خاکی ہوں کچھ نہیں ہے مرے اختیار میں
kalam eaqueedat
سیداقبال رضوی شارب
تھی آرزو کہ عمر کٹے گی بہار میں
کتنی خزائیں دیکھ لیں اس اعتبار میں
انسان بد سے ہو گیا بدتر خدا قسم
جب ڈھیل پاگیا کبھی اپنی مہار میں
بیشک بہت نحیف ہیں لاغر ہیں ہم مگر
ثابت قدم ہی نکلیں گے عہد و قرار میں
کب تک رہوگے دور ہماری نظر سے تم
کیا کچھ کشش نہیں ہے ہماری پکار میں
دامن پہ کوئی داغ نہ ہی روح پر شکن
کاش ایسا کوئی ہوتا ہماری قطار میں
دیدار جانے کس گھڑی ہوگا خبر نہیں
صدیاں گزر گئی ہیں اسی انتظار میں
بس آپکی نظر پہ ہے موقوف زندگی
خاکی ہوں کچھ نہیں ہے مرے اختیار میں
دورِ جہاد میں بھی کسی کام آؤنگا
ہوں گے نہ یہ قدم کبھی راہِ فرار میں
آقا کے گرد یوں رہے عبّاسِ باوفا
جیسے کہ چاند گھوم رہا ہو مدار میں
ہو جاۓ اسکی روح کو بالیدگی عطا
شارب پھنسا ہے زیست کے لیل و نہار میں
|