View Single Post
  #4  
Old Saturday, April 28, 2012
Amna's Avatar
Amna Amna is offline
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default تعلیم نسواں



-------------------------------------------------------------------



تعلیمِ نسواں
انجم آراء،ناگپور





یوں تو تعلیم و تربیت کی ضرورت ہر دور میں محسوس کی جاتی رہی ہے ۔ دورَ جدید کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس کی ضرور ت اہمیت اور افادیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا ۔ آج دنیا جس برق رفتاری سے ترقّی کی منزلیں طے کر رہی ہے اس سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں ۔ نئے نئے علوم کے ساتھ ہی تحقیق و تدوین کا کام بھی اس قدر تیز رفتاری سے جاری ہے کہ دنیا انگشت بدنداں ہے ۔

مسلمانوں پر تو علم کا حاصل کرنا فرض قرار دیا گیا ہے یہی وجہ ہے کہ طلوعِ اسلام کے بعد مسلمانوں نے مختلف میدانوں میں جو کار ہائے نمایاں انجام دئے ہیں وہ تاریخ کے صفحات پر رقم ہیں ۔ اسلام نے دیگر شعبوں کی طرح حصولِ علم کے معاملہ میں مرد و زن کے مابین کوئی تفریق نہیں کی۔فرمانِ الٰہی ہے :

طلب العلم فریضۃُ علی کلِ مسلم و مسلمۃ
علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد اور عورت )پر فرض ہے۔

اس معاملہ میں دینی و دنیاوی علوم کی بھی تخصیص نہیں رکھی گئی ۔ مسلمان برائیوں سے بھی محفوظ رہے اس لئے مسلمان کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ برائیوں سے بھی آگاہ رہے ۔

ماں کی گود کو انسان کی پہلی درسگاہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں وارد ہوتے ہی اس کی تعلیم و تربیت کا سلسلہ ماں کی آغوش سے شروع ہو جاتا ہے اور تا دمِ آخر جاری رہتا ہے ۔ بچّے کی صحیح تعلیم و تربیت کا فریضہ ماں ہی بخوبی انجام دے سکتی ہے ۔ یہاں ہمیں ایک نکتہ یہ بھی ملتا ہے کہ استاد کے اندر بھی اگر ماںکی سی شفقت ، محبّت اورطالبِ علم کی خیر خواہی کا جذبہ موجود ہو توتعلیم کے تمام مراحل آسان اور پر اثر ہو جاتے ہیں ۔ عام طور ہر کہا جاتا ہے کہ ہر کامیاب شخص کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ضرور ہوتا ہے ۔ خواہ وہ سکندرِ اعظم کی ماں ہویا شیواجی کی جیجا ماتا ۔انگریزی زبان میں بھی اسی مفہوم کو ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے ،

The hands that rock the craddle,rule the world
جو ہاتھ جھولا جھلاتے ہیں، حقیقتاًوہی ہاتھ اس دنیا پر راج کرتے ہیں

تاریخ کے صفحات اس قول کی تصدیق کرتے ہیں۔ آج دنیا کے حالات پر نظر ڈالئے تو پتہ چلے گا کہ دنیا کیسے کیسے انقلابات سے دوچار ہے ۔ ان حالات میں خواتین کی ذمہ داریاں اور بھی بڑھ جاتی ہیں ۔ان کے لئے گھریلو فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ دنیا جہاں کے حالات سے با خبر رہنا بھی لازمی ہو گیا ہے ۔ یوں تو ہر مومن کے لئے لازمی ہے کہ وہ ہر خطرہ سے باخبر ہواور ایمان سمیت اپنی حفاظت خود کرے ۔ ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ مومن ایک سوراخ سے دوبار نہیں ڈسا جاتا ۔ایک انگریز کا قول ہے
:
An intelligent person is the one whose feet are planted in his
country and his eyes should survey the whole world.

یہ وقت کا تقاضا ہے کہ عورتیں بھی تعلیم کے زیور سے آراستہ ہوں، اسلئے کہ تعلیم انسان کو بہترین زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتی ہے ۔ دنیا کی عظیم المرتبت شخصیات نے خواتین کے مرتبہ کو سمجھا اور ان کا احترام کیا نبی کریم کا ارشاد ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنّت ہے ۔ یہ سچ ہے کہ عورت کو دنیا میں مختلف کردار نبھانے ہوتے ہیں ۔ کبھی ماں بن کر تو کبھی بہن کی صورت میں ، کبھی بیوی کے روپ میں اور کبھی بیٹی بن کران تمام مدارج میں اس کے ذمّہ داریاں بھی بدلتی رہتی ہیں ۔ اسے نئے نئے حالات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ ان تمام مدارج سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے لئے عورت کا تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے ۔ اگر عورت علم اور انسانیت سے عاری ہو تو اس کی موجودگی اچھّے خاصے گھر کو جہنّم میں تبدیل کر سکتی ہے اور اس کا اعلیٰ کردار پورے خاندان کے لئے نعمت اور برکت ثابت ہو سکتا ہے اس معاملہ میں تعلیم موثر کردار ادا کرتی ہے ۔

ہمارے عہد میں جو سماجی مسائل اور بہروپ جنم لے رہے ہیں خواہ وہ کسی مذہب و ملّت سے تعلق رکھتے ہوں اس بات کا ثبوت ہے کہ لوگوں کی تعلیم و تربیت میں کہیں نہ کہیں کوئی خامی ضرور رہ گئی تھی انسان صحیح تعلیم کے بعد ہی انسان بنتا ہے ورنہ تعلیم اس کے لئے الزام بن کر رہ جاتی ہے ۔


--------------------------------------------------


تعلیم نسواں اور اسلام

ڈاکٹر رحیق احمد عباسی


علم دین اسلام کی بنیادوں میں سے ایک اہم بنیاد ہے۔ علم کی اس سے بڑھ کر کیا اہمیت بیان کی جا سکتی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب اور آخری نبی ا پر جب نزول وحی کی ابتدا فرمائی تو پہلا حکم ہی پڑھنے کا نازل فرمایا۔ اس پر تمام ائمہ و مفسرین کا اتفاق ہے کہ نزول وحی کا آغاز سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات مبارکہ سے ہوا ہے:

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْO (العلق، ۹۶: ۱۔۵)

’’(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحم مادر میں) جونک کی طرح معلق وجود سے پیدا کیاo پڑھیے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھاo‘‘

اب ان آیات مبارکہ میں جہاں پہلا حکم ہی حصول علم کے process کے پہلے مرحلے یعنی پڑھنے کے حکم سے ہوا، وہاں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ کے رب اور خالق ہونے کے بیان کے ساتھ ساتھ علوم کی دو اہم شاخوں ۔ عمرانیات اور تخلیقات ۔ کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے۔ دوسری آیت میں علم حیاتیات؛ تیسری آیت میں علم اخلاقیات کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے یہ بات بھی واضح کر دی گئی کہ اسلام کا تصوّر علم بڑا وسیع ہے اور جب اسلام طلب و حصول علم کی بات کرتاہے تو وہ سارے علوم اس میں شامل ہوتے ہیں جو انسانیت کے لیے نفع مند ہیں؛ اور اس سے مراد صرف روایتی مذہبی علوم نہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں زمین و آسمان کی تخلیق میں تدبر و تفکر کی دعوت دی گئی اور یہی تدبر و تفکر جدید سائنس کی بنیاد بنا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ جدید سائنس، جس پر آج انسانیت ناز کرتی ہے، اس کی صرف بنیاد ہی مسلمانوں نے نہیں رکھی بلکہ وہ اصول و ضوابط اور ایجادات و دریافتیں بھی مسلمانوں نے ہی کی ہیں جنہوں نے سائنس کی ترقی میں اہم ترین کردار اداکیا ہے۔ (چونکہ یہ اصل مضمون نہیں لہٰذا اس کی تفصیل کے خواہش مند شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی دو جلدوں پر مشتمل کتاب ’’مقدمہ سیرت الرسول ا‘‘ کا مطالعہ فرمائیں۔) اسلام کے ایک ہزار سالہ عروج کے بعد اس کو درپیش آنے والے زوال کا ایک افسانہ یہ بھی ہے کہ بہت سے واضح اور بنیادی تصورات ۔ جن پر تاریخ میں کبھی ابہام نہ رہا تھا ۔ اس دور میں دھندلائے ہی نہیں بلکہ پراگندہ ہو گئے ہیں۔ ان میں ایک خواتین کا حصول علم ہے۔ آج کے دور میں بعض ایسے مذہبی ذہن موجود ہیں جو عورتوں کے حصول علم کے خلاف ہیں اور اگر خلاف نہیں تو ایسی پابندیوں کے قائل ضرور ہیں کہ جن کی وجہ سے خواتین اور بچیوں کا حصول علم ناممکن ہوجائے۔ حصول علم کے فرض ہونے پر کوئی اختلاف نہیں۔ قرآن مجید میں پانچ سو کے لگ بھگ مقامات پر بلا واسطہ یا بالواسطہ حصول علم کی اہمیت اور فضیلت بیان کی گئی۔ حضور نبی اکرم ا کے فرائض نبوت کا بیان کرتے وقت بھی اللہ تبارک و تعالیٰ نے ارشاد فرمایا۔:

كَمَا أَرْسَلْنَا فِيكُمْ رَسُولاً مِّنكُمْ يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُعَلِّمُكُم مَّا لَمْ تَكُونُواْ تَعْلَمُونَ O (البقرۃ، ۲: ۱۵۱)

’’اسی طرح ہم نے تمہارے اندر تمہی میں سے (اپنا) رسول بھیجا جو تم پر ہماری آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور تمہیں (نفساً و قلباً) پاک صاف کرتا ہے اور تمہیں کتاب کی تعلیم دیتا ہے اور حکمت و دانائی سکھاتا ہے اور تمہیں وہ (اسرار معرفت وحقیقت) سکھاتا ہے جو تم نہ جانتے تھےo‘‘

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُواْ عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ O (الجمعہ، ۶۲: ۲)

’’وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (ا) کو بھیجا وہ ان پر اس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں۔ اور ان (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں بے شک وہ لوگ ان (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھےo‘‘

ان آیات کے بغور مطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ آپ ا کے فرائض نبوت: تلاوت آیات، تزکیہ نفس، تعلیم کتاب، تعلیم حکمت اور ابلاغ علم ہیں۔ ان پانچ میں سے چار براہ راست علم سے متعلق ہیں جبکہ پانچواں اور ترتیب میں دوسرا تزکیہ نفس بھی علم کی ایک خاص قسم ہے جسے علم تزکیہ و تصفیہ یا اصطلاحاً تصوف کہا جاتا ہے۔ اب اگر علم کے دروازے خواتین پر بند کر دیے جائیں یا ان کے حصول علم پر بے جا پابندیاں عائد کرنا شروع کر دی جائیں تو پھر وہ کس دین پر عمل کریں گی۔ یا ان کا دین مصطفوی سے کیارابطہ رہ جائے گا۔ کیونکہ جو دین حضور نبی اکرم ا لے کر آئے وہ تو سارے کا سارا علم سے عبارت ہے۔

اسلامی شریعت کا ایک بنیادی قائدہ ہے کہ جب بھی کوئی حکم نازل ہوتا ہے تو اس کے لیے صیغہ مذکر استعمال ہوتا ہے لیکن اس میں صنف نازک بھی شامل ہوتی ہے۔ اگر اس حکم و اصول کو ترک کر دیاجائے تو نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جیسے بنیادی ارکان سمیت بے شمار احکام شریعت کی پابندی خواتین پر نہیں رہتی۔ چونکہ ان احکام کے بیان کے وقت عموماً مذکر کا صیغہ ہی استعمال کیاگیاہے، لہٰذا یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جن آیات و احادیث کے ذریعے فرضیت و اہمیت علم مردوں کے لیے ثابت ہے، انہی کے ذریعے یہ حکم خواتین کے لیے بھی من و عن ثابت شدہ ہے۔

فرضیت علم کا براہ راست بیان بے شمار احادیث میں بھی آیا ہے۔ حضور نبی اکرم ا نے ارشاد فرمایا: ’’حصول علم تمام مسلمانوں پر(بلا تفریق مرد و زن) فرض ہے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ، المقدمہ، ۱:۸۱، رقم: ۲۲۴)
اسی طرح ایک دوسرے موقع پرحضور نبی اکرم ا نے فرمایا: ’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے، بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔‘‘ (ابن عبد البر، جامع بیان العلم، ۱: ۲۴، رقم: ۱۵) ایک اور مقام پر آپ ا فرمایا: ’’جو شخص طلب علم کے لئے کسی راستہ پر چلا، اﷲ تعالیٰ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الذکر، ۴: ۲۰۷۴، رقم: ۲۶۹۹)

لہٰذا جب یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن سے حصول علم خواتین کے لیے بھی اسی طرح فرض ہے جیسے مردوں کے لیے تو اب اسوۂ رسول ا اور سیرت نبوی ا کی روشنی میں جائزہ لیں تو معلوم ہو گا کہ حضور ا نے خود خواتین کی تعلیم و تربیت کا خصوصی اہتمام فرمایا:

’’حضرت ابو سعید خدری ص سے روایت ہے کہ عورتیں حضور نبی اکرم ا کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئیں: آپ کی جانب مرد ہم سے آگے نکل گئے، لہٰذا ہمارے استفادہ کے لیے بھی ایک دن مقرر فرما دیجیے۔ آپ ا نے ان کے لئے ایک دن مقرر فرما دیا۔ اس دن آپ ا ان سے ملتے انہیںنصیحت فرماتے اور انہیں اﷲ تعالیٰ کے احکام بتاتے۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب العلم، ۱: ۵۰، رقم: ۱۰۱)

ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ ؓعالمہ، محدثہ اور فقیہہ تھیں۔ آپ سے کتب احادیث میں ۲۱۰٬۲ مروی احادیث ملتی ہیں۔ مردوں میں صرف حضرت ابو ہریرہ، حضرت عبد اﷲ بن عمر اور حضرت انس بن مالک ث ہی تعداد میں آپ سے زیادہ احادیث روایت کرنے والوں میں سے ہیں۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ ضروری تقاضے پورے کرنے کی صورت میں عورتیں نہ صرف عورتوں بلکہ مردوں کو بھی پڑھا سکتی ہیں۔

’’حضرت عائشہ بنت طلحہ روایت کرتی ہیں: میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے پاس رہتی تھیں، میرے پاس ہر شہر سے لوگ آتے (جو بغرض تعلیم سوالات کرتے تھے) اور بوڑھے لوگ بھی آتے تھے کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ میں ان کی خادمہ ہوں۔ اور جو طالب علم نوجوان تھے وہ میرے ساتھ بہنوں جیسا برتاؤ کرتے تھے اور (میرے واسطہ سے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی خدمت میں) ہدایا پیش کرتے تھے۔ بہت سے مختلف شہروں سے مجھے بھی خط لکھتے تھے (تاکہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے معلوم کر کے جواب لکھ دوں)۔ میں عرض کرتی تھی: اے خالہ! فلاں کا خط آیا ہے اور اس کا ہدیہ ہے تو اس پر حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی تھیں کہ اے بیٹا! اس کو جواب دے دو اور اس کے ہدیہ کا بدلہ بھی دے دو۔ اگر تمہارے پاس دینے کو کچھ نہیں تو مجھے بتا دینا میں دے دوں گی۔ چنانچہ وہ دے دیا کرتی تھیں (اور میں خط کے ساتھ بھیج دیتی تھی)۔‘‘ (بخاری، الادب المفرد، ۱:۳۸۲، رقم: ۱۱۱۸)

ایک مغالطہ یہ بھی پایا جاتا ہے کہ عورتوں اور بچیوں کا مردوں سے پڑھنا ناجائز ہے۔ بہتر یہی ہے کہ بچیوںکے لیے خواتین اساتذہ کاہی انتظام ہو مگر ایسا نظام نہ ہونے کی صورت میں مردوں کا باپردہ ماحول میں عورتوں کو پڑھانا بھی از روئے شرع منع نہیں ہے۔ چونکہ حضور ا خواتین کی تعلیم و تربیت کا اہتمام فرماتے تھے، مسجد نبوی میں ہفتے کا ایک دن خواتین کے لئے مخصوص کرنے کا ذکر بھی ملتاہے۔ (صحیح بخاری، کتاب العلم، ۱: ۵۰، رقم: ۱۰۱)

بعض لوگ احکام پردہ کا بہانہ بنا کر عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کے مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ چونکہ گھر سے باہر ہر طرف مرد ہوتے ہیں، لہٰذا پردہ قائم نہیں رہتا۔ سب سے پہلے تو یہ عذر انتہائی مضحکہ خیز ہے۔ اگر بچیاں تعلیم کے لیے باہر نہیں نکل سکتیں تو ان کا کسی مقصد کے لیے بھی باہر نکلنا جائز نہ ہوا۔ ایسے لوگوں کی نظر میں خواتین کا گھروں سے باہر نکلنا ہی ممنوع ہے۔ حالاں کہ اسلامی شریعت و تاریخ میں اس کے اثبات میں کوئی حکم نہیں ملتا۔ خود آیت پردہ ہی اس بات پر دلیل ہے کہ اسلامی پردہ گھر سے باہر نکلنے کے لیے ہی ہے۔ گھروں میں بیٹھے رہنے سے احکام پردہ لاگو نہیں ہوتے کیونکہ پردہ غیر محرموں سے ہوتاہے اور گھر میں تو عموماً محرم ہی ہوتے ہیں۔ آیت پردہ کا مطالعہ کریں:

وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا
(النور، ۲۴: ۳۱)

’’اور (اے رسول مکرم!) مومنہ عورتوں سے کہہ دو کہ (مردوں کے سامنے آنے پر) وہ اپنی نظریں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنی زینت و آرائش کی نمائش نہ کریں سوائے جسم کے اس حصہ کو جو اس میں کھلا ہی رہتا ہے۔‘‘

اس میں منع زینت کے اظہار سے کیا گیا ہے۔ اور زینت کے اظہار سے مراد ہے بناؤ سنگھار کا اظہار کرنا۔ دوسرا یہ کہاگیا کہ جب گھر سے نکلیں تو چادر اوڑھ لیاکریں تاکہ باہر دوسری فطرت کی عورتوں میں مومنات کا امتیاز نظر آئے۔ سورۃ الاحزاب میں امہات المومنین اور خانوادۂ نبوت کی خواتین کو خطاب کے ذریعے تعلیم امت کے لیے حکم فرمایا:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ ذَلِكَ أَدْنَى أَن يُعْرَفْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا َّحِيمًا O

’’اے نبی! اپنی بیویوں اور اپنی صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادیں کہ (باہر نکلتے وقت) اپنی چادریں اپنے اوپر اوڑھ لیا کریں، یہ اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ پہچان لی جائیں (کہ یہ پاک دامن آزاد عورتیں ہیں) پھر انہیں (آوارہ باندیاں سمجھ کر غلطی سے) ایذاء نہ دی جائے، اور اللہ بڑا بخشنے والا بڑا رحم فرمانے والا ہےo‘‘

لہٰذا احکام پردہ خود خواتین کے گھر سے باہر نکلنے کی سب سے بڑی دلیل ہے۔ دوسرا اگر خواتین کا گھر سے نکلنا ممنوع ہوتا تو حضور ا کے ساتھ آپ کی ازواج مطہرات غزوہ بدر میں کیوں شریک ہوئیں۔ آپ درج ذیل احادیث کا مطالعہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ دور رسالت ا میں خواتین کن معمولات میں شریک ہوئیں۔

’’حضرت انس ص نے فرمایا: جب جنگ احد میں لوگ حضور نبی اکرم ا سے دور ہو گئے تو میں نے حضرت عائشہ بنت ابی بکر اور حضرت ام سلیمؓ کو دیکھا کہ دونوں نے اپنے دامن سمیٹے ہوئے ہیں ۔ دونوں اپنی پیٹھ پر پانی کی مشکیں لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتی تھیں، پھر لوٹ جاتیں اور مشکیزے بھر کر لاتیں اور پیاسے مسلمانوں کو پلاتیں۔‘‘ (صحیح بخاری، کتاب الجھاد والسیر، ۳: ۱۰۵۵، رقم: ۲۷۲۴)

’’حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں: میں نے رسول اﷲ ا کے ساتھ سات جہاد کیے، میں غازیوں کی منزلوں میں ان کے پیچھے رہتی تھی، ان کے لئے کھانا پکاتی اور زخمیوں کی مرہم پٹی کرتی تھی اور بیماروں کے علاج کا انتظام کرتی تھی۔‘‘ (صحیح مسلم، کتاب الجہاد و السیر، ۳: ۱۴۴۷، رقم: ۱۸۱۲)

اور یہ معمول دور رسالت کے بعد خلافت راشدہ میں بھی جاری رہا جیسے دور فاروقی میں خواتین پارلیمنٹ (مجلس شوریٰ) کی رکن تھیں۔ (مصنف عبد الرزاق، ۶: ۱۸۰، رقم: ۱۰۴۲۰)۔ اور سیدنا عثمان غنی ص کے دور میں خواتین کو دوسرے ممالک میں سفیر نام زد کیا گیا۔ (تاریخ طبری، ۲: ۶۰۱)

اسی طرح تاریخ اسلام میں بے شمار ایسی خواتین کا ذکر ملتا ہے جنہوں نے علم التفسیر، علم الحدیث ، علم الفقہ، علم لغت و نحو، علم طب، شاعری ، کتابت، وغیرہ میں منفرد مقام حاصل کیا۔ (بحوالہ ’’اسلام میں خواتین کے حقوق‘‘ از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری)

لہٰذا عورتوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی کا فلسفہ و فکر ہی مزاجاً اسلامی نہیں۔ یہ کسی علاقے کی روایت و رسم تو ہو سکتی ہے مگر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔

اب اس اعتراض کا ایک اور انداز سے بھی جائزہ لیں۔ اگر بالفرض معاشرہ ایسا ہے کہ پردہ کے جملہ لوازمات پورے نہیں ہوتے اور اسلامی پردہ ممکن ہی نہ ہو تو پھر دو احکام کا تقابلی جائزہ لیاجائے گا۔ پردہ کا حکم قرآن حکیم میں دو مقامات پر آیا ہے اور حصول علم کا بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر کم و بیش پانچ سو بار آیا ہے۔ اب خدانخواستہ حالات ایسے ہیںکہ خواتین کو مکمل شرعی پردے اور تعلیم میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو بھلا کس کا انتخاب کیاجائے گا؟ ظاہر ہے اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کے تمام تقاضوں کی تکمیل کرتے ہوئے اس حکم کا انتخاب کرنا پڑے گا جس کی اہمیت اللہ تعالیٰ نے زیادہ بیان کی ہے، نہ کہ اس کی جس کی اہمیت کسی نام نہاد ملا کے نزدیک زیادہ ہے۔

لہٰذا پردہ کا بہانہ بناکر خواتین کی تعلیم پر پابندی لگانا خلاف اسلام ہے اور قرآن و سنت کی تعلیمات اس کی اجازت ہر گز نہیں دیتیں۔ فرضیت علم کے لیے مرد و خواتین میں کوئی امتیاز اسلام نے قائم نہیں کیا۔ آخر میں اسی اہم مسئلہ کی طرف میں اہل علم کی توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ حصول علم فرض عین ہے اور یہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ اس امر پر بھی اسلام کے جملہ مسالک و مذاہب متفق ہیں کہ کسی فرض کا صریح انکار کفر ہے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص آج کے دور میں خواتین کی تعلیم کو حرام سمجھتاہے چاہے اس کی تاویل کوئی بھی کرے تو ایک فرض کا صریح انکار ہے۔ لہٰذا اس طرح کے بے بنیاد فتوے ، جس سے پوری دنیا میں اسلام کی جگ ہنسائی ہو، اسلام کے روشن چہرے کو داغ دار کیاجائے اور من گھڑت تصور اسلام عام کیا جاتا ہو، کی بھرپور حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور تمام علماء کو اس کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل پر اتفاق کرنا چاہیے تاکہ اسلام کو بدنام کرنے والے اس طرح کے مذموم عناصر کو لگام دی جاسکے۔



Source :http://www.pat.com.pk/


__________________________________________________ __________

تعلیم نسواں کی اہمیت

بنت-فضل-بیگ-مہر


ہر قوم کی تعمیر و ترقی کا انحصار اس کی تعلیم پر ہوتا ہے۔ تعلیم ہی قوم کے احساس وشعور کو نکھارتی ہے اور نئی نسل کو زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ انسان کسی صفت و کمال سے وہ دل کی صفائی‘ فراخی اور وسعت حاصل نہیں کرسکتا جو علم کی بدولت حاصل کرنے میںکامیاب ہوجاتا ہے۔تعلیم ایک ایسا عمل ہے جو تخلیق انسانی کے ظہور سے شروع ہوا۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کو تمام مفید انسانی علوم کی تعلیم فرمائی۔ پھر یہ علوم نسل انسانی میں منتقل ہوتے رہے اور آج علوم کی بے شمار اخیں ہیں۔ علم کی افادیت قرآن و حدیث سے بھی ثابت ہے۔ سورہ مجادلہ آیت نمبر ۱۱ میں اﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر رمایا ہے جنہیں علم کی دولت سے نوازا گیا ہے۔

اﷲ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا (ترجمہ کنزالایمان)

سورہ زمر آیت ۹ میں علم والوں کی فضیلت کا کچھ اس طرح سے بیان ہے:
تم فرمائو کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان‘ نصیحت تو وہی مانتے ہیں جو عقل والے ہیں (ترجمہ کنزالایمان)

سرکار مدینہ نے فرمایا اس ذات پاک کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جو کوئی طالب علم کبھی عالم کے دروازے پر علم سیکھنے کے لئے آمدورفت رکھتا ہے اس کے ہر قدم پر ایک ایک سال کی عبادت لکھ دی جاتی ہے اور ہر ہر قدم کے بدلے میں جنت میں اس کے لئے ایک ایک شہر آباد کردیا جاتا ہے اور جس زمین پر چلتا ہے وہ زمین اس کے لئے استغفار کرتی ہے (نزہتہ المجالس)

مسلمان کے لئے علم ایک عظیم تر نعمت ہے بس مومن کی شان یہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنے علم میں اضافہ کرنے کی ہرممکن کوشش کرتا رہے۔ زندگی کے جس حصے میں چاہے بچپن کے ایام ہوں یا جوابی کاد ور ہو یا بڑھاپے کی سرحدیں عبور کررہا ہو‘ پس جہاں سے اور جب اسے علم دین ملے تو اسے اپنی گمشدہ نعمت سمجھ کر حاصل کرے کہ علم جتنا زیادہ ہوگا اتنا ہی اس کے درجات بڑھتے جائیں گے اور دنیا و آخرت میں اس کی فلاح و بہبود اور ترقی کے دروازے کھلتے جائیں گے۔

الغرض کہ علم ایسی چیز نہیں جس کی فضیلت اور خوبیوں کے بیان کرنے کی حاجت ہو۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ علم ایک بہت بہتر چیز ہے۔ ایک لازوال دولت ہے اور اﷲ عزوجل کی ایک بہت بڑی نعمت ہے اور اس کا حاصل کرنا وجہ امتیاز و فضیلت و شرف اور سعادت مندی ہے۔ یہی وہ چیز ہے کہ اس سے انسانی زندگی کامیاب اور خوشگوار ہوتی ہے اور اسی سے دنیا و آخرت سنورتی ہے۔

حضرت امام غزالی رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان ہے ’’تعلیم کا مقصد صرف نوجوان نسل کی پیاس بجھانا نہیں بلکہ ساتھ ہی ان میں اخلاقی کردار اور اجتماعی زندگی کے اوصاف نکھارنے کا احساس بھی پیدا کرنا ہے‘‘

آج ہم پستی کی طرف جارہے ہیں اور زوال کا شکار ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری نئی نسل علم کی عطا کردہ بصیرت اور لذت سے محروم ہے۔ علم کے نتیجے میں نیک و بد اور خوب و ناخوبکی جو تمیز پیدا ہونی چاہئے‘ اس کا بھی فقدان ہے۔ اخلاق و کردار کے لحاظ سے تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ میں فرق کرنا مشکل ہے۔ غرض یہ کہ علم جو اعتماد قوت عملی اور اخلاق پیدا کرتاہے اس سے ہماری نئی نسل عاری نظرآتی ہے۔ اس حقیقت کا احساس عام ہے کہ ہمارے ہاں تعلیم اپنی افادیت کھو چکی ہے اور ہمارے معاشی اور معاشرتی تقاضوں سے تعلیم کا کوئی ربط و رشتہ باقی نہیں رہ گیا۔ اس طرح ہمارا سارا معاشرہ اپنی اقدار سمیت شکست کا شکار ہوگیا ہے۔ یہ ہم سب کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

اس کے علاوہ آج ہمارے معاشرے میں عورت کی تعلیم پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی جبکہ حدیث مبارک میں ہے کہ :
حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ معلم کائنات سرکار دو عالم نے ارشاد فرمایا:طالب العلم فریضتہ علیکل مسلم یعنی علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مردو عورت) پر فرض ہے۔

معلوم ہوا کہ مرد کی طرح عورت پر بھی علم کا حصول فرض ہے۔ خواتین پردے میں رہتے ہوئے کسی بھی سطح تک تعلیم حاصل کرسکتی ہیں۔ اسلام نے انہیں تعلیم حاصل کرنے سے منع نہیں کیا۔ لیکن حدود توڑنے کی صورت میں بغاوت کے زمرے میں آئیں گی۔
معاشرے کو سنوارنے یا بگاڑنے میں عورت کا بہت ہاتھ ہوتا ہے۔ اسلام نے دنیا کو بتایا کہ جس طرح مرد اپنا مقصد وجود رکھتا ہے اسی طرح عورت کی تخلیق کی بھی ایک غائیت ہے۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی تشکیل صرف مرد تک ہی محدود نہیں بلکہ عورت بھی اس میں برابر کی حقدار ہے۔

عورت پر گھریلو ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورت کے لئے امور خانہ داری کے علاوہ دنیا کے باقی کام ممنوع ہیں۔ بلکہ خانگی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے بعد وہ اپنے ذوق اور رجحان کے لحاظ سے علمی‘ ادبی اور اصلاحی کاموں میںحصہ لے سکتی ہے۔ مسلمان عورت ڈاکٹر‘ پروفیسر‘ انجینئر‘ عالمہ‘ مورخ‘شاعرہ‘ ادیبہ اور محقق وغیرہ سب کچھ ہوسکتی ہے کیونکہ ایک خود مختار فرد کی حیثیت سے اس کا یہ پیدائشی ورثہ ہے۔

دین اسلام نے واضح طور پر بتادیا ہے کہ مرد اور عورت کی تخلیقی بنیاد ایک ہے۔ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی فضیلت انسانی کا ذکر آیا ہے اس میں مرد اور عورت دونوں برابر کے شریک ہیں۔ تقویٰ اور آخرت کی فلاح کا جو معیار مرد کے لئے مقرر کیا گیا ہے‘ وہی عورت کے لئے ہے۔ ہمارا دین عورت کو گھر کی چار دیواری میں اس طرح قید نہیں کرتا کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے دوسروں کی دست نگر رہے۔ نبی اکرم نے فرمایا:بے شک تمہیں اﷲ نے گھر سے نکلنے کی اجازت دی ہے اپنی ضروریات کے حصول کے لئےاسلام کے عظیم احسانات میں سے عورت کو جس قدر حصہ ملا ہے‘ اس کی مثال دنیائے تاریخ میں نہیں ملتی اور اسی طرح تعلیمات نبوی پر عمل کرتے ہوئے جو کارنامے معزز محترم خواتین نے انجام دیئے ان سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا۔

آیئے عورت کی تعلیم کے حوالے سے اس عظیم ہستی کا ذکر خیر کرتے ہیں کہ جنہوں نے شجاعت و بہادری جذبہ عبادت‘ بندگی‘ علمی خدمات میں اپنی مثال قائم کردی ہے۔ ہر میدان علم و عمل میں ان کی شہرت کے پرچم لہرا رہے ہیں۔ وہ عظیم ہستی ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا ہیں۔ انہیں قرآن کریم کی پہلی حافظہ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ بلند پایہ محدثہ تھیں ۔ تقریبا ۲۲۱۰ احادیث مبارکہ کی حافظہ بھی تھیں اور ہزاروں صحابہ کرام علیہم الرضوان کی استاد بھی تھیں۔ دین کا 1/3 حصہ انہیں کی بدولت ہم تک پہنچا۔ خلافت فاروقی میں اہم معاملات میں ان کی رائے کو فضیلت دی جاتی تھی۔ بڑے بڑے جلیل القدر صحابہ ان کی خدمت میں حاضر ہوکر ہر قسم کے مسائل پوچھا رتے تھے۔ حضرت ابو موسیٰ الشعری فرماتے ہیں کہ ہم لوگوں کو کوئی مشکل ایسی نہیں نہ آئی جس کا علم حضرت ائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کے پاس نہ ہو۔ حضرت عروہ بن زبیر کا قول ہے کہ میں نے قرآن‘ حدیث‘ فقہ‘ تاریخ میں ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہ سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔

کتب سیرت میں متعدد روایتیں ملتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو دینی علوم کے علاوہ طب‘ تاریخ اور شعر و ادب میں بھی دسترس حاصل تھی۔ مگر افسوس کہ آج مسلم خواتین میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ نہ اسلام کا جوش ہے‘ نہ ایمان کا جذبہ ہے اور نہ ہی علم حاصل کرنے کی لگن ہے۔ انہیں تو بس نت نئے فیشن اپنانے کا شوق ہے۔ اور دنیا کی حرص و ہوس ہے۔ یہ سب علم سے دوری اور احکام شریعت سے لاعلمی کی وجہ سے ہے۔آج ہمارے معاشرے کے وہ والدین جو اپنے لڑکوں کی تعلیم پر زیادہ توجہ دیتے ہیں لیکن لڑکیوں پر توجہ نہیں دیتے‘ انہیں چاہئے کہ ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی مقدس زندگی سے درس حاصل کرتے ہوئے لڑکیوں کو بھی علم کی راہوں سے روشناس کروائیں۔ یاد رہے کہ جس قوم کی بیٹی پڑھی لکھی ہوتی ہے اس قوم کی اخلاقی بنیادیں بھی مضبوط ہوتی ہے
۔

Source :http://www.tahaffuz.com
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote