2012
واحسرتا !کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصٍ لذتٍ آزار دیکھ کر
ان آبلوں سے پاؤں کے ' گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے ' راہ کو پرخار دیکھ کر
شاعر :غا لب
واحسرتا : افسوس
ہاتھ کھینچنا : دستبردار ہونا
ستم: ظلم
حریص لذت آزار: ظلم سہنے کا خواہش مند
__________________________
واحسرتا !کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصٍ لذتٍ آزار دیکھ کر
غالب کی شاعری کی ساری آب و تاب محبوب کے دم قدم سے ہے ۔ کہیں اس پہ میٹھا میٹھا طنز کرتے نظر آتے ہیں تو کہیں محبوب کے جوروجفا کا گلہ کرتے دکھائ دیتے ہیں ۔
اس شعر میں شاعر کا غم محض محبوب کی بے التفاتی نہیں بلکہ وہ اس کے ظلم کی انتہا کا رونا رو رہا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ محبوب کے ستم میرے لیے نئ بات نہیں ۔ اس کے اتنے ستم سہتے سہتے میں ان کا عادی ہو گیا ۔بلکہ اگر یہ کہا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا کہ شاعر اس مقام پہ پہنچ گیا ہے کہ ؛
اثر اب کچھ نہیں ہوتا ،جفا کر لو ،وفا کر لو
پہلے مصرعے میں شاعر افسوس کا اظہار کر رہا ہے کہ میرے محبوب نے اب تو ظلم و ستم کرنا بھی چھوڑ دیا ہے ۔ شاعر اس نقطے کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہے کہ نفرت اور ستم بھی ایک تعلق کو ظاہر کرتے ہیں اور جب یہ بھی نہ رہیں تو گویا محبوب سے مکمل ناتا ٹوٹ گیا ۔اس کی خاموشی ،اس کی بے نیازی اور اس کا نظر انداز کرنا چاہنے والے کے لیے کسی قیامت سے کم نہیں ۔ گویا وہ یہ کہنا چاہتا ہے ،
قطع کیجیے نہ تعلق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی
شاعر کو اسی بات کا دکھ ہے کہ میرے محبوب نے مجھ سے وہ لذت بھی چھین لی جو اس کے ستم سے اسے نصیب ہوتی تھی ۔ اس کی سنگدلی سے بھی ایک لگاؤ کا احساس ہوتا تھا ۔ایک اور جگہ غالب کہتے ہیں ،
ہم کو ستم عزیز ،ستمگر کو ہم عزیز
نامہرباں نہیں ہے ، اگر مہرباں نہیں
اب محبوب نے شاعرکو اس سرور سے بھی محروم کر دیا ہے جو اس کے ظلم کو سہہ سہہ کر شاعر کو حاصل ہونے لگا تھا۔
جاری ہے ۔ ۔ ۔
__________________
Love is my Shield,Truth is my Sword,Brain is my Crown,Smile is my Treasure and I'm a Queen;
Quitters never win and Winners never quit..!!!