔طالبان اور القائدہ دہشت گردوں کا ایک گروہ ہے جو اسلام کے نفاذ کے نام پر اور شریعتِ محمدی کے نام پر، لوگوں کی املاک جلا رہا ہے اورقتل و غارت کا ارتکاب کر رہا ہے۔میدان جنگ میں بھی ظلم وبربریت سے اسلام منع کرتا ہے اور وہاں بھی بوڑھوں ، بچوں اور خواتین کے قتل سے روکتاہے.

کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ملک میں امن و امان قائم رکھنا اور شہریوں کی جان و املاک کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔دہشت گرد، دہشت گردی کے ذریعے ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا کر کے اور شہریوں کے جان و مال کو نقصان پہنچا کر خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں تاکہ حکو مت کو دباو میں لا کرحکومت سےاپنے مطالبات منوا لیں۔

اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلام خواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتے ہیں۔بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔

کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔ دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔اسلام میں فتنے کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔کسی بے گناہ کی طرف آلہ قتل سے اشارہ تک کرنا منع کیا گیاہے .دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں یہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے۔

اس وقت دنیا کو سب سے بڑا درپیش چیلنج دہشت گردی ہے اس پر سب متفق ہیں۔ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔ اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ برصغیرسمیت پُوری دنیا میں اسلام طاقت سے نہیں،بلکہ تبلیغ اور نیک سیرتی سے پھیلاجبکہ دہشت گرد طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔

ایک مُسلم معاشرے اور مُلک میں ایک مُسلمان دوسرے مُسلمان کی جان کا دُشمن ۔مُسلمانیت تو درکنار انسا نیت بھی اسکی متحمل نہیں ہو سکتی کہ کسی بھی بے گناہ کا خون کیا جائے۔یہ سفاکانہ دہشت گردی کرنے والے عناصر انسانیت کے قاتل ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، معصوم جانوں سے کھیلنے والے انسانوں کے روپ میں بھیڑیئے ہیں اور ان کا وجود پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے دہشت گردی کا تسلسل ملک کی سالمیت، قومی یکجہتی اورمعیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے، اس پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اور موثر لانگ ٹرم و شارٹ ٹرم حکمت عملی وضع کرنا ہو گی تاکہ اس ناسور کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو سکے،

چند برسوں سے وطن عزیز پاکستان مسلسل خود کش حملوں کی زد میں ہے۔ بے گناہ لوگوں کا قتل اور املاک کی بے دریغ تباہی ہو رہی ہے۔دہشت گردی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو ۷۰ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اللہ کے فرامین کو پس پشت ڈال دیا جائے اور احکام قرانی کا اتباع نہ کیا جائےتو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں، یہ عذاب الہی کی ایک شکل ہے۔ اللہ تعالہ فرماتے ہیں:

’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘) المائدة، 5 : 32(

کہو، وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔(سورۃ الانعام ۶۵)
وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور الللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)

ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق “ ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہ کرو)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا۔
تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایکدوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا ”جی ہاں۔
”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔”
مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔
” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔” صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا ” اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔”

قرآن کریم میں مفسد فی الارض اور محارب جو کہ دوسروں کی جان اور مال کو خطرہ میں ڈالتے ہیں ،کے لئے بہت سخت احکام بیان ہوئےہیں۔

ماسواےکسی کو قتل کرنے کے بدلے میں قتل کرنا اور زمین پر فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا ۔ ان دونوں صورتوں کے علاوہ کسی بے گناہ کا قتل کرنا جائز نہیں ہے۔

اسلام ہر سطح پر اور ہر موقع پر احترام انسانیت کا درس دیتا ہے ۔معمولی قسم کی دہشتگردی بھی خلاف اسلام ہے ۔جہاد کا معنی انسان کی نجی و اجتماعی اور ظاہری و باطنی بھلائی کے لیے بھرپور کوشش ہے۔ جہاد کا لفظ 35مرتبہ قرآن میں آیا ہے اور صرف 4مقامات پر جارح دشمن سے اپنے دفاع کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جبکہ بقیہ 31مقامات پر جہاد کہیں بھی قتال یا لڑائی کے معنی میں نہیں آیا۔

علمائے اسلام ایسے جہاد اور اسلام کو’’ فساد فی الارض ‘‘اور دہشت گردی قرار دیتے ہیں جس میں اپنے مخالف علماء ومشائخ کے گلے کاٹیں جائیں ،بے گناہ لوگوں حتی کہ عورتوں اور سکول کے بچوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیا جائے ،لڑکیوں کو گھروں سے اٹھا کر ان سے جبراً نکاح کیا جائے، جس میں اسلامی سٹیٹ کو تباہ اور بے گناہوں کو شہید کرنے کیلئے خود کش حملہ آوروں کو جنت کے ٹکٹ دیئے جائیں، جس میں جہاد فی سبیل اللہ کی بجائے جہاد فی سبیل غیر اللہ ہو، جس میں مساجد اور مزارات اولیاء پر بم دھماکے کر کے نمازیوں اور قرآن خوانی کرنے والوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیاجائے۔

جو شخص زمین میں فتنہ و فساد برپا کرے، ڈکیتی و رہزنی اور قتل و غارت کا بازار گرم کرے اور اپنے ان مذموم افعال کے ذریعہ امن و امان کو ختم کر کے خوف و دہشت کی فضا پیدا کرے، تو اس قسم کی صورت حال کو قرآن مجید میں حرابہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی معاشرے کے خلاف ایک سنگین جرم ہے لہٰذا اسلام میں اس کی سزا بھی سنگین ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{إِنَّمَا جَزَاء الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ } (33) سورة المائدة
”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں، ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دئیے جائیں یا سولی چڑھا دئیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور ایک طرف کے پاﺅں کاٹ دئیے جائیں یا ملک سے نکال دئیے جائیں۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لےے بڑا (بھاری) عذاب ہے۔“
قرآن مجید کی حرابہ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اور یہ دہشت گردی کی اصطلاح سے زیادہ وسیع ، جامع اور ہمہ گیر ہے، کیونکہ یہ خوف و دہشت، ظلم و ستم، قتل و غارت، ڈکیتی و رہزنی اور فتنہ و فساد کی تمام صورتوں پر محیط ہے، خواہ ان کا ارتکاب سیاسی، ذاتی، انفرادی، اجتماعی اور مادی کسی بھی قسم کے اغراض و مقاصد کی خاطر کیا گیا ہو، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام فتنہ و فساد اور دہشت گردی کا کتنا شدید مخالف ہے۔

اسلام نے واضح کر دیا ہے کہ ظلم، سرکشی، دہشت گردی، اور جبر کے خاتمے کے لئے مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے لیکن یہ جدوجہد صرف اور صرف حکومت ہی کا حق ہے۔ اسلام افراد اور گروہوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ جہاد کے مقدس نام پر پرائیویٹ افواج تیار کریں اور اس کے بعد عوام الناس کو دہشت گردی کا نشانہ بنائیں۔ اس بات پر چودہ صدیوں کے مسلم اہل علم کا اتفاق اور اجماع ہے۔ اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان الفاظ میں واضح فرمایا ہے۔

أخبرنا عمران بن بكار قال حدثنا علي بن عياش قال حدثنا شعيب قال حدثني أبو الزناد مما حدثه عبد الرحمن الأعرج مما ذكر أنه سمع أبا هريرة يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقي به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن أمر بغيره فإن عليه وزرا۔ (نسائی، ابو داؤد ، کتاب الامارۃ)

افراد اور گروہوں کو جہاد کی اجازت نہ دینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ مختلف گروہ جنگ میں حصہ لیں گے اور جب ان کا مشترک دشمن ختم ہوگا تو اس کے بعد یہ گروہ آپس میں ٹکرا جائیں۔ پرائیویٹ آرمیز کی موجودگی میں کبھی کسی معاشرے میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا.

کسی پاکستانی اور مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنے والے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ان کی یہ حرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان اور اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی کی آگ بڑھکا کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲)

طالبان پاکستان مین اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں مگر اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام کام برملا کر رہے ہیں جو قران و حدیث ،سنت نبوی اور اسلامی شرعیہ کے خلاف ہیں، لہذا ان کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا دعوی انتہائی مشکوک اور ناقابل اعتبار ہے۔

ہمارے دشمن کو ہماری ہی صفوں سے حمایت اور تقویت مل رہی ہے‘ جس کا وہ خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مذہبی جماعتوں ،سیاست اور میڈیا میں جو لوگ دانستہ یا نادانستہ دہشت گردوں کی حمایت کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا‘ تو وہ خود بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ ہماری سلامتی ‘ ہماری مسلح افواج کے ساتھ ہے۔ ہماری بقا کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ ہماری صفوں میں انتشار دہشت گردوں کے حوصلے اور طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔

افغان طالبان نے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کے قتل کے انتقام کے لئے اب تک نہ کوئی دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی عملی مظاہرہ ہوا ہے۔ بن لادن افغان طالبان کا مہمان اور ساتھی تھا جس کی خاطر افغان طالبان نے بہت سی قربانیاں دیں لیکن اس کے برعکس پاکستان کے طالبان نجانے کیوں معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اسامہ بن لادن کے قتل کا بدلہ لے رہے ہیں۔ یہ جہاد بالکل نہ ہے کیونکہ جہاد تو اللہ کی راہ مین کی جاتی ہے ،بدلہ لینا اسلامی شریعہ کے مطابق جہاد نہ ہے۔

جہاد وقتال فتنہ ختم کرنے کیلئے ہے ناکہ مسلمانوں میں فتنہ پیدا کرنے کیلئے۔طالبان قرآن کی زبان میں مسلسل فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہین۔معصوم شہری ، بے گناہ اور جنگ میں ملوث نہ ہونے والے تمام افراد ، نیز عورتیں اور بچوں کے خلاف حملہ “دہشت گردی ہے جہاد نہیں”۔۔۔۔۔ایسا کرنے والاجہنمی ہے اور ان کے اس عمل کو جہاد کا نام نہیں*دیا جاسکتا ۔ طالبان ملا عمر کے Code of Conduct کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

طالبان نے ملا عمر کی بیعت کی ہوئی ہے،ملا عمر پاکستان پر حملوں کو برا سمجھتے ہین مگر پاکستانی طالبان ملا عمر کی بیعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان مین معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

رسول کریم نے فرمایا کہ جنگ کی حالت میں بھی غیر فوجی عناصر کو قتل نہ کیا جاوے۔ ویسے طالبان کا جہاد ،پاکستان کے اور مسلمانوں کے خلاف مشکوک اور غیر شرعی ہے۔ مزید بران یہ کیسا جہاد ہے کہ خون مسلم ارزان ہو گیا ہے۔

اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان، دہشتستان بن گیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہماری جنگ ہے کسی اور کی نہیں؟۔ دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو جہنم بنا دیا۔ ۳۵ ہزار سے زیادہ لوگ مرگئے ۔ سرمایہ اور ذہانتیں ہمارے ملک سے ہجرت کر گئیں۔ کاروبار اجڑ گئے۔ بازاروں اور شہروں کی رونقیں ہم سے جدا ہوگئیں۔ عام پاکستانی کا دن کا چین اور رات کا سکون غارت ہوا اور ہم سب حیرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے ہین۔ بیرونی سرمایہ کاری صفر سے نیچے چلی گئی، ملازمتین ختم ہوئیں ،بیروزگاری میں اضافہ ہوا، دنیا میں ہم اور ہمارا ملک رسوا ہوگئے ۔نفرتوں اور تعصبات نے ہمارے معاشرے تار و پود کو تباہ کرکے رکھ دیا اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ گیا۔ ہماری مسجد، پگڑی اور داڑھی کا تقدس پامال ہوگیا اور تو اور داڑھی اور پگڑی والے بھی محفوظ نہ ہیں ۔
لہذا تمام اہل دانش اور علمائے کرام کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام اور جہاد کے صحیح اسلامی عقیدے سے آگاہ کریں اور انہیں طالبان اور القائدہ کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچائیں جو نہ کسی حرمت کا لحاظ کر رہے ہیں نہ قرآن و حدیث کے واضح فرامین کا پاس رکھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی ان نصوص پر غور کر کے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ دُشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بننے والوں کو بھی، اور جوش انتقام میں اندھا ہو جانے والوں کو بھی۔

مبصرین کے مطابق مولوی فقیر نائب امیر ٹی ٹی پی کی برطرفی کے بعد طالبان اب پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہوگئے ہیں اور اس کے کماندار بکھرے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے اور ٹی ٹی پی کا سٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ٹی ٹی پی کمزور تو ہو گئی ہے مگر کلی طور پر ختم نہ ہوئی ہے اور اب بھی پاکستانی شہریوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کئی دھڑوں میں تقسیم ہو کر 130سے زائد گروپوں میں بٹ گئی ہے، پاک فوج نے آپریشن اور امریکی ڈرونز حملوں نے اس کو کو کمزور کر کے رکھ دیا ہے ، پاکستان حکومت کے ساتھ ان کی کمزوری کے بعدامن مذاکرات کے بیانات آرہے ہیں ،مالی لحاظ سے عسکریت پسند انتہائی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں

فاٹا میں ایک سینئر محقق منصور محسود نے کہا ہے کہ “آج تحریک طالبان کا ڈھانچہ تقسیم اور کمزور ہوچکا ہے او ر انکے پاس رقم ختم ہوچکی ہے۔ یہ صورت حال پاک فوج اور حکومت کے لئے وسیع پیمانے پر معاون ثابت ہوئی ۔ یہ گروپ 2009میں اپنے رہنما بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد زوال کا شکار ہے۔ ان کی تقسیم میں پاک فوج کے آپریشن اور امریکی ڈرونز حملو ں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ دوسری بڑی وجہ عسکریت پسندوں کو تقسیم اور قابو کرنے کی پاک فوج کی حکمت عملی تھی ، کمانڈرو ں نے تحریک طالبان سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے گروپ بنا لیے ہیں جس سے ان کی تنظیم کمزور ہو چکی ہے۔ حکومت کے ساتھ امن مذاکرات جیسے بیانات اسی پس منظر کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں۔
تحریک طالبان کے گروپوں میں تقسیم ہونے سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر دباؤ میں ممکنہ کمی واقع ہو گی اور یہ تنظیم اب اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی اور یہ مزید ٹکروں میں تقسیم ہوجائے گی اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں مستقبل میں کمی واقع ہو گی ۔

مگر ہمیں روم کے نیرو کی طرح، بنسری بجاتے ہوئے اپنے ملک کو جلتا اور تباہ ہوتا نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ آ گے بڑہ کر مردانہ وار اسلام اور ملک کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

از اقبال جہانگیر[/B][/SIZE]

DILRUBA G Monday, April 30, 2012 01:53 PM

Dunia men tashaddud ka brhata huwa Rujhan.... Asbaab kya hen?

[url]http://www.theurdu.com/urdu/mazameen/2012/april/02/01.gif[/url]

Quaid ka tasswar e Pakistan

[url]http://www.salamurdu.com/wp-content/uploads/2011/06/Quaid-e-Azam-Ka-Tasawure-pakistan.gif[/url]

Amna Sunday, May 06, 2012 06:28 PM

انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کو فعال کرنے 
 
Date posted: April 28, 2012

[B][CENTER][SIZE="5"][SIZE="6"]انسدادِ دہشت گردی کی عدالتوں کو فعال کرنے کی ضرورت ۔۔۔۔۔۔۔۔ پروفیسر افراز احمد [/SIZE][/SIZE][/CENTER][/B]
[SIZE="4"]
برصغیر کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ مملکت کے حصول کا مطالبہ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر کیا تھا۔ نئی مملکت کو اسلام کی تجربہ گاہ قراردیا گیا۔آج تک ہم اس خواب کو عملی شکل تونہ دے سکے البتہ جس طرح یہاں دہشت گردی اور آگ و خون کا بھیانک رقص جاری ہے اور نت نئے طریقوں سے معصوم افراد کی جان لی جارہی ہے دہشت گردوں نے اس ملک کو اپنی تجربہ گاہ ضرور بناڈالا ہے۔ ٹارگٹ کلنگ، خود کش بمبار، جدید اسلحہ و گولہ بارود کے استعمال کے مختلف اورانوکھے طریقے بھرپور انداز میں اپنائے جارہے ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب انسان نما ان بھیڑیوں نے اپنے ہاتھ معصوم لوگوں کے خون سے نہ رنگے ہوں۔ یہ دہشت گرد اتنے چیرہ دست واقع ہوئے ہیں کہ ریاست ِ پاکستان ان کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔ اگر کوئی ادارہ ان پر ہاتھ ڈال بھی دے تو تحقیقات سے لے کر عدالتوں کے چکر تک اور پھر فیصلے سے لے کر سزا پر عملدرآمد تک کسی نہ کسی مرحلے میں وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ نامناسب تحقیقاتی نظام اور روایتی عدالتی کاروائیوں میں سقم انہیں پھر سے آزاد فضائوں میں لے آتا ہے جہاں وہ کچھ عرصہ بعد دہشت گردی کی نئی واردات کے لئے اڑان بھرجاتے ہیں۔اس طرح ایک طرف دہشت گردوں کے حوصلہ میں اضافہ ہوا ہے۔ دہشت گرد کی رہائی سے قانون نافذ کرنے والے ریاستی اداروں پر بھی عدالتی کارروائی سے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، جو جان جوکھوں میں ڈال کر خطرناک دہشت گردوں کا پیچھاکر کے اْنہیں انصاف کے کٹہرے میں لاکھڑا کر دیتے ہیں مگر ان اہلکاروں کی ساری محنت پر پانی پھیر دیا جاتا ہے انصاف کی فراہمی میں ناکامی سے نہ صرف معاشرہ بیمار پڑ جاتا ہے بلکہ اس سے انصاف کے دشمنوں کے حوصلے بلند ہو جاتے ہیں مقدمات میں تاخیری حربے بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہیں۔ 9فروری کو کراچی سنٹرل جیل میں قائم دہشت گردی کے مقدمات نمٹانے والی عدالت کی چھت جذوی طور پر گر گئی جس کی وجہ سے وہاں مقدمات کی کارروائی کو روک دیا گیا اس طرح اس عدالت میں 150 دہشت گردی کے مقدمات کی پیروی تاحال تاخیر کا شکار ہے ان مقدمات میں خطرناک ترین دہشت گرد ملوث ہیں۔ اتنے چھوٹے مسئلے پر اتنے اہم مقدمات جو بڑھتی دہشت گردی کے واقعات کے تناظر میں فوری کارروائی کے متقاضی تھے التواء کا شکار ہوگئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس عدالتی کمرے کی مرمت ابھی تک کیوں نہیں کی گئی ۔ یہ بھی ہوسکتا تھا کہ عدالت کی کارروائی اسی حدود میں کسی اور متبادل جگہ منتقل کردی جاتی۔ مگر شاید بیوروکریسی کی سست روی اور روایتی ہٹ دھرمی سے ایسا نہ ہوسکا۔ جیل انتظامیہ نے عدالت کو آگاہ کیا ہے کہ انہوں نے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے چیف انجینئر کو مرمت کے لئے لیٹر لکھ دیا ہے لیکن ابھی تک مرمت کا کوئی کام شروع نہیں ہوا۔ مرمت کے کام کے اس التواء نے انتہائی خطرناک دہشت گردوں کی گردن کے پھندے کو بھی دور کردیا ہے۔ جس کے پیش نظر کیسوں کو نمٹانے میں تاخیر کا رویہ ہماری عدالتوں کا خاصہ بن چکا ہے۔ کراچی میں تشدد، قتل ، دہشت گردی اور عسکریت پسندی سے متعلق مقدمات سے کی سماعت جاری ہے مگر پراسیکیوشن کے کامیاب ہونے کا امکان نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ سے کوئی راز نہیں ہے۔ کمزور تحقیقات اور ناکافی ثبوت مجرموں اور دہشت گرد تنظیموں کا خوف اور سست بیوروکریسی اس کی راہ میں حائل ہیں۔ ایسے مسائل صرف پاکستان میں نہیں پائے جاتے بلکہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ایسے مقدمات کی سماعت کے دوران ایسی پیچیدگیاں اور صورتحال درپیش ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے انصاف کی راہ میں حائل ہونے والے مشکلات کا حل بھی نکالا ہے۔ جس سے وہاں مقدمات کو تیزی سے نمٹانے اور مجرموں کو سزا کا عمل تیز ہوا ہے اور نتیجے کے طور پر جرائم اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی ہوئی ہے۔ پاکستان میں بھی دہشت گرد عدالتیں اسی مقصد کے لئے قائم کی گئی تھیں مگر کارکردگی سے اس مقصد کی تکمیل ہونا دور تک نظر نہیں آتا۔ جب تک ہم مقدمات کو کامیابی سے نہیں نمٹاتے، دہشت گرد اور جرائم پیشہ افراد اپنی مذموم سرگرمیوں کو بے خوفی سے جاری رکھیں گے۔ سپریم کورٹ کو چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں مزید اقدامات کرے اور ایسا سسٹم متعارف کروائے جس سے ہمارے سکون کو چھیننے والے دہشت گرد جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلے جائیں۔ جب تک دہشت گردی کے مقدمات میں نامزد ملزمان اور مشتبہ افراد کی مناسب تحقیقات، عدالتوں کے ذریعے ان کو سزائیں اور ان کی سزا پر عمل درآمد نہیں ہوگا پاکستان سے دہشت گردی کو ختم کرنے کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔اس خواب کو عملی شکل دینے کے لئے ایک ایسے مضبوط قانونی ڈھانچے کی ضرورت ہے جس میں وکلائ، پولیس، جج اور تحقیقات کرنے والے افراد آزادی ، بلاخوف و خطر اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دے سکیں تاکہ ان دہشت گردوں کو ان کے انجام تک پہنچایا جاسکے۔ نامناسب اور کمزور تحقیقات اور ثبوت کی عدم دستیابی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے اتنی بڑی تعداد میں یہ مشتبہ افراد رہائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ ایک دوسری وجہ جو انتہائی تشویش ناک ہے وہ دہشت گردی سے متعلقہ مقدمات کی تیاری کے دوران واستغاثہ اور متعلقہ افرار پر دبائو بھی ہے۔ ان ذمہ داریوں پر مامور افراد کو غیرمناسب انتظامی اور سیکورٹی ماحول میں کام کرنا پڑتا ہے۔ ان کی زندگی کو درپیش ان خطرات کے پیش نظر ان سے فرائض کی انجام دہی کی امید کیسے رکھی جاسکتی ہے۔یہ دہشت گرد سنگین نتائج کی دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ اتنے بااثر اور باخبر ہیں کہ ان مقدمات کی کارروائی پر مامور ان افسروں کے خاندانوں تک کا معلوم ہے۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ وہ ان کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنانے کی دھمکی دیتے ہیں۔ اس تناظر میں ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے مقدمات پر مامور تفتیش کاروں ، پراسیکیوٹرز اور ججوں کی شناخت کو خفیہ رکھا جائے۔دہشت گردوں کو عدالت کے کٹہرے میں لانے والے ان ریاستی کارکنوں کو خفیہ اور ان کی زندگیوں کو بچانے کے ساتھ ساتھ مقدمے کے چشم دید گواہوں کو بھی تحفظ فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لیے ضروری نظام ہمارے ہاں کمزور، ناقص اور درہم برہم معلوم ہوتا ہے اور اسے درست کرنے کے لیے جامع اور مؤثر پالیسی بنانے کی ضرورت ہے۔ محض سخت سے سخت قانون بنانے سے یہ معاملہ حل نہیں ہو سکتا بلکہ عدالتی نظام کی خامیوں کو دور کرنے، گواہوں اور ججز کو تحفظ دینے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جدید تربیت اور آلات کی فراہمی سے اس مسئلہ پر خاصی حد تک قابو پایا جا سکتا [/SIZE]ہ

Source :- dailyasas.com.pk


04:49 PM (GMT +5)

vBulletin, Copyright ©2000 - 2024, Jelsoft Enterprises Ltd.