View Single Post
  #1  
Old Tuesday, April 10, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Meer Taqi Meer:Fikr o Fun

میر تقی میر

محمد تقی المعروف مير تقّى مير ـ اردو كے عظیم شاعر تھے. اردو شاعرى ميں مير تقى مير كا مقام بہت اونچا ہے ـ انہیں ناقدین و شعرائے متاخرین نے خدائے سخن کے خطاب سے نوازا۔ وہ اپنے زمانے كے ايكـ منفرد شاعر تھے ـ آپ كے متعلق اردو كے عظیم الشان شاعرمرزا غالب نے لکھا ہے ـ

ریختے كےتمہی استاد نہیں ہو غالب ـ
کہتے ہیں اگلے زمانے ميں كوئى مير بھی تھاـ


میر تقی میر تخلص ، آگر ہ میں 1723ءمیں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد کا نام محمد علی تھا لیکن علی متقی کے نام سے مشہور تھے۔ اور درویش گوشہ نشین تھے۔ میر نے ابتدائی تعلیم والد کے دوست سید امان للہ سے حاصل کی۔ میر ابھی نو برس کے تھے کہ وہ چل بسے ان کے بعد ان کے والد نے تعلیم و تربیت شروع کی۔ مگر چند ہی ماہ بعد ان کا بھی انتقال ہو گیا۔ یہاں سے میر کی زندگی میں رنج و الم کے طویل باب کی ابتداءہوئی۔


ان کے سوتیلے بھائی محمد حسن نے اچھا سلوک نہ کیا۔ تلاش معاش کی فکر میں دہلی پہنچے اور ایک نواب کے ہاں ملازم ہو گئے ۔ مگر جب نواب موصوف ایک جنگ میں مارے گئے تو میر آگرہ لوٹ آئے۔ لیکن گزر اوقات کی کوئی صورت نہ بن سکی۔ چنانچہ دوبارہ دہلی روانہ ہوئے اور اپنے خالو سراج الدین آرزو کے ہاں قیام پذیر ہوئے ۔ سوتیلے بھائی کے اکسانے پر خان آرزو نے بھی پریشان کرنا شروع کر دیا۔ کچھ غم دوراں کچھ غم جاناں ،سے جنوں کی کیفیت پیدا ہو گئی۔
میر کا زمانہ شورشوں اور فتنہ و فساد کا زمانہ تھا۔ ہر طرف صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بالآخر میر گوشہ عافیت کی تلاش میں لکھنؤ روانہ ہو گئے۔ اور سفر کی صعوبتوں کو برداشت کرنے کے بعد لکھنو پہنچے ۔ وہاں ان کی شاعری کی دھوم مچ گئی۔ نواب آصف الدولہ نے تین سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کر دیا۔ اور میر آرام سے زندگی بسر کرنے لگے۔ لیکن تند مزاجی کی وجہ سے کسی بات پر ناراض ہو کر دربار سے الگ ہو گئے۔ آخری تین سالوں میں جوان بیٹی او ر بیوی کے انتقال نے صدمات میں اور اضافہ کر دیا۔ آخر اقلیم سخن کا یہ حرماں نصیب شہنشاہ 1810ءمیں لکھنو کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گیا۔



میر تقی میر کے محاسنِ کلام
میرتقی میر کے نمایاں محاسنِ کلام درج ذیل ہیں
:
عہد کا ترجمان
میر کا عہد افراتفری اور طوائف الملوکی کا عہد تھا۔ اگر میر میں زمانے کی چوٹ کھانے اور زخم سہنے کی عادت نہ ہوتی تو زمانے کی بھیانک آندھی کے سامنے ان کی شخصیت اور شاعری کا چراغ گل ہوجاتا اس لئے میر کی رام کہانی اس عہد کی داستان معلوم ہوتی ہے۔ میر کی تنہائی پسندی اورخلوت نشینی انہیں اپنے عہد اور ماحول کی ترجمانی سے باز نہ رکھ سکی۔ اس عہد کی افراتفری، ذہنی انتشار، سکون کی تلاش، شرفاء کی پریشان حالی اور معاش کی قلت کی جیتی جاگتی تصویریں ہمیں ان کے کلام سے ملتی ہیں۔


میر کی دنیا میں عشق کی حکمرانی ہے جس میں ان کے خاندان کی تہذیب اور معاشرتی روایات کو بڑا دخل ہے ان کو شروع ہی سے عشق و محبت کی تعلیم دی گئی تھی


اگر چہ میر کی دنیا میں غم کی حکمرانی ہے۔ لیکن یہ غم نہ تو روایتی ہے اور تخیل کی پیداوار بلکہ داخلی اور خارجی زندگی کا حقیقی عطیہ ہے۔ اس غم میں استقامت، حوصلہ مندی، غیرت و حمیت بلندی اور وقار ہے۔ وہ غم میں ڈوب کر ابھرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کا مردانہ وار مقابلہ کرتے ہیں۔ اس لئے ان کے غم میں ایک سنبھلی ہوئی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ میر کا غم انفرادی ہی نہیں بلکہ آفاقی بھی ہے۔ اس سے انسان کی عظیم جدوجہد کا اندازہ ہوتا ہے۔ غم انسانی زندگی کا لازمی جزو ہے۔ انسانیت غم سے اور زیادہ سنورتی ہے یہ غم ہی ہے جس نے میر کی شاعری میں حسن، موسیقیت، معصومانہ تخیل اور روانی و تاثر پیدا کردیا ہے۔



جذبات کی قربانی
جب میر اپنے جذبات کی ترجمانی کرتے ہیں تو ان کے اشعار میں حیرت انگیز سادگی پائی جاتی ہے۔ جب وہ اپنے احساسات اور تاثرات کو صفائی اور درد انگیزی کے ساتھ بیان کرتے ہیں تو ان کے اشعار میں ایسا ترنم پیدا ہوتا ہے گویا ان کی روح موسیقی میں آبسی ہے وہ الفاظ میں ایسا جادو بھردیتے ہیں جس سے دل پر چوٹ سے لگتی ہے۔ میر نے اپنے غم انگیز وجدان سے ایک الگ دنیا تعمیر کی ہے جو اپنی عظمت اور رنگ روپ کے اعتبار سے بالکل نئی ہے۔ ان کی شاعری میں رمزیت بھی پائی جاتی ہے



خودداری
میر کی ایک اور خصوصیت ان کی غیرت اور خودداری ہے۔ وہ امراء اور روسا سے میل جول کو پسند نہ کرتے تھے کہ اس سے ان کی خودداری کو ٹھیس نہ لگے۔ وہ بے حد کم گو اور آزاد طبیعت واقع ہوئے تھے۔ مفلسی اور درویشی نے ان کی اعلی ظرفی کو اور بلند تر کردیا تھا ان کی خودداری کا ایک سبب تو طبعی تھا۔ دوسرے انہیں اپنی وضع کا بہت پاس تھا



تصوف و فلسفہ
میر تصوف کے نہیں تغزل کے شاعر ہیں لیکن اس دور کے رواج کے مطابق ان کی شاعری میں عارفانہ مضامین بھی ملتے ہیں۔ اسی طرح ان کی شاعری میں فلسفہ کا اثر بھی پایا جاتا ہے۔ لیکن یہ فلسفہ کوئی ٹھوس حقیقت نہیں ہے۔



مرقع نگاری
میر کے کلام میں حقیقت اور اصلیت بھرپور انداز میں ملتی ہے وہ ایک ایسے مصور ہیں کہ ان کے لفظی مرقعے ہماری آنکھوں کے سامنے جیتی جاگتی تصویریں معلوم ہوتے ہیں۔ یہ مرقع نگاری داخلی اور خارجی اثرات دونوں کی ہے۔ ان میں جذباتِ انسانی بھی ہے اور مناظر قدرت بھی ہیں۔ ان کے کلام میں انفرادی اور اجتماعی شعور کا حسین امتزاج ملتا ہے۔



فارسی تراکیب اور تشبیہات
میر کو اسالیب بیان پر بڑی قدرت حاصل تھی انہوں نے اکثر فارسی تراکیب یا ان کے ترجموں کو انتہائی خوبصورتی سے اپنے کلام میں سمویا ہے۔ اسی طرح تشبیہیں اور استعارے جو ہر شاعری کی جان ہوتی ہیں اگر خوبصورتی سے برتے جائیں تو شعر کا حسن دوبالا کردیتے ہیں۔ میر نے ان کا استعمال بھی دلکش انداز میں کیا ہے
Source:
http://www.guesspapers.net/6160/%D9%...5%DB%8C%D8%B1/
Reply With Quote
The Following 2 Users Say Thank You to siddiqui88 For This Useful Post:
Hamidullah Gul (Tuesday, April 10, 2012), Mugheera (Sunday, April 15, 2012)