View Single Post
  #6  
Old Monday, April 30, 2012
Amna's Avatar
Amna Amna is offline
Super Moderator
Moderator: Ribbon awarded to moderators of the forum - Issue reason: Best Moderator Award: Awarded for censoring all swearing and keeping posts in order. - Issue reason: Diligent Service Medal: Awarded upon completion of 5 years of dedicated services and contribution to the community. - Issue reason:
 
Join Date: Aug 2005
Location: Desert of Dream
Posts: 2,926
Thanks: 446
Thanked 1,987 Times in 1,041 Posts
Amna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud ofAmna has much to be proud of
Default پاکستان میں توانائی کا بحران

توانائی کا بحران…فوری حل کا متقاضی۔۔۔۔۔اطہرعلی خا

جدیددور میںتوانائی کی عدم موجودگی میں ترقی کا تصوربھی نہیں کیا جاسکتا ۔توانائی معیشت کی ترقی کی اہم کنجی ہے۔بدقسمتی سے آج وطن عزیز بالخصوص ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کو توانائی کے بدترین بحران کا سامنا ہے۔ پورا ملک اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہےـ دن کو کاروبار زندگی جامد نظرآتا ہے تو رات کو اندھیروں کا راج ہوتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ہر ماہ بجلی کی قیمتوں میں غیرمنصفانہ اضافہ کیا جارہا ہے۔ ان حالات میں عوام کے پاس احتجاج کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے؟۔پاکستان قدرتی وسائل سے مالا مال ہے اوران وسائل کو استعمال میں لا کر توانائی کے بحران پر کسی حد تک قابو پایا جا سکتا ہےـ گنے کے پھوگ’ کوئلے’ ہائیڈل اور شمسی توانائی کے وسائل سے توانائی حاصل کی جا سکتی ہےـگزشتہ چار برسوں کے دوران وفاقی حکومت نے توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے کوئی بھی اقدام نہیں اٹھایا،البتہ رینٹل پاور جیسے منصوبوں سے قومی خزانے پر بوجھ ضرور ڈالا گیا،وفاقی حکومت کی اِسی ناقص پالیسی اور بد انتظامی کی بنا پر آج نہ صرف ملک کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ غریب کا چولہا ٹھنڈا اور کارخانوں کی چمنیوں سے دھواں نکلنا بھی بندہو گیا ہے۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ گیس کی فراہمی میں بھی پنجاب سے امتیازی سلوک برتا گیا، 20، 20 گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ نے عوام کی زندگیاں اجیرن بنادی ہیں اور بلبلاتے عوام اور مزدور آج سڑکوں پر سراپا احتجاج ہیں ۔بجلی کا بحران ہر تین چار ماہ بعد دوبارہ سر اٹھاتا ہے۔ حکومت چند ماہ کیلئے عارضی اقدامات کرتی ہے لیکن اس بحران سے نمٹنے کیلئے کوئی بھی مستقل اور دیرپا حل تلاش نہیں کرتی ۔ وفاقی حکومت سرکلر ڈیٹ (گردشی قرضہ) کی ادائیگی کے مسئلے کا حل بھی نہیں کر تی ،نتیجتاً حکومت کے ذمے بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کے اربوں روپے واجب الادا ہیں۔مرکز میں اقتدارپربراجمان حکمران یہ کہہ کراپنی جان چھڑا لیتے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم کے بعدبجلی کی پیداوار کا اختیار صوبوں کو سونپ دیاگیا ہے تاہم بیرونی امداد اور قرضے وفاقی حکومت کی سوورن گارنٹی (Sovereign Guarantee)کے محتاج ہیں اور وفاقی حکومت صوبائی منصوبوں خصوصاً پنجاب کے منصوبوں کیلئے بھی گارنٹی دینے کوتیار نہیں ہے۔اس وقت ملک میں بجلی کی کل پیداواری استعداد 30ہزار میگاواٹ ہے ، جس میں سے صرف 17ہزارمیگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے۔17ہزار میگاواٹ میں سے 70فیصد تیل اور گیس کے پلانٹس سے حاصل ہوتی ہے اور اس میں سے 6500 میگاواٹ آئی پی پیز (IPPs)کا حصہ ہے ۔دونوں بڑے ڈیموں منگلا اور تربیلامیں پانی کا ذخیرہ ڈیڈ لیول پر ہے جس کی وجہ سے ہائیڈل بجلی پیدا نہیں ہو رہی اور تمام انحصار آئی پی پیز اور (Gencos)پر ہے اور ان کی کل استعداد 12ہزار میگاواٹ ہے اور اتنی ہی اس وقت سسٹم کی کل ضرورت ہے لیکن یہ پلانٹ اس وقت واپڈا کو 6500میگاواٹ فراہم کر رہے ہیں اور 6ہزار میگاواٹ کی کمی کا سامنا ہے کیونکہ پیپکو نے ان میں سے بہت سے پلانٹس کو ادائیگی نہیں کی جس کی وجہ سے وہ تیل نہیں خرید سکتے اور پلانٹ بند ہیں،بجلی کے بحران پر قابو پانے کیلئے وفاقی حکومت کی پالیسی انتہائی ناقص رہی ، رینٹل پاور جیسے متنازعہ اور کرپٹ منصوبے شروع کئے گئے جن سے پیپکو کی حالت مزید خراب ہوئی اور سرکلر ڈیٹ میں اضافہ ہوا ۔نندی پور اور چیچو کی ملیاں (850میگاواٹ) جو کہ توانائی کے بحران سے نمٹنے کیلئے ایک اچھا منصوبہ تھا ،اسے بھی وفاقی حکومت کی غیرسنجیدگی کی بھینٹ چڑھا کر ادھورا چھوڑدیا گیا ۔ وزیراعلی پنجاب محمد شہبازشریف کی طرف سے بار بار آواز اٹھانے پریہ منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیاگیا اور یہ منصوبہ جو دو سال پہلے مکمل ہونا تھا اس کا آغازاب کیا گیا ہے جس سے وفاقی حکومت کے بجلی کے بحران سے نمٹنے کے حوالے سے سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ہائیڈل پاور پراجیکٹس جو سستی بجلی کا بہترین ذریعہ ہیں انہیں جان بوجھ کر نظر انداز کر کے آئی پی پیز اور رینٹل پاورمنصوبوں پر کرپشن کے لیے توجہ مرکوز رکھی گئی۔ اسی طرح تھرکول کے منصوبے کو نااہلی سے منسلک کر دیا گیا۔ وفاقی حکومت کے لئے صوبوں کو بجلی بنانے کا حق سب سے پہلے پنجاب نے مانگا اور یہ مطالبہ اسی وقت کیا گیا جب یہ حقیقت پوری طرح آشکار ہوگئی کہ وفاقی حکومت توانائی کے بحران پر قابو پانے میں چنداں سنجیدہ نہیں ۔ صوبوں کو بجلی پیدا کرنے کا حق مئی 2011ء میں دیا گیا لیکن کوئی صوبہ جتنی بھی کوشش کیوں نہ کر لے بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ 30ماہ سے پہلے مکمل نہیں کیا جاسکتاـالزام لگانے والوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آج توانائی کے بحران کی تمام تر ذمہ دار وفاقی حکومت ہی ہے ۔صوبے اگر بجلی بنا بھی لیں تو اسے بنانے ، ترسیل اور ٹیرف (Tarrif)طے کرناوفاقی ادارے (نیپرا) کا اختیار ہے ۔بجلی کی ترسیل اور تقسیم کیلئے(NTDC)اورڈسکو(Disco)کی اجازت درکار ہے ۔ پنجاب کو توانائی کے پراجیکٹس کیلئے ان اداروں نے تگنی کا ناچ نچایا ہے ۔ پنجاب نے تمام صوبوں سے پہلے انرجی ڈیپارٹمنٹ قائم کیا اور صوبائی کابینہ نے اکتوبر 2011ء میں آئندہ تین سالوں کے لیے مختلف منصوبوں کی منظوری دی جس کے تحت 3ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کی جائے گی۔ان منصوبوں میںایشین ڈویلپمنٹ بنک کے تعاون سے 10 نہروں پر 90میگاواٹ کا ہائیڈل پیداواری منصوبہ ،چین کے ادارےCWE کے تعاون سے تونسہ بیراج پر 120میگاواٹ ،چین کی کمپنیCMEC کے اشتراک سے مظفر گڑھ میں چما لانگ کوئلہ سے 300میگاواٹ کا منصوبہ،گنے کے پھوک اور فصلوں کی باقیات سے بجلی بنانے کے منصوبوں کا اجرا،ترکی کے ایگزم بنک سے پاور پراجیکٹس کی فنانسنگ کامعاہدہ اور دیگر منصوبے شامل ہیں ۔پنجاب حکومت کا مؤقف ہے کہ بجلی کے بحران سے نمٹنے کیلئے مختصرالمدت اقدامات کئے جائیں۔لائن لاسز،بجلی چوری اور کنڈہ کلچر کا خاتمہ ضروری ہے ۔گنے کے پھوک سے بجلی بنانے کو ترجیحی بنیادوں پر فروغ دیا جائے اور پنجاب حکومت کی اس سلسلے میں تجاویز کو وفاقی ادارے منظور کریں۔ پانی اور مقامی کوئلے سے بجلی بنانے کیلئے مناسب سہولیات اور قرضے کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ تاہم ان تجاویز پر کان دھرنے کی بجائے پنجاب سے توانائی کی فراہمی میں سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے ۔ گزشتہ برس بھی وزیراعلی پنجاب نے صنعت کاروں، تاجروں اور مزدوروں کے ساتھ مل کر اس ظلم اور زیادتی پر آواز اٹھائی تھی اور وزیراعظم کی توجہ اس جانب مبذول کرائی تھی اور آج پھر وزیراعلی اپنے مزدور بھائیوں اور عوام کے ساتھ کھڑے ہیں ۔پنجاب حکومت صوبے کے عوام کو بدترین حالات میں تنہا نہیں چھوڑ سکتی چنانچہ وزیراعلی نے گوجرانوالہ ، فیصل آباد میں بدترین لوڈ شیڈنگ کاجائزہ لینے اور صنعت کاروں ،مزدوروں سے اظہار یکجہتی کے لیے خود دورے کئےـانہوں نے عوام سے پرزور اپیل کی کہ وہ احتجاج کے دوران پرامن رہیں اور قومی املاک کو کوئی نقصان نہ پہنچائیں۔وزیراعلی محمد شہبازشریف نے بیرون ملک سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کیلئے جتنے بھی اقدامات کئے ،بجلی اور گیس کی عدم فراہمی نے ان پر پانی پھیردیا ہے۔ اگر حقائق کا جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ پاور سیکٹر کا گردشی قرضہ اس وقت 800 ارب سے تجاوز کرچکاہے اور ابھی تک وفاقی حکومت نے اس کے حل کی طرف ایک بھی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا، گردشی قرضے کی بنیادی وجہ بجلی پیدا کرنے کے خرچ اور بجلی فروخت کرنے کی آمدن کے درمیان بڑا فرق ہے ـ اس فرق کی وجہ بجلی کی کم قیمت نہیں ، اس کی وجہ چوری، سسٹم کی خرابیاں اور غلط پالیسیاں ہیںـ بجلی کے اس نہ ختم ہونے والے بحران کو حل کرنے کے لئے سب سے زیادہ ضرورت نیک نیتی اور ارادے کی ہے ۔اگر وفاقی حکومت خود بجلی کے نئے منصوبے شروع نہیں کرسکتی تو کم ازکم صوبوں بالخصوص پنجاب حکومت کے منصوبوں کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے۔ہر معاملہ سیاسی بنانے کی بجائے ملک کو اس وقت سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے۔
[/COLOR]
[/SIZE]

source :http://www.dailyasas.com.pk


__________________________________________________ _______________


پاکستان میں توانائی کا شدید بحران


پاکستان بدترین معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے جبکہ عوام توانائی کے اذیت ناک بحران کا ڈائریکٹ نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ بے روزگاری، مہنگائی، دہشت گردی او ر عدم تحفظ کے شدید احساس نے پہلے ہی عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی مگر پٹرول، چینی، لوڈشیڈنگ ، اوور بلنگ اور بجلی کے نرخوں میں حالیہ اضافے نے تو ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا ہے۔ پاکستان کو کئی برسوں سے توانائی کے بحران کا سامنا ہے جو گزرتے وقت کے ساتھ شدید ہو رہا ہے۔ بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتیں دنیا بھر کی معیشتوں پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ بجلی اورگیس کی کمی ، پاکستان میں ایک بحران کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے ۔پاکستان منصوبہ بندی کمیشن نے اس امرکا بھی اعتراف کیا ہے کہ پاکستان میں حالیہ برسوں میں امن و امان کی خراب صورتحال، توانائی کے بحران اور معاہدوں پر ملدرآمد میں کوتاہیوں نے غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی کی ہے۔

غیر جانب دار مبصرین بھی معیشت کی سست رفتار کی بڑی وجہ توانائی کے بحران کو قرار دیتے ہیں جبکہ مقامی سرمایہ کار بھی بجلی اور قدرتی گیس کی فراہمی میں عدم استحکام کی وجہ سے پریشان ہیں۔ ان میں سرفہرست ٹیکسٹائل کی صنعت ہے جو سردیوں میں گیس کی فراہمی کے حکومتی منصوبے کے خلاف ان دنوں سراپا احتجاج ہے۔ کالا باغ ڈیم کے ساتھ ساتھ چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تاکہ آنے والے سالوں میں توانائی سمیت زرعی بحران سے بچا جاسکے۔ پاکستان میں بجلی کی کمی کی سطح 6000 میگا واٹ تک جا پہنچی ہے تو اس کی وجہ کے طور پر موسم سرما کی بنا پر قدرتی گیس کی بڑھنے والی مانگ کو بتایا گیا ہے۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ بعض علاقوں میں یومیہ 12 سے 18 گھنٹے تک جاری رہتی ہے جس نے روز مرہ کی زندگی کو بُری طرح متاثر کر رکھا ہے۔
حکومت کی طرف سے پاور اسٹیشنز کو ایندھن کی ترسیل کرنے والی فرموں کے قرضوں کی ادائیگی کی صورت میں ایندھن سے چلنے والے پاور اسٹیشنز اپنا کام شروع کر دیں گے۔ پاکستان نے سن 2006 میں بجلی کے بحران کا حل تلاش کرنے کے زیرِ مقصد چین، ایران، تاجکستان اور ترکمانستان سے بعض معاہدے طے کیے تھے۔
تاہم ماہرین کی متفقہ رائے ہے کہ 180 ملین آبادی کے حامل ملک کے لیے قلیل مدت میں توانائی کے بحران کو دور کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

اس وقت قوم کو بجلی کی اشد ضرورت ہےتاکہ ہمارا ملک لوڈشیڈنگ کے عذاب سے نجات حاصل کر سکے۔ ایک جانب بجلی کی کمی تو دوسری جانب گیس خصوصا سی این جی کا روز افزوں بحران انتہائی تشویشناک ہوگیا ہے۔ بجلی کی کمی پوری کرنے کے لئے ملک بھر میں ۱۸، ۱۸گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ جاری ہے تو سی این جی اسٹیشنز پر بھی رات بارہ بجے سے صبح چھ بجے تک گیس کی لوڈ شیڈنگ کرنے کا اعلان کیا گیاہے ۔بجلی فراہم کرنے والے ادارے پیپکو کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق فی الوقت ملک بھر میں بجلی کی مجموعی پیداوار10ہزار790 جبکہ طلب 13 ہزار490 میگا واٹ ہے۔ یوں بجلی کا مجموعی شارٹ فال 2700 میگا واٹ ہوگیا ہے۔ اس کمی پر قابو پانے کے لئے پورے ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ جاری ہے۔ شہروں میں لوڈشیڈنگ کا دورانیہ8 سے 10 گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں18 گھنٹے تک پہنچ گیا ہے۔ انرجی سیکٹر کا بحران ملکی سیکورٹی کو سنگین خطرہ ہے،خصوصی طور پر ایک اییسے وقت مین جبکہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ دہشت گردی کے بعد بجلی کا بحران دوسرا بڑا اور سنگین مسئلہ ہے ۔توانائی کے بحران نے پاکستان کو مزید عدم استحکام کے خطرے سے دوچار کردیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پاور سیکٹر کے بغیر معیشت کبھی نہیں چل سکتی۔ توانائی کا بحران پاکستان کے چند کلیدی مسائل میں اولین مسئلہ بن گیا ہے۔ بجلی کی پیداوار اور طلب میں فرق بڑھتا جارہا ہے۔ یہ فرق اس کے باوجود ہے کہ ملک میں صنعتی ڈھانچہ وسیع ہونے کے بجائے سکڑ رہا ہے۔ پاکستان سے اکثر صنعتیں بیرون ملک منتقل ہوگئی ہیں ، توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے حکومت جتنے بھی اقدامات کررہی ہے اس سے نئے سے نئے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ پیٹرول کے متبادل کے طور پر حکومت نے قدرتی گیس پر بجلی گھروں کو منتقل کیا جس کے نتیجے میں گیس کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ بھی سامنے آگیا ہے۔ اس کا ایک اور اثر یہ ہے کہ قدرتی گیس کا سب سے بڑا استعمال پاکستان میں کیمیائی کھاد باالخصوص یوریا کھاد میں ہی، پاکستان میں یوریا اور کیمیائی کھاد میں خود کفالت کی وجہ سے زرعی پیداوار میں نمو موجود ہے۔ حکومت نے کیمیائی کھاد تیار کر نے والے کارخانوں کے لیے قدرتی گیس کے نرخوں میں اضافے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے یوریا کی لاگت میں اضافہ ہوجائے گا۔ اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ اس کا اثر زراعت پر پڑی، ابھی تک پاکستان میں غذائی بحران زرعی پیداوار میں کمی کی وجہ سے نہیں ہوا ہے اور ملک ایک بڑے بحران سے بچا ہوا ہے۔ اس بات کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے کہ توانائی کا بحران زراعت پر بھی منفی اثرات مرتب نہ کری، توانائی کا بحران صنعت و تجارت کو تو تباہ کرچکا ہے۔ ہے۔بجلی کی طویل بندش نے معمولات زندگی درہم برہم کر کے رکھ دیئے ہیں۔ بجلی نہ ہونے سے پانی کی فراہمی کا نظام بھی بری طرح متاثر ہے۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔ مختلف شہروں مین ،بجلی کے بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والے عوامی پر تشدد مظاہرے و ہنگامے بڑے تشویشناک صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں۔بجلی کی عدم دستیابی پر گلیوں تک میں عوامی غصہ دیکھنے میں آیا ہےاور اس سے پھوٹنے والے فسادات سے کئی شہر مفلوج ہو گئے،پولیس اور عوام کے درمیان جھڑپیں دیکھنے میں آئی اور وسیع پیمانے پر سرکاری دفاتر و املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ بجلی کی فراہمی میں ناکامی نے ملک کو مزید عدم استحکام دیا ہے۔بجلی اور گیس میں کمی سے کئی ہفتوں سے کاروبار ٹھپ ہو گیا ہےاور توانائی کے بحران سے کئی کاروباری لوگ دیوالیہ ہوگئے ہین۔ بجلی کی کمی سے جی ڈی پی کو تین سے چار فی صد کمی کا سامنا ہے۔ اس وقت توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک کو سالانہ 230ملین روپے کا نقصان ہو رہا ہے، لہٰذا وقت کا تقاضا ہے کہ تمام سیاسی و گروہی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قومی پالیسی تشکیل دیں،کیونکہ توانا ئی کے بحران پر قابو نہ پانے کی صورت میں ملکی سلامتی کوبھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔صنعتیں بند ہونے سے بیروزگاری بڑھ رہی ہے اور اس کی وجہ سے ہمارے 4لاکھ افراد بے روزگار ہو گئے ہیں ہمیں اس مسئلہ کا جلد کوئی حل نکالنا ہو گا ورنہ حکومت اس بحران کے سیلاب میں بہ جائے گی اور ملک عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا اور دہشت گردی کے خلاف جنگ متاثر ہوگی۔ ہمیں اس قومی مسئلہ پر سیاستدانوں کو اپنی سیاست چمکانے کی اجازت نہ دینی چاہئیے۔ہمیں ہنگامی سطح پر اپنے دوست ممالک اور گلوبل سطح پر امداد کی درخواست کرنی چاہئے کیونکہ اس بحران سے نمٹنا اکیلے پاکستان کے بس کی بات نہ ہے۔ توانائی کے حالیہ بحران کا حل نکالنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ اس سلسلے میں شارٹ اور لانگ ٹرم پلاننگ کرکے فوری اقدامات کی ضرورت ہے اور صرف کھوکھلے نعروں سے یہ مسئلہ حل نہ ہو گا۔


Source :http://awazepakistan.wordpress.com

__________________________________________________ _______________


پاکستان کا توانائی کا بحران، سنجیدہ اقدامات کی ضرورت



خطہ جنوبی ایشیاء کا انتہائی اہم ملک پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بجلی، قدرتی گیس، پٹرولیم ، کوئلے اور لکڑی پر انحصار کرتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ قدرتی وسائل سے مالامال ہونے اور توانائی کی فراہمی کےبنیادی ڈھانچے کی موجودگی کے باوجود اس شعبے میں پاکستان کو درپیش مسائل کی وجہ گذشتہ چھ دہائیوں میں حکومتوں کی جانب سے مناسب منصوبہ بندی نہ کرناہے۔ اس وقت پاکستان کو درپیش ایک اہم مسئلہ بجلی کی طلب و رسد میں توازن نہ ہونا ہے۔ اریم زیم گوچین واشنگٹن میں توانائی کے مسائل پر کام کرنے والی ایک تنظیم سے وابستہ ہیں۔ ان کے مطابق پاکستان کو تقریبا چھ ہزار میگا واٹ کی کمی کا سامنا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انہیں پرائیویٹ سیکٹر کو اپنے ساتھ شامل کرنا ہوگا اور نجی اور عوامی پارٹنرشپ کی حوصلہ افزائی کرنی ہوگی ۔ ان کےخیال میں دوسرا حل پاکستان میں کم بجلی سے چلنے والے الیکٹرانک آلات کی فراہمی پر توجہ دینا ہے ۔

ایک تخمینے کے مطابق پاکستان میں پانی اور نیوکلیئر ذرائع سے بجلی کی پیداوار تقریبا ت13ا ہزار میگا واٹ جبکہ بجلی کی مجموعی طلب تقریبا19 ہزار میگا واٹ ہے ۔ پاکستان کی40فی صد آبادی کو بجلی میسر نہیں ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بجلی کی ضروریات اگلے 20 برسوں میں 350 فیصد بڑھ جائیں گی ۔ بجلی کی پیداوار بڑھانے اور پانی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے ماہرین کے مطابق پاکستان میں نئے ڈیمز کی تعمیر اور بجلی کی تقسیم کے نظام میں موجودہ خرابیاں دور کرنے کی ضرورت ہے ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ بجلی کی کمی کی وجہ سے پاکستان کا50 فیصد صنعتی شعبہ تباہ ہو چکا ہے اور بڑھتی ہوئی بے روزگاری دیگر مسائل کی وجہ بن رہی ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان اپنی توانائی کی ضروریات کا 79 فی صد تیل اور گیس سے پورا کرتا ہے۔ اور چونکہ پاکستان اپنی تیل کی ضروریات کا محض20 فیصد ہی مقامی طور پر حاصل کر پاتا ہے اس لیے پٹرولیم مصنوعات کے سلسلے میں پاکستان کا زیادہ دارومدار دوسرے ممالک پر ہے۔ جس سےپاکستانی معیشت پر شدید دباؤ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ عوام اور صنعتی شعبہ بھی اس سے براہ ِ راست متاثر ہو رہا ہے۔
پاکستان میں قدرتی گیس کے ذخائرکی موجودگی توانائی کے شعبے پر موجودہ دباؤ کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔لیکن بلوچستان میں گیس پائپ لائنوں کو دھماکوں سے اڑائے جانے والے متعدد واقعات نے قدرتی گیس کی فراہمی کے بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا ہے۔

واشنگٹن کے وڈرو ولسن سنٹر سے منسلک مائیکل کوگل مین کے نزدیک توانائی کے مسائل حل کرنے کے لیے پاکستانی حکومت کو قدرتی وسائل کے بہتر استعمال کو یقینی بنانا ہوگا۔ پاکستان میں کوئلے کے موجودہ اپنے ذخائرکے لحاظ سے دنیا میں چھٹے نمبر پر ہیں۔ پاکستانی حکومت 2018ءتک توانائی کے لیے کوئلے پر انحصار سات سے 18 فی صد تک بڑھانے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ لیکن ایرم زیم گوچین کا کہنا ہے کہ کوئلے سے توانائی حاصل کرنے کے منصوبوں پر کام کرنا پاکستان کے لیے ایک پیچیدہ معاملہ ہے ۔ پچھلے پانچ برسوں میں دو بڑی قدرتی آفات کے نتیجے میں بھی توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو زبردست نقصان پہنچا ہے جبکہ دہشت گردی اورملک کی مجموعی غیر یقینی صورتحال بھی توانائی کے شعبے میں کسی بیرونی سرمایہ کاری کی راہ میں حائل ہو رہی ہے۔ توانائی کے شعبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان کی بڑھتی آبادی کے ساتھ ساتھ توانائی کے مسائل میں اضافہ ہی ہوگا۔ جن پر قابو پانے کے لئے فوری اور طویل المدتی منصوبوں پر ترجیحی بنیادوں پر عمل درآمد کرنا ضروری ہے کیونکہ اب یہ پاکستان کے سیاسی استحکام کا معاملہ بھی بنتا جا رہا ہے ۔


پاکستان سمیت دنیا کے کئی ممالک توانائی کے بحران کا شکار ہیں جس کے باعث انہیں معیشت کے ساتھ ساتھ روزمرہ زندگی میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ ماہرین یہ جائزہ لینے میں مصروف ہیں کہ اس بحران کی نوعیت کیا ہے؟ کیا یہ عالمی رخ اختیار کرسکتا ہے ؟ اور اس صورت حال پر بھارت اور چین جیسے ممالک کی تیزی سے ترقی کرتی معیشتیں کیا اثر ڈال رہی ہیں؟ اس وقت دنیا کی مضبوط ترین معیشتیں بھی توانائی کے بحران سے مکمل طور پر محفوظ نہیں ہیں ۔

پیٹر سن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل اکنامکس نامی تھنک ٹینک سے منسلک سینئیر تجزیہ کار ولیم کلائین کہتے ہیں کہ کئی ممالک کو توانائی کی شدید قلت کا سامنا ہونے کے باوجود اس بحران کی نوعیت ابھی عالمی سطح کی نہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر تیل کی قیمت ڈیڑھ سو سے دو سو ڈالرز فی بیرل ہو جاتی ہے تو پھر عالمی بحران پیدا ہوسکتا ہے ۔ انفرادی سطح پر دنیا کے کئی ممالک کو توانائی کی قلت کا سامنا ہے ۔ جو کبھی بجلی ، کبھی تیل اور کبھی ایندھن کی کمی کی شکل میں عام لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کررہی ہے ۔ ماہرین کی اکثریت اس سے متفق ہے کہ توانائی کی کمی کے مسئلے کی بڑی وجہ دنیا کا تیل پر حد سے زیادہ انحصار ہے ۔
ابھرتی ہوئی معیشتں ، مثلاً چین ، بھارت اور برازیل جیسے ممالک ہیں جن کی تیز رفتار صنعتی ترقی کو کئی ماہرین توانائی کے بحران کے لیے مورد الزام ٹہرارہے ہیں ۔ ان معیشتوں میں ترقی کی رفتار دیگر صنعتی ممالک کے مقابلے میں سالانہ اندازً تین فیصد زیادہ ہے اس لیے توانائی اور دوسرے خام مال کا استعمال بھی یہاں ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ تاہم ولیم کلائین کی رائے میں توانائی کی قلت کے بڑھتے ہوئے مسئلے کے لیے صرف ابھرتی ہوئی معیشتوں کو ذمے دار ٹہرانا منصفانہ نہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ اس کی اصل وجہ توانائی کے وسائل میں اضافے اور متبادل ذرائع کی تلاش کے لیے مناسب منصوبہ بندی نہ کرناہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بحران توانائی کی کسی بھی قسم کا ہو اس سے پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کی عوام نسبتاً زیادہ متاثر ہوتی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہو ۔ ولیم کلائین کہتے ہیں کہ میری رائے میں اس کا حل بین الاقوامی سطح پر ہنگامی صورت حال کے لیے تیل کے ذخائر میں اضافہ کرنا، طویل مدت کے لیے تیل کی ایک بہتر اور مستحکم قیمت برقرار رکھنا اور کاربن سے پاک توانائی کی اقسام کے استعمال کی حوصلہ افزائی کرنا ہے ۔ عالمی حدت میں اضافہ توانائی کی قلت کے مسئلے کی شدت میں مزید اضافہ کر رہا ہے ۔ گزشتہ کچھ عرصے سے بھارت اور چین سمیت کچھ ممالک میں توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش اور ان کا استعمال بڑھانے کی کوششوں میں اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ ماہرین کوتوقع کہ یہ ممالک نہ صرف متبادل ذرائع سے اپنی توانائی کی بڑھتی ہوئی ضروریات پوری کرنے میں آگے بڑھ سکیں گے بلکہ آلودگی کے مسئلے پر قابو پانے میں بھی پیش رفت کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے
۔
__________________
To succeed,look at things not as they are,but as they can be.:)
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to Amna For This Useful Post:
DILRUBA G (Monday, April 30, 2012)