View Single Post
  #1  
Old Friday, April 27, 2012
Amna's Avatar
Amna Amna is offline
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default Urdu Essay For PMS

Assalam o Alaikum ,

Here is a thread to share the some material regarding Urdu essay , will be helpful preparing Urdu essay ,InshaAllah.

Most of the Compitative exam aspirant focus on English , and somehow ignore importance of Urdu essay and suppose it a easy one. It is also an important subject in compitative exams and requires special skills in writing .

In PMS Urdu Essay comprises of 40 marks and of Tehsildar, it is of 50 marks.

Tips for Urdu Essay writing



1.Read all given topic carefully and I suggest spend atleast (5-10 )min to selecting the topic.(while reading a topic actually we are recalling what we know about this topic or judging your knowledge, if we done it correctly ,the remaining task become easy and smooth )

2.Select the topic about which you are sure that you have sufficient knowledge about it.

3. Make outline of all points, facts comes in your mind and after that rearrange these.

4. Essay should consists on three parts ( Introduction , explanation and conclusion)

5. Opening paragraph (Introduction ) should be flawless, eye-catching and should clearly depict the main theme and ones approach toward the selected topic.

6.In explanation (Body of essay ) write its importance ,facts, figures, scenarios(national , international , local ), causes , remedies,

7.Try to put facts in sequence and keep your self on track .

8. Try to avoid repetition .

9. Decorate the essay with relevant quotations, couplets, Ahadiths, where required (Try to avoid over -decoration :-)).

8.In the last paragraph summarize all your effort and try to enclose it with the positivism

Wish You all the best.







مستقبل کے نازک مرحلے
الطاف حسن قریشی

ہم پر مشکل وقت آن پڑا ہے جسے حوصلے، دانش مندی اور ایثار سے عظیم امکانات میں تبدیل کیا جاسکتا ہے،بالکل اسی طرح جیسے اندھیری رات میں چمکنے والے اَن گنت ستارے اپنے خون سے سحر پیدا کرتے ہیں زندہ قومیں آفات اور مسائل سے گھبرانے کے بجائے اُن کے اسباب کے سائنٹیفک تجزیے اور اُن کے حل پر اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہیں۔ قیامِ پاکستان کے وقت برصغیر کے مسلمانوں کو آگ و خون کے دریا عبور کرنا پڑے تھے اور تبھی سے اس کے وجود کو طرح طرح کے خطرات لاحق ہیں۔ اس کا نظریاتی تشخص , اس کا اسٹریٹجک محلِ وقوع، اس کی ایٹمی صلاحیت، اس کی عظیم فوجی طاقت اور اس کی بیش بہا افرادی قوت اسے عالمی برادری میں ایک ممتاز مقام عطا کرتی ہیں جبکہ یہی اثاثے ہمارے لیے ایک چیلنج کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ یہ نیا ملک جن علاقوں پر مشتمل تھا، وہ سیاسی، اقتصادی اور سماجی اعتبار سے بے حد پس ماندہ اور جاگیر دارانہ نظام کے قبضے میں تھا جس نے جمہوری مزاج، جمہوری روایات اور جمہوری اداروں کو پنپنے اور مضبوط ہونے نہیں دیا بدقسمتی یہ کہ خاندانی موروثیت نے سیاسی جماعتوں پر بھی غلبہ حاصل کر لیا۔ وہ سیاسی قیادت جس نے قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، وہ ابتدائی چند برسوں ہی میں دنیا سے رخصت یا وڈیروں اور سرداروں کی ریشہ دوانیوں کے سامنے بے بس ہو گئی۔ اس قومی حادثے اور بھارت کے معاندانہ رویے کے باوجود ہمارا ملک ترقی اور خوشحالی کی راہ پر چلتا رہا جبکہ ہماری قوم دیانت دار قیادت سے محروم رہنے کے باعث بہت پیچھے رہ گئ ۔


آج ہمیں جن بڑے بحرانوں کا سامنا ہے اُن کا بڑا سبب عوام کی بدحالی بے چارگی اور تعلیم کی کمی جبکہ خواص کی بے حسی خود غرضی اور حد سے بڑھی ہوئی مفاد پرستی اور اخلاقی پستی ہے۔اَن گنت سیاسی اور نفسیاتی بیماریوں کے سبب ملکی معاملات پر سیاست دانوں کی گرفت کمزور ہونے سے فوج کو بار بار اقتدار میں آنے کا موقع ملا۔ فوجی سوچ سیاسی سوچ سے یکسر مختلف ہے کیونکہ سیاسی عمل مشاورت کو فروغ اور فوجی اقتدار آمریت اور مرکزیت کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ ہماری ۶۵ سالہ تاریخ میں فوج کو براہِ راست تیس برس سے زائد حکومت کرنے کا موقع ملا ہے جبکہ پس پردہ فیصلہ سازی پر اثر انداز ہونے کی مدت اور بھی طویل ہے جس میں زیادہ تر سنگین اور تاریخ شکن بحران آتے رہے۔ فوجی آمریت نے ہمارے معاشرے کا سیاسی اخلاقی اور سماجی تارپود بکھیر ڈالا طاقت کے استعمال کا چلن عام کیا اور اس چلن کا اس قدر غلبہ ہوا کہ ہماری سول بیوروکریسی اور ہماری سیاسی قیادتیں بھی آمرانہ طور و طریق سے فیصلے کرنے لگیں ۔ یہی ذہنیت آج بھی کارفرما ہے
جو مسائل کے الاؤ کو ہوا دے رہی ہے۔

آج بلوچستان ایک انتہائی گمبھیر مسئلے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور بین الاقوامی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ پاکستان کا دوسرا بڑا بحران پاک امریکا تعلقات میں کشیدگی سے پیدا ہوا ہے جو خطرناک علاقائی اور عالمی مضمرات کا حامل ہے۔ سول اور فوج کے مابین تنے ہوئے روابط بھی داخلی اور خارجی چیلنج بنتے جا رہے ہیں۔ میمو ایشو بھی اسی چپقلش کا شاخسانہ ہے جس نے قومی سلامتی کے مسائل جنم دیے ہیں۔ لاپتا افراد کی تعداد میں روزافزوں اضافے سے جہاں پورے ملک میں ایک ہاہاکار مچی ہوئی ہے- وہاں بلوچستان کا زخم گہرا ہوتا جا رہا ہے۔ ایگزیکٹو اور عدلیہ کے مابین بھی رسا کشی جاری ہے جس نے جناب وزیر اعظم کے مستقبل پر بڑے بڑے سوالات اُٹھا دیے ہیں۔مزیدبراں شدت پسندی اور دہشت گردی نے پاکستان کا چہرہ مسخ کر ڈالا ہے اور عالمی برادری میں اسے ملامتوں اور نفرتوں کا سامنا ہے۔ ملکی وسائل کا ایک بڑا حصہ دہشت گردی کے خلاف جنگ پر اُٹھ رہا ہے اور امریکا نے سپورٹ فنڈ اور کیری لوگر بل کے تحت دی جانے والی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ کرپشن اور بدانتظامی نے گزشتہ چار برسوں میں آٹھ ہزار ارب سے زائد روپے چاٹ لیے ہیں جبکہ احتساب کے فقدان سے حکومت کی مشینری زنگ آلود ہو چکی ہے اور ڈلیوری سسٹم بدترین نااہلی اور بدانتظامی کا شکار ہے۔ توانائی کے بحران سے لوگ بیروزگار ہوتے جا رہے ہیں اور غربت عام آدمی سے جینے کا حق چھین لینے پر تُلی ہوئی ہے۔ عوام اپنے حکمرانوں سے شدید بیزار ہیں اور ایک مخلص اور دیانت دار قیادت کے لیے دعائیں مانگ رہے ہیں۔



مسائل اور مشکلات سے خوفزدہ ہمارے بعض دانش ور پاکستان کے بارے میںنااُمیدی پھیلانے والی کتابیں شائع کرتے رہتے ہیں۔ ان میں جناب روئیداد خان کی تصنیف ’’وہ خواب جو بے کیف ہو گیا‘‘ جناب طارق علی کی ’’ایک ریاست کی موت‘‘ جناب احمد رشید کی ’’انتشار کی طرف نزول‘‘ اور جناب شیر باز خاں مزاری کی ’’پاکستان: حقیقت بینی کی طرف سفر‘‘ قابلِ ذکر ہیں۔ اس کے برعکس ان دنوں کچھ ایسی کتابیں منظرِ عام پر آ ئی ہیں جو مسائل میں گھِرے ہوئے پاکستان کی جوہری قوت اور اس کی عظمت کی گواہی دیتی ہیں۔ ان میں محترمہ فرزانہ شیخ کی تازہ تصنیف ’’پاکستان کی معنویت‘‘ اور اناطول لیون کی فکر انگیز کتاب ’’ایک سخت جان ملک‘‘ حقائق اور مسائل کا سامنا کرنے کا حوصلہ عطا کرتی اور قارئین کے اندر ٹھوس شہادتوں کے ساتھ یہ شعور اُبھارتی ہیں کہ پاکستان میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی معجزانہ صلاحیت پائی جاتی ہے۔اناطول نے پاکستانی معاشرے کی سخت جانی کا راز اس کے مضبوط اور مستحکم خاندانی نظام کی یک جہتی میں دریافت کیا ہے جو ریاست کو ناکام ہونے سے محفوظ رکھے ہوئے ہے۔


بیشتر سیاسی زعما یہ کہنے میں قدرے حق بجانب ہیں کہ بلوچستان میں مشرقی پاکستان جیسے حالات پیدا کیے جا رہے ہیں اور ہمارے حکمرانوں نے تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھا اور وہی غلطیاں دہراتے چلے آ رہے ہیں جن کے باعث ہمارا ملک ۱۹۷۱ء میں دولخت ہوا تھا۔ سقوطِ ڈھاکہ کی اصل وجہ مغربی اور مشرقی پاکستان میں اعتماد کا فقدان تھا جو دشمنی کی حدوں کو چھونے لگا تھا۔ اس بے اعتمادی کا بیج مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان بیوروکریٹس نے بویا تھا جو مشرقی بنگال کو اپنی کالونی سمجھتے اور اس صوبے کے شہریوں سے غلاموں جیسا سلوک روا رکھتے تھے۔ دوسرا بڑا مسئلہ آئینی حقوق اور منصفانہ سیاسی نمائندگی کا حصول تھا۔ مشرقی بنگال کی آبادی مغربی پاکستان سے زیادہ تھی جو اُسے قومی اسمبلی میں اکثریت کا حق دیتی تھی۔ وزیر اعظم محمد علی بوگرا نے غیر معمولی سیاسی بصیرت اور بامعنی گفت و شنید سے ایک ایسا آئینی فارمولا وضع کر لیا تھا جس کے مطابق ایوانِ زیریں میں مغربی بنگال اور ایوانِ بالا میں مغربی پاکستان کی اکثریت تھی اور اہم قومی امور کا فیصلہ دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں کیا جانا تھا۔ یہ آئین تیسری خواندگی کے بعد ۲ ۵ دسمبر ۱۹۵۴ء کو نافذ ہونا تھا مگر یہ ساری محنت ایک بہت بڑی سازش کی نذر ہو گئی۔-جنرل ایوب خاں پہلی دستور ساز اسمبلی میں دستور پر بحث کے وقت لندن کے ایک آرام دہ ہوٹل میں اپنے طور پر پاکستان کے دستور کے خدوخال مرتب کر رہے تھے۔ اس میں ون یونٹ کا قیام اور مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان برابری (پیریٹی) کا اصول تجویز کیا گیا تھا۔ فوجی قیادت کی طرف سے اشارہ پا کر فالج زدہ گورنر جنرل غلام محمد ملک نے ۲ ۴اکتوبر کی شام دستور ساز اسمبلی توڑ ڈالی جو ہماری تاریخ کا ایک سیاہ باب ثابت ہوا۔ مختلف مراحل طے کرنے کے بعد اسی بنیادپر دوسری دستور ساز اسمبلی نے نیا دستورمنظور کیا جو ایوب خاں کی آئینی اسکیم کے اندر فراہم کی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان کے عوام نے قوم کے وسیع تر مفاد میں۸ سال کے شدید انتظار کے بعد دستور کے نفاذ پر بہت خوشی کا اظہار کیا مگر اُنہیں اپنی اکثریت چھن جانے کا ہمیشہ بہت قلق رہا تھا۔ دو سال بعد جب جنرل ایوب خاں کی حمایت سے صدر اسکندر مرزا نے ۱۹۵۶ء کا دستور ہی ختم کر ڈالا، تو وہ بنیاد بھی منہدم ہو گئی جس پر ایک ساتھ رہنے کا عمرانی معاہدہ وجود میں آیا تھا۔ اس حادثے کے بعد مشرقی پاکستان میں آئینی اور سیاسی حقوق کی پامالی کا احساس مختلف شکلیں اختیار کرتا اور علحٰدگی کے رجحانات تقویت پاتے رہے، دونوں بازوؤں کے درمیان جدائی کا فیصلہ کن مرحلہ اس وقت آیا جب ۱۹۷۰ء کے انتخابی نتائج سے قومی اسمبلی میں مشرقی پاکستان کو اکثریت حاصل ہو گئی تو یحییٰ خاں نے اس کا اجلاس غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا اور اس اقدام کے خلاف عوام اُٹھ کھڑے ہوئے۔ بغاوت فرو کرنے کے لیے طویل عرصے تک فوجی آپریشن جاری رہا جس میں فوج کو شکست ہوئی اور پاکستان دولخت ہو گیا۔


جنرل ایوب خاں کے دستوری نقشے پر عمل پیرا ہونے سے مغربی پاکستان میں بھی سنگین مسائل پیدا ہوئے۔ ون یونٹ کے قیام سے فائدے کم اور نقصانات بے حساب ہوئے۔ وسیع و عریض مغربی پاکستان کو ایک انتظامی یونٹ میں تبدیل کرنے اور لاہور کو اس کا صدر مقام بنا دینے سے عوام کی گونا گوں مشکلات اور پنجاب کے خلاف نفرتوں میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پنجاب، جس کا مغربی پاکستان اسمبلی میں حصہ آبادی کے لحاظ سے باون فی صد بنتا تھا نے ایثار کا ثبوت دیتے ہوئے ۴۰ فیصد پر قناعت کی لیکن وہ چونکہ اختیارات کے منبع کی حیثیت اختیار کر گیا تھا اس لیے خیبر سے لے کر مکران کے ساحل تک اس کے خلاف شدید بے زاری اور عداوت کے جذبات پیدا ہوئے۔ صوبوں کو اپنی شناخت اور اپنے اختیارات کے چھن جانے کا بہت غم تھا - چنانچہ اُن کے اندر مزاحمتی تحریکیں زور پکڑتی گئیں۔ بلوچستان میں بار بار بغاوتیں ہوئیں اور فیلڈ مارشل صدر ایوب کی حکومت نے بغاوت کے بنیادی کردار نوروز خاں کے ساتھ قرآن حکیم پر حلف اُٹھانے کے باوجود اُس کے ساتھی سولی پر لٹکا دیے ۔ ون یونٹ کے زمانے ہی میں سندھ کے نوجوان اپنی تہذیبی شناخت اور سیاسی حقوق کی جنگ میں شامل ہوئے اور پنجاب کی بالادستی کے خلاف شعلے اُگلنے لگے۔ صوبہ سرحد میں پختون عصبیت میں غیر معمولی شدت آئی اور مرکز گریز رحجانات روز بروز طاقت ور ہوتے گئے۔ ۱۹۶۸ء میں جب ایوب خانی حکومت کے خلاف ایک بلا خیز طوفان اُٹھا تو اُس میں انہی عصبیتوں اور نفرتوں کے تمام عناصر کارفرما تھے۔ جنرل یحییٰ خاں جب ۱۹۶۲ء کا دستور روند کر برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے ون یونٹ توڑنے اور پیریٹی کا اصول ختم کرنےکا اعلان کیا جس پر پورے ملک میں خوشی کی لہر دوڑ گئی مگر پنجاب جسے ایک سامراج کے طور پر ۱۵؍ سال تک پیش کیا جاتا رہا تھا اس کے مضر اثرات آج بھی ہماری سیاسی نفسیات میں غالب ہیں اور بلوچستان کے بحران کو گہرا کرنے میں ایک بہت بڑا منفی کردار ادا کر رہے ہیں۔


بادی النظر میں بلوچستان اور مشرقی پاکستان کے حالات میں خاصی مشابہت پائی جاتی ہے جو انتہائی سنجیدہ غور و فکر اور مؤثر اقدامات کا تقاضا کرتی ہے۔ مشرقی پاکستان آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ تھا جبکہ بلوچستان کو رقبے کے لحاظ سے یہی اعزاز حاصل ہے۔ مشرقی پاکستان کی طرح بلوچستان کے ساتھ بھی سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ہاتھوں بڑی زیادتیاں اور ناانصافیاں ہوتی رہی ہیں جن کے خلاف اب جذبات کا ایک آتش فشاں پھٹ پڑا ہے۔ دونوں صوبوں کے حالات کے درمیان یہ مشابہت بھی پائی جاتی ہے کہ مشرقی پاکستان کی اسمبلی کی طرح بلوچستان کی اسمبلی بھی بے اختیار اور بڑی حد تک غیر مؤثر ہے۔اقتصادی لحاظ سے مشرقی پاکستان بھی پس ماندہ تھا اور بلوچستان بھی درماندگی کی تصویر بنا ہوا ہے حالانکہ وہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔وہاں مسائل کا فوجی حل تلاش کرنے کی ضد میں حالات قابو سے باہر ہو ئے تھے اور یہاں بھی طاقت کے بے جا اور ظالمانہ استعمال سے معاملات بگڑتے جا رہے ہیں۔ مشرقی پاکستان میں ایک بیرونی طاقت نے مکتی با ہنی کو جنم دیا تھا جبکہ بلوچستان میں بھی بیرونی طاقتیں بلوچ گوریلوں کی پشت پر ہو سکتی ہیں۔ان چند مماثلتوں کے باوجود ۱۹۷۱ء اور آج کی صورتِ حال میں کئی اعتبار سے بہت زیادہ اختلاف پایا جاتاہے۔ سب سے بڑا فرق جغرافیائی وحدت اور علاقائی تسلسل کا ہے۔ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مابین ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا اور ان کے درمیان بھارت واقع تھا۔ اس جغرافیائی دوری کی وجہ سے عوام کے مابین مضبوط رابطے قائم نہ ہو سکے۔ زبان کا اختلاف بھی راستے میں حائل رہا۔ دو اطراف سے بھارت میں گھِرے ہوئے مشرقی پاکستان کے لیے خود کفیل دفاعی انتظامات بھی بڑے دشوار تھے۔ اس کے برعکس بلوچستان پاکستان کے ساتھ جغرافیائی وحدت میں جکڑا ہوا ہے جدید ذرائعِ مواصلات نے فاصلے کم کر دیے ہیں اور لوگ آپس میں کاروبار بھی کر رہے ہیں اور وسیع تر سیاسی عمل میں بھی شریک ہیں۔ الیکٹرانک میڈیا نے قومی یک جہتی کو بہت فروغ دیا ہے اور خدمتِ خلق کے متعدد ادارے باہمی رشتوں میں استحکام پیدا کر رہے ہیں۔ دوسرا بڑا فرق یہ ہے کہ بلوچستان میں بلوچوں کے علاوہ پشتون اور آباد کار بھی رہتے ہیں جو تعلیم یافتہ ہونے کی بدولت خوشحال بھی ہیں اور اپنے صوبے کی معیشت میں زبردست کردار ادا کر رہے ہیں۔



ایک سروے کے مطابق بلوچستان کی کل آبادی بہتر لاکھ نفوس پر مشتمل ہے جس میں ۳۰ لاکھ بلوچ ۲۷ لاکھ پختون اور ۱۵ لاکھ آباد کار اور سندھی قبائل ہیں جن کا بڑا حصہ اپنا مستقبل پاکستان کے بندوبست محفوظ سمجھتا ہے اور اپنے حقوق سیاسی جدوجہد کے ذریعے حاصل کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ زیادہ تر بے چینی ۳۰ اضلاع میں سے فقط چار پانچ اضلاع کوئٹہ سبّی ڈیرہ بگتی خضدار اور تربت کی چند تحصیلوں میں پائی جاتی ہے۔ ان پر بھر پور توجہ مرکوز کر دینے اور جائز مطالبات کسی حیل و حجت کے بغیر تسلیم کرنے سے مذاکرات کی راہ نکل سکتی ہے اور ناراض اور برگشتہ بھائیوں کو دلیل سے قائل کیا جا سکتا ہے۔ مشرقی پاکستان اور بلوچستان کی صورتِ حال میں ایک اور بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ مشرقی پاکستان میں آئینی اور سیاسی حقوق کی جنگ لڑنے والوں کو شروع ہی سے عوام کی تائید حاصل تھی۔ وہاں ۱۹۵۴ء میں پہلے انتخابات ہوئے جن میں حکمران مسلم لیگ عبرت ناک شکست سے دوچار ہوئی اور اُسے صرف۹ نشستیں مل سکیں۔ اس کے بعد جتنے بھی انتخابات ہوئے ان میں عوامی لیگ کی طاقت میں اضافہ ہوتا گیا۔ اس کے برعکس بلوچستان میں ۱۹۸۵ء سے لے کر اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں اِن میں نام نہاد قوم پرست جماعتوں کو
۵؍ فیصد نشستیں بھی نہیںملیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کی بھاری اکثریت مسلح جدوجہد اور علحٰدگی پسند رجحانات کے حق میں نہیں۔ آج زمینی حقائق یہ ہیں کہ شورش پسندوں کے سرغنہ اپنے علاقوں میں نہیں جاتے کہ انہوں نے اپنے لوگوں پر جبرواستبداد کی انتہا کر دی تھی۔


قیامِ پاکستان سے پہلے بلوچستان دو حصوں پر مشتمل تھا۔ ایک حصہ برٹش بلوچستان کہلاتا تھا جو برطانوی حکومت کے زیرِ نگیں تھا۔ اس میں پشتون کاکڑ قبیلے کے علاوہ مری اور بگتی قبائل کے علاقے بھی شامل تھے جن کے سیاسی امور کوئٹہ میونسپل کمیٹی اور پشتون اور بلوچ سرداروں کی نمائندہ تنظیم ’’شاہی جرگے‘‘ کی مشاورت سے چلائے جاتے تھے۔ دوسرا حصہ ۴ ریاستوں کی کنفیڈریشن پر مبنی تھا جس میں قلات لسبیلہ خاران اور مکران شامل تھے۔ تشکیلِ پاکستان کے وقت برٹش بلوچستان میں ۲۹ جون ۱۹۴۷ء کو ہونے والے ریفرنڈم میں کامل اتفاقِ رائے سے پاکستان میں شمولیت کا فیصلہ ہوا۔ اس فیصلے میں نواب اکبر بگتی کے چچا نے بھی حصہ لیا تھا۔ پاکستان بن جانے کے بعد ان ریاستوں کا معاملہ سامنے آیا جن کے برطانوی حکومت کے ساتھ نیم داخلی خود مختاری کے معاہدے تھے۔ خان آف قلات کے قائد اعظم سے اچھے مراسم تھے جسے انہوں نے پاکستان میں شامل ہونے کا مشورہ دیا۔ اُس نے سبّی دربار کے موقع پر فروری ۱۹۴۸ء میں پاکستان سے الحاق کے اعلان کا وعدہ کیا ٗ مگر وہ بیماری کا عذر کر کے غائب ہو گیا۔ لسبیلہ خاران اور مکران کے نوابین جو کنفیڈریشن میں شامل تھے ٗ وہ ریاست قلات کے وزیرِاعظم شمس الدین کی بدانتظامیوں اور دست درازیوں بے حد متنفر تھے اور اُن کے خلاف ’’شمس گردی‘‘ کے نام سے کتاب بھی شائع ہو چکی ہے۔ یہ تینوں نواب بہت پہلے پاکستان سے الحاق کرنا چاہتے اور قائداعظم سے ملاقات کے خواہش مند تھے۔ قائداعظم کی یہ خواہش تھی کہ الحاق کا اعلان خان آف قلات کے ساتھ کیا جائے، لیکن جب خان آف قلات نے وعدہ خلافی کی، تو قائداعظم نے تینوں ریاستوں کے نوابین کو کراچی میں ملاقات کا وقت دیا جس میں اُنہوں نے پاکستان سے الحاق کا اعلان کردیا تھا۔

بلوچستان کی ساحلی پٹی کے پاکستان سے الحاق کے بعد خان آف قلات کے لیے الحاق کی دستاویز پر دستخط کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہا تھا۔ چنانچہ اُس نے ۲۷ مارچ ۱۹۴۸ء کو پاکستان سے الحاق کا باقاعدہ اعلان کر دیا۔ قلات ۱۸۷۶ء کے معاہدے کے تحت برطانوی زیرِ حفاظت ایک باجگزارریاست تھی اور ویسی ریاستوں کے بارے میں ۱۸؍ جولائی ۱۹۴۷ء کو برطانوی سیکرٹری فار اسٹیٹ نے پالیسی بیان دیا کہ انہیں آزاد ممالک کے طور پر تسلیم نہیں کیا جائے گا اور وہ اپنی جغرافیائی اور مذہبی وابستگی کے حوالے سے پاکستان یا بھارت سے الحاق کرسکتی ہیں۔ اس قطعی اعلان کے بعد خان آف قلات کے لیے اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھنا اب ممکن نہیں رہا تھا اور پاکستان سے الحاق اس لیے ناگزیر ہوگیا تھا کہ ریاست کی ۹۸؍فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی۔ الحاق کے دوسرے روز پرنس عبدالکریم ناراض ہو کر افغانستان چلا آیا جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی رکنیت پر اعتراض کیا تھا۔ دراصل یہ بھائیوں کی تخت نشینی کا قضیہ تھا۔ پرنس عبدالکریم افغانستان سے ایک چھوٹے سے لشکر کے ساتھ واپس آیا اور شورش بپا کرنے کی اپنی سی کوشش کی جسے ایک مختصر سے فوجی آپریشن سے ناکام بنا دیا گیا۔ دراصل ریاست قلات کے حکمران پٹھان تھے اور اُن کی قلمرو میں بلوچوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی اور بڑے بڑے بلوچ قبائل اس ریاست سے باہر آباد تھے جن میں بگتی، مری اور ڈومکی قابلِ ذکر ہیں۔ پھر یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ خانِ قلات احمدیار خاں وزیرِاعظم بھٹو کے دور میں بلوچستان کے گورنر بھی رہے جو اس کا بیّن ثبوت تھا کہ ان کا وفاق کے ساتھ کوئی تنازع نہیں تھا اور وہ پاکستان کے ساتھ اپنی ریاست کے الحاق پر پوری طرح مطمئن تھے۔ اُن کے بیٹے سلیمان دائود نے گزشتہ چند سال سے یہ تنازع کھڑا کر دیا کہ پاکستان نے ریاست قلات پر زبردستی قبضہ کیا تھا اور و ہ اس کی آزادی کا اعلان کرنے میں حق بجانب ہیں۔ وفاق نے انہیں ایک معقول راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کرنے کی علانیہ اور درپردہ کوشش کی لیکن وہ سرکشی پر اُتر آئے اور ناراض ہو کر ملک سے باہر چلے گئے۔


بلاشبہ بلوچستان کی داستانِ الم بڑی دردناک اور بے حد اضطراب انگیز ہے مگر بحران کی گہرائی تک پہنچنے کے لیے ہم ۱۹۷۰ء کے بعد کے چند اہم واقعات کا ذکر ضروری سمجھتے ہیں جب اسے پہلی بار صوبے کا درجہ حاصل ہوا۔ انتخابات ہوئے تو اے این پی برسرِ اقتدار آئی سردار عطاء اﷲ مینگل نے حکومت بنائی اور بلوچ قیادت نے ۱۹۷۳ء کے آئین کی منظوری میں قابلِ قدر حصہ لیا، صرف جناب خیر بخش مری نے آئین پر دستخط نہیں کیے تھے۔شروع شروع میں وزیر اعلیٰ عطاء اﷲ مینگل نے آباد کاروں کے ساتھ معاندانہ طرزِعمل اپنایا مگر اُنہیں جلد احساس ہو گیا کہ ان کارروائیوں سے صوبے کو نقصان پہنچ رہا ہے تو اُنہوں نے آباد کاروں کو بے دخل کرنے کی پالیسی ختم کر دی۔ بدقسمتی سے مسٹر بھٹو جن کی سیاسی تربیت فوجی آمر جنرل ایوب خاں کی آغوش میں ہوئی تھی وہ اختلافِ رائے برداشت نہ کر سکے اور اُنہوں نے سردار عطاء اﷲ مینگل کی وزارت برطرف کر ڈالی اور نواب اکبر خاں بگتی کو بلوچستان کا گورنر مقرر کر دیا۔ اس اقدام کے ردعمل میں بلوچ مزاحمت کار پہاڑوں پر چلے گئے اور حکومت کو ان کے خلاف بہت بڑا فوجی آپریشن کرنا پڑاجس میں ۲؍ ڈویژن حصہ لے رہے تھے۔ عالمی میڈیا میں اس آپریشن کے بارے میں سنسنی خیز خبروں کا سلسلہ کئی سال جاری رہا۔ انہی دنوں پاکستان میں عراقی سفارت خانے سے اسلحے کی پیٹیاں پکڑی گئیں اور حکومت نے الزام یہ لگایا کہ یہ اسلحہ روس کی طرف سے بلوچ باغیوں کے لیے بھیجا گیا تھا۔ اس پروپیگنڈے کے بعد بلوچ لیڈر شپ کی گرفتاریاں عمل میں آئیں اور اس کا حیدر آباد جیل میں ٹرائل شروع ہو گیا۔ اسی دوران ۱۹۷۴ء میں یہ المیہ بھی پیش آیا کہ عطاء اﷲ مینگل کے صاحبزادے اسدمینگل کراچی میں جناب سردار شیربازخان مزاری کے گھر سے گرفتار کیے گئے اور انہیں دلائی کیمپ میں بے حد تشدد سے موت کی نیند سلا دیاگیا۔ یہ تمام واقعات بلوچستان میں ایک تصادم کی فضا پیدا کر رہے تھے اور زخم گہرا ہوتا جا رہا تھا۔


جنرل ضیاء الحق برسرِ اقتدار آئے تو انہوں نے عام معافی کا اعلان کرتے ہوئے سارے مقدمات واپس لے لیے اور حیدرآباد ٹربیونل ختم کردیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان میں امن قائم ہو گیا اور زندگی معمول پر آ گئی۔ جنرل رحیم الدین خاں جو صوبے کے گورنر مقرر ہوئے تو اُنہوں نے ترقیاتی منصوبوں کا ایک جال بچھا دیا اور اُنہی کے زمانے میں پہلی بار کوئٹہ شہر کو گیس فراہم کی گئی اور انفراسٹرکچر کی تعمیر پر بھرپور توجہ دی گئی۔ جنرل ضیاء الحق کے ۱۱؍ برسوں میں بلوچستان قومی یک جہتی کے فروغ میں بہت مثالی کردار ادا کرتا رہا جس کے نتیجے میں قوم پرست عناصر قومی دھارے میں آ گئے۔ ایک مرحلے پر نواب اکبر بگتی نے صدارت کے انتخابات میں حصہ بھی لیا تھا۔ اس کے علاوہ ۱۹۹۰ء میں نواب خیربخش مزاری جو غالباً ۱۹۷۳ء میں کابل چلے گئے تھے اور سوویت یونین کی شکست کے بعد ان کے لیے وہاں قیام عذابِ جاں بن گیا تھا تو آئی ایس آئی نے انہیں طیارہ بھیج کر وطن واپس بلایا اور ان کی خاطرمدارات کا بہت خیال رکھا۔ مگر اُن کے ہوائی اڈے پر اُترتے ہی بی ایس او کے نوجوانوں نے پاکستان کا پرچم جلایا اور نواب نے اس رقم کی فوری ادائی کا مطالبہ کیا جو انہیں ’’معاش‘‘ کے نام پر بھارت سے فراہم کی جاتی تھی۔ ۱۹۹۷ء کے انتخابات میں سردار اختر مینگل مسلم لیگ (ن) کی حمایت سے کامیاب ہوئے اور بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔ سیاسی عمل سے پنجاب اور بلوچستان میں اس قدر قربت پیدا ہوئی کہ جب ۱۹۹۷ء میں موٹر وے کا افتتاح ہوا اور وزیر اعظم میاں نواز شریف اُس کے راستے لاہور روانہ ہوئے ٗ تو اُن کی کار سردار اختر مینگل چلا رہے تھے۔ جمہوریت کے فروغ سے فاصلے سمٹتے اور دل قریب آتے گئے ٗ مگر جنرل پرویز مشرف کی فوجی مہم جوئی نے پورا منظر نامہ ہی بدل ڈالا، جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ قومی وحدت پر کاری ضرب لگائی اور پاکستان کا وقار اور خود مختاری امریکا کے ہاتھ فروخت کر ڈالی۔ امریکی جنگ کو اپنی جنگ قرار دینے سے پاکستان میدانِ کارزار بن گیا اور خود کش حملوں میں ہزاروں سویلین اور فوجی شہید ہوئے۔ان کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی اور خودسری کا سب سے بڑا نقصان بلوچستان کو پہنچا جس کی تلافی اب شاید آسانی سے نہ کی جاسکے گی۔


جنرل پرویز مشرف ہر مسئلے کا فوجی حل چاہتے تھے۔ اُن کا زعم تھا کہ بندوق کی طاقت سے بلوچستان کے سرداروں کا قلع قمع کر کے عوام کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے۔ وہ اپنے اس خبط کا برملا اظہار بھی کرتے۔ غالباً ۲۰۰۴ء کا ذکر ہے کہ کونسل آف نیوز پیپرز ایڈیٹرز نے اُنہیں لاہور میں ظہرانے کی دعوت دی جس میں قومی مسائل زیرِبحث آئے۔ ڈیرہ بگتی میں بدامنی کا ذکر چھڑا تو اُنہوں نے کسی تامل کے بغیر کہا کہ ہم ان سرداروں کو اس طرح ہٹ کریں گے کہ اُنہیں کچھ پتا ہی نہیں چلے گا کہ اُن کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا۔ غالب گمان یہ ہے کہ اُن کی سوچ کے عین مطابق بیاسی سالہ نحیف و نزار بلوچ سردار نواب اکبر بگتی غار کے اندر بم سے اُڑا دیے گئے جہاں وہ اپنے حریف قبیلے کے علاقے میں پناہ لیے ہوئے تھے۔ جنرل صاحب نے اسی رات اس ’عظیم‘ کارنامے پر فوجی افسروں کو مبارک باد پیش کی۔ ہم نے اس وقت لکھا تھا کہ بلوچ نوجوانوں کو آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے ایک بوڑھے سردار کی لاش میسر آ گئی ہے اور اس بار مزاحمت کا رنگ یکسر جدا ہو گا جو ملکی سا لمیت کے لیے ایک بڑے خطرے کی شکل اختیار کر جائے گا۔ اُنہی کے دور میں مزاحمت کار لاپتا ہونے لگے جن کی تعداد بعض تحقیقاتی اداروں کے مطابق سیکڑوں کی حد سے گزر کر ہزاروں تک جا پہنچی ہے۔ لوگوں نے دیکھا کہ خفیہ ایجنسیوں کے کارندے ’ناپسندیدہ‘ شہریوں کو گھروں دکانوں اور دفتروں سے اُٹھالے جاتے اور انہیں غائب کر دیتے ہیں۔ معروف قانون دان جناب علی احمد کرد لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے اور انصاف کی بھیک مانگتے رہے مگر ظلم کا بازار گرم ہی رہا۔ صوبے کو سیاسی تباہی سے دوچار کرنے کے لیے پرویز مشرف نے یہ کیا کہ ۲۰۰۸ء کے انتخابات میں جعل سازی کے ذریعے بلوچستان اسمبلی میں ایسے افراد پہنچا دیے جو عوام کے حقیقی نمائندے نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جو اسمبلی وجود میں آئی اور جو حکومت قائم ہوئی اُسنے بلوچستان کے معاملات سدھارنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی اور اُن کی ساری توجہ لوٹ مار اور سالانہ ۲۵ کروڑ کی ترقیاتی گرانٹ پر لگی رہی۔ اس پر امن و امان تباہ و برباد ہوتا رہا قتل و غارت کا مکروہ کھیل جاری رہا ٹارگٹ کلنگ ہوتی رہی اور یوں بلوچستان پاکستان کا مسئلہ نمبر ایک بن گیا ہے۔



بلوچستان میں خرابی اور تعمیر کے کام ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک طرف قتل اور غارت گری جاری ہے اور دوسری طرف چھاؤنیوں کے بجائے تعلیمی شہر آباد کیے جا رہے اور نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہو نے لگے ہیں۔ قبائلی جھگڑوں کی وجہ سے مری قبیلے کے علاقے چمالانگ میں سالہا سال سے کوئلے کی کانیں بند پڑی تھیں ٗ فوج کی مصالحانہ کوششوں سے اُن میں دوبارہ کام شروع ہو گیا ہے اور اُن کی آمدنی کے ایک حصے سے بلوچ طالب علم پاکستان بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ۱۶۰ ؍ارب کے وسائل فراہم کیے جا چکے ہیں اور سوئی گیس کی واجب الادا رائلٹی بھی ادا کی جا رہی ہے۔ صوبائی خود مختاری کا دیرینہ بنیادی مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے اور تمام زیرِزمین قدرتی وسائل پر صوبوں کا حق تسلم کرلیا گیا ہے۔ لیکن غور طلب امر یہ ہے کہ بلوچ نوجوان پھر بھی بپھرے ہوئے ہیں اور عسکریت پسندی کی طرف مائل ہیں۔ اُن کی بنیادی شکایت یہ ہے کہ بلوچستان کے بارے میں فیصلے عوام سے مشورے اور منظوری کے بغیر کیے جا رہے ہیں فوج اور خفیہ ایجنسیاں اُن پر حکمرانی کر رہی ہیں اور اُن کی نسل کشی ہو رہی ہے۔ ان شکایات کے ازالے میں ہمارے اربابِ اختیار نے مجرمانہ غفلت سے کام لیا ہے اور حالات میں بہتری لانے کے نہایت قیمتی مواقع ضائع کر دیے ہیں۔ مشرقی پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا موڑ آیا تھا جب مذاکرات کے لیے فضا قدرے سازگار ہوچلی تھی ٗ مگر جنرل یحییٰ خاں نے مصالحت کا ہاتھ بڑھانے کے بجائے غراہٹ سے کام لیا جس کے بعد ملکی حالات پوائنٹ آف نوریٹرن تک پہنچ گئے۔ ۲۵ مارچ ۱۹۷۱ء کے آپریشن کے دوران قومی اسمبلی میں عوامی لیگ کی بھاری اکثریت بھارت فرار ہوگئی تھی اور جلاوطن حکومت قائم کرلی تھی، لیکن درپردہ مصالحتی کوششوں کے نتیجے میں عوامی لیگ کی قیادت واپس مشرقی پاکستان میں آ جانے اور مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لیے آمادہ ہو گئی تھی، لیکن جنرل یحییٰ خان کی جولائی ۱۹۷۱ء کی تقریر نے تمام کوششوں پر پانی ڈال دیاجس کے باعث بھارت کو فوجی مداخلت کا جوازحاصل ہو گیا تھا۔


پرویز مشرف نے بھی بلوچستان کی تاریخ کے ایک انتہائی نازک موڑ پر اُسی قسم کی خر دماغی کا مظاہرہ کیا۔ یہ ۲۰۰۳ء کی بات ہے جب نواب اکبر بگتی اور وفاقی حکومت کے مابین تعلقات بڑے کشیدہ ہوگئے تھے ۔ چودھری شجاعت حسین چند ماہ کے لیے وزیر اعظم بنے تو اُنہوں نے بلوچستان پر پارلیمانی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا جس کا مینڈیٹ حالات کے سدھار کے لیے آئینی اور سیاسی سفارشات پیش کرنا تھا۔جناب وسیم سجاد اور جناب مشاہدحسین سید نے بڑی دماغ سوزی اور اپنی دقتِ نظر سے تجاویز مرتب کیں اور عمل درآمد کے لیے جنرل پرویز مشرف کو ارسال کر دیں۔ اسی دوران ڈیرہ بگتی میں امن و امان کی صورتِ حال بہت خراب ہو گئی۔ اس کڑے وقت میں چودھری شجاعت اور مشاہد حسین سید نواب اکبر بگتی سے ملنے گئے اور طویل گفت و شنید کے بعد معاملات طے پاگئے ٗاکبر بگتی اسلام آباد آنے کے لیے رضامند ہوگئے اور وہ کوئٹہ ہوائے اڈے پر کئی گھنٹے خصوصی طیارے کا انتظار کرتے رہے۔ طیارہ نہ آنے کی وجہ سے معاملات بہت بگڑ گئے اور جنرل مشرف نے طاقت استعمال کرنے کافیصلہ کرلیا اور نواب اکبر بگتی شہید کر دیے گئے۔ اس حادثے کے ردِ عمل میں بلوچ نوجوانوں نے علمِ بغاوت بلند کر دیا۔ اس کے بعد ہی براہمداغ بگتی، ہربیارمری اور خان آف قلات نے سرکشی اختیار کی اور اُن کے حمایتیوں نے ایسی فضا پیدا کر دی جس میں پاکستان کا پرچم لہرانا اور پاکستان کا قومی ترانہ بجانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہوتا چلا گیا۔ مجھے وہ منظر آج بھی یادہے کہ میں ۱۴؍اگست ۱۹۷۱ء کو ڈھاکہ میں تھا اور یومِ پاکستان کے موقع پر پاکستان کا پرچم پورے شہر میں صرف دو چار مقامات پرلہراتا ہوا نظر آیا تھا۔


حالات کو آخری سطح تک پہنچنے سے روکنے کے لیے ہمارے حکمرانوں کو غیر معمولی سنجیدگی اور دوربینی کا ثبوت دینا اور وقت کی نزاکت کا پورا احساس رکھنا ہو گا۔ مارچ ۲۰۰۸ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی اور ستمبر میں جناب آصف علی زرداری صدر منتخب ہوئے جنھوں نے بلوچ سردار ہونے کے حوالے سے ماضی کی غلطیوں پر بلوچستان کے عوام سے معافی مانگی تھی اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کی طرف سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا اعلان ہوا تھا، مگر مسائل کی تہ تک پہنچنے اور بلوچ قیادت سے مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے ان دونوں اعلیٰ شخصیتوں نے بلوچستان میں چند روزہ قیام بھی پسند نہیں کیا۔ پھر ایک شام بلوچستان کے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بغیر ’’آغازِ حقوق بلوچستان پیکج‘‘ کا اعلان کر دیا گیا جس کے ۲۹ نکات میں سے بیشتر روشن مستقبل کی نوید دیتے تھے مگر بلوچستان میں اُسے اپنانے کے لیے کوئی قابلِ ذکر گروپ آمادہ نہیں تھا۔ سب سے بڑی خرابی اس کے نام کے اندر مضمر تھی۔ آغازِ حقوق بلوچستان کے نام سے یہی تاثرقائم ہوا کہ اس بدنصیب صوبے کو حقوق دینے کا پہلی بار آغاز ہوا اور اس سے پہلے وہ بے گوش اور بے اختیار علاقہ تھا۔ حکومت اگر اس پیکج پر عمل درآمد میں واقعی سنجیدہ ہوتی تو بلوچستان میں اس کام کے لیے ایک خصوصی نمائندہ مقرر کرتی جو اسٹیک ہولڈرز کے تعاون سے ترقیاتی منصوبوں کی نگرانی کرتا اور سیاسی مشاورت کو فروغ دیتا۔محض شعبدہ بازی کا نتیجہ یہ نکلا کہ بلوچستان کے عوام شدید احساسِ محرومی کا شکار ہیں۔ وفاق کی طرف سے جو بھی وسائل فراہم کیے گئے وہ ارکانِ اسمبلی، بیوروکریسی اور بڑے چھوٹے سرداروں کی جیبوں میں چلے گئے۔


بلوچستان کے مسئلے کی سنگینی سب سے پہلے جناب نواز شریف نے محسوس کی۔ وہ کراچی میں سردار عطاء اﷲ مینگل سے ملے اور اُن سے بگڑے ہوئے حالات میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی استدعا کی۔ سردار صاحب نے اعتراف کیا کہ ان کے ہاتھ سے معاملات نکل چکے ہیں اور اب مذاکرات پہاڑوں کا رُخ کرنے والے ناراض نوجوانوں سے کرنا ہوں گے۔ اسی کے بعد میاں صاحب کوئٹہ میں چند اور بلوچ زعما سے ملے اور پاکستان سے محبت کرنے والے عناصر سے تاریخ کے نازک موڑ پر استقامت سے کام لینے کی دعوت دی۔ وہ بلوچستان پر آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا عندیہ بھی دے چکے تھے ٗ مگر ۲۰؍ویں آئینی ترمیم کے جھمیلوں میں پھنس گئے۔ امریکی کانگرس میں بلوچستان کی آزادی اور عظیم بلوچستان کی قرارداد پیش ہونے پر ہمارے بلند قامت وزیر اعظم نے انگڑائی لی اور ۴؍ سال بعد آل پارٹیز کانفرنس بلانے کی دوبارہ تجویز پیش کی ہے جسے قوم پرست قیادت نے مسترد کر دیا ہے اور جناب نواز شریف نے ۲؍ بنیادی شرائط عائد کی ہیں کہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے اعتماد سازی کے اقدامات ضروری ہیں جن میں نواب اکبر خاں بگتی کے قاتل جنرل پرویز مشرف کی گرفتاری اور لاپتا افراد کی بازیابی سرِ فہرست ہیں۔ ان دونوں مطالبات پر پورے بلوچستان کی سیاسی اور مذہبی قیادت کا اتفاق پایا جاتا ہے اور یوں نظرآتا ہے کہ دفاعِ پاکستان کونسل نے ۲۷؍ فروری کو بلوچستان میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا جو اعلان کیا ہے ٗ اس میں غالباً سبھی اسٹیک ہولڈرز شرکت کریں گے اور رستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے کی تدبیر کریںگے۔


آزاد بلوچستان کی امریکی کانگرس میں قراردادپر ہمارے دفترِ خارجہ کے علاوہ تمام سیاسی اور دینی جماعتوں نے شدید ردعمل ظاہر کیا ہے تینوں صوبائی اسمبلیوں نے مذمت کی قراردادیں منظور کی ہیں مگر بلوچستان اسمبلی کی خاموشی پر قومی حلقے حیرت زدہ ہیں۔ ہمارے سبھی ٹی وی چینلز مختلف پہلوؤں سے بلوچستان کی صورتِ حال کا جائزہ لے رہے ہیں اور گمبھیر مسئلے کا حل زیرِ بحث لا رہے ہیں۔ اصل ضرورت یہ ہے کہ پنجاب کی طرف سے بلوچستان کے عوام کے ساتھ گہری وابستگی کا اظہار کیا جائے، وفاقی حکومت کی سطح پر نمائشی اعلانات کے بجائے عملی اقدامات کی ترجیحات طے کی جائیں اور تاریخ کی روشنی میں غلط مفروضوں کا پردہ چاک کیا جائے۔ معافی مانگنے، غیر سنجیدہ مکالموں اور سیاسی ڈراموں کا وقت گزر چکا ہے۔ ہمارے وزیر اعظم بلوچستان کی ناراض قیادت کو دور بیٹھے مذاکرات کی دعوت دیتے رہے مگر اس کے ساتھ رابطوں کے لیے سرے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔شاید اب اُنہیں معاملات کی سنگینی کا احساس ہو ا ہے مگر مشکل یہ آن پڑی ہے کہ پُلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا اور اعتماد کے رشتے ٹوٹتے جا رہے ہیں۔ہمارے داخلی معاملات میں غیر ملکی طاقتوں کے ملوث ہونے سے حالات ایک خطرناک رُخ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ جن پر قابو پانے کے لیے اجتماعی دانش اور مضبوط قوتِ ارادی برائے کار لانا ہوگی۔




وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مطالبات کا ایک انبار لگتا جا رہا ہے لیکن اصل بات باہمی اعتماد کو فروغ دینے کی ہے۔ اعتماد سازی کے لیے جنرل پرویز مشرف کے خلاف ریاست کی طرف سے ایف آئی آر کا اندراج اور اُن کی انٹر پول کے ذریعے گرفتاری ناگزیر معلوم ہوتی ہے۔ اسی ایک اقدام سے حکومت کی سنجیدگی اور کومٹ منٹ کا صحیح پیغام جائے گا۔ اسی طرح خفیہ ایجنسیوں کا سیاسی کردار یک قلم ختم کرنا اور سول اداروں کو آزادی اور ذمے داری سے اپنے فرائض ادا کرنے کے مواقع فراہم کرنا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ یہ شکایت عام ہے کہ حکومتِ بلوچستان بالکل بے اختیار ہے جس پر غیر منتخب اداروں کی طرف سے فیصلے مسلط کیے جارہے ہیں۔ بلاشبہ سیاسی طور پر آفت زدہ صوبے میں فوج کا بہت زیادہ عمل دخل رہا ہے،جسے سرحدوں کے تحفظ تک محدود کر دینے سے شہریوں کا اعتماد بحال ہوگا۔ خوش قسمتی سے جنرل کیانی ایک متوازن اور صحت مند سوچ کے مالک ہیں اور وہ ڈیڑھ سال پہلے ہی فوجی آپریشن ختم کرنے اور آیندہ نئی چھاؤنی کی تعمیر سے دست بردار ہوجانے کا اعلان کر چکے ہیں۔ انہوں نے یہ مژدہ بھی سُنایا تھا کہ جن علاقوں میں چھاؤنیاں بنانے کے منصوبے تیار تھے وہاں تعلیمی ادارے قائم کیے جائیں گے۔ عسکری قیادت نے یہ عندیہ بھی دیا تھا کہ فوج میں ہر صوبے کی آبادی کے تناسب سے جوان بھرتی کیے جائیں گے تاکہ صحیح معنوں میں وہ ایک قومی فوج بن جائے۔ بلوچستانکے حصے میں ۲۰ ؍ ہزار افراد آئے ہیں جن میں سے۱۵؍ ہزار جوان بھرتی کیے جا چکے ہیں اور مزید ۵؍ ہزار اسی سال ریکروٹ کیے جائیں گے۔ ان بڑے مثبت اقدامات سے ایک روشن مستقبل کی تعمیر عمل میں آ رہی ہے مگر حالات ہماری حکومتوں کی بے انصافی بے تدبیری اور طاقت آزمائی کے سبب جس نہج تک آ پہنچے ہیں وہ برق رفتار اور ایقان افروز حکمتِ عملی کے متقاضی ہیں۔ ہمیں سب سے پہلے پوری دیانت داری سے اپنی غلطیوں کا اعتراف کرنا اور ماضی اور حال کے نقصانات کے ازالے کے لیے غیر معمولی ایثار اور سیاسی پیش قدمی سے کام لینا ہو گا۔ اسلام آباد کے تخت نشین حکمرانوں نے بلوچستان کے حقوق بُری طرح پامال کیے ہیں جن کا زمینی حساب دینا ہوگا اور اپنا مائنڈسیٹ بدلنا ہوگا۔ اس مائنڈ سیٹ کی تبدیلی ہی سے باہمی اعتماد نشو و نما پا ئے گا۔ اعتماد کے رشتے فوری طور پر مضبوط کرنے کے لیے آئی ایس آئی کے علاوہ تمام خفیہ ایجنسیوں کو براہمداغ کی بہن اور بھانجی کے قاتلوں کا بڑی جانفشانی سے سراغ لگانا اور انہیں انصاف کے کٹہرے میں لانا ہوگا۔ بلوچ خواتین کی ہلاکت کا جو خونیں منظر سامنے آیا ہے، وہ شدید ترین مذمت کے علاوہ پاکستان دشمن اور سفاک درندوں کو کیفرِکردار تک پہنچانا بلوچ بھائیوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے بے حد مددگار ثابت ہوگا۔

بلوچستان میں پاکستان سے محبت کرنے اور اُس کا مستقبل سنوارنے کا عزم رکھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ بگتی مری اور مینگل، رئیسانی، مگسی، جوگیزئی اور زہری قبائل میں ہزاروں نوجوان اپنے وطن کی قدروقیمت سے پوری طرح آگاہ ہیں اور بزنجو قبیلہ پاکستان کے ساتھ تعلق کی ایک روشن تاریخ رکھتا ہے۔ جناب محمود خاں اچکزئی مولانا عبدالغفور حیدری حافظ حسین احمد ڈاکٹر عبد المالک سردار ثناء اﷲ زہری پاکستان کی سوچ کو پروان چڑھانے میں بہت اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن کی جمعیت علمائے اسلام ایک بہت بڑی سیاسی اور مذہبی طاقت ہے اور جماعتِ اسلامی کا بھی اپنا ایک مضبوط حلقہ موجود ہے۔ نیشنل پارٹی سرداروں کے خلاف اور عوام کے حقوق کے لیے بہت سرگرم ہے جبکہ پختونخواہ عوامی ملی پارٹی بڑے اثر و رسوخ کی مالک ہے۔ ان تمام قوتوں کو یکجا کرنے اور مشاورت کا دائرہ مزید بڑھانے کی اشد ضرورت ہے۔ گوریلوں کی تعداد ایک ڈیڑھ ہزار بتائی جاتی ہے جنھیں حُسنِ تدبیر اور سٹرایجٹک منصوبہ بندی کے ذریعے راہِ راست پر لایا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ شورش پسندوں کے ۵؍ بڑے لیڈر بلوچستان کے سب سے دولت مند افراد میں شمار ہوتے ہیں جن کو عوام کی غربت اور بدحالی کا غم کھایا جا رہا ہے۔ بلوچ عوام کے وہ حقوق جو ماضی میں چھینے جاتے رہے ہیں اُنہیں احساسِ ندامت اور فراخ دلی سے لوٹا دینا لازم آتا ہے۔ اس میدان میں سیاسی جماعتوں کووقت ضائع کیے بغیر پیش قدمی کرنا ہو گی اور فوج اور خفیہ ایجنسیوں کو سیاسی معاملات سے بے دخل کر دینا ہو گا، البتہ انہیں قومی سلامتی کے تحفظ کے لیے پوری طرح چوکس رہنا اور عوام کے اعتمادپورا اُترناہو گا ۔ بدلے ہوئے حالات میں دہشت گردوں اور تخریب کاروں کی گرفتاری تفتیش پراسیکیوشن اور گواہوں کی شہادت کے مناسب قوانین پارلیمنٹ کو جلد منظور کرنے اور آرمی ایکٹ میں نئے تقاضوں کے مطابق ترامیم کرنی چاہئیں تاکہ خفیہ ایجنسیوں کو حدود میں رکھا جا سکے اور پولیس کو اپنی ذمے داریاں پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ادا کرنے کا پابند بنایا جا سکے۔


بلوچستان میں انسانی ہلاکتوں کے مہیب سلسلے سے امریکی کانگرس میں ۳؍ ارکانِ پارلیمنٹ نے جو آزاد اور عظیم بلوچستان کے بارے میں قرارداد پیش کی ہے وہ ہمارے لیے ایک چیلنج بھی ہے اور اپنے اندر بنیادی تبدیلی لانے کا نادر موقع بھی۔ چیلنج اس معنی میں کہ یہ ایک بہت کارآمد سیاسی حربہ ہو سکتا ہے جسے مسز اندرا گاندھی نے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے سے پہلے آزمایا تھا اور بڑی طاقتوں کے دارالحکومتوں میں جا کر پاک فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کی نسل کشی کی دہائی دی تھی۔ اس زہریلے پراپیگنڈے نے اس وقت عالمی برادری میں پاکستان کو تنہا کر دیا تھا، لیکن اب اصل حقائق سامنے آنے لگے ہیں اور بنگلہ دیش کے محقق اور مؤرخ کتابوں پر کتابیں شائع کر رہے ہیں کہ ۳۰؍ لاکھ انسانوں کا قتل اور لاکھوں خواتین کی بے حرمتی بہت بڑا مبالغہ اور ایک بے حقیقت تھا جبکہ بنگالیوں نے غیر بنگالیوں پر ناقابلِ بیان ظلم ڈھائے تھے۔ بدقسمتی سے پاکستان اُس وقت دنیا کو باور کرانے میں ناکام رہا تھا کہ فوجی آپریشن میں قانونی اور اخلاقی ضابطوں کا خیال رکھا گیا تھا۔ بلوچستان کے حوالے سے سیکورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کو اپنی پوزیشن بلاتاخیر صاف کر دینی چاہیے تاکہ عالمی رائے عامہ گمراہ نہ ہونے پائے۔ اوباما انتظامیہ پاکستان کو تواتر کے ساتھ یقین دلا رہی ہے کہ اس کا قرارداد سے کوئی تعلق نہیں اور وہ بھاری اکثریت سے مسترد ہو جائے گی۔ یہی امریکی اعلیٰ عہدے دار بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کی خود مختاری اور علاقائی سا لمیت کا بہت احترام کرتے اور اس کے ساتھ روابط ہمارے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں ۔ موجودہ حالات میں ان یقین دہانیوں کی بڑی قدروقیمت ہے۔ ان کا فائدہ ضرور اُٹھانا چاہیے مگر اُن پر مکمل اعتبار کرنے سے پہلے بہت کچھ سوچنا ہوگا کہ یہ قرارداد اسی روز کیوں پیش کی گئی جس وقت اسلام آباد میں پاکستان ایران اور افغانستان کی سربراہ کانفرنس منعقد ہوئی تھی اور پاکستان کی طرف سے یہ اعلان کیا جا رہا تھا کہ ایران پر حملے کے لیے وہ اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا اور گیس پائپ لائن کا منصوبہ ضرور مکمل کیا جائے گا۔



اس ضمن میں حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو مسئلے کی سنگینی کا احساس ہو گیا ہے اور بڑی سیاسی اور دینی جماعتیں بلوچ عوام کے ساتھ وسیع پیمانے پر یک جہتی کا اظہار کر رہی ہیں۔ اس ماحول میں علحٰدگی کے امکانات حددرجہ محدود ہو گئے ہیں۔ یہ بھی ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ علحٰدگی پسند عناصر کو عوام کی حمایت حاصل نہیں جو نا انصافیوں کے گہرے زخم کھانے کے باوجود پاکستان کے بندوبست میں اپنا مستقبل محفوظ سمجھتے ہیں۔ بلوچ حلقوں میں یہ سوال بھی زیرِ بحث آ رہا ہے کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد اسے قائم بھی رکھا جاسکے گا یا کسی بڑی طاقت کی غلامی قبول کرنا پڑے گی۔بلوچوں کے بزرگ لیڈر سردار عطاء اﷲ مینگل نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اپنے مسلح نوجوانوں سے بھی یہی سوال کیا تھا اور وارننگ دی تھی کہ تم کسی اور طاقت کے غلام بن جاؤ گے ۔تمام سنجیدہ بلوچ لیڈروں نے اس حقیقت کا ادراک کیا اور وہ اپنے باغی نوجوانوں سے اتفاق نہیں کر رہے۔ پاکستان کی ریاست اگر اپنی ذمے داریاں ٹھیک طور پرخیال کرتی اور اپنے شہریوں کی جان مال اور آبرو کے تحفظ میں کامیاب رہتی اور اپنی صلاحیتوں کی نشوونما کے لیے سازگار ماحول اور منصفانہ نظام فراہم کرتی ہے تو علیحدگی کی کوئی تحریک کامیاب نہیں ہو سکے گی اور عظیم تر بلوچستان کا واہمہ کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے گا کیونکہ ایرانی بلوچ مذہبی اعتبار سے بڑے انقلابی ہیں جبکہ پاکستانی بلوچ سیکولر مزاج نظریات کے حامل ہیں۔ پاکستان کو گمبھیر مسائل کے بھنور سے نکلنے کے لیے امریکا سےبرابری اور خودمختاری کی بنیاد پر ازسرِ نو تعلقات استوار کرنا سول ملٹری روابط کو ہموار اور متوازن بنانا ایگزیکٹو اورعدلیہ کے درمیان غیر ضروری چپقلش پر قابو پانا اور کرپشن اور بدترین بد انتظامی کے قلع قمع پر نہایت سنجیدگی سے توجہ دینا ہوگی۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ کہ سیاسی جماعتوں اور قومی سلامتی کے اداروں کو قانون اور اخلاق کی عملداری کے تحت لانا ہو گا۔ عدلیہ عوام کے مفاد میں بڑے دوررس فیصلے کر رہی ہے جن سے لاپتا افراد کے درپردہ معاملات بھی سامنے آ رہے ہیں اور انتخابات کے ذریعے عوام کی حقیقی نمائندگی کا حصول بھی ممکن دکھائی دیتا ہے۔ ہم یقینا بالغ نظری میانہ روی ایثار کیشی اور احترامِ باہمی کے ذریعے مشکل وقت کو نئے امکانات میں تبدیل کر سکتے ہیں اور ایک ایسا بندوبست وجود میں لا سکتے ہیں جس میں شہریوں کے لیے بے حد کشش پائی جاتی ہو۔ امریکا اور بھارت نے بلوچستان پر بہت کام کیا ہے اس لیے ہمیں کسی خوش فہمی میں رہنے کے بجائے جلد سے جلد معاشرتی عدل کا اہتمام اور جمہوری سیٹ اپ میں عوام کی فعال شراکت کی ضمانت دینا ہوگی۔ پاکستان کی ان حقیقی ضمانتوں کے ساتھ لیڈروں کا زور ٹوٹ جائے گا اور انہیں عالمی قانون اور عظیم ریاست کے سامنے سرنڈر کرنا پڑے گا کیونکہ ٹی وی چینلز پر اُن کا بھرم کھل چکا ہے اور یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ اُن کے مطالبات میں کوئی تاریخی حقیقت نہیں اور وہ باہر کی طاقتوں کا آلۂِ کار بنے ہوئے ہیں، تاہم شائستگی اور متانت کے ساتھ گفتگو کا درواز ہ نا صرف کھلا بلکہ اپنی حدود میں رکھنا ہوگا ورنہ یہ ڈر ہے کہ اُن کی بے سروپا باتوں سے ردِ عمل کے طور پر پختون حقوق کی نئی بحث بھی شروع ہو جائے گ



Source : Urdu Digest
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Amna For This Useful Post:
syeda naqvi (Monday, May 07, 2012)