View Single Post
  #7  
Old Monday, April 30, 2012
DILRUBA G's Avatar
DILRUBA G DILRUBA G is offline
Junior Member
 
Join Date: Jul 2011
Posts: 16
Thanks: 35
Thanked 4 Times in 4 Posts
DILRUBA G is on a distinguished road
Default

پاکستان میں دہشت گردی

پاکستان اس وقت بدامنی اور دہشت گردی کی ایک لہر کی لپیٹ میں ہے جس پر پاکستان سے محبت رکھنے والا ہر دل پاکستان اور مسلمانوں کی سلامتی سے متعلق غمزدہ ،پریشان اور متفکر ہے ۔ پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی ایک ناسور بن چکی ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے اب خود پاکستان بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کا ناسور پنپ رہا ہے اور اب وہ اسے سمجھنے بھی لگا ہے اور اس کا علاج بھی تلاش کر رہا ہے۔ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور خودکش حملوں نے ایک مرتبہ پھر ملک کی سلامتی اور بقاءکو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے صف اول کا کردار ادا کرکے اپنی فوج اور عوام کے خون کی قربانیاں پیش کی ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے پاکستان سیاسی, معاشرتی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا ہے اور اس جنگ میں پاکستان نےچالیس ہزار قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے اور پاکستان کی معیشت کو ۷۰ ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا۔

دہشت گردی ایک ایسا فعل یا عمل ہےجس سے معاشرہ میں دہشت و بد امنی کا راج ہو اور لوگ خوف زدہ ہوں،وہ دہشت گردی کہلاتی ہے۔ دہشت گردی کو قرآن کریم کی زبان میں فساد فی الارض کہتے ہیں۔ دہشت گردی لوگ چھوٹے اور بڑےمقا صد کےلئے کرتے ہیں۔ اسے کوئی فرد واحد بھی انجام دے سکتا ہے اور کوئی گروہ اور تنظیم بھی۔

یہ حقیقت ا ظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں۔ جس طرح رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے، اسی طرح دہشت گردی اور اسلام کا ایک جگہ اور ایک ہونا، نا ممکنات میں سے ہے۔ لھذا جہاں دہشت گردی ہو گی وہاں اسلام نہیں ہو گا اور جہاں اسلام ہو گا وہاں دہشت گردی نہیں ہو گی۔اسلام امن کامذہب ہے،قتل وغارت گری سے منع کرتاہے، جوایمان والے کوجان بوجھ کرقتل کرتاہے اس کیلئے سنگین سزاہے۔

اسلام کے معنی ہیں سلامتی کے۔ چونکہ ہم مسلمان ہین اور امن اور سلامتی کی بات کرتے ہیں۔ ‘ ہمارا دین ہمیں امن اور سلامتی کا درس دیتا ہے‘ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا بھر کے لوگوں کو امن اور سلامتی نصیب ہو اور امن اور چین کی بنسری بجے۔ آ نحضرت صلعم دنیا میں رحمت العالمین بن کر آ ئے۔ اسلام اور دہشت گردی دو متضاد نظریات ہیں ۔اسلام احترام انسانیت کا درس دیتاہے جب کہ دہشت گردی بے گناہ انسانیت کے قتل اور خوف وہراس پیدا کرتی ہے۔

یہ امر شک اور شبہے سے بالا ہےکہ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور پاکستان دہشت گردوں کے نشانے پر ہے‘ جس کی وجہ سے پاکستان عرصہ سے دہشت گردوں کا شکار بنا ہوا ہے‘ پاکستان میں دہشت گردی کی وجہ سے بہت سارے مالی و جانی نقصانات ہوئے ہیں‘ اور ترقی کے میدان میں ہم بہت پیچہے رہ گئے ہیں۔ میرے خیال کے مطابق دہشت گردی کے عمل کو کسی بھی مذہب یا قوم کے ساتھ منسلک کرنا درست نہیں ہے۔

اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اور اس حد تک سلامتی کا داعی ہے کہ اپنے ماننے والے کو تو امن دیتا ہی ہے نہ ماننے والے کے لیے بھی ایسے حق حقوق رکھے ہیں کہ جن کے ساتھ اس کی جان ،مال اور عزت محفوظ رہتی ہے۔طالبان اور القائدہ دہشت گردوں کا ایک گروہ ہے جو اسلام کے نفاذ کے نام پر اور شریعتِ محمدی کے نام پر، لوگوں کی املاک جلا رہا ہے اورقتل و غارت کا ارتکاب کر رہا ہے۔میدان جنگ میں بھی ظلم وبربریت سے اسلام منع کرتا ہے اور وہاں بھی بوڑھوں ، بچوں اور خواتین کے قتل سے روکتاہے.

کسی بھی حکومت کی بنیادی ذمہ داری ملک میں امن و امان قائم رکھنا اور شہریوں کی جان و املاک کی حفاظت کرنا ہوتی ہے۔دہشت گرد، دہشت گردی کے ذریعے ملک میں امن و امان کی صورتحال پیدا کر کے اور شہریوں کے جان و مال کو نقصان پہنچا کر خوف و ہراس کی صورتحال پیدا کر دیتے ہیں تاکہ حکو مت کو دباو میں لا کرحکومت سےاپنے مطالبات منوا لیں۔

اسلام خود کشی کو حرام قرار دیتا ہے جو کہ دہشت گردی کی ایک شکل ہے۔ یہ گمراہ گروہ اسلام کے نام پر خود کش حملہ آور کی فوج تیار کر رہا ہے۔اسلام دوسروں کی جان و مال کی حفاظت کا حکم دیتا ہے یہ دوسروں کا مال لوٹنے اور بے گناہوں کی جان سے کھیلنے کو ثواب کا نام دیتے ہیں۔اسلام خواتین کا احترام سکھاتا ہے یہ دہشت گرد ،عورتوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی برا سمجھتے ہیں۔بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔

کسی بھی انسا ن کی نا حق جان لینا اسلام میں حرام ہے۔ دہشت گردی قابل مذمت ہے، اس میں دو آراء نہیں ہو سکتیں۔اسلام میں فتنے کو قتل سے بھی بڑا جرم قرار دیا گیا ہے۔کسی بے گناہ کی طرف آلہ قتل سے اشارہ تک کرنا منع کیا گیاہے .دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں یہ بھی مسلم ہے۔ اور نہ ہی کوئی مذہب اس کی اجازت دے سکتا ہے۔

اس وقت دنیا کو سب سے بڑا درپیش چیلنج دہشت گردی ہے اس پر سب متفق ہیں۔ دہشت گردی کا اسلام سے کوئی تعلق نہ ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔ اسلام میں دہشت گردی اور خودکش حملوں کی کوئی گنجائش نہیں اور طالبان اور القاعدہ دہشت گرد تنظیمیں ہولناک جرائم کے ذریعہ اسلام کے چہرے کو مسخ کررہی ہیں۔ برصغیرسمیت پُوری دنیا میں اسلام طاقت سے نہیں،بلکہ تبلیغ اور نیک سیرتی سے پھیلاجبکہ دہشت گرد طاقت کے ذریعے اسلام کا چہرہ مسخ کررہے ہیں۔

ایک مُسلم معاشرے اور مُلک میں ایک مُسلمان دوسرے مُسلمان کی جان کا دُشمن ۔مُسلمانیت تو درکنار انسا نیت بھی اسکی متحمل نہیں ہو سکتی کہ کسی بھی بے گناہ کا خون کیا جائے۔یہ سفاکانہ دہشت گردی کرنے والے عناصر انسانیت کے قاتل ہیں اور ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، معصوم جانوں سے کھیلنے والے انسانوں کے روپ میں بھیڑیئے ہیں اور ان کا وجود پاکستان کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے دہشت گردی کا تسلسل ملک کی سالمیت، قومی یکجہتی اورمعیشت کے لیے بڑا خطرہ ہے، اس پر قابو پانے کیلئے ٹھوس اور موثر لانگ ٹرم و شارٹ ٹرم حکمت عملی وضع کرنا ہو گی تاکہ اس ناسور کا ہمیشہ کے لئے خاتمہ ہو سکے،

چند برسوں سے وطن عزیز پاکستان مسلسل خود کش حملوں کی زد میں ہے۔ بے گناہ لوگوں کا قتل اور املاک کی بے دریغ تباہی ہو رہی ہے۔دہشت گردی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو ۷۰ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ اللہ کے فرامین کو پس پشت ڈال دیا جائے اور احکام قرانی کا اتباع نہ کیا جائےتو ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنا شروع کر دیں، یہ عذاب الہی کی ایک شکل ہے۔ اللہ تعالہ فرماتے ہیں:

’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘) المائدة، 5 : 32(

کہو، وہ (اللہ) اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے، یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے، یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔(سورۃ الانعام ۶۵)
وہ شخص جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اس پر اللہ کا غضب اور لعنت ہے اور الللہ نے اُسکے لیے سخت عذاب مہیا کر رکھا ہے۔(سورۃ النساء۔۹۳)

ولا تقتلوا النفس التی حرم اللہ الا بالحق “ ۔( اور جس نفس کو خداوند عالم نے حرام قرار دیا ہے اس کو بغیر حق قتل نہ کرو)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع میں فرمایا۔
تم (مسلمانوں) کے خون، اموال اور عزتیں ایکدوسرے پر حرام ہیں، اِس دن (عرفہ)، اس شہر (ذوالحجۃ) اور اس شہر(مکہ) کی حرمت کی مانند۔ کیا میں نے تم تک بات پہنچا دی؟ صحابہ نے کہا ”جی ہاں۔
”مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔”
مسلمان کو قتل کر دینا جہنم میں داخلے کا سبب ہے لیکن اس کا مصمم ارادہ بھی آگ میں داخل کر سکتا ہے۔
” جب دو مسلمان اپنی تلواریں لے کر ایک دوسرے سے لڑ پڑیں تو وہ دونوں جہنم میں جائیں گے۔” صحابہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! ایک تو قاتل ہے (اس لیے جہنم میں جائے گا) لیکن مقتول کا کیا قصور؟ فرمایا ” اس لیے کہ اس نے اپنے (مسلمان) ساتھی کے قتل کا ارادہ کیا تھا۔”

قرآن کریم میں مفسد فی الارض اور محارب جو کہ دوسروں کی جان اور مال کو خطرہ میں ڈالتے ہیں ،کے لئے بہت سخت احکام بیان ہوئےہیں۔

ماسواےکسی کو قتل کرنے کے بدلے میں قتل کرنا اور زمین پر فساد پھیلانے والے کو قتل کرنا ۔ ان دونوں صورتوں کے علاوہ کسی بے گناہ کا قتل کرنا جائز نہیں ہے۔

اسلام ہر سطح پر اور ہر موقع پر احترام انسانیت کا درس دیتا ہے ۔معمولی قسم کی دہشتگردی بھی خلاف اسلام ہے ۔جہاد کا معنی انسان کی نجی و اجتماعی اور ظاہری و باطنی بھلائی کے لیے بھرپور کوشش ہے۔ جہاد کا لفظ 35مرتبہ قرآن میں آیا ہے اور صرف 4مقامات پر جارح دشمن سے اپنے دفاع کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جبکہ بقیہ 31مقامات پر جہاد کہیں بھی قتال یا لڑائی کے معنی میں نہیں آیا۔

علمائے اسلام ایسے جہاد اور اسلام کو’’ فساد فی الارض ‘‘اور دہشت گردی قرار دیتے ہیں جس میں اپنے مخالف علماء ومشائخ کے گلے کاٹیں جائیں ،بے گناہ لوگوں حتی کہ عورتوں اور سکول کے بچوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیا جائے ،لڑکیوں کو گھروں سے اٹھا کر ان سے جبراً نکاح کیا جائے، جس میں اسلامی سٹیٹ کو تباہ اور بے گناہوں کو شہید کرنے کیلئے خود کش حملہ آوروں کو جنت کے ٹکٹ دیئے جائیں، جس میں جہاد فی سبیل اللہ کی بجائے جہاد فی سبیل غیر اللہ ہو، جس میں مساجد اور مزارات اولیاء پر بم دھماکے کر کے نمازیوں اور قرآن خوانی کرنے والوں کو بے دردی کیساتھ شہید کیاجائے۔

جو شخص زمین میں فتنہ و فساد برپا کرے، ڈکیتی و رہزنی اور قتل و غارت کا بازار گرم کرے اور اپنے ان مذموم افعال کے ذریعہ امن و امان کو ختم کر کے خوف و دہشت کی فضا پیدا کرے، تو اس قسم کی صورت حال کو قرآن مجید میں حرابہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ یہ انسانی معاشرے کے خلاف ایک سنگین جرم ہے لہٰذا اسلام میں اس کی سزا بھی سنگین ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
{إِنَّمَا جَزَاء الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللّهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُواْ أَوْ يُصَلَّبُواْ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلافٍ أَوْ يُنفَوْاْ مِنَ الأَرْضِ ذَلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِي الآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ } (33) سورة المائدة
”جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے لڑائی کریں اور ملک میں فساد کرنے کو دوڑتے پھریں، ان کی یہی سزا ہے کہ قتل کر دئیے جائیں یا سولی چڑھا دئیے جائیں یا ان کے ایک طرف کے ہاتھ اور ایک طرف کے پاﺅں کاٹ دئیے جائیں یا ملک سے نکال دئیے جائیں۔ یہ تو دنیا میں ان کی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لےے بڑا (بھاری) عذاب ہے۔“
قرآن مجید کی حرابہ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اور یہ دہشت گردی کی اصطلاح سے زیادہ وسیع ، جامع اور ہمہ گیر ہے، کیونکہ یہ خوف و دہشت، ظلم و ستم، قتل و غارت، ڈکیتی و رہزنی اور فتنہ و فساد کی تمام صورتوں پر محیط ہے، خواہ ان کا ارتکاب سیاسی، ذاتی، انفرادی، اجتماعی اور مادی کسی بھی قسم کے اغراض و مقاصد کی خاطر کیا گیا ہو، اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسلام فتنہ و فساد اور دہشت گردی کا کتنا شدید مخالف ہے۔

اسلام نے واضح کر دیا ہے کہ ظلم، سرکشی، دہشت گردی، اور جبر کے خاتمے کے لئے مسلح جدوجہد کی جا سکتی ہے لیکن یہ جدوجہد صرف اور صرف حکومت ہی کا حق ہے۔ اسلام افراد اور گروہوں کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ جہاد کے مقدس نام پر پرائیویٹ افواج تیار کریں اور اس کے بعد عوام الناس کو دہشت گردی کا نشانہ بنائیں۔ اس بات پر چودہ صدیوں کے مسلم اہل علم کا اتفاق اور اجماع ہے۔ اس حقیقت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے ان الفاظ میں واضح فرمایا ہے۔

أخبرنا عمران بن بكار قال حدثنا علي بن عياش قال حدثنا شعيب قال حدثني أبو الزناد مما حدثه عبد الرحمن الأعرج مما ذكر أنه سمع أبا هريرة يحدث عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : إنما الإمام جنة يقاتل من ورائه ويتقي به فإن أمر بتقوى الله وعدل فإن له بذلك أجرا وإن أمر بغيره فإن عليه وزرا۔ (نسائی، ابو داؤد ، کتاب الامارۃ)

افراد اور گروہوں کو جہاد کی اجازت نہ دینے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اگر انہیں ایسا کرنے کی اجازت دے دی جائے تو اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکل سکتا کہ مختلف گروہ جنگ میں حصہ لیں گے اور جب ان کا مشترک دشمن ختم ہوگا تو اس کے بعد یہ گروہ آپس میں ٹکرا جائیں۔ پرائیویٹ آرمیز کی موجودگی میں کبھی کسی معاشرے میں امن قائم نہیں کیا جا سکتا.

کسی پاکستانی اور مسلمان کو شک نہیں ہونا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں اور بے گناہ لوگوں پر خود کش حملے کرنے والے گمراہ لوگ ہیں جن کا دین اسلام کے ساتھ کوئی تعلق اور واسطہ نہیں ہے۔ ان کی یہ حرکت دشمنان اسلام اور دشمنان پاکستان کے لیے خوشیاں لے کر آئی ہے۔ پاکستان اور اسلام کے دشمن چاہتے ہیں کہ یہاں کا امن تباہ کر دیا جائے اور بدامنی کی آگ بڑھکا کر ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے۔ یہ لوگ پوری انسانیت کے قاتل ہیں اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کر دیا اور جس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔(المائدۃ۔۳۲)

طالبان پاکستان مین اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں مگر اس مقصد کے حصول کے لئے وہ تمام کام برملا کر رہے ہیں جو قران و حدیث ،سنت نبوی اور اسلامی شرعیہ کے خلاف ہیں، لہذا ان کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا دعوی انتہائی مشکوک اور ناقابل اعتبار ہے۔

ہمارے دشمن کو ہماری ہی صفوں سے حمایت اور تقویت مل رہی ہے‘ جس کا وہ خوب فائدہ اٹھا رہا ہے۔ مذہبی جماعتوں ،سیاست اور میڈیا میں جو لوگ دانستہ یا نادانستہ دہشت گردوں کی حمایت کے مرتکب ہو رہے ہیں‘ انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ ان کی طاقت میں اضافہ ہوتا رہا‘ تو وہ خود بھی محفوظ نہیں رہیں گے۔ ہماری سلامتی ‘ ہماری مسلح افواج کے ساتھ ہے۔ ہماری بقا کا انحصار ایک دوسرے پر ہے۔ ہماری صفوں میں انتشار دہشت گردوں کے حوصلے اور طاقت میں اضافہ کرتا ہے۔

افغان طالبان نے القاعدہ کے بانی اسامہ بن لادن کے قتل کے انتقام کے لئے اب تک نہ کوئی دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی اس کا کوئی عملی مظاہرہ ہوا ہے۔ بن لادن افغان طالبان کا مہمان اور ساتھی تھا جس کی خاطر افغان طالبان نے بہت سی قربانیاں دیں لیکن اس کے برعکس پاکستان کے طالبان نجانے کیوں معصوم شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار کر اسامہ بن لادن کے قتل کا بدلہ لے رہے ہیں۔ یہ جہاد بالکل نہ ہے کیونکہ جہاد تو اللہ کی راہ مین کی جاتی ہے ،بدلہ لینا اسلامی شریعہ کے مطابق جہاد نہ ہے۔

جہاد وقتال فتنہ ختم کرنے کیلئے ہے ناکہ مسلمانوں میں فتنہ پیدا کرنے کیلئے۔طالبان قرآن کی زبان میں مسلسل فساد فی الارض کے مرتکب ہو رہے ہین۔معصوم شہری ، بے گناہ اور جنگ میں ملوث نہ ہونے والے تمام افراد ، نیز عورتیں اور بچوں کے خلاف حملہ “دہشت گردی ہے جہاد نہیں”۔۔۔۔۔ایسا کرنے والاجہنمی ہے اور ان کے اس عمل کو جہاد کا نام نہیں*دیا جاسکتا ۔ طالبان ملا عمر کے Code of Conduct کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

طالبان نے ملا عمر کی بیعت کی ہوئی ہے،ملا عمر پاکستان پر حملوں کو برا سمجھتے ہین مگر پاکستانی طالبان ملا عمر کی بیعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان مین معصوم اور بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔

رسول کریم نے فرمایا کہ جنگ کی حالت میں بھی غیر فوجی عناصر کو قتل نہ کیا جاوے۔ ویسے طالبان کا جہاد ،پاکستان کے اور مسلمانوں کے خلاف مشکوک اور غیر شرعی ہے۔ مزید بران یہ کیسا جہاد ہے کہ خون مسلم ارزان ہو گیا ہے۔

اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان، دہشتستان بن گیا ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ ہماری جنگ ہے کسی اور کی نہیں؟۔ دہشت گردوں نے ہمارے ملک کو جہنم بنا دیا۔ ۳۵ ہزار سے زیادہ لوگ مرگئے ۔ سرمایہ اور ذہانتیں ہمارے ملک سے ہجرت کر گئیں۔ کاروبار اجڑ گئے۔ بازاروں اور شہروں کی رونقیں ہم سے جدا ہوگئیں۔ عام پاکستانی کا دن کا چین اور رات کا سکون غارت ہوا اور ہم سب حیرت و یاس کی تصویر بن کر رہ گئے ہین۔ بیرونی سرمایہ کاری صفر سے نیچے چلی گئی، ملازمتین ختم ہوئیں ،بیروزگاری میں اضافہ ہوا، دنیا میں ہم اور ہمارا ملک رسوا ہوگئے ۔نفرتوں اور تعصبات نے ہمارے معاشرے تار و پود کو تباہ کرکے رکھ دیا اور ہمارا معاشرتی ڈھانچہ تباہ ہوکر رہ گیا۔ ہماری مسجد، پگڑی اور داڑھی کا تقدس پامال ہوگیا اور تو اور داڑھی اور پگڑی والے بھی محفوظ نہ ہیں ۔
لہذا تمام اہل دانش اور علمائے کرام کی یہ اولین ذمے داری ہے کہ وہ لوگوں کو اسلام اور جہاد کے صحیح اسلامی عقیدے سے آگاہ کریں اور انہیں طالبان اور القائدہ کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچائیں جو نہ کسی حرمت کا لحاظ کر رہے ہیں نہ قرآن و حدیث کے واضح فرامین کا پاس رکھتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی ان نصوص پر غور کر کے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ دُشمنوں کے ہاتھوں کھلونا بننے والوں کو بھی، اور جوش انتقام میں اندھا ہو جانے والوں کو بھی۔

مبصرین کے مطابق مولوی فقیر نائب امیر ٹی ٹی پی کی برطرفی کے بعد طالبان اب پہلے سے کہیں زیادہ کمزور ہوگئے ہیں اور اس کے کماندار بکھرے ہوئے ہیں اور ان کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے اور ٹی ٹی پی کا سٹرکچر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ٹی ٹی پی کمزور تو ہو گئی ہے مگر کلی طور پر ختم نہ ہوئی ہے اور اب بھی پاکستانی شہریوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کئی دھڑوں میں تقسیم ہو کر 130سے زائد گروپوں میں بٹ گئی ہے، پاک فوج نے آپریشن اور امریکی ڈرونز حملوں نے اس کو کو کمزور کر کے رکھ دیا ہے ، پاکستان حکومت کے ساتھ ان کی کمزوری کے بعدامن مذاکرات کے بیانات آرہے ہیں ،مالی لحاظ سے عسکریت پسند انتہائی مشکلات کا شکار ہوگئے ہیں

فاٹا میں ایک سینئر محقق منصور محسود نے کہا ہے کہ “آج تحریک طالبان کا ڈھانچہ تقسیم اور کمزور ہوچکا ہے او ر انکے پاس رقم ختم ہوچکی ہے۔ یہ صورت حال پاک فوج اور حکومت کے لئے وسیع پیمانے پر معاون ثابت ہوئی ۔ یہ گروپ 2009میں اپنے رہنما بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد زوال کا شکار ہے۔ ان کی تقسیم میں پاک فوج کے آپریشن اور امریکی ڈرونز حملو ں نے اہم کردار ادا کیا ہے ۔ دوسری بڑی وجہ عسکریت پسندوں کو تقسیم اور قابو کرنے کی پاک فوج کی حکمت عملی تھی ، کمانڈرو ں نے تحریک طالبان سے علیحدگی اختیار کرکے اپنے گروپ بنا لیے ہیں جس سے ان کی تنظیم کمزور ہو چکی ہے۔ حکومت کے ساتھ امن مذاکرات جیسے بیانات اسی پس منظر کی وجہ سے سامنے آرہے ہیں۔
تحریک طالبان کے گروپوں میں تقسیم ہونے سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر دباؤ میں ممکنہ کمی واقع ہو گی اور یہ تنظیم اب اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی اور یہ مزید ٹکروں میں تقسیم ہوجائے گی اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں مستقبل میں کمی واقع ہو گی ۔

مگر ہمیں روم کے نیرو کی طرح، بنسری بجاتے ہوئے اپنے ملک کو جلتا اور تباہ ہوتا نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ آ گے بڑہ کر مردانہ وار اسلام اور ملک کے دشمنوں کا مقابلہ کرنا چاہیے۔

از اقبال جہانگیر
Reply With Quote
The Following User Says Thank You to DILRUBA G For This Useful Post:
syeda naqvi (Monday, May 07, 2012)