فاصلے ہوتے گئے کم دل سے دل کے درمیاں*
کلام عقیدت
سید اقبال رضوی شارب
صرف قرآں تھام کر جو عمر بھر چلتا رہا
جادہِ حق کے سوا ہر اک ڈگر چلتا رہا
حُر یہ بولے شکر ہے حتماً ملی راہِ نجات
ذہن میں شب بھر مرے زیر و زبر چلتا رہا
خوابِ ابراہیم کی تکمیل تھی پیشِِ نظر
ذبحِ اعظم یوں سوئے کربل نگر چلتا رہا
قاتلانِ شہر بھی کہلائیں گے انسان دوست
سلسلہ باطل پرستی کا اگر چلتا رہا
ظلم کی ہر انتہا سے صبر کی حد ہے سوا
"رک گیا خنجر مگر نیزے پہ سر چلتا رہا"
لوٹ کر خیمے سے شہ کے کہہ رہے تھے یہ زہیر *
کیا حسیں منزل تھی لیکن میں کدھر چلتا رہا
فاصلے ہوتے گئے کم دل سے دل کے درمیاں
جادہِ سرور پہ شارب جب بشر چلتا رہا
*zuhair ibn e qain
He was reluctant to meet Imam initially, later had shown exemplary courage in defending Imam and his mission.
|