ان آبلوں سے پاؤں کے ' گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے ' راہ کو پرخار دیکھ کر
اس شعر سے شاعر کی اذیت پسندی جھلک رہی ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ عشق کی راہ بڑی پرخطر ہے ۔ ان راستوں پر چل چل کر ،صعوبتیں برداشت کر کر کے اس کے پاؤں پر چھالے پڑ گۓ تھے۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کر جانا ہے
لیکن شاعر اک حیرت کا عالم طاری کر دیتا ہے جب وہ کہتا ہے کہ اسے آبلے دیکھ کر تکلیف نہیں ہوئ ،کوئ غم کا احساس نہیں ہوا بلکہ اس پر گھبراہٹ طاری ہو گئ ۔
میں ہوں مشتاقٍ جفا ، مجھ پہ جفا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش ، اس سے سوا اور سہی
اپنی گھبراہٹ کی مزید وہ یوں وضاحت کرتا ہے کہ اسے محسوس ہوا شائد عشق کی سختیوں کی انتہا بس یہیں تک ہے ۔ لیکن جونہی اس نے پر پیچ رستے پر نگاہ کی تو اس کے دل کو اطمینان ہوا۔ شاعر کا یہ اطمینان اپنے آپ میں اک اچنبھے کی بات ہے کیونکہ وہ اس مقام پر پہنچ
چکا ہے کہ اسے اذیت لطف دیتی ہے ۔مصائب اور تکالیف اسے سرور بخشتے ہیں ۔
رنج سے خوگر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
غالب کی اذیت پسندی محض محبوب کو یہ احساس دلانے کے لیئے ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے نہیں جو عشق کی مشکلات دیکھ کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں ۔اس کا مقصد اپنی مستقل مزاجی اور اپنے جذبات و احساسات کی سچائ کو ثابت کرنا ہے ۔