View Single Post
  #1  
Old Thursday, June 07, 2012
siddiqui88's Avatar
siddiqui88 siddiqui88 is offline
43rd CTP (OMG)
CSP Medal: Awarded to those Members of the forum who are serving CSP Officers - Issue reason: CE 2014 - Merit 163
 
Join Date: Aug 2010
Posts: 286
Thanks: 304
Thanked 414 Times in 182 Posts
siddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nicesiddiqui88 is just really nice
Default Faiz Ahmed Faiz: Fikr o Fun

فیض کی غزل کی خصوصیات
کلامِ فیض کی نمایاں خصوصیات درج ذیل ہیں
:
مقصدیت
فیض کی مقصدیت ان کی غزل کے اشعار سے پوری طرح محسوس ہوتی ہے۔ مثلاً
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک
اک غرض تمنا ہے جو ہم کرتے رہیں گے
کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں، سر بھی بہت
چلتے بھی چلو، کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے
یہ حسین کھیت، پھٹا پڑتا ہے جوبن جن کا
کس لئے ان میں فقط بھوک اگا کرتی ہے؟

اشتراکیت نوازی
وہ اشاروں کنایوں میں اپنا اشترا کی فلسفہ بیان کرنے کی مہارت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر
اے خاک نشینو، اٹھ بیٹھو، وہ وقت قریب آپہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے، جب تاج اچھالے جائیں گے
جابجا نور نے اک جال سا بن رکھا ہے
دور سے صبح کی دھڑکن کی صدا آتی ہے

حسنِ اظہار
ان کی زبان عام فہم اور سادہ ہونے کے باوجود پختہ اور غزل گوئی میں رچی بسی معلوم ہوتی ہے۔ عکسِ کلام درج ذیل ہے
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جارہا ہے کوئی، شبِ غم گزار کے

رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئی
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آئی

سوزو گداز
وہ عام سوزو گداز، جو غزل کے ساتھ مخصوص ہے، انہوں نے پوری طرح برقرار رکھا ہے۔ نمونہ کلام درج ذیل ہیں
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے، اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی، منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے مصفی چاہیں
ہاں جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی
ہاں، ہم ہی کاربند اصول وفا نہ تھے

نئی تراکیب وعلامتیں

فیض کی ایک اور خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے غزل کے قدیم مضامین اور اشعاروں اور علامتوں سے نئے معانی اور نئے مضمون پیدا کئے ہیں۔ مثلاً آزادی کا جو تصور ان کے ذہن مین تھا اور جو خوان انہوں نے دیکھے تھے وہ پورے نہیں ہوئے تو انہوں نے اس آزادی کی صبح کو شب گذیدہ سحر اور داغ داغ اجالے سے تعبیر کیا ہے۔ اسی طرح ان کے یہاں دستِ صبا، سلگتی ہوئی شام اورخوابیدہ چراغ وغیرہ جیسی تراکیب ملتی ہیں۔ نمونہ کلام پیش ہے


یہ داغ داغ اجالے یہ شب گذیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس یہ وہ سحر تو نہیں
یہی تاریکی تو ہے غازئہ سحر
صبح ہونے ہی کو ہے اے دلِ بیتاب ٹھہر
آنکھوں سے لگایا ہے کبھی دستِ صبا کو
ڈالی ہیں کبھی گردنِ مہتاب میں باہیں

محاکات
فیض کی شاعری کی ایک اور خصوصیت محاکات ہے۔ محبوب کے سراپا کے ساتھ ساتھ انہوں نے فطرت کی منظر کشی کی ہے۔ مثال کے طور پر


سیاہ زلفوں مین وارفتہ نکہتوں کا ہجوم
طویل راتوں میں خوابیدہ راحتوں کا ہجوم
گداز جسم قبا جس پہ سج کے ناز کرے
عکسِ جاناں کو وداع کرکے اٹھی میری نظر
چاند کی ہاتھ سے تاروں کے کنول گر گر کر
ڈوبتے تیرتے کہ مرجھاتے رہے کھلتے رہے

رقیب کا تصور
اردو شاعری میں رقیب کا کردار ہمیشہ سے باعثِ ملامت رہا ہے۔ اور شاعر نے اس کو اپنا دشمن گردانا ہے۔ اوراس کے وجود کو حقارت کی نظر سے دیکھا ہے۔ لیکن فیض نے اردو شاعری میں ایک نئی روایت کی بنیاد رکھی ہے اور رقیب کو بھی معاملاتِ محبت میں اپنا دوست اور غم گسار بناکر گلے لگایا ہے۔ اور اس سے راز و نیاز کئے ہیں۔ عکسِ کلام درج ذیل ہیں
تو نے دیکھی ہے وہ پیشانی وہ رخسار وہ لب
زندگی جن کے تصور میں لٹادی ہم نے
تجھ پہ اٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آنکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوادی ہم نے
ہم نے اس عشق میں کیا کھویا کیا پایا ہے
جز تیرے اور کو سمجھاوں تو سمجھا نہ سکوں

Source:www.guesspapers.net
Reply With Quote