View Single Post
  #14  
Old Tuesday, April 10, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default halqa e arbab e zauq

حلقہ ارباب ذوق

حلقہ ارباب ذوق اردو ادب کی سب سے فعال تحریکوں میں سے ایک ہے جو کہ ابھی تک جاری و ساری ہے۔
بقول یونس جاوید:

” حلقہ اربابِ ذوق ایک آزاد ادبی جمہوری ادارہ ہے اور بحیثیت تنظیم اس کا تعلق کسی سیاسی یا مذہبی جماعت سے نہیں۔
بقول سجاد باقر رضوی:
حلقہ اربابِ ذوق ایک مدت مدید سے ادبی خدمات کرتا چلا آیا ہے۔ ادیبوں کی یہ جماعت ملک کی وہ جماعت ہے جو ادب اور ثقافت کو پروان چڑھاتی رہی ہے۔
ترقی پسند تحریک
اردو ادب کی ایک طوفانی تحریک تھی اس تحریک نے بلاشبہ خارجی زندگی کا عمل تیز کر دیا تھا چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک ایسی تحریک بھی مائل بہ عمل نظرآتی ہے جس نے نہ صرف خارج کو بلکہ انسان کے داخل میں بھی جھانک کر دیکھا جس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق “ ہے۔ حلقہ اربابِ ذوق اور ترقی پسند تحریک کو بلعموم ایک دوسرے ی ضد قرار دیا جاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ داخلیت اور مادیت و روحانیت کی بناءپر ان دونوں میں واضح اختلاف موجود ہے۔ ترقی پسندوں نے اجتماعیت پر زور دیا جبکہ حلقے والوں نے انسان کو اپنے شخصیت کی طرف متوجہ کیا ، ایک کا عمل بلاواسطہ خارجی اور ہنگامی تھا جبکہ دوسری کا بلاواسطہ داخلی اور آہستہ ہے۔
آغاز

29 اپریل 1939ءکو سید نصیر احمد جامعی نے اپنے دوستوں کو جمع کیا جن میں نسیم حجازی ، تابش صدیقی ، محمد فاضل وغیرہ شامل ہیں اور ایک ادبی محفل منعقد کی نسیم حجازی نے اس میں ایک افسانہ پڑھا اور اس پر باتیں ہوئیں اس کے بعد اس محفل کو جاری رکھنے کے لیے ایک منصوبہ بنایا گیا اور رسمی طور پر اس کا نام ” مجلس داستان گویاں‘’ رکھ دیا گیا بعد میں اس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق “ رکھ دیا گیا۔
اغراض و مقاصد

قیوم نظر نے اپنے انٹرویو میں اس تحریک کے جو اغراض و مقاصد بیان کئے گئے وہ مندرجہ ذیل ہیں۔
*1 اردو زبان کی ترویج و اشاعت
*2 نوجوان لکھنے والوں کی تعلیم و تفریح
*3 اردو لکھنے والوں کے حقوق کی حفاظت
*4 اردو ادب و صحافت کے ناسازگار ماحول کو صاف کرنا
ادوار:۔

*1 ابتداءسے میراجی کی شمولیت تک ( اپریل 1939ءسے اگست 1930ءتک
*2 میراجی کی شمولیت سے اردو شاعری پر تنقید کے اجراءتک (اگست 1940ءسے دسمبر 1940ءتک
*3 دسمبر 1940ءسے 1947ءمیں قیام پاکستان تک *4 1948ءسے مارچ 1967ءمیں حلقے کی تقسیم تک *5 مارچ 1967ءسے زمانہ حال 1976ءتک

پہلا دور

پہلے دور کی حیثیت محض ایک تعارفی دور کی ہے
دوسرا دور

دوسرا دور تشکیلی نوعیت کا ہے اس میں مضامین پر تنقید کا سلسلہ شروع ہوا اور حلقے کی مجالس میں تخلیقات کے لیے نئے تجربے پیش کرنے کا آغاز ہوا
تیسرادور

تیسرا دور خاصا طویل ہے اس دور میں حلقے نے ایک منظم اور فعال تحریک کی صورت اختیار کی حلقے کا نظریہ یہ تھا کہ ادب زندگی سے گہراتاثر لیتا ہے۔ اس دور میں حلقے نے زندگی کی ان قدروں کو اہمیت دی جن کی صداقت دوامی تھی اس کے علاوہ ادیب کو تخلیقی آزادی دی گئی حلقے نے زندگی کے ساتھ بلواستہ تعلق قائم کیا اس دور میں جس بحث نے سب سے زیادہ اہمیت حاصل کی وہ ”ادب برائے ادب “ اور ”ادب برائے زندگی “ کی بحث تھی اس دور میں نہ صرف شاعری نے ترقی کی بلکہ افسانے کی صنف میں بھی واضح تبدیلی کے آثار پیدا ہوئے۔ تحریک کی تاثریت ، علامت نگاری ، وجودیت ، وغیرہ کو جن سے ترقی پسند تحریک گریزاں تھی حلقہ اربابِ ذوق کے ادباءنے ہی اردو سے روشناس کرایا ۔ اس کے علاوہ تنقید کو اہمیت دی گئی اور نئی نظم کی تحریک پروان چڑھایا۔
چوتھا دور

چوتھا دور 1947ءسے 1967ءتک پھیلا ہوا ہے۔ اس دور میں میراجی کی وفات ایک ایسا واقعہ ہے جس نے حلقہ ارباب ذوق کو شدت سے متاثر کیا حلقہ اس مرکزی فعال شخصیت سے محروم ہو گیا اب حلقے پر روایت کی گرفت کمزور پڑنے لگی۔ ہفتہ وار مجالس میں تنقید کا رخ ذاتیات کی طرف مڑنے لگا اس لیے جب ادباءکے احتساب ،جواب طلبی اور خراج کا سلسلہ شروع ہوا تو حلقے کی تحریک بلاواسبہ طور پر متاثر ہونے لگی ۔ انجمن ترقی پسند مصنفین کی سیاسی پابندی نے بھی حلقے کو براہ راست متاثر کیا اس کے علاوہ نظریاتی تنقید کے برعکس عملی تنقید کا دور دورہ شروع ہونے لگا۔ ترقی پسند تحریک پر پابندی کے بعد ایک مرتبہ پھر ترقی پسند ادباءکی توجہ حلقے کی طرف مبذول ہوئی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے پر ترقی پسند ادباءکا سیاسی تسلط آہستہ آہستہ مستحکم ہونے لگا نتیجہ یہ ہوا کہ ادب کا فریم آہستہ آہستہ شکستہ ہوگیا اور اس کے بجائے سیاست کا فریم روز بروز مضبوط ہونے لگا۔ چنانچہ جب ادب پر سیاست غالب آگئی تو حلقہ دو الگ الگ حصوں میں بٹ گیا چنانچہ حلقے پر قابض انقلابی گروہ کو ”حلقہ اربابِ ذوق سیاسی “ کا نام دیا گیا اور دوسرا ”حلقہ اربابِ ذوق ادبی “ کہلانے لگا۔
حلقہ اربابِ ذوق سیاسی

1967ءسے 1975ءتک
حلقہ اربابِ ذوق سیاسی نے تین سالوں میں حلقے کی قدیم روایت کو توڑنے اور نئی اقدار کو بروئے کار لانے کی کوشش کی ۔ ان کا نقطہ نظر مارکسی نظریات سے ماخوذ تھا اس لیے بدلے ہوئے حالات میں اس خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی اور حلقہ اربابِ ذوق میں ایک ایسی تحریک پیداہوئی جسے نو ترقی پسندی سے موسوم کرنا درست ہے۔ چنانچہ بہت سے نوجوان ادباءجو ابھی تک اپنے نظریات کی جہت متعین نہیں کر سکے تھے اس نئی تحریک میں شامل ہو گئے ان میں افتخار جالب کو اہمیت حاصل ہے۔ نو ترقی پسند ی کی تحریک شروع ہوئی تو انہوں نے نہ صرف اس تحریک میں شرکت اختیار کی بلکہ اپنے پرانے نظریات اور تخلیقات سے دست برداری کا اعلان بھی کردیا۔ حلقے نے ترقی پسندی کو بالخصوص فروغ دیا چنانچہ اس دور میں حلقے نے قومی اور بین الاقوامی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی ۔ مباحثوں میں چونکہ سیاست کو بالخصوص توجہ حاصل ہوئی اس لیے اکثر اوقات تنقید نے ہنگامی حالات اختیار کرلی ۔ سیاسی حلقہ اربابِ ذوق کا کارنامہ ہے کہ اس نے بن لکھے دستور پر عمل کی روایت کو ختم کر دی اور حلقے کے لیے ایک تحریری آئین منظور کر وایا۔ اس دور میں سیاسی حلقے کا ایک اور کارنامہ وسیع المقاصد کا انعقاد بھی ہے۔ مندرجہ بالا بحث سے ظاہر ہوتا ہے کہ حلقہ اربابِ ذوق سیاسی کا کردار بنیادی طور پر انقلابی ہے اور اس کے نظریات میں مادی خارجیت کواہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ اب اس تخلیقی عمل سے ہم آہنگ ہونے کے بجائے سیاست کے عمل کا تابع ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ گزشتہ تین سالوں (٢٧۔ ٥٧) میں حلقہ ارباب ِ ذوق سیاسی نے نئے انقلابی اقدامات سے قدیم حلقے کی بیشتر روایات توڑ دی لیکن تاحال کسی نئی روایت کو جنم نہیں دیا۔
حلقہ اربابِ ذوق ادبی

1967ءسے 1975ءتک
متذکرہ بالا تین سالوں میں ادبی حلقے نے پرانی روایات کو قائم رکھنے کی کوشش کی تاہم ایک بڑے ”کل “ سے کٹ جانے کے بعد ذاتی رنجشوں کا جو سلسلہ شروع ہواتھا ادبی حلقہ ان سے اپنا دامن نہیں بچا سکا ۔ اس کوئی شک نہیں کہ ادبی حلقے کے ہفتہ وار اجلاس باقاعدگی سے منعقد ہوئی چنانچہ ایک حلقے کے ادباءدوسرے حلقے میں بالعموم شریک ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ ادیب ایک حلقے میں غزل پڑھتا ہے اور اسی روز دوسرے حلقے میں نظم سنا آتا ہے شرکاءمحفل کے وقت کا نصف اول اےک حلقے میں اور نصف ثانی دورے حلقے میں صرف ہوتا ہے اور سربرآوردہ ادباءبلا تحصیص دونوں حلقوں کی صدارتیں قبول کر لیتے ہیں۔چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ نظریاتی اختلاف کے باوجود اختلاف کہ باوجود دونوں حلقے ایک دوسرے کے ادبی حریف نہیں بن پائے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ ادب میں آگے بڑھنے اور نیا نقطہ پیدا کرنے کا رجحان فروغ نہیں پاسکا۔ اس لیے ادبی حلقے کو سیاسی حلقے میں ممیز کرنا ممکن نہیں رہا اور اب یہ کہنا درست ہے کہ حلقے کی تقسیم سے ادب کوفائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان پہنچایا۔ اور ادباءنہ صرف اپنی ذاتی پہچان سے محروم ہو رہے ہیں بلکہ اس گرد آلود فضامیں ان کا ادب بھی گدلا ہو رہا ہے۔ بلاشبہ حلقہ اربابِ ذوق میں ضابطے کی کاروائی تو اب بھی مکمل ہورہی ہے لیکن مجموعی اعتبار سے اس فعال تحریک پر جمود اور یکسانیت کی کیفیت طاری ہے اور اب یہ کسی نئے مردراہ کی تلاش میں ہے۔
حلقہ اربا بِ ذوق کی شاعری

شاعری کے حوالے سے حلقہ اربابِ ذوق کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ بلاشبہ حلقے نے نئی نظم کو فروغ دینے میں قابل قدر خدمات سرانجام دی ۔ حلقہ اربابِ ذوق کی ابتداءافسانہ خوانی سے ہوئی تھی میراجی نے اس کا رخ تنقید کی طرف موڑا ۔ حلقے کے رفقاءمیں یوسف ظفر ، قیوم نظر، تابش صدیقی اور حلقے کی مرکزی شخصیت میراجی کا شمار نئے شعراءمیں ہوتا ہے۔ اس لیے بہت جلد حلقے کا رخ شاعری کی طرف ہو گیا۔ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں بنیادی اہمیت اس حقیقت کو حاصل ہے کہ شاعر خارج اور باطن دو دنیائوںمیں آہنگ اور توازن کس طرح پیدا کرتا ہے ۔ حلقے نے داخل کے اس نغمے کو جگانے کی کوشش کی اس لیے اس شاعری میں مشاہدے کی جہت خارج سے داخل کی طرف سفر کرتی ہے۔ چنانچہ حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری درحقیقت دھندلے اجالے سے حسن ، نغمہ اور سحر پیدا کرنے کی شاعری ہے۔
حلقہ اربابِ ذوق کا افسانہ

حلقے کی تخلیقی جہتنے ارد و افسانے کو بھی متاثر کیا اور بیشتر ان جذبوں کی نشاندہی کو جو اظہار کی راہ نہیں پاتے اس ضمن میں حلقے کے افسانہ نگاروں نے نفسیات کے علم سے کما حقہ فائدہ اُٹھایا اور کہانی بیان کرنے کے بنیادی فریضے سے بالمعموم کوتاہی برتے بغیر پلاٹ کردار اور فضاءسے جدید افسانے کا تارو پود مرتب کیا۔ حلقے کے افسانہ نگاروں نے معاشرے کے داغ نمایاں کرنے کی بجائے ان غیر مرئی جذبات کو افسانے میں شا مل کیا ۔ جن سے احتراز ِ خیال پیدا ہوتی تھی ۔ اور بوقلمو فطرت کا کوئی نہ کوئی ذریعہ سامنے آجاتا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ حلقے میں داستان اور افسانے کو ہی اہمیت حاصل تھی ۔ تنقید کا اولین نشتر بھی افسانے پر ہی آزمایا گیا ۔ میراجی کی شمولیت سے اگرچہ شاعری کو زیادہ تقویت ملی تاہم افسانے کی صنف بھی محرومی توجہ نہیں ہوئی۔
حلقہ اربا ب ِذو ق کی تنقید

حلقہ اربابِ ذوق نے تنقید میں یکسر مختلف رویہ قبول کیا۔ اور ابہام کے برعکس فن پارے کے بے رحم تجزیے کا رجحان پیدا کیا۔ حلقہ اربابِ ذوق کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس نے فن پارے کے حسن قبح کے فیصلے کو محض ذاتی تاثر کی میزان پر نہیں تولا فیصلے کے لیے جواز مہیا کرنا ضرور ی قرار دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ جب حلقے کی تاسیس عمل میں آئی تو ترقی پسند تحریک نے مقصدیت اور افادیت کو اتنی اہمیت دے دی تھی ، کہ فن پارے کی تنقید میں سب سے پہلے یہی معیار آزمایا جاتا ۔ یوں تنقید کے فنی اور جمالیاتی زاویوں سے یا تو اغماض برتا جاتا یاانھیں بالکل نظرانداز کر دیا جاتا۔ حلقے نے فن میں حسن کی دائمی قدروں کو اجاگر کرنے کی سعی کی تھی چنانچہ تنقید فن میں بھی یہی زاویہ حلقہ اربابِ ذوق کا امتیازی نشان بن گیا۔ اور اس دور میں جب ”ادب برائے زندگی “ کا نعرہ بلند ہوا تو حلقے نے ”ادب برائے ادب “کے نظریے کو پروان چڑھانے کی کوشش کی ۔نتیجہ یہ ہوا کہ حلقے کی تنقید میں فن کا جمالیاتی پہلو زیادہ نمایاں ہوا۔ اور تخلیقات سے ان زاویوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی۔ جن سے عالمگیر انسانیت سے ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا تھا۔ اور روح احتراض اور بالیدگی کی کیفیت محسوس کرتی تھی ۔
مجموعی جائزہ

حلقے نے اپنے عہد کی مضبوط ترقی پسند تحریک کے خلاف نظریاتی محاربے کی شدید فضا بھی پیدا کی تاہم حلقے نے سیاست گری کے بجائے سیاست کے اثرات کو ادب کا موضوع بنایا ۔ اور کئی ایسی تخلیقات پیش کیں جن کی پیش قدمی مستقبل کی طرف تھی اور ان میں اپنے عہد کا سماجی شعور بھی موجود تھا۔ ان زاویوں سے دیکھیے تو حلقہ اربابِ ذوق کی تخلیقی جہت نیم کلاسیکی اور نیم رومانی ہے اور یہ اتنی لچک دار ہے کہ اس میں مختلف نظریات باآسانی سما جاتے ہیں۔ حلقہ اربابِ ذوق تاحال ایک زندہ تحریک ہے اس کی تقسیم نے اس کے مرکزی کردار مزاج اور تخلیقی رفتار کو متاثر کیا ہے۔ تاہم ایک مضبوط پلیٹ فارم کی موجوگی نے اس کی عملی زندگی کو ابھی تک قائم رکھا ہوا ہے۔ چنانچہ ابھی یہ فیصلے کرنا ممکن نہیں کہ اس کا مستقبل کیا ہوگا۔
بقولاحمد ندیم قاسمی
حلقہ ارباب ذوق آغاز میں تو صرف ایک شہر اوروہاں کے چند اہل فہم تک محدود تھا ۔ مگر آہستہ آہستہ اس نے ایک ملک گیر تحریک کی صورت اختیار کر لی۔
بقول ڈاکٹر تاثیر :
حلقہ اربابِ ذوق نے برسوں مسلسل انتھک کام سے ثابت کر دیا ہے کہ ادبی دائرہ میں ادبی اقدار کا احترام یہیں کیا جاتا ہے۔
بقول قیوم نظر:
” ابتداءمیں اس انجمن کی روش عام ادبی انجمنوں کی سی تھی لیکن جب اس میں باقاعدہ ”نقد و نظر“ کا آغاز ہوا اور تنقید کے جدید اصول حلقے کی ادبی محفلوں کے سامعین کے سامنے آئے تو حلقہ ایک تحریک کی صورت اختیار کرنے لگا۔“


Reply With Quote
The Following User Says Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Monday, April 16, 2012)